Description
الشفاء، آتشک کیپسول۔
.Al Shifa, Atshak Capsules
فوائد : آتشک، جذام، کوڑھ کی ہر حالت میں مفید دواء۔
مقدارخوراک : ایک کیپسول صبح، ایک کیپسول رات، کھانے کے ایک گھنٹہ بعد پانی یا دودھ کیساتھ استعمال کریں،
دوا برائے ایک ماہ۔
ہوم ڈلیوری آل پاکستان۔
حکیم محمد عرفان، فاضل طب والجراحت، رجسٹرڈ۔
مشورہ کیلئے رابطہ کر سکتے ہیں۔
Helpline & Whatsapp Number
03040506070
مزید معلومات :
Syphilis – آتشک
تحریر حکیم محمد عرفان، فاضل طب والجراحت۔
آتشک، کس کو کہتے ہیں آتشک کے لفظی معنی آگ کے ہیں۔
جس طرح آگ دوسری چیزوں کا جلا کرراکھ کردیتی ہے اسی طرح یہ مرض بھی تمام جسمانی قو توں کوبیکاراورتباہ کردیتا ہے یہ مرض جنسی بے راہ روی،فاحشہ بازاری عورتوں اورطوائفوں کے ساتھ مباشرت کرنے سے پیدا ہوتا ہے۔
مرض سے متا ثرہ عورت سے مبا شرت کر نے کے دوران عورت سے جراثیم مرد کے عضوخاص کے سوراخ سے یا جسم کے دیگر حصوں میں متقل ہوجاتا ہیں پھر یہی بے خبر اپنی بیوی سے جماع کرتا ہے تو وہ بے چاری بھی اس مرض میں مبتلا ہوجاتی ہے اور آنے والی نسل کومتاثر کردیتی ہے نوجوانوں کی بے راہ روی جسے آج کل بڑے فخر سے یہی ازم کا نام دیا جارہا ہے نسل انسانی کے خاتمے اور تباہی کاپیش خیمہ بن رہی ہے۔
عورت اورمرد کے آزادنہ تعلقات کےحامی اورآزادی کے نام پرا نسانیت کی رسوائی اوربربادی کا سامان خندہ پیشانی سے فراہم کررہے ہیں۔
امریکہ اور دیگر مغر بی ممالک میں ایسے متعدد رسائل اورجرائد با قاعدگی سے شائع ہورہے ہیں جن میں ہر دوجنس کو بلا خوف و خطر جنسی بے راہ روی کی تلقین کی جاتی ہے، اورآئندہ خطرات سے بے فکر رہنے کا مشورہ دیاجاتا ہے، حیا سوزمنظرکےذریعے قبائے انسانیت تا رتارکرنے پراکسایا جاتا ہے اب تو نظریاتی ممالک بھی ان بے ہودہ لٹریچرکی زد میں آچکے ہیں۔جدیدیت کے عاشق گھرانوں کے چشم و چراغ بھی اسی اندازمیں اپنے شب و روزگذاررہے ہیں۔
اس مسموم طرزندگی کے زہرنےاپنے اثرات دکھائے ہیں بے راہ روی کا خمیازہ پوری قوم کو بھگتنا پڑا ہے اس مرض خبیث کے جراثیم ملک کے نوجوانوں کو دیمک کی طرح چاٹ رہے ہیں، لیکن یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ یہ مرض صدیوں تک جنسی تعلقات کے ذریعے سے نسل میں منتقل ہوتا رہاہے انسانی طبقہ کے ہر افراد اس مرض کی لپیٹ میں آتے رہے ہیں ان میں شہنشاہ، باد شاہ شرفاء، شعرا، مصور اور علماء نیزنچلے طبقے کےافراد بھی شامل ہیں۔
قدیم ترین تہذیبوں مثلاًچین، بابل، نیوا ، مصر، یونان اور روم دیگر تہذیبوں کے آثار کا مطالعہ اس بات کا شاہد ہے کہ اس مرض اس دور میں بھی انسانی کا بڑی بے دردی سے تباہ کر دیاتھا ان تہذیبوں کے کھنڈرات سے برآمد ہونے والے برتنوں، تصاویر اورمجسموں وغیرہ پر ایسی تحریری ملی ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ بعض حسین و خوبصورت عورتوں کی قربت کے بعد لوگوں کو زہریلے زخم ہوجایا کرتے تھے۔
ناجائز تعلقات سے گریز کرنا چاہئے ورنہ تمھیں بطور سزا وہ زخم ملیں گے جو تمھارے گوشت پوست کو چٹ کر جائیں گے جو شخص پرائی عورت کے ساتھ مجا معت کرے گا نہ وہ صرف بلکہ اس کے آنے والی ساتھ پشتیں دوزخ میں جائیں گی اور دوزخ کی آگ میں جلیں گیں۔
اسباب :
یہ مرض کم و بیش روئے زمین کے تمام ممالک میں پایا جاتا ہے مباشرت ایک خاص سبب ہے خاص طورسے بازاری فاحشہ عورتوں اورطوائفوں سے مباشرت کرنا وغیرہ آج کل اس مرض کی وبا پھیلانے میں اسیّ فیصد ان نوجوانوں لڑکے لڑکیوں اور مرد خواتین کا ہے، جوآزادانہ جنسی تعلقات کے حامی ہیں اس کے علاوہ ہم جنسی کے عادی افراد کا حصہ پندرہ فی صد ہے
جراثیم کا جسم میں داخل ہونے کے لئے مرد کے عضو تنا سل میں خراش یار گڑ کا ہونا ضروری ہے، چاہے یہ خراش یارگڑ کتنی ہی ہلکی کیوں نہ ہو پھر یہ اسی جسم میں نہایت آزادی کے ساتھ داخل ہوکرعروق شعریہ کی چھوٹی چھوٹی نہروں میں پہنچ کر بتدریج خون کی رگوں کی بڑی بڑی نہروں میں پہنچ جاتے ہیں اور وہاں تیرتے پھرتے ہیں اور اپنی سمیت آلود زندگی سے تمام خون کی زہرآلود کر دیتے ہیں
بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ ایک شخص کسی مریضہ، آتشک سے جماع کرتا ہے لیکن اس شخص میں کسی قسم کی خراش نہ ہونے یااس مرض کی استعداد نہ ہونے کی وجہ سے وہ شخص محفوظ رہتا ہے لیکن جب وہ اپنی بیوی یا کسی تندرست یا صحیح عورت سے مباشرت کرتا ہے تو آتشک عورت میں منتقل ہوجاتا ہے اور وہ آتشک میں مبتلا ہو جاتی ہے بعض اوقات اس کے برخلاف مریض آتشک صحیح وتندرست عورت جماع کرتا ہے لیکن عورت میں اس مرض کی کوئی نمود نہیں ہوتی پھر جب کوئی تندرست مرد اس عورت ست جماع کرتا ہے تو وہ اس مرض میں مبتلا ہوجاتا ہے۔
مباشرت کے علاوہ مریض آتشک سے میل جول رکھنے اس کے کپڑے پہنے اس کے ساتھ سونے کھانا کھانے یااس کا جھوٹا پانی پینے یااس کا بوسہ لینے یااس کی تولیہ سے ہاتھ وغیرہ پونچھنے سے بھی یہ مرض ہوجاتا ہے، اس صورت میں بھی جسم کے کسی مقام پر یا منہ کے اندر ہلکی سی خراش موجود ہوتی ہے جس سے آتشک کی سمیت جسم میں داخل ہوجاتی ہے ۔اس کے علاوہ حجام بھی اس مرض کو تندرست آدمی میں منتقل کرنے کا سبب بن جاتے ہیں۔
دایا بھی اس مرض کو پھیلانے کا سبب بنتی ہیں کیوں کہ مریضہ آتشک کی زچگی کے وقت آتشک کی سمیت دایا کے ہاتھوںمیں لگ جاتی ہے پھر وہ دوسری تندرست عورت کی زچگی کرتی ہے تو یہی سمیت اس کے جسم میں داخل ہوکر آتشک کا سبب بنتی ہے، جو بچے مورو ثی طورپر اس مرض میں مبتلا ہوتے ہیں وہ والد یا والدہ میں سے کسی ایک کے مبتلا ہونے سے مریض ہوجاتے ہیں اورگاہے دونوں کے مبتلا ہونے کی وجہ سے یا اگر حاملہ اس مرض میں مبتلا ہے تو جنین میں بھی یہ مرض ہوجاتاہے
کیوں کہ جنین کی غذا میں جوخون صرف ہوتا ہے وہ مریضہ کا زہریلا خون ہوتا لہذا اس کا مبتلا ہونا یقینی امر ہے چنانچہ جب یہ مرض ماں کی طرف سے ہوتا ہے تو نہایت شدید ہوتا ہے یہ بات بھی مشاہدہ میں آئی ہے کہ بچہ تومور وثی آتشک میں مبتلا ہے، اور اس کی ماں بظاہراس میں مبتلا نہیں ہے لیکن درحقیقت اس کا ماں کا خون آتشک کی سمیت سے آلودہ ہے ۔ جب یہ مرض ایک قوم سے دوسری قوم یا ایک افراد سے دوسرے فرد میں منتقل ہوتا ہے تو اس کی علامات بہت شدید ہوتی ہے اس مرض سے جب مریض بالکل شفایاب ہوجاتا ہے تو پھر کم ہی دوبارہ اس میں مبتلا ہوتا ہے اگر ہو بھی جا ئے تو مرض بہت کمزور اور اس کی علامات زیادہ تکلیف دہ نہیں ہوتیں۔
اس مرض کی دوقسمیں ہیں۔
نمبر1: خود حاصل کردہ آتشک
اس قسم میں براہ راست ناپاک مباشرت کے بعد اس کا مواد کسی خراش کے ذریعے بدن میں داخل ہوکر دوران خون میں شامل ہوجاتا ہے اس قسم کے چار درجات ہوتے ہیں، اسے پرائمری سلفس بھی کہتے ہیں اس درجہ میں بیمار شخص سے ملوث ہونے کے فوری بعد رونما نہیں ہوتا اس کی پہلی اور واضح علامت باالعموم ایک ابھاریا پھنسی ہوتی ہے یہ تین طرح کی ہوتی ہے، ہن ٹرین، پارچی منٹ، جو جراثیم کے جسم میں داخل ہونے کے دس سے نوے دن بعد ظاہر ہوتی ہے اس پھنسی یا ابھار کی جڑ سخت ہوتی ہے، یہ رفتہ رفتہ بڑھ کر پھٹ جاتی ہے اور وہاں ایک زخم بن جاتا ہے
جو صرف تعداد میں ایک ہی ہوتا ہے اس کے آس پاس کی جلد کس قدر اونچی ہوتی ہے زخم کو دبا یا جائے تو یوں محسوس ہوتا ہے گویا کوئی سخت کری جلد کے اندر پیدا ہو گئی ہے اس زخم میں درد بالکل نہیں ہوتا اور مواد بھی بہت کم نکلتا ہے، اس زخم کو ڈاکٹری اصطلاح میں (شینکر) کہتے ہیں بعض اوقات ایسابھی ہوتا ہے کہ صرف عضو تنا سل کے کسی حصے کی جلد موٹی اور اور سرخ ہوجاتی ہے جس پر کہ آتشک کا گمان بھی نہیں ہوتا اس درجےکےظاہر ہونے سے چھ ماہ بعد مرض کا دوسرا درجہ شروع ہوجاتا ہے۔
نمبر2 : اسے سکینڈری سلفس بھی کہتے ہیں اس درجہ میں مریض بے چین پست ہمت او رکمزور ہوجاتا ہے جسم پر گلابی رنگ کے دانے نکل آتے ہیںساتھ ہی جسم کے تمام غدو د بڑھ جاتے ہیں گوشت اور ہڈیوں میں درد ہونے لگتا ہے، جورات میں شدید ہوجاتا ہے کبھی ہلکا اور کبھی شدید بخار بھی ہوتا ہے گلابی رنگ کے دانے جسم کے تمام حصوں پرنکل جاتے ہیں پھر دو ماہ کے ہوتے ہوئے مرجھا کر بالکل غائب ہوجاتے ہیں صرف انکے سیاہ داغ باقی رہ جاتے ہیں
بعض اوقات ان میں ذرا سی پیپ وغیرہ بھی پڑجاکرتی ہے لیکن ان میں نہ جلن ہوتی ہے اور نہ ہی درد ہوتی ہے ۔لوز تین (ٹانسلز) میںسوجن آجاتی ہے ان میں زخم پڑجاتے ہیں جس سے آواز میں بھاری پن پیدا ہوجاتا ہے یہ اس امراض کی خاص علا مت ہے۔
تلی بڑھ جاتی ہے ۔بھنووں اور پلکوں اورسرکے بال گرجاتے ہیں کلائی اور پاؤں کی ہڈیوں میں درد ہونے لگتا ہے جو رات میں شدید ہوجاتا ہے جو ڑوں میں سوجن آجاتی ہے کبھی بہرے پن کی شکایت ہوجاتی ہے۔
مریض کا خون ناقص اور کمزور ہوکر اسے اینمیا یعنی بھس کی شکا یت ہوجاتی ہے آج کل کے ڈاکٹرکمی خون یعنی اینمیا کو آتشک کی نمود قرارنہیں دیتے وہ ان کےعلاج کی طرف مائل ہوجاتے ہیں یہ سخت غلطی ہے کیوں کہ تجربہ بتاتا ہے کہ جب تک آتشک کے زہر کو دبانہ دیا جائے یا اس کو شفا نہ دی جائے اس وقت خون کی کمی کا کامیاب علاج نہیں ہو تا ۔خون کی کمی آتشک ثانوی کی ایک نمود جو اکثر ہو اکرتی ہے اور بعض وقت یہ خطر ناک حالت اختیار کرلیتی ہے مندرجہ بالا علامات بعض مریضوں میں چھ یا آٹھ ماہ بعض اوقات اٹھارہ ماہ بعد بالکل رفع ہو جاتی ہے۔
نمبر 3 : اسے ٹرثری سفلس بھی کہتے ہیں اس درجہ کی علامت ظاہر ہونے کا کوئی خاص وقت نہیں ہے ان کے ظاہر ہونے کا انحصار مریض کی صحت اورمناسب علاج پر موقوف ہوتا ہےاس درجہ کی علامت درجہ دوم کی علامت کے رفع ہوجانےکےمہینوں یا برسوں بعد نمایاں ہوتی ہیں۔
چنانچہ مختلف اعضاءو احشاء میں ابھار یا گلٹیاں پیدا ہو کر بعض اوقات وہ نرم اور متقرح ہوجاتی ہیں اس قسم کی گلٹیاں جلد، عضلات، زبان حلق، آنت، دماغ، نخاع اعصاب دل، پھیپھڑے، جگر، تلی، گردوں اور ہڈیوں میں پیدا ہوجاتی ہیں ہڈیوں میں جوابھار ہوتے ہیں ان میںرات سخت درد ہوتا ہے تالو گل جاتے ہیں کبھی ناک کی ہڈی بھی گل جاتی ہے مریض انتہائی درجہ لاغرور کمزور ہا جاتا ہے۔
نمبر4 : بعض عصبی امراض ٹپس ڈراسلس ,نخاع کی کمزوری, لوکو موٹرا ٹیکسی، لڑکھڑاچلنا فالج، جنون وغیرہ پرانے آتشک اوراس کے زہریلے اثرکا نتیجہ ہوتی ہے اسمیں کوئی شک نہیں کہ اسی فی صد مریض ایسے ہوتے ہیں کہ جنہیں کسی نہ کسی وقت آتشک ضرور ہو چکا ہوتا ہے۔
پیدائشی آتشک :
یہ آتشک کی دوسری قسم ہے اس میں حمل ٹھہرتے وقت یہ مرض بذریعہ نطفہ والد کی طرف سے یا والدہ کی طرف سے یا دونوں کی طرف سے ہوجایا کرتا ہے یہ بات یاد رہے کہ والدین کی آتشک کااثرہرحال میں ماں کےذریعے پیدا ہونے والے بچے کو حمل ہونے کے وقت ہی ورثہ میں مل جاتا ہے۔
باپ کی بہ نسبت ماں کی طرف سے ہوئے آتشک کی علامت:
بچہ میں زیادہ شدید ہو علامت :
چونکہ آتشکی نطفہ عموماً ناقص اور کمزور ہوتا ہے اس لئے رحم مادر میں ٹھیک طور سے نشونما نہیں پاتا جس کی وجہ سے حمل باربار ساقط ہوجاتا ہے بعض حالتوں میں بچہ اپنی طبعی مدت میں پیدا ہوتا ہے
لیکن جلد مرجاتا ہے لیکن بعض اوقات طبعی ،مدت میں پیدا ہو کر بظاہر تندرست رہتا ہے مگر اس میں موروثی آتشک کی علامت جلد نمایاں ہوجاتی ہیں پیدا ئش سے آٹھ ہفتے بعد مرض کا ظہور شروع ہوجاتا ہے
ابتداءمیں بچہ موٹا تازہ اور تندرست معلوم ہوتا ہے مگر علامت کے ظاہر ہوتے ہی کمزور اور دبلا پتلا ہونا شروع ہو جاتا ہے بدن کی رنگت سفید اور تمام بدن پر جھریاں پڑنے لگ جاتی ہیں بچے کو زکام ہوتا ہےسانس رک رک کر آتی ہے منہ یا حلق میں چھالے پڑجاتے ہیں ناک کے اندر زخم ہوکر ہڈی خراب ہو جاتی ہے ،زیر ناف تمام حصے پھنسیاں پیدا ہوجاتی ہیں بال باریک ہوجاتے ہیں اور پھر جلد ہی جھڑ جاتے ہیں دودھ کے دانت دیرسے نکلتے ہیں جو کہ نہایت کمزوراور بد شکل ہوتے ہیں
اورجلد ہی گرجاتے ہیں بچہ ہمیشہ روتا ہے مزاج چڑ چڑا پن ہوتا ہے قے اور د ست آتے ہیں کبھی یرقان بھی ہوجاتا ہے دودھ کے دانت گرجاتے ہیں وہ بھی بد شکل اورکرم خور دہ ہوتے ہیں آنکھیں، دکھتی ہیں اونچا سنائی دینے لگتا ہے، ٹانگوں کی ہڈیاں مڑجاتی ہیں اور بہت جلد ان بچوں کا ٹی، بی، میں مبتلا ہو جانے کا اندیشہ ہوتا ہے۔
تشخیص :
آتشک کی دونوں قسموں کی تشخیص واسر مین ری ایکشن ٹیسٹ کے ذریعے کی جاتی ہے یہاں یہ بات یادرکھنے کی ہے واسر مین ری ایکشن کے مثبت ہونے پر ہر وقت مریض کو آتشک میں مبتلا نہ سمجھ لینا چاہئے کیوں کہ ایسی مستشنیات بھی دنیا میں موجود ہیں جس سے خون میں واسر ری ایکشن مثبت ہوتا ہےتا ہم وہ کبھی آتشک میں مبتلا ہوئے اور نہ کبھی ہوئے تھے مندرجہ ذیل یاد رکھنے کے قابل ہیں، وقتاًفوقتاً خون کی جانچ کرنے کے بعد اس ٹیسٹ کے مستقل طور پرمثبت رہنے سے ثابت ہوتا کہ آتشک کا زہر جسم کے کسی خاص حصہ میں نہایت تیز ہے
لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ مریض کی موجود ہ بیماری آتشک ہی ہے گوہو سکتا ہے مریض میں آتشک موجود ہواس حالت میں علامت کومد نظر رکھنا نہایت ضروری ہے اس کے علاوہ کینسر کے مریض کے خون کی جانچ میں واسر مین ری ایکشن ہمیشہ مثبت ہوتا ہے، تو اس کابھی یہ مطلب نہیں کہ مریض کو آتشک لاحق ہے ۔ بوڑھاپے میں حاصل کردہ آتشک یا آتشک کے آخری مرحلہ میں واسر مین ری ایکشن ہمیشہ منفی ہوتا ہے ان تمام مستشنیات کو دیکھتے ہوئے یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ محض اس ٹیسٹ پر بھروسہ کرلینا آتشک کی صحیح تشخیص نہیں ہے۔
انجام مرض :
اس مرض میں خود بخود آرام ہوجانا محال ہے البتہ اگر مناسب اور معقول علاج پابندی اور مستقل مزاج ساتھ جارہ رکھا جائے تو اس صورت میں مرض میں کمی یا اس خاتمہ ہوسکتا ہے اور اگر مرض پوری طور پر زائل نہ بھی ہوتو اس کے عوارضات کی شدت ضرورختم ہوجاتی ہے، البتہ اگر علاج مناسب اور معقول نہ کیا گیا تو مرض انتہائی مہلک صورت اختیار کر لیتا ہے اس کےعلاوہ حنجرہ، اعصاب، جگر، تلی ، گردہ اور آنتوں کا کوئی بھی مرض لاحق ہوکر مریض انتقال کر جاتا ہے
بعض اوقات مرض کی کوئی علامت نہیں پائی جاتی مگر اس مرض کی سمیت بدن میں چھپی رہتی ہے اور جیسے ہی انسان زیادہ کمزور اور ضعیف ہوتا ہے یا بداعتدالی کی زندگی گذارتا ہے مرض فوراً حملہ آور ہو جاتا ہے۔
تحفظ :
اس مرض سے محفوظ رہنے کے لئے صفائی اور پرہیزگاری کی زندگی بسر کرنا نہایت ضروری ہے اس مرض کو زنا کا ری یا بد کاری کی قدرتی سزا سمجھنا چاہئے۔
میاں کو آتشک بیوی کو بد ہے نتیجہ کار بد کاکار ہے چنانچہ سب سے بہتر تدبیر فسق و فجورجنسی بے راہ روی اور بد کاریوں سے پر ہیز سے تا کہ دنیا میں جسمانی مصائب سے محفوظ رہے اور عقبیٰ میں گنہگار اورمستوجب سزا قرار نہ پائے مریض آتشک کے میل جول، بوس و کنار، ساتھ میں کھانا کھانے جھوٹا پانی پینے اس کے کپڑے اور رومال استعمال کرنے اس کے بستر پر سونے سے قطعی پرہیز کرنا چاہئے
ورنہ ممکن ہے کہ اگرہاتھ منہ یا جسم پر کہیںہلکی سی بھی خراش ہوگی تو وہاں آتشک کے جراثیم آسانی سے سرایت کر جائیں گے خود ایسے مریضان آتشک کو بہت محتاط رہنا چا ہئے ۔ شراب سے پرہیزکرنا لازم کیوں کہ اس کے استعمال سے آتشک کے جرا ثیم کو بہت جلد تمام بدن میں پھیلنے کا موقع مل جاتا ہے۔
اصول علاج:
مریض کو صاف اور کشادہ مکان میںرکھیں اور اس کی ہر چیز علیحدہ رکھیں ورزش اور محنت کرنےسے منع کریں بدن کو سردی لگنے اورپانی میں بھیگنے سے بچانا چاہئےگرم کپڑے پہنانے چاہئے اگر مریضہ حاملہ ہے اس صورت میں علاج کے لئے جلدی کر نا چاہئے۔
امریکی ماہرین صحت کی رائے میں اس مرض کا علاج بے حدمشکل اور پیچیدہ ہے وہ اسے ایک لاحاصل کوشش سمجھنے لگے ہیں ان کی اکثریت اس بات کی قائل ہے اس مرض کو پھیلانے میں ان کے معاشرہ کی موجودہ اقدار بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہی ہیں
ماہرین صحت معترف ہیں کہ اس مرض کی روک تھام صر ف اس صورت میں ممکن ہے کہ دنیا اخلاقی کے دائرے میں آجائے بے لگام اور کھلے عام جنسی اختلاط کا خاتمہ ہو یہی ماہرین صحت اجتماعی سطح پر ایک اخلاقی تحریک چلانے کے حامی ہیں تا کہ عورت اور مرد دونوں ہی ایک دوسر ے کا احترام کرنا سیکھیں ضبط نفس کی ترتیب حاصل کریں اور صرف جائز وسائل پر انحصار کریں
آج مغرب میں ازخرابی بسیارانہیں ضرورت محسوس ہورہی ہے کہ عورت کے تعلقات میں حدود کا تعین کیا جائے، بے حیائی اورآزادانہ جنسی تعلقات کو ختم کردیا جائے ورنہ بصور ت دیگرآج کی ترقی یافتہ اقوام کی آئندہ نسلوں کو مرض کے جراثیم اس قدر کھوکھلا کردیں گے کہ پھر ان میں موجود تما م صلاحیتوں کا ہمیشہ ہمیشہ خاتمہ ہو جائے گا ترقی کے نام پر فری ب کھانے والے ہم مسلمانوں کوبھی اندھی تقلید سے گریز کر کے تباہی کی طرف بڑھنے کی کوشش ختم کر دینی چاہئے اللہ سب کو ہداہت دے یہ ایک انتہائی گھناونی اور نسل کش بیماری ہے۔
اس کے اسباب اور وعلامات درج ذیل ہیں پیشاب بہت جلن کے ساتھ آتا ہے اور درد بھی ہوتا ہے مزید پیشاب والی نالی میں زخم بھی بن جاتے ہیں اور پیپ بھی آنا شروع ہوجاتی ہے۔
Reviews
There are no reviews yet.