مریض کی قوت مدافعت قائم رکھنے کیلئے اس کی غذا پر خصوصی توجہ دی جائے جو ابال کر چھان کر یا پانی دانہ میں کئی بار پلایا جائے اگر جو کے پانی میں شہد ملا کر پیا جائے تو سب سے بہتر ہے شہد ایک مکمل غذا ہے جسم کی قوت مدافعت میں اضافہ کرتا ہے
یہ ایک جراثیمی سوزش ہے جو اس کو پیدا کرنے والے جراثیم Salmonella typhi کی وجہ سے ہوتی ہے پیٹ کی دوسری بیماریوں کی طرح یہ بھی ایک سے دوسرے تک مکھیوں‘ آلودہ پانی یا بیمار کے جسم سے نکلنے والے جراثیم کے ذریعے پھیلتا ہے۔ گندی خوراک کے ذریعے یہ جراثیم جسم میں داخل ہونے کے بعد گندی خوراک کے ذریعے یہ جراثیم جسم میں داخل ہونے کے بعد چھوٹی آنت کے کسی حصہ کو پسند کرکے اپنے تخریبی عمل کا آغاز کرتے ہیں۔ انسانی جسم میں ان جراثیم کے خلاف قوت مدافعت موجود ہوتی ہے اور یہ جس کسی کے جسم میں جاتے ہیں اس میں ہر ہر ایک کو بیمار نہیں کرسکتے۔ اگر ان کی مقدار زیادہ ہو یا مریض کی قوت مدافعت کمزور ہوتو ٹائیفائیڈ بخار کا حملہ ہوجاتا ہے۔ جسم میں داخل ہونے کے ایک ہفتہ سے لیکر تین ہفتوں کے درمیان یہ جراثیم اپنا کام مکمل کرکے اپنی تعداد اتنی زیادہ کرلیتے ہیں مریض کی جسمانی مدافعت کو ختم کرکے باقاعدہ تب محرقہ کا بیمار بنالیں۔
علامات
پہلا ہفتہ بیماری کی ابتدا تھکن‘ کمزوری‘ جسم میں اینٹھن اور شدید سردر‘ پیٹ میں بوجھ کی کیفیت‘ معمولی اسہال اور اس کے ساتھ کبھی قبض‘ بھوک اڑ جاتی ہے‘ ناک سے نکسیر بھی آسکتی ہے‘ اسہال کے ساتھ کبھی کبھی خون بھی شامل ہوجاتا ہے۔ زبان سخت میلی‘ پیٹ میں ابھارہ‘ بخار آہستہ آہستہ تیز ہوتے شام کو بڑھ جاتا ہے جو کہ 103F تک چلا جاتا ہے جبکہ صبح کو کم ہوتا ہے لیکن بالکل نارمل نہیں ہوتا دل کی رفتار کم ہونے لگتی ہے اور نبض کی رفتار بھی کم ہوجاتی ہے چہرا بجھا بجھا اور آنکھوں کی چمک جاتی رہتی ہے۔
دوسرا ہفتہ سردرد میں کمی آجاتی ہے لیکن جسم میں کمزور بڑھتی ہے چہرا بے رونق ہوجاتا ہے‘ تلی بڑھ جاتی ہے‘ پیٹ کی تکلیف میں اضافہ ہوتا ہے‘ بلڈ پریشر میں کمی آجاتی ہے مگر نبض کی رفتار تیز معلوم ہوتی ہے۔ اسہال کی شکایت بدستور رہتی ہے بخار حسب سابق شام کو تیز مگر صبح کو کم۔ ساتویں سے دسویں دن کے درمیان پیٹ او جسم کے اکثر مقامات پر گلابی رنگ کے دانے نمودار ہوتے ہیں
تیسرا ہفتہ:جن کو بیماری کا حملہ شدید ہوا ہو اور انہوں نے ٹھیک سے علاج بھی نہ کروایا ہو اس ہفتے ان کی بیماری کا زور ٹوٹ جاتا ہے جسم پر کمزوری کے آثار نظر آتے ہیں اور اگر ایسا نہ ہو تو خراب حال مریضوں کی آنتوں سے خون آنے لگتا ہے آنتوں میں سوراخ ہوکر جان کو خطرہ لاحق ہوجاتا ہے دماغی حالت خراب ہوسکتی ہے آنتوں میں سوراخ یا جریان خون یا دل کی سوزش موت کا باعث بن جاتے ہیں۔
چوتھا ہفتہاگر مرض میں پیچیدگیاں زیادہ نہ ہوئی ہوں تو اس ہفتے بخار ٹوٹ جاتا ہے بھوک پھر سے لگنے لگتی ہے زبان صاف ہوجاتی ہے وزن بڑھنے لگتا ہے نبض کی حالت بہتر ہوتی ہے لیکن معمولی چلنے پھرنے سے تیز ہوجاتی ہے دل کی کمزوری یا گردوں پر برے اثرات سے پیروں پر ورم آجاتا ہے خون کی نالیوں میں سوزش کی وجہ سے کسی درید میں خون جم کر ایک نیا مسئلہ پیدا کردیتا ہے اگر گردے یا پتہ متورم ہوگئے ہوں تو مریض ظاہری طور پر شفایاب ہونے کے باوجود اپنی جسمانی نجاستوں کے ذریعے تپ محرقہ یا ٹائیفائیڈ بخار کے جراثیم خارج کرتا رہتا ہے اور دوسروں کیلئے خطرے کا باعث بن جاتا ہے جن مریضوں کو بیماری کے دوران غذا کم دی گئی ہو یا ان کو دواوں کی مقدار ضرورت سے کم کردی گئی ہو تو 9-12 دن کے بعد پھر سے بخار چڑھ جاتا ہے اور سارا قصہ ازسر نو شروع ہوجاتا ہے۔
تشخیص
برطانوی ماہرین کا اندازہ ہے کہ84 فیصد مریضوں کی علامات کی بنا پر تشخیص کی جاسکتی ہے چونکہ یہ بیماری خطرناک اور علاج کیلئے معمول سے زیادہ تردو کی ضرورت ہوتی ہے اس لیے تشخیص کے ساتھ ساتھ ایسے ٹیسٹ بھی کرنے ضروری ہیں جن سے مریض کی بیماری کی نوعیت یقینی ہوجائے۔ TLC&DLC خون میں موجود سفید دانے بیماریوں کی تشخیص میں اہم مقام رکھتے ہیں۔ ان کی مجموعی تعداد اوران کی مختلف قسموں کا تناسب بیماریوں کی تشخیص میں مددگار ہوتا ہے۔
علاج
طب جدید میں اس کا علاج اینٹی بایوٹک ادویات سے کیا جاتا ہے بخار کی شدت توڑنے کیلئے اسپرین وغیرہ دی جاتی ہے۔ نبی کریم ا نے بخار کو جہنم کی آگ قرار دیکر فرمایا کہ اسے پانی سے ٹھنڈا کرو‘ تیز بخار کیلئے مریض کے جسم پر پانی پھیرا جائے کپڑے کو پانی میں تر کرکے ماتھے پر اور پیروں پر بار بار پھیرنے سے بخار کی شدت کم ہوجاتی ہے بخار اگر زیادہ ہو اور موسم سرد نہ ہو تو یہی کپڑا بدن پر بھی پھیرا جائے۔
مریض کی قوت مدافعت قائم رکھنے کیلئے اس کی غذا پر خصوصی توجہ دی جائے جو ابال کر چھان کر یا پانی دانہ میں کئی بار پلایا جائے اگر جو کے پانی میں شہد ملا کر پیا جائے تو سب سے بہتر ہے شہد ایک مکمل غذا ہے جسم کی قوت مدافعت میں اضافہ کرتا ہے شہد مکمل طور پر جراثیم کش ہے اسے پلانے سے پیٹ کے زخم مندمل ہوتے ہیں۔ شہد پینے والوں کی آنتوں میں سوراخ نہیں ہوتا دل اور نبض کی کمزوری دور کرنے کیلئے شہد ایک مقوی دوا ہے۔
ٹائیفائیڈ بخار کے علاج کا بنیادی اصول یہ ہے کہ مریض کو ایسی غذائیں دی جائیں جن میں بھوک کم از کم ہو ،تاکہ ہضم ہونے کے بعد وہ آنتوں پر وزن نہ ڈالیں کیونکہ ایسا ہونے سے آنتوں کے زخم پھٹ سکتے ہیں یاان میں سوراخ ہوسکتا ہے اس لیے گوشت کھانا سب سے آسا ںٰ گوشت کی یخنی یا باریک کرکے مصالحوں کے بغیر قیمہ بنا کر دیا جائے۔ قسط شیریں کو جراثیم کے ہلاک کرنے اور سوزشوں کے خلاف جسم کی قوت مدافعت بڑھانے میں کمال حاصل ہے۔
ٹائیفائیڈ بخار کے مریضوں کو قسط شیریں 80 گرام برگ مہندی 20 گرام پیس کر ملا کر چھوٹا چمچ صبح و شام دیا ہر ایک مریض کو ایک ہفتہ میں شفایاب ہوگیا۔ اگر ایک ہفتہ میں شفایابی نہ ہوتو علاج کو چند روز شہد بکثرت استعمال کیا جائے کیونکہ شہد ہر بیماری میں شفاءکا مظہر ہے