میاں بیوی کا جماع کرنا حکمت اور اسلام کی روشنی میں
بعض دانشوروں کا کہنا ہے کہ انسان کو خود سے تین معاہدے کرلینا چاہیئں پہلا تو یہ کہ چہل قدمی کرنا نہ ترک کرے اگر کبھی کسی ضرورت کے پیش نظرترک کر دے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں دوسرا یہ کہ کھانا ترک نہ کرے کہ اس سے آنتوں میں تنگی ہوجاتی ہے اور تیسرا معاہد ہ یہ کہ جماع کرنا نہ چھوڑے اس لئے کہ جس کنویں سے پانی نہیں نکالاجاتا وہ خشک ہوجاتاہے اور محمد بن زکریا کا بیان ہے کہ جو عرصہ تک جماع نہ کرے تو اس کی اعصابی قوت جاتی رہے گی اور منی کے راستے مسددو ہوجائیں گے اور اس کا عضو تناسل سکڑ جائے گا مزید بیان کیا کہ میں نے ایک جماعت کو دیکھا کہ اس نے خشک مزاجی اور زہدو ورع کے باعث جماع کرنا چھوڑ دیا تو ان کے جسم ٹھنڈے پڑگئے اور ان کے نقل وحرکت دشوار ہوگئی اور ان پر بغیر کسی سبب کے مشکلات کا نزول ہو ا ان کی خواہشات ختم ہوگئیں اور ہاضمہ کمزور ہوگیا۔
جماع کرنے کا ایک فائد ہ یہ ہے کہ آدمی کی نگاہ پست ہوجاتی ہے نفس پر کنٹرول ہوجاتا ہے اور حرام کاری سے محفوظ رہتا ہے اور اسی جذبہ کے تحت اسے نکاح کی خواہش اور دعوت کے حصول کی تمنا ابھرتی ہے جس سے اسے دنیاوی واخروی دونوں نفع حاصل ہوتے ہیں اور عورت سے الگ نفع اٹھاتا ہے اسی وجہ سے رسول اللہﷺ اس کا بے حد لحاظ رکھتے اور اسے پسند فرماتے آپ خود فرماتے تھے کہ تمہاری دنیا کی دو چیزیں مجھے بہت پسند ہیں ایک عورت اور دوسری خوشبو۔
کتاب ”الزہد“ میں امام احمد بن حنبل نے اس حدیث کے بارے میں ایک لطیف نکتہ بیان کیا ہے کہ میں کھانے پینے سے تو رک سکتا ہوں لیکن عورتوں سے جماع سے رکنا میرے لئے مشکل ہے۔
نبی کریم ﷺ نے اپنی امت کو شادی کرنے کی ترغیب دلائی آپ نے فرمایا ۔شادی کرو اس لئے کہ میں بروز قیامت دیگر امتوں کے مقابل تمہاری کثرت پر فخر کروں گا
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہاس امت کا بہتر,ین وہ شخص ہے جس کے پاس زیادہ بیویاں ہوں۔ دوسری حدیث میں رسول اللہﷺ نے فرمایا میں عورتوں سے ہم بستری کرتا ہوں، سوتا ہوں، جاگتا ہوں، روزہ رکھتا ہوں اور بلا روزہ بھی رہتا ہوں لہٰذا جس نے میری سنت وطریقہ سے انحراف کیا وہ مجھ سے نہیں۔ دوسری جگہ آپ نے نوجوانوں کو مخاطب کرکے فرمایا نوجوانو! جن کو قوت مباشرت ہو اسے شادی کرلینی چاہیے اس لئے کہ اس سے نگاہ محفوظ رہتی ہے اور شرم گاہ کی حفاظت ہوتی ہے اور جو اس کی استطاعت نہیں رکھتا اسے روزہ سے رہنا چاہئے اس لئے کہ روزہ اس کے لئے ڈھال ہے
حضرت جابر ؓنے جب ایک شادی شدہ عورت سے نکاح کیا تو آپ نے فرمایا تو نے کنواری عورت سے شادی کیوں نہ کی کہ تم اس سے کھیلتے اور وہ تمہارے ساتھ کھیلتی“ابن ماجہ نے اپنی سنن میںانس بن مالک رضی اللہ عنہ کی حدیث روایت کی ہے کہ انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا ۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ جو شخص اللہ سے پاک وصاف حالت میں ملنا چاہتا ہے اسے آزاد عورتوں سے شادی کرنی چاہیے“اور سنن ابن ماجہ میںہی حضرت عبد اللہ عباس رضی اللہ عنہ سے مرفوعا روایت ہے آپ نے فرمایا کہ وہ اٹوٹ پیار ومحبت کرنے والوں کے لئے نکاح سے بہتر کوئی چیز ہم نے نہیں پائی۔
صحیح مسلم میں عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی حدیث مروی ہے انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔
دنیا ایک پونجی ہے اور دنیا کی سب سے عمدہ پونجی نیک بیوی ہے“نبی اکرمﷺ اپنی امت کے لوگوں کو حسین وجمیل دیندار کنواری عورتوں سے شادی کرنے کی ترغیب دلاتے تھے اور سنن نسائی میں حضرت ابوہریرہ ؓسے روایت ہے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ۔ نبی اکرمﷺ سے دریافت کیا گیا کہ بہترین عورت کی کیا خصوصیت ہے آپ نے فرمایا جب شوہر اسکی طرف دیکھے تو اسکو خوش کردے اور جب کسی کام کا حکم دے تو اس کی تعمیل کرے اور شوہر کی مخالفت اپنے بارے میں اور اس کے مال میں نہ کرے صحیحین میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی اکرمﷺ سے روایت کرتے ہیں آپ نے فرمایاعورت سے شادی اس کے مال اس کے حسب ونسب اس کے حسن وجمال یااس کی دینداری کی بنیاد پر کی جاتی ہے تودیندار عورت سے شادی کرنے میں کامیابی حاصل کر تیرے ہاتھ خاک آلود ہوں آپﷺ زیادہ بچہ جننے والی سے شادی کرنے کی ترغیب دلاتے اور بانجھ عورت کو ناپسند فرماتے جیسا کہ سنن ابوداﺅدمیں معقل بن یسار ؓسے روایت ہے کہ ایک شخص نے خدمت نبوی میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ مجھے ایسی عورت سے عشق ہوگیا ہے جو عالی خاندان کی ہے اور حسین وجمیل بھی ہے مگر وہ بانجھ ہے کیا میں اس سے شادی کرلوں؟ آپﷺ نے فرمایا زیادہ بچہ جننے والی بے انتہا پیار ومحبت کرنے والی عورت سے شادی کرو کہ میں بروز قیامت تمہاری کثرت کو دیکھ کر دیگر امتوں پر فخر کروں گاترمذی میں معقل بن یسار سے مرفوعا روایت مذکورہ ہے, انبیاءکی چار سنتیں ہیں شادی، مسواک،خوشبو اور حناجامع میں ”حنا “نون اور یاءکے ساتھ یعنی حناءاور حیا دونوں مروی ہےمیں نے ابوالحجاج کو کہتے سنا کہ صحیح لفظ ختان ہے اور نون کنارے سے ساقط ہوجانے کی وجہ سے حناءلوگوں نے پڑھ دیا اسی طرح کی بات محاملی نے ابو عیسٰی ترمذی کے استاذ سے ذکر کی ہے۔ آدمی کو جماع کرنے سے پہلے بیوی کے ساتھ کھیل کود، بوسہ بازی کرنا اور زبان چوسنا چاہیے رسول اللہﷺ جماع سے قبل اپنی بیوی کے ساتھ کھیلتے تھے اور ان کا بوسہ لیتے تھے۔ابوداﺅد نے اپنی سنن میں روایت کیا کہ نبیﷺ جماع سے پیشتر حضرت عائشہ کا بوسہ لیتے اور ان کی زبان چوستے تھے۔ جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہﷺ کبھی تمام ازواج مطہرات کے ساتھ جماع کرتے پھر ایک بار غسل کرکے پاکی حاصل کرلیتے اور کبھی ہر ایک کے لئے الگ الگ غسل فرماتے امام مسلم نے صحیح مسلم میں حضرت انس ؓسے روایت کیا ہے کہ نبیﷺ اپنی ازواج مطہرات سے مباشرت فرماتے پھر ایک مرتبہ غسل فرمالیتے۔ابو داﺅد نے سنن میں ابو رافع مولی رسول اللہ ﷺ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہﷺ نے ایک رات تمام ازواج مطہرات سے مباشرت فرمائی اور ہر ایک سے مباشرت کے بعد غسل فرمایا میں نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول اللہﷺ آپ سب کے بعد ایک مرتبہ غسل فرمالیتے آپ نے فرمایا ہاں یہ بات تو درست ہے مگر صفائی طہارت اورپاکیزگی میں یہ بڑھا ہوا ہے۔جب جماع کرنے والا ایک مرتبہ عورت سے جماع کرنے کے بعد غسل سے پہلے ہی دوسری مرتبہ جماع کی خواہش کرے تو اس کے لئے شریعت نے دو جماع کے وقفہ میں وضو کا حکم دیا ہے چنانچہ امام مسلم ؒنے اپنی سحیح میں حضرت ابو سعید خدری ؓکی حدیث نقل کی ہے حضرت ابوسعید خدری ؓنے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایاجب کوئی اپنی بیوی سے ہم بستر ہو اور پھر دوبارہ مباشرت کرنا چاہے تو اسے وضو کرلینا چاہے جماع کے بعد غسل اور وضو کرلینے سے ایک قسم کا نشاط پیدا ہوتا ہے دل کو شگفتگی حاصل ہوتی ہے اور جماع سے بعض تحلل کی تلافی بھی ہوجاتی ہے اور اعلی درجہ کی پاکیزگی اور طہارت ہوجاتی ہے اور اس کے ذریعہ حرارت عزیزی بدن کے اندرونی حصہ میں اکٹھا کرنے کی ضرورت پوری ہوجاتی ہے جب کہ جماع کی وجہ سے یہ حرارت منتشر ہوجاتی ہے اور نظافت کا برعکس طریقہ بھی ختم ہوجاتا ہے جو جماع کے لئے اعلی درجہ کی تدبیر ہے اور قوی جسمانی اور صحت کی پوری حفاظت بھی ہوجاتی ہے