لڑکے اور لڑکیوں کی شادی میں دیر لیٹ کا بڑھتا ہوا خطرناک رجحان
ایک لمحۂ فکریہ
آج سے تقریبًا پندرہ سال پہلے معاشرے کا جو رجحان تھا، اس کے مطابق جس لڑکی کی شادی پچیس سال کی عمر سے پہلے کر دی جاتی، تو ایسی شادی کو بروقت گردانا جاتا، پچیس سال کی عمر کا ہندسہ عبور کرنے کا یہ مطلب لیا جاتا کہ لڑکی کے رشتہ میں دیر ہو گئی ہے، اس سے پہلے کا معلوم نہیں لیکن ہو سکتا ہے کہ دیرکا یہ پیمانہ تین چار سال پہلے تصور کیا جاتا ہو، پھر سات آٹھ سال پہلے یہ صورتحال ہوئی کہ تیس سال کی عمر سے پہلے پہلے لڑکی کی شادی بروقت قراردیئے جانے لگی، یعنی محض سات آٹھ سال میں پانچ سال کا فرق آ گیا
اب بھی ایسے معاملات ہیں کہ اکثر گھروں میں لڑکیوں کی عمریں تیس سے چالیس سال کے درمیان ہو چکی ہیں لیکن رشتہ نہیں یہ رشتہ میں دیر کا رجحان ہمارے معاشرے میں ایسی خاموش دراڑیں ڈال رہا ہے جو معاشرتی ڈھانچے کے زمین بوس ہونے کا پیش خیمہ ہے، لیکن حیف کہ اس کا عملی ادراک معاشرے کے چند لوگوں کو بھی نہیں،
آئیں ؟ اس دیر کی وجوہات کا تعین کرنے کی کوشش کرتے ہیں
مزید پڑھیں
پہلی وجہ
لڑکوں کا تعلیم کے میدان میں پیچھے رہ جانا اور لڑکیوں کا اس میدان میں آگے نکل جانا ہے پچھلے کئی سالوں کے بورڈ کے امتحانات کے نتائج اس بات کے شا ہد ہیں، اس کی وجہ سے تعلیم کے لحاظ سے ہم پلہ رشتہ ملنا انتہائی مشکل ہو چکا ہے، شہروں میں کچھ سالوں سے لڑکیوں میں بڑھتے ہوئے، پی، ایچ، ڈی، کے رجحان نے اس کو اور مشکل بنا دیا ہے
دوسری وجہ
اچھی تعلیم حاصل ہونے کی وجہ سے لڑکیوں کو روزگار کے مواقع نسبتًا آسانی سے مل جاتے ہیں اس کے دو اثرات سامنے آئے ہیں
ایک
والدین کا ان لڑکیوں پر مالی انحصار کرنا شروع ہو جانا
دو
نوکریوں کے لحاظ سے ہم پلہ رشتے نہ ملنا
تیسری وجہ
کچھ والدین کا اس معاملہ میں بالکل ھل جل نہ کرنا ہے
لڑکیوں کی عمریں اٹھائیس اٹھائیس سال ہو جاتی ہیں لیکن انھیں کم عمر ہی تصور کیا جاتا ہےایک زمانہ تھا کہ اٹھارہ بیس سال کی عمر میں مائیں رشتوں کی تلاش میں سرگرداں ہوجایا کرتی تھیں، یہ رجحان، الحمد للہ، دینی گھرانوں میں اب بھی بدستور موجود ہے جو کہ ازحد ضروری ہے،
چوتھی وجہ
جس لڑکی کی عمر تیس سال سے اوپر ہو جاتی ہے اس کے لئے عمر کے لحاظ سے رشتے مشکل ہو جاتے ہیں کیونکہ اکثر لڑکے والے کم عمر لڑکی کی تلاش میں ہوتے ہیں
پانچویں وجہ
لڑکے والوں کے از حد نخرے ہیں
اول تو کوئی لڑکی، لڑکے کی ماں بہن کو بھاتی نہیں، فقط کھانے پینے سے لطف اندوز ہونا ہی شاید مقصد ہوتا ہے، اگر کوئی لڑکی پسند آ بھی جائے تو پھر فرمائشوں اور رسوم و رواج کے نام پر لڑکی والوں کا مکمل استحصال کیا جاتا ہے
چھٹی وجہ
شہروں میں ایک عجیب وجہ سامنے آئی ہے، لڑکی کے والدین، لڑکے میں وہ تمام کامیابیاں دیکھنا چاہتے ہیں جو پچاس سال کی عمر میں حاصل ہوتی ہیں
مکان اپنا ہو، گاڑی پاس ہو، تنخواہ کم از کم اتنی ہو وغیرہ وغیرہ، میں اپنے ایک انجینئر دوست کا رشتہ کروا نے کی کوشش میں تھا، لڑکا لائق فائق، خوش شکل، نوکری اچھی، لڑکی کی ماں کو بہت پسند تھا، لڑکے والے بھی راضی تھے لیکن اچانک لڑکی کے والدین نے انکار کر دیا اور وجہ یہ بتائی گئی کہ لڑکے کے پاس اپنا مکان نہیں، وہ کرائے کے مکان میں رہتا ہے، اب ایسے رویوں کا کیا کیا جائے، کیا یہ اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارنے کے مترادف نہیں
ساتویں وجہ
خاندانوں کے اندر ایک عجیب و غریب وجہ دیکھنے میں آ رہی ہے، ہر ماں اپنی بیٹی کا رشتہ خاندان میں بخوشی کرنے پر راضی ہے لیکن جب اپنے بیٹے کا معاملہ آتا ہے تو خاندان کی سب لڑکیوں پر ناک بھوں چڑھا لیا جاتا ہے اور بڑے طمطراق اور فخر سے خاندان سے باھر کی لڑکی لائی جاتی ہے
اس کے علاوہ مزید وجوہات بھی ہوں گی
وجوھات جو بھی ہوں لیکن یاد رہے کہ اس سے ہمارا معاشرتی نظام درہم برہم ہو رہا ہے، اور ہماری نوجوان نسل، بروقت شادی نہ ہونے کی وجہ سے، میڈیا کی پھیلائی ہوئی، بے حیائی کا بآسانی شکار ہو رہی ہے، اور جو محفوظ ہے، وہ اپنے ساتھ ایک خاموش نفسیاتی جنگ کا شکار ہے، مغرب تو اس طرز سے اپنے آپ کو برباد کر چکا اور ان کی آبادی اب ریوَرس گیئر میں چل رہی ہے لیکن ہم جانتے بوجھتے خود اس گڑھے میں گر رہے ہیں اور وہ بھی ھنستے مسکراتے، اور ھم سب اس اجتماعی خرابی اور زوال کے ذمہ دار پیں
افسوس : کشتی ڈوب رہی ہے اور کشتی کے ملاح اور مسافر بے نیاز
حَیراں ہوں، دل کو روؤں، کہ، پیٹوں جگر کو میں
اگر ہم نے بچوں کی بلوغت کے فورًا بعد شادی کو رواج نہ دیا،
اگر ہم نے دوسری، تیسری اور چوتھی شادی کو لعنت سمجھنے کے کفر سے توبه نہ کی
اگر ہم نے مطلقہ خواتین اور بیواﺅں کی فوری اور آسان شادیوں کا بندوبست نہ کیا
اگر ہم نے نکاح کو کاروبار کے بجائے فرض کا درجہ نہ دیا
اور جتنا کہ نہا دھو کر مسجد میں جا کے جمعہ پڑھنا آسان ہے، اسے بھی اتنا ہی آسان نہ بنایا،
اگر ہم نے زنا کی طرف جانے والے راستوں کا سدباب نہ کیا، اور اسے موجودہ حالات میں اتنا ہی مشکل نہ بنایا جتنا کہ دوسری شادی مشکل ہے
تو ریپ کے مجرم دندناتے رہیں گے
جبکہ بغیر اجازت دوسری شادی والے سلاخوں کے پیچھے ہوں گے
تو گھروں میں بیٹیوں کے لئے رشتوں کی بجائے دوستی کے پیغام آیا کریں گے
تو بیٹیاں پھولوں سے سجی گاڑی میں حجلہ عروسی کی بجائے تاریک شیشوں والی کار میں ڈیٹ پر جایا کریں گی
تو بیٹے شادیوں کی بجائے افیئرز اور بیویوں کی بجائے گرل فرینڈز رکھا کریں گے
تو شوہر اپنے دفتروں میں معاشقے چلاتے رہیں گے
او ر نیو ایئر نائٹ، ویلنٹائین ڈے، ہیلوئین، اور چاند رات جیسے تہوار جنسی ہوس کی تسکین کی علامات بنے رہیں گے
واللہ یہ آگ ہر اس گھر میں پہنچے گی جو دین فطرت کے اٹل قانون سے منہ موڑے گا اور وہ وقت آ کر رہے گا جب اس مقدس سرزمین پر بھی ولدیت کے خانے میں لکھا نام مشکوک ہو جائے گا
(نعوذباللہ من ذالک)
اس تحریر کو شیئر کرنے میں اپنا کردار ادا کریں . تاکہ ھر فرد کو یہ پیغام پہنچ جائے، شیئر کی صورت میں تعاون، آپکے تعاون کوالله تعالی قبول فرمائے آمین۔
Leave a Reply
You must be logged in to post a comment.