لاعلاج بیماریوں کا حقیقی علاج صرف عبادات میں
قرآن کریم کی دوسری آیات سر چشمہ صحت کی رہنمائی کرتی ہے۔ ”وَنُنَزِّلُ مِنَ القُراٰنِ مَا ھُوَ شِفَآئ وَّرَحمَة لِّلمُومِنِینَ“ اور ہم قرآن میں ایسی چیزیں نازل کرتے ہیں جو ایمان والوں کے حق میں شفا اور رحمت ہیں۔ (سورة بنی اسرائیل82)۔یہاں یہ بات خاص طور پر توجہ طلب ہے کہ مسلمانوں کا ایمان بلکہ یقین ہے کہ مصیبت من جانب اللہ ہی ہے اور جب ہم سچے دل اور خلوص نیت سے غلطیوں کا اعتراف کر کے معافی کے طالب ہونگے اور مکمل صحت یابی کیلئے دعا کریں گے تو وہ یقینا اللہ تعالیٰ کے ہاں مغفرت بھی کرائے گی اور اپنی رحمت سے ہماری مشکلات اور مصائب کو دور بھی کردے گا۔ علاج بالتہجد ایک نفسیاتی طریقہ علاج ہے جس کی تعلیمات قرآن سے ماخوذ ہیں اوربحیثیت تقابل یہ مغربی طریقہ علاج کو پاس پھٹکنے نہیں دیتا۔ ایک مسلمان کا یہ یقین کامل ہے کہ وہ صرف اللہ ہی کا ایک ادنیٰ غلام ہے اور زندگی اور موت صرف اسی کے قبضہ قدرت میں ہے ۔ اسے زندگی کے گوناگوں ہنگاموں میں بہت سے مسائل سے یکسر نجات دے دیتا ہے۔ یہ مذہبی طریقہ علاج جو احادیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اور آیات قرآنی سے مستعار لیا گیا ہے واقعتاً بہت سی دوسری نفسیاتی اور غیر نفسیاتی تکالیف کا منہ
توڑ جواب ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ کوئی بھی بیماری لا علاج نہیں جیسا کہ مندرجہ ذیل حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے۔ ”لکل داءدوائ“
اللہ تعالیٰ نے مریض کے لئے شفا عطا فرمائی ہے۔ بہت سی بیماریاں ایسی ہیں جن کا علاج ابھی تک دریافت نہیں ہوا یعنی سرطان اور ایڈز وغیرہ لیکن مندرجہ بالا حدیث کے آئینے میں یہ بات سو فیصد وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ یہ بیماریاں بھی لا علاج نہیں۔ لہٰذا نفسیاتی بیماریوں کا بہترین علاج سکون قلب میں مضمر ہے جو ذکر الٰہی اور نماز کے ذریعے ممکن ہے تا کہ روحانی اور نفسیاتی صفائی و پاکیزگی کا موجب بنے۔ درحقیقت ہم کسی بھی بیماری کی احتیاط اور روک تھام کیلئے اسلام کے صراط مستقیم پر ثابت قدم رہ کر سرخرو ہو سکتے ہیں۔ جیسا کہ آیات قرآنی، احادیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اور سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے۔اوقات نماز اورجدید سائنس
انسان طبعی طور پر محرک جسم ہے یہ جامد اور ساکت اجسام کی ضد ہے۔ اس لئے اس کی صحت ، تندرستی اور بقا تحریک میں ہے اور نماز بار بار اسی تحریک کا نام ہے۔ قدرت نے اس کے معمولات زندگی اور اس کو ازل سے ابد تک جانتے اور پہچانتے ہوئے نماز میں اس کیلئے اوقات اور وقفے مقرر کیے ہیں۔نماز فجر
نماز فجر اس وقت ہوتی ہے جب رات ڈوبنے کو ہوتی ہے اور اس وقت آدمی رات کے سکون اور آرام کے بعد اٹھتا ہے۔ سائنس اور حفظان صحت (Hygiene)کا اصول ہے کہ کسی بھی ورزش کو کرنے کیلئے آہستہ آہستہ اپنی رفتار، قوت اور لچک میں اضافہ کیا جائے حتیٰ کہ دوڑنے کیلئے بھی یہ ضروری ہے کہ اس میں پہلے آہستہ آہستہ دوڑیں پھر تیز پھر اور تیز اور پھرسبک رفتار بن جائیں۔ اب اگر انسان صبح اٹھتے ہی ستر ہ رکعات کی نماز پڑھے تو اس کی جسمانی صحت بہت جلد ختم ہو جائے گی اور وہ بہت ہی جلد اعصاب اور بے طاقتی کا مریض بن جائے گا۔ اور پھر رات سونے بعد صبح اٹھتے ہی پیٹ خالی ہوتا ہے اور خالی پیٹ اور اس وقت جب اعضاءرات بھر سکون میں رہے ہوں اور پھر فوراً انہیں تحریک دی جائے دونوں حالتوں میں سخت محنت اور زیادہ اٹھک بیٹھک بہت مضر ہے اس لئے اللہ رب العزت نے صبح کی نماز بہت مختصر رکھی ہے۔ صبح کی نماز کا بنیادی مقصد انسان کو طہارت (Sterilization) اور صفائی کی طرف مائل کرنا ہے اگر اس اس نے نما ز کا وضو نہ کیا اور مسواک نہ کی اور صبح کا ناشتہ کر لیا تو رات بھرجو جراثیم منہ میں پھلتے پھولتے رہے (اور ان(Bacteria)کی ایک خاص قسم رات سوتے وقت منہ میں پیدا ہو جاتی ہے) اگر وہ غذا، لعاب یا پانی کے ذریعہ اندر چلی جائے تو معدے کی سوزش (Stomach Swelling) اور آنتوں کی ورم (Inflammation of Intestines)اور السر (Ulcer) کے خطرات بڑھ جاتے ہیں۔
توڑ جواب ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ کوئی بھی بیماری لا علاج نہیں جیسا کہ مندرجہ ذیل حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے۔ ”لکل داءدوائ“
اللہ تعالیٰ نے مریض کے لئے شفا عطا فرمائی ہے۔ بہت سی بیماریاں ایسی ہیں جن کا علاج ابھی تک دریافت نہیں ہوا یعنی سرطان اور ایڈز وغیرہ لیکن مندرجہ بالا حدیث کے آئینے میں یہ بات سو فیصد وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ یہ بیماریاں بھی لا علاج نہیں۔ لہٰذا نفسیاتی بیماریوں کا بہترین علاج سکون قلب میں مضمر ہے جو ذکر الٰہی اور نماز کے ذریعے ممکن ہے تا کہ روحانی اور نفسیاتی صفائی و پاکیزگی کا موجب بنے۔ درحقیقت ہم کسی بھی بیماری کی احتیاط اور روک تھام کیلئے اسلام کے صراط مستقیم پر ثابت قدم رہ کر سرخرو ہو سکتے ہیں۔ جیسا کہ آیات قرآنی، احادیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اور سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے۔اوقات نماز اورجدید سائنس
انسان طبعی طور پر محرک جسم ہے یہ جامد اور ساکت اجسام کی ضد ہے۔ اس لئے اس کی صحت ، تندرستی اور بقا تحریک میں ہے اور نماز بار بار اسی تحریک کا نام ہے۔ قدرت نے اس کے معمولات زندگی اور اس کو ازل سے ابد تک جانتے اور پہچانتے ہوئے نماز میں اس کیلئے اوقات اور وقفے مقرر کیے ہیں۔نماز فجر
نماز فجر اس وقت ہوتی ہے جب رات ڈوبنے کو ہوتی ہے اور اس وقت آدمی رات کے سکون اور آرام کے بعد اٹھتا ہے۔ سائنس اور حفظان صحت (Hygiene)کا اصول ہے کہ کسی بھی ورزش کو کرنے کیلئے آہستہ آہستہ اپنی رفتار، قوت اور لچک میں اضافہ کیا جائے حتیٰ کہ دوڑنے کیلئے بھی یہ ضروری ہے کہ اس میں پہلے آہستہ آہستہ دوڑیں پھر تیز پھر اور تیز اور پھرسبک رفتار بن جائیں۔ اب اگر انسان صبح اٹھتے ہی ستر ہ رکعات کی نماز پڑھے تو اس کی جسمانی صحت بہت جلد ختم ہو جائے گی اور وہ بہت ہی جلد اعصاب اور بے طاقتی کا مریض بن جائے گا۔ اور پھر رات سونے بعد صبح اٹھتے ہی پیٹ خالی ہوتا ہے اور خالی پیٹ اور اس وقت جب اعضاءرات بھر سکون میں رہے ہوں اور پھر فوراً انہیں تحریک دی جائے دونوں حالتوں میں سخت محنت اور زیادہ اٹھک بیٹھک بہت مضر ہے اس لئے اللہ رب العزت نے صبح کی نماز بہت مختصر رکھی ہے۔ صبح کی نماز کا بنیادی مقصد انسان کو طہارت (Sterilization) اور صفائی کی طرف مائل کرنا ہے اگر اس اس نے نما ز کا وضو نہ کیا اور مسواک نہ کی اور صبح کا ناشتہ کر لیا تو رات بھرجو جراثیم منہ میں پھلتے پھولتے رہے (اور ان(Bacteria)کی ایک خاص قسم رات سوتے وقت منہ میں پیدا ہو جاتی ہے) اگر وہ غذا، لعاب یا پانی کے ذریعہ اندر چلی جائے تو معدے کی سوزش (Stomach Swelling) اور آنتوں کی ورم (Inflammation of Intestines)اور السر (Ulcer) کے خطرات بڑھ جاتے ہیں۔