عورتوں میں اس مرض کی ذمہ داری زیادہ تر ایسے مردوں پر ہوتی ہے جو ”سیکس” کے بارے میں کچھ نہیں جانتے اور جو اپنی لا علمی کی وجہ سے اپنی جنسی زندگی کو بجائے پرلطف بنانے کے ہمیشہ کے لئے اجیرن بنا لیتے ہیں اور عورت کے شہوانی جذبات کو سمجھے اور جنسی لحاظ سے تیار کئے بغیر ہی جماع شروع کر دیتے ہیں اور اس چیز کا خیال رکھے بغیر کہ عورت منزل ہوئی ہے کہ نہیں فوری طور پر اپنے انزال کے بعد جلد از جلد الگ ہو جاتے ہیں اس طرح غیر مطمئن عورت دھیرے دھیرے اپنی پوری تسلی نہ ہونے کی آگ میں جل کر ٹھنڈی ہو جاتی ہے اور بعد ازاں جنسی سرد مہری’ لیکوریا’ ہسٹریا’ بے خوابی’ سردرد کمر درد اور دیگر کئی امراض میں مبتلاء ہو جاتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔جنسی کمزوری اور بے رغبتی مردوں ہی میں نہیں ہوتی عورتوں میں بھی یہ شکایت عام ہوتی ہے جسے سر مہری کا نام دیا جاتا ہے اور انگریزی مین اسے Frigidity کہتے ہیں یہ تبدیلی خاص طور پر بچے کی پیدائش کے بعد آتی ہے اور اکثر شوہر اپنی بیویوں سے یہی عذر سنتے ہیں کہ وہ بچے کی وجہ تھکن اور دباؤ کا شکار رہتی ہیں ۔
یہ بات کسی حد تک درست ہوتی ہے لیکن اس کی اصل وہ زچگی کے بعد عورت کے جسم میں بننے والا ہامون پروفیکشن (Prolactin) ہوتا ہے اس کی وجہ سے ماں کے جسم میں بچے کے لیے دودھ کی تیاری کا عمل تیز ہوتا ہے۔لیکن اس ہارمون سے اس میں ملاپ کی خواہش بھی سو جاتی ہے اس خواہش میں کمی کے اور بھی کئی اسباب ہو سکتے ہیں اور اب چوں کہ پڑھی لکھی خواتین بھی اس تبدیلی کے اسباب سمجھنے کی خواہاں ہیں سائنس دان بھی ان کی کھوج میں لگے ہوئے ہیں اور وہ اس سلسلے میں رہنما اصول پیش کرنے کے موقف میں آگئے ہیں ۔ یہ اصول یا ہدایات یہ ہیں ۔
ہارمونز میں توازن رکھیے
جنس اور ہارمونز میں بڑا گہرا باہمی تعلق ہوتا ہے جنسی خواہش میں کمی کا ایک بڑا اہم سبب یاس سے تعلق رکھتا ہے ۔ 40 سال عمر کے بعد تقریباََ ہر عورت میں ہارمونی توازن بگڑے لگتا ہے بعض خواتین میں ہارمون کی کمی کے ساتھ ان میں جنسی خواہش بھی گھٹنے لگتی ہے ۔ زمانہ ہارمون ایسٹروجن کی کمی کے نتیجے میں اندام نہانی میں خشکی ہونے لگتی ہے اور لطف کی کیفیت اور سطح بھی کم ہو جاتی ہے ۔
اس صورت حال کا علاج ہو سکتا ہے طب جدید اس کے لیے ظبط تولید (برتھ کنٹرول) کی گولیوں کی کم خوراک استعمال کرنے کا مشورہ دیتی ہے یا پھر اسٹروجن ہارمون کی گولیاں تجزیز کرتی ہے ۔ ہارمونز کی کمی دور کرنے کا یہ طریقہ ایچ آر ٹی (ہارمون رپلیمنٹ تھراپی) کہلاتا ہے ۔اس سے جسم میں زنانہ ہارمون کی کمی دور ہوتی ہے اور جنزی خواہش بھی برقرار رہتی ہے ۔ طب اسلامی میں اس مقصد کے لیے جو دوائیں تجویز کی جاتی ہیں ان میں لیوب کبیر قابل ذکر ہے ہارمونی علاج صرف معالج کے مشورے سے کروانا چاہیے۔
بھر پور نیند لیجئے
یہ بات بالکل درست ہے کہ نیند جسم و جان کے لیے بہت ضروری اور نہایت مفید مرہم ہوتی ہے ۔ نیند سے محرومی کے مرد اور عورت دونوں ہی بڑے مضر اثرات مرت ہوتے ہیں نیند کی کمی سے جنسی صلاحیت اور خواہش پر بڑے خراب اثرات پڑتے ہیں ۔اس کا علاج بہت آسان اور بالکل سستا ہے ۔ سات سے نو گھنٹوں کی بھر پور نیند لینی چاہیے ۔بے خوابی کی شکایت ہو تو اسے دور کرنے کی معلوم تدابیر سے کام لینا چاہیے ۔ نیند کے معمول میں باقاعدگی کی جنسی صلاحیت اور خواہش کے لیے بہت اہم ہوتی ہے اس کی ایک مفید تدتدبیر ہفتے میں کم از کم تین روز کی ایروبک ورزشیں بھی ہیں ۔ روزانہ 20 منٹ تک یہ ورزشیں گہری اور میٹھی نیند کا سامان کرتی ہیں اور یہ آپ جانتے ہی ہیں کہ ان میں سائکلنگ ‘جوکنگ ‘تیز قدمی پیرا کی اور مختلف کھیل شامل ہوتے ہیں ۔ اسی طرح بے خوابی سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ سونے سے آٹھ گھنٹے پہلے کیفین یعنی کافی کولا مشروبات اور چائے وغیرہ کا استعمال نہ کا جائے اسی طرح خوب پیٹ بھر کر کھانا کھا کر بھی نہیں سونا چاہیے۔
سوجھ بوجھ کے ساتھ ورزش کیجئے
تحقیق اور مطالعوں سے ثابت ہو گیا ہے کہ جو مردو خواتین روزانہ ایک گھنٹے تک ورزش کرتے ہیں ان کی جنسی طاقت اور صلاحیت میں نمایاں اضافہ ہو جاتا ہے۔
مگر یہ بات بھی درست ہے کہ بہت زہادہ اور بہ کثرت ورزش کے اس صلاحیت پر خراب اثرات بھی مرتب ہوتے ہیں سخت ورزش کی وجہ سے مردوں کے جسم میں مردانہ ہارمون ٹیسٹو سٹیرون کی سطح کم ہو جاتی ہے اسی طرح سخت ورزش کی وجہ سے جن خواتین کے ہاں ایم نہیں آتے ان کی اندام نہانی میں خشکی ہو جاتی ہے۔
سخت ورزش کے ساتھ پر ہیزی غذا (ڈائٹنگ )کھانے والی خواتین میں بھی جنسی خواہش سر پڑ جاتی ہے تحقیق سے ثابت ہو ا ہے کہ دماغ میں تیار ہونے والے نیورو پئیانڈ (Neuropeptide) نامی کیمیائی جوہر سے بھوک تو کم ہو تی ہے اس سے جنسی خواہش بھی گھٹ جاتی ہے۔ ورزش سے عمدہ نتائج اور فوائد حاصل کرنے کے لیے بہتر یہی ہے کہ اعتدال سے کام لیا جائے ابتدا کم ورزش سے کی جائے اور اس میں بتدریج اضافہ کرنے کے بعد اس معمول کو برقرار رکھا جائے اس کے علاوہ جسم میں چربی کی صحت مند سطح برقرار رکھنے کے لیے سوجھ بوجھ کے ساتھ حرارے استعمال کیے جائیں یعنی بالکل سوکھ کر کانٹا بننے کی کوشش ہر گز نہ کی جائے ۔