مباشرت یعنی فریضہ زوجیت ایک صدقہ ہے۔ میاں بیوی کے درمیان الفت بڑھانے اور نسل انسانی کے تحفظ کا ضامن یہ عمل کوئی شجر ممنوعہ نہیں کہ اپنے مسائل کا حل تلاش کرنے کے لئے اس بارے میں بات کرنا بے شرمی کی بات سمجھی جائے۔ جائز حدود میں رہ کر جنسی مسائل کو ڈسکس کرنا اور ان کا حل معلوم کر کے اپنی زندگی کو خوشگوار بنانا ہر انسان کا حق ہے۔ یہ ایک المیہ ہے کہ ہماری غیر شرعی معاشرتی اقدار ہمیں ہمارے اس جائز حق سے محروم رکھے ہوئے ہیں۔
اسلام کی تعلیمات میں جابجا جنسی معلومات دی گئی ہیں۔ قرآن و حدیث کی بے شمار نصوص میاں بیوی کے تعلق کو نہ صرف واضح کرتی ہیں بلکہ مباشرت کے جائز اور ناجائز طریقوں سے بھی آگاہ کرتی ہیں۔ نہایت افسوس کی بات ہے کہ جیسے ہم نے اسلام کی روحانی تعلیمات کو پس پشت ڈال دیا اسی طرح اسلام کی ان تعلیمات کو بھی بے شرمی کی باتیں قرار دیتے ہوئے ان سے بھی صرف نظر شروع کر دیا جو ایک مسلمان کے تکمیل ایمان کی ضامن ہیں۔ من گھڑت شرم و حیاء کا لیبل جہاں ایک طرف متبعین شریعت کو ضروری جنسی معلومات کے حصول سے محروم کر دیتا ہے وہیں شریعت کو بوجھ سمجھنے والوں کو جنسی معلومات کے حصول کے لئے شتر بے مہار کی طرح مغرب کی تقلید کے لئے کھلا چھوڑ دیتا ہے۔ یہ دوغلاپن ہمارے معاشرے کو دیمک کی طرح چاٹ رہا ہے۔
مباشرت ایک فطری عمل ہے
جنسی عمل ایک فطری عمل ہے اور فطرت کبھی بے حیاء نہیں ہوتی۔ ہمارے معاشرے میں عام طور پر میاں بیوی کے تعلق پر بات کرنے والوں کو بے حیاء سمجھا جاتا ہے۔ اس کی وجہ سے بہت سے نوبیاہتا جوڑے کسی بڑے سے اپنے جنسی مسائل پوچھنے سے شرماتے ہیں اور یوں ان کے مسائل کے گھمبیر ہوتے چلے جاتے ہیں۔