ہے کہ ایک دماغ میں تقریبا 100 ارب ( ایک کھرب) خلیات پائے جاتے ہیں (یہاں یہ بات واضع رہے کہ یہ صرف ان خلیات کی تعداد ہے جنکو عصبون یا neuron کہا جاتا ہے)۔ اور پھر ان 100 ارب خلیات میں سے بھی ہر ایک ، عصبی تاروں یا ریشوں کے زریعے تقریبا 10000 دیگر خلیات کے ساتھ رابطے بناتا ہے۔
ایک جائزہ
بنیادی طور پر جانداروں کی اکثر انواع کے دماغ (بشمول انسان) کو اگر کاٹ کر دیکھا جاۓ تو یہ اپنی ساخت میں دو الگ رنگوں میں نظر آنے والے حصوں کا مظاہرہ کرتا ہے، ایک حصہ تو وہ ہوتا ہے جو کہ عام طور پر بیرونی جانب (اسکے علاوہ خاکی مادے کے مرکزوں / nuclei میں) پایا جاتا ہے اور خاکی مادے (gray matter) پر مشتمل ہوتا ہے جبکہ دوسرا حصہ وہ ہوتا ہے جو کہ اندر کی جانب ہوتا ہے اور سفید رنگت کا نظر آتا ہے اسے سفید مادہ (white matter) کہتے ہیں۔
خاکی مادے میں دراصل، عصبونات کے جسم (soma) پاۓ جاتے ہیں جبکہ سفید مادے میں عصبونات سے نکلنے والے تار نما ریشے یعنی محوار (axon) پاۓ جاتے ہیں۔ چونکہ محواروں پر چربی کی بنی ہوئی ایک عزلی (insulating) تہـ چڑھی ہوئی ہوتی ہے جسکو میالین (myalin) کہتے ہیں اور اسی چربی کی تہـ کی وجہ سے سفید مادہ ، سفید رنگ کا نظر آتا ہے۔
خاکی مادے سے بنا ہوا دماغ کا بیرونی استر نما حصہ قشرہء مخ (cerebral cortex) کہلاتا ہے۔ جبکہ دماغ کے اندر کا حصہ ؛ axons یعنی محواروں کے ریشوں کے گچھوں ، خاکی مادے کے بنے ہوۓ اجسام اور کچھ خانوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ ان خانوں کو بطین یا ventricles کہا جاتا ہے اور ان میں ایک مائع بھرا رہتا ہے جسکو دماغی نخاعی سیال یا cerebrospinal fluid کہتے ہیں۔
دماغ سے نکلنے والے اعصاب کو دماغی اعصاب کہا جاتا ہے، جو کہ سر اور ملحقہ علاقوں کا دماغ سے رابطہ کرنے کے لیۓ استعمال کیۓ جاتے ہیں۔ جبکہ دماغ کے نچلے حصے سے ایک دم نما جسم منسلک ہوتا ہے جو ریڑھ کی ہڈی میں اتر جاتا ہے اسکو حرام مغز کہتے ہیں، حرام مغز سے نکلنے والے اعصاب کو نخاعی اعصاب کہا جاتا ہے اور یہ تمام جسم کو اعصابی نظام سے منسلک کرتے ہیں۔
وہ اعصابی ریشے جو کہ مرکزی عصبی نظام یعنی دماغ اور حرام مغز سے پیغامات کو جسم کے دوسرے حصوں تک پہنچاتے ہیں انکو صادر (efferent) کہا جاتا ہے اور وہ جو کہ جسم کے مختلف حصوں سے اطلاعات اور حسوں کو دماغ اور حرام مغز میں لے کر آتے ہیں یا وارد ہوتے ہیں انکو وارد (afferent) کہا جاتا ہے۔ کوئی عصب ؛ وارد بھی ہوسکتا ہے ، صادر بھی اور یا پھر مرکب بھی، یعنی کہ اس میں دونوں اقسام کے الیاف یا ریشے پاۓ جایا کرتے ہوں۔
بنیادی طور پر تو یوں کہ سکتے ہیں کہ دماغ جاندار کے اندرونی ماحول میں یکسانیت پیدا کرتا ہے اور اسے بیرونی ماحول سے ہم آہنگ ہونے کی صلاحیت عطا کرتا ہے۔ دماغ ہی ایک جاندار میں ؛ استدلال ، فراست و بصارت اور ذکاء یعنی intelligence کا ممبع ہے۔ یہ ذکاء ، دماغ کے جن اھم خواص سے پیدا ہوتی ہے ان میں ؛ معرفت ، ادراک ، انتباہ ، یاداشت اور جذبات و انفعال شامل ہیں۔ دماغ ہی سے وضع اور حرکات جسم واقع ہوتی ہیں اور دماغ ہی وہ مقام ہے جہاں سے معرفی ، حـرکـی اور دیگر اقسام کے تَعلّـُـم یعنی learning کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے۔
دماغ اپنے افعال کا ایک بڑا حصہ خودکار طور پر اور بلا جاندار کی شعوری آگاہی کہ انجام دیتا رہتا ہے ، مثال کے طور پر حسی نظام کے افعال جیسے ، حسی راہ کاری (sensory gating) اور متعدد حسی اتحاد (multisensory integration) ، چــلنا اور دیگر کئی استتبابی افعال مثلا سرعت قلب، فشار خون، سیالی توازن (fluid balance) اور جسمانی درجہ حرارت وغیرہ۔ یہ وہ چند افعال ہیں جو دماغ جاندار کو احساس ہوۓ بغیر انجام دیتا رہتا ہے۔
اوپر بیان کردہ افعال سمیت کئی دیگر افعال ، دماغ اور حرام مغز کی ھم اہنگ فعالیت (coordinated activity) کے زریعۓ کـنـٹرول کیۓ جاتے ہیں۔ مزید یہ کہ جانداروں کے کئی سادہ رویۓ (behaviors) مثلا reflexes اور بنیادی حرکات وغیرہ ایسے بھی ہیں جو کہ صرف حرام مغز کی سطح پر ہی نبٹا دیۓ جاتے ہیں اور انکے لیۓ عام طور پر دماغ کو مداخلت نہیں کرنا پڑتی۔