اس مرض میں عورت کے اعضا ء توالد و تناسل میں سے کسی عضو میں کوئی مرض ہوتا ہے یا بعض جسمانی عوارض ہوتے ہیں جس کے باعث وہ حاملہ ہونے کی صلاحیت نہیں رکھتی اور اولاد سے محروم رہتی ہے اس مرض میں بعض اوقات مرد کا بھی قصور ہوتا ہے-
اکثر دیکھا گیا ہے کہ بعض عورتوں کو شادی کے چودہ سال بعد یا اس سے بھی دیر میں اولاد ہو گئی بعض عورتوں کے بچے پیدا ہوتے ہوتے آپ ہی بند ہو جاتے ہیں اور پھر کافی عرصے بعد پھر ہونے لگتے ہیں بعض عورتوں کے ویسے ہی لمبے وقفوں کے بعد اولاد ہوتی ہے اور بعض ایسی عورتیں ہوتی ہیں کہ ہر سال حاملہ ہو جاتی ہیں اور بعض عورتیں دو سے سات’ آٹھ بچوں تک اکٹھے پیدا کر لینے کی صلاحیت رکھتی ہیں یہ سب کچھ بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اگر کسی عورت کی شادی کے پانچ چھ سال تک اولاد پیدا نہ ہو اور کوئی مقامی نقص بھی نہ ہو تو اسے بانجھ نہیں سمجھ لینا چاہئے میرے علم میں یہ بات ہے کہ ایک عورت کے ہاں چار پانچ سال سے اولاد نہیں ہو رہی تھی اس کے خاوند نے اسے طلاق دے دی اور اس عورت نے کچھ عرصہ بعد دوبارہ نکاح کر لیا اللّہ تعالیٰ نے ایک سال بعد ہی اسے چاند سا بیٹا عطا کر دیا-
ماہواری عورتوں میں تقریبًا بارہ سال سے شروع ہو کر کم و بیش پینتالیس سال کی عمر تک جاری رہتی ہے جب تک ماہواری آ رہی ہو تو عورت بجا طور پر کسی نہ کسی وقت حاملہ ہو سکتی ہے لیکن صرف ماہواری آ نے کا یہ مطلب بھی نہیں کہ وہ عورت کوئی نقص نہیں رکھتی اور بغیر علاج کے بار آور ہو سکتی ہے- بعض اوقات مرد کسی خاص عورت کے ساتھ موافقت نہیں رکھتے جیسا کہ آر ایچ فیکٹر میں ہوتا ہے بانجھ پن کی دیگر وجوہات میں رحم کا چھوٹا ہونا’ ٹیوبوں کا بند ہونا’ رحم کی رسولی رحم کی سوزش’ نابالغ عورت’ سن یاس’ مرد کی منی کی کمزوری (سپرم نہ ہونا’ آتشک سوزاک) وغیرہ شامل ہیں- اگر کوئی مقامی نقص قابل سرجری نہ ہو تو یونانی طریق علاج سے اس مرض کا کامیاب علاج یقینًا متوقع ہے۔۔۔۔۔۔۔