اونٹ کا گوشت کھانے سے کئی بیماریاں دور ہوجاتی ہیں
اونٹ کا گوشت بخار ‘عرق ا لنساء (شیاٹیکا) کالا یرقان ‘ہیپاٹائیٹس سی اوراعصابی وجسمانی کمزوری کا بہترین علاج ہے
لاہور:اونٹ کا گوشت عام طور پر شاذونادر ہی ملتا ہے لیکن عید قربان پر یہ گوشت بھی وافر مقدار میں ہوتا ہے اور جنہیں یہ گوشت میسر آجائے وہ بہت سی امراض سے بچ سکتے ہیں ۔افادہ ِعام کیلئے مرکزی سیکرٹری جنرل کونسل آف ہربل فزیشنزپاکستان اور یونانی میڈیکل آفیسرحکیم قاضی ایم اے خالد نے اونٹ کے گوشت کے فوائد سے آگاہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اونٹ کا گوشت پرانے بخار ‘عرق النساء (شیا ٹیکا ) سیاہ یرقان ‘ہیپا ٹائٹس سی اور پیشاب کی جلن میں مفید ہے اعضائے رئیسہ کی طاقت اور تقویت باہ کیلئے بھی مستعمل ہے ۔اعصابی کمزوری اور جسمانی کمزوری میں فائدہ مند ہے ۔ مذکورہ بالا فوائد حاصل کرنے کیلئے اس کی مقدار خوراک ایک سو گرام ہے بواسیر کیلئے اونٹ کی چربی کا لیپ انتہائی مفید ہے ۔ لہٰذاعید الا ضحی پر اگر یہ گوشت مل جائے تو اس سے استفادہ حاصل کرنے کا موقع ہاتھ سے جانے نہ دیا جائے……NO.3…دنیا بھر میں طب ِیونانی سے علاج معالجہ کا رجحان بڑھ رہا ہے
القمرآن لائن
طب یونانی جسے طب ِمشرقی اور طبِ اسلامی بھی کہا جاتاہے’ کے تحت جڑی بوٹیوں سے علاج کی افادیت زمانہ قدیم سے مسلمہ ہے۔ترقی پذیر اور ترقی یافتہ دونوں ممالک ہی اب اس سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔جدید اینٹی بایوٹک ادویات کی افادیت سے کسی طور انکار نہیں کیا جاسکتا۔لیکن ان کے استعمال سے بعض اوقات انسانی جسم پر سخت مضراثرات پڑتے ہیں جن سے تکلیف میں کمی کی بجائے مزید اضافہ ہوجاتاہے یا کوئی اور بیماری آلیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج اس ایٹمی دور میں پوری دنیا کے لو گ دوبارہ جڑی بوٹیوں کے فطری اور بے ضرر علاج کی طرف متوجہ ہور ہے ہیں کیونکہ طبِ یونانی( اسلامی )یا ہر بل سسٹم آف میڈیسن میں ادویات کا استعمال موسم’ عمر اور مزاج کو مد نظر رکھ کر کروایاجاتاہے جسکی وجہ سے ان دیسی ادویات کے کسی قسم کے سائیڈ ایفیکٹس نہیں ہوتے۔
ورلڈہیلتھ آرگنائزیشن (WHO)کی رپورٹ کے مطابق جدید میڈیکل سائنس کی بے پناہ ترقی کے باوجود دنیا کی 86فیصد آبادی ہربل ادویات استعمال کر رہی ہے جبکہ اقوام متحدہ کے فنڈبرائے آبادی کے مطابق پاکستان کی 76فیصد آبادی مختلف امراض کے سلسلے میں طب یونانی کی ہربل میڈیسنز کا استعمال کرتی ہے۔اس وقت پاکستان، بھارت، سری لنکا، برما، چین اور بنگلا دیش سمیت کئی ترقی یافتہ ممالک میں بھی اس طریقہء علاج کو سرکاری سرپرستی حاصل ہے جرمنی میں بچوں کا علاج ہر بل میڈیسنز سے کیا جارہا ہے اس سلسلے میں وہاں سونف کا استعمال کثرت سے کیا جاتاہے۔سعودی عرب میں جڑی بوٹیوں کے دواخانے ”عطارہ” کے نام سے چل رہے ہیں۔ اور مدینہ یونیورسٹی میں طب اسلامی کا ایک باقاعدہ شعبہ تدریس وتحقیق موجود ہے۔برطانیہ میں کئی فرمیں مختلف جڑی بوٹیوں سے دمہ، کھانسی، یرقان، پتھری، گنٹھئے اور بواسیر سمیت کئی اور امراض کے علاج کے لیے ادویات تیار کررہی ہیں۔ روس اور چین میں کینسر، بھگندر، بواسیر، بلڈپریشر، آنتوں ومعدہ کی امراض، اور دل کی شیریانوں میں خون کے انجماد کو روکنے کے لیے ہر بل میڈیسنز کا استعمال کیاجارہاہے۔ان کی مسلمہ افادیت کے پیش نظراب یہ ادویات یورپ میں بھی ایکسپورٹ ہو رہی ہیں۔
دماغی امراض کے لیے لہسن سے ”روسی پنسلین” نامی دواتیار کی گئی ہے۔امریکہ میں جگہ جگہ نیچرل فوڈز کے اسٹور قدرتی جڑی بوٹیاں بھی فراہم کر رہے ہیں۔ان میں ملٹھی، تلسی اور گائوربان سے کف سیرپ تیار کئے جاتے ہیں۔جو امریکہ میں ایلوپیتھک کف سیرپ کی بہ نسبت زیادہ مقبول ہیں۔پیٹ کے امراض کے لیے سونف، الائچی، اور پودینہ سے تیار کردہ”ہربل ٹی” کا استعمال امریکہ کے گھر گھر تک پہنچ چکا ہے۔ اسی طرح جو کی ہر بل ٹی بہت پی جاتی ہے۔ سوئٹرز لینڈ میں نزلہ وزکام کے لیے بنفٹہ کی جائے بہت پی جاتی ہے گائوزبان، میں گائوزبان سے دل کے امراض کا علاج کیاجارہا ہے۔فلپائن اور ویت نام میں جڑی بوٹیوں کو صحت کے لیے مفید اور لازمی قرار دے کر ان سے دوائیں بنانے کاکام شروع کر دیا گیا ہے اور ہر ویت نامی کوتاکید کی گئی ہے کہ وہ کم از کم دس جڑی بوٹیوں کی پہنچان رکھے تاکہ انہیں گھریلوعلاج میں دشواری پیش نہ آئے۔میرے چائنہ کے مطالعاتی دوروں کی تعداد چار ہے اس دوران میں نے وہاں نوے فیصد چائنیز کو ہر بل میڈیسنز سے علاج کرواتے دیکھا مشہور زمانہ جڑی بوٹی ”جن سنگ” وہاں کو لڈڈرنکس، پائوڈر اور چائے کی شکل میں بے انتہا استعمال ہوتی ہے اسی طرح اس کے کیپسول، ایمپوئل اور دیگر ادویات کی بے شمار ورائٹی ہے۔ اس وقت چین میں کم وبیش دوسو سے زائد لیبارٹریز میں جڑی بوٹیوں پر تحقیق ہو رہی ہے اور ان کی کاشت کے لیے ہر گائوں میں ایک قطعہ زمیں مخصوص کیا گیا ہے اس طرح چین نے ہر بل ادویات کے لیے خام مال یعنی دیسی جڑی بوٹیوں کی پیداوار میں اپنے ملک کو مکمل طورپر خودکفیل بنالیا ہے۔چائنہ میں سرکاری سطح پر ہربل سسٹم آف میڈیسن کے باقاعدہ بیسیوں ہسپتال، طبی تعلیم کے بے شمار کالج اور تحقیقی مراکز قائم کئے جاچکے ہیں۔ چینی طب اور طب اسلامی میں گہری مماثلت ہے اسکا مشاہدہ کرتے ہوئے سابق وزیر اعظم پاکستان ذوالفقار علی بھٹومرحوم کی پاکستان طبی کانفرنس کے ایک وفد کو کہی ہوئی باتیں یاد آئیں جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ”میں غریبوں کا بڑاہمدرد ہوں اور چونکہ طب اسلامی سے زیادہ غریب لوگ استفادہ کرتے ہیں،لہٰذا میں طب اسلامی کی ترقی اور تحقیق میں پورا تعاون کروں گا میری زندگی غریب عوام کے لیے وقف ہے چینی طب، طب اسلامی سے ملتی جلتی ہے لہٰذا چین اور پاکستان اس سلسلے میں بھی تعاون کریں گے۔” لہسن جیسی کم خرچ قدرتی دوا سے پچیدہ امراض بلڈپریشر، شوگر، کینسر، انجائنا اور انجماد خون وغیرہ جیسے کئی امراض کی ادویات چائنہ تیار کررہا ہے چینی ماہرین اور ہربل فزیشنز نے ملک میں پیدا ہونے والی جڑی بوٹیوں پر ریسرچ کرنے کے بعد مختلف بیماریوں کاکامیاب علاج دریافت کرکے اور یورپی ایلوپیتھک ادویات کی کھپت کم سے کم کرکے صحت کے شعبہ میں خود انحصاری کی راہ اپنائی ہے۔ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (WHO)نے بھی تمام ملکوں کی حکومتوں کو مشورہ دیا ہے کہ وہ اپنے اپنے علاقوں میں مقامی جڑی بوٹیوں سے علاج کرنے والوں کی حوصلہ افزائی کریں اور انہیں ترقی دے کر اپنا مسئلہ صحت حل کریں۔عالمی ادارہ صحت کی اس اپیل کے جواب میں چین، روس، کوریا، ملائشیا، سعودی عرب، کویت، انڈونیشیا، مصر، سری لنکا، برما، سوڈان، نیپال اور ہندوستان نے جڑی بوٹیوں سے آراستہ روائیتی طریقہ علاج کو اپنے پرائمری ہیلتھ کیئرپروگراموں میں شامل کیا ہوا ہے ان ممالک میں ملکی طب سے استفادہ کے لیے حکومتی سطح پر طبی تعلیمی ادارے، تدریسی ہسپتال اور دیسی جڑی بوٹیوں کے تحقیقی ادارے قائم ہیں اور مفت میں ملنے والی ملکی جڑی بوٹیوں پر ریسرچ کرکے مسئلہ صحت کو حل کرنے کی طرف خصوصی توجہ دی جارہی ہے۔اس سلسلے میں عالمی ادارئہ صحت کے مرکزی آفس میں دیسی طب کا ایک الگ شعبہ باقاعدہ طورپر دن رات کام کر رہاہے۔یورپی اور ترقی یافتہ ممالک سمیت دنیا بھر کے ایلوپیتھک اور دیگر طریقہ ہائے علاج کے ڈاکٹرزاب جڑی بوٹیوں کی افادیت کے قائل ہو چکے ہیں اور خود بھی ہربل میڈیسنز پر ریسرچ نیز ان کی پریکٹس بھی کر رہے ہیں۔
پاکستان میں ٹریڈ یشنل میڈیسن طب یونانی کو 1976ء میں (WHO) نے مسلمہ طریق علاج کی حیثیت سے تسلیم کیا اس وقت چھوٹے بڑے شہروں میں سینکڑوں سرکاری و غیر سرکاری اور نجی ایلوپیتھک ہسپتالوں اور کلینکس قائم ہونے کے باوجود آج بھی پاکستان کے دور دراز علاقو، دیہاتوں کی واضح اکثریت (عالمی اداروں کے مطابق 76%)عام اور پچیدہ ومہلک /امراض مثلاََ یرقان، کالایرقان (ہیپاٹائیٹس بی، سی وغیرہ) جگر کے امراض’ دمہ، کالی کھانسی، السر اور معدہ کے دیگر امراض وغیرہ کے لیے اطبائے کرام سے رجوع کرتی ہے اگرچہ ملک کے طول وعرض میں میں ایسے نام نہادحکماء بھی موجود ہیں جو ان کو الیفائیڈ ہونے کے باوجود لوگوں کی زندگیوں سے کھیل رہے ہیں یہ عطائی حکماء قانون میں سقم کی وجہ سے گرفت میں نہیں آتے۔ بہرحال ملک میں کوالیفائیڈ اور سند یافتہ اطباء کی بھی کمی نہیں۔
نیشنل کونسل فارطب وفاقی وزارتِ صحت حکومت پاکستان سے رجسٹرڈاطباء کی تعداد 55455ہے جن میں سے پنجاب میں 34850، سندھ میں 16800صوبہ سرحد میں 2850بلوچستان میں 475اور آزار کشمیر میں بھی 475اطباء پریکٹس کررہے ہیں ملک میں خاتون طبیبائوں کی تعداد 5500ہے اس وقت وطن عزیز میں کل رجسٹرڈ مطب 44200ہیں جبکہ 2550افراد کے لیے ایک رجسٹرڈ طبیب موجود ہے نیشنل کونسل فارطب سے منظور شدہ اکتیس (33)طبیہ کالجز میں کم وبیش 7000سے زائد طلباء وطالبات طب یونانی’ اسلامی کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں ان طبیہ کالجز سے ہرسال 1200سے 1500طبیب اور لیڈی طبیبائیں فارغ التحصیل ہوتے ہیں جن میں سے 60فیصد 6ماہ ہائوس جاب کرکے کونسل سے رجسٹریشن کرواتے ہیں نیشنل کونسل فارطب کو ان 31طبیہ کالجز کے لیے سالانہ پندرہ لاکھ کی گرائٹ ملتی ہے جو اوئٹ کے منہ میں زیرے کے مصداق اور صرف تین ایم بی بی ایس ایلوپیتھک ڈاکٹر بنانے کے خرچ کے مطابق ہے۔
یہ بات بھی دلچسپی کی حامل ہے کہ ملک میں موجود میڈیکل کالجز وزارتِ تعلیم کے تحت ہیں جبکہ طب یونانی اسلامی کی تعلیم وفاقی وزارت صحت کے دائرہ انتظام میں ہے پاکستان میں سالانہ طب یونانی کی ادویات اور جڑی بوٹیوں کی فروخت کی مالیت کا اندازہ 150ملین روپے ہے جبکہ یورپی ممالک میں 6500ملین ڈالر سالانہ، ایشیاء میں 2300ملین ڈالر، شمالی امریکہ میں 1500ملین ڈالر اور امریکہ میں سالانہ 40ملین ڈالر مالیت کی ہر بل میڈیسنز کا استعمال کیاجاتاہے پاکستان میںطب یونانی کی ہر بل میڈیسنز تیار کرنے والے چھوٹے بڑے 400ادارے کام کررہے ہیں۔جن میں سے 86ادارے پاکستان طبی فارماسیوئیکل مینوفیکچرنگ ایسوسی ایشن (PTPMA)سے رجسٹرڈ ہیں جن میں سے پنجاب میں 61، سندھ میں 23سرحد میں ایک اور بلوچستان میں بھی ایک ادارہ کام کررہا ہے۔ جبکہ ان ادویات پر ریسرچ کرنے والے اداروں کی تعداد 8ہے پاکستان میں ہر سال تقریباََ 29ملین روپے کی یونانی ادویات اور جڑی بوٹیاں قانونی اور غیر قانونی طریقہ سے درآمد کی جاتی ہیں جبکہ 245ملین روپے سالانہ کی ہر بل میڈیسن اور جڑی بوٹیاں قانونی اور غیر قانونی طریقے سے ملک سے باہر جاتی ہیں۔یہاں یہ امرقابل ذکر ہے کہ طب یونانی کو فروغ دے کر اور طبی ادویات کی قانونی طورپر برآمد سے پاکستان کروڑوں ڈالر کارزمبادلہ کما سکتاہے جس سے وطن ِعزیز معاشی طورپر مستحکم ہوگا۔لہٰذا اس سلسلے میں حکومت صنعت طبی دواسازی کی سرپرستی کرے اور اس سلسلے میں ایک مسودہ قانون بعنوان ”طب یونانی’آریوویدک’ ہومیوپیتھک’ہربل اور نان ایلوپیتھک میڈیسن ایکٹ ” جوکہ پارلیمنٹ میںقانون سازی کا منتظرہے’ میں جوترامیم اور تنسیخ عوامی مفاد نیز صنعت طبی دواسازی کے مفاد میں اطبائے پاکستان اور دیگر طبی تنظیموں نے پیش کی ہیں انہیں اس مسودہ میں شامل کیا جائے تاکہ یہ قانون سہل اور قابل ِعمل بن جائے اور ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہو۔…NO..4..
طب نبوی کی اہمیت و افادیت
تاجدار انبیاء صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے تندرستی کی بقا اور بیماریوں کے علاج سے متعلق بڑی اہمیت کی لازوال ہدایات ارشاد فرمائی ہیں۔ محدثین نے کتاب الطب کے عنوان سے حدیث کی ہر کتاب میں علیٰحدہ ابواب مزین کئے ہیں۔ عبدالملک بن حبیب اندلسی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے امراض سے متعلق ارشادات نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو الطب النبوی کے نام سے دوسری صدی ہجری میں علیٰحدہ مرتب کیا۔ ان کے بعد امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے شاگرد محمد بن ابو بکر رحمۃ اللہ علیہ اور ان کے ہمعصر ابو نعیم اصفہانی رحمۃ اللہ علیہ ہیں جنہوں نے تیسری صدی کے اوخر میں طب نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے ایسے مجموعے مرتب کئے جن کی اکثر روایات انہوں نے راویوں سے خود حاصل کیں۔ آئمہ اہل بیت میں علی بن موسٰی رضا اور امام کاظم بن جعفر صادق رضی اللہ عنہ نے اسی موضوع پر رسائل لکھ کر شہرت دوام پائی۔
چوتھی صدی میں محمد بن عبداللہ فتوح الحمیدی، عبدالحق الاشیلی، حافظ السخاوی رحمہم اللہ اور حبیب نیشاپوری رحمۃ اللہ علیہ نے طب نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے مجموعے اپنی ذاتی کوششوں سے مرتب کئے مگر ناقدری علم سے یہ سارے مجموعے اب ناپید ہیں۔ البتہ ان کے حوالے اس زمانے کی دوسری کتابوں میں ملتے ہیں۔
ساتویں سے نویں صدی ہجری کے دوران ابی جعفر المستغفری، ضیاء الدین المدسی، السید مصطفٰی للتیفاشی، شمس الدین البعلی، کحال ابن طبر خان، محمد بن احمد ذہبی رحمہم اللہ تعالٰی علیہ، جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ اور عبدالرزاق بن مصطفٰی الانطاکی نے ارشادات نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے گلدستے بنائے۔ ان سب کی کاوشیں اب زیور طبع سے آراستہ ہوکر موجودہ دور میں موجود ہیں۔ البتہ ابن قیم کا مجموعہ سب سے ضخیم، ثقہ اور مقبول ہے۔
حالیہ برسوں میں طب نبوی صلی اللہ علیہ وسلم پر کئی اہم تصانیف منظر عام پر آئی ہیں۔ ان میں بڑی محنت اور عقیدت کے ساتھ احادیث کے معنی و مفہوم کو بیان کرکے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بتائے ہوئے علاج کے طریقوں کو اپنانے کی ترغیب دی گئی ہے۔ یہ کتابیں مسلمانوں کیلئے یقیناً اہمیت کی حامل ہیں کیونکہ ایسی کتب ایمان کو تقویت اور علم میں اضافے کا سبب بھی بنتی ہیں۔
یورپ کے غیر مسلم مؤرخین کا خیال ہے اور جسے سائنس کی تاریخ کی بیشتر کتابوں میں پڑھا جا سکتا ہے کہ ساتویں صدی سے دنیائے اسلام میں طبی سائنس سے دلچسپی اور زبردست فروغ کی اصل وجہ تاجدار رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وہ طبی ہدایات تھیں جو انہوں نے عام مسلمانوں کو دیں اور جن پر پوری امت نے صدق دل سے عمل کیا۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو ساتویں صدی اور اس سے قبل کے مروجہ جھاڑ پھونک اور جادو ٹونا جیسے علاجوں سے ہٹ کر مسلمان دوا پر اتنا زور کیونکر دیتے اور دنیا کے بہترین ہسپتالوں کی بنیاد بغداد، دمشق، قاہرہ، غرناطہ، قرطبہ، اشبلییہ وغیرہ میں کیوکر پڑتی اور یونانی طب کی بنیادوں پر اسلامی طب کی اہمیت کو ساری دنیا ماننے پر کیونکر مجبور ہوتی اور مسلمان اطباء کی “القانون“ اور “الحاوی“ جیسی تصنیفات کو یورپ کی میڈیکل یونیورسٹیوں میں چھ سو سال سے زیادہ عرصہ تک کیونکر پڑھایا جاتا۔
ساتویں صدی اور اس سے قبل افریقہ اور ایشیا کے سارے علاقوں میں جہاں رومیوں یا بازنطینیوں کا اقتدار تھا، طب سے شدید نفرت پائی جاتی تھی اور دینی اعتبار سے کسی مرض کے لئے دوا کے استعمال کو نامناسب تصور کیا جاتا تھا۔ مرض پر قابو پانا یا اس سے چھٹکارا دلانا طبیب کا کام نہ تھا بلہ یہ فریضہ کاہنوں، جادوگروں یا پھر عبادت گاہوں میں رہنے والے دینی رہنماؤں کا تھا۔
علاج معالجہ کے سلسلے میں یورپ کا حال فارس، عراق، شام اور مصر سے زیادہ خراب تھا۔ وہاں تو سوائے جادو ٹونا اور گنڈہ تعویذ کے مرض سے نجات پانے کا کوئی دوسرا طریقہ ہی نہ تھا۔ طبعی علاج کرنے والے سزا کے مستحق قرار دئیے جاتے۔
امراض کیلئے کسی طبعی علاج کو غیر ضروری سمجھنا ایک ایسا طرز فکر تھا جو رومن سلطنت میں عام تھا اور کہا جاتا تھا کہ یہی منفی طرز عمل اس کے زوال کا سبب بنا۔ بتایا جاتا ہے کہ ایک زبردست ملیریا کی وباء نے رومن سلطنت کی کافی آبادی کو موت سے ہمکنار کر دیا۔ لاکھوں افراد دماغی اور جسمانی اعتبار سے مفلوج ہوگئے۔
سلطنت کا ڈھانچہ گرنے لگا لیکن صورتحال پر قابو پانے کیلئے کوئی طبعی طریقہ نہ اپنایا گیا کیونکہ ایسا کرنے سے دین کی مخالفت سمجھی جاتی تھی۔
غرضیکہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مبعوث فرما ہوئے تو اس دور میں سارا عالم بالعموم اور عرب دنیا بالخصوص طب یا طبی علم سے بے خبر ہی نہ تھی بلکہ اس پر اعتقاد کو دین کی ضد تصور کرتی تھی۔ پانچویں صدی عیسوی قبل مسیح کا یونانی علم تاریکیوں میں کھو چکا تھا۔ بقراط کا کوئی نام لیوا نہ تھا۔ ایسے دور میں نبی کریم رؤف رحیم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے طب، دوا اور امراض کے تدارک کیلئے طبعی طرز علاج کو اپنانے کا حکم صادر فرمایا۔ بامعنی دعاء کا اجازت عطا فرمائی لیکن بے معنی جھاڑ پھونک کی مخالفت فرمائی۔ دعاء سے قبل مناسب دوا کا راستہ اپنانے کی نتلقین فرمائی۔ مرض کو اور مرض کے علاج دونوں کو تقدیر الٰہی سے تعبیر فرمایا۔…NO..5,,, عرق گلاب اس دور میں سکون کی نعمت ہے
19.01.2009, 12:08am , سوموار (GMT)
عندلیب آمنہ
موجودہ دور میں انسان قدرتی اشیاء کے استعمال سے دور ہوتا ہے جا رہا ہے۔ کھلی فضا میں سانس لینے کے بجائے بند کمرے میں اے سی کی ٹھنڈک کو ترجیح دیتا ہے۔مختلف بیماریوں میں مصنوعی طور پر تیار کردہ ادویہ کا سہارا لیتا ہے ‘جن سے وقتی سکون تو مل جاتا ہے مگر ان ادویہ کے نتائج جب ظاہر ہوتے ہیں تو سارا جسم بیماریوں کی آماجگاہ بن جاتا ہے۔
جدید سائنس نے بھی اس بات کو تسلیم کر لیاہے۔ خوبصورتی کے لئے خوا تین مصنوعی اشیا پر منحصر رہتی ہیں۔ بازار میں نت نئے صابن ، پر فیومز ،لوشنز ، موئزچرائزرز ،دلکشی کے چند مناظر دکھانے کے بعد مختلف جلدی امراض میں مبتلا ہو جا تا ہے کہ کیونکہ حسن و زیبائش کی بیشتر ایشا کیمیائی اجزا سے تیار کی جاتی ہیں۔
آج سے تقریبابیس پچیس سال پہلے جب آرائش حسن کی اشیا کا رجحان نہین تھا تو خوا تین اپنے چہرے کے تروتازہ ،خوبصورت رکھنے کے لیے قدرتی اجزا سے بنی ہوئی اشیااستعمال کرتی تھیں ،جن سے ان کا حسن ڈھلتی جوانی میں بھی برقرار رہتا تھا۔ وہ (خواتین )قدرتی اشیا جڑی بوٹیوں سے جلد اور بالوں کی نگہداشت کرتی تھیں۔ چہرے کی جلد کے لئے عرق گلاب اور لیموں کا استعمال کرتی تھیں۔
بعد میں طب یونانی نے ان دونوں اشیا کو دلکش اور جلد کی صحت کا امین قرار دیا۔ دیکھا جائے تو عرق گلاب کے متعدد فوائد ہیں۔ مثلاعرق گلاب جلد میں پانی کی مناسب مقدارقائم کرنے میں مددکرتا ہے گرمیوں میں ہماری جلد پر پسینہ آتا ہے۔ عرق گلاب کا استعمال پسینے کی بدبو سے نجات دلاتا ہے۔ روئی کے پھوئے پر عرق گلا ب لگا کر چہرہ اور گردن صاف کریں آپ کی جلد کے مسام نائٹ ہو جائیں گے۔پسینے کا اخراج کم ہو جاتا ہے ،نتیجتاً کیل مہاسے بھی نہیں ہوتے۔
جلد کے خشک ہو جانے کی وجہ سے ہم مختلف اقسام کی کولڈ کرم ،موئسچرائزر وغیرہ کا استعمال کرتے ہیں۔ مگر عرق اور گلیسرین کا مرکب سب سے سستا اور مفید موئسچرائزر رہے اور اس کے روزانہ استعمال سے جلد سے خوشبو آتی ہے اور جلد کی خشکی بھی دور ہو جا تی ہے۔ خو اتین جھایؤں ، جھریوں سے نجات حاصل کرنے کے لئے مہنگی سے مہنگی کریمیں آزماتی ہیں۔ اس کے بجائے عرق گلاب میں شہد اور لیموں کا عرق ملا کر لگائیں ،پھر فائدہ دیکھیں۔رنگت گوری کرنے کے لیے بیس ملی گرام ،عرق گلاب ،دس ملی گرام گلیسرین اور ایک لیموں کا رس ملا کر روزانہ رات کو سوتے ووقت لگائین تو مطلوبہ نتائج بر آمد ہوں گے۔ گھریلو کاموں سے بیشتر خواتین کی انگلیاں ، ہاتھ اور ناخن کھر درے ہو کر پھٹ جاتے ہیں۔
ایسے میں عرق گلاب اور پیرافین لیکوئڈ ہم وزن ملا کر لگائیں۔ اسے کے علاوہ پھٹے ہوئے پیروں پر عرق گلاب ، پیرافین لیکویڈ اور شہد لگائیں ،پیر نرم ہو جائیں گے۔ ایگزیما سے متاثر افراد اگر علاج کے ساتھ روزانہ عرق کا گلاب کا استعمال کریں تو مرض میں افاقہ ہوتاہے۔ آنکھوں میں چمک پیدا کرنے کے لئے روزانہ عرق کا گلاب چند قطرے ڈالیں۔ آنکھیں انسان کے جسم کا اہم عضو ہیں انہیں بھی صاف اور خالص خوراک کی ضرورت ہوتی ہے۔ اسلئے ضروری ہے کہ ہم نیند پوری لیں ، آنکھوں کو سادہ پانی سے دھوئیں اور عرق گلاب کا استعمال مستقل رکھیں۔ کمپیوٹر پر کام کرنے والے روزانہ آنکھوں میں عرق گلاب کے چند قطرے ڈالیں ، مضر اثرات سے محفوظ رہیں گی
عموماً ذہنی اور جسمانی مشقت کرنے والے مختلف وٹامنز اور آئرن کی گولیاں ، سیرپ وغیرہ کا استعمال کرتے ہیں مگر عرق گلاب ، شہد اور اسپغول ان ادویہ سے زیادہ توانائی بخش ہیں۔ اگر ان کو خوراک کا حصہ بنا لیں ، تو بیشتر بیماریوں سے دور رہیں گے۔ ناخنوں پر دھبے پڑ جائیں تو عرق گلاب میں لیموں کے چند قطرے ہم وزن ملا کر ناخن ملا کرناخن دھو لیں۔ ایسا کرنے سے دھبے ختم ہو جا تے ہیںاور ناخنوں کی قدرتی چمک اور افزائش برقرار رہتی ہے۔
ہونٹوں کی تروتازگی پر چہرے کی رونق کا انحصار ہوتا ہے۔ جن خوا تین کے ہونٹ خشک اور پھٹے ہوئے رہتے ہیں ، انہیں کھانے پینے اور بولنے تک میں دشواری ہوتی ہے۔ ایسے میں ایک چائے کا چمچہ عرق گلاب میں ایک لیموں کا رس اور آدھا چائے کا چمچہ زیتون کا تیل ملا کر لگائیں اگر زیتون کا تیل دستیاب نہ ہوتو عرق کا گلاب میں ہموزن شہد ملا کر لگا لیں۔ عرق گلاب دانتوں اور منہ کی بیماریوں میں نہایت سستی اور پر اثر دوا ہے۔ منہ کے چھالوں کے لئے نیم گرم عرق گلاب کی کلیاں کریں ، چھالے ختم ہوجائیں گے۔ اس کے علاوہ مسوڑھوں کی سوجن میں بھی اس سے آرام ملتا ہے۔
اگر آپ کے دانتوں میں درد ہے تو ایک کھانے کا چمچہ کالی مرچ لیں۔ انہیں پیس کر عرق گلاب میں ملا کر دانتوں پر لگائیں تو درد سے فوراً نجات مل جائے گی۔ برصغیر میں عرق گلاب کے عطر کا استعمال قدیم روایت ہے، مگر امریکہ اور انگلینڈ سمیت دوسرے یورپی ممالک کا گلاب بطور پرفیوم بھی استعمال ہو رہا ہے۔ ان ممالک میں عرق گلاب نہایت مہنگا ہو تا ہے، جب کہ ہمارے ہاں خالص عرق گلاب کی بوتل سستی ملتی ہے۔ عرق گلاب ایک خوشبو ،دوا ،غذا اور مشروب ہے۔ گرمیوں میں گلاب کیشربت دستیاب ہیں مگر یہ تسلی کر لیں کہ جو عرق گلاب آپ نے خریدا ہے وہ خالص ہے یا نہیں۔ خالص عرق گلاب اپنی خوشبو سے پہچان لیا جاتا ہے جب کہ نقلی عرق گلاب کی خوشبو تلخ اور بد مزہ ہو تی ہے۔(یو این این,,,NO,,,6,,,پینٹ سے مردانہ بانجھ پن میں اضافہ
پینٹ میں شامل جلیکول سے مردوں کی تولیدی صلاحیت متاثر ہوتی ہے
تحقیق کارروں کے مطابق ایسے تمام اشخاص جو پینٹ یا گھروں کی اندرونی زیبائش کرتے ہیں وہ پینٹ میں شامل جلیکول کیمیکل سے متاثر ہوتے ہیں اور ان کی تولیدی صلاحیت کم ہو جاتی ہے۔
برطانیہ کی یونیورسٹی آف مانچسٹر اور شیفیلڈ کی مشترکہ ریسرچ کے تولیدی مرکزوں کا دورہ کرنے والے دو ہزار ایسے لوگوں پر ریسرچ کی گئی جو مردانہ بانجھ پن کا شکار ہیں۔
تحقیق کارروں کے مطابق ایسے اشخاص جو پینٹ کرتے ہیں ان میں بچے پیدا کرنے کی صلاحیت ڈھائی فیصد کم ہوتی ہے۔
تحقیق کارروں کے مطابق مردانہ بانجھ پن کی دوسری وجوہات، تمباکو نوشی، انتہائی جست پاجامے پہننے اور خصیہ کی سرجری کے علاوہ پینٹ میں شامل کیمیکل سے متاثرہ لوگوں کی تولیدی صلاحیت کو کم کر دیتا ہے۔
یونیورسٹی آف مانچسٹر کے ڈاکٹر اینڈی پووی کے مطابق ان کو پہلے بھی معلوم تھا کہ جلیکول مردوں کی تولیدی صلاحیت کو متاثر کرتا ہے اور پچھلے دو عشروں سے اس کیمیکل کے استعمال میں کمی واقع ہوئی ہے۔
شیفیلڈ یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر ایلن پیسی نے کہا کہ تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ پینٹ میں شامل صرف جلیکول کیمیکل ہی تولیدی صلاحیت کو متاثر کرتا ہے جس سے کئی مردوں کی پریشانیوں میں کمی واقع ہو گی…NO…7..مشروم کا استعمال ہائی بلڈ پریشر، ذیابیطس، سرطان اور دیگر کئی بیماریوں کے علاج میں شفا کا ذریعہ بنتا ہے۔
تحریر: نسرین شاہین حضور اکرمﷺ کے مرغوب کھانوں میں کھنبی یعنی مشروم (Mushroom) بھی شامل ہے۔ حضرت عبداللہ بن عباس سے روایت ہے کہ ہمارے یہاں رسول اکرمﷺ تشریف لائے اور فرمایا کہ ”جب جنت مسکرائی تو مشروم زمین پر آ گئی اور جب زمین مسکرائی تو کُبر نکل آئی۔“ مشروم ایک خود رُو پودا ہے جس کا تعلق Fungusخاندان سے ہے۔ اس میں نہ تو شاخیں ہیں اور نہ پتے اور کُبر ایک خودرو کانٹوں والی جھاڑی ہے جس کے ساتھ بیر کے مانند پھیکے پھل لگتے ہیں بعض محدثین کے مطابق خود رروں ہونے کے باعث بغیر کاشت کے بنی اسرائیل کی سکونت کے علاقے میں پیدا کر دی گئی یوں یہ تحفہ خداوندی بن گئی اور بعض محدثین کا خیال ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کی مشکلات کے زمانے میں ان پر آسمان سے پکے ہوئے کھانے من و سلویٰ نازل فرمائے اس میں من سے مراد کئی قسم کی سبزیاں ہیں مشروم من کی ایک قسم اور ایک جز ہے اور سلویٰ سے مرادپرندوں کا گوشت ہے۔ حضرت سعید بن زید سے روایات ہے کہ مشروم اس منہ میں سے ہے جو اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کے لئے نازل فرمایا تھا اور اس کا پانی آنکھوں کے لئے شفا ہے۔ مشروم کی اقسام: مشروم کی کئی اقسام دریافت ہو چکی ہیں لیکن عام استعمال کے لئے Campestris Agaricusکے خاندان کی مشروم درست ہے۔ مشروم کو چھتری دار ہونے کی وجہ سے ”کماة“ کہا جاتا ہے محاورے میں ”کماة الشہادة“ یعنی گواہی چھپانے کے معنی میں استعمال کیا جاتا ہے مشروم کی ایک قسم گول سر والی ہوتی ہے جو عام طور پر سالن میں پکا کر کھائی جاتی ہے سفید رنگ کی مشروم سب سے عمدہ غذا ہے مشروم کی ایک اورقسم کا رنگ سرخی مائل ہوتا ہے یہ مہلک ہوتی ہے بعض اطباء نے سرخ کو بھی اچھا کہا ہے مگر سرخ اور سیاہ زہریلی ہوتی ہیں یوں تو مشروم کی کئی قسمیں زہریلی ہیں مگر ایک تحقیق کے مطابق مشروم کی کاشت میں زہریلی مشروم کا اگاؤ خارج از امکان ہے کاشت کی جانے والی مشروم میں اس قسم کا خدشہ یا خوف نہیں ہوتا اس کی کاشت کے لئے جس خاص مشروم کا بیج لگایا جاتا ہے اس سے وہی فصل حاصل ہوتی ہے۔ دنیا بھر میں ہزاروں اقسام کی مشروم پائی جاتی ہیں، جن میں سے تقریباً ڈھائی ہزار اقسام کھائی جا سکتی ہیں لیکن عام طور پر 20اقسام اگائی جاتی ہیں۔ ”اسٹرا مشروم“ (جسے چائینز مشروم بھی کہا جاتا ہے) بہت مقبول مشروم ہے۔ اس کی کاشت اور فروخت تجارتی بنیاد پر ہوتی ہے اسے تازہ اور خشک دونوں حالتوں میں استعمال کیا جاتا ہے اس کی تین اقسام کو مصنوعی طور پر کاشت کیا جاتاہے اس مشروم میں 206.27mgوٹامن سی پایا جاتا ہے اس مشروم میں لحمیات بھی ہوتے ہیں جو کئی اقسام کے ٹیومر کے خلیوں کوبڑھانے سے روکتا ہے۔ مشروم کی دو اقسام Ganodrma Lucidumاور Trametes Versicolonصدیوں سے دواؤں کی تیاری میں استعمال ہو رہی ہیں۔ مشروم کو مختلف معاشروں میں مختلف طریقوں سے استعمال کیا جاتا رہا ہے قدیم یونانی اسے ”خدا کی خوراک“ کہا کرتے تھے ان کا عقیدہ تھا کہ طوفان بادو باراں کے موقع پرسیارئہ عطارد سے زمین پر خاص روشنی آتی ہے جس سے مشروم اگتے ہیں مصرف اسے ”اوسیرس کا تحفہ“کہتے تھے جب کہ چینیوں کا خیال تھا کہ مشروم میں تمام بیماریوں کا علاج پایاجاتا ہے۔ تازہ ترین کیمیائی تجزیے سے معلوم ہوا ہے کہ مشروم کے عرق کی تطہیر سے جو کمپاؤنڈ حاصل ہوتا ہے اس کی تجارتی پیمانے پر خریدو فروخت ہونے لگی ہے، کیونکہ یہ ادویہ کی تیاری میں استعمال ہوتا ہے۔ Basidiomyceteمشرومز کی بہت سی اقسام حیاتیاتی سطح پر بہت فعال ہوتی ہیں اس میں ٹیومرز کی خلاف مدافعت کی خاصیت پائی جاتی ہے ادویہ کی تیاری میں استعمال کیلئے اگلے جانے والے مشرومزسرطان کے علاج کی ادویہ میں بھی استعمال کئے جاتے ہیں ہائی بلڈ پریشر، ذیابیطس (ایک اور دو) اور دیگر کئی بیماریوں کے علاج میں بھی یہ موٴثر ثابت ہوتے ہیں۔ مشروم کے غذائی اجزاء: تحقیق کے مطابق مشروم کے کیمیائی اجزاء کا تناسب کچھ اس طرح سے ہے۔ پروٹین 5فیصد، چکنائی 5فیصد، کاربو ہائیڈریٹس 5فیصد، کیلوریز 2فیصد، سوڈیم 2.6فیصد، پوٹم شیم 33فیصد، کیلشیم 18فیصد، میگنیشیم 2.18فیصد، کاپر 18فیصد، آئرن 29فیصد، سلفر 9.6فیصد، کلورین 24فیصد۔ نبی کریمﷺ کی تجویزکردہ دیگر ادویہ اور غذاؤں کے مانند اس میں سوڈیم کی مقدار کم سے کم اورپوٹاشیم کی زیادہ ہے۔ مشروم میں 30سے 40فیصد لحمیات، حیاتین اور نمکیات پائے جاتے ہیں عالمی ادرئہ صحت اور رائل کالج آف فزیشن انگلینڈ کی ٹیم کی ایک خوراک سے متعلق مستند رپورٹ کے مطابق مشروم میں 16فیصد امینو ایسڈ مختلف تناسب میں پائے جاتے ہیں حیاتین اور نمکیات بھی وافر مقدار میں پائے جاتے ہیں خصوصاً Bگروپ کے ساتھ D.A.Kاور فولک ایسڈ بھی موجود ہوتے ہیں اس میں موجودBکا گروپ گلو کوز یاتین اور میٹا بولزم خوراک کوجز و بدن بنانے کے لئے بہت ضروری ہے یہ بچوں میں پائے جانے والی بیماری ”ریکٹس“ جس میں ہڈیاں ٹیڑھی ہو جاتی ہیں کا قدرتی علاج ہے مشروم میں پائے جاننے والے نمکیات میں کیلشیم، پوٹاشیم، مینگنیز، فاسفورس اور فولاد خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ طبی فوائد: مشروم میں قدرتی طورپر بے شمار طبی فوائد پائے جاتے ہیں۔ رسول اکرمﷺ نے فرمایا کہ ”کھنبی ”من“ میں سے ہے اور اس کا پانی آنکھوں کی بیماریوں کے لئے شفا ہے جب کہ ”عجوہ“ کھجور جنت سے ہے اور وہ زہروں کے لئے تریاق ہے۔“ حضرت ابوہریرہ کہتے ہیں کہ اس کے بعد میں نے تین، پانچ یا سات کھنبیاں لیں اور ان کاپانی نچوڑ کر ایک شیشی میں ڈال لیا پھر میں نے یہ پانی اپنی ایک لونڈی کی آنکھوں میں ڈالاجس کی آنکھیں چندھائی ہوئی تھیں اس پانی سے وہ شفا یاب ہو گئی۔ (ترمندی) یہ حدیث مشروم کے پانی سے آنکھوں کی بیم
اریوں سے شفا کی بہترین مثال ہے۔ مشروم کو آنکھوں میں ڈالنا قعیف بصارت اور سوزش کے لئے از حد مفید ہے اس کی تصدیق فاضل اطباء میں بو علی سینا نے کی ہے اور آنکھ کی متعدد بیماریوں میں مشروم کو اکسیرقرار دیا ہے مشروم کا رس نکال کر اور خاص کر اسے بند دیگچی میں ڈال کر بھوننے پر جو پانی اس میں سے نکلتا ہے آنکھ میں ٹپکانے سے آنکھ کاجالا کٹ جاتا ہے مشروم کے پانی میں سرمے کو گھول کر آنکھ میں لگایا جائے تو بصارت تیز ہوتی ہے۔ بعض اقسام میں مشروم کو سکھا کر، پیس کر کھانے سے اسہال رُک جاتے ہیں۔ مشروم حرارت کو مٹاتی، بلغم کوکم کرتی اور گاڑھا کرتی ہے مشروم کو سریش کے ساتھ کوٹ سرسکے میں حل کرکے بچوں کی بڑھتی ہوئی ناف پر لگانے سے ناف اندر چلی جاتی ہے ہرنیا کیلئے بھی یہی لیپ مفیدہے مشروم سے خون میں اضافہ ہوتا ہے اسے پیس کر بآسانی مند مل نہ ہونے والے زخموں پر لگائیں تو فائدہ ہوگا وید کے مطابق خشک مشروم سر پر ملنے سے بال آگ آتے ہیں مشروم پر تجربات کا سلسلہ جاری ہے جس کے تحت مشروم سے حاصل ہونے والے مرکبات سے علاج کاقوی امکان ہے کیونکہ مشروم میں جراثیم کش ادویہ کی موجودگی ثابت ہو چکی ہے اگر مشروم کوشہدکے ساتھ ملاکر کھایا جائے تو ٹائیفائیڈ اور دوسرے بخاروں میں مفید ہے تپ دق، پرانی کھانسی کے لئے بے حد مفید ہے جونک لگنے کے بعد زخم سے بہنے والا خون اس سے رُک جاتا ہے۔ مشروم کا جوہر Agaricsہومیو پیتھک طریقہ علاج کی ایک مقبول دوا ہے۔ سر کے بھاری پن میں اور خواتین کے بعض امراض میں مشروط مفید ہے۔ بالخصوص مشروم کا عرق بعض امراضِ نسواں میں بے حد فائدہ مند ہے کالی کھانسی، پیٹ کی آنتوں میں درد کی کیفیت میں مشروم کا عرق استعمال کرنا چاہئے جرمن اطباء کے مطابق Muscarineکے جسم پر اثرات کو ختم کرنے والی کوئی دوا نہیں ہوتی البتہ ابتدامیں پتہ چل جائے تو مریض کا معدہ دھو کر اسے جسم سے نکالا جا سکتا ہے۔ چین کے محققین کے مطابق مشروم دورانِ خون کی بہتری اور کولیسٹرول کی سطح کم رکھنے میں معاون ثابت ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ گلٹیوں کے بڑھنے اور بعض بیماریوں کوپھیلانے والے وائرس کے خلاف قوتِ مدافعت بڑھاتی ہے ذہنی امراض میں بھی مشروم کے شفا بخش اجزاء مفید ہیں اس کے علاوہ مشروم خشک کرکے پیس کر کھانے سے پیچش میں فائدہ ہوتا ہے مشروم کو حلوے کے ساتھ پکا کر کھانے سے لاغر جسم فربہ ہوتا ہے شوگر اور کولیسٹرول کے لئے قدرتی علاج ہے بواسیر سے محفوظ رکھتا ہے یرقان اور شدید فلو کا موٴثر علاج ہے گردوں کی صفائی کے لئے کارآمد ہے تازہ مشروم اینٹی الرجک دوا کے طورپر پر مفید ہے ادویات میں مشکوم کا استعمال عام ہوتا جا رہا ہے جاپانی طریقہٴ علاج Moxa اسی کو پیش نظر رکھ کر ایجاد کیا گیا ہے۔ زہریلے مشروم: جہاں مشروم کے بے شمار فوائد ہیں وہیں اس کے مضر اثرات کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ جدید تحقیق کے مطابق مشروم کی زہریلی اقسام میں ایک زہر Muscarinہوتا ہے یہ زہر اعصابی نظام پر اثر انداز ہوتا ہے جس سے پٹھوں میں درد، اعضاء میں اینٹھن اور رشے کی مانند کپکپی ظاہر ہونے لگتی ہے اس کے بعد دماغی اثرات سے فالج اورتشنج ہو جاتا ہے ایک سے زائد مقدار میں مشروم کھانے اور علامات ظاہر ہونے کے باوجود احتیا ط نہ کی جائے تو موت واقع ہو جاتی ہے لیکن یہ اثرات صرف زہریلی مشروم میں پائے جاتے ہیں۔ مشروم کے زہریلے ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں معلوم کرنے کے لئے ایک چھوٹا سا تجربہ بھی کیا جا سکتا ہے کہ دو تین مشروم اور دو تین لہسن کے جوے پانی میں ڈال کر ابال لیں اگر اگر پانی کا لایا براؤن رنگ کا ہو جائے تو سمجھ لیں کہ مشروم زہریلے ہیں وگرنہ پکا کر کھانے میں کوئی حرج نہیں ہے یہ طریقہ انتہائی سادہ اور آسان ہے اس کے مضر اثرات سے بچنے کے لئے زیتون کے تیل میں بھوننا زیادہ مفیدہے۔ مشروم کو استعمال کرنے سے پہلے انہیں اچھی طرح صاف ضرور کرلیں۔ خاص طورپر جنگلی مشروم مٹی میں لدھے ہوتے ہیں لہٰذا انہیں اگر تھوڑی دیر کے لئے پانی میں بھگو کر رکھ دیں اور پھر کچھ دیر بعد انہیں صاف کریں تو مشروم اچھی طرح سے صاف ہو جائیں گے جنگلی مشروم کو پانی میں بھگو کر صاف کرنا ضروری ہے پانی میں بھگونے کے بعد مشروم کو اچھی طرح سے خشک کرنا بھی ضروری ہے انہیں کبھی بھی بہت زیادہ دیر تک نہ بھگوئیں ورنہ یہ مرجھائیں جائیں گے۔ عام طور پر مشروم کوچھیلنا ضروری نہیں ہوتاصرف صاف کرلینا ہی کافی ہوتا ہے مشروم ایک ایسی خودروسبزی ہے جو کہ بہت زیادہ عام تو نہیں ہے مگر یہ جہاں جہاں پائی جاتی ہے لوگ اس سے خوب فائدہ حاصل کرتے ہیں ذائقے سے بھرپور مشروم مختلف کھانوں میں استعمال کی جاتی ہیں۔ مشروم کی غذائی اہمیت: مشروم ایک غذائیت سے بھرپور اور ذائقے دار سبزی ہے۔ زمانہ قدیم سے ہی لوگ اس سے استفادہ کرتے چلے آ رہے ہیں۔ مصری تہذیب میں مشروم نفیس ترین غذا کا درجہ رکھتی تھی اور شہنشاہوں اور صف اول کے امرا تک محدود تھی۔ روم میں مشروم کو دیوتاؤں کی خوراک تصور کیا جاتا تھا اہل ثروت تحفتاً اس کا باہمی تبادلہ کرتے اور یہ تحفہ کسی معززشخص کے ہاتھ بھیجا جاتا ادنیٰ درجے کے ملازم کے ہاتھ نہیں بھیجا جاتا تھا اس سے مشروم کی اہمیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے مشرق بعید کے بیش تر ممالک میں مشروم روز مرہ غذا میں شامل ہیں۔ مشروم کی غذائی اہمیت مسلم ہے۔ زمانے اور وقت کی رفتار کے ساتھ جہاں اور بہت سی تبدیلیاں آئیں وہاں خواص کے ساتھ عوام کو بھی بعض چیزوں کے استعمال کے مواقع نصیب ہوئے۔ ان میں سے ایک مشروم بھی ہے۔ جب لوگوں کو احساس ہوا کہ مشروم غذائیت سے بھرپور فصل ہے تو وہ اس کی جانب متوجہ ہوئے اورحال یہ ہے
کہ اب مشروم ا کثر کھانوں کا لازمی جُزبنتی جا رہی ہے۔ مشروم کو چاولوں کے ساتھ پکاکر پلاؤ بنا کر کھانا جسم میں توانائی کا باعث بنتا ہے۔م نہ تو سردی کی شدت میں پیدا ہوتی ہے اور نہ ہی یہ گرمی کاپودا ہے بلکہ یہ اس وقت نمو پاتی ہے جس موسم معتدل اور خوشگوار ہو خاص طور پر موسمی بارشوں کے دوران عرب کے لوگ اسے آسانی بجلی کی سبزی ”یعنی نبات الرد“ کا نام بھی دیتے آئے ہیں، کیونکہ یہ بجلی چمکنی اور مینہ برسنے کے بعد پیدا ہوتی ہے۔ عرب کی زمین پر اس کی پیداوار زیادہ ہے۔ عمدہ قسم کی مشروم وہی ہوتی ہے جو ریتلی زمین کی ہو جہاں پانی کم ہو۔ مشروم ایک مقبول غذا ہے۔ یورپی ہوٹلوں میں لوگ بڑے شوق سے مشروم سے بنے پکوان کھاتے ہیں۔ یہ دنیا کے چند مہنگے ترین پکوان میں سے ایک ہے۔ متعدد ملکوں میں اب کافی خوردنی کھنبیاں ڈبو میں بند ہو کر اسٹوروں پر آسانی سے مل جاتی ہیں کیونکہ ان میں ذائقے کے علاوہ لحمیات کی اضافی مقدار ان کو مفید بنا دیتی ہے چینی کھانوں میں مرغی اور مشروم، مرغی اور گائے کا گوشت یا مچھلی کے علاوہ مشروم کا پلاؤ بڑا مقبول ہے مشروم کو کچا بھی کھایا جاسکتا ہے اور پکا کر بھی اس کی سفید شکل کھانے میں بہتر ہے مشروم کا زراعت کے بغیر پیدا ہونا اس کی افادیت کا بہت بڑا ثبوت ہے کیونکہ ایسا کرکے اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق کو اپنی طرف سے ایک بیش بہا تحفہ عطا کیا ہے اس لحاظ سے مشروم کا مفید ہونا ایک لازم امر ہے۔…NO…8.. طب اسلامی -اپنے عہد سے ہزار سال آگے:……..اصغر انصاری
برقیہ چھاپیے
۹ ویں صدی ہجری میں مسلمانوں کی حکومت میں بغداد ،قاہرہ اور کارڈوبا دنیا میں علم و دانش ،تجربہ و ایجاد ،اختراع ،تدوین ،تفتیش اور اعلی تعلیم کے لئے مشہور مقامات تھے جہاں سارے عالم اسلام سے طالب علم علم و ہنر کے حصول کے لئے یکجا ہورہے تھے ۔مسلمانوں کے خلیفہ کے زیر سر پرستی دنیا کے سارے علوم پر تحقیق و تفتیش کا کام جاری تھا۔ایجادات ،تجربات اور نئی نئی چیزوں کا اختراع ہو رہا تھا۔آج سے ہزار برس پہلے ان مقامات پر طب نے عملی طورپر وہ مقام حاصل کیا تھا جس کی آج کچھ نقالی کرکےے امریکہ مہذب اور ترقی یا فتہ ممالک میں سرفہرست ہے۔
اسلامی طبی علوم طلسمان اور دینی حدود سے باہر نکل کر سائنٹفک ریسرچ جدید ترین نظام اور اصولوں کو اختیار کررہے تھے۔ان طبی اداروں میں طب کی وہ جدید ترین سہولتیں فراہم کی گئی تھی جو آج کے سائنسی دور میں نہایت ترقی یا فتہ ممالک میں جذباتی طورپر اختیار کی گئی۔اعلی معیار کے اسپتالوں کی تعمیر ،کھلے روشن اور ہوا دار کمرے ،بڑے بڑے ہال،مختلف شعبوں میں ان کی تقسیم ،باہری مریضوں اور اندرونی مریضوں کے لئے ایک جدا نظام ،عورتوں کے لئے دواسازی کا الگ شعبہ ،تحقیق و تفتیش ،عرق سازی ،کثید و تقاطیر کے عمل کے لئے الگ شعبہ کا ہونا،جڑی بوٹیوں کے لئے بوٹانیکل گارڈن ،مریضوں کا ریکارڈ رکھنا،کیفیتوں کا اندراج اور خصوصی طورپر جراحی ،عمل جراحی ،اس کے آلات کی ایجاد اور مرہم سازی ودیگر بہت سارے نظام ایسے تھے جو مکمل طورپر دنیا کے کسی بھی ملک میں ان دنوں نہیں پائے جاتے ۔یہ بات حیر انگیز نہیں کہ جراحی ،علاج ،طب ،کیمیاگری،علم الابدان،نفسیاتی علاج،جسمانی امراض ،وائرس کی بیماریاں ،ان کا علاج ،کیشر،گیگرین ،وارم انخاع(مین جائی ٹیز)ٹی بی ،گردہ کی پتھری کا آپریشن ،آنکھ کے موتیا بند ،جالہ ،ماڑا و دیگر قسم کے آپریشنن وعلاج ان دنوں نہایت آسانی سے کئے جارہے تھے۔
جب پورا یورپ خصوصی طور پر لندن اور پیرس دھول اور کیچڑوں کا ڈھیر تھا تب بغداد،قاہرہ اور کارڈوبا کے اسپتالوں میں عورتوں اور مردوں کے لئے علیحدہ انتظام تھا۔بخار کے مریضوںکو ایسے کمروں میں رکھا جاتا جہاں جھرنوں اور فواروں سے ٹکر اکر سرد ہوا آتی ۔پاگلوں اور ذہنی و نفسیاتی امراض کے لئے شعبے جدا تھے۔مریضوں کو سکون کی خاطر کہا نیاں سنائی جاتی اور ہلکی موسیقی سے سکون فراہم کیا جاتا۔مریضوں کو اسپتال سے رخصت کے وقت رائج 5اشرفیاں دی جاتی ۔عورت نرس اور مرد تیمار دار مریضوں کی دیکھ ریکھ کے لئے ہوتے ۔ان اسپتالوں میں لائبریری ،کیمیا گری،دواسازی،تحقیق و تفتیش کے کام بھی کئے جاتے۔اسی زمانہ میں دیہی علاقوں میں علاج کے لئے اور معذور لوگوں کے علاج کے لئے سواری گاڑیوں پر متحرک اسپتالوں کا نظم تھا۔دواسازی کے اعلی معیار کے تحقیق کے لئے(ڈرگ کنٹرول)تفتیش کار (انسپیکٹر)مقرر کئے گئے تھے۔دواسازی (عطار)کرنے والوں کو حکومت کی طرف سے لائسنس دیاجاتا تھا۔طب کی تعلیم میں بھی مسلمانوں نے بیکٹیر یا لاجی،میڈیسن،اینتھیسیا سرجری،فارمیسی،روپ تھامولوجی،سائیکوتھیراپی،سائیکو سوماٹک جیسے امراض کی نہ صرف شناخت کی بلکہ ان کا علاج بھی کیا اور ان شعبوں کو ترقی کے بام عروج پر پہنچادیا۔
اسلامی حکومت حضور کے وصا ل کے صرف 80سال کے بعد مغرب میں اٹلاسٹک روشن سے مشرق میں چین تک پھیل چکا تھا۔اسپین میں اس نے 700سال تک حکومت کی ۔منگلولوں کے بربری قبضہ کے بعد بغداد کو (1258)میں جلاکر تمام کارناموں کو ختم کردیا گیا ۔اس طرح اسپین کی تہذیبی وراثت کو ڈھاکر ختم کردیا گیا۔لیکن اس کے باوجود بھی اسلامی حکومتوں نے 1000ہزار سال تک دنیا کے نہایت ترقی یافتہ اور مہذب ممالک کی حیثیت سے حکومت کی ۔اسی زمانہ میں یونانی طب حکمت و دیگر کتابوں کو یونانی سے عربی میں ترجمہ کیاگیا اور 10ویں صدی میں یہ کام دمشق ،قاہرہ اور بغداد میں بڑے پیمانہ پر کیاگیا اور اس طرح بغداد سائنسی علمی تحقیقی شہر کے حیثیت سے سارے دنیا میں نمایاں ہوکر ابھرا۔اسلامی ادویہ و طریقہ علاج اسلامی تہذیب کا منہ بولتا ثبوت ہے۔جو مسلم سائنسدانوں کا عظیم کارنامہ ہے اور آج بھی پورا یورپ ان کے علم سے فائدہ اٹھا رہاہے۔ کیمپ بل نے بہت اچھی بات کہی ”یورپین میڈیکل سسٹم بنیادی طورپر عربی ہے ۔عرب سائنسداں یورپین کے بہت قبل ذہین ترین لوگ رہے ہیں“۔
636ADمیں فارس کے شہر میں جندی شاپور میں مسلمانوں نے بڑ ی بڑی یونیورسٹی قائم کی تھی ۔جس میں اسپتال بھی شامل تھے۔بعد کے تمام اسلامی طبی کالج اسی بنیاد پر قائم کئے گئے ۔یہاں میڈیکل تعلیم نہایت اعلی درجہ کی اور سلسلہ وار تھی۔یہاں لیکچر اور تعلیم عملی طورپر ساتھ ساتھ دی جاتی ۔علی ابن العباس (494AD)کی یہ بات طالب علموں کے لئے آج بھی مشعل راہ ہے ۔انہوں نے میڈیکل طلبا سے کہا کہ انہیں مستقل طورپر اسپتال اور مریض گھروں میں جانا چاہئے ۔مریضوں کا خاص خیال رکھیں ۔ان کی کیفیت اور حالات کا جائزہ لیتے رہےں ۔مریضوں سے ان کے حالات دریافت کریں اور کیفیتوں کا علم حاصل کریں اور مقابلاتی جائزہ لیں کہ انہوں نے کیا سمجھا تھا اور حالات کیا ہیں۔رازی(841-926)نے طلباسے کہا کہ مریضوں کے کیفیت اور مرض جو انہوں نے پایا اس کے مابین فرق کا اندازہ لگائیں۔اس زمانہ میں رازی ۔ابن سینا(890-1037)اور ابن زہر(116AD)اسپتال کے نہ صرف ڈائریکٹر س تھے بلکہ میڈیکل کالج کے ڈین کے فرائض بھی انجام دے رہے تھے۔مریضوں کی معالجاتی رپورٹ لکھی جاتی اور طلبا کو عملی تعلیم دی جاتی ،اس کے لئے رجسٹر مین ٹین کیا جاتا۔اس زمانہ میں صرف جندی میں بنیا دی سائنس کی تعلیم کے کئی جدا ادارے تھے۔بغداد میں لنگور کے جسم کی تشریح کے ذریعہ علم الابدان کی تعلیم دی جارہی تھی۔علقمی کے تجرباتی کتابوں کا مطالعہ جڑی بوٹیوں ان کے خواص کے لئے اور دواسازی کے لئے لازمی تھا۔بہت سارے اسپتالوں میں جڑی بوٹیوں کے لئے پودے اگانے کاانتظام تھا۔اس سے طلبا کو شناخت کرانا اور مریضوں کے لئے دواتیار کرنا مقصود تھا۔اس ابتدائی تعلیم کے بعد میڈیکل کے طلبا کو تجربوں کے لئے اسپتالوں میں لے جایا جاتا تھا۔یہ طلبا ایک نوجوان طبیب کے ساتھ ایک جماعت کی شکل میں اسپتال کے ابتدائی اصول و ضوابط سیکھتے اور کتابوں و لائبریری لیکچر اور دستاویزوں سے فیض حاصل کرتے ۔اس ابتدائی مرحلہ میں زیادہ تر تعلیم دواسازی ،اس کا متبادل اور ٹوکسی کولوجی کے متعلق کی جاتی تھی۔
طبی تربیت:
اس تعلیمی دور میں طلبا کو چھوٹے جماعتوں میں تقسیم کرکے نہایت تجربہ کار معالج اور طبیب کے ساتھ رکھا جاتا جہاں ان کے ساتھھ یہ وارڈ کا دورہ کرنا،مباحثہ ،تقریر اور جائزہ لینا سیکھتے ،انہیں تھیرا پیوٹکس اور پیتھولوجی کی تعلیم اس دوران دی جاتی ۔جیسے جیسے طلبا کے اندر تعلیمی صلاحیت میں اضا فہ ہوتاجاتا ہے،انہیں مرض کی تشخیص اور فیصلہ لینے کی اجازت دی جاتی ۔مرض کا مشاہدہ اور جسمانی جانچ پر زور دیا جاتا ۔مریض کی حالت ،فضلہ،درد کا مقام اور فطرت ،سوجن اور جسمانی ساخت ،جلد کی رنگت ،احساس ،سرد گرم،نم خشک جلد کی حالت ،تھلتھلا بدن ،زردسفید آنکھیں (یرقان)پشت کے بل جھک سکتا ہے یا نہیں (پھیپھڑوں کا مرض)ان باتوں پر بھی دھیان دیا جاتا۔وارڈ کی عملی تعلیم و تربیت کے بعد طلبا کو باہری مریضوں کو دیکھنے یعنی ان کے علاج کے لئے آﺅٹ وارڈ میں کردیاجاتا ۔یہ تشخیص کی رپورٹ اپنے معلم کو دیتے ۔بحث کے بعد دوا تجویز کی جاتی ۔مریض زیادہ خطرناک حالت میں ہوتا تو اسے داخل کرلیا جاتا ۔ہرایک مریض کا جدا ریکارڈ رکھا جاتا۔
تعلیمی نصاب :
ہر ایک میڈیکل اسکول میںنصاب تعلیم جدا جدا تھا۔مرض کی علالت پر اور اس کی شناخت پر زور دیا جاتا۔ابن سینا نے سب سے پہلے دماغی نخاع یعنی مین جائیٹیز کی شناخت کی ۔اس کے قبل اسے انفیکشن اور دماغی بیماری (نفسیاتی)سمجھا جاتا تھا۔ابن سینا نے اس بیماری کی علالت اور کیفیت اتنی وضاحت سے کی ہے کہ آج ہزار سال کزرنے کے بعد بھی اس میں کوئی رد وبدل نہیں ہوا ہے۔نصاب میں سرجری کو بھی شامل کیا گیا تھا۔طلبا تحصیل علم طب کے بعد کچھ ماہرین کے زیر نگرانی علم جراحی کا تجربہ حاصل کرتے ۔کچھ طلبا حفظان صحت کے امور میں مہارت حاصل کرتے ۔بہت سارے جراحی کے عمل جیسے ختنہ ،ویری کوس رگوں کی سرجری اور ہیمیر ی ہائڈ کا عمل سیکھتے ۔ارتھو پیڈکس کی تعلیم عام تھی۔ہڈی کے ٹوٹنے اور اس کے جوڑنے کے عمل کے لئے پلاسٹر آف پیرس کا استعمال شروع کردیا گیاتھا۔اس عمل کو 1852میں یورپ میں پھر سے عمل میں لایا گیا۔آنکھوں کے موتیا بند کا آپریشن عام تھا۔بچوں کی پیدائش کا معاملہ مڈ وائیوز کے حوالے تھا۔ابن سینا اور رازی نے سائیکوتھیراپی کی پریکٹس کی ۔طب کی تعلیم و تربیت کے بعد پریکٹس کرنے کے لئے لائسنس کی ضرورت لازمی تھی۔اس کے لئے ایک امتحان میں کامیاب ہونا لازمی تھا۔ایک سائنٹفک ایسوسی ایشن مسایہ فریقین اسپتال میں قائم کیا گیا تھا۔جہاں مریضوں کے بیماری اور حالات پر تبادلہ خیال ہوتا۔
931ADمیں ایک مریض کے انتقال ہونے کے بعد خلیفہ المقتدر نے اپنے خصوصی شاہی حکیم سفیان بن ثابت بن قرہ کو اس بات کے لئے تعینات کیا کہ وہ تمام معالجوں کا امتحان لیں اور مریضوں کو شفایاب کرنے کی صلاحیت کی جانچ کرکےے انہیںلائسنس دیں۔صرف بغداد میں حکمت کرنے والے 860حکیموں کی اسی کے بعد تمام اسپتالوں میں لائسنس تجویز کرنے والے ایک بورڈ کی تشکیل کی گئی ۔محتسب جو انسپیکٹر جنرل ہوتاتھا وہ اس کا سربراہ ہوتا۔یہ دوائیوں کے وزن اور ان کے معیار کی جانچ بھی کرتا (Drug Inspecto)فرماسسٹ انسپیکٹر مقرر کئے گئے۔جو آج کے امریکہ میں فوڈ ایند ڈرگ ایڈ منسٹریشن کا (FDA)کام ہے۔یہ اسلامی مملکت میں ہزار سال قبل کیا گیا تھا۔اسی طرح مغرب میں اسلامی حکومت کے ہزار سال کے بعد میڈیکل پریکٹس کرنے والوں کو لائسنس دینے کا نظم کیا گیا اور امریکہ میں امریکن بورڈ آف میڈیکل اسپیشل لیٹیز اسی نہج پر قائم کیا گیاہے۔جہاں میڈیسن ،سرجری ،ریڈیولوجی ،وغیر ہ کے ایپشیلیٹی کا طریقہ رائج ہے ۔اس کے باوجود یہ اسلامی طریقہ سے تحصیل کردہ ہے ۔آج بھی ابن سینا کی طب پر مستند کتاب ”قانون “کو پڑھے بغیر میڈیکل تعلیم مکمل نہیں۔
اسپتال :
اسلامی مملکت میں اسپتالوں نے کافی عروج حاصل کیا تھا۔یہاں مفت علاج کی سہولت تھی۔یہ حکومت کے زیر نگرانی چلاکرتے تھے ۔ان اسپتالوں میں مرد اور خواتین کے لئے وارڈ علیحدہ تھے۔ہرایک وارڈ میں خواتین نرس اور خدمتگا ر مر د عورت تیمار داری کے لئے موجود ہوتے تھے۔بخار ،زخمم ،انفیکشنن،مائنیا،آنکھ کی بیماریاں ،سردی سے ہونے والے امراض،ڈائریا،خواتین کی پیچیدہ ایامی بیماریاں و زچہ تمام وارڈ جدا جدا تھے۔صحتیاب ہورہے مریضوں کے لئے وارڈ بالکل جدا تھا۔مریضوں کو تازہ ہوا اور تازہ پانی مہیا کرایا گیاتھا۔ان اسپتالوں میں اسپتال کی دیکھ ریکھ کی تربیت میڈیکل طلبا کو وہاں رکھ کر (بورڈنگ کا نظام )کیاجاتا۔اسپتالوں میں کانفرنس ہال ہوتے ،قیمتی لائبریریاں ہوتیں جہا ں جدید ترین کتابیں موجود ہوتیں ۔حددرار کے مطابق تولم اسپتال جو قاہرہ میں 872 میں قائم کیاگیا تھا وہاں کی لائبریری میں ایک لاکھ کتابیں تھیں(آج سے ہزار سال قبل)یونیورسٹی اور اسپتالوں کی لائبریریاں بہت بڑی ہوتی تھیں ۔جیسے بغداد میں مستنصریہ یونیورسٹی کی لائبریری میں کتابوںکی 80ہزار جلد یں تھیں ۔کارڈوبا کی لائبریری میں چھ لاکھ کتابیں تھیں۔قاہرہ کی لائبریری میں دولاکھ کتابیں اور تریبولی کی لائبریری میں تین لاکھ کتابیں موجود تھیں۔اس کے علاوہ ہرایک حکیمم اور طبیب کے پاس نجی کتابوں کے بڑے ذخیرے موجود تھے۔یہ حالات اس زمانہ میںتھے جب چھا پہ خانہ نہیں تھے اور کتابیں نہایت کاوش محنت اور مشقت سے ہاتھوں سے تحریر کئے جاتے تھے۔
دنیا کی تاریخ میں اسپتالوں کے مریضوں کا ریکارڈ رکھنے کا طریقہ ان اسپتالوں نے رائج کیا ۔باہری اور داخلی مریضوں میں طریقہ علاج میں کوئی تفریق نہیںتھا۔تل تلونی اسپتال میں جن مریضوں کو بھر تی کیا جاتا اسپتال انہیںاپنا لباس مہیا کراتا اور وقت رخصت انہیں ان کا لباس اور قیمتی سامان پانچ سونے کی اضافی اشرفیون کے ساتھ دیتا۔تاکہ وہ کچھ دنو خود کفل رہ سکے ۔دمشق میںکوڑھ کے مریضوں کے لئے ایک شفاخانہ قائم تھا جب کہ اس کے چھ صدی بعد بھی یورپ میں کوڑھ کے مریضوں کو شاہی حکم پر زندہ جلادیا جاتا تھا۔تیونس کے قیروان کے اسپتال میں (830AD)ہرایک مرض کے وارڈ علیحدہ تھے۔انتطار گاہ اور نرس جو سوڈان سے تعلق رکھتی تھیں (عربی تاریخ کا یہ اول قدم ہے جس نے عورتوں کے بطور نرس باضابطہ طورپر اس پیشہ میں روشناس کرایا )ان اسپتالوں میں عبادت کے لئے بھی سہولتیں موجود تھیں۔بغداد کا العدودی اسپتال(981AD)بہترین آلہ جات اور نظم کے لئے مشہور تھا۔یہاں طلباکے رہائش اور انٹرنل شپ کاانتظام تھا۔۴۲معالج علاج معالجہ میںمشغول تھے۔عباسی خلافت کے ایک وزیرعلی ابن سینا نے سب سے پہلے قیدیوںکے علاج کے لئے حکیموںکو وزٹ کرنے کی تلقین کی۔اس دور تک یورپ جہالت کی تاریکی میں ڈوباہواتھا۔جب کہ بغداد ،قاہرہ اور کارڈوبا اعلی قسم کے اسپتال اعلی ترین طبی تعلیم اور طب کے میدان میںانتہائی وسعتوںپرتھا۔یہاں وہ کارنامے انجام دئے گئے جو آج ہزارسال کے بعدبھی انتہائی جدید ہیں۔ان اسپتالوں میںانسانی ہمدردی کا بول بالا تھا۔ذہنی دماغی مریضوںکاعلاج نہایت محبت اور ہمدردی سے کیا جاتا ۔مریضوںکے آرام کا ہر ممکن خیال رکھاجاتا۔
اسپتالوں کو بیمارستان کے نام سے دوحصوںمیں تقسیم کیاگیا۔ایک تو بڑی عمارتوں میںقائم تھا ۔دوسرا متحرک اسپتال سواری کو جانوروںکے ذریعہ کھینچا جاتا تھا جس کے ذریعہ دور دراز کے دیہی علاقوںکے مریضوں کا علاج کیا جاتا جو چلنے پھرنے سے معذور تھے یا شدید بیمار ۔اسی قسم کے متحرک اسپتال فوج میں استعمال کئے جاتے ۔اس میں خیمہ روزار ،الاجات نرس ،اردلی اور ڈاکٹرس کی پوری ٹیم ہوتی ۔یہ وبا پھیل جانے کی صورت میں اور دوردراز علاقوں میں علاج کے لئے ہمہ وقت تیار رہتے۔
طب میں بیکٹیریا کی شناخت :
رازی نے بغداد میں اپنے قیام کے دوران بادشاہ کے حکم کے مطابق اسپتال کے لئے پرفضا مقام تلاش کرنے کے لئے سائنٹفک طریقہ اختیار کیا ۔انہوں نے گوشت کے بڑے بڑے ٹکرے شہر کے مختلف علاقوں میں ٹانگ دئےے۔دوتین دنوں کے بعد جس علاقہ کا گوشت سب سے کم خراب ہوا تھا اس علاقہ کو کم بیکٹیریا والا علاقہ قرار دے کر انہوں نے وہاں اسپتال قائم کئے۔ابن سینا نے سب سے پہلے بتایا کہ جسم سے نکلنے والی رطوبت زمین سے پیداہونے والی جراثیم سے متاثر ہوکر زہریلے مادے تیار کرتی ہےں۔ابن خطیمہ نے بتایا کہ انسان جراثیم سے ہروقت گھراہواہے اور یہ انسانی جسم میں داخل ہوکر انسان کو مریض بنادیتی ہیں۔۴۱ویں صدی کے وسط میں بلیک جسے کالی موت کے نام سے یاد کیا جاتاہے خدائی عتا ب کے طرح یورپ میں پھیلا ۔اس وقت میں ابن الخطیب (گراناڈا)نے جراثیم کے لئے کچھ مقامات کا تعین کیا اور کہا کہ اس کا ماخذاتحقیق و تفتیش و ثبوت و شواہد ہیں۔مریضوں کے جراثیم سے بیمار ہونے والے لو گ اس کا ثبوت ہیں۔جب کہ دور رہنے والے افراد محفوظ رہتے ہیں۔یہ جراثیم کپڑوں سے برتنوں سے اور ہوا سے منتقل ہوتے ہیں۔رازی نے چیچک کے متعلق سب سے پہلے تفصیل لکھی اور دو چیچک کا فرق و ان کا علاج تجویز کیا۔ابن سینا نے ٹی بی کے جراثیم کے منتقل ہونے کا نظریہ پیش کیا ۔انہوں نے سب سے پہلے زخموں کے علاج کے لئے شراب کا استعمال کیا ۔رازی نے زخموں کے لئے ریشمی ستور اور ہیمو اسٹیٹس کے لئے الکوحل کا استعمال کیا ۔اور اسے اینٹی ہیپٹک قرار دیا ۔
اینتھیسیا:
ابن سینا نے سب سے پہلے اینتھیسیا کو دوا کے طورپر استعمال کیا۔اور افیم کو طاقتور مخاضر (نشہ آور دوا)کے طورپر پیش کیا ۔اس سے کم طاقت کے نشہ کے لئے مینڈراگورا،پوستہ،ہیملوک،بھانگ،بیلا ڈونا،لیٹیوس سیڈ ،سرد پانی یا برف کا استعمال کیا جاتا ۔عرب طبیبوں نے سپوروفک اسپانچی کا استعمال سب سے پہلے کیا جو موجودہ اینتھیسیا کی ابتدائی شکل تھی۔اس پر ایرومیٹکس اور نارکوٹکس ڈال کر مریضوں کو سونگھایا جاتاتھا۔دراصل اس کا استعمال سرجری کی بڑھتی ہوئی قدروں کے تحت ترقی پذیر تھا۔اس زمانہ میں جب اسلامی ممالک سرجری کو ایک جدید ترین سائنس بتارہے تھے ،یورپ میں نشتر زنی کا کام حجام اور نیم حکیم کررہے تھے۔برٹن نے لکھا ہے کہ سرجری کے لئے اینتھیسیا کا استعمال مشرق میں صدیوں سے ہورہا تھا۔بہت بعد میں مغرب نے ایتھر اور کلوروفورم کا استعمال شروع کیا۔
سرجری :
رازی اول سائنس داں طبیب اور سرجنن ہے جس نے سرجری کے سیتور (وہ دھاگہ جسے جسم پر آپریشن کے بعد سلائی کی جاتی ہے)کی جگہ سیٹون اور تانت کا استعمال کیا ۔ابوالقاسم خلف بن عباس الزہراوی(930-1013AD)کو دنیا ئے اسلام کا اول موجد تسلیم کیا جاتا ہے جس نے 200سے زائد نشترزنی کے آلات ایجاد کئے ۔وہ خود بہت بڑے سرجن تھے ۔اپنی کتاب ’التصریف ‘میں میڈیکل کی تاریخ میں اول شخص کی حیثیت سے انہوں نے ہیموفیلیا کا تذکرہ کیا۔اسی کتا ب میں آلات جراحی کے استعمال کی وضاحت بھی کی ۔اس کتاب میں سرجری کے لئے علم الابدان (اناٹومی)کی تعلیم کو انہوں نے لازمی قرار دیا ۔ہمبرج سیلان خون کے لئے سب سے انہوں نے روئی کا استعما ل کیا جو ہڈی ٹوٹنے ،دانت نکالنے کے بعد اور پردہ_¿ بکارت کے آپریشن یا زیادہ خون آنے کی صورت میں استعمال کیا گیا اور سب سے پہلی بار استعمال کیا گیا۔سرجری میں زہراوی نے گردہ کی پتھری نکالنے کے لئے پیشاب کے بلاڈر کے پاس آپریشن کرنے کی راہ دکھائی اور عورتوں کے لئے آپریشن کا مقا م لیتھو ٹومی کے پاس بتا یا ۔ویری کوس وینس کو بند کرنے کے لئے ان کی تفصیل آج بھی جدید تر سرجری معلوم ہوتی ہے۔ارتھو پیڈکس کے آپریشن کو انہوں نے رائج کیا۔ابن سینا کا کینسر کے لئے آپریشن کرنے کا اصول آج ہزار سال کے بعد بھی اتنا ہی اہم ہے ۔اسلامی سرجنوں نے تین طرح کی سرجری کو رائج کیا اور فروغ بھی دیا۔وسکولر ،جنرل اور ارتھوپیڈک۔پیٹ کا آپریشن عام تھا ۔آنکھوں کے تمام آپریشن کھلے عام با ٓسانی ہوتے تھے۔جگر کے پھوڑے کا علاج بنکچہ کے ذریعہ کیا جاتا تھا۔آج بھی سرجری کے آلات اور طریقہ کار وہی ہیں جو زہراوی نے ہزار سال پہلےے ایجاد کیا تھا۔دنیا کے اندر اس پرکم و بیش عمل ہورہاہے۔
دوائیاں،کیمیاسازی:
رازی و ہ اسلامی سائنسدان ہے جنہوں نے سب سے پہلے کئی مادہ کو ایک دوسرے سے جدا کیا اور ان کی تطہیر کی۔کئی کیمیاکو ایجاد کیا۔اس کے علاوہ تقطیر کیا اور کئی کیمیا کو بطوردوااستعمال کیا ۔پارہ کا بطور دوا بھی استعمال رازی ہی نے کیا اور پیشاب و مثانہ سے متعلق تمام بیماریوں کی دوائیں تجویز کی اور ان پر تحقیق کیا ۔ابن ظہر نے بہت ساری پیچیدہ بیماریوں کی تشخیص کی اور ان کا علاج تجویز کیا ۔اسی طرح الا شعث نے گیسٹرلی فیزیولوجی پر تحقیق کیا۔ابوشال المسیحی النفیس نے پلمونری سرکولیشن سے دنیا کو واقف کرایا۔
فارما کولوجی:
یوحنا بن مساویح (777-857AD)نے عالم اسلام میں سب سے پہلے عباسی خلیفہ کے زمانہ میںدوائیوں کے سائنٹفک استعمال اور سلسلہ وار استعمال کے متعلق تفصیل لکھی۔ان کے شاگر د حنین بن اسحاق العابدی نے اپنی کتاب المسائل حنین میں دوائیوں کی اثر انگیزی کی جانچ کا طریقہ بتایا۔خلیفہ المامون اور المحتشم کے زمانہ میں طب کی پریکٹس کے لئے امتحان پاس کرنا لازمی قرار پایا اور لائنسس کا استعمال شروع ہوا۔مرکبات مفرجات تقطیر تطہیر الکوحل سازی و ادویہ کی اعلی معیا ری ترکیبات رائج کی گئی ۔جس کے لئے موتی سونا مونگا عنبرمشک کاسیا املی آملہ مصبر لونگ ودیگر اشیاءکا استعمال بڑے پیمانہ پر کیا گیا۔ اس مقام پر فارماکولوجی کو ایک شعبہ کی حیثیت سے بڑے اور آزادانہ پیمانہ پر الگ قائم کیا جہاں جڑی بوٹیوں پر تحقیق کی جاتی ،ان کے خواص نکالے جاتے۔اور پینے کی دوائی تیار کی جاتی ۔گلاب کے عرق کشید کئے گئے۔سنترہ کے پھول سے رنگ او رلیموںو سنترہ کی خوشبو حاصل کی گئی۔
نفسیاتی علاج :
رازی اور ابن سینا نے سب سے پہلے ذہنی بیماریوں کے علاج کا سلسلہ شروع کیا ۔اس کے لئے جسمانی اور نفسیاتی حرکتوں کو رازی نے جسمانی نفسیاتی حرکتوں کی بنیاد پر علاج کا طریقہ نکالا ۔ اسی طرح سے گٹھیا ، لقوہ اور صدماتی فالج کا کامیاب نفسیاتی علاج کیا ۔رازی کے ہم عصر نجیب الدین محمد نے ذہنی بیماریوں کے کئی اقسام کی شناخت کی اور اس کی تفسیر لکھی انہوں نے ذہنی تناﺅ اور آکسیسس ، نےورو سس ، جنسی کمزوری جیسے امراض پر مکمل کتاب نفخئہ مالی خولیا اور قطریب ایک قسم کی مالی خولیا ہے اس تذکرہ بھی کیا ۔ساتھ میں دول قلب کی تفصیل بھی بیان کی ۔بن سینا نے جسمانی نفسیاتی امراض کو باہم ملاکر فروغ دیا ۔اور ان کی تشخیص جذباتی الجھن کے طور کی آٹھویں صدی میں مراقوکے فیص میں پاگل خانہ قائم کیا گیا عربوں نے بھی 750عیسوی میں قاہرہ ، دمشق اور ایلیپو میں پاگل خانے قائم کئے تھے ۔وہاں مریضوں کے لئے ہر طرح کی سہولیات فراہم کی گئی تھی ۔مریضوں کے ذہنی سکون کے لئے موسیقی کے ذریعہ علاج فراہم کیا جاتا تھا اس کے علاوہ ایکپوپیشنل تھیراپی کے لئے مریضوں کو گانا و موسیقی کے ذریعہ آرام پہنچایا جاتا نقالی مسخرہ پن اور ہسننی ہنسانے کے دوسرے پروگرام بھی پیش کئے جاتے ۔
ہزار سال قبل اسلامی اسپتال ان کی اعلیٰ معیار و اعلیٰ طریقہ کار وجود میں آچکے تھے ۔دوا سازی ، حکمت ،سرجری اور دیگر میدان میں نئی نئی ایجادات تحقیق و تفتیش کا کام عروج پر تھا ۔ بیماریوں کی تشخیص طریقہ علاج مرض ، وجوہات اس کے اسباب و عوامل پر غور فکر و تحقیق کے نتائج میں نئی نئی بیماریوں کا دریافت ہو چکا تھا ۔وائرس ، جراثیم ،اچھوت کی بیماریوں سے آگاہی ہو چکی تھی ۔سرجری اور نفسیاتی علاج کے وہ طریقہ اختیار کئے گئے تھے جنہوں نے بعد میں یوروپی ماہر نفسیات ، موجدوں ، سرجنوں اور معالجوں کی ہر قدم پر رہنمائی کی اور بنیاد کی صورت میں آج بھی ان کی افادیت برقرار ہے…NO..9… جنسی راہنمائی کیوں ضروری ہے؟
برقیہ چھاپیے
حکیم غلام صادق
بہت کم نوجوان ایسے ہیں جنہیں اپنی جوانی پر ناز ہو اور وہ کہہ سکیں کہ ہم نے اپنے ہاتھوں اپنی جوانی کو روگ نہیں لگایا یا پھر دیگر ذرائع سے جنسی تسکین حاصل کرنے کی کوشش نہیں کی-
آج کل کے نوجوان وی سی آر’ فحش فلموں و تصاویر’ شہوانی جذبات بھڑکانے والے ناول اور یورپی طرز معاشرت اپنانے کی وجہ سے مکمل بالغ ہونے سے قبل ہی جنسی فعل کی خواہش SEX DESIRE کا شکار ہو جاتے ہیں اور اس خواہش کی تکمیل کیلئے زیادہ تر نوجوان خود لذتی’ مشت زنی MASTER BATION یا ہینڈ پریکٹس کی عادت کو اپنا لیتے ہیں بیشتر ہم جنسیت HOMO SEXUALTY میں مبتلا ہو جاتے ہیں بعض جنسی کجروی میں LESBIANS & GAYS بن جاتے ہیں یعنی ہم جنس پرستی میں مفعول بن کر جھوٹی لذت حاصل کرتے ہیں- کچھ لوگ جنسی تسکین کیلئے اس سلسلے میں پروفیشنلز طوائفوںسے رجوع کرتے ہیں-
بھوک پیاس جیسی فطری خواہشوں کی طرح جنسی تسکین کی خواہش بھی ایک فطری خواہش ہے جو کہ قدرت کی طرف سے انسان کو طبعی طور پر عطا کی گئی ہے سورہ روم آیت نمبر 21 میں اللّہ تعالیٰ فرماتا ہے-
”اور اس کے نشانات میں سے ایک نشان یہ ہے کہ اس نے تمہارے درمیان کشش و محبت رکھدی ہے-”
اس تسکین’ کشش و محبت اور خواہش کا اعلیٰ مقصد اور اہم غرض بقائے نسل انسان ہے لیکن انسان چونکہ فطری طور پر حریص واقع ہوا ہے اس لئے وہ اس قوت کا وقت بے وقت جگہ بے جگہ استعمال کر کے اپنے آپ کو اس نعمت خداوندی سے محروم کر لیتا ہے اور مختلف جنسی نفسیاتی اور خبیث امراض و عادات کا شکار ہو اجاتا ہے جن میں مشت زنی’ ہم جنسیت’ کثرت احتلام’ ذکاوت حس’ نامردی’ ضعف باہ’ جریان’ سرعت انزال’ سوزاک’ آتشک اور ایڈز سرفہرست ہیں- یہ سب کچھ جنسی معلومات سے لا علمی کی وجہ سے ہوتا ہے اس لئے والدین اور اساتذہ کو چاہیے کہ اس کتابچہ کو دیکھ کر ناک بھوں نہ چڑھائیں بلکہ حقیقت کا سامنا کریں اور دوستانہ ماحول میں اپنے بچوںکو جنسی معلومات سے روشناس کرائیں کیونکہ اگر آپ نے اس سلسلے میں ٹال مٹول سے کام لیا تو بچوں کے دماغ میں اس بارے میں جاننے کی خواہش ضرور رہتی ہے اور وہ اپنے سے بڑے کلاس فیلوز یا گلی محلے کے بری صحبت رکھنے والے دوستوں وغیرہ سے” سیکس ” SEX کی بے تکی معلومات حاصل کریں گے اور اپنے نازک دل و دماغ کو گندے خیالات سے بھر کر اپنی جوانی کو داغدار کر لیں گے لہذا سن بلوغ کو پہنچنے والے بچوں کو سمجھا دینا چاہیے کہ جنسی تسکین کی صحیح صورت مرد اور عورت کا ملاپ ہے اور مرد اور عورت کے ملاپ کی اخلاقی’ قانونی و شرعی صورت شادی ہے شادی سے انسان کی جنسی زندگی میں نظم و ضبط پیدا ہوتا ہے شادی کا ثمر اولاد ہے جس کی باقاعدہ پرورش سے انسان معاشرہ میں اپنا فرض ادا کرتا ہے- موجودہ ماحول کے مطابق والدین کو بالغ ہونے والے بچے کی شادی کا فریضہ جلد از جلد ادا کر دینا چاہیے کیونکہ جنسی کجرویوں برائیوں جنسی امراض اور جنسی جرائم کو کم بلکہ ختم کرنے کا یہی ایک طریقہ ہے-
جنسی امراض کے علاج کے سلسلے میں اکثر نوجوان انتہائی راز داری برتتے ہیں اور اس سلسلے میں جو بھی نیم حکیم فٹ پاتھئیے معالج اور ہیلتھ کلینکوں کے عطائی ڈاکٹروں سمیت جو بھی سامنے آتا ہے اس سے علاج کروانا شروع کر دیتے ہیں کسی نے کوئی نسخہ یا ٹوٹکہ بتا دیا تو اسے فوراً استعمال کرنا شروع کر دیا اس سے بعض اوقات خطرناک نتائج رونما ہوتے ہیں اور مریض اپنے جسم کو بگاڑ لیتے ہیں ہر شخص کا مزاج مختلف ہوتا ہے جو دوائی کسی دوسرے فرد کو موافق تھی اور اسے اس سے آرام آ گیا تھا آپ کو نقصان بھی دے سکتی ہے فٹ پاتھئیے نیم حکیم’ نام نہاد ہیلتھ کلینکس’ عطائی ڈاکٹر اور غیر مستند معالج اپنی گرما گرم باتوں اور چرب زبانی سے لوگوں کو آسانی سے بے وقوف بنا کر روپیہ وصول کر لیتے ہیں اور جنسی امراض سے متعلق اس قدر مبالغہ آمیز بیانات داغتے ہیں کہ مریض اپنے آپ کو زندہ در گور سمجھنے لگتا ہے اگر کسی فٹ پاتھئیے نیم حکیم کی تقریر سننے کا آپ کو موقع ملے تو آپ بھی اپنے آپ کو کسی نہ کسی شدید مرض میں مبتلا سمجھنے پر مجبور ہو جائیں گے اور جس وقت وہ دوا بیچنا شروع کرے گا آپ کا ہاتھ بھی وہ دوا خریدنے کیلئے اپنی جیب تک پہنچ جائے گا
عضو مخصوص (PENIS)
عضو مخصوص کی لمبائی سے متعلقہ بہت سی بے بنیاد باتوں پر لوگ یقین رکھتے ہیں- اس سلسلے میں سائنسی انکشافات نے واضح کر دیا ہے کہ نارمل جنسی ملاپ کیلئے عضو مخصوص بحالت انتشار ساڑھے چار انچ سے پانچ انچ تک لمبا ہو تو مکمل مردانگی کا ثبوت ہے اگر عضو کی سختی اور شہوت کی کیفیت تسلی بخش ہے تو مرد دنیا کی کسی بھی نارمل عورت کو مطمئن کر سکتا ہے-
تازہ ترین میڈیکل رپورٹ کے مطابق امریکہ کی ایک خاتون ڈاکٹر نے واضح کیا ہے کہ نسوانی عضو مخصوص کا وہ حصہ جو جنسی لذت سے خاص تعلق رکھتا ہے اور جس کا عورت کی تسلی و تشفی سے بھی تعلق ہوتا ہے اس کا طول اور عمق (لمبائی اور گہرائی) ڈھائی انچ ہوتا ہے لہذا مرد کے عضو مخصوص کا ”طول” اتنا ضرور ہونا چاہئے-
غیر قدرتی ذرائع ”جلق و اغلام وغیرہ” سے عضو مخصوص کی قدرتی نشوونما رک گئی ہو تو قدیم نسخوں سے جدید اختراعات کر کے تیار کئے گئے طلاو_¿ں’ تکمید’ ٹکور اور دیگر ادویہ سے اس نشوونما کو قدرتی نشوونما کے مطابق بڑھایا جا سکتا ہے علاوہ ازیں دیگر خرابیاں مثلاً سستی’ لاغری’ کجی ”ٹیڑھا پن” رگوں کا ابھرنا وغیرہ بھی ختم ہو سکتی ہیں۔۔۔۔۔۔۔
عقم (اولاد نہ ہونا)
عورتوں میں اولاد نہ ہونے کے مرض کو عقر (بانجھ پن) کہا جاتا ہے لیکن یہاں اس مرض کا ذکر کیا جا رہا ہے جو مرد کو اولاد سے محروم رکھنے کا موجب ہے واضح ہو کہ مرد کے ایک مرتبہ کے انزال میں جو منی خارج ہوتی ہے اس میں چار ارب حونیات منی (SPERMS) خارج ہوتے ہیں اور عورتوں میں استقرار حمل کے لئے صرف ایک سپرم کی ضرورت ہوتی ہے بعض اوقات جنسی غلط کاریوں کے برے اثرات کی وجہ سے حونیات منویہ کمزور یا کم ہو جاتے ہیں جس کی بنا پر حمل قرار نہیں پاتا اور اولاد نہیں ہوتی بعض حضرات کی مردانہ طاقت تو موجود ہوتی ہے لیکن سپرم کمزور ہوتے ہیں بعض اوقات مردانہ طاقت کمزور ہوتی ہے مگر سپرم طاقتور اور مکمل ہوتے ہیں عورت میں بھی یہ نقص پایا جاتا ہے جیسا کہ بتایا جا چکا ہے کہ بچپن کی غلط کاریوں کے علاوہ خصیوں کی کمزوری’ آتشک’ سوزاک ‘ سل و دق اور ریڈیم کی شعاعوں کے برے اثرات سے بھی یہ مرض ہو جاتا ہے بعض ایلوپیتھک ادویات اور سٹیرائیڈز کے استعمال سے بھی سپرم ختم ہو جاتے ہیں یا ان کی تعداد کم ہو جاتی ہے- منی میں پیپ’ خون’ بیکٹیریا کا اخراج بھی اولاد سے محرومی کا باعث بنتا ہے۔ اس مرض کا علاج مشکل ضرور ہے ناممکن نہیں- طب یونانی میں ایسی ادویہ موجود ہیں جن سے منی گاڑھی ہو جاتی ہے خون اور پیپ ختم ہو جاتی ہے مادہ منویہ میں اولاد پیدا کرنے والے حونیات (Sperms) کی مقدار بڑھ جاتی ہے اور وہ پہلے سے طاقتور ہو جاتے ہیں…………
نامردی IMPOTENCY
وہ جنسی امراض اور عوارضات جنکا ذکر اس فورم میں کیا جا چکا ہی کسی نہ کسی سطح پر نامردی کی تعریف میں آتے ہیں تاہم اگر قوت مجامعت کمزور ہو جائے عضو مخصوص میں مکمل خزیش انتشار نہ ہو اور مریض وظیفہ جنسی کو پورے طور پر سرانجام نہ دے سکے تو اس حالت کو جنسی کمزوری یا ضعف باہ کہتے ہیں لیکن یہ قوت بالکل ناقص اور باطل ہو جائے عضو مخصوص میں کوئی خیزش نہ ہو جماع کی طرف رغبت نہ رہے طبعیت کو جذبہ شہوت سے نفرت ہو جائے اور باوجود کوشش کے جنسی فعل انجام نہ دیا جا سکے تو اسے عنانت یا نامردی کہتے ہیں-
اب پھر نامردی کو دو اقسام میں منقسم کیا جا سکتا ہے-
1- عضوی (ORGANIC)
-2 فعلی اور ذھنی (FUNCTIONAL AND PSYCHOLOGICAL)
-1 عضوی نامردی بیرونی طور پر عضو مخصوص کی ساخت اور جنسی گلینڈز کی خرابی سے تعلق رکھتی ہے-
-2فعلی اور ذھنی نامردی کے م?ختلف نفسیاتی اور دیگر اسباب ہیں نامردی کی تمام اقسام کی تشخیص کرنے کے بعد….
پروفیشنلز طوائفوں سے جنسی تعلقات
پروفیشنلز طوائفوں سے جنسی تعلقات قائم کرنا اگرچہ خلاف وضع فطری فعل نہیں لیکن قانونی اور شرعی حیثیت سے یہ ناجائز ہے علاوہ ازیں طوائف کا پیار اور محبت روپے پیسے کیلئے ہوتا ہے لہٰذا قدرتی پیار اور محبت کے فقدان کی وجہ سے وہ کسی بھی فرد کو جنسی طور پر مکمل آسودگی بہم نہیں پہنچا سکتی اس کے علاوہ طوائف کسی ایک فرد کی پابند نہیں ہوتی بلکہ طرح طرح کے لوگ اس سے جنسی تعلقات قائم کرتے ہیں جن میں چھوتدار امراض کے مریض بھی ہو سکتے ہیں لہذا بازاری اور پروفیشنلز عورتوں سے مختلف امراض مثلاً سوزاک’ آتشک’ ایڈز وغیرہ لاحق ہو سکتی ہیں- ماہواری کے دوران عورت کے پاس جانا کئی بیماریوں کو دعوت دینا ہے- چونکہ طوائف کا تو کاروبار ہوتا ہے لہذا وہ یہ کبھی بھی نہیں بتاتی کہ وہ ماہواری سے ہے لہٰذا دوران ماہواری جنسی تعلقات قائم کرنے والے افراد اپنی جوانی کو روگ لگا لیتے ہیں اور کئی امراض کا شکار ہو جاتے ہیں۔
یورپ میں بانجھ پن دوگنا
برطانیہ میں اولاد پیدا کرنے کی صلاحیت کے ایک ماہر نے ایک کانفرنس کے دوران بتایا کہ یورپ میں ابھی سات میں سے ایک جوڑے کو قدرتی عمل سے بچہ پیدا کرنے میں مشکلات کا سامنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگلے دس سالوں میں ہر تیسرا جوڑا اس مسئلے کا شکار ہوگا۔
شیفیلڈ یونیورسٹی کے پروفیسر بِل لیجر نے کانفرنس کو بتایا کہ خواتین کو کام میں وقفہ ملنا چاہیے تاکہ وہ جوانی میں حاملہ ہو سکیں جب ان میں بچہ پیدا کرنے کی صلاحیت زیادہ ہوتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ موٹاپے اور جنسی بیماریوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایک جنسی بیماری Chlamydia جو بانجھپن کا باعث بنتی ہے کے شکار لوگوں کی تعداد دوگنی ہوئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ انیس سال سے کم عمر کی چھ فیصد لڑکیاں موٹاپے کا شکار ہیں۔
پروفیسر لیجر نے کہا کہ مردوں میں بانجھپن میں ممکنہ اضافے سے جوڑے متاثر ہو سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سپرم یعنی نطفہ کی مقدار اور معیار میں بظاہر کمی ہوئی ہے۔انہوں نے کہا کہ آج کے نوجوان لوگ کل بانجھپن کے کلینک میں مریض ہوں گے۔
ڈاکٹر لیجر کا کہنا تھا کہ نوجوانی میں جنسی عمل کے دوران لگنے والی بیماریاں خواتین کی اہم نالیوں کی بندش کا باعث ہوتی ہیں اور جب یہ لڑکیاں بڑی ہو کر ماں بننا چاہتی ہیں تو حاملہ نہیں ہو سکتیں۔
انہوں نے کہا کہ کیریئر بنانے والی خواتین دیر سے بچے پیدا کر رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ شرح پیدائش میں کمی کی وجہ سے یورپ کی آبادی کو خطرہ پیدا ہو گیا ہے۔
ڈاکٹر لیجر نے کہا کہ اس رجحان کو روکا جا سکتا ہے۔ اس کے بارے میں انہوں شمالی یورپ میں سکینڈی نیویائی ممالک کی مثال دی جہاں خواتین کی جلدی بچے پیدا کرنے کے لیے حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔
انہوں نے کہ برطانیہ کو بھی فرانس کی طرح بچّے پیدا کرنے کے لیے کیریئر میں وقفہ ڈالنے والی خواتین کو ٹیکس میں چھوٹ دینی چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ خواتین میں پینتیس سال کے بعد بچّہ پیدا کرنے کی صلاحیت کم ہو جاتی ہے۔
سرعت انزال PREMATURE EJACULATION
جنسی امراض میں مرد کیلئے سب سے زیادہ شرمناک اور باعث خفت مرض سرعت انزال ہے جس کے مکمل علاج کے بغیر رشتہ ازواج کا قائم رہنا دشوار ہو جاتا ہے اپنی بیوی سے شرم و ندامت کی وجہ سے مریض زندگی پر موت کو ترجیح دینے لگتا ہے-
بوقت جماع (جنسی ملاپ) فوری طور پر (انزال) منی کا اخراج سرعت انزال کہلاتا ہے جب یہ مرض شدت اختیار کرتا ہے تو دخول سے قبل ہی انزال ہو جاتا ہے بعد ازاں حالت یہ ہو جاتی ہے کہ ادھر جنسی ملاپ کا خیال آیا اور ادھر ادھوری سی شہوت ہو کر فوراً مادہ تولید خارج ہو گیا اور جوش ٹھنڈا پڑ جاتا ہے بعض مریضوں کے ایسے حالات تو اس قدر بدتر ہو جاتے ہیں کہ محض شہوانی تصور یا کوئی خوبصورت لڑکی دیکھنے یا عضو مخصوص کے کسی ملائم کپڑے سے چھو جانے سے خیزش ہو کر یا خیزش ہوئے بغیر معمولی سا دغدغہ محسوس ہو کر مادہ تولید خارج ہو جاتا ہے-
احتلام NIGHT DISCHARGE
رات کو سوتے وقت منی یا مادہ منویہ کا خارج ہو جانا احتلام کہلاتا ہے طبعی احتلام زیادہ تر خواب کے ساتھ ہوتا ہے اس میں انتشار کی کیفیت پائی جاتی ہے اور احتلام کے بعد صبح طبیعت چست اور فرحت کا احساس ہوتا ہے طبعی احتلام مہینے میں دو تین بار سے زیادہ نہیں ہوتا جبکہ مرض کی حالت میں ہر روز یا دوسرے تیسرے روز اور بعض اوقات ایک رات میں دو دو مرتبہ احتلام ہو جاتا ہے یہ یاد رکھنا چاہئے کہ احتلام کی کثرت دراصل جریان کی ابتدائی سٹیج ہے- اس کے نقصانات جریان کی طرح کے ہیں پیشاب جل کر آتا ہے خصیوں میں درد ہونے لگتا ہے سستی کمزوری نسیان چڑ چڑاپن کی شکایت ہو جاتی ہے- یہ مرض بھی باقاعدہ علاج اور پرہیز سے ٹھیک ہو جاتا ہے…NO…10…طب اسلامی اپنے عہد سے ہزار سال آگے (حصّہ دوّم)
طب اسلامی
جب پورا یورپ خصوصی طور پر لندن اور پیرس دھول اور کیچڑوں کا ڈھیر تھا تب بغداد، قاہرہ اور کارڈوبا کے اسپتالوں میں عورتوں اور مردوں کے لئے علیحدہ انتظام تھا۔ بخار کے مریضوں کو ایسے کمروں میں رکھا جاتا جہاں جھرنوں اور فواروں سے ٹکرا کر سرد ہوا آتی ۔ پاگلوں اور ذہنی و نفسیاتی امراض کے لئے شعبے جدا تھے۔ مریضوں کو سکون کی خاطر کہانیاں سنائی جاتی اور ہلکی موسیقی سے سکون فراہم کیا جاتا۔ مریضوں کو اسپتال سے رخصت کے وقت رائج 5اشرفیاں دی جاتی ۔ عورت نرس اور مرد تیمار دار مریضوں کی دیکھ ریکھ کے لئے ہوتے ۔ ان اسپتالوں میں لائبریری، کیمیا گری، دواسازی، تحقیق و تفتیش کے کام بھی کئے جاتے۔ اسی زمانہ میں دیہی علاقوں میں علاج کے لئے اور معذور لوگوں کے علاج کے لئے سواری گاڑیوں پر متحرک اسپتالوں کا نظام تھا۔ دواسازی کے اعلی معیار کے تحقیق کے لئے(ڈرگ کنٹرول)تفتیش کار (انسپیکٹر)مقرر کئے گئے تھے۔
دواسازی (عطار) کرنے والوں کو حکومت کی طرف سے لائسنس دیا جاتا تھا۔ طب کی تعلیم میں بھی مسلمانوں نے بیکٹیریالاجی، میڈیسن، اینتھیسیا سرجری، فارمیسی، روپ تھامولوجی، سائیکوتھیراپی، سائیکو سوماٹک جیسے امراض کی نہ صرف شناخت کی بلکہ ان کا علاج بھی کیا اور ان شعبوں کو ترقی کے بام عروج پر پہنچا دیا۔
اسلامی حکومت حضور کے وصال کے صرف 80 سال کے بعد مغرب میں اٹلاسٹک روشن سے مشرق میں چین تک پھیل چکا تھا۔اسپین میں اس نے 700سال تک حکومت کی ۔ منگلولوں کے بربری قبضہ کے بعد بغداد کو (1258) میں جلا کر تمام کارناموں کو ختم کردیا گیا ۔ اس طرح اسپین کی تہذیبی وراثت کو ڈھا کر ختم کردیا گیا۔ لیکن اس کے باوجود بھی اسلامی حکومتوں نے 1000ہزار سال تک دنیا کے نہایت ترقی یافتہ اور مہذب ممالک کی حیثیت سے حکومت کی ۔اسی زمانہ میں یونانی طب حکمت و دیگر کتابوں کو یونانی سے عربی میں ترجمہ کیا گیا اور 10ویں صدی میں یہ کام دمشق، قاہرہ اور بغداد میں بڑے پیمانہ پر کیا گیا اور اس طرح بغداد سائنسی علمی تحقیقی شہر کے حیثیت سے سارے دنیا میں نمایاں ہوکر ابھرا۔اسلامی ادویہ و طریقہ علاج اسلامی تہذیب کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ جو مسلم سائنسدانوں کا عظیم کارنامہ ہے اور آج بھی پورا یورپ ان کے علم سے فائدہ اٹھا رہا ہے۔ کیمپ بل نے بہت اچھی بات کہی ”یورپین میڈیکل سسٹم بنیادی طور پر عربی ہے ۔ عرب سائنسداں یورپین کے بہت قبل ذہین ترین لوگ رہے ہیں“۔
636AD میں فارس کے شہر میں جندی شاپور میں مسلمانوں نے بڑ ی بڑی یونیورسٹی قائم کی تھی ۔جس میں اسپتال بھی شامل تھے۔بعد کے تمام اسلامی طبی کالج اسی بنیاد پر قائم کئے گئے ۔یہاں میڈیکل تعلیم نہایت اعلی درجہ کی اور سلسلہ وار تھی۔
یہاں لیکچر اور تعلیم عملی طورپر ساتھ ساتھ دی جاتی ۔علی ابن العباس (494AD) کی یہ بات طالب علموں کے لئے آج بھی مشعل راہ ہے ۔انہوں نے میڈیکل طلبا سے کہا کہ انہیں مستقل طور پر اسپتال اور مریض گھروں میں جانا چاہئے ۔ مریضوں کا خاص خیال رکھیں ۔ان کی کیفیت اور حالات کا جائزہ لیتے رہیں ۔ مریضوں سے ان کے حالات دریافت کریں اور کیفیتوں کا علم حاصل کریں اور مقابلاتی جائزہ لیں کہ انہوں نے کیا سمجھا تھا اور حالات کیا ہیں۔ رازی(841-926) نے طلبا سے کہا کہ مریضوں کے کیفیت اور مرض جو انہوں نے پایا اس کے مابین فرق کا اندازہ لگائیں۔اس زمانہ میں رازی ۔ ابن سینا(890-1037) اور ابن زہر(116AD) اسپتال کے نہ صرف ڈائریکٹرس تھے بلکہ میڈیکل کالج کے ڈین کے فرائض بھی انجام دے رہے تھے۔مریضوں کی معالجاتی رپورٹ لکھی جاتی اور طلبا کو عملی تعلیم دی جاتی، اس کے لئے رجسٹر مین ٹین کیا جاتا۔اس زمانہ میں صرف جندی میں بنیا دی سائنس کی تعلیم کے کئی جدا ادارے تھے۔
بغداد میں لنگور کے جسم کی تشریح کے ذریعہ علم الابدان کی تعلیم دی جارہی تھی۔
علقمی کے تجرباتی کتابوں کا مطالعہ جڑی بوٹیوں ان کے خواص کے لئے اور دواسازی کے لئے لازمی تھا۔ بہت سارے اسپتالوں میں جڑی بوٹیوں کے لئے پودے اگانے کا انتظام تھا۔اس سے طلبا کو شناخت کرانا اور مریضوں کے لئے دوا تیار کرنا مقصود تھا۔اس ابتدائی تعلیم کے بعد میڈیکل کے طلبا کو تجربوں کے لئے اسپتالوں میں لے جایا جاتا تھا۔یہ طلبا ایک نوجوان طبیب کے ساتھ ایک جماعت کی شکل میں اسپتال کے ابتدائی اصول و ضوابط سیکھتے اور کتابوں و لائبریری لیکچر اور دستاویزوں سے فیض حاصل کرتے ۔اس ابتدائی مرحلہ میں زیادہ تر تعلیم دواسازی ،اس کا متبادل اور ٹوکسی کولوجی کے متعلق کی جاتی تھی۔…NO…11… کلونجی
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ کلونجی استعمال کیا کرو کیونکہ اس میں موت کے سوا ہر بیماری کے لیے شفا ہے ۔ کلونجی ایک قسم کا گھاس ہے۔ اس کا پودا خودرو اور چالیس سنٹی میٹر بلند ہوتا ہے۔،بالکل سونف سے مشابہ ہوتا ہے۔پھول زردی مائل ،بیجوں کا رنگ سیاہ اور شکل پیاز کے بیجوں سے ملتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بعض لوگ انہیں پیاز کا ہی بیج سمجھتے ہیں۔کلونجی کے بیجوں کی بوتیز اور تاثیری شفا سات سال تک قائم رہتی ہے۔صحیح کلونجی کی پہچان یہ ہے کہ اگر اسے سفید کاغذ میں لپیٹ کر رکھا جائے تو اس پر چکنائی کے دھبے لگ جاتے ہیں۔کلونجی کے بیج خوشبودار اور ذائقے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔اچار اور چٹنی میں پڑے ہوئے چھوٹے چھوٹے تکونے سیاہ بیج کلونجی کے ہی ہوتے ہیں۔ جواپنے اندر بے شمار فوائد رکھتے ہیں۔ یہ سریع لاثر یعنی بہت جلد اثر کرتے ہیں۔
اطباء قدیم کلونجی کے استعمال اور اس کے بیجوں کے استعمال سے خوب واقف تھے۔ معلوم تایخ میں رومی ان کا استعمال کرتے تھے۔ قدیم یونانی اور عرب حکماء نےکلونجی کو رومیوں ہی سے حاصل کیا اور پھر یہ پودا دنیا بھر میں کاشت اور استعمال ہونے لگا۔ طبی کتب سے معلوم ہوتا ہے کہ قدیم یونانی اطباء کلونجی سے بیج معدہ اورپیٹ کے امراض مثلًا پیٹ میں ریاح گیس کا ہونا، آنتوں کا درد، کثرت ایام، استقاء، نسیان (یادداشت میں کمی) رعشہ، دماغی کمزوری، فالج اور افزائش دودھ کے لیے استعمال کراتے رہے ہیں۔ رسول اللہ ۖ کے حوالے سے کتب سیرت میں ملتا ہے کہ آپ ۖ شہد کے شربت کے ساتھ کلونجی کا استعمال فرماتے تھے۔ حضرت سالم بن عبداللہ (رض) اپنے والد عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ۖ نے فرمایا تم ان کالے دانوں کو اپنے اوپر لازم کرلو ان میں موت کے سوا ہر مرض کا علاج ہے۔
کلونجی کی یہ اہم خاصیت ہے کہ یہ گرم اور سرد دونوں طرح کے امراض میں مفید ہے۔ جبکہ اسکا اپنا مزاج گرم ہے اور سردی سے ہونے والے تمام امراض میں مفید ہے۔کلونجی نظام ہضم کی اصلاح کے لیے اکسیر کا درجہ رکھتی ہے، ریاح گیس اور قبص میں بہت فائدہ ہوتا ہے۔ وہ لوگ جن کو کھانے کے بعد پیٹ میں بھاری پن گیس ریاح بھرجانے اور اپھارہ کی شکایت محسوس ہوتی ہو ایسے حضرات کلونجی کا سفوف تین گرام کھانے کےبعد استعمال کریں تو نہ صرف یہ شکایت جاتی رہے گی بلکہ معدہ کی اصلاح بھی ہوگی۔ کلونجی کو سرکہ کے ساتھ ملا کر کھانے سے پیٹ کے کیڑے مر جاتے ہیں۔ سردیوں کے موسم میں جب تھوڑی سی سردی لگنے سے زکام ہونے لگتا ہے تو ایسی صورت میں کلونجی کو بھون کر باریک پیس لیں اور کپڑے میں باندھ کر پوٹلی بنا کر باربار سونگھنے سے زکام دور ہوجاتا ہے۔ اگر چھینکیں آرہی ہوں تو کلونجی بھون کر باریک پیس کر روغنِ زیتون میں ملا کر اس کے تین چار قطرے ناک میں ٹپکانے سے چھینکیں جاتی رہتی ہیں۔کلونجی مدر بول( پیشاب آور) بھی ہے اس کا جوشاندہ شہد ملا کر پینےسے گردہ و مثانہ کی پتھری بھی خارج ہوجاتی ہے۔ اگر دانتوں میں ٹھنڈا پانی لگنے کی شکایت ہوتو کلونجی کو سرکہ میں ملا کر کلیاں کرانے سے فائدہ ہوتا ہے۔چہرے کی رنگت میں نکھار پیداکرنے کے لیے باریک پیس کر گھی میں ملا کر چہرے پر لیپ کرنے سے فائدہ ہوتا ہے۔ آج کل نوجوان لڑکے لڑکیوں میں کیل دانوں اورمہاسوں کی شکایت عام ہے اور مختلف بازاری کریمیں استعمال کرکے چہرے کی جلد کو خراب کرلیتے ہیں۔ ایسے نوجوان کلونجی باریک پیس کر سرکہ میں ملا کر سونےسے قبل چہرے پر لیپ کر لیا کریں اور صبح اٹھ کر چہرہ دھولیا کریں۔ چند دنوں میں ہی اچھے اثرات سامنے آئیں گے۔اس طرح لیپ کرنے سے نہ صرف چہرہ کی رنگت صاف اور مہاسے ختم ہونگے بلکہ جلد میں نکھار بھی آئے گا۔جلدی امراض میں کلونجی کا استعمال عام ہے۔جلد پر زخم ہونے کی صورت میں کلونجی کو توے پر بھون کر روغن مہندی میں ملا کر لگانےسے نہ صرف زخم مندمل ہوجائیں گے بلکہ نشان بھی جاتے رہیں گے۔ جو خواتین ایام رضاعت میں ہوں اور چھوٹے بچوں کو اپنا دودھ پلا رہی ہوں اور ان کو دودھ کم آنے کی شکایت ہو جس سے ان کا بچہ بھوکارہ جاتا ہوں تو ایسی خواتین کلونجی کو چھ دانے صبح نہار منہ و رات سونے سے قبل دودھ کے ساتھ استعمال کرلیا کریں تو ان کے دودھ کی مقدار میں اضافہ ہو جائے گا البتہ حاملہ خواتین کوکلونجی کا استعمال نہیں کرنا چاہیے۔جن خواتین کو ماہانہ ایام کم آتے ہوں یا درد کے ساتھ آتے ہوں، پیشاب کم یا تکلیف کے ساتھ آتا ہو، وہ کلونجی کا سفوف تین گرام روزانہ استعمال کرلیا کریں ماہانہ ایام کا نظام درست ہوجائے گا۔
آج کے مشینی دورمیں مشینی لوازمات نے انسانی زندگی کو اعصابی طور پر مفلوج کرکے رکھ دیا ہے اور ہر دوسرا شخص اعصابی دباؤ اور تناؤ میں مبتلا ہے۔ ایسے لوگ کلونجی کے چند دانے روزانہ شہد کے ساتھ استعمال کرلیا کریں۔چند دنوں میں بہتر محسوس کریں گے۔پیٹ اور معدہ کے امراض، پھیپھڑوں کی تکالیف اور خصوصًا دمہ کے مرض میں کلونجی بہت فائدہ مند ثابت ہوئی ہے۔کلونجی کا سفوف نصف سے ایک گرام تک صبح نہار منہ اور رات کو سونے سے قبل شہد کے ساتھ استعمال کر لیا جائے تو بہت مفید ہے۔ بعض اوقات کلونجی اور قسط شیری برابر وزن کا سفوف بنا کر صبح نہار منہ و رات سونے سے قبل استعمال کروایا جاتا ہے۔یہ نسخہ پرانی پیچش اور جنسی امراض میں بھی مفید ہے۔جن لوگوں کو ہچکیاں آتی ہوں وہ کلونجی کا سفوف تین گرام مکھن ایک چمچ میں ملا کر کر استعمال کریں تو فائدہ ہوتا ہے۔
کلونجی سے نکلنے والا تیل دو قسم کا ہوتاہے ایک سیاہ رنگ میں خوشبودار جو ہوا میں اٹھنے سے اڑنے لگتا ہے اور دوسری قسم انٹروی کے تیل جیسا جس کے دوائی اثرات بہت زیادہ ہوتے ہیں، یہ تیل بیرونی طور پر استعمال کیا جاتا ہے اور بہت سے جلدی امراض میں مفید ہے۔ یہ تیل بال خورہ کی شکایت میں بہت فائدہ دیتا ہے ۔ بالخورہ میں بال اڑ جاتے ہیں اور دائرے کی صورت میں نشان بن جاتا ہے پھر دائرہ دن بدن بڑھتا ہے اور عجیب سی ناخوشگواری کا احساس ہوتا ہے۔یہ تیل سر کے گنج کو دور کرنے اور بال اگانے میں بھی مفید ہے ۔ مزید یہ کہ اس تیل کے استعمال سے بال جلد سفید نہیں ہوتے اور اس تیل کو مختلف طریقوں سے داد، اگزیما میں بھی استعمال کیا جاتا ہے۔اگر جسم کو کوئی حصہ بے حس ہوجائے تو یہ تیل مفید ہے۔ کان کے ورم اور نسیان میں بھی یہ تیل مفید ہے۔ ماہرین طب و سائنس کلونجی پر تحقیقی کام کر رہے ہیں جنھوں نے اسے مختلف امراض میں مفید پاتا اور مزید تحقیق کا عمل جاری ہے۔ گزشتہ سال برطانیہ سے ایک خاتون کلونجی پر تحقیق کے لیے پاکستان آئی تھی۔ راقم الحروف سے ملاقات پر اس نے بتایا کہ ایک ملٹی نیشنل ادارہ کلونجی سے ایک کریم تیار کرنا چاہتا ہے کیونکہ کلونجی جلد کو نکھارتی ہے۔ کیمیا دانوں نے کلونجی پر تحقیقات کے بعد بتایا ہے کہ اس میں ضروری روغن پائے جاتے ہیںِ اس کے علاوہ ونگشلین، الیوسن، ٹے نین، رال دار مادے، گلوکوز، ساپونین اور نامیاتی تیزاب بھی پائے جاتے ہیں جو کئی امراض میں موثر ہیں۔ پاکستان کے ایک ممتاز سائنسدان نے جامعہ کراچی کے شعبہ کیمیاء میں کلونجی پر جو تحقیق کی اس کے مطابق کلونجی سے جو اسکائڈز حاصل ہوئے ہیں کسی اور شے سے نہیں مل سکے۔ حکماء نے کلونجی کو ہمیشہ موضوعِ تحقیق و علاج بنایا ہے اور اس کو مختلف طریقوں سے مختلف امراض کے علاج میں استعمال کرایا ہے۔ کلونجی سے طب یونانی کی معروف مرکب ادویہ میں حب حلیت، جوارش شونیز اور معجون کلکلانج شامل ہیں۔ کلونجی کے استعمال سے لبلبہ (پانقراس) کے افرازات( لبلبہ سے خصوصی رطوبت) بڑھ جاتی ہے۔جس سے مرض ذیابیطس میں فائدہ ہوتا ہے۔ ذیابیطس کے مریض کلونجی کے سات دانے روزانہ صبح نگل لیا کریں۔طب نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے مشہور معالج ڈاکٹر خالد غزنوی ذیابیطس کے مریضوں کو کلونجی کے بیج تین حصے اور کانسی کے بیج ایک حصہ ملا کر استعمال کرانے سے مفید نتائج حاصل کرچکے ہیں۔ کلونجی کو مختلف طریقوں سے زہر کے علاج کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ پاگل کتے کے کاٹنے یا بھِڑ کے کاٹنے کے بعد کلونجی کا استعمال مفیدہے۔ کلونجی میں ورموں کو تحلیل کرنے اور گلٹیوں کو گھلانے کی بھی صفت ہے۔ برص بڑا ہٹیلا مرض ہے۔ اس کے سفید داغ جسم کو بدصورت بنا دیتے ہیں۔ اگر برص کے مریض کلونجی اور ہالوں برابر برابر وزن لے کر توے پر بھون کر تھوڑا سرکہ ملا کر مرہم بناکر مسلسل تین چار ماہ برص کے نشانوں پر لگاتے رہیں اور کلونجی اور ہالون کا باریک سفوف شہد کے ساتھ روزانہ نہار منہ استعمال کیا کریں توجلد فائدہ ہوگا۔ کلونجی کی دھونی سے گھر میں پائے جانے والے کیڑے مکوڑے ہلاک ہوجاتے ہیں۔اسی خصوصیت کے سبب کلونجی کو گھروں میں قیمتی کپڑوں میں رکھا جاتا ہے تاہم کلونجی کے استعمال میں یہ امر پیش نظر رہے کہ یہ طویل عرصہ اور زیادہ مقدار میں استعمال نہ کی جائے کیونکہ اس میں کچھ مادے ایسے بھی ہوتے ہیں جو صحت کے لیے مضر ہوسکتے ہیں۔ البتہ وقفہ دے کر پھر سے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ویسے بھی اعتدال مناسب راہ عمل ہے۔
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آج سے چودہ سو سال قبل جو ارشادات فرمائے طب و سائنس آج اس کی تصدیق کررہے ہیں۔ قربان جائیے قدرت کاملہ پر جس نے حضرت انسان کے لیے کیا کیا نعمتیں پیدا فرمائیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چودہ سو سال قبل حکمت کے خوب صوت پیرائے میں انسان کو آگاہ کیا اور طب و سائنس نے چودہ صدیاں گزرنے کے بعد وہ نتائج حاصل کئے ہیں۔