برطانیہ میں سائنسدانوں نے ایسی مرغیاں تیار کر لی ہیں جو کینسر کی ادویات میں استعمال ہونے والی پروٹین کے حامل انڈے دینے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔
اس سائنسی کامیابی کا دعویٰ اسی ریسرچ سنٹر نے کیا ہے جو اس سے پہلے کلون شدہ بھیڑ ڈولی کے ذریعے دنیا بھر میں شہرت پا چکا ہے۔
ایڈنبرا کے نزدیک واقع روسلن انسٹیوٹ کا کہنا ہے کہ ادارے میں ہونے والی ریسرچ کے نتیجے میں ایسی مرغیوں کی پانچ نسلیں تیار ہو چکی ہیں جو انڈے کی سفیدی میں ادویات میں استعمال ہونے والی کارآمد پروٹین تیار کر سکتی ہیں۔
امید ہے کہ روسلن انسٹی ٹیوٹ میں ہونے والی تحقیق کے نتیجے میں کینسر کے علاج کے لیے ادویات کم لاگت اور آسانی سے بنائی جا سکیں گی۔
انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر ہیری گرِفن نے بی بی سی کو بتایا کہ آج کل تیار ہونے والی زیادہ تر اویات کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ وہ بہت مہنگی ہیں۔
’جینیاتی طریقے استعمال میں لاکر مرغیوں کے ذریعے کارآمد پروٹین حاصل کرنے کے پیچھے کارفرما سوچ یہ تھی کہ کوئی ایسا طریقہ نکالا جائے جس کے ذریعے مطلوبہ پروٹین بڑی مقدار میں حاصل کی جا سکے۔ ایسی مرغیوں سے یہ پروٹین بہت ہی کم لاگت سے حاصل کی جا سکتی ہے کیونکہ یہاں صحیح معنوں میں بنیادی خرچہ ان مرغیوں کی خوراک ہی ہے۔‘
روسلن انسٹی ٹیوٹ میں جینیاتی طریقوں سے ترقی دادہ پانچ سو مرغیاں تیار کی گئی ہیں۔ ان مرغیوں کی تیاری پندرہ سالوں پر محیط اس سائنسی منصوبے کا نتیجہ ہے جسے ڈاکٹر ہیلن سانگ کی سربراہی میں تکمیل کو پہنچایا گیا۔
روسلن انسٹی ٹیوٹ کے مطابق اس پروٹین کے مریضوں پر تجرباتی استعمال کا آغاز پانچ سال تک ہو سکتا ہے جبکہ ادویات کی صورت میں اس کے ثمر کے لیے مزید دس سال درکار ہوں گے۔
شوگر کے مریضوں میں استعمال ہونے والے انسولین کی طرح کی تھیراپوٹک پروٹین ایک لمبے عرصے سے بیکٹیریا میں تیار کی جا رہی ہے۔ لیکن دوسری طرف پیچیدہ نوعیت کی چند دیگر پروٹین بڑے جانوروں کے نسبتاً حساس سیلوں میں تیار کی جاتی ہے۔ اس مقصد کے لیے جینیاتی طریقوں سے ترقی دادہ بھیڑوں، بکریوں، گائیوں اور خرگوشوں کو استعمال میں لایا جاتا ہے۔
روسلن انسٹی ٹیوٹ میں ہونے والے کام سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ اب مرغیوں کو بھی بائیو فیکٹری کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔
روسلن انسٹی ٹیوٹ میں تیار کردہ کئی مرغیوں کی جینیاتی ساخت ایسی رکھی گئی ہے کہ ان کے ذریعے جلد کے کینسر کے علاج میں استعمال ہونے والی ایٹی باڈی ایم آئی آر 24 حاصل کی جا سکتی ہے۔
ڈاکٹر سانگ کے مطابق ٹیم کو مرغیوں کی پیداواری صلاحیت سے بہت حوصلہ ملا ہے۔ لیکن اس سلسلے میں مزید بہتری کی ضرورت ہے۔