قدرتی طریقہ سے بننے والا سرکہ تاریخ کے ہر دور میں اسے غذا اور دوا کے طور پر استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ بقراط نے متعدد بیماریوں کے علاج میں سرکہ استعمال کیا ہے۔
فرانس کے ماہر جراثیم پاسچر نے معلوم کیا کہ ناشتہ میں خمیر جراثیم سے پیدا ہوتا ہے اور سرکہ کے کیمیائی عمل کا باعث جراثیم ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ جراثیم کی ایک ایسی قسم بھی موجود ہے جو بیماریاں پیدا کرنے کے بجائے ہمارے ہی فائدے کے کام کرتی ہے۔ ان کو دوست Anti Bodies جراثیم کہتے ہیں۔
ان دوست جراثیم کی جانب سے انسانی فائدے کے لئے یہ منفرد کام نہیں بلکہ دودھ، دہی بنانے یا شکر کا الکحل میں تبدیل کرنے، جو سے مالٹ اکسٹریکٹ بنانے کے عمل میں بھی اسی قسم کے دوست جراثیم کی کوششیں شامل ہیں۔
احادیث میں سرکہ کی اہمیت
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالٰی عنہ روایت فرماتے ہیں کہ نبی اکرم نور مجسم شاہ بنی آدم رسول محتشم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔ “سرکہ کتنا اچھا سالن ہے۔“ (مسلم۔ مشکوٰۃ)
حضرت ام ہانی رضی اللہ تعالٰی عنہا روایت فرماتی ہیں کہ ہمارے گھر میں نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے اور پوچھا کہ، “کیا تمہارے پاس کھانے کے لئے کچھ ہے ؟“ میں نے کہا۔ “نہیں ۔ البتہ باسی روٹی اور سرکہ ہے۔“ فرمایا کہ “اسے لے آؤ۔ وہ گھر کبھی غریب نہ ہوگا جس میں سرکہ موجود ہے۔“ (ترمذی)
سرکہ امراض معدہ اور تلی میں مفید ہے
سرکہ کھانے کے بعد معدہ کا فعل قوی ہو جاتا ہے۔ پیاس اور صفراء کو اعتدال پر لاتا ہے۔ بھوک کھولتا ہے اور معدہ اور پیٹ کی سوزش میں انتہائی مفید ہے۔ پیٹ سے نفح کو نکالتا ہے اور ہچکی کو روکتا ہے۔ صفرا اور گرمی کی وجہ سے بھوک نہ لگتی ہو تو اس کا استعمال بے حد مفید ہے۔ انجیر کو دو روز تک سرکہ میں بگھو کر کھایا جائے بڑھی ہوئی تلی ٹھیک ہو جاتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ تلی میں سرکہ کے لئے خصوصی رغبت ہے۔ اس لئے سرکہ کی جو بھی مقدار پیٹ میں جاتی ہے، فوراً تلی میں داخل ہو جاتی ہے۔ اس لئے وہ ادویہ جو تلی کے علاج میں دی جائیں، اگر اس کے ساتھ سرکہ بھی شامل کر دیا جائے تو اثر جلد ہوتا ہے۔ منقی اور جڑ کبر کو سرکہ کے ساتھ نہار منہ کھایا جائے تو پیٹ کے کیڑے مر جاتے ہیں۔
خطوط: 664
گلے اور دانتوں کے امراض میں سرکہ کا استعمال
گلے کے اندر لٹکنے والے کوے کی سوزش، حساسیت اور اس کے ٹیڑھا پن میں مفید ہے۔ گرم سرکہ کے غرارے دانت کی درد کو ٹھیک کرتے ہیں اور مسوڑھوں کو مضبوط کرتے ہیں۔ موسم گرم میں سرکہ پینا جسم کی حدت کو کم کرکے طبیعت کو مطمئن کرتا ہے۔ علامہ محمد احمد ذہبی کہتے ہیں کہ “سرکہ گرمی اور ٹھنڈک دونوں کی تاثیر رکھتا ہے لیکن اس میں ٹھنڈا پیدا کرنے کا عنصر زیادہ غالب ہے۔ یہ معدہ کی سوزش کو دور کرتا ہے۔ عرق گلاب کے ساتھ سر درد میں مفید ہے۔ گرم پانی کے ساتھ غرارے دانت درد کو مفید ہے۔
سرکہ اورام اور دردوں میں مفید ہے
ابن قیم کہتے ہیں کہ اس کا لگانا سوزشوں سے پیدا ہونے والے اورام میں مفید ہے۔ حب الرشاد کے ساتھ جو کا آٹا ملا کر سرکہ میں لیپ بنا کر اعصابی دردوں اور خاص طور پر عرق النساء کے لئے لیپ کریں تو ازحد مفید ہے۔ میتھی کے بیج اور طرون پیس کر سرکہ میں لیپ بناکر پیٹ کی سوزش میں مفید ہے۔ یہی نسخہ ورم سے پیدا ہونے والے دردوں میں مفید ہے۔
سرکہ سے منشیات کا نشہ اتر جاتا ہے
سرکہ پینے سے شراب اور افیون کا نشہ اتر جاتا ہے۔ چونکہ سرکہ بنیادی طور پر تیزابی صفات رکھتا ہے، اس لئے قلوی رجحان والی زہروں کے علاج میں سرکہ دینا صحیح معنوں میں علاج بالضد ہے۔ جیسا کہ کاسٹک سوڈا وغیرہ۔ آپریشن کے بعد مریض کو جو قے آتی ہے، اس کو روکنے کے لئے رومال کا سرکہ میں تر کرکے مریض کے منہ پر ڈال دیا جاتا ہے۔ بے ہوشی کے بعد کی متلی رک جاتی ہے۔
ہیضہ کے علاج میں سرکہ کا استعمال
ویدک طب میں بھی سرکہ کے استعمال کا کافی ذکر ملتا ہے۔ ویدوں نے ہیضہ کے علاج میں سرکہ کو مفید قرار دیا ہے۔ ایک نسخہ کے مطابق پیاز کے ٹکڑے ٹکڑے کاٹ کر سرکہ میں بگھو دئیے جائیں، پیضہ کی وباء کے دنوں میں اس پیاز کو کھانے سے ہیضہ نہیں ہوتی۔
امراض جلد میں سرکہ کا استعمال
سرکہ اپنے اثرات کے لحاظ سے جراثیم کش، دافع تعفن اور مقامی طور پر خون کی گردش میں اضافہ کرتا ہے۔ ان فوائد کی بنا پر یہ پھپھوندی سے پیدا ہونے والی تمام سوزشوں میں کمال کی چیز ہے۔ اس میں اگر کسی اور دوائی کا اضافہ نہ بھی کیا جائے تو چھیپ، داد اور رانوں کے اندرونی طرف کی خارش میں مفید ہے۔ پھپھوندی کے علاج میں سب سے بڑی مشکل یہ ہے کہ پھپھوندی دواؤں کی عادی ہو جاتی ہے۔ اس لئے صحیح دوائی کے چند روزہ استعمال کے بعد فائدہ ہونا رک جاتا ہے بلکہ مؤثر دوائی کے استعمال کے دوارن ہی مرض میں اضافہ ہونے لگتا ہے۔ سرکہ وہ منفرد دوائی ہے جس کی پھپھوندی عادی نہیں ہوتی اور یہ ہر حال میں اس کے لئے مفید ہے۔ ابن قیم کے مشاہدات کی روشنی میں پھپھوندی سے پیدا ہونے والی سوزشوں کے لئے ایک نسخہ آزمایا گیا۔ برگ مہندی، سنامکی، کلونجی، میتھرے، حب الرشاد، قسط شیریں کو ہم وزن پیس کر اس کے ایک پیالہ میں چھ پیالہ سرکہ ملا کر اسے دس منٹ ہلکی آنچ پر ابالا گیا۔ پھر کپڑے میں نچوڑ کر چھان کر یہ لوشن ہمہ اقسام پھپھوندی میں استعمال کیا گیا۔ فوائد میں لاجواب پایا گیا۔ کسی بھی مریض کو بیس روز کے بعد مزید علاج کی ضرورت نہ رہی۔
سرکہ کے سر کے بالوں پر اثرات
سرکہ جلد اور بالوں کی بیماریوں کے لئے اطباء قدیم کے اکثر نسخہ سرکہ پر ہی مبنی ہیں۔ بو علی سینا کہتے ہیں کہ روغن گل میں ہم وزن سرکہ ملا کر خوب ملائیں۔ پھر موٹے کپڑے کے ساتھ سرکہ کو رگڑ کر سر کے گنج پر لگائیں۔ انہی کے ایک نسخہ میں کلونجی کو توے پر جلا کر سرکہ میں حل کرکے لیپ کرنے سے گنج ٹھیک ہو جاتا ہے۔ بکری کے کھر اور بھینس کے سینک کو جلا کر سرکہ میں حل کرکے سر پر بار بار لگانے سے گرتے بال اگ آتے ہیں۔ اسی مقصد کے لئے ادرک کا پانی اور سرکہ ملا کر لگانا بھی مفید ہے۔ بال اگانے کے لئے کاغذ جلا کر اس کی راکھ سرکہ میں حل کرکے لگانے کے بارے میں بھی حکماء نے ذکر کیا ہے۔
سرکہ کے فوائد ایک نظر میں :۔
* خارش اور حساسیت میں سرکہ پلانا اور لگانا مفید ہے۔
* سرکہ میں پکائے ہوئے گوشت کو یرقان میں مفید بتلایا ہے۔
* سرکہ جوش خون اور صفراء اور پیاس میں مفید ہے۔ ان وجوہات کی وجہ سے بھوک نہ لگتی ہو تو مفید ہے۔
* سرکہ میں گندھک ملا کر خارش میں لیپ کرنا مفید ہوتا ہے۔
* سرکہ کاسٹک سوڈا کا علاج ہے۔
* عرق النساء میں حکماء نے لکھا ہے کہ حب الرشاد اور جو کا آٹا سرکہ میں حل کرکے لیپ کرنا نہایت مفید ہے۔
* ہیضہ اور اندرونی سوزشوں میں مفید ہے۔
* حلق کے ورم میں اس کی بھاپ سونگھایا جانا بے حد مفید ہوتا ہے۔ شراب کا نشہ اتارنے کے لئے ایک اونس سرکہ پلانا کافی ہوتا ہے۔
* سرکہ اور شہد کا مشہور مرکب بخار، متلی اور صفراوی امراض میں مستعمل ہے۔
* برسات اور موسموں کی تبدیلیوں میں بہترین چیز ہے۔ پیٹ کی اکثر بیماریاں دور کرتا ہے۔
* امام صادق فرماتے ہیں کہ سرکہ عقل کو تیز کرتا ہے اور اس سے مثانہ کی پتھری گل جاتی ہے۔
سرکہ بنانے کا طریقہ
سرکہ سازی کا بنیادی طریقہ کار جو آج کے دور میں رائج ہے۔ یہ معمولی فرق کے ساتھ بالکل وہی ہے جو آج سے ہزاروں سال پہلے کا تھا بلکہ بنوں، کوہاٹ اور پشاور کے علاقوں میں جہاں گھر گھر میں سرکہ سازی ہوئی ہے، وہی قدیم طریقہ استعمال کیا جاتا ہے یعنی کسی میٹھے یا نشاستہ دار محلول کو ضامن لگا کر جب خمیر اٹھایا جاتا ہے تو اس میں الکحل پیدا ہو جاتی ہے اور کاربن ڈائی آکسائیڈ نکل جاتی ہے اور پھر جب الکحل اور آکسیجن کا ملاپ ہوتا ہے تو سرکہ بن جاتا ہے جبکہ اطباء کے ہاں سرکہ کی تیاری کا طریقہ کچھ اس طرح ہے کہ جس چیز کا سرکہ بنانا ہو، پہلے اس کا رس (جوس) حاصل کرکے پھر اس کو کسی روغنی مٹکے میں ڈال کر زیر زمین اس طرح دبایا جاتا ہے کہ مٹکے کا تمام حصہ زمین کے اندر رہے اور صرف گردن باہر ہو یا پھر کسی ایسی جگہ رکھا جاتا ہے جہاں سورج کی شعاعیں دیر تک رہیں۔ تقریباً چالیس روز بعد یا پھردو ماہ کے بعد نکال کر استعمال میں لاتے ہیں۔
مجموعی طور پر تیاری کے اعتبار سے سرکہ کی تین اقسام ہیں۔
* پہلی قسم وہ ہے جو پھلوں سے تیار کی جاتی ہے۔ یہ فطری اور قدرتی طریقہ سے بننے والا سرکہ ہے جو اپنی افادیت کے اعتبار سے بھی اعلٰی خاصوصیات کا حامل ہے۔
* دوسری قسم خشک اجناس مثلاً جو کے جوہر (ایکسٹریکٹ) سے تیار ہوتی ہے، اپنی افادیت کے اعتبار سے یہ دوسرے نمبر پر ہے۔
* تیسری قسم تیزاب سرکہ سے تیار کی جاتی ہے۔ اس کی تیاری میں مقطر پانی، تیزاب سرکہ کچھ مقدار چینی اور رنگ استعمال کیا جاتا ہے۔
سرکہ گنے، جامن، انگور، چقندر، گندم، جو وغیرہ سے تیار اور استعمال کیا جاتا ہے۔