فاقہ” سے ہماری مراد کسی بیماری کے علاج کیلئے لمبے یا مختصر عرصہ تک ٹھوس خوراک سے مکمل پرہیز کرنا ہے۔ فاقہ، امراض کے علاج کے سلسلہ میں فطرت کا قدیم ترین اور موثر ترین لیکن بے حد کم خرچ، طریقہ ہے۔ اسے فطری صحت یابی کے نظام کیلئے بنیادی ستون تسلیم کیا جاتا ہے۔ غیر لیسدار غذا کے ذریعے علاج (Mucousless diet healing system) کے بانی ڈاکٹر آرنلڈ ایہرٹ نے فاقے کو فطرت کا تجویز کردہ واحد عالمگیر اور قوی ترین علاج قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ ”فاقہ یا روزہ” قدرت کا گراں قدر اور بنیادی عطیہ ہے جو انسانوں کو بیماریوں سے نجات دینے کیلئے بتایا گیا ہے۔ یہ دنیا کا قدیم ترین رواج ہے جس کا تصوّر تقریباً ہر مذہب میں موجود ہے۔ اسلام، بدھ مت اور ہندومت اپنے پیروکاروں کو باقاعدگی سے روزے رکھنے کی ترغیب دیتے ہیں اس روزے کے فقط آداب اور طریقوں میں فرق ہے، بنیادی اصول تقریباً ایک ہی ہے۔ عہد متوسط کی تمام روحانی شخصیات ”روزے” پر بڑا زور دیتی ہیں۔ دو ہزار سال قبل یونان میں فلسفہ فطرت کے علمبردار۔ ایسکلپیڈز نے بھی
بیماریوں کے مقابلہ کیلئے طویل روزہ رکھنے کی تلقین کی تھی۔ پوری میڈیکل ہسٹری میں روزے یا فاقے کو قابل اعتماد طریقہ علاج سمجھا جاتا رہا ہے۔بقراط، گیلیو، پیراکلیس اور علم الادویہ کے دیگر ماہرین، مریضوں کو دوا کے ساتھ فاقہ کرنے کی بھی ترغیب دیتے رہے ہیں۔ متعدد ماڈرن فزیشن بھی اپنے نظام علاج کے تحت بے شمار امراض کے سلسلے میں فاقے کی افادیت کو تسلیم کرتے ہیں۔ تمام امراض کا مشترک سبب، جسم میں ان فالتو اور زہریلے مادوں کا جمع ہو جانا ہے، جو بسیار خوری کا نتیجہ ہوتے ہیں۔ ایسے لوگ بڑی اکثریت سے پائے جاتے ہیں جو خوب پیٹ بھر کر کھانا کھاتے ہیں لیکن ان کے کاموں اور مصروفیتوں میں زیادہ ہل چل یا چلت پھرت نہیں ہوتی اور نہ ہی وہ خوراک کی اتنی بڑی مقدار کو ٹھکانے لگانے کے لئے کسی مناسب ورزش کا اہتمام کرتے ہیں۔ غذا کا یہ ناروا بوجھ، ہاضمے اور جذب کے اعضاء پر اثر انداز ہوتا ہے، اس طرح پیدا ہونیوالی کثافتیں اور زہریلے مادے نظام ہضم میں خلل کا باعث بن جاتے ہیں۔ غذا کو جزو بدن بنانے اور فالتو مادوں کو خارج کرنے کا عمل سست پڑ جانے سے پورے نظام کی فعلیاتی سرگرمیاں درہم برہم ہو جاتی ہیں۔ کسی بیماری سے شفایابی کا آغاز، جسم کا محض ان کثافتوں اور آلودگیوں سے نجات حاصل کر لینے کے عمل کا نام ہے۔ ہر بیماری کا صرف ایک انسداد ہوتا ہے۔ یعنی اس کے لاحق ہونے کا جو سبب ، ہو اس کا الٹا عمل کیا جاتا۔ بہ الفاظ دیگر مرض لگنے کے بعد خوراک فوراً کم کر دی جائے یا فاقہ شروع کر دیا جائے۔ جسم کو ایک وقت کی خوراک سے محروم کر دیا جائے تو اس سے اعضائے اخراج یعنی آنتوں، گردوں، جلد اور پھیپھڑوں کو جمع شدہ فالتو مادے نکال کر باہر پھینکنے کیلئے بلاروک ٹوک موقع مل جاتا ہے۔اسی لئے فاقے کو صفائی کے عمل اور موثر و فوری علاج کا ذریعہ کہا جاتا ہے۔ فطرت، جسم کو بیرونی عناصر سے نجات دلانے اور بیمار کرنیوالے مواد کے اخراج کیلئے جو مسلسل کوششیں جاری رکھتی ہے، فاقہ اس میں مددگار بنتا ہے۔ نامناسب خوراک اور غیر صحت مندانہ بودوباش سے جسم میں جو خرابیاں جنم لیتی ہیں اس سے ان کی اصلاح بھی ہوتی رہتی ہے۔ اس سے تازہ خون بھی پیدا ہوتا ہے اور جسم کی بافتوں (Tissues) میں جو ٹوٹ پھوٹ ہوتی رہتی ہے اس کی جلد مرمت میں بھی اس سے مدد ملتی ہے۔
فاقہ کتنا لمبا ہونا چاہئے؟
فاقے کے لمبا ہونے کا انحصار، مریض کی عمر، بیماری کی نوعیت اور پہلے استعمال کی ہوئی دوائوں کی مقدار اور قسم، پر ہوتا ہے۔ فاقے کی طوالت اس لئے اہمیت رکھتی ہے کہ ماہر معالج کی پیشہ وارانہ رہنمائی کے بغیر طویل فاقہ خطرناک بھی ثابت ہو سکتا ہے۔ اس لئے میرا مشورہ یہ ہے کہ مریض، شروع میں دو دو تین تین دن کے مختصر فاقے کرے اور پھر بعد میں بتدریج ایک ایک دن کا اضافہ کرتا چلا جائے۔ البتہ ان کا کل عرصہ یک بارگی، ایک ہفتے سے زائد نہیں ہونا چاہئے۔ایسا کرنے سے پرانی بیماری میں مبتلا شخص رفتہ رفتہ تمام فالتو مادوں کو خارج کر سکے گا اور اس کے جسم کی طبعی کارکردگی کو بھی نقصان نہیں پہنچے گا۔ فاقے کی میعاد مکمل ہونے کے بعد صحیح بودوباش اختیار کرنے اور متوازن غذا کی عادت ڈالنے والے شخص کی تمام توانائیاں بحال ہو جاتی ہیں۔ معدے اور آنتوں کی بیماریوں کی تمام اقسام اور گردے اور جگر کی سنگین خرابیاں دور کرنے کیلئے فاقہ بے حد فائدہ مند ہوتا ہے۔ اس سے چنبل اور دیگر جلدی بیماریوں کے خاتمہ میں بھی معجز نما اثرات برآمد ہوتے ہیں۔ ان میں سے بعض بیماریاں تو مستقل طور پر دور ہو جاتی ہیں۔ اعصابی امراض کے خاتمہ میں بھی فاقے سے بڑی مدد ملتی ہے۔ تاہم ہر بیماری کیلئے فاقے والا طریقہ اختیار نہیں کیا جانا چاہئے۔ ذیابیطس، تپ دق کی انتہائی حالتوں اور شدید قسم کے ضعف اعصاب میں مبتلا مریضوں کیلئے طویل فاقے نقصان دہ ہوں گے۔ زیادہ تر کیسوں میں فاقہ کشی کرنے والوں کو نقصان نہیں پہنچتا بشرطیکہ وہ مناسب آرام کرتے رہیں اور فاقہ کسی ماہر معالج کے مشورہ سے شروع کریں۔
فاقوں کا طریقہ کار
فاقوں کا بہترین اور بے حد موثر طریقوں جوسوں (پھلوں کے رسوں) کا استعمال ہے۔فاقے کا قدیم ترین اور کلاسیک طریقہ اگرچہ خالص پانی کا استعمال تھا لیکن جدید دور کے ماہرین کا متفقہ خیال ہے کہ جوس کا استعمال، پانی کے استعمال کی بہ نسبت بہتر ہے۔ علم الاغذیہ کے عالمی شہرت یافتہ ماہر ڈاکٹر رینجر برگ کا کہنا ہے کہ ”فاقے کے دوران جسم، اپنے اندر جمع شدہ تمام فالتو مادوں کو یا جلا دیتا ہے یا خارج کر ڈالتا ہے ہم پانی کی بجائے القلی (Alkaline Juices) والے مشروبات استعمال کر کے صفائی کے اس عمل میں مدد دے سکتے ہیں۔ اس سے یورک ایسڈ (پیشاب) اور دیگر غیر نامیاتی تیزابوں کے اخراج کا عمل بھی تیز تر ہو جاتا ہے۔ پھلوں کے رس میں موجود مختلف قسم کی شوگرز دل کو تقویت دیتی ہے اس لئے جوس فاسٹنگ بہترین فاسٹنگ ہوتی ہے”۔ تازہ سبزیوں اور پھلوں کے رس میں پائے جانیوالے وٹامنز، معدنی اجزائ، کیمیائی خمیر اور دیگر عناصر، جسم کی کارکردگی کو نارمل بنانے میں بے حد مفید کردار ادا کرتے ہیں۔ یہ جسم کی بحالیاتی سرگرمیوں کو تیز کرتے ہیں اور نئے خلیے پیدا کرنے کے علاوہ بحالی صحت کے عمل کو بھی تقویت دیتے ہیں۔ تمام جوس تازہ پھلوں میں سے نکالے جائیں اور فوراً پی لئے جانے چاہئیں۔ ڈبہ بند اور یخ بستہ جوس نہیں پینا چاہئے۔ فاقہ کے دوران جسم میں جمع شدہ زہریلے اور فالتو مادوں کو خارج کرتے ہوئے کافی قوت خرچ ہوتی ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ فاقہ کے عرصہ میں مریض ممکن حد تک جسم کو زیادہ تر زیادہ آرام پہنچائے اور ذہنی سکون بھی حاصل کرے۔ ایسے فاقے جن میں مریض صرف فروٹ جوس مثلاً تازہ انگور، سنگترہ، مالٹا، کینوں یا چکوترے کا رس استعمال کر رہا ہو، زہریلے فاضل مادے تیزی سے خون کی گردش میں شامل ہو کر زہر کا دبائو بڑھاتے رہتے ہیں، اس سے جسم کا نارمل فنکشن لازمی طور پر متاثر ہوتا ہے۔اس کے نتیجے میں مریض کا سر چکرانے لگتا ہے اسہال لگ جاتے ہیں اور متلی بھی آنے لگتی ہے۔ اگر یہ کیفیت زیادہ دیر تک برقرار رہے تو فاقہ فوراً ترک کر دینا چاہئے۔ پکی ہوئی سبزیاں کھانا شروع کر دینی چاہئیں جن میں پالک اور چقندر وغیرہ بھی شامل ہوں ،یہ سلسلہ جسم کے اعتدال پر آنے تک جاری رہنا چاہئے۔ بھاری جسم والے لوگوں کیلئے فاقہ دوسروں کی بہ نسبت آسان رہتا ہے، انہیں وزن میں کمی سے کوئی پریشانی نہیں ہوتی بلکہ وہ فاقے میں خوشی محسوس کرتے ہیں۔ پہلے دن بھوک برداشت کرنا بہت مشکل امر ہوتا ہے۔ تاہم جوں جوں فاقے کا دورانیہ بڑھتا جائیگا خوراک کی خواہش میں بتدریج کمی آتی جائیگی جو لوگ زیادہ بیمار ہوں یعنی جن لوگوں کی بیماری میں شدت ہو ان میں کھانے پینے کی خواہش ویسے بھی نہیں ہوتی۔ لہٰذا وہ فاقے کو معمولی بات سمجھتے ہیں۔ ان کیلئے سادہ ترین اصول یہ ہے کہ وہ کھانا اس وقت تک بند رکھیں۔ جب تک بھوک واپس نہیں آ جاتی یا جب وہ خود کو بالکل صحت مند پائیں۔ فاقے کے دوران سادہ ورزش مثلاً واک کی جا سکتی ہے۔ نیم گرم پانی سے نہایا بھی جا سکتا ہے لیکن ٹھنڈے پانی سے ہرگز نہ نہایا جائے۔ روزانہ کھلی ہوا میں بیٹھنا یا غسل آفتابی بھی فائدہ مند رہتا ہے۔فاقہ سے بعض اوقات بے خوابی کی شکایت پیدا ہو جاتی ہے اسے دور کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ گرم پانی کے ٹب میں بیٹھا جائے۔ پائوں کے نیچے گرم پانی کی بوتلیں رکھی جائیں اور ایک یا دو گلاس پانی پی لیا جائے۔
فاقہ کے فوائد
فاقہ کے متعدد فوائد ہیں۔ طویل فاقے کے دوران جسم اپنے اندر موجود محفوظ غذائی مواد سے تقویت (غذائیت) پاتا رہتا ہے۔ مطلوبہ غذائوں (مقویّات) سے محرومی، بالخصوص پروٹین اور چربی وغیرہ نہ پا کر جسم، خود ہضمی کا عمل (Autolysis) شروع کر دے گا یعنی اپنی بافتوں (Tissues) کو جلا جلا کر ہضم کرنے لگے گا لیکن وہ یہ کام بے تحاشا نہیں کرے گا۔ پہلے مرحلے میں جسم ان خلیوں اور بافتوں کو تحلیل کرے گا یا جلائے گا جو مرض زرو، کمزور، پرانے یا مردہ ہوں گے۔فاقے کے دوران اہم بافتوں، زندگی کیلئے ضروری اعضا، غدودوں، اعصابی نظام اور دماغ کو نہ نقصان پہنچتا ہے اور نہ وہ ”ہضم” ہوتے ہیں۔ فاقے کا یہی راز ہے اسی میں صحت یابی اور ازسرنو زندگی کا پیغام مضمر ہوتا ہے۔ دوران فاقہ بیمار خلیوں میں سے امائنو ایسڈز خارج ہونے سے نئے اور صحت مند خلیوں کی افزائش اور تعمیر کی رفتار تیز تر ہو جاتی ہے۔ اخراج کے عمل پر مامور اعضاء یعنی پھیپھڑوں، جگر، گردوں اور جلد کی صلاحیت کار میں خاصا اضافہ ہو جاتا ہے کیونکہ اس عرصے میں وہ خوراک کو ہضم کرنے اور اس کے نتیجے میں فاضل مادوں کے اخراج کی معمول کی ذمہ داریوں سے سبکدوش رہتے ہیں۔اس لئے وہ جمع شدہ مادوں اور زہروں کو تیزی سے خارج کر ڈالتے ہیں۔فاقہ کے دوران ان اعضاء کو کافی آرام ملتا ہے جو غذا کو ہضم کرنے، اسے جزو بدن بنانے اور حفاظت کرنے کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔ جس کے نتیجے میں مریض کے ہاضمے کا نظام اور خوراک سے قوت حاصل کرنے کی صلاحیت بھی بڑھ جاتی ہے۔ فاقہ تمام اہم اعضاء کی کارکردگی میں اضافہ کرتا ہے اور اعصابی اور دماغی قوتوں میں استحکام و توازن بھی لاتا ہے۔
فاقے کا اختتام
فاقے کی کامیابی کا بڑی حد تک انحصار اس امر پر ہے کہ اس کا اختتام کیسے کیا جانا چاہئے؟ اختتام، اس عمل کا نمایاں ترین مرحلہ ہے فاقہ توڑنے کے اہم اصول یہ ہیں 1۔ زیادہ مت کھائیے 2۔ غذا آہستہ آہستہ اور اچھی طرح چبا کر کھائیے 3۔ خوراک معمول پر لانے میں جلد بازی نہ کیجئے 4۔ اگر مائع خوراک سے ٹھوس خوراک تک آنے کے مرحلے کی احتیاط سے پلاننگ کی جائے تو جسم کو کوئی تکلیف یا نقصان نہیں اٹھانا پڑے گا۔ 5۔ تبدیلی کے مرحلے کے دوران مریض کو اپنے آرام کے اوقات کو برقرار رکھنا چاہئے 6۔ فاقے کے بعد صحیح خوراک کا انتخاب اتنا ہی اہم اور فیصلہ کن ہوتا ہے جتنا فاقہ خود اہمیت رکھتا ہے۔