یہ بھی حدیث شریف ہے کہ اللہ عزوجل کی نظر میں ایک قوی مومن کمزور مومن کے مقابلہ میں بہتر اور پسندیدہ ہے۔ یہ حدیث اس بات پر زور دیتی ہے کہ مسلمانوں کو اپنی صحت کی طرف خیال کرنا اور ہمیشہ صحت مند رہنے کی کوشش کرنی چاہئیے۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ محض بیماری اور ضعف کو دور کرنے کا نام صحت نہیں ہے بلکہ مکمل طور پر جسمانی، روحانی اور سماجی آسودگی کا نام صحت ہے۔
حفظان صحت کے اصولوں کا تاجدار رسالت کو اس قدر اہتمام تھا کہ ابو قیس خدمت اقدس میں ایسے وقت حاضر ہوئے کہ وہ خطبہ سننے کے لئے دھوپ میں کھڑے ہو گئے۔ پیارے آقا نے انہیں حکم فرمایا اور وہ سایہ کی طرف ہٹ گئے۔
حضرت ابو ہریرہ کی بیان کردہ ایک حدیث کا یہ حصہ ہر مسافر کو اپنے پیش نظر رکھنا چاہئیے۔ فرماتے ہیں :۔
“دوران سفر رات بسر کرنے کے لئے عام گزر گاہ سے ہٹ کر آرام کرو کیونکہ سڑک چوپاؤں کی گزرگاہ اور کیڑے مکوڑوں کا ٹھکانہ ہوتی ہے۔“ (مسلم)
تاجدار رسالت نے فرمایا، جب تک میں سے کوئی شخص سایہ میں ہو اور سایہ اس میں سے یوں گزرنے لگے کہ اس کا جسم کا ایک حصہ دھوپ میں آ جائے اور دوسرا حصہ سایہ میں ہو تو اسے چاہئیے کہ کھڑا ہو جائے۔ (ابو داؤد)
یعنی آدھا دھوپ اور آدھا چھاؤں میں نہ رہے کیونکہ اس سے بیماری کا خطرہ ہوتا ہے۔
اس موضوع پر ہم ایک مختصر گفتگو نقل کرتے ہیں جو حضور اکرم اور ان کے ایک صحابی حضرت ابی الدرداء کے مابین ہوئی۔ صحابی نے عرض کی، یارسول اللہ اگر مجھے صحت و عافیت حاصل رہے تو میں شکر ادا کرتا ہوں اور یہ بات مجھے اس امر کے مقابلہ میں زیادہ محبوب ہے کہ میں بیماری سے آزمائش میں پڑوں اور صبر کروں۔ تاجدار رسالت نے یہ سن کر فرمایا۔ “اللہ عزوجل کا رسول بھی تیرے ساتھ صحت و عافیت کو محبوب رکھتا ہے۔“ (الطب نبوی الکحال)
آپ نے ایسے کاموں سے بچنے کی تلقین فرمائی ہے جو مضر صحت ہوں۔ مثلاً رات کو برتن کھلے چھوڑ دینا، دروازے بند نہ کرنا۔ چراغ جلتا چھوڑ دینا، آگ نہ بجھانا وغیرہ۔
اور یہ بھی ضروری ہے کہ اپنے جذبات اور خواہشات پر قابو رکھنا ایک مسلمان کی صفت ہے اور جسم و روح کے لئے صحت کی شرط ہے۔ خیالات کی پرا گندگی اور ذہنی آوارگی سے صرف قلب ہی مردہ نہیں ہوتا بلکہ چہرے کی معصومیت اور فطری حسن بھی ختم ہو جاتا ہے۔
امام بخاری نے اپنی صحیح میں حضرت عبداللہ بن عباس سے یہ حدیث روایت کی ہے کہ تاجدار مدینہ نے فرمایا کہ دو نعمتیں انسان پر ایسی ہیں جن میں اکثر لوگ ان میں غفلت کر جاتے ہیں۔
ایک صحت اور دوسرے فارغ البالی۔
سنن نسائی میں حضرت ابو ہریرہ سے مرفوعاً حدیث مروی ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا۔ اللہ تعالٰی سے تم فضل و عافیت اور صحت طلب کرو۔ اس لئے کہ کسی کو یقین کے بعد صحت مندی سے بڑھ کر کوئی نعمت نہیں عطا کی گئی۔
ترمذی ہی میں حدیث ابو ہریرہ منقول ہے کہ تاجدار رسالت نے فرمایا کہ قیامت کے دن بندے سے سب سے پہلے عطا کردہ نعمت کے بارے میں سوال کیا جائے گا اور کہا جائے گا کہ ہم نے تمہارے جسم کو تندرست نہیں بنایا تھا اور تمہیں آب سرد سے ہم نے سیراب نہیں کیا تھا۔
مسند امام میں مذکور ہے کہ نبی کریم نے اپنے چچا حضرت عباس سے فرمایا۔ “اے چچا ! دنیا اور آخرت دونوں اللہ عزوجل سے عافیت مانگئیے۔“
مسند احمد ہی میں حضرت ابو بکر صدیق سے روایت ہے۔ انہوں نے بیان فرمایا ہے کہ میں نے تاجدار انبیاء کو فرماتے ہوئے سنا کہ خدا سے یقین اور عافیت طلب کرو، اس لئے کہ کسی کو یقین کے بعد سب سے بڑی دولت ملی ہے، وہ عافیت ہے۔
اس حدیث میں دنیا و آخرت دونوں کی عافیت کو یکجا کر دیا ہے کیونکہ دنیا و آخرت میں بندے کی پوری طور پر اصلاح یقین و عافیت کے بغیر نہیں ہو سکتی۔ چنانچہ یقین کے ذریعے آخرت کے عذاب کا دفاع ہوتا ہے اور عافیت سے دنیا کے تمام قلبی و جسمانی امراض دور ہوتے ہیں۔
حضرت عبداللہ بن عباس سے روایت ہے کہ رسول اللہ کے پاس ایک اعرابی آیا اور آپ سے عرض کیا کہ پنجگانہ نماز کی ادائیگی کے بعد میں خدا سے کس چیز کا سوال کروں۔ آپ نے فرمایا کہ خدا سے عافیت طلب کرو۔ اس کو آپ نے دوبارہ ارشاد فرمایا اور تیسری مرتبہ فرمایا کہ دنیا اور آخرت دونوں میں عافیت طلب کرو۔