جنسی مسائل اور الجھی ازدواجی زندگی
(صرف مردوں کے لیے)
زندگی کی ساری راحتیں اور مسرتیں صحت وتندرستی کے ساتھ ہیں۔ صحت نہیں تو نہ کھانے پینے کا کوئی مزہ نہ سیر و تفر یح کا کوئی لطف۔ نہ عزیزوں اور دوستوں کی انجمن آرائی سے کوئی خوشی اور نہ بیوی بچوں کے درمیان کوئی راحت۔ زندگی اپنی ساری آسائشوں کے باوجود دردِمجسم بن کررہ جاتی ہے۔ کون ہے جو جانتے بوجھتے زندگی بھر کے اس عذاب کو مول لینے کے لیے تیارہو۔ لیکن یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ آج ہمارے معاشرے میں صحیح معنوں میں صحت مند وتندرست لوگوں کاتناسب بہت حقیر ہے۔ ہر طرف زردچہرے پچکے گال اور نحیف ولاغر جسم، زندہ لاشوں کی صورت میں چلتے پھرتے نظرآتے ہیں۔سکون ومسرت کی دولت سے محرومی نے ہر ایک کوزندگی سے بیزار کررکھاہے۔ خصوصیت کے ساتھ عورتوں میں تو سومیں ایک بھی ایسی نہیں ملتی جو یہ دعویٰ کرسکے کہ وہ کسی نہ کسی بیماری میں مبتلا نہیں ہے۔
یہ ایک عظیم قومی مسئلہ ہے لیکن ہمارے یہاں شاید سب سے کم توجہ اگر کسی چیز کی طرف دی گئی ہے تو وہ یہی مسئلہ ہے اور اس کا نتیجہ نہایت خطرناک شکل میں اب ہمارے سامنے آرہاہے۔ گھریلو زندگی کا امن وسکون غارت ہوگیا ہے۔ آمدنی کا ایککثیر حصہ ڈاکٹروں حکیموں کی نذر ہوجاتاہے۔ گھروں میں عورتوں کی بیماری سے گھر کاشیرازہ درہم برہم ہوتاہے۔ بچوں کی دیکھ بھال اورتربیت کی طرف توجہ نہیں دی جاسکتی اور اولاد ماں کے پیٹ سے ہی طرح طرح کے امراض ساتھ لے کر پیدا ہوتی ہے۔ مردوں کی بیماری گھر کواقتصادی تباہی میں مبتلا کرتی ہے۔ بچوں کا مستقبل تاریک ہوجاتاہے اور بحیثیت مجموعی قومی تعمیر وترقی کی راہ میں رکاوٹ پیدا ہوتی ہے۔ اس مسئلہ کا مفصل اور ہر جہتی جائزہ لینا تو اُن لوگوں کا کام ہے۔ جوانسانی جسم کی مشینری کی تمام جزئیات پر گہری نظر رکھتے ہیں لیکن اس کے بعض پہلو ایسے بھی ہیں جن پر روزمرہ کے مشاہدات وتجربات کی روشنی میں ہم جیسے عامی بھی کچھ نہ کچھ رائے قائم کرتے اور اظہار خیال کرسکتے ہیں۔
میرا مشاہدہ یہ ہے کہ ہمارے یہاں بہت سے روگ محض اس لیے جانوں کو چٹ کر جاتے ہیں کہ لوگ اپنی خوراک اوراپنی جنسی زندگی کے بارے میں بعض نہایت بنیادی معلومات وحقائق سے ناآشنا اور بے بہرہ رہتے ہیں اور لاعلمی وجہالت کے سبب ایسی اعتدالیوں کے مرتکب ہوتے ہیں۔ کہ اُن کی جسمانی مشینری کے سارے کل پُرزے ڈھیلے ہوجاتے ہیں۔ اور وہ اپنی عمر سے بہت بوڑھے ہوکر ناکارہ ہوجاتے ہیں۔ عورتیں گھریلو مُسرت سے حقیقتاً کبھی آشناہی نہیں ہوپاتیں کیونکہ ازدواجی زندگی میں قدم رکھنے سے پہلے ہی وہ طرح طرح کے عوارض میں مبتلا ہوتی ہیں جن کی والدین کوخبر بھی نہیں ہونے پاتی اور شادی کے بعد پتہ چلتاہے کہ جس کو صحت مند تصورکیاجاتاتھا اس کی جان کو کیسے کیسے مہلک اورپرانے روگ لگے ہوئے تھے۔لیکن یہ صورت حالات ہمیشہ سے یوں ہی نہیں ہے بلکہ اب سے صرف پچاس ساٹھ سال پہلے حالات بالکل مختلف تھے اس وقت نہ لوگوں کی صحت کا ایسا تباہ حال تھا اور نہ ہر ایک اپنی جان سے بیزار نظر آتاتھا۔ اس وقت خاندانی نظام کی گرفت مضبوط اوربزرگوں کی رہنمائی اور ان کے تجربہ سے فائدہ اٹھانے کی ساری سہولتیں موجود تھیں۔ خاندانی روایات کا پاس واحترام اور حفظ مراتب کالحاظ کیاجاتاتھا۔ گھر کے بڑے بوڑھے اپنی عمر بھر کے تجربات بلکہ پشت ہاپشت سے سینہ بہ سینہ منتقل ہونے والی نصیحتوں اورہدایات کی روشنی میں گھر کے نظام کو چلاتے تھے اور یہ نظام زندگی کے سارے معاملات پر اس طرح محیط اور حاوی ہوتاتھا کہ گھر کے افراد کے صبح سے شام تک کے ساتھ معمولات ایک قاعدے اور ضابطے کے پابند ہوجاتے تھے۔ اس ضابطہ بندی میں جسمانی ذہنی اور اخلاقی صحت کے سارے بنیادی اصول اور اس سلسلے کی ضروری احتیاطیں اس طرح سمودی جاتی تھیں کہ کسی خارجی امداد کی احتیاج ہی باقی نہ رہتی تھی۔
انقلابات زمانہ کے طفیل آج نہ تو خاندانی نظام کی شیرازہ بندی باقی رہی اور نہ وہ بزرگ ہی رہے جو زندگی کی پر پیچ راہوں میں انتہائی شفقت ورحمت کے ساتھ ہماری رہنمائی اور ہمارے معمولات زندگی کی ضابطہ بندی کرتے تھے۔ نئی پود کو سرے سے گھر کی درس گاہ ہی نصیب نہیں ہوتی۔ مرد سارادن معاش کے کولھو میں بیلوں کی طرح جتے رہتے ہیں اور رات کو جب تھکے ماندے گھر آتے ہیں تو انہیں اپنی سُدھ بُدھ نہیں رہتی۔ عورتیں الگ بیماری اوربچوں کی ریں ریں میں گھر سے بیزار اور موت کی طلبگار رہتی ہیں۔ایسے میں کسی کو بچوں کی طرف نہ توجہ کا موقع نصیب ہوتاہے نہ ذہن اس لائق رہتے ہیں۔ والدین کی اپنی زندگی کسی ضابطہ کی پابند نہیں رہتی تو بچوں کی زندگی میں باقاعدگی کیوں کر پیدا ہو جو جی چاہتا ہے اور جب جی چاہتاہے، کھاتے اور مناسب نگرانی ورہنمائی نہ ہونے کے سبب اُن کی نہ صرف جسمانی صحت تباہ برباد ہوتی ہے بلکہ ذہنی وجنسی صحت بھی بے اعتدالی کی نذر ہوجاتی ہے۔ اور موقع پرست نیم حکیم اس صورت حال سے فائدہ اٹھا کر ایسے لوگوں کوخوب خوب بیوقوف بناتے اوران کی رہی سہی صحت کو بھی تباہ کرڈالتے ہیں۔
یہ ہے وہ صورت حال جو یہ تقاضہ کرتی ہے کہ ہمارے ارباب فکروفن اس طرف توجہ دیں اور اس خلاءکوپُر کریں جوخاندانی نظام میں انتشار اور بڑے بوڑھوں کے تجربہ ورہنمائی سے محرومی کی وجہ سے پیدا ہو رہاہے۔
اس سلسلے میں ہماری سب سے بڑی کمزوری جنسی مسائل ومعاملات ہیں۔ ایک طرف اخلاقی حدود اوراحترام اورشرم وحیا کی بچی کچھی روایات کااثر یہ ہے کہ ہم دنیا زمانے کے ہرمسئلے پرزبان کھول سکتے ہیں اور قلم اٹھاسکتے ہیں۔ لیکن یہ موضوع ایسا شجر ممنوع ہے کہ اُس کی طرف ادنیٰ سا اشارہ بھی طبائع لطیف پرگراں گزرتاہے۔ اُدھر اسی تصویر کا دوسرارُخ یہ ہے کہ سینما فحش لڑیچر اور روز افزوں عُریانی جذبات جنسی میں بے پناہ اشتعال پیدا کرکے ناقابلِ تصور بے اعتدالیوں اور برائیوں کا دروازہ کھول چکی ہے اورانجان وناتر اشیدہ نئی پودنتائج وعواقب سے بے خبربڑی تیزی کے ساتھ تباہی کے غار کی طرف پیش قدمی کررہی ہے۔
اب ہمارے سامنے دو ہی راستے ہیں یا تو ہم بے جاقسم کی شرم میں پڑے رہیں اورزندگی کے اس ہم پہلو کو راز سربستہ ہی رکھنے پر مصررہیں تاکہ ہم خود بھی اس کارگہ حیات میں ایک رازبن کرتاریخ کے اوراق میں مستور ہوجائیں اوریایہ ہم حالات کے چیلنج کوپورے عزم واعتماد کے ساتھ قبول کریں اور نئی نسل کی اس طرح ذہنی تربیت کریں کہ جنس اس کے لیے راز سربستہ نہ ہو بلکہ زندگی میں بھی وہ اپنے بُرے اور بھلے میں امتیاز کرنے کے قابل ہوجائے اور اُسے یہ معلوم ہو کہ اُسے کن چیزوں کوقبول واختیار کرناچاہیے اور کن چیزوں میں احتیاط واجتناب کی روشنی اختیار کرنی چاہیے۔ ہوسکتاہے کہ بعض لوگ اور احباب کویہ بُری انوکھی سی بات معلوم ہولیکن میرے نزدیک جب قرآن مجید میں انسان کی جنسی زندگی کے بارے میں ضروری پہلو کاذکر آسکتاہے اور جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی زبان فیض ترجمان نے ان مسائل کی عقدہ کشائی میں کسی بے جاتکلف سے کام نہیں لیا تو ہمارے لیے کیا اس معاملے میں اُن کااسوہ،مشعل راہ نہیں ہوسکتا۔ اخلاقی ضوابط کاپورا احترام ہوناچاہیے۔ حیااورشرم کوکماحقہ، ملحوظ رکھا جا نا چاہیے۔ لیکن ان معاملات میں ہمیں اپنے لیے من گھڑت قاعدے اورضابطے بنانے صحیح نہیں اور ان مسائل پرہمارے اہل علم وفن قرآن وحدیث کے اسلوب بیان کا ابتاع کرتے ہوئے نئی پود کی تعلیم وتربیت کابڑا کام کرسکتے ہیں۔ یقیناً یہ کام بڑا مشکل ہے اور شاید اسی وجہ سے آج تک اس سے اجتناب وپرہیز بھی کیاگیا ہے لیکن اب وہ مرحلہ آگیا ہے کہ وقت کے چلینج کوقبول کرنا ہی پڑے گا۔ اوران مسائل کو بھی موضوع فکر ونظر بنانا ہی ہوگا
hakeem sahib salam . mare koi taza shade howe ha laken mara masla ya ha ke may beve ka sath mubashert k leya qreeb jata hun tou mara ala tnasul ma erection nahe hota ha