اﷲ کے نیک بندوں سے محبت کرنا یقیناًاﷲ تبارک و تعالیٰ کو محبوب ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’اے ایمان والو! اﷲ سے ڈرو اور سچوں کے ساتھ ہو جاؤ۔ (پارہ ۱۱، سورۂ توبہ، آیت ۱۱۹) اس آیت میں اﷲ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو اپنے سے ڈرنے اور صادقین کے ساتھ ہونے کا حکم فرمایا ہے تاکہ لوگ ان کی صحبت میں رہ کر خود بھی سچے راستے پر گامزن رہیں۔ اﷲ تعالیٰ کے نیک بندوں میں سے ایک بندے سرکار بغداد حضور غوث پاک سیدنا شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اﷲ تعالیٰ علیہ ہیں، جو کہ تمام اولیاء اﷲ کے سردار ہیں۔
سرکار بغداد حضورِ غوثِ پاک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا اسم مبارک ’’ عبدالقادر‘‘ اور آپ کی کنیت ’’ ابو محمد ‘‘اور القابات’’ محی الدین ، محبوب سبحانی ، غوث الثقلین ، غوث الاعظم ‘‘وغیرہ ہیں، آپ۴۷۰ھ میں بغداد شریف کے قریب قصبہ جیلان میں پیدا ہوئے اور ۵۶۱ ھ میں بغداد شریف میں وصال فرمایا ، آپ کا مزار پر انوار عراق کے مشہور شہر بغداد میں ہے۔
الحمد للّٰہ ! ہم اہلسنت والجماعت حضور غوث پاک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے حد درجہ محبت و انسیت رکھتے ہیں اور ان کے نام کی فاتحہ دلاتے ہیں ، یہ سب کام یقیناًجائز اور باعث برکت ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ ہی ہمیں یہ بات بھی یاد رکھنا چاہئے کہ کسی بھی انسان سے محبت کا تقاضہ جب ہی پورا ہو سکتا ہے جب اس کے بتائے ہوئے راستے پر چلا جائے ۔میں کسی کی محبت پر شک نہیں کر رہا لیکن اگر آج جائزہ لیا جائے یہ بات ہم پر آشکارا ہو جائے گی کہ آج ہم حضور غوث پاک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے محبت کا دعویٰ تو کرتے ہیں لیکن صحیح معنیٰ میں ہم ان سے محبت کا دعوے میں سچے نہیں ہیں، انھوں نے ہمیں زندگی جینے کا جو راستہ بتایا آج ہم اس کو بھولے ہوئے ہیں، ہمیں انھوں نے نبی کریم ﷺسے جس محبت کا درس دیا آج ہم اس کو پس پشت ڈالے ہوئے ہیں، جو تعلیمات حضور غوث پاک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے ہمیں عطا فرمائیں آج ہم ان پر عمل پیرا ہونا تو دور ان تعلیمات کے خلاف عمل کرنے کو اپنے لئے فخر سمجھ رہے ہیں۔
حضور غوث پاک رحمۃ اﷲ تعالیٰ علیہ سے ہماری محبت سچی اسی وقت ہو سکتی ہے جب ہم ان کی تعلیمات پر عمل پیرا ہوں ۔ اﷲ تبارک و تعالیٰ اپنے محبوب بندے حضور غوث پاک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی تعلیمات پر مجھ حقیر کو اور جملہ افراد اہلسنت کو اس پر عمل کرنے کی توفیق نصیب فرمائے۔اسی امید کے ساتھ حضور غوث پاک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے چند ملفوظات حاضر ہیں۔
خوف خدا:
حضرت محبوب سبحانی، قطب ربانی شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے خوف کے متعلق دریافت کیا گیا تو آپ نے فرمایا کہ ’’اس کی بہت سی قسمیں ہیں (۱) خوف ..یہ گنہگاروں کو ہوتا ہے(۲)رہبہ … یہ عابدین کو ہوتا ہے (۳)خشیت …یہ علماء کو ہوتی ہے۔‘‘
نیز ارشاد فرمایا: ’’گنہگار کا خوف عذاب سے، عابد کا خوف عبادت کے ثواب کے ضائع ہونے سے اور عالم کا خوف طاعات میں شرک خفی سے ہوتا ہے۔‘‘ پھر آپ نے فرمایا: ’’عاشقین کا خوف ملاقات کے فوت ہونے سے ہے اور عارفین کا خوف ہیبت و تعظیم سے ہے اور یہ خوف سب سے بڑھ کر ہے کیوں کہ یہ کبھی دور نہیں ہوتا اور ان تمام اقسام کے حاملین جب رحمت و لطف کے مقابل ہو جائیں تو تسکین پاجاتے ہیں۔‘‘(بہجۃ الاسرار، ص۶۳۲)
اطاعت الٰہی:
حضرت سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی قطب ربانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ارشاد فرماتے ہیں: ’’ اللہ عزوجل کی نافرمانی نہیں کرنی چاہیے اور سچائی کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہیے، اس بات پر یقین رکھنا چاہیے کہ تو اللہ عزوجل کا بندہ ہے اور اللہ عزوجل ہی کی ملکیت میں ہے، اس کی کسی چیز پر اپنا حق ظاہر نہیں کرنا چاہیے بلکہ اْس کا ادب کرنا چاہیے کیوں کہ اس کے تمام کام صحیح ودرست ہوتے ہیں، اللہ عزوجل کے کاموں کو مقدم سمجھنا چاہیے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ ہر قسم کے امور سے بے نیاز ہے اور وہ ہی نعمتیں اور جنت عطا فرمانے والا ہے، اور اس کی جنت کی نعمتوں کا کوئی اندازہ نہیں لگا سکتا کہ اس نے اپنے بندوں کی آنکھوں کی ٹھنڈک کے لئے کیا کچھ چھپا رکھا ہے، اس لئے اپنے تمام کام اللہ عزوجل ہی کے سپرد کرنا چاہیے، اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنا فضل و نعمت تم پر پورا کرنے کا عہد کیا ہے اور وہ اسے ضرور پورا فرمائے گا۔
بندے کا شجرِ ایمانی اس کی حفاظت اور تحفظ کا تقاضا کرتا ہے، شجرِ ایمانی کی پرورش ضروری ہے، ہمیشہ اس کی آبیاری کرتے رہو، اسے (نیک اعمال کی) کھاد دیتے رہو تاکہ اس کے پھل پھولیں اور میوے برقرار رہیں اگر یہ میوے اور پھل گر گئے تو شجرِ ایمانی ویران ہو جائے گا اور اہلِ ثروت کے ایمان کا درخت حفاظت کے بغیر کمزور ہے لیکن تفکرِ ایمانی کا درخت پرورش اور حفاظت کی وجہ سے طرح طرح کی نعمتوں سے فیضیاب ہے، اللہ عزوجل اپنے احسان سے لوگوں کو توفیق عطا فرماتا ہے اور ان کو ارفع و اعلیٰ مقام عطا فرماتا ہے۔‘‘ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی نہیں کر، سچائی کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑ اور اس کے دربار میں عاجزی سے معذرت کرتے ہوئے اپنی حاجت دکھاتے ہوئے عاجزی کا اظہار کر، آنکھوں کو جھکاتے ہوئے اللہ عزوجل کی مخلوق کی طرف سے توجہ ہٹا کر اپنی خواہشات پر قابو پاتے ہوئے دنیا و آخرت میں اپنی عبادت کا بدلہ نہ چاہتے ہوئے اور بلند مقام کی خواہشات دل سے نکال کر رب العالمین عزوجل کی عبادت و ریاضت کرنے کی کوشش کرو۔(فتوح الغیب مع قلائد الجواہر، ص۴۴)
رضائے اﷲ تبارک و تعالیٰ :
حضرت سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی قطب ربانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ارشاد فرماتے ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی کوئی دعا قبول فرماتا ہے اور جو چیز بندے نے اللہ تعالیٰ سے طلب کی وہ اسے عطا کرتا ہے تو اس سے ارادۂ خداوندی میں کوئی فرق نہیں آتا اور نہ نوشتۂِ تقدیرنے جو لکھ دیا ہے اس کی مخالفت لازم آتی ہے کیونکہ اس کا سوال اپنے وقت پر رب تعالیٰ کے ارادہ کے موافق ہوتا ہے اس لیے قبول ہوجاتا ہے اور روز ازل سے جو چیز اس کے مقدر میں ہے وقت آنے پر اسے مل کر رہتی ہے۔(فتوح الغیب مع قلائد الجواہر، ص۵۱۱)
وجد:
حضرت سیدنا شیخ محی الدین عبدالقادر جیلانی قطب ربانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے وجد کے بارے میں دریافت کیا گیا تو آپ نے ارشاد فرمایا: ’’روح اللہ عزوجل کے ذکر کی حلاوت میں مستغرق ہو جائے اور حق تعالیٰ کے لئے سچے طور پر غیر کی محبت دل سے نکال دے۔‘‘ (بہجۃ الاسرار، ص۶۳۲)
وفا :
حضرت شیخ محی الدین عبدالقادر جیلانی قدس سرہ النورانی سے دریافت کیا گیا کہ وفا کیا ہے ؟تو آپ نے ارشاد فرمایا: ’’وفا یہ ہے کہ اللہ عزوجل کی حرام کردہ چیزوں میں اللہ عزوجل کے حقوق کی رعایت کرتے ہوئے نہ تو دل میں اِن کے وسوسوں پر دھیان دے اور نہ ہی ان پر نظر ڈالے اور اللہ عزوجل کی حدود کی اپنے قول اور فعل سے حفاظت کرے، اْس کی رضا والے کاموں کی طرف ظاہر و باطن سے پورے طور پر جلدی کی جائے۔‘‘ (بہجۃ الاسرار، ص۵۳۲)
صدق:
حضرت سیدنا شیخ محی الدین عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے صدق کے بارے میں دریافت کیا گیا تو آپ نے فرمایا کہ
(۱) اقوال میں صدق تو یہ ہے کہ دل کی موافقت قول کے ساتھ اپنے وقت میں ہو۔
(۲) اعمال میں صدق یہ ہے کہ اعمال اس تصور کے ساتھ بجالائے کہ اللہ عزوجل اس کو دیکھ رہاہے اور خود کو بھول جائے۔
(۳) احوال میں صدق یہ ہے کہ طبیعتِ انسانی ہمیشہ حالتِ حق پر قائم رہے اگرچہ دشمن کاخوف ہویادوست کا ناحق مطالبہ ہو۔‘‘(بہجۃ الاسرار، ص۵۳۲)
صبر کی حقیقت :
حضرت سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی قطب ربانی غوث صمدانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے صبر کے بارے میں دریافت کیا گیا تو آپ نے فرمایا کہ ’’صبر یہ ہے کہ بلاا ور مصیبت کے وقت اللہ عزوجل کے ساتھ حسن ادب رکھے اور اْس کے فیصلوں کے آگے سر تسلیم خم کر دے۔‘‘(بہجۃ الاسرار، ص۴۳۲)
شکر :
سیدنا شیخ محی الدین عبدالقادر جیلانی رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ سے شکر کے بارے میں دریافت کیا گیا تو آپ نے ارشاد فرمایا کہ ’’شکر کی حقیقت یہ ہے کہ عاجزی کرتے ہوئے نعمت دینے والے کی نعمت کا اقرار ہو اوراسی طرح عاجزی کرتے ہوئے اللہ عزوجل کے احسان کو مانے اور یہ سمجھ لے کہ وہ شکر ادا کرنے سے عاجز ہے۔‘‘(بہجۃ الاسرار، ص۴۳۲)
دْنیا :
حضور سیدنا غوث اعظم شیخ عبدالقادر رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے دنیا کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا کہ ’’دنیا کو اپنے دل سے مکمل طور پر نکال دے پھر وہ تجھے ضرریعنی نقصان نہیں پہنچائے گی۔‘‘(بہجۃ الاسرار، ص۳۳۲)
توکل کی حقیقت:
حضرت محبوب سبحانی قطب ربانی سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے توَکّل کے بارے میں دریافت کیا گیا تو آپ نے ارشاد فرمایا کہ ’’دل اللہ عزوجل کی طرف لگا رہے اور اس کے غیر سے الگ رہے۔‘‘ نیز ارشاد فرمایا کہ ’’توکل یہ ہے کہ جن چیزوں پر قدرت حاصل ہے ان کے پوشیدہ راز کو معرفت کی آنکھ سے جھانکنا ۔‘‘(بہجۃ الاسرار، ص۲۳۲)
محبت:
حضرت سیدنا شیخ محی الدین عبدالقادر جیلانی قدس سرہ النورانی سے دریافت کیا گیا کہ ’’محبت کیا ہے؟تو آپ نے فرمایا: ’’محبت، محبوب کی طرف سے دل میں ایک تشویش ہوتی ہے پھر دنیا اس کے سامنے ایسی ہوتی ہے جیسے انگوٹھی کا حلقہ یا چھوٹا سا ہجوم، محبت ایک نشہ ہے جو ہوش ختم کر دیتا ہے، عاشق ایسے محوہیں کہ اپنے محبوب کے مشاہدہ کے سوا کسی چیز کا ان میں ہوش نہیں، وہ ایسے بیمار ہیں کہ اپنے مطلوب (یعنی محبوب) کو دیکھے بغیر تندرست نہیں ہوتے ،وہ اپنے خالق عزوجل کی محبت کے علاوہ کچھ نہیں چاہتے اور اْس کے ذکر کے سوا کسی چیز کی خواہش نہیں رکھتے۔‘‘(بہجۃ الاسرار، ص۹۲۲)
ہرحال میں اللہ عزوجل کا شکر ادا کرو :
حضور سیدنا شیخ محی الدین عبدالقادر جیلانی رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ نے ارشاد فرمایا: ’’پروردگار عزوجل سے اپنے سابقہ گناہوں کی بخشش اور موجودہ اور آئندہ گناہوں سے بچنے کے سوا اور کچھ نہ مانگ، حسن عبادت، احکام الٰہی عزوجل پر عمل کر، نافرمانی سے بچنے قضاء وقدر کی سختیوں پر رضامندی، آزمائش میں صبر، نعمت و بخشش کی عطا پر شکر کر، خاتمہ بالخیر اور انبیاء علیہم السلام صدیقین، شہداء صالحین جیسے رفیقوں کی رفاقت کی توفیق طلب کر، اور اللہ تعالیٰ سے دنیا طلب نہ کر، اور ٓزمائش و تنگ دستی کے بجائے تونگر و دولت مندی نہ مانگ، بلکہ تقدیر اور تدبیر الٰہی عزوجل پر رضا مندی کی دولت کا سوال کر۔ اور جس حال میں اللہ تعالیٰ نے تجھے رکھا ہے اس پر ہمیشہ کی حفاظت کی دعا کر، کیونکہ تْو نہیں جانتا کہ ان میں تیری بھلائی کس چیز میں ہے ،محتاجی و فقر فاقہ میں ہے یا دولت مندی اور تونگری میں آزمائش میں یا عافیت میں ہے، اللہ تعالیٰ نے تجھ سے اشیاء کا علم چھپا کر رکھا ہے۔ ان اشیاء کی بھلائیوں اور برائیوں کے جاننے میں وہ یکتا ہے۔
امیرالمومنین حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ ارشاد فرماتے ہیں کہ ’’مجھے اس بات کی پرواہ نہیں کہ میں کس حال میں صبح کروں گا آیا اس حال پر جس کو میری طبیعت ناپسند کرتی ہے ،یا اس حال پر کہ جس کو میری طبیعت پسند کرتی ہے، کیونکہ مجھے معلوم نہیں کہ میری بھلائی اور بہتر ی کس میں ہے۔یہ بات اللہ تعالیٰ کی تدبیر پر رضا مندی اس کی پسندیدگی اور اختیار اور اس کی قضاء پر اطمینان و سکون ہونے کے سبب فرمائی۔ (فتوح الغیب مع قلائد الجوہر، ص۷۱۱)
طریقت کے راستے پر چلنے کا نسخہ:
حضرت سیدنا شیخ محی الدین عبدالقادر جیلانی رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ نے طریقت کے راستے پر چلنے کا بہترین نسخہ بتایا ہے جو آج کل کے نام نہاد صوفی اور اپنے آپ کو طریقت کے راستے پر چلنے والا کہنے والوں کے لئے درس عبرت ہے۔ آپ ارشاد فرماتے ہیں: ’’اگر انسان اپنی طبعی عادات کو چھوڑ کر شریعتِ مطہرہ کی طرف رجوع کرے تو حقیقت میں یہی اطاعت الٰہی عزوجل ہے، اس سے طریقت کا راستہ آسان ہوتا ہے۔
اللہ عزوجل ارشاد فرماتا ہے : مَا اٰتٰکُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْہُ وَمَا نَہٰکُمْ عَنْہُ فَانْتَہُوْا (پ۸۲،الحشر:۷)
ترجمہ:اور جو کچھ تمہیں رسول عطا فرمائیں وہ لو اور جس سے منع فرمائیں باز رہو۔
کیونکہ حضور اکرم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی اتباع ہی اللہ عزوجل کی اطاعت ہے، دل میں اللہ عزوجل کی وحدانیت کے سوا کچھ نہیں رہنا چاہیے، اس طرح تْو فنافی اللہ عزوجل کے مقام پر فائز ہوجائے گا اور تیرے مراتب سے تمام حصے تجھے عطا کیے جائیں گے اللہ عزوجل تیری حفاظت فرمائے گا، موا فقتِ خداوندی حاصل ہوگی۔
اللہ عزوجل تجھے گناہوں سے محفوظ فرمائے گا اور تجھے اپنے فضل عظیم سے استقامت عطا فرمائے گا، تجھے دین کے تقاضوں کو کبھی بھی فراموش نہیں کرنا چاہئیے ان اعمال کو شریعت کی پیروی کرتے ہوئے بجا لانا چاہیے، بندے کو ہر حال میں اپنے رب عزوجل کی رضا پر راضی رہنا چاہیے، اللہ عزوجل کی نعمتوں سے شریعت کی حدود ہی میں رہ کر لطف و فائدہ اٹھانا چاہیے ۔ (فتوح الغیب، مترجم، ص۲۷)
اللہ تعالیٰ کے ولی کا مقام :
شیخ عبدالقادر جیلانی قدس سرہ النورانی کا ارشاد مبارک ہے: ’’جب بندہ مخلوق، خواہشات، نفس، ارادہ، اور دنیا و آخرت کی آرزؤوں سے فنا ہو جاتا ہے تَو اللہ عزوجل کے سوا اس کا کوئی مقصود نہیں ہوتا اور یہ تمام چیز اس کے دل سے نکل جاتی ہیں تَو وہ اللہ عزوجل تک پہنچ جاتا ہے، اللہ عزوجل اسے محبوب و مقبول بنا لیتا ہے اس سے محبت کرتا ہے اور مخلوق کے دل میں اس کی محبت پیدا کردیتا ہے۔پھر بندہ ایسے مقام پر فائز ہو جاتا ہے کہ وہ صرف اللہ عزوجل اور اس کے قرب کو محبوب رکھتا ہے اس وقت اللہ تعالیٰ کا خصوصی فضل اس پر سایہ فگن ہو جاتا ہے۔ اور اس کو اللہ عزوجل نعمتیں عطا فرماتا ہے اور اللہ عزوجل اس پر اپنی رحمت کے دروازے کھول دیتا ہے۔ اور اس سے وعدہ کیا جاتا ہے کہ رحمت الٰہی عزوجل کے یہ دروازے کبھی اس پر بند نہیں ہوں گے اس وقت وہ اللہ عزوجل کا ہو کر رہ جاتا ہے، اس کے ارادہ سے ارادہ کرتا ہے اور اس کے تدبر سے تدبیر کرتا ہے، اس کی چاہت سے چاہتا ہے، اس کی رضا سے راضی ہوتا ہے، اور صرف اللہ عزوجل کے حکم کی پابندی کرتا ہے۔(فتوح الغیب مع قلائد الجواہر، ص۱۰۰)
مومن کی کیفیت حضور سیدنا غوث الاعظم شیخ عبدالقادر جیلانی قدس سرہ النورانی مومن کی حالت اور اس کی عادات و خصلت کے متعلق ارشاد فرماتے ہیں :’’محبت الٰہی عزوجل کا تقاضا ہے کہ تو اپنی نگاہوں کو اللہ عزوجل کی رحمت کی طرف لگا دے اور کسی کی طرف نگاہ نہ ہو یوں کہ اندھوں کی مانند ہو جائے، جب تک تو غیر کی طرف دیکھتا رہے گا اللہ عزوجل کا فضل نہیں دیکھ پائے گا پس تو اپنے نفس کو مٹا کر اللہ عزوجل ہی کی طرف متوجہ ہو جا، اس طرح تیرے دل کی آنکھ فضلِ عظیم کی جانب کھل جائے گی اور تو اِس کی روشنی اپنے سر کی آنکھوں سے محسوس کرے گا اور پھر تیرے اندر کا نور باہر کو بھی منور کردے گا، عطائے الٰہی عزوجل سے تْو راحت و سکون پائے گا اور اگر تْو نے نفس پر ظلم کیا اور مخلوق کی طرف نگاہ کی تو پھر اللہ عزوجل کی طرف سے تیری نگاہ بند ہو جائے گی اورتجھ سے فضلِ خداوندی رْک جائے گا۔‘‘
تو دنیا کی ہر چیز سے آنکھیں بند کرلے اور کسی چیز کی طرف نہ دیکھ جب تک تْو چیز کی طرف متوجہ رہے گا تَو اللہ عزوجل کا فضل اور قرب کی راہ تجھ پر نہیں کھلے گی، توحید، قضائے نفس ،محویت ذات کے ذریعے دوسرے راستے بند کرد ے تو تیرے دل میں اللہ تعالیٰ کے فضل کا عظیم دروازہ کھل جائے گا تو اسے ظاہری آنکھوں سے دل،ایمان اور یقین کے نور سے مشاہدہ کرے گا۔
مزید فرماتے ہیں: تیرا نفس اور اعضاء غیر اللہ کی عطا اور وعدہ سے آرام و سکون نہیں پاتے بلکہ اللہ تعالیٰ کے وعدے سے آرام و سکون پاتے ہیں۔(فتوح الغیب مع قلائد الجواہر، ص۳۰۱)
اﷲ تبارک و تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا ہے کہ وہ ہمیں ان ملفوظات پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور فیضان غوث پاک سے فیضیاب فرمائے۔ اٰمین۔
محبوبِ سبحانی ،قطبِ ربانی ، شاہبازِ لامکانی
محبوبِ سبحانی، قطبِ ربانی، غوث صمدانی ، شاہبازِ لامکانی ، پیرپیراں، میرمیراں، شیخ عالم ، غوث اعظم ، غوث الثقلین ، امام الطائفتین
سلطان الاولیاء، شاہِ اصفیاءمحی الدین سیّدنا عبدالقادر جیلانی الحسنی و الحسینی کی ذات والا صفات کسی تعارف کی محتاج نہیں ہے ۔رب ذوالجلال نے آپ کو بے پایاں شان عطا فرمائی ہے اور اولیائے کرام میں آپؓ کو وہ مقام اور مرتبہ عطا فرمایا ہے جو انبیاءکرام اور رسل عظام میں حضور خاتم النبین کا ہے۔
غوث اعظم درمیانِ اولیائ
چوں محمد درمیانِ انبیاء
حضرت غوث نجیب الطرفین سیّد ہیں اور یہ بات اس تواتر سے صحیح ثابت ہے کہ اس میں کسی طرح کا اختلاف و نزاع نہیں اس لیے اگر کوئی حاسد و متعصب انکار کرے تو یہی کہنا کافی ہے ۔
گر نہ بیند بروز شپرہ چشم چشمہ¿ آفتاب را چہ گناہ
حضرت مولانا جامی اپنی کتاب” نفحات الانس من حضرات القدس “میں تحریر فرماتے ہیں ۔”سیّدنا شیخ عبدالقادر ثابت النسب سیّد ہیں۔ جامع حسب و نسب ہیں۔ والد بزرگوار کی طرف سے حسنی اور والدہ کی نسبت سے حسینی ہیں“۔
آپ کی ذات بابرکات کے بچپن کا تذکرہ کرتے ہوئے حضرت سیّدنا پیر مہر علی شاہ نے فرمایا : ” حضرت غوث پاک کا حال اور معاملہ بھی عجیب و غریب ہوا ہے ۔ حضرت کی شبِ ولادت با سعادت میں دو سو بیس مولود تولد ہوئے اور حضور کی برکت سے سب کے سب اولیاءہوئے۔ بچپن میں حضور غوث پاک اپنے ہم عمر لڑکوں کے ساتھ کھیل رہے تھے ، ناگاہ ایک گائے اس طرف آئی اور کہنے لگی کہ عبدالقادر ! تجھے اس کام (کھیل )کے لیے پیدا نہیں کیا گیا۔ جب غوث پاکؓ کی عمر چند سال کی ہوئی تو علم حاصل کرنے کے لیے سفر کا ارادہ فرمایا۔ حضرت کی والدہ ماجدہ نے چند دینار آپ کی گودڑی میں ٹانک دیے کہ سفر میں کام آویں گے اور بوقت رخصت نصیحت فرمائی کہ اے فرزند! ہر گز جھوٹ نہ بولنا۔ ( حضرت کی والدہ ماجدہ بھی صاحب ولایت تھیں) ۔ حضرت رخصت ہو کر ایک قافلہ کے ساتھ چلے۔ دوران سفر ڈاکوﺅں کے ایک بھاری گروہ نے قافلہ کو گھیر لیا۔ ان کے سردار نے حضرت سے دریافت کیا کہ آپ کے پاس کوئی قیمتی چیز ہے ؟ حضرت نے فرمایا۔ ہاں میری اس گودڑی میں چند دینار ہیں۔ سردار کو یقین نہ ہوا۔ اس نے خیال کیا کہ شاید بطور خوش طبعی فرما رہے ہیں کیونکہ کوئی شخص اپنے درہم بھی ظاہر نہیں کرتا چہ جائیکہ دینار۔ اسی طرح اورڈاکوﺅں نے بھی یکے بعد دیگرے آپ سے پوچھا تو حضرت سب کے جواب میں یہی فرماتے رہے ۔آخر الامر انہوں نے کہا کہ اگر آپ کے پاس دینار ہیں تو ظاہر کرو۔ حضرت نے فی الفور دینار گودڑی سے نکال کر سامنے کر دیئے ۔سب ڈاکو حضرت کی صداقت و راست بازی سے متعجب و حیران ہو کر سچائی کی وجہ پوچھنے لگے۔ حضرت نے فرمایا کہ مجھے میری والدہ محترم نے بوقت وداع نصیحت فرمائی تھی کہ جھوٹ نہ بولنا، اس واسطے بموجب فرمان حضرت والدہ ماجدہ جو کچھ میرے پاس تھا سچ سچ ظاہر کر دیا۔ وہ سب لوگ اپنے گذشتہ اعمال پر پشیمان ہو کر کہنے لگے سبحان اللہ ! اس شخص نے باوجود خطرہ کے اپنی والدہ کی نافرمانی روا نہیں رکھی ۔ادھر ہم ہیں کہ اپنے مالکِ حقیقی کی نافرمانی میں مشغول ہیں۔ سب نے حضرت کے دستِ مبارک پر توبہ کی اور بداعمالی سے پشیمان و تائب ہو کر عذابِ الیم سے نجات پائی“۔ یہ حضرت غوث پاک کی پہلی کرامت تھی۔
ایک اور ملفوظ میں ارشاد ہے کہ ”جو لطافت دوسرے اولیاءاللہ کی روحوں کو حاصل ہے وہ حضرت سیّدنا شیخ عبدالقادر جیلانی کے بدن مبارک کو حاصل ہے۔گویا آپ کا بدن مبارک دوسروں کی روحوں کے مرتبہ میں ہے ۔ حضرت کے عہد بابرکات میں ایک سوداگر نے ایک دن حضرت کے خادم کو آپ کے لیے نہایت قیمتی لباس خریدتے دیکھ کر خیال کیا کہ اس درویش کا مرتبہ کہاں تک پہنچا ہے کہ ایسا بیش قیمت کپڑا جو اس درویش کے خادم نے طلب کیا ہے ، شاہانِ وقت بھی نہیں پہنتے۔ اس خیال کے دل میں آتے ہی اس شخص کو ایسا مرض لاحق ہوا جو کسی علاج سے اچھا نہ ہوتا تھا۔ بالآخر حضورکی خدمت میں حاضر ہوا ۔ حضرت نے متبسم ہو کر فرمایا کہ جو شخص عبدالقادرسے غیرت برتے وہ ایسی ہی سزا کا مستحق ہے ۔ حضرت کے ایک قصیدہ میں اس مضمون کا بیان ہے کہ ہم کوئی چیز از قسمِ ماکولات و ملبوسات ہر گز استعمال نہیں کرتے تا آنکہ عالم غیب سے اس کے استعمال کا ارشاد نہیں ہوتا۔ یہ شعر اسی قصیدہ کا ہے ۔
وما قلت حتیٰ قیل لی قل ولا تخف فانت ولی فی مقام الولایة
(میں نے کوئی بات نہیں کہی مگر اس وقت جب کہ ارشاد ہوا کہہ اور خوف نہ کر کیونکہ تو مقام ولایت میں میرا مخصوص ولی ہے )“
مہر منیر میں بحوالہ اخبار الاخیار مصنفہ حضرت شاہ عبدالحق محدث دہلوی تحریر کرتے ہیں کہ ” جب خاتم نبوت کی خلافت حضرت علیؓ کی ذات گرامی تک پہنچی تو اس شجرِ علم و ولایت سے درختِ طوبیٰ کی مانند بے شمار شاخیں پھوٹیں ، جن کے کمالات ہر جانب سایہ فگن ہوئے اور ساری دنیا حضرت علیؓ کے نور ِجمالِ ولایت سے روشن ہو گئی۔ بالخصوص رسول اللہ کی اولا د عالی نژاد نے بحکمِ وراثتِ حقیقی اور مناصبِ ذاتی ،ولایت کا پورا پورا حصہ اور فیض حاصل کیا۔ اور اپنی عصمتِ ذاتی کی بناءپر ولایت معنوی کا علم بلند کرتے ہوئے ظاہری حکومت دوسروں کے لیے چھوڑ دی۔ خاندانِ نبوت سے نورِ ولایت نہ تو کبھی منقطع ہوا، نہ ہوگا اور آسمانِ ولایت نے بغیر ان اقطاب کے کبھی قرار نہیں پکڑا۔ ان ہی میں سے اللہ تعالیٰ نے جسے چاہا قطب الاقطاب ، غوثِ بنی آدم اور مرجعِ جن و انس بنا کر مشرق و مغرب میں مشہور و معروف کر دیا اور حضرت سیّد عبدالقادر جیلانی کو دین اسلام کا دوبارہ زندہ کرنے والا بنایا۔ اگر چہ جمال محمدی تمام آل میں تابان و درخشاں ہے مگر محی الدین سیّد عبدالقادر جیلانی میں اس کا کچھ اور ہی رنگ ہے جو حقیقتاً جمال احمدی اور کمالِ محمدی کا مظہر اتم ہے “۔
حضرت مجدد الف ثانی نے مکتوبات شریف دفتر سوم مکتوب ۱۲۳میں تحریر فرمایا ہے ، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سے واصل ہونے کے دوراستے ہیں۔ پہلا راستہ قرب نبوت سے تعلق رکھتا ہے اور یہی اصل الاصل ہے اور اس راستے کے واصلان انبیاء ؑ ہیں اور ان کے اصحاب۔ اور تمام امتوں میں سے جن کو بھی وہ اس ذریعہ ¿ دولت سے نوازنا چاہیں ان میں شامل ہیں۔ دوسرا راستہ قرب ولایت کا ہے ۔جس کے ذریعے اقطاب ، اوتاد، ابدال ، نُجباءو عام اولیاءواصل باللہ ہوتے ہیں۔ ”راہ سلوک“ اسی کو کہتے ہیں۔ اس راستے کے واصلین کے پیشوا اور ان کے فیض کا منبع حضرت علی المرتضیٰ ؓہیں اور حضرت سیّدہ فاطمہؓ و حضرات حسنینؓ اس مقام میں ان کے ساتھ شامل ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ حضرت علیؓ قبل از ظہور ِ وجودِ عنصری بھی اس مقام پر فائز تھے اور اس راہ کے واصلین آپ ہی کی روحانیت کے توسل و واسطہ سے منزل مقصود تک پہنچتے رہے۔ آپ کے بعد یہ منصب علی الترتیب حسنین کریمینؓ کو تفویض ہوا اور پھر یکے بعد دیگر ائمہ اہلِ بیت کرام اس مقام پر فائز ہوئے۔ ان سے ماسوا جن کو بھی مذکورہ مقامات عطا ہوئے ان ہی کے واسطے سے ہوئے۔ حتیٰ کہ حضرت غوث الاعظم کا دور آنے پر یہ منصبِ عظیم یعنی قطبیتِ کُبریٰ آپ کی ذات سے مختص کر دیا گیا۔ اب جس کسی کو بھی اس راستے سے فیض و برکات حاصل ہوتی ہیں، آنجناب کے توسط سے ہی ہوتی ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ جب آپ نے مامور من اللہ ہو کر ”قدمی ھذہ علیٰ رقبة کل ولی اللّٰہ “ ارشاد فرمایا تو تمام اولیاءکرام نے اپنی گردنیں خم کر دیں۔ حضرت خواجہ معین الدین چشتی ان دنوں خراسان کے پہاڑوں میں مجاہدات اور ریاضات میں مشغول تھے۔ آپ نے بھی روحانی طور پر غوث الاعظم کا مندرجہ بالا ارشاد گرامی سن کر اپنی گردن اس قدر خم کی کہ پیشانی زمین کو چھونے لگ گئی اور عرض کی کہ ”قد ماک علیٰ را¿سی و عینی۔۔۔۔آپ کے دونوں قدم میرے سر اور آنکھوں پر ہوں“۔
ہمارے اعلیٰ حضرت قبلہ عالم گولڑوی قدس سرہ العزیز کو حضرت محبوب سبحانی سے خصوصی نیاز تھا اور انہی کی توجہاتِ گرامی نے ہر جگہ آپ کی دستگیری فرمائی جن کا اظہار آپ نے متعدد مقامات پر فرمایا۔ جب حکومت برطانیہ نے آپ کو جلاوطن کرنے کا پروگرام بنایا تو حضرت قبلہ عالم یہ سن کر مسکرا دیئے اور فرمایا کہ جو حکومت مجھے جلاوطن کرنے کا ارادہ رکھتی ہے اسے معلوم نہیں کہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کے خود اس کے متعلق کیا ارادے ہیں۔ ساتھ ہی آپ نے بحضور جناب غوث پاک پنجابی زبان میں استغاثہ پیش کیا
رو رو لکھیے چھٹیے درداں بھرئیے، پتہ پچھیں بغداد دے واسیاں دا دیہویں جا سنیہڑا دُکھاں بھریا، انہاں اکھیاں درس پیاسیاں دا
آہیں سولاں بھریاں سینے سڑے وچوں نکلن
حال ایہہ ہے سدا اداسیاں دا
تیرے مُڈھ قدیم دے بردیاں نوں لوکی دس دے خوف چپڑاسیاں دا
دستگیر کر مہر توں مہر علی تے کون باجھ تیرے اللہ راسیاںدا
دعا ہے کہ اللہ رب العزت اپنے حبیب پاک ، اُن کی اولاد پاک اور اولیاءو مقبولانِ بارگاہِ ایزدی خصوصاً حضرت سیّدنا غوثِ اعظم کے صدقے ہمیں اپنے سایہ¿ رحمت و عاطفت میں جگہ دے اور ہمارے دین و دنیا سنوار دے۔ آمین