کباب سموسے کے نقصانات درود شریف کی فضیلت

کباب سموسے کے نقصانات درود شریف کی فضیلت

اللہ کے محبوب، دانائے غیوب، منزہ عن العیوب عزوجل و صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کا فرمانِ رحمت نشان ہے، جس نے یہ کہا، جزی اللہ عنا محمدا ما ھو اہلہ ستر فرشتے ایک ہزار دن تک اس کیلئے نیکیاں لکھتے رہیں گے۔ (ملتقطاً من الحدیثین فی المعجم الاوسط ج1 ص82 حدیث 235 دارالفکر عمان والمعجم الکبیر ج11 ص165 حدیث 11509 دار احیاء التراث العربی بیروت)
صلی اللہ تعالٰی علٰی محمد
مسلمان کی بھلائی چاہنا کارِ ثواب ہے
حضرت سیدنا جریر بن عبداللہ رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں، “میں نے حضور تاجدار رسالت صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم سے اس بات پر بیعت کی کہ نماز قائم کروں گا اور زکوٰۃ ادا کروں گا اور عام مسلمانوں کی خیر خواہی کروں گا (یعنی بھلائی چاہوں گا) (صحیح مسلم ص48 حدیث 97)
الحمدللہ عزوجل خود کو مسلمانوں کے خیر خواہوں میں کھپانے اور ثواب کمانے کے مقدس جذبے کے تحت دعاء کے ساتھ ساتھ صحت مند رہنے کیلئے چند مدنی پھول نذر حاضر کئے ہیں۔ اگر محض دنیا کی رنگینیوں سے لطف اندوز ہونے کیلئے تندرست رہنے کی آرزو ہے تو رسالہ پڑھنا یہیں موقوف کر دیجئے اور اگر عمدہ صحت کے ذریعے عبادت اور سنتوں کی خدمت پر قوت حاصل کرنے کا ذہن ہے تو ثواب کمانے کی غرض سے اچھی اچھی نیتیں کرتے ہوئے درود شریف پڑھ کر آگے بڑھئے اور رسالہ مکمل پڑھئے
صلی اللہ تعالٰی علٰی محمد
اللہ رب العزت عزوجل میری، آپ کی، جملہ اہل خاندان اور ساری اُمت کی مغفرت فرمائے۔ ہمیں صحت و عافیت کے ساتھ اور دعوت اسلامی کے مدنی ماحول میں رہتے ہوئے اسلام کی خدمت پر استقامت عنایت فرمائے۔ اللہ عزوجل ہماری جسمانی بیماریاں دور کرکے ہمیں بیمارِ مدینہ بنائے۔
اٰمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم

کباب سموسے کھانے والے متوجہ ہوں

بازار اور دعوتوں کے چٹ پٹے کباب سموسے کھانے والے توجہ فرمائیں۔ کباب سموسے بیچنے والے عموماً قیمہ دھوتے نہیں ہیں۔ ان کے بقول قیمہ دھو کر ڈالیں تو کباب سموسے کا ذائقہ متاثر ہوتا ہے ! بازاری قیمہ میں بعض اوقات کیا کیا ہوتا ہے یہ بھی سن لیجئے! گائے کی اوجھڑی کا چھلکا اتار کر اس کی “بٹ“ میں تلی بلکہ معاذاللہ عزوجل کبھی تو جما ہوا خون ڈال کر مشین میں پیستے ہیں اس طرح سفید بٹ کے قیمے کا رنگ گوشت کی مانند گلابی ہو جاتا ہے۔ بسا اوقات کباب سموسے والے حسب ضرورت ادرک لہسن وغیرہ بھی قیمے کے ساتھ ہی پسوا لیتے ہیں۔ اب اس قیمے کے دھونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، اُسی قیمے میں مرچ مصالحہ ڈال کر بھون کر اُس کے کباب سموسے بنا کر فروخت کرتے ہیں۔ ہوٹلوں میں بھی اسی طرح کے قیمے کے سالن کا اندیشہ رہتا ہے۔ گندے کباب سموسے والوں سے پکوڑے وغیرہ بھی نہ لئے جائیں کہ کڑہای ایک اور تیل بھی وہی گندے قیمے والا۔ خیر میں یہ نہیں کہتا کہ معاذاللہ ہر گوشت بیچنے والا اس طرح کرتا ہے یا خدانخواستہ ہر کباب، سموسے والا ناپاک قیمہ ہی استعمال کرتا ہے۔ یقیناً خالص گوشت کا قیمہ بھی ملتا ہے۔ عرض کرنے کا منشاء یہ ہے کہ قیمہ یا کباب سموسوں سے قابل اطمینان مسلمان سے لینے چاہئیں اور جو مسلمان ایسی اوچھی حرکتیں کرتے ہیں ان کو توبہ کر لینی چاہئیے۔

کباب سموسے طبیبوں کی نظر میں
کباب، سموسے، پکوڑے، شامی کباب، مچھلی اور مرغی وغیرہ کی تلی ہوئی بوٹیاں، پوریاں، کچوریاں، پیزے، پراٹھے، انڈہ آملیٹ وغیرہ ہم خوب مزے لے لے کر کھاتے ہیں۔ مگر بے ضرر نظر آنے والی یہ خستہ اور کراری غذائیں اپنے اندر کیسے کیسے مہلک امراض لئے ہوئے ہیں اس کا شاذ و نادر ہی کسی کو علم ہوتا ہے۔ تلنے کیلئے جب تیل کو خوب گرم کیا جاتا ہے تو طبی تحقیقات کے مطابق اس کے اندر کئی ناخشگوار و نقصان دہ مادے پیدا ہو جاتے ہیں، تلنے کیلئے ڈالی جانے والی چیز بھی نمی چھوڑتی ہے جس کے سبب تیل مشتعل ہو کر چٹاخ چٹاخ کا شور مچاتا ہے جو کہ اس کے کیمیائی اجزاء کی توڑ پھوڑ کی علامت ہے اور اس کے سبب غذائی اجزاء اور وٹامنز تباہ ہو جاتے ہیں۔

“یارب ! لذت نفسانی سے بچا“ کے انّیس حُروف کی نسبت سے تلی ہوئی چیزوں سے ہونے والی 19 بیماریوں کی نشاندہی

بدن کا وزن بڑھتا ہے۔
 آنتوں کی دیواروں کو نقصان پہنچتا ہے۔
 اجابت (پیٹ کی صفائی) میں گڑ بڑ پیدا ہوتی ہے۔
 پیٹ کا درد
 متلی (6) قے یا
اسہال (یعنی پانی جیسے دست) ہو سکتے ہیں۔
 چربی کے مقابلے میں تلی ہوئی چیزوں کا استعمال زیادہ تیزی کے ساتھ خون میں نقصان دہ کولیسٹرول یعنی LDL بناتا ہے۔
 مُفید کولیسٹرول یعنی HDL میں کمی آتی ہے۔
 خون میں لوتھڑے یعنی جمی ہوئی ٹکڑیاں بنتی ہیں۔
ہاضمہ خراب ہوتا ہے۔
 گیس ہوتی ہے۔
 زیادہ گرم کردہ تیل میں ایک زہریلا مادہ “ایکرولین“ پیدا ہو جاتا ہے جو کہ آنتوں میں خراش پیدا کرتا ہے بلکہ معاذاللہ عزوجل
 کینسر کا سبب بھی بن سکتا ہے۔
 تیل کو زیادہ دیر تک گرم کرنے اور اس میں چیزیں تلنے کے عمل سے اس میں ایک اور خطرناک زہریلا مادہ “فری ریڈیکلز“ پیدا ہو جاتا ہے جو کہ دل کے امراض
کینسر
 جوڑوں میں سوزش
دماغ کے امراض اور
جلد بڑھاپا لانے کا سبب بنتا ہے۔
“فری ریڈیکلز“ نامی خطرناک زہریلا مادہ پیدا کرنے والے مذید اور بھی عوامل ہیں۔ مثلاً تمباکو نوشی، ہوا کی آلودگی (جیسا کہ آج کل گھروں میں ہر وقت کمرہ بند رکھا جاتا ہے نہ دھوپ آنے دی جاتی ہے نہ تازہ ہوا)، کار کا دھواں، ایکسرے X RAY, مائیکرو ویو اوون، T.V. اور کمپیوٹر کے اسکرین کی شعائیں، فضائی سفر کی تابکاری (یعنی ہوائی جہاز کا شعائیں پھینکنے کا عمل)

خطرناک زہر کا توڑ
اللہ عزوجل نے اس خطرناک زہر یعنی “فری ریڈکلرز“ کا توڑ بھی پیدا فرمایا ہے چنانچہ جن سبزیوں اور پھلوں کا رنگ سبز، زرد یا نارنجی یعنی سرخی مائل زرد ہوتا ہے یہ اس خطرناک زہر کو تباہ کر دیتے ہیں اس طرح کے پھلوں اور سبزیوں کا رنگ جس قدر گہرا ہوگا ان میں وٹامنز اور معدنی اجزاء کی مقدار بھی زیادہ ہوتی ہے وہ اس زہر کا زیادہ قوت کے ساتھ توڑ کرتے ہیں۔
صلی اللہ تعالٰی علٰی محمد

تلی ہوئی چیزوں کا نقصان کم کرنے کا طریقہ
دو باتوں پر عمل کرنے سے تلی ہوئی چیزوں کے نقصانات میں کمی آ سکتی ہے۔
(1) کباب سموسے، پکوڑے، انڈہ آملیٹ، مچھلی وغیرہ تلنے کیلئے جو کڑاہی یا فرائی پین استعمال کیا جائے وہ نان اسٹک (Non Stick) ہو۔

(2) تلنے کے بعد ایک ایک چیز کو بے خوشبو ٹشو پیپر میں اچھی طرح لپیٹ لیا جائے تاکہ کچھ نہ کچھ تیل جذب ہو جائے۔

بچا ہوا تیل دوبارہ استعمال کرنے کا طریقہ
ماہرین کا کہنا ہے کہ ایک بار تلنے کیلئے استعمال کرنے کے بعد تیل کو دوبارہ گرم نہ کیا جائے۔ اگر دوبارہ استعمال کرنا ہو تو اس کا طریقہ یہ ہے کہ اس کو چھان کر ریفریجریٹر میں رکھ دیا جائے، بغیر چھانے فرج میں نہ رکھا جائے۔

فن طب یقینی نہیں
تلی ہوئی چیزوں کے نقصانات کے تعلق سے میں نے جو کچھ عرض کیا وہ میری اپنی نہیں طبیبوں کی تحقیق ہے۔ یہ اُصول یاد رکھنے کے قابل ہے کہ فن طب سارے کا سارا ظنی ہے یقینی نہیں۔

“یارب مصطفٰے ہمیں مدینۃ النورہ کی نعمتیں نصیب فرما“ کے 41 حُروف کی نسبت سے غذاؤں کے بارے میں 41 مدنی پھول

(1) چاکلیٹ اور مٹھائیاں زیادہ کھانے سے دانت خراب ہو جاتے ہیں کیونکہ چینی کے ذّرات دانتوں پر چپک کر مخصوص جراثیم کی افزائش کا سبب بنتے ہیں۔

(2) بچّے چاکلیٹ کے شیدائی ہوتے ہیں ان کو بچانا ضروری ہے۔ چاکلیٹ یا اس کی پنّی پر چند مرتبہ کوئی کڑوی چیز یا مرچیں وغیرہ لگا دی جائیں جس سے ان کی چاکلیٹ سے دلچسپی ختم ہو جائے۔

(3) پراسیس کردہ ٹن پیک غذاؤں کو محفوظ کرنے کیلئے “سوڈیم نائٹرٹ“ نامی کیمیکل ڈالا جاتا ہے۔ اس کا مسلسل استعمال سرطان کی گانٹھ (Cencer Tumer) بناتا ہے۔

(4) آئسکریم کے ایک کپ (یعنی 210 ملی لیٹر) میں 84 ملی گرام کولیسٹرول ہوتا ہے۔

(5) 250 گرام کی ٹھنڈی بوتل (کولڈ ڈرنک) میں تقریباً سات چمچ چینی ہوتی ہے۔

(6) اُبلے ہوئے یا بھاپ (Steam) میں پکائے ہوئے کھانے اور سبزیاں زیادہ مفید اور زود ہضم ہوتے ہیں۔

(7) بیمار جانور کا گوشت فوڈ پوائزننگ (Food Poisoning) اور بڑی آنت کے کینسر کا ذریعہ بن سکتا ہے۔

( 8 ) ہاف فرائی انڈہ کھانے کے بجائے اچھی طرح فرائی کرکے کھانا چاہئیے اور آملیٹ اُس وقت پکایا جائے جب تک خشک نہ ہو جائے۔

(9) انڈہ اُبالنا ہو تو کم از کم سات منٹ تک اُبالا جائے۔

(10) سیب، چیکو، آڑو، آلوچہ، املوگ، کھیرا وغیرہ پھلوں کو چھیلے بغیر کھانا مفید ہے کیونکہ چھلکے میں بہترین غذائی ریشہ (فائبر) ہوتا ہے۔ غذائی ریشے، بلڈ شوگر، بلڈ کولیسٹرول اور بلڈ پریشر کم کرکے قبض کھولتے اور غذا سے زہریلے مادوں کو لیکر نکل جاتے نیز بڑی آنت کے کینسر سے بچاتے ہیں۔

(11) کدو شریف، شکر قند، چقندر، ٹماٹر، آلو وغیرہ وغیرہ چھلکے سمیت پکانا چاہئیے، ان کا چھلکا کھا لینا مفید ہے۔

(12) کالے چنوں کا استعمال صحّت کیلئے مفید ہے۔ اُبلے ہوئے ہوں یا بھنے ہوئے ان کے چھلکے بھی کھا لینے چاہئیں۔

(13) ایک ہی وقت میں مچھلی اور دودھ کا استعمال نقصان دہ ہے۔

(14) اینٹی بائیوٹیک دواء استعمال کرنے کے بعد دہی کھا لینا چاہئیے۔ جو ضروری بیکٹیریا ختم ہو جاتے ہیں وہ دہی کھانے سے بحال ہو جاتے ہیں (ہر علاج تجربہ کار طبیب کے مشورہ کے مطابق کرنا چاہئیے)

(15) کھانے کے فوراً بعد چائے یا ٹھنڈی بوتل پینا نظام انہضام کو متاثر کرتا ہے، اس سے بد ہضمی اور گیس کی شکایت ہو سکتی ہے (کھانا کھانے کے تقریباً دو گھنٹے کے بعد ایک دو گلاس پانی پی لینا مفید ہے)

(16) چاول کھانے کے فوراً بعد پانی پینے سے کھانسی ہو سکتی ہے۔

(17) گودے والے پھل (مثلاً پپیتا، امرود، سیب وغیرہ) اور رس والے پھل (مثلاً موسمبی، سنگترہ وغیرہ) ایک ساتھ نہیں کھانے چاہئیں۔

( 18 ) پھلوں کے ساتھ چینی یا مٹھائی کا استعمال نقصان کرتا ہے (مختلف پھلوں کی ٹکڑیاں کرکے چاٹ مصالحہ ڈالنے میں حرج نہیں مگر چینی نہ ڈالی جائے)

(19) پھل اور سبزیاں ایک ساتھ نہ کھائے جائیں۔

(20) گھیرا، پپیتا اور تربوز کھانے کے بعد پانی نہ پیا جائے۔

(21) کھانا کھانے کے آدھے گھنٹے پہلے پھل کھا لینا چاہئیے، کھانے کے فوراً بعد پھل کھانا مضر صحت ہے (آفسوس ! آج کل کھانے کے فوراً بعد پھل کھانے کا رواج ہے)

(22) میرے آقا اعلٰی حضرت، مولیٰنا شاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن روایت نقل کرتے ہیں، “کھانے سے پہلے تربوز کھانا، پیٹ کو خوب دھو دیتا ہے اور بیماری کو جڑ سے ختم کر دیتا ہے۔ (فتاوٰی رضویہ تخریج شدہ ج5 ص442 و جامع صغیر ص 192 حدیث 3212 دارالکتب العلمیۃ بیروت)

(23) میٹھی ڈشیں، مٹھائیں اور میٹھے مشروبات کھانے سے کم از کم آدھے گھنٹے قبل استعمال کئے جائیں، کھانے کے بعد ان کا استعمال نقصان کرتا ہے (افسوس ! میٹھی ڈشیں آج کل کھانے کے بعد کھائی جاتی ہیں) جوانی ہی سے مٹھاس اور چکناہٹ کا استعمال کم کر دیجئے، اگر مذید زندہ رہنے میں کامیاب ہو گئے، تو انشاءاللہ عزوجل بڑھاپے میں سہولت رہے گی۔

(24) اُبلی ہوئی سبزی کھانا بہت مفید ہے اور یہ جلدی ہضم ہوتی ہے۔

(25) سبزی کے ٹکڑے اُسی وقت کئے جائیں جب پکانی ہو، پہلے سے کاٹ کر رکھ دینے سے اُس کے قوت بخش اجزاء رفتہ رفتہ ضائع ہو جاتے ہیں۔

(26) تازہ سبزیاں وٹامنز، نمکیات اور معدنیات وغیرہ کے اہم عناصر سے لبریز ہوتی ہیں مگر جتنی دیر تک رکھی رہیں گی اُتنے ہی اُس کے وٹامنز اور مقوّی اجزاء ضائع ہوتے چلے جائیں گے لٰہذا بہتر یہی ہے کہ جس دن کھانا ہو اُسی دن تازہ سبزیاں خریدیں۔

(27) سبزیاں پکانے میں پانی کم سے کم ڈالنا چاہئیے کیونکہ پانی سبزیوں کے حیات بخش اجزاء (وٹامنز) کھینچ لینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

( 28 ) سبزیاں مثلاً آلو، شکرقند، گاجر، چقندر وغیرہ ابالنے کے بعد بچا ہوا پانی ہرگز پھینکا نہ جائے، اس کو استعمال کر لینا فائدہ مند ہے کیونکہ اُس میں ترکاریوں کے مقوی اجزاء شامل ہوتے ہیں۔

(29) سبزیاں زیادہ سے زیادہ 19 منٹ میں ابال لینی چاہئیں ان میں بھی بالخصوص سبز رنگ کی ترکاریاں تو دس منٹ کے اندر اندر چولہے سے اتار لی جائیں۔

(30) زیادہ دیر پکانے سے سبزیوں کے حیات بخش اجزاء (وٹامنز) ضائع ہونے شروع ہو جاتے ہیں۔ بالخصوص وٹامن سی کافی نازک ہوتا ہے زیادہ دیر پکانے سے یہ بالکل ختم ہو جاتا ہے۔

(31) ترکاری یا کسی قسم کی غذا پکاتے وقت آگ درمیانی ہونی چاہئیے۔ اس سے غذا اندر تک اچھی طرح پک جائیگی اور لذیذ بھی ہو گی۔

(32) چولھے سے اُتارنے کے بعد ڈھکن بند رکھنا چاہئے اس طرح بھاپ کا اندر رہنا پکنے کے عمل کیلئے مفید ہے۔

(33) کچی یا پکی سبزیاں فرج میں رکھی جا سکتی ہیں۔

(34) لیموں کی بہترین قسم وہ ہے جس کا رس رقیق (پتلا) اور چھلکا ایک دم پتلا ہو، عام طور پر اسے کاغذی لیموں کہتے ہیں۔ لیموں کو آم کی طرح گھولنے کے بعد، چوڑائی میں کاٹنا چاہئے، اس کے کم از کم چار اور اگر ذرا بڑا ہو تو آٹھ ٹکڑے کر لیجئے، اس طرح نچوڑنے میں آسانی رہے گی۔ لیموں کا ٹکڑا اس قدر نچوڑیں کہ سارا رس نچڑ جائے، ادھور نچوڑ کر پھینک دینا اسراف ہے۔

(35) فرج سے نکال کر ٹھنڈا لیموں باورچی خانہ میں چولھے کے پاس رکھ دیجئے یا گرم پانی میں ڈال دیجئے یا کاٹ کر گرم چاولوں کے پتیلے میں بھی رکھا جا سکتا ہے۔ اس طرح نرم ہو جائے گا اور رس بآسانی نکل آئے گا۔

(36) کچی سبزیاں اور سلاد کھانا مفید ہے کہ یہ وٹامنز سے بھرپور،صحت بخش اور قبض کشا ہوتی ہیں۔ سائنسی تحقیق کے مطابق پکانے سے اکثر غذائیت ضائع ہو جای ہے۔

(37) تازہ سبزی کا استعمال زیادہ مفید ہوتا ہے۔ باسی سبزیاں نقصان کرتی اور پیٹ میں گیس بھرتی ہیں، ہاں آلو، پیاز، لہسن وغیرہ تھوڑے دن رکھنے میں حرج نہیں۔

( 38 ) سبزی، پھل اور اناج میں موجود غذائیت کا “حارس“ (یعنی محافظ) اُس کا چھلکا ہوتا ہے لٰہذا ان میں سے جو جو چیز چھلکے کے ساتھ بآسانی کھائی جا سکتی ہے، اُس کا چھلکا نہیں اُتارنا چاہئیے۔ جس کا چھلکا بہت سخت ہوتا ہے اور نہیں کھایا جاتا اُس کی بھی صرف ہلکی سی تہ وہ بھی آہستہ آہستہ اُتارنی چاہئیے۔ چھلکا جس قدر موٹا اتاریں گے اتنے ہی وٹامنز اور قوت بخش اجزاء ضائع ہوں گے۔

(39) پالش کئے ہوئے گندم، چاول اور دالوں کا آج کل استعمال عام ہے، آٹا بھی پالش کئے ہوئے گندم ہی کا ملتا ہے، پالش کی وجہ سے اناج کا غذائی ریشہ اور اس کی اوپری تہ جو وٹامنز سے بھرپور ہوتی ہےبرباد ہو جاتی ہے۔

(40) موسمبی، سنگترہ وغیرہ کا موٹا چھلکا اتارنے کے بعد بچی ہوئی باریک جھلی کھا لیجئے۔

(41) حضرت مولائے کائنات، علی المرتضٰی شیر خدا کرم اللہ وجہہ الکریم فرماتے ہیں، انار کے دانے اس کی جھلی کے ساتھ کھانے چاہئیں جو دانوں پر لپٹی ہوتی ہے یہ مقوی معدہ (یعنی معدہ کو طاقت دینے والی) ہے۔ (تاریخ الخلفاء ص147،


 

تلاش کریں (Search)

Recent Post حالیہ پوسٹ

Categories مظامین