یہ بھی آپ کو معلوم ھونا چاہیۓ کہ شریعت کا موقف دوا و علاج کے بارے میں صرف اتنا ہی نہیں کہ بیماری واقع ھو جاۓ تو اسے زائل کرنے کے لۓ بھاگ دوڑ کی جاۓ بلکہ شریعت نے تو اس سے بھی بہت آگے تک جانے کی ترغیب دلائی ہے اور پرہیز و احتیاط تدابیر اختیار کرنے کی بھی تعلیم دی ہے ۔ جیسا کہ ایک مشہور مقولہ ہے :
” پرہیز علاج سے بہتر ہے “۔
اور شریعت کے مقررہ قواعد و ضوابط میں سے ہی ایک قاعدہ و مسلمہ اصول یہ ہے :
(( الدفع اولی من الرفع ))
کسی علت کے واقع ھو جانے پر سے اٹھانے و رفع کرنے سے بہتر یہ ہے کہ اسے لاحق و واقع ہی نہ ھونے دیا
جاۓ ” ۔ اور قاعدہ و اصول پر دلالت کرنے والی کئی احادیث رسول صلی اللہ علیہ و سلم ہیں جن کا حصر و احاطہ تو ممکن نہیں تاھم بطور مثال انہی میں سے ایک حدیث میں ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ و سلم ہے :
” صحیح و سالم ( اونٹ والے کے اونٹوں ) پر وہ شخص اپنے ( اونٹ پانی پلانے کے لۓ ) ہرگز نہ لاۓ جس کے ( اونٹ ) بیمار ھوں “۔ (بخاری و مسلم )
اسی طرح صحیح مسلم میں حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ایک حدیث میں وہ بیان فرماتے ہیں :
” بنو ثقیف کے ( اسلام قبول کر نے کے لۓ آنے والے ایک ) وفد میں ایک آدمی کوڑھ کے مرض میں مبتلا تھا نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے اسے پیغام بھیجا اور فرمایا :
” تم وہیں سے واپس لوٹ جاؤ ، ھم نے تمھاری بیعت قبول کر لی “۔ ( صحیح مسلم ) ۔
ادھر صحیح بخاری و مسلم میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد گرامی ہے :
جس نے صبح کے وقت سات عجوہ کھجوریں کھا لیں اسے اس دن کوئی زہر اور سحر ( جادو ) نقصان نہیں دے گا “۔ (بخاری و مسلم )