یہ خبر بہت بھرپور انداز میں اچھالی گئی کہ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے یہ بیان جاری کیا ہے کہ ہومیوپیتھی طریقہ علاج کے بارے میں کوئی ایسے سائنسی شواہد موجود نہیں کہ ہومیو ادویا ت سے کسی بھی قسم کی بیماریوں کو کنٹرول کیا جا سکتا ہے
اس لئے ایشیا کے پسماندہ ممالک جہاں یہ طریقہ علاج تیزی سے فروغ پا رہا ہے ، کو انتباہ کیا جا تا ہے کہ ہومیو پیتھک ادویات سے اسہال، ملیریا، ٹی بی ، اور ایڈز کو کنٹرول کرنے کے لئے ہومیو ادویات کے بجائے صرف روائتی طریقہ علاج
ایلوپیتھی پر انحصار کیا جائے
اس سلسلے میں جب حقیقت حال جاننے کیلئے ڈبلیو ایچ او کی ویب سائٹhttp://www.who.in کو وزٹ کیا گیا تو معلوم ہوا کہ ڈبلیوایچ او نے سرکاری سطح پر ایسا کوئی بیان ہی جاری نہیں کیا۔
حقیقت تو یہ ہے کہ ایک آرگنائزیشن وائس آف ینگ سائنس نیٹ ورک ویب سائٹ Sense About Science جوکہ ہومیوپیتھی کے خلاف مبینہ طور پرباقاعدہ فنڈڈ پروپیگنڈہ کر رہی ہے۔ نے ڈبلیو ایچ او اور انگلینڈ کے وزیر صحت کو خط لکھا کہ وائس آف ینگ سائنس نیٹ ورک کے نمائندگان ایلوپیتھک ڈاکٹر ایلزبتھ ، ڈاکٹر ماریو، ڈاکٹر موکنڈ اور ڈاکٹر ٹی گیسٹ جو کہ ڈبلیو ایچ او کے بھی افریقہ مین نمائندگان ہیں نے یہ معلوم کیا ہے کہ ہومیو پیتھی ایک پلاسبو طریقہ علاج ہے اور اس سے خطرناک بیماریوں مثلا اسہال، ملیریا، ٹی بی، اور ایڈز کا علاج خطرے سے خالی نہیں۔ انگلینڈ کے وزیر صحت نے تو اس ہزرہ سرائی کا جواب تک دینا منا سب نہیں سمجھا مگر اس کے جواب مین ڈبلیو ایچ او کی انسانی تحفظ ، ماحولیات کی ڈائریکٹر جنرل مارگریٹ چن، جن کا تعلق ہانگ کانگ سے ہے ، کے دفتر سے کسی نے یہ کہ دیا کہ ڈبلیو ایچ او کے نمائندگا ن کی رائے ، ڈبلیوایچ او کی رائے ہو تی ہے۔
اس سراسر غلط بیانی پر ، وائس آف ینگ سائنس نیٹ ورک نے ڈبلیو ایچ او کے سرکاری بیان official statement کے طورپر میڈیا کو جاری کر دیا۔
چونکہ بگ مافیا ہومیوپیتھی جیسے سستے طریقہ علاج کے خلاف ہے۔ لہذا اس خبر کو نمایاں کوریج دلوائی گئی اور یہ بیان
یورپ، امریکہ اور بی بی سی اور پاکستان میں اے پی پی کے حوالے سے چھپا ۔
یہاں یہ امر قابل غو ر ہے کہ ڈبلیو ایچ او کی ڈائریکٹر چن، نے اصل میں ہوم اکنامکس میں گریجویشن کی ہے اور ہو ہومیو پیتھی طریقہ علاج کی ابجد سے بھی واقف نہیں
یہی صورت حال وائس آف ینگ سائنس نیٹ ورک کے ممبران کی ہے۔ نہ ہی انہوں نےٹرائل کیلئے کوئی ہومیو پیتھی کے ماہرین کا کوئی گروپ تشکیل دیا گیا۔
یہ سب صر ف ایک پروپیگنڈہ کے علاوہ کچھ نہیں
(بشکریہ ڈاکٹر ماس)