اُخرُج مِنہُ مَا یَقُولُ بِسمِ اللہِ وَمَا یَقُولُ لاَ حَولَ وَلاَ قُوۃَ اِلاَ العَلِی العَظِیمِ
اور تاجدار انبیاء صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم اس کا علاج یوں فرمایا کرتے تھے۔
اُخرُج عَدُوَاللہِ اَنَا رَسُولُ اللہِ ۔ “یعنی اے دشمن خدا (شیطان) نکل جا۔“
میں اللہ تعالٰی کا رسول ہوں۔ بعض معالجین آیت الکرسی پڑھ کر دم کرتے ہیں ارو مرگی کے مریض کو معوذات کی تاکید کرتے ہیں۔ (مدارج)
مرگی والے کے کانوں میں اذان دینے سے خاطر خواہ فائدہ ہوتا ہے۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے مجھ سے فرمایا کہ تم کو جنتی عورت دکھاؤں ؟ میں نے کہا، ہاں۔ آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا، یہ سیاہ عورت میرے پاس حاضر ہوئی اور عرض کیا، مجھے صرع کا مرض ہے اور رُسوا ہو جاتی ہوں۔ آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم دعاء فرما دیجئے۔ آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا، تم چاہو تو صبر کرو، تمہارے لئے جنت ہے۔ اگر چاہو تو دعاء کردوں کہ تم کو عافیت عطا ہو۔ اس نے کہا کہ میں صبر کروں گی۔ پھر کہا کہ میں رُسوا ہو جاتی ہوں تو آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے اس کے لئے دعاء فرمائی۔ (بخاری و مسلم شریف)
اس حدیث سے علاج اور دوا کے ترک پر روشنی پڑتی ہے۔ ممکن ہے کہ اس کا صرح اس طرح کا ہو کہ علاج ارواح میں دعا سے جو کام ہوتا ہے، وہ اطباء کے علاج سے نہیں ہوتا اور یہ کہ دعاء کا اثر اوت تاثیر اور اس کا عمل اور طبیعت کا اس سے متاثر ہونا اور اس کا انفعال قبول کرنا دواؤں سے کہیں بڑھ کر ہے۔
تاجدار انبیاء صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے ایسے مرض کو پورے استقلال و صبر سے برداشت کرنے پر جنت کا وعدہ فرمایا اور دعاء فرمائی کہ وہ عریاں نہ ہونے پائے مگر اس عورت نے صبر اور عریاں نے ہونے کو پسند کیا۔