مربہ بہی – سفرجل
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”اپنی حاملہ عورتوں کو سفرجل کھلایا کرو کیونکہ یہ دل کی بیماریوں کو ٹھیک کرتا ہے اور لڑکے کو حسین بناتا ہے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”سفر جل کھاﺅ کیونکہ یہ دل کے دورے کو ٹھیک کرکے سینہ سے بوجھ اتار دیتا ہے، یہ دل کو طاقت دیتا ہے، سانس کو خوشبودار بناتا ہے
بہی (سفر جل) کو ہندی میں بیل، فارسی میں شُبل، سنسکرت میں وسعت کی دیوی، انگریزی میں Quince کہتے ہیں
یہ ایک سیب کی شکل کا پھل ہے جو جنگلوں میں خودرو بھی ہے اور کاشت بھی کیا جاتا ہے۔ ہندی دیو مالا کے مطابق یہ پھل زرخیزی، وسعت رزق اور فارغ البالی کی علامت ہے۔ اسے بھگوان سوکاپرتو قرار دے کر ہندو اس کی پوجا کرتے ہیں اور مندروں میں پوجا کے دوران اس کی موجودگی باعث برکت خیال کی جاتی ہے۔
احادیث کی روشنی میں
حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ بن عبیداللہ روایت فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو وہ اس وقت اپنے اصحاب کی مجلس میں تھے ان کے ہاتھ میں سفرجل تھا جس سے وہ کھیل رہے تھے جب میں بیٹھ گیا تو انہوں نے اسے میری طرف کرکے کہا۔ اے اباذر! یہ دل کو طاقت دیتا ہے، سانس کو خوشبودار بناتا ہے اور سینہ سے بوجھ کو اتار دیتا ہے۔ حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”سفر جل کھاﺅ کیونکہ یہ دل کے دورے کو ٹھیک کرکے سینہ سے بوجھ اتار دیتا ہے (القالی، فی امالیہ، حوالہ کنزالعمال) سفرجل کھانے سے دل پر سے بوجھ اتر جاتا ہے۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”اپنی حاملہ عورتوں کو سفرجل کھلایا کرو کیونکہ یہ دل کی بیماریوں کو ٹھیک کرتا ہے اور لڑکے کو حسین بناتا ہے۔
محدثین کے مشاہدات
احادیث میں فوائد کے سلسلہ میں دو اہم ارشادات نظر آتے ہیں۔ ”تجم الغواد“ اور ”البطخائ“ اس کی تشریح میں محدث ابو عبیدہ کہتے ہیں کہ جیسے آسمان پر ابر آتے ہیں اور پردہ سا پڑ جاتا ہے اسی طرح بطخاءدل کی وہ کیفیت ہے جس میں دل کے پردے دندھلے ہوجاتے ہیں اور ان پر پانی پر جاتا ہے یہ (Pericarditis) کی مکمل کیفیت ہے۔
عام طور پر فواد کے معنی دل کا دورہ ہے۔ جو کے دلیا کے فوائد میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کی روایات میں فواد کا لفظ اکثر جگہ استعمال ہوا جس کا عمومی مفہوم دل پر بوجھ یا دورہ ہی سمجھا جاتا ہے جب یہ لفظ ”تجم الفواد“ کی صورت میں سفر جل کے بارے میں مذکور ہو تو حافظ ابن القیم رحمتہ اللہ علیہ اس کی تشریح میں کہتے ہیں کہ یہ دل سے سدوں کو نکالتا ہے، اس کی نالیوں سے رکاوٹ کو دور کرتا ہے اور انہیں وسیع کرتا ہے اس سے دل کی وہ کیفیات بھی مراد ہیں جب وہاں پر پانی اکٹھا ہوکر اس کی کارگزاری کو متاثر کرے۔
غلط تاثر دور کیجئے
زیادہ بہی کھانے سے جذام کا خطرہ ہوتا ہے یہ بات قطعاً غلط ہے کیونکہ جذام ایک متعدی بیماری ہے جوکہ جراثیم کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے اس لئے بہی کھانے سے کبھی پیدا نہیں ہوسکتی۔
اطباءکرام کے مشاہدات
.1میٹھا سفر جل ٹھنڈک پہنچاتا ہے جبکہ کھٹا قابض ہوتا ہے۔ .2معدہ کیلئے مقوی اور مصلح ہوتا ہے۔ .3پیاس کو کم کرتا ہے۔ .4قے کو روکتا ہے۔ .5پیشاب آور ہے۔ .6پیٹ کے السر میں مفید ہے۔ .7ہرفیہ کا بہترین علاج ہے۔ .8خون پیدا کرتا ہے۔ .9دل اور جگر کو تقویت دیتا ہے۔ .10بھوک کو بڑھاتا ہے۔ .11اس کے کھانے سے جگر کے سدے کھل جاتے ہیں۔ .12جن عورتوں کو مٹی کھانے کی عادت ہو اگر وہ بہی کھائیں تو مٹی کھانے کی عادت جاتی رہے گی۔ .13زیادہ کھانے سے ہچکی آتی ہے۔ .14رعشہ، قونج اور پیچش پیدا ہوتا ہے۔ .15کھانسی کی شدت کو کم کرتا ہے۔ .16اس سے منہ کے چھالے اور گلے کے چھالے مندمل ہوجاتے ہیں۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے جو حضرت انس رضی اللہ عنہ کی وساطت سے پہنچا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق اسے نہار منہ کھایا کرو اس کا مربہ دل کے مریضوں، پرانی کھانسی، دمہ، پرانی پیچش میں بہت زیادہ مفید ہے۔