سونف ایک جانی پہچانی کارآمد چیز ہے۔ پیٹ کی تکالیف‘ ہاضمے کی خرابیوں وغیرہ میں اسے بہ کثرت استعمال کیا جاتا ہے۔ اسے اس مقصد کے لیے اکثر لوگ پان میں ڈال کر کھاتے ہیں۔ اس سے فائدہ کے لیے ضروری ہے کہ اچھی طرح چباکر اس کا لعاب اور پیک نکل لیا جائے۔ سونف کا سائنسی نام Foeniculum ہے‘ انگریزی میں اسے fennel اور Aniseed بھی کہتے ہیں۔ اس کو فارسی میں بادیان کہتے ہیں۔ سونف کی کاشت کئی ملکوں میں ہوتی ہے۔ قدیم یونانی اس کی بڑی قدر کرتے تھے اور اسے مٹاپے کے علاوہ بیس سے زیادہ مختلف امراض کے لیے مفید قرار دیتے تھے۔ روم کے باشندے بھی اسے خاص طور پر کھانوں کی تیاری اور انہیں زودہضم بنانے کے لیے بہت استعمال کرتے تھے۔ اس کے پتے‘ جڑ اور بیج روٹیوں اور کیک وغیرہ کی تیاری میں شامل کیے جاتے تھے۔ ہمارے ہاں خاص طور پر میٹھی روٹی کی تیاری میں سونف شامل کی جاتی ہے۔ جنگجو اور فوجی اسے بہتر صحت کے لیے زیادہ استعمال کرتے تھے۔ روم میں بھی خواتین اسے موٹاپا کم کرنے کے لیے استعمال کرتی
تھیں۔ قدیم رومی اسے بھوک کا احساس کم کرنے کے لیے مفید قرار دیتے تھے۔ قرون وسطیٰ میں سونف کو کھانوں کو خوشبودار بنانے اور کیڑوں وغیرہ سے محفوظ رکھنے کے لیے بکثرت استعمال کیا جاتا تھا۔ خیال تھا کہ اسے شامل کرنے سے باسی کھانے خراب اور مضر ثابت نہیں ہوتے۔ 16 ویں صدی کا ماہر عقاقیر جیرارڈ اسے بینائی بڑھانے کے لیے بہت مفید قرار دیتا تھا، جب کہ دوسرا ماہر عقاقیر کلپیپر سونف کو سانپ یا کھمبی کے زہریلے اثرات دور کرنے کے لیے موثر قرار دیتا تھا۔ سونف (تخم بادیان) جسم کے نرم عضلات کے لیے آرام دہ ثابت ہوتی ہے۔ اس کے استعمال سے ہضم کی صلاحیت بڑھتی ہے۔ سونف خاص طور پر غذا کے روغنی یا چربیلے اجزاءہضم کرنے میں معاون ثابت ہوتی ہے۔ چینی معالج لی شین چن (1578) نے اپنی کتاب پین لساﺅ میں اسے خاص طور پر بچوں کے نظام ہضم کے لیے مفید لکھا ہے۔ اس کے مطابق سونف پیٹھ اور دانت کے درد کے لیے بھی مفید ہوتی ہے۔ یورپی ملکوں میں لوگ سونف‘ بابونہ‘ سویا‘ دھنیا اور سنترے کے پوست کے جوشاندے کو ہاضمے کے لیے بہت مفید قرار دیتے ہیں۔ عظیم محقق دیوسقریدوس سونف کی پیشاب آور صلاحیت کی تعریف کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ سونف گردے‘ مثانے کا ورم دور کرنے کے لیے بہت موثر ہوتی ہے۔ اسے باقاعدہ استعمال کرتے رہنے سے گردے‘ مثانے میں پتھری نہیں بنتی اور اگر بن بھی گئی ہو تو اس کے استعمال سے خارج ہوجاتی ہے۔ سونف دودھ پلانے والی ماﺅں کے لیے بھی بہت مفید سمجھی جاتی ہے۔ اس کے استعمال سے دودھ کی مقدار بڑھ جاتی ہے۔ سونف میں زنانہ ہارمون ایسٹروجن جیسی خاصیت بھی ہوتی ہے۔ اس لحاظ سے یہ خواتین کے لیے بہت موثر ثابت ہوتی ہے۔ س یاس کی تکالیف سے نجات کے لیے اطباءدیگر پیشاب آور دواﺅں کے ساتھ سونف استعمال کراتے ہیں۔ طب یونانی کی مشہور دوا شربت بزوری میں سونف کے بیج اور اس کی جڑ بھی شامل کی جاتی ہے۔ ایک یورپی معالج جان اویلن (1680) نے اپنی کتاب ایسی تاریا میں سونف کی ٹہنیوں کے گودے کو موثر‘ مسکن اور خواب آور قرار دیا ہے۔ طب ہندی کے معالجین کے مطابق سونف کی تاثیر ٹھنڈی ہوتی ہے اور یہ ہاضمے کے لیے بہت موثر ثابت ہوتی ہے۔ سونف کے چبانے سے ثقیل کھانے آسانی سے ہضم ہوجاتے ہیں۔ سونف معدے کے علاوہ جگر کے لیے بھی مفید ہوتی ہے۔ سینے اور معدے کی جلن کے لیے بھی اس کا استعمال بہت مفید ہوتا ہے۔ سونف پیشاب آور ہوتی ہے۔ ہم وزن سونف اور گڑ کو پانی میں جوش دے کر نیم گرم پینے سے حیض کی بے قاعدگی دور ہوجاتی ہے۔ دوائی مقاصد کے لیے 5 سے 7 گرام سونف استعمال کرنا چاہیے۔ پیٹ کی ہر قسم کی تکلیف کے لیے پانی کے ساتھ چائے کا ایک چمچہ پسی ہوئی سونف کا استعمال بہت موثر ثابت ہوتا ہے۔ عرق بادیان بچوں کے لیے موثر گرائپ واٹر ثابت ہوتا ہے۔ سونف 100 گرام‘ گاجر کے بیج 50 گرام‘ بادام 50 گرام‘ کالی مرچ 5 گرام اور مصری یا چینی 50 گرام باریک پیس کر صبح و شام ایک ایک چائے کا چمچہ دودھ کے ساتھ کھانے سے آنکھوں کو بڑی تقویت ملتی ہے۔
تھیں۔ قدیم رومی اسے بھوک کا احساس کم کرنے کے لیے مفید قرار دیتے تھے۔ قرون وسطیٰ میں سونف کو کھانوں کو خوشبودار بنانے اور کیڑوں وغیرہ سے محفوظ رکھنے کے لیے بکثرت استعمال کیا جاتا تھا۔ خیال تھا کہ اسے شامل کرنے سے باسی کھانے خراب اور مضر ثابت نہیں ہوتے۔ 16 ویں صدی کا ماہر عقاقیر جیرارڈ اسے بینائی بڑھانے کے لیے بہت مفید قرار دیتا تھا، جب کہ دوسرا ماہر عقاقیر کلپیپر سونف کو سانپ یا کھمبی کے زہریلے اثرات دور کرنے کے لیے موثر قرار دیتا تھا۔ سونف (تخم بادیان) جسم کے نرم عضلات کے لیے آرام دہ ثابت ہوتی ہے۔ اس کے استعمال سے ہضم کی صلاحیت بڑھتی ہے۔ سونف خاص طور پر غذا کے روغنی یا چربیلے اجزاءہضم کرنے میں معاون ثابت ہوتی ہے۔ چینی معالج لی شین چن (1578) نے اپنی کتاب پین لساﺅ میں اسے خاص طور پر بچوں کے نظام ہضم کے لیے مفید لکھا ہے۔ اس کے مطابق سونف پیٹھ اور دانت کے درد کے لیے بھی مفید ہوتی ہے۔ یورپی ملکوں میں لوگ سونف‘ بابونہ‘ سویا‘ دھنیا اور سنترے کے پوست کے جوشاندے کو ہاضمے کے لیے بہت مفید قرار دیتے ہیں۔ عظیم محقق دیوسقریدوس سونف کی پیشاب آور صلاحیت کی تعریف کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ سونف گردے‘ مثانے کا ورم دور کرنے کے لیے بہت موثر ہوتی ہے۔ اسے باقاعدہ استعمال کرتے رہنے سے گردے‘ مثانے میں پتھری نہیں بنتی اور اگر بن بھی گئی ہو تو اس کے استعمال سے خارج ہوجاتی ہے۔ سونف دودھ پلانے والی ماﺅں کے لیے بھی بہت مفید سمجھی جاتی ہے۔ اس کے استعمال سے دودھ کی مقدار بڑھ جاتی ہے۔ سونف میں زنانہ ہارمون ایسٹروجن جیسی خاصیت بھی ہوتی ہے۔ اس لحاظ سے یہ خواتین کے لیے بہت موثر ثابت ہوتی ہے۔ س یاس کی تکالیف سے نجات کے لیے اطباءدیگر پیشاب آور دواﺅں کے ساتھ سونف استعمال کراتے ہیں۔ طب یونانی کی مشہور دوا شربت بزوری میں سونف کے بیج اور اس کی جڑ بھی شامل کی جاتی ہے۔ ایک یورپی معالج جان اویلن (1680) نے اپنی کتاب ایسی تاریا میں سونف کی ٹہنیوں کے گودے کو موثر‘ مسکن اور خواب آور قرار دیا ہے۔ طب ہندی کے معالجین کے مطابق سونف کی تاثیر ٹھنڈی ہوتی ہے اور یہ ہاضمے کے لیے بہت موثر ثابت ہوتی ہے۔ سونف کے چبانے سے ثقیل کھانے آسانی سے ہضم ہوجاتے ہیں۔ سونف معدے کے علاوہ جگر کے لیے بھی مفید ہوتی ہے۔ سینے اور معدے کی جلن کے لیے بھی اس کا استعمال بہت مفید ہوتا ہے۔ سونف پیشاب آور ہوتی ہے۔ ہم وزن سونف اور گڑ کو پانی میں جوش دے کر نیم گرم پینے سے حیض کی بے قاعدگی دور ہوجاتی ہے۔ دوائی مقاصد کے لیے 5 سے 7 گرام سونف استعمال کرنا چاہیے۔ پیٹ کی ہر قسم کی تکلیف کے لیے پانی کے ساتھ چائے کا ایک چمچہ پسی ہوئی سونف کا استعمال بہت موثر ثابت ہوتا ہے۔ عرق بادیان بچوں کے لیے موثر گرائپ واٹر ثابت ہوتا ہے۔ سونف 100 گرام‘ گاجر کے بیج 50 گرام‘ بادام 50 گرام‘ کالی مرچ 5 گرام اور مصری یا چینی 50 گرام باریک پیس کر صبح و شام ایک ایک چائے کا چمچہ دودھ کے ساتھ کھانے سے آنکھوں کو بڑی تقویت ملتی ہے۔