1) او ل یہ كہ جسم خوراك ( خاص طور پر نشاتے دار غذا) كو توانائی كیلئے استعمال نہیں كر سكتا اور جسم میں توانائی كی شدید كمی واقع ہو جاتی ہےـ
2) جسم كے اندر موجود شوگر چونكہ مناسب انداز میں استعمال نہیں ہو پاتی، اسلئے خون میں ہی جمع ہوتی چلی جاتی ہےـاس طرح خون مین مسلسل شوگر ذیادہ رہنے سے ذیابطیس كی وقتی اور دائمی پیچیدگیاں پیدا ہو جاتی ہیںـ
ذیابطیس كی قسمیں
ذیابطیس كے تمام مریضوں كا مرض ایك جیسا نہں ہوتا ـ اسكی كئی قسمیں ہوتی ہیں اور اسی لحاظ سے ان كے علاج میں بهی كُچهـ نہ كُچهـ فرق ركهنا ضروری ہوتا ہےـ اسكی سب سے عام قسموں میں ذیابطیس نوع اول، ذیابطیس نوع ثانی، حمل كی ذیابطیس، اور ماقبل ذیابطیس كا نام لیا جا سكتا ہےـ
ذیابطیس پر کیسے قابو پایا جا سکتا ہے ؟
اپنے بارے میں ذیابطیس كی تشخیص سنتے ہی اكثر لوگ كافی پریشان ہو جاتے ہیں ـ
اُس كی وجہ اول تو یہ ہے كہ ذیابطیس آپ كو اپنا طرزِ زندگی بدلنے پر مجبور كرتی ہے ـ
ذیابطیس كی تشخیص كے بعد اكثر لوگوں كو اپنی كئی ایسی عادتیں بدلنے كی ضرورت پڑتی ہے جو انہیں بہت پسند ہیں ـ مثال كے طور پر خوش خوراكی اور سہل پسندی ـ
پریشانی كی دوسری بڑی وجہ یہ ہوتی ہے كہ مریض اس مرض كی خوفناك پیچیدگیوں سے ڈرتے ہیں ـ
یہ دونوں باتیں درست ہونے كے باوجود اتنا زیادہ ڈرنے كی نہیں ہیں ـ جہاں تك عادتوں كو بدلنے كا سوال ہے، تو تهوڑی سی كوشش سے یہ بات انتہائی آسان ہو جاتی ہےـ پهر اس سلسلے میں آپكو بہت سے ماہرین كی مدد بهی دستیاب رہتی ہےـ اك ذرا سی ہمت كی ضرورت ہے اور آپ اپنے مرض پر فتح پا سكتے ہیںـ
جہاں تك پیچیدگیوں كا سوال ہے تو اگر آپ وقت ضائع كئے بغیر اپنے مرض پر قابو پانے كے لئے كمر بستہ ہو جائیں تو ان كا امكان كافی كم ہو جاتا ہےـ درحقیقت آپ ذیابطیس كے ساتهـ بهی اس طرح زندگی گزار سكتے ہیں كہ كسی كو كانوں كان آپ كے مرض كی خبر بهی نہ ہو سكےـ
ذیابطیس اور عطائیت
ذیابطیس كا مرض جس قسم كا طرز زندگی اختیار كرنے كا مطالبہ كرتا ہے، وہ چونكہ اكثر مریضوں كو پسند نہیں ہوتا، اس لئے وہ مسلسل كسی ایسے معالج كی تلاش میں رہتے ہیں جو اُن كا مرض جڑ سے ختم كر دے، اور اُنہیں پهر سے ہر چیز اپنی مرضی اور طلب كے حساب سے كهانے كی اجازت مل جائے، ورزش كی بهی كوئی پابندی نہ ہو، اور دوا بهی نہ كهانی پڑےـمریضوں كی یہی خواہشیں عطائیوں كے لئے گنجائش پیدا كرتی ہیں ـ
اس سلسلے میں بہترین بات تو یہی ہے كہ آپ عطائیوں سے پر ہیز كریں اور اپنے ڈاكٹر صاحب كے مشورے كو سب سے زیادہ اہمیت دیںـ اس كے ساته ساته آپ جتنا ہوممكن ہو، اپنے مرض كے بارے میں علم حاصل كریںـ اپنے مرض كے بارے میں اپ كو اتنا علم ہونا چاہئے كہ كوئی اپكو دهوكہ نہ دے سكےـ
اس كے باوجود اگر آپ ہر صورت كسی عطائی كا علاج كروانا ہی چاہتے ہیں تو آپكو 2 باتوں كا خیال ضرور ركهنا چاہئےـ
1) اول یہ كہ اس دوران مین اپنے خون كی شوگر كو مسلسل چیك كرتے رہیںـ كیونكہ شوگر میں بہتری كا اندازہ لگانے كا یہی سب سے بہترین پیمانہ ہے ـ
2) دوسری اہم بات جو یاد ركهنے كی ہے وہ یہ كہ آپكے خون میں شوگر اگر ایك دن بهی زیادہ رہتی ہے تو اُسكا آپكو كوئی نہ كوئی نقصان ضرور پہنچتاہےـ اسلئے عطائیت كا تجربہ كرنے سے پہلے یہ طے كر لیں كہ ایسے تجربوں كیلئیے آپ نے كتنے مدت كی حد مقرر كی ہےـ ایسے تجربات كو غیر محدود وقت تك جاری مت ركهیں ـ