عالمی ادارہٴ صحت نے کہا ہے کہ روایتی ادویات دورِ حاضر کی بیماریوں کا مؤثر علاج ہوسکتی ہیں اور انہیں صحت کی ابتدائی دیکھ بھال میں شامل کیا جانا چاہیئے۔
ڈبلیو ایچ او کے سربراہ نے کہا ہے کہ چین جہاں جڑی بوٹیوں کو مغربی ادویات کے ساتھ علاج کے تجویز کیا جاتا ہے، اچھا قابلِ تقلید نمونہ ہے۔
چین میں تقریباً دو ہزار سال سے علاج کے لیے روایتی ادویات استعمال کی جارہی ہیں۔ انہیں نزلے زکام سے لے کر سرطان تک، ہر مرض کے علاج کے لیے استعمال کیا جارہا ہے۔ جڑی بوٹیوں، خوراک اور ورزش کے امتزاج سے علاج کا انداز اب مغرب میں بھی مقبول ہورہا ہے۔
عالمی ادارہٴ صحت کی سربراہ مارگریٹ چان کہتی ہیں کہ دور حاضر کی بیماریوں کے علاج کے لیے مغربی ادویات کے ساتھ ساتھ قدیم طریقہ علاج کو بھی استعمال کیا جانا چاہیئے۔
وہ کہتی ہیں کہ روایتی اور مغربی علاج کے دونوں نظاموں کو آپس میں متصادم نہیں ہونا چاہیئے۔ صحت کی ابتدائی دیکھ بھال کے تناظر میں ان دونوں کو ملاجلا کر اس طرح ہم آہنگ کیا جاسکتا ہے کہ ہر طریقہ علاج کے بہترین پہلو کو استعمال کیا جائے اور دونوں کے کمزور پہلوؤں پر قابو پایاجائے۔
روایتی ادویات کے فروغ سے متعلق ڈبلیو ایچ کی بیجنگ میں ہونے والی اولین کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے چان نے کہا کہ عالمی ادارہٴ صحت کے خیال میں روایتی ادویات کے مغربی ادویات کی نسبت مضر اثرات کم ہوتے ہیں اور وہ عام بیماریوں مثلاً اسہال، ملیریا وغیرہ کے لیے سستا اور مؤثر علاج ہوسکتی ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ روایتی ادویات جدید دور کے رہن سہن کے انداز سے جنم لینے والی بیماریوں مثلاً ذیابیطس، دل کے امراض اور ذہنی بیماریوں دور کرنے میں بھی مدد دے سکتی ہیں۔
چان کہتی ہیں کہ چین جہاں دونوں قسم کی ا دویات علاج کے لیے استعمال ہوتی ہیں، اچھی مثال پیش کرتا ہے۔ لیکن انھوں نے خبردار کیا کہ تمام روایتی ادویات سائنسی اور تحفظ کے میعار پر پوری نہیں اترتیں۔
ماہرین ایک طویل عرصے سے جڑی بوٹیوں کے اہم اجزا کو مغربی ادویات میں شامل کرنے پر تحقیق کررہے ہیں۔لیکن اس وقت جڑی بوٹیوں سے تیار کردہ دواؤ ں کی مارکیٹ اربوں ڈالر تک پہنچ چکی ہے اور ان میں سے بہت سی ادویات کو یہ جانے بغیر فروخت کیا جارہا ہے کہ ان میں کون کون سے اجزا شامل ہیں اور اس کے کیا اثرات ہوسکتے ہیں۔
عالمی ادارہٴصحت نے کہا ہے کہ روایتی ادویات کو صحت کی دیکھ بھال کے جدید نظام میں ضم کرنے سے سائنسی تحقیق کی حوصلہ افزائی ہوگی اور اس بات کو یقنی بنایا جاسکے گا کہ انہیں نظرانداز نہ کیا جائے اور انہیں محفوظ اور مؤثر طور پر استعمال کیا جائے۔
چینی ادویات سے متعلق بیجنگ یونیورسٹی کے ایک پروفیسر وانگ شی کہتے ہیں کہ روایتی چینی ادویات کو بیرون ملک فروغ دینے کے لیے سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ سائنسی طورپر یہ ثابت کیا جائے کہ وہ مؤثرہیں۔