ہم دوسروں کے رویے کا ذکر تو بڑی شدومد کے ساتھ کرتے ہیں‘ مگر اپنے طرز عمل اور رویے کی طرف ہماری توجہ نہیں جاتی‘ حالانکہ ہمارا کردار (یا رویہ) ہماری سوچ اور اپنے اور دوسروں کے بارے میں ہمارے خیالات کا عکاس ہوتا ہے۔ چنانچہ ہمیں اپنی سوچ اور کردار کا ناقدانہ جائزہ لینا چاہیے۔ اس طرح ہماری سوچ اور رویے میں جو مثبت تبدیلی ہوگی وہ ذہنی‘ جسمانی اور جنسی صحت کی بہتری میں اہم سنگ میل ثابت ہو گی۔
ماہرین نفسیات کے مطابق ہر شخص کو فطری طور پر درج ذیل حقوق حاصل ہوتے ہیں:
(1 ) اس کی عزت کی جائے(2)اس سے سچ بولا جائے (3) اس کے جذبات کا احترام کیا جائے(4) اس کی بات سنی جائے(5)اس پر سنجیدگی سے توجہ کی جائے(6) وہ دوسروں سے ممتاز ہو(7) وہ اپنے معاشرے کا حصہ ہو(8) اس سے محبت کی جائے(9) وہ اپنے آپ سے محبت کرے۔
ازدواجی یا جنسی صحت کے ضمن میں آخری نکتہ نہایت اہم ہے یعنی اپنے آپ سے محبت۔ اگر اپنے آپ سے محبت کا فن آپ سیکھ جائیں تو آپ کو زندگی میں اطمینان اور خوشی کا خزانہ مل جائے۔ واضح رہے کہ محبت سے مراد جنسی کشش نہیں ہے۔ یہ تو شہوت ہے اسے محبت کا نام نہیں دیا جا سکتا۔ محبت اصل میں نام ہے اس جذبے کا جس میں عزت و احترام اور قربت و لگن یکجا ہوتے ہیں۔ اپنے آپ سے محبت کا مطلب یہ ہے کہ آپ اپنی زندگی سے محبت کرتے ہوں اور اپنے پاکیزہ خیالات و جذبات کا احترام کرتے ہوں اور پرسکون و مطمئن ہوں۔ اپنے آپ سے محبت کی یہ کیفیت پیدا ہونے کے بعد ہی آدمی دوسروں کا احساس کرنے اور احترام کرنے کے قابل ہوتا ہے۔ دوسروں سے محبت وہی کر سکتا ہے جو اپنے آپ سے محبت کرتا ہے۔اپنے سے محبت کرنا سیکھئے
اپنے آپ سے محبت کرنا ایک فن ہے۔ یہ صلاحیت آپ کی جنسی صحت اور ازدواجی زندگی پر بڑے گہرے اثرات مرتب کرتی ہے۔ یہ فن اسی وقت آتا ہے کہ جب آدمی خود کو نظم و ضبط کا پابند بناتا ہے۔ نظم و ضبط کا مطلب یہ ہے کہ آپ کیلئے جو کام مفید ہیں انہیں کیجئے اور جو کام مضر ہیں انہیں ترک کر دیجئے۔
جنس ہماری زندگی کا ایک نہایت قوی جذبہ ہے‘ شاید سب سے قوی جذبہ یہی ہے۔ چنانچہ جنسی خواہشات اور جنسی تقاضوں کے مقابلے میں خود کو نظم و ضبط کا پابند کرنا دنیا کے مشکل ترین کاموں میں سے ہے۔یہی وجہ ہے کہ زندگی کے دیگر شعبوں میں کامیاب اور ڈسپلن کے پابند افراد جنس کے ہاتھوں بے بس ہو کر بے قابو ہو جاتے ہیں۔ اکثریت کا معاملہ یہ ہے کہ وہ تعلیم‘ کاروبار‘ معاشرتی تعلقات وغیرہ میں برے بھلے میں تمیز کر لیتے ہیں اورصحیح غلط کا فیصلہ کرکے عمل بھی کرتے ہیں‘ مگر جنسی معاملات میں بے پروائی اختیار کرکے جنسی صحت کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ چنانچہ ان کا غیر محتاط رویہ ان کی جنسی صحت کو گھن کی طرح چاٹ جاتا ہے۔ ایسے میں خاص طور پر نوجوان کفِ افسوس ملتے اور اپنے مستقبل کو تاریک دیکھتے ہیں۔ یہ مایوسی ان کی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بن جاتی ہے۔ جنس کی جانب سے بے پروائی ان کی زندگی کے دیگر شعبو ں کو بھی گہنا دیتی ہے۔
”نہ“ کہنا سیکھئے
آپ نے اکثر سنا ہو گا کہ منظم اور مربوط زندگی کیلئے بعض کاموں سے انکار کرنا اور معذرت کر لینا بہت ضروری ہے لیکن ہم میں سے اکثر یہ سمجھتے ہیں کہ اگر کسی کا کوئی کام نہ کیا اورمعذرت کر لی تو یہ بداخلاقی ہو گی۔ بلکہ بعض افراد معذرت کرنے کا ارادہ بھی کر لیتے ہیں‘ مگر پست ہمتی کی وجہ سے ”اس دفعہ اور“ کہہ کر ہر بار معذرت سے فرار کی راہ اختیار کرتے ہیں۔ انہیں لوگوں سے معذرت اور ”نہ“ کرتے ہوئے ڈر لگتا ہے۔ لیکن اگر ”نہ“ کہنے کا سلیقہ آجائے تو ہم گویا خود سے محبت کرنے کے قابل ہو گئے ہیں۔ ایک دفعہ معذرت کرکے دیکھئے‘ آپ کو ایک نئی جرات و اعتماد کا احساس ہو گا۔
خوفزدہ مت ہوئیے
”معذرت“ کرنے یا ”نہ“ کہنے کی جرات نہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ لوگ نہ کہنے پر اس خوف میں رہتے ہیں کہ کہیں سامنے والا ناراض نہ ہو جائے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ ہم صاف گوئی کو منفی انداز میں لیتے ہیں۔ اس بات کو سمجھ لیجئے کہ صاف گوئی علیحدہ چیز ہے اور منھ پھٹ ہونا الگ شے۔ اول الذکر کردار کی خوبی ہے اور ثانی الذکر کردار کی خامی۔ صاف گوئی عین اخلاق ہے اور منھ پھٹ ہونا بداخلاقی۔ بہرکیف صاف گو بنئیے، منھ پھٹ نہ بنئیے۔ صاف گوئی اپنے آپ سے محبت کی علامت ہے۔ والدین اپنی اولاد کو کتنی ہی بار مختلف کاموں سے منع کرتے ہیں اور ان کو ”نہ“ کہتے ہیں‘ لیکن ان کا یہ عمل اولاد سے دشمنی کی علامت نہیں ہوتا۔ اگر اس نکتے کو سمجھ لیا جائے تو انکار کرنا اور نہ کہنا آسان ہو جائے گا۔
یہ معاملہ دوسروں کے ساتھ ہے‘ اسی رویے کو اپنی ذات سے وابستہ کیجئے یعنی بعض چیزیں ایسی ہیں جو آپ کی جنسی‘ ازدواجی صحت کیلئے مضر اور خطرناک ہیں۔ ان سے اجتناب آپ کی جنسی صحت اور مجموعی طور پر مستقبل کیلئے نہایت اہم ہے۔ مثال کے طور پر جلق (مشت زنی) نوجوانوں کیلئے زہر ہے۔ اس قبیح عادت کے مضر نتائج بھی سامنے ہیں۔ چنانچہ اپنی ذاتی حیثیت میں اس مضر عادت کے ضمن میں اپنے آپ سے ”نہ“ کہیے۔ جب آپ کو اس فعل کی طرف رغبت ہو تو اس سے انکار کیجئے اور خود کو اس سے روکیے۔ ”نہ“ کہنے کا یہ عمل آپ کی جنسی صحت کیلئے ایک سنگ میل ثابت ہو گا۔
شریک حیات سے مکالمہ کیجئے
جس طرح ہم زندگی کے تمام ہی شعبوں کے بارے میں افراد خانہ بالخصوص شریک حیات سے گفتگو کرتے اور مشورے کرتے ہیں‘ اپنے ازدواجی معاملات کو درست کرنے اور جنسی صحت کو بہتر بنانے کیلئے بھی شریک حیات سے مکالمہ کیجئے۔ اپنے انتہائی نجی شعبہ حیات میں اپنے شریک حیات کو شامل کیجئے۔ آپ کا ازدواجی زندگی کے مستقبل کے بارے میں کیا خیال ہے؟ آپ ازدواجی زندگی کے بارے میں کیا سوچ رکھتے ہیں؟ کیا خاندانی منصوبہ بندی کرنی چاہیے؟ اولاد کتنی ہونی چاہیے وغیرہ جیسے معاملات پر اپنی شریک حیات سے گفتگو کرنے اور ایک دوسرے کی رائے سننے سے نہ صرف ازدواجی اور گھریلو ماحول بہتر ہو گا بلکہ آپ کی جنسی صحت پر بھی اس عمل کے خوشگوار اثرات پڑیں گے۔
اس ضمن میں یہ بھی ضروری ہے کہ شریک حیات سے مکالمے کی ابتدا آپ کیجئے۔ ابتدا میں اگرچہ جھجک محسوس ہو سکتی ہے‘ لیکن خود کو جھجک کے حوالے کرنے سے آپ کے ازدواجی مسائل حل نہیں ہوں گے۔ جرات سے کام لے کر اس موضوع پر گفتگو کیجئے اور وسیع القلبی کے ساتھ اپنی ذمہ داری سمجھتے ہوئے شریک حیات کا نقطہ ¿ نظر سنیے اور اپنا نقطہ نظر بیان کیجئے۔ اگر آپ نے تدبر اور ذمہ داری کے ساتھ مکاملے کا ماحول پیدا کر لیا تو آپ اور آپ کے شریک حیات کے ازدواجی اور جنسی مسائل بڑی آسانی سے حل ہوں گے اور بہت سے مسائل پر آپ پیشگی بند باندھ سکیں گے۔ اس موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے واضح رہے کہ جنسی معاملات الگ شے ہیں اور رومانی بات چیت الگ شے۔ دونوں میں بڑا فرق ہے۔ یہاں رومانی گفتگو کا ذکر نہیں بلکہ جنسی صحت کی بات ہے۔
نوجوانوں کی گفتگو
جنسی صحت کے مسائل کا بڑی حد تک تعلق نوجوان سے ہے۔ بزرگوں اور والدین سے دوری اور غلط ماحول نے ان مسائل کو مزید بڑھا دیا ہے چنانچہ نوجوان رومانی گفتگو میں پڑ کر تو نفس کو لذت آشنا کر دیتے ہیں‘ لیکن جنسی صحت سے بے خبر ہو کر خود کو امراض کی آماجگاہ بنا لیتے ہیں۔ جہاں تک جنسی یا ازدواجی صحت پر گفتگو کا معاملہ ہے نوجوانوں کو بھی قابل اعتماد‘ سنجیدہ اور باعلم و باعمل دوست احباب اور بزرگوں سے اس موضوع پر بلا تکلف و بلاجھجک گفتگو کرنی چاہیے۔ ان کو اگر ایسے ساتھی مل جائیں تو اپنے مسائل کے بارے میں کھل کر بات کرنی چاہیے اور جو نکتہ سمجھ میں نہ آئے اس کی وضاحت طلب کرنی چاہیے۔ نوجوانوں کا یہ جرات مندانہ رویہ نہ صرف ان کی ازدواجی زندگی کیلئے مفید ہو گا بلکہ مجموعی طور پر بہترین اور روشن مستقبل کی بنیاد بنے گا۔
غلط فہمیاں دور کیجئے
چونکہ جنس کا موضوع ہمارے ہاں ایک حجاب رکھتا ہے اور اسے وہ اہمیت حاصل نہیں ہے جو مغرب میں اسے حاصل ہے‘ اس لیے اسی حجاب کی وجہ سے ہمارے معاشرے میں جنس کے بارے میں بہت سی غلط فہمیاں عام ہو گئی ہیں۔ مزید یہ کہ عموماً جو باتیں بیان کی جاتی ہیں ان کی بھی کوئی بنیاد نہیں ہوتی۔ ممکن ہے آپ بھی ایسی کچھ غلط فہمیوں میں پھنسے ہوں۔ اپنی جنسی صحت کو بہتر بنانے کیلئے ضروری ہے کہ ان غلط فہمیوں کو دور کیجئے اور حقائق جاننے کی کوشش کیجئے۔ مثال کے طور پر نوجوانوں میں یہ بات عام ہے کہ مادہ منویہ کا ایک قطرہ خون کے سو یا چالیس قطروں سے مل کر بنتا ہے (اس غلط فہمی کی بنا پر نوجوان نفسیاتی طور پر خود کو کمزور اور لاغر محسوس کرنے لگتے ہیں) حالانکہ اس بات کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ مادہ منویہ خون سے نہیں بنتا۔ اسی طرح احتلام کو اور خاص طور پر اس کی تعداد کو بھی ہَوّا بنا دیا گیا ہے‘ حالانکہ مہینے میںایک دودفعہ اس کا ہو جانا صحت کی علامت ہے، لیکن نوجوان بلاوجہ اس سے خوفزدہ ہو کر خود کو مریض اور کمزور خیال کرنے لگتے ہیں۔
یہ صورت حال پاکستانی نوجوانوں میں بہت عام ہے۔ رومانی ماحول نے نوجوانوں کی صحت کو مزید برباد کردیا ہے۔ اگر آپ اپنا مستقبل روشن بنانا چاہتے ہیں اور جنسی طور پر خود کو صحت مند رکھنا چاہتے ہیں تو اس قسم کی تمام غلط فہمیوں سے خود کو محفوظ رکھنے کی تدبیر کیجئے۔ معتبر ذرائع سے درست معلومات اور حقائق جاننے کی کوشش کیجئے۔ لوگ جنس کے بارے میں بات کرتے ہوئے اس لیے بھی گھبراتے ہیں کہ خود اپنی جنسی صحت کو خطرات لاحق ہوتے ہیں اور جنسی امراض سے بے خبر رہ کر گویا وہ یہ سمجھتے ہیں کہ وہ ان میں مبتلا نہیں ہوں گے۔ صحیح فکر یہ ہے کہ اپنے کردار اور رویہ کو تول کر اور جنسی معلومات سے باخبر ہو کر اپنی جنسی صحت کی حفاظت کی جائے۔