بچے کی زندگی کا آغاز مرحلہ جنین سے ہوتا ہے اور حمل کے 4 ماہ بعد رحم مادر میں موجود بچے میں روح پھونک دی جاتی ہے۔ اس حوالے سے حدیث مبارکہ میں ہے:
یہی وجہ ہے کہ فقھاء کرام نے کسی مجبوری کی بناء پر 4 ماہ سے قبل اسقاط حمل کو جائز قرار دیا ہے۔ بچے کی زندگی کا آغاز مرحلہ جنین سے ہوتا ہے اور حمل کے 4 ماہ بعد رحم مادر میں موجود بچے میں روح پھونک دی جاتی ہے۔ حمل کے پہلے 4 ماہ کے دوران کسی معقول وجہ کی بناء پر حمل ضائع کرنا جائز ہے جبکہ 4 ماہ گزرنے کے بعد حمل کو ضائع کرنا بچہ کو قتل کرنے کے مترادف ہے۔
رحم مادر میں استقرارِ حمل جب تک 120 دن یعنی چار ماہ کا نہ ہو جائے یعنی بچہ کے اندر روح پھونکے جانے سے قبل اسقاطِ حمل (abortion) اگرچہ جائز ہے مگر بلا ضرورت مکروہ ہے، جب کہ 4 ماہ کا حمل ہو جانے کے بعد اسے بلا عذر شرعی ضائع کرنا حرام ہے۔
عذر شرعی سے مراد یہ ہے کہ اگر حمل کے 4 ماہ گزرگئے ہوں لیکن حمل برقرار رہنے کی وجہ سے عورت کی ہلاکت یقینی ہو، جس کی ماہر ڈاکٹروں نے تصدیق کردی ہو، تو ایسی صورت میں 4 ماہ کے بعد بھی اسقاط حمل جائز ہے بلکہ عورت کی جان بچانے کے لیے ضروری ہے کیونکہ اِسقاط نہ کرانے کی صورت میں ماں اور بچہ دونوں کی ہلاکت کا خطرہ یقینی ہے۔ ماں کے مقابلہ میں پیٹ میں موجود بچہ کا زندہ ہونا محض ظنی ہے، چنانچہ بچے کی نسبت ماں کی جان بچانا زیادہ اہم ہے۔ اس لیے اس صورت میں اسقاط کرانا واجب ہے۔
اسقاطِ حمل بارے فقھاء کے اقوال
درالمختار اور فتح القدیر میں ہے:
جب تک بچہ کی تخلیق نہ ہو جائے اسقاط حمل جائز ہے، پھر متعدد مقامات پر تصریح ہے کہ تخلیق کا عمل 120 دن یعنی چار ماہ کے بعد ہوتا ہے اور تخلیق سے مراد روح پھونکنا ہے۔
(درالمختار، 1 : 76) (فتح القدير، 3 : 274)
فتاویٰ عالمگیری میں ہے:
عورت حمل گرا سکتی ہے جب تک اس کے اعضاء واضح نہ ہو جائیں اور یہ بات 120 دن (چار ماہ) گزرنے سے پہلے ہوتی ہے۔
(فتاویٰ عالمگیری، 1 : 335)
علامہ ابن ہمام حنفی لکھتے ہیں:
جب تک تخلیقی عمل (نطفہ میں اَعضاء کی ساخت کا عمل) شروع نہ ہو اِسقاطِ حمل جائز ہے۔ پھر فقہاء نے بیان کیا کہ یہ مدت چار ماہ ہے۔ اس تصریح کا یہ تقاضا ہے کہ تخلیقی عمل سے مراد روح کا پھونکا جانا ہو ورنہ یہ غلط ہے کیونکہ مشاہدہ سے ثابت ہے کہ تخلیقی عمل چار ماہ سے پہلے شروع ہوجاتا ہے۔
(فتح القدير، 3 : 274)
علامہ شامی حنفی لکھتے ہیں:
اگر عورت رحم میں نطفہ پہنچنے کے بعد اس کے اخراج کا ارادہ کرے تو فقہاء نے کہا ہے کہ اگر اتنی مدت گزر گئی ہے جس میں روح پھونک دی جاتی ہے تو جائز نہیں۔ اس مدت سے پہلے اخراج کرانے میں مشائخ کا اختلاف ہے اور حدیث کے مطابق یہ مدت چار ماہ ہے۔
(ردالمختار، 5 : 329)
علامہ شامی حنفی لکھتے ہیں:
اور اگر اسقاط کے نتیجہ میں زندہ بچہ نکلا اور پھر مرگیا تو عورت کے عاقلہ پر اس بچہ کی دیت ہے جو تین سال میں ادا کی جائے گی، اور اگر عورت کے عاقلہ نہ ہوں تو عورت کے مال سے ادا کی جائے گی، اور عورت پر (دو ماہ کے مسلسل) روزے فرض ہیں اور عورت اس بچہ کی وارث نہیں ہوگی۔‘‘
(ردالمختار، 5 : 379)
علامہ حصکفی حنفی لکھتے ہیں:
عورت کے لیے حمل ساقط کرانے کی کوشش کرنا مکروہ ہے، اور عذر کی وجہ سے جائز ہے، بشرطیکہ بچہ کی صورت نہ بنی ہو اور اگر اس نے کسی دوا کے ذریعہ سے ناتمام (کچے) بچے کا اسقاط کرایا تو ماں کے عاقلہ (دودھیال) کی طرف سے بچہ کے وارثوں کو (ایک سال میں) پانچ سو درہم ادا کیے جائیں گے۔
(درالمختار، 5 : 397)