اللہ تعالیٰ کا حکم ہے
مباشرت کے حدود
دین کا مقصد تزکیہ ہے۔ وہ ہرگز پسند نہیں کرتا کہ بیوی کے ساتھ منہ یا دبر کے راستے سے جنسی تعلق قائم کیا جائے۔ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ عورتوں سے ملاقات لازماً اُسی راستے سے ہونی چاہیے جو اللہ نے اُس کے لیے مقرر کر رکھا ہے۔ چنانچہ فرمایا ہے: ‘فَاْتُوْهُنَّ مِنْ حَيْثُ اَمَرَکُمُ اللّٰهُ’ * (تو اُن سے ملاقات کرو، جہاں سے اللہ نے تمھیں حکم دیا ہے)۔ یہ چیز بدیہ یات فطرت میں سے ہے اور اِس پہلو سے، لاریب خدا ہی کا حکم ہے۔ اگر کوئی شخص اِس کی خلاف ورزی کرتا ہے تو وہ درحقیقت خدا کے ایک واضح، بلکہ واضح تر حکم کی خلاف ورزی کرتا ہے، اور اِس پر یقینا اُس کے ہاں سزا کا مستحق ہو گا۔
یہ آیت جہاں آئی ہے، قرآن نے یہی بات اِس کے بعد کھیتی کے استعارے سے واضح فرمائی ہے۔ استاذ امام امین احسن اصلاحی اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں:
”عورتوں کے لیے کھیتی کے استعارے میں ایک سیدھا سادہ پہلو تو یہ ہے کہ جس طرح کھیتی کے لیے قدرت کا بنایا ہوا یہ ضابطہ ہے کہ تخم ریزی ٹھیک موسم میں اور مناسب وقت پر کی جاتی ہے، نیز بیج کھیت ہی میں ڈالے جاتے ہیں، کھیت سے باہر نہیں پھینکے جاتے، کوئی کسان اِس ضابطے کی خلاف ورزی نہیں کرتا، اِسی طرح عورت کے لیے فطرت کا یہ ضابطہ ہے کہ ایام ماہواری کے زمانے میں یا کسی غیرمحل میں اُس سے قضاے شہوت نہ کی جائے، اِس لیے کہ حیض کا زمانہ عورت کے جمام اور غیرآمادگی کا زمانہ ہوتا ہے، اور غیرمحل میں مباشرت باعث اذیت و اضاعت ہے۔ اِس وجہ سے کسی سلیم الفطرت انسان کے لیے اِس کا ارتکاب جائز نہیں۔” (تدبرقرآن ١/٥٢٧)
اِس کے بعد ‘فَاْتُوْا حَرْثَکُمْ اَنّٰی شِئْتُمْ’ * (لہٰذا تم اپنی اِس کھیتی میں جس طرح چاہے، آؤ) کی وضاحت میں اُنھوں نے لکھا ہے:
”(اِس) میں یہ بیک وقت دو باتوں کی طرف اشارہ ہے۔ ایک تو اُس آزادی، بے تکلفی، خود مختاری کی طرف جو ایک باغ یا کھیتی کے مالک کو اپنے باغ یا کھیتی کے معاملے میں حاصل ہوتی ہے، اور دوسری اُس پابندی، ذمہ داری اور احتیاط کی طرف جو ایک باغ یا کھیتی والا اپنے باغ یا کھیتی کے معاملے میں ملحوظ رکھتا ہے۔ اِس دوسری چیز کی طرف ‘حَرْثَ’ کا لفظ اشارہ کر رہا ہے اور پہلی چیز کی طرف ‘اَنّٰی شِئْتُمْ’ کے الفاظ۔ وہ آزادی اور یہ پابندی، یہ دونوں چیزیں مل کر اُس رویے کو متعین کرتی ہیں جو ایک شوہر کو بیوی کے معاملے میں اختیار کرنا چاہیے۔
ہر شخص جانتا ہے کہ ازدواجی زندگی کا سارا سکون و سرور فریقین کے اِس اطمینان میں ہے کہ اُن کی خلوت کی آزادیوں پر فطرت کے چند موٹے موٹے قیود کے سوا کوئی قید، کوئی پابندی اور کوئی نگرانی نہیں ہے۔ آزادی کے اِس احساس میں بڑا کیف اور بڑا نشہ ہے۔ انسان جب اپنے عیش و سرور کے اِس باغ میں داخل ہوتا ہے تو قدرت چاہتی ہے کہ وہ اپنے اِس نشہ سے سرشار ہو، لیکن ساتھ ہی یہ حقیقت بھی اُس کے سامنے قدرت نے رکھ دی ہے کہ یہ کوئی جنگل نہیں، بلکہ اُس کا اپنا باغ ہے اور یہ کوئی ویرانہ نہیں، بلکہ اُس کی اپنی کھیتی ہے، اِس وجہ سے وہ اِس میں آنے کو تو سو بار آئے اور جس شان، جس آن، جس سمت اور جس پہلو سے چاہے آئے، لیکن اِس باغ کا باغ ہونا اور کھیتی کا کھیتی ہونا یاد رکھے۔ اِس کے کسی آنے میں بھی اِس حقیقت سے غفلت نہ ہو۔” (تدبرقرآن١/٥٢٧)
یہ ہدایات کس درجہ اہمیت رکھتی ہیں؟ قرآن نے سورہ بقرہ کی اِنھی آیات میں اِسے ‘اِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ التَّوَّابِيْنَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِيْنَ’* (بے شک، اللہ توبہ کرنے والوں اور پاکیزگی اختیار کرنے والوں کو پسند کرتا ہے) کے الفاظ میں بیان فرمایا ہے۔ آیت کے اِس حصے کی وضاحت استاذ امام امین احسن اصلاحی نے اِس طرح کی ہے:
”توبہ اور تطہر کی حقیقت پر غور کیجیے تو معلوم ہو گا کہ توبہ اپنے باطن کو گناہوں سے پاک کرنے کا نام ہے اور تطہر اپنے ظاہر کو نجاستوں اور گندگیوں سے پاک کرنا ہے۔ اِس اعتبار سے دونوں کی حقیقت ایک ہوئی اور مومن کی دونوں خصلتیں اللہ تعالیٰ کو بہت محبوب ہیں۔ اِس کے برعکس جو لوگ اِن سے محروم ہیں، وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک مبغوض ہیں۔ یہاں جس سباق میں یہ بات آئی ہے، اُس سے یہ تعلیم ملتی ہے کہ جو لوگ عورت کی ناپاکی کے زمانے
میں قربت سے اجتناب نہیں کرتے یا قضاے شہوت کے معاملے میں فطرت کے حدود سے تجاوز کرتے ہیں، وہ اللہ کے نزدیک نہایت مبغوض ہیں۔” (تدبرقرآن١/٥٢٦)