عالمی ادارۂ صحت کا کہنا ہے کہ صحت کے شعبہ میں دو ہزار تیس تک ڈپریشن یا افسردگی عالمی سطح پر سب سے زیادہ معاشی بوجھ کا سبب ہوسکتی ہے۔ تاہم جسمانی عوارض، مثلاً ایڈز، یا دل کے امراض کے مقابلے میں افسردگی اور دوسرے ذہنی امراض کے بارے میں اب بھی نہ تو زیادہ بات کی جاتی ہے اور نہ ہی ان کے علاج کے لیے زیادہ رقوم دستیاب ہیں۔
جو لوگ طویل عرصے تک افسردگی یا اداسی کا شکار رہے ہیں، وہ اس کیفیت کو تباہ کن قرار دیتے ہیں کیونکہ اس میں معمولات زندگی انجام دینا ناممکن ہوجاتا ہے۔ اس کیفیت کو ڈپریشن، شدید مایوسی، انتہائی اداسی یا غمگینی کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔
افسردگی کا شکار رہنے والے ایک شخص نے ذہنی امراض سے متعلق بی بی سی ٹیلی ویژن کے ایک پروگرام میں بتایا کہ ’جب مجھ پر اداسی کا شدید دورہ پڑتا تو میں بالکل بستر سے لگ کر رہ جاتا اور کئی گھنٹے اسی حالت میں گزر جاتے۔ افسردگی بہت بری طرح سے متاثر کرتی ہے اور بعض اوقات یہ کیفیت کئی مہینوں تک جاری رہتی ہے۔
پروگرام میں شریک ایک عورت کا کہنا تھا: ’آپ کا جسم سستی کا شکار ہوجاتا ہے، آپ کا ذہن سست ہوجاتا ہے، آپ کا رویہ منفی ہوجاتا ہے۔ آپ کا دل کچھ کرنے کو نہیں کرتا، اور آپ کچھ کر بھی نہیں پاتے۔ بلا کی اداسی چھا جاتی ہے اور ہر کام ایک کوہ گراں بن جاتا ہے۔‘
تاہم ایک بات قابل غور ہے کہ شدید افسردگی اور عام افسردگی میں بڑا فرق ہے، مثلاً کبھی کبھار ہم سب ہی بوجھل اور غمگین محسوس کرتے ہیں۔ پروفیسر مارٹِن پرنس لندن کے کنگز کالج میں ذہنی امراض کے ماہر ہیں۔ وہ کہتے ہیں: ’یہ علامتیں بہت شدید ہوتی ہیں اور آپ ان کا عادی ہونے لگتے ہیں ۔۔۔ گویا سارا دن اسی کیفیت میں گزار دیتے ہیں، ہر روز یہ کیفیت طاری رہتی ہے اور پھر یہ کئی ہفتوں اور بعض اوقات کئی مہینوں پر محیط ہوجاتی ہے۔ بعض لوگوں کو تو یہ بالکل ناکارہ کر دیتی ہے اور انہیں ہسپتال میں داخل کرنا پڑتا ہے جہاں انہیں انتہائی نگہداشت کی ضرورت ہوتی ہے۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ان علامتوں کی شدت کے مختلف درجات ہیں: یعنی عارضی علامتوں سے لے کر مستقل شدید بیماری تک۔‘
افسردگی ایک ایسی بیماری ہے جو کسی بھی شخص کو عملی طور پر معذور بنا دیتی ہے اور کبھی کبھار تو ایسا شخص معاشرتی طور پر بالکل ناکارہ بن جاتا ہے۔ یہ مریض کو معاشی اور معاشرتی طور پر اپنا کردار ادا کرنے سے روک دیتی ہے۔ مثلاً افسردگی کا دورہ پڑنے پر اگر کوئی اپنا پیشہ ورانہ کام ٹھیک طور پر نہ کرسکے تو بالآخر اس کی نوکری جانے کا خدشہ پیدا ہوجائے گا
دماغی امراض سے متعلق ایک ادارے، سین SANE کی سربراہ مارجری والیس کاکہنا ہے: ’افسردگی کے شکار شخص کی طبیعت گرتی چلے جائے گی، صبح اٹھنا دوبھر ہوجائے گا اور ممکن ہے کہ ملازمت پر جاکر وہ کام کا دباؤ بھی نہ سہہ سکے۔ اس کے بعد ایک چکر سا شروع ہوجائے گا، مریض کی حالت ابتر ہوتی چلی جائے گا وہ اپنا خیال نہیں رکھ سکے گا۔ اس مریض کی کیفیت اُس شخص سے مختلف ہے کہ جو چند روز بیمار رہنے کے بعد ٹھیک ہوجائے اور اپنا کام کرنے لگے۔ ایسے مریض کی حالت تو بد سے بدتر ہوتی جاتی ہے، یہاں تک کہ وہ کنگال ہو جاتا ہے، اس کا مستقبل تاریک ہوجاتا ہے اور پھر وہ معاشرے کے لیے بوجھ بن جاتا ہے۔‘
مگر جسمانی بیماریوں کے مقابلے میں افسردگی یا دیگر ذہنی حالتوں کو زیادہ اہمیت نہیں دی جاتی۔ مثلاً ترقی افتہ ملکوں میں ایک چوتھائی امراض ذہنی ہوتے ہیں۔ مگر صحت کے بجٹ کا صرف آٹھ یا نو فی صد ذہنی امراض کے علاج پر خرچ ہوتا ہے۔ جبکہ ترقی پذیر ملکوں میں صورتحال کہیں زیادہ خراب ہے۔ لنکاسٹر یونیورسٹی کے کیری کُوپر کا کہنا ہے کہ غریب ملکوں میں تو یہ مسئلہ ہنگامی بنیادوں پر توجہ چاہتا ہے۔