انسان کے دانتوںکی ساخت گوشت خورجانوروںجیسی نہیں بلکہ گھاس پھوس اور سبزیوں جیسی ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ سبزیاںکھانے والے لوگ بہت کم بیماری کا شکار ہوتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سبزیاں انسان کے امیون سسٹم یعنی نظام دماغ کو مضبوط کرتی ہیں۔ اس کے مقابلے میں گوشت خور قومیں بیماریوں کا زیادہ شکار نظر آتی ہیں۔ ان میں بلڈپریشرکا مرض عام ہے جسے خاموش قاتل کا نام بھی دیا جاتا ہے۔
سبزیاں ٹھنڈی تاثیر کے باعث انسانی خون کو موزوں رکھتی ہیں یہی وجہ ہے کہ جو لوگ سبزیوںکازیادہ استعمال کرتے ہیں وہ بلڈپریشرکا شکار نہیں ہوتے۔ ہمارے پیارے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی سبزیوں کو پسند فرماتے تھے۔ سبزیوں میں سے کدو آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مرغوب غذا تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسے بڑے شوق سے کھایا کرتے تھے۔
جدید تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ کدو میں خداتعالٰی نے شفا رکھی ہے اس کی تاثیر سرد ہوتی ہے۔ یہ جسم کو تقویت دیتا ہے اور بھرپورغذائیت کاحامل ہے۔ چنانچہ حضرت یونس علیہ السلام مچھلی کے پیٹ سے باہرآئے توسخت کمزور ہوچکے تھے ساحل پر کدو کی ایک بیل تھی جس پر کدو لگے ہوئے تھے حضرت یونس علیہ السلام وہ کدو استعمال کرتے تھے جس نے ان کے جسم کو تقویت دی اور آپ صحت مند ہو گئے۔
کدو ایک ایسی سبزی ہے جسے گوشت کے ساتھ پکا کر کھانا بھی مفید ثابت ہوتا ہے۔ طبی نقطہ نگاہ سے یہ صفرادی اوردموی مزاج لوگوں کے لیے بہترین غذا ہے۔ یہ خلط صالح پیدا کرتا ہے ملین طبع ہے اور اس کے استعمال سے کھل کر پیشاب آتا ہے جس سے جسم کے اندرموجود زہریلے مادے خارج ہو جاتے ہیں۔ یہ انتڑیوں کو مرطوب کرتا ہے’ تپ دق کے لیے اس سے بہتر کوئی غذا نہیں’ اس کے استعمال سے جسم کے اندر ایسی قوت مدافعت پیدا ہوتی ہے جس سے انسان مرض سل سے محفوظ رہتا ہے۔
مری میں موجود ساملی سینی ٹوریم کی ایک تحقیق کے مطابق جو لوگ کدوکا کثرت سے استعمال کرتے ہیں تپ دق اور سل سے محفوظ ومصون رہتے ہیں۔ مرض سرسام اور جنون میں اس کا گودا تالو پر رکھنے سے آرام آ جاتا ہے۔ روغن کدو دماغ کی خشکی کو دور کرتا ہے اور نیند آور ہے اس کے بیجوں کا شیرہ بھی تاثیر کا حامل ہے۔ اس کا روغن بھی نکالا جاتا ہے جسے روغن کدو کا نام دیا جاتا ہے۔ یہ دماغ کی خشکی کو دور کرتا ہے۔ صرف ایک سبزی کدو کے اندر بہت زیادہ شفا پائی جاتی ہے۔ کدو کا روغن صفراوی بخاروں اور جریان خون میں بھی مفید ہے۔
سل اور تپ دق میں بھی بھبھلائے ہوئے کدو کا پانی نچوڑ کر پلانے سے فائدہ ہوتا ہے اس کا رائتہ بے حد مفید اور لذیذ بھی ہوتا ہے۔ کدواسہال میں بھی بے حد مفید ہے یہ صرف ایک سبزی کدو کی افادیت بتائی گئی ہے۔
کوئی سبزی جتنی زیادی گہری سبزی مائل ہو گی اتنی ہی زیادہ مفید ہو گی۔ پالک اور ساگ میں سبز مادہ بہت زیادہ ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ پالک خون کی اصلاح کرتی ہے اور ساگ کا استعمال معدے کو نرم کرتا ہے اورغذائیت سے بھر پور ہے یہ خون صالح بھی پیدا کرتا ہے۔
ہمارے ہاں سبزیوںکی بہتات ہے یہ عام آدمی کی پہنچ سے باہر نہیں بلکہ ہر امیرغریب خرید کر انہیں استعمال کر سکتا ہے۔ جنگلوں میں رہنے والے لوگ سبزی پر ہی انحصار کرتے ہے یہی وجہ ہے کہ وہ کبھی بیمار نہیں پڑتے’ انہیں ڈاکٹروں کی ضرورت نہیں محسوس ہوتی۔ گوشت اس قدر مہنگا ہے کہ ہر شخص کے بس میں نہیں کہ اسے خریدکرکھا سکے مگر موسم کے مطابق سبزیاں کوڑیوں کے مول بکتی ہیں مگر چونکہ کہ لوگ ان کی افادیت سے آگاہ نہیں ہوتے لہذا ان کے مقابل گوشت کو ترجیح دیتے ہیں جو ان کو طرح طرح کی بیماریوں میں مبتلا کرتا ہے کیونکہ گوشت ایسی چیز نہیں جسے ہر روز کی غذا کا حصہ بنایا جائے۔
رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں بھی گوشت بعض تقریبات کے مواقع پر ہواکرتے تھے ان میں عید قرباں’ بچوں کا عقیقہ ولیمہ ایسے مواقع ہوا کرتے تھے جن پر گوشت کھایا جاتا تھا۔ عید قربان پر کثرت سے قربانی کے جانور ذبح کئے جاتے مگر یہ موقع تو سال میں صرف ایک مرتبہ آیا کرتا تھا۔ جس طرح آج ہمارے معاشرے میں کثرت کے ساتھ اور روزانہ گوشت کا استعمال کیا جاتا ہے کسی زمانے میں ایسا نہ تھا۔
عربوں کی خوراک زیادہ ترکھجوریں’ بکری یا اونٹی کا دودھ اور سبزیوں پر مشتمل ہوا کرتی تھی یہی وجہ تھی کہ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین بہت کم بیمار پڑا کرتے اور کسی طبیب کی ضرورت نہیں ہوا کرتی تھی۔ آج کے ترقی یافتہ دور میں کئی قسم کی بیماریاں بھی منظر عام پر آرہی ہیں ہسپتالوں میں جائیں تو مختلف النوع بیماریوں کے شکار نظر آئیں گے۔ اس کا سبب بھی یہی ہے کہ ہم گوشت پر زیادہ انحصار کرتے ہیں مگر زندگی بخش سبزیوں کو استعمال کرنا توہین سمجھتے ہیں اور انہیں پسند نہیں کرتے۔ دیہات میں رہنے والے لوگ سبزیاں کثرت سے استعمال کرتے ہیں یہی وجہ کہ وہ بہت کم بیمار ہو تے ہیں۔
مجھے اچھی طرح یاد ہے ہمارے گاؤں میں مہینے میں صرف ایک مرتبہ قصائی گائے ذبح کیا کرتا تھا۔ گوشت کی بکنگ پہلے سے ہو جاتی تھی۔ جب گاہک پورے ہوجاتے تو اچھی قسم کی گائے ذبح کرتا اور لوگ گوشت خرید کر لے جاتے باقی سارا مہینہ سبزیوں اور دالوں پر ہی انحصار کیا جاتاتھا’ لوگ توانا وتندرست رہتے تھے اور خوب محنت ومشقت کے ساتھ کھیتوں میں سبزیوں اور فصلیں کاشت کیا کرتے تھے۔
ہمارے گاؤں والے ایک گھر میں ایک گھیا توری کی بیل لگی ہوئی تھی اس قدرگھیا توری لگتی کہ ٹوکریوں کے حساب سے اسے اکٹھا کیا جاتا اور گاؤں کے لوگ مفت لے جایا کرتے تھے اوراس کا سالن استعمال کرتے۔ مقصد کہنے کا یہ ہے کہ جس مقدار میں اور جس تسلسل کے ساتھ ہم آج گوشت کا استعمال کر رہے ہیں اس کا رواج کسی بھی زمانے میں نہیں رہا۔ اب تو لوگ مختلف النوع بیماریوں کا شکار ہیں اور اپنی آمدنی کا معتدبہ حصہ ڈاکٹروں کی نذر کر دیتے ہیں۔
ہم میں سے ہرشخص اچھی طرح جانتا ہے کہ گوشت کا بے تحاشا استعمال غیر مفید ہے اس کے باوجود ہم گوشت کھاتے چلے جاتے ہیں اور سبزیوں اوردالوں کو ثانوی حیثیت دینے پر بھی تیار نہیں ہوتے اور ہمیں ان کا ذائقہ بھی نہیں آتا۔ جب بڑے سبزیاں کھانے سے گریز کریں تو بچے کب اسے پسند کریں گے بچے بھی ہر روز گوشت والا سالن کھانے پر اصرار کرتے ہیں۔ بعض لوگوں کا یہ کہنا ہے کہ سبزیوں میں وہ قوت اور غذائیت نہیں ہوتی جو گوشت کے اندر موجود ہے۔ ان کا مفروضہ غلط ہے کیونکہ ہماری گائیں بھینسیں سبزیاں ہی کھاتی ہیں پھر ان پر منوں کے حساب سے گوشت کیسے چڑھتا ہے اور دودھ کے اندر چکنائی کس طرح وافر مقدار میں پیدا ہوجاتی ہے جسے ہم استعمال کرتے ہیں۔ معلوم ہوا کہ سبزیوں کے اندر بھی گوشت کے سارے اجزاء موجود ہوتے ہیں۔
دریائی گھوڑا جو بھاری بھرکم جانور ہے اور پانی سے نکل کر باہربھی زندہ رہ سکتا ہے اس کی خوراک کا مکمل انحصار صرف گھاس پر ہے وہ پانی سے باہر نکل کر خوب گھاس کھاتا ہے اور پھر پانی کے اندر چلا جاتا ہے۔ خدا تعالٰی نے ہمارے ملکوں کو طرح طرح کی سبزیوںسے نواز رکھا ہے سبزیاں وافر مقدارمیں ہمیں دستیاب بھی ہیں ان میں سے ہر سبزی کی اپنی افادیت ہے مگر اس مختصر مضمون میں ان سب کی افادیت بیان کرنا ممکن نہیں۔
کدو کی افادیت بیان کی جاچکی ہے۔ اس کے علاوہ بھنڈی توری’ گھیا توری’ٹینڈے’ مٹر’ ٹماٹر’آلو وغیرہ ہمارے ہاں عام مل جاتے ہیں ان میں سے چند ایک کی افادیت بیان کی جاتی ہے۔
آلو ایک ایسی سبزی ہے جو پوری دنیا میںکثرت سے کھائی جاتی ہے اس کو مختلف طریقوں سے استعمال کیا جاتا ہے کبھی اس کا سالن بنایا جاتا ہے کبھی اس کے چپس تیار کیے جاتے ہیں کبھی اس کے فرنچ فرائز تیار کیے جاتے ہیں۔ یہ سبزی بے پناہ قوت کی حامل ہے۔ اس کے اندر غذائیت کے خزانے ہیں۔ یورپ’ امریکہ’ ایشیا’ افریقہ’ آسٹریلیا میں آلو کثرت سے کھایاجاتا ہے۔ ہمارے ہاں یہ سستا مل جاتا ہے مگر اسے بطور سبزی استعمال کرنا ہم اپنی توہین سمجھتے ہیں۔
ساگ اور پالک جوکلوروفل کا خزانہ ہیں اس کا ذکر کیا جاچکا ہے مگر اسے بھی بہت کم لوگ استعمال کرتے ہیں اور سارا زور گوشت پر لگاتے ییں جو اس قدر مہنگا ہے کہ عام شخص اسے خرید کر نہیں کھا سکتا۔
کریلاجو ایک بے حد مفید سبزی ہے ہمارے ہاں عام ملتا ہے یہ بے پناہ افادیت کی حامل سبزی ہے۔ یہ سبزی ملین طبع اور مقوی معدہ ہے اس کا استعمال پیٹ کے کیڑوں کو ہلاک کرتا ہے اسے چنے کی دال اور گوشت کے ہمراہ بھی پکاکر کھایا جاتا ہے۔ یہ صفرا اوربلغم کو دور کرنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتا۔ سرد مزاج لوگوں کے معدوں کوتقویت بخشتا ہے پیٹ کے کیڑوںکو ہلاک کرتا ہے۔
فالج’ لقوہ’ جوڑوں کے درد’ نقرس’ ذیابیطس’ رعشہ’ یرقان’ تلی کے ورم میں بے حد مفید ثابت ہوا ہے۔ کریلے کا پانی اور اس کا سفوف بنا کر استعمال کرنا بھی بہت سی بیماروں کا علاج ہے’ پتے کی پتھری کو دور کرنے کے لیے کریلے کا پانی دو دو تولہ صبح وشام روغن زیتون اور دودھ میں ملا کر پینے سے پتھری ٹوٹ کر خارج ہو جاتی ہے۔ افریقہ میں اس کے پکے ہوئے بیج روغن بادام شیریں میں گھوٹ کرزخموں پر لگاتے ہیں۔
مٹر اپنے موسم میں ہمارے ہاں وافر اور سستے مل جاتے ہیں اس کے اندر لحمیات کا ایک وافر ذخیرہ موجود ہوتا ہے۔ آلو کے ہمراہ مٹر کا سالن بے حد لذیذ اور قوت بخش ہوتا ہے۔ یہ گوشت کی کمی کو پورا کرتا ہے اور جسم کو طاقت دیتا ہے۔ اس کے علاوہ جتنی بھی دالیں ہیں یہ بھی سبزیوں سے ہی حاصل ہوتی ہیں یعنی ان کا اصل بھی سبزی ہے اور یہ سبزی کی ایک خشک شکل ہے۔
دالوں کی اہمیت سے کون نہیں واقف تاہم ان کا ذکر کسی اگلی نشست میں کیا جائے گا۔ بھنڈی آج کل عام اور سستی ہے یہ سبزی بڑی لذیذ ہوتی ہے یہ جسم کو ٹھنڈک اور فرخت بخشتی ہے اور بدن کی اصلاح کرتی ہے۔ سبزیاں کھانے والے لوگوں کے دانت مضبوط رہتے ہیں انہیں کیڑا نہیں لگتا اور صاف وشفاف رہتے ہیں کیونکہ ان کے اندر موجود سبز مادہ کلوروفل دانتوں کی حفاظت اور صفائی کا کام بھی انجام دیتا ہے اس کے مقابلے میں گوشت کھانے والے اصحاب کے دانت جلد خراب ہو جاتے ہیں۔