بچوں کے لئے طبی مشورے
١۔ہربچے کیلئے ماں کا دودھ سب سے بڑی نعمت ہے، جس طرح ماں کا دنیا میں کوئی بدیل نہیں اسی طرح ماں کے دودھ کا بھی کوئی ثانی نہیں، ماں کا دودھ خاص طور پر پیدائش کے دوسرے دن سے لیکر چوتھے دن تک انتہائی قیمتی اور بچے کے کمزور جسم کیلئے معدنیات اور وٹامنز سے بھر پور ٹانک کا درجہ رکھتا ہے۔
٢۔تین ماہ تک بچے کو بلا وجہ اٹھانا ،گھمانا پھرانا بہتر نہیں کیوںکہ اس کا جسم کمزور ہوتا ہے، بچہ کوماں کے قریب رکھنا چاہیے تاکہ ماں کے جسم کی گر می اسے ملتی رہے۔
٣۔چار ماہ کے بچے کو دودھ کے ساتھ ساتھ دیگر غذائیں بھی دی جائیں جیسے بارلی ، گیہوں کا دلیہ،نرم گوشت وغیرہ۔
٤۔جب بچے چار ماہ کے ہوجاتےہیں تو وہ بولنے کی کو شش کرتے ہیں خواہ کسی کو سمجھ میں آئے یا نہ آئے اس وقت اس کی زبان پر شہد لگا نا چاہیے، ان شاء اللہ وہ جلد بولنے لگیں گے اور زبان بھی صاف ہوجائے گی۔
٥۔جب بچے کا دانت نکل رہا ہو تو ان کے مسوڑوں پر مکھن یا دیسی گھی لگانا چاہیے ، عام طور پر بچے کا دانت ساتویں مہینہ سے لیکر دسویں مہینہ کے درمیان نکلتا ہے ان دنوں انتہائی کوشش کریں کہ بچے کوئی سخت چیز منہ میں نہ ڈالیں، نرم غذا دی جائے زیادہ پیٹ بھرا نہ رہے ۔
٦۔بچے اگر بھوک کی وجہ سے روئے تو ماں باپ کو پریشان نہیں ہونا چاہیے کیوں کہ رونا صحت کیلئے مفید ہے، رونے سے بچے کے پٹھے مضبوط ہوںگے اور انتڑ یاں کھلیں گی سینہ چوڑا ہوگا دماغ کو گرمی پہونچے گی بھوک بڑھے گی۔
٧۔بچے کوڈرا دینے والی اور گبھراہٹ پیدا کرنے والی سخت اور خوفناک آوازسے بچایا جائے جیسے کتوں کے بھوکنے کی آواز بلیوں کے لڑنے کی آواز وغیرہ،اسی طرح خوفناک اور ڈراؤنی مناظر سے بھی دور رکھا جائے ، ایسے کیڑے مکوڑے جنہیں دیکھ کر بڑے لوگوں کے بھی رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں بچوں کو نہ دکھایا جائے کیوں کہ بچہ کا دماغ نازک اور کمزور ہوتا ہے خدا نخواستہ کبھی اگر ایسا ہوجائے تو ماں کو چاہیے کہ بچے کو فورا گود میں اٹھا لے ،دودھ پلائے او ر ہنسانے کی کوشش کرے تاکہ بچے کے ذہن و دماغ سے ڈر ختم ہو جائے اور پھر اس کو سلادے۔
٨۔بچہ کو ننگا نہیں رکھنا چاہیے لنگوٹ وغیرہ ضرور پہنادیں ،جب بچے کے اعضاء میں قوت پیدا ہو جائے یعنی اس کا بدن مضبوط ہو جائے تو اسے زمیں پر بیٹھایا جائے اور دھیرے دھیرے اسے کھڑے ہونے اور چلنے کی مشق کرائی جائے، ان شاء اللہ وہ کچھ دنوں کے بعد خود چلنے لگیں گے۔
٩۔وقت سے پہلے بچے کو چلنے پر مجبور نہ کریں کیوں کہ ایسا کرنے سے بوجھ کی وجہ سے بچے کی ٹانگیں ٹیڑھی بھی ہوسکتی ہیں۔
١٠۔اگر ممکن ہو تو مکمل دو سال تک ماں اپنے بچے کو دودھ پلائے، اگر کوئی مجبوری ہے تو دو سال سے پہلے بھی چھڑایا جا سکتا ہے۔
١١۔ماں کو بچے سے دودھ چھڑاتے وقت مندرجہ ذیل باتوں کا خیال رکھنا چاہیے:
٭دودھ سردیوں یا موسم ربیع میں چھڑایا جائے۔
٭بچے جب بیمار ہوں یا بہت کمزور ہو ں تب دودھ نہ چھڑائیں۔
٭دودھ آہستہ آہستہ چھڑایا جائے اور آہستہ آہستہ بچے کو دوسری غذا کھانے کا عادی بنایا جائے، اچانک دودھ چھڑانے سے بچے کے صحت پر اثر پڑتا ہے ۔
٭دودھ چھڑاتے وقت دہی ،لسی یا دودھ میں پکا ہوا جو کا دلیہ وغیرہ بچے کیلئے مناسب ہوتا ہے۔
٭بچے کو ہمیشہ تازہ کھانا دینا چاہیے باسی کھانا ہر گز نہ دیں،کچھ مائیں لا پرواہ ہوتی ہیں وہ باسی بارلی یا باسی دودھ گرم کرکے پلادیتی ہیں اس سے بچے کی طبیعت خراب ہوجاتی ہے۔
٭بچے کو ایک وقت میں ایک ہی کھانا کھلانا چاہیے یہ معدہ کیلئے زیادہ مفید ومناسب ہوتا ہے ایک ہی وقت چار پانچ قسم کے کھانے کھلانے سے ہضم کرنے میں بچے کو دشواری ہوتی ہے۔
٭مقررہ وقت میں بچےٍ کو کھانا کھلائیں تاکہ وہ کسی نظام کا پابند ہو، ایسا ہرگز نہ کریں کہ جب آپکو فرصت ملی بچے کو کھلا پلا دیا۔
٭بچے کا کھانا کپڑا ،اس کا برتن بہت صاف و ستھرا ہونا چاہیے اگر گندہ ہوگا تو بچے کے بیمار ہونے کا امکان ہے ۔
١٢۔بچے پر دباؤ ڈال کر ضرورت سے زیادہ کھانے پر مجبور نہ کریں کیوںکہ نہ صرف بچوں بلکہ ہرانسان کیلئے وہی کھانا نفع بخش ہوتا ہے جو مزاج کے موافق ہو اور چاہت کے ساتھ کھایا جائے۔
١٣۔بچے کو کھانا کھلانے کے بعد فورا زیادہ ٹھنڈا پانی نہیں پلانا چاہیے کیوںکہ اس سے کھانا ہضم کرنا مشکل ہو جاتا ہے اور بہت سی بیماریاں پید ہوتی ہیں۔
١۔ہربچے کیلئے ماں کا دودھ سب سے بڑی نعمت ہے، جس طرح ماں کا دنیا میں کوئی بدیل نہیں اسی طرح ماں کے دودھ کا بھی کوئی ثانی نہیں، ماں کا دودھ خاص طور پر پیدائش کے دوسرے دن سے لیکر چوتھے دن تک انتہائی قیمتی اور بچے کے کمزور جسم کیلئے معدنیات اور وٹامنز سے بھر پور ٹانک کا درجہ رکھتا ہے۔
٢۔تین ماہ تک بچے کو بلا وجہ اٹھانا ،گھمانا پھرانا بہتر نہیں کیوںکہ اس کا جسم کمزور ہوتا ہے، بچہ کوماں کے قریب رکھنا چاہیے تاکہ ماں کے جسم کی گر می اسے ملتی رہے۔
٣۔چار ماہ کے بچے کو دودھ کے ساتھ ساتھ دیگر غذائیں بھی دی جائیں جیسے بارلی ، گیہوں کا دلیہ،نرم گوشت وغیرہ۔
٤۔جب بچے چار ماہ کے ہوجاتےہیں تو وہ بولنے کی کو شش کرتے ہیں خواہ کسی کو سمجھ میں آئے یا نہ آئے اس وقت اس کی زبان پر شہد لگا نا چاہیے، ان شاء اللہ وہ جلد بولنے لگیں گے اور زبان بھی صاف ہوجائے گی۔
٥۔جب بچے کا دانت نکل رہا ہو تو ان کے مسوڑوں پر مکھن یا دیسی گھی لگانا چاہیے ، عام طور پر بچے کا دانت ساتویں مہینہ سے لیکر دسویں مہینہ کے درمیان نکلتا ہے ان دنوں انتہائی کوشش کریں کہ بچے کوئی سخت چیز منہ میں نہ ڈالیں، نرم غذا دی جائے زیادہ پیٹ بھرا نہ رہے ۔
٦۔بچے اگر بھوک کی وجہ سے روئے تو ماں باپ کو پریشان نہیں ہونا چاہیے کیوں کہ رونا صحت کیلئے مفید ہے، رونے سے بچے کے پٹھے مضبوط ہوںگے اور انتڑ یاں کھلیں گی سینہ چوڑا ہوگا دماغ کو گرمی پہونچے گی بھوک بڑھے گی۔
٧۔بچے کوڈرا دینے والی اور گبھراہٹ پیدا کرنے والی سخت اور خوفناک آوازسے بچایا جائے جیسے کتوں کے بھوکنے کی آواز بلیوں کے لڑنے کی آواز وغیرہ،اسی طرح خوفناک اور ڈراؤنی مناظر سے بھی دور رکھا جائے ، ایسے کیڑے مکوڑے جنہیں دیکھ کر بڑے لوگوں کے بھی رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں بچوں کو نہ دکھایا جائے کیوں کہ بچہ کا دماغ نازک اور کمزور ہوتا ہے خدا نخواستہ کبھی اگر ایسا ہوجائے تو ماں کو چاہیے کہ بچے کو فورا گود میں اٹھا لے ،دودھ پلائے او ر ہنسانے کی کوشش کرے تاکہ بچے کے ذہن و دماغ سے ڈر ختم ہو جائے اور پھر اس کو سلادے۔
٨۔بچہ کو ننگا نہیں رکھنا چاہیے لنگوٹ وغیرہ ضرور پہنادیں ،جب بچے کے اعضاء میں قوت پیدا ہو جائے یعنی اس کا بدن مضبوط ہو جائے تو اسے زمیں پر بیٹھایا جائے اور دھیرے دھیرے اسے کھڑے ہونے اور چلنے کی مشق کرائی جائے، ان شاء اللہ وہ کچھ دنوں کے بعد خود چلنے لگیں گے۔
٩۔وقت سے پہلے بچے کو چلنے پر مجبور نہ کریں کیوں کہ ایسا کرنے سے بوجھ کی وجہ سے بچے کی ٹانگیں ٹیڑھی بھی ہوسکتی ہیں۔
١٠۔اگر ممکن ہو تو مکمل دو سال تک ماں اپنے بچے کو دودھ پلائے، اگر کوئی مجبوری ہے تو دو سال سے پہلے بھی چھڑایا جا سکتا ہے۔
١١۔ماں کو بچے سے دودھ چھڑاتے وقت مندرجہ ذیل باتوں کا خیال رکھنا چاہیے:
٭دودھ سردیوں یا موسم ربیع میں چھڑایا جائے۔
٭بچے جب بیمار ہوں یا بہت کمزور ہو ں تب دودھ نہ چھڑائیں۔
٭دودھ آہستہ آہستہ چھڑایا جائے اور آہستہ آہستہ بچے کو دوسری غذا کھانے کا عادی بنایا جائے، اچانک دودھ چھڑانے سے بچے کے صحت پر اثر پڑتا ہے ۔
٭دودھ چھڑاتے وقت دہی ،لسی یا دودھ میں پکا ہوا جو کا دلیہ وغیرہ بچے کیلئے مناسب ہوتا ہے۔
٭بچے کو ہمیشہ تازہ کھانا دینا چاہیے باسی کھانا ہر گز نہ دیں،کچھ مائیں لا پرواہ ہوتی ہیں وہ باسی بارلی یا باسی دودھ گرم کرکے پلادیتی ہیں اس سے بچے کی طبیعت خراب ہوجاتی ہے۔
٭بچے کو ایک وقت میں ایک ہی کھانا کھلانا چاہیے یہ معدہ کیلئے زیادہ مفید ومناسب ہوتا ہے ایک ہی وقت چار پانچ قسم کے کھانے کھلانے سے ہضم کرنے میں بچے کو دشواری ہوتی ہے۔
٭مقررہ وقت میں بچےٍ کو کھانا کھلائیں تاکہ وہ کسی نظام کا پابند ہو، ایسا ہرگز نہ کریں کہ جب آپکو فرصت ملی بچے کو کھلا پلا دیا۔
٭بچے کا کھانا کپڑا ،اس کا برتن بہت صاف و ستھرا ہونا چاہیے اگر گندہ ہوگا تو بچے کے بیمار ہونے کا امکان ہے ۔
١٢۔بچے پر دباؤ ڈال کر ضرورت سے زیادہ کھانے پر مجبور نہ کریں کیوںکہ نہ صرف بچوں بلکہ ہرانسان کیلئے وہی کھانا نفع بخش ہوتا ہے جو مزاج کے موافق ہو اور چاہت کے ساتھ کھایا جائے۔
١٣۔بچے کو کھانا کھلانے کے بعد فورا زیادہ ٹھنڈا پانی نہیں پلانا چاہیے کیوںکہ اس سے کھانا ہضم کرنا مشکل ہو جاتا ہے اور بہت سی بیماریاں پید ہوتی ہیں۔