اس وقت ملک میں 15 لاکھ سے زائد افراد منہ کے کینسر میں مبتلا ہیں اور ان کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ ان خیالات کا اظہار پی ایم اے کی میڈیکل کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کان، ناک، حلق کے ماہر ڈاکٹر پروفیسر عمر فاروق نے کیا۔ انہوں نے کہا کہ پورے پاکستان میں موجود اس موذی مرض میں مبتلا افراد کا تقریباً 55 فیصد کا تعلق کراچی سے ہے۔ انہوں نے کہا کہ یورپ میں منہ کے
سرطان کی شرح تناسب 2 سے 4 فیصد جبکہ برصغیر میں منہ کے سرطان کی شرح تناسب40 فیصد ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس کی وجہ برصغیر کے لوگوں میں چھالیہ کے استعمال کی عادت ہے۔
چھالیہ میں پھپھوند ہوتی ہے جس سے زہریلے مادے کا اخراج ہوتا ہے اور جو سرطان کا سبب بنتا ہے۔ پروفیسر طارق نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ گٹکے، مین پوری میں مصنوعی کیمیائی رنگوں اور مٹھاس کی وجہ سے پھپھوند نظر نہیں آتی لیکن وہ موجود ہوتی ہے۔ پروفیسر احمد عثمان نے اپنے خطاب میں کہا کہ سرطان کا علاج Biopsy ایک خصوصی ٹیسٹ کے ذریعے ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ آج سے قبل 50 سال سے زائد عمر کے افراد منہ کے کینسر کے مرض میں مبتلا ہوتے تھے لیکن مین پوری، گٹکے کے استعمال سے 12 سال کے کمسن بچے بھی اس موذی مرض کا شکار ہو رہے ہیں۔ تقریب سے ڈاکٹر ثمرینہ ہاشمی نے بھی خطاب کیا جبکہ شرکاء میں پروفیسر ٹیپو سلطان، ڈاکٹر قیصر سجاد، ڈاکٹر شیرشاہ سید اور دیگر شامل تھے۔
چھالیہ میں موجود پھپھوند سرطان کا سبب
چھالیہ میں موجود پھپھوند سرطان کا سبب