نوجوانوں کے جنسی روگ کیوں بڑھے
لڑکے لڑکیوں اور والدین کیلئے
نوجوانوں کے جنسی مسائل روز افزوں ہیں۔ بات در اصل یہ ہے کہ آج کل کے نوجوان جس مسئلے سے دو چار ہیں وہ یہ ہے کہ ہمارے نوجوان نفسیاتی اعتبار سے جس عمر میں جنسی صلاحیتوں کو روبہ کار لانے کے اہل ہو جاتے ہیں وہ صلاحیتیں اس عمر سے خاصی مختلف ہوتی ہیں جو ثقافتی اعتبار سے انہیں اس کی اجازت دیتی ہیں۔ جس عمر میں ان سے ان افعال کی توقع کی جاتی ہے۔
دوسری جانب یہ بھی امر واقعہ ہے کہ جسمانی اعتبار سے آج کل نوجوان سنِ بلوغ کو جلد پہنچ رہے ہیں۔ مثلاً صنعتی ملکوں کی لڑکیاں عموماً تیرھویں سال میں بالغ ہو جاتی ہیں‘ جبکہ ان کی مائیں 14 سال میں اور نانیاں اور دادیاں 15 سال میں بالغ ہوتی تھیں۔ یہی کچھ حال ترقی پذیر ملکوں کا ہے کیونکہ یہاں بھی بہتر اقتصادی حالات انہیں جلد بالغ کر دیتے ہیں۔
اسی کے ساتھ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ دنیا کے اکثر حصوں میں عورتیں زیادہ عرصہ تعلیم پر صرف کرنے کے بعد بڑی عمر میں رشتہ ازدواج میں بندھتی ہیں۔ اس سے انکار نہیں کہ آج بھی بعض ترقی پذیر
ملکوں میں 14 اور 15 سالہ دلہنیں بہت عام ہیں۔
نیپال کی دو تہائی لڑکیاں اسی عمر میں بیاہی جاتی ہیں۔ تاہم عام طور پر تعلیم اور ملازمت کی وجہ سے عورتوں کی شادی دیر سے ہونے لگی ہے۔ بہ الفاظ دیگر ان مجبوریوں کی وجہ سے لوگوں کو اپنی شادیاں کم از کم تین سال تک برف خانے میں رکھنی پڑتی ہیں۔ یہ صورتحال خاص طور پر ان معاشروں میں زیادہ عام ہے‘ جہاں تعلیم کو بہت زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔
ان تمام اسباب اور وجوہ کے باوجود نوجوانی کے جنسی تقاضے آسانی سے قابو میں نہیں آتے۔ صنعتی اور ترقی پذیر ملکوں میں جنسی اختلاط کی عمر تیزی سے کم ہو رہی ہے۔ اس سلسلے میں بالکل ٹھیک اور قطعی معلومات کا حصول مشکل ہے کیونکہ لوگ بالعموم اپنے اصل کردار کی پردہ پوشی کرتے ہیں‘ لیکن اس کے باوجود یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ دنیا بھر میں جنسی سرگرمیاں بڑی کم عمری میں شروع ہو جاتی ہیں۔ مثلاً امریکہ میں 1971ءمیں پندرہ سال کی عمر میں جنسی اختلاط کا اعتراف کرنے والوں کی تعداد 27 فیصد تھی۔ 1976 تک یہ تعداد بڑھ کر 35 فیصد ہو گئی۔ یہی کچھ حال یورپی ممالک کا ہے۔ یورپ کے 9 ملکوں نے عالمی ادارہ صحت کو بتایا ہے کہ وہاں اولین جنسی ملاپ کی عمر سال بہ سال گھٹتی جا رہی ہے۔ دنیا کے دیگر حصوں سے جومعلومات مل رہی ہیں وہ اگرچہ زیادہ جامع قسم کی نہیں ‘ لیکن ان سے بھی اسی بات کی توثیق ہوتی ہے۔ ایک دوسرے سے انتہائی دور واقع ملکوں روس‘ چلی فلپائن میں بھی جنسی سرگرمیاں ابتدائی عمر ہی میں شروع ہو رہی ہیں۔
صرف بعض معاشروں میں والدین اپنے بچوں کو جنسی معلومات فراہم کرتے ہیں لیکن بیشتر معاشروں میں اس موضوع کی حیثیت شجرِ ممنوعہ کی ہوتی ہے۔ والدین کو اس سلسلے میں اپنے بچوں کو معلومات فراہم کرنے میں بڑی دقت ہوتی ہے۔ بقول عالمی ادارہ صحت کے نوجوانوں میں جنسیات کے بارے میں لا علمی عام ہے۔
مثلاً کئی روایات پرست ملکوں میں جنسی تعلیم ممنوع ہے ۔جن ملکوںمیں اس کی اجازت ہے وہاں اس کی نوعیت ” سوئی میں دھاگا“ پرونے کی ترکیب بتانے کی سی ہوتی ہے۔ یعنی انہیں جنسی افعال اور تولیدی طریقوں کے بارے میں بتایا جاتا ہے۔ اس قسم کی تعلیم علم حیاتیان سے تعلق رکھتی ہے۔ اس سے ذاتی یا شخصی تعلق کے سلسلے میں مدد نہیں ملتی۔اس پر مزید ستم یہ ہوتا ہے کہ مختلف ذرائع ابلاغ بچوں کو جنسی بھول بھلیوں میں کھو جانے کی ترغیب دیتے رہتے ہیں۔
اگر جنس کے بارے میں اسلام کا نظریہ اور مخصوص معلومات فراہم کی جائیں تو اس سے نوجوانوں میں جنسی وظائف کے بارے میں حقیقی شعور بیدار ہوتا ہے۔
سچ تو یہ ہے کہ اوائل شب میں جنسی سرگرمیوں کے بڑے خراب نتائج برآمد ہوتے ہیں۔ اس کی وجہ سے بعض اوقات ولادت کی پیچیدگیاں پیدا ہوتی ہیں۔ اسقاطِ حمل کا سلسلہ جاری ہوتا ہے اور جنسی امراض پھیلنے لگتے ہیں۔ یہ تمام باتیں نتیجہ ہوتی ہیں لا علمی کا ۔اب جنسی متعدی امراض ہی کو لیجئے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق سو زاک اور آتشک جیسے جنسی امراض نوجوانوں کا ایک اہم مسئلہ ہیں۔ یہ امراض خاص طور پر ان شہری علاقوں میں بہت عام ہیں جہاں معاشرتی یا سماجی تبدیلیاں بڑی تیزی سے جاری رہتی ہیں۔ شادیاں دیر سے ہوتی ہیں اور شادی سے قبل جنسی اختلاط پر روایتی پابندیاں برخاست ہو جاتی ہیں۔ ترقی یافتہ ملکوں میں سوزاک کے دو تہائی مریض 25 سال سے کم عمر کے ہوتے ہیں۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق ترقی پذیر ملکوں میں بھی کم و بیش یہی صورتحال ہے۔ اس کے باوجود افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ ایسے نوجوان علاج سے محروم رہتے ہیں کیونکہ یا تو انہیں اس کی سہولتیں دستیاب نہیں ہوتیں یا پھر وہ محض اپنے مرض سے قعطاً لا علم ہوتے ہیں۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق ترقی پذیر ملکوں میں ایسے مرےضوں کی اکثریت علاج سے محروم رہے گی اور ان میں سے اکثر مزید پیچیدگیوں کا شکار ہو جائیں گے۔ اس بات میں کوئی شک نہیں ہونا چاہیے کہ وہ تمام متعدی جنسی امراض جن کا علاج نہیں کروایا جاتا ‘انتہائی سنگین ہوتے ہیں۔ اندازہ یہ ہے کہ سوزاک کی 20 سے 21 فیصد مریض ایسی خواتین جن کا علاج نہیں کروایا جاتا ‘ بیض نالی کے ورم میں مبتلا ہو جاتی ہیں جس سے شدید قسم کی پیچیدگیاں پیدا ہو جاتی ہیں۔ اس کی وجہ سے حمل قرار پا کر چھٹے ہفتے میں اس ٹیوب کو پھاڑ دیتا ہے اور لینے کے دینے پڑ جاتے ہیں۔ بیض نالی میں رکاوٹیں پیدا ہو جاتی ہیں۔ جس کی وجہ سے عورت بانجھ ہو جاتی ہے۔
ان امراض کے علاوہ کم عمر ماﺅں میں استقرارِ حمل اور ولادت اس صورتحال کا دوسرا خطرناک پہلو ہے۔ پندرہ سے انیس سال کی نو عمر ماں وضعِ حمل کے دوران مر سکتی ہے۔ اسی طرح 20سال سے کم عمر میں ماں بننے والوں کے بچے 20 سے 29 سال کی ماں کے بچوں کے مقابلے میں شیر خوارگی کی عمر میں زیادہ مر سکتے ہیں۔ یہ صورتحال بنگلہ دیش ‘ ملائشیا اور تھائی لینڈ میں خاصی عام ہے۔ اس صورتحال کی بنیادی وجہ حمل اور زچگی کی پیچیدگیاں اور بچوں کے وزن کی کمی ہے۔
روایت پرست معاشروں میں نو عمری میں بیاہی جانے والی ماﺅں کو اگرچہ طبی خطرات کا سامنا ہوتا ہے تاہم انہیں اپنے بڑے بوڑھوں کے مشورے اور سرپرستی حاصل رہتی ہے لیکن آج کے دور میں یہ سرپرستی ‘ ہدایت اور رعایت تیزی سے رخصت ہو رہی ہے اور جنہیں یہ مدد درکار ہے وہ اس سے محروم ہوتے جارہے ہیں۔ اس کے نتیجے میں اسقاط حمل کی وجہ سے بھیانک نتائج برآمد ہوتے ہیں۔
آج کے نوجوانوں کو کسی جواز کی ضرورت نہیں ہے بلکہ وہ معلومات اور اپنی ضروریات کے مطابق صحیح معلومات کے محتاج ہیں‘ ہمارے معاشروں کا یہ فرض ہے کہ وہ اس بات کوملحوظ رکھیں کہ ہمارے نوجوان لا علمی اور ضروری رہنمائی کے فقدان کی وجہ سے جنسی مسائل کے خار زار میں بھٹکنے کیلئے نہ چھوڑ دیئے جائیں۔ معاشرے کے ہر فرد کا یہ فرض ہے کہ اس میں حقائق کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت اور اہلیت موجود ہو۔