خواص عنبر، عنبر اشہب
خواص عنبر، عنبر اشہب، ایمبر گرس
Ambergris
ماہیت: اس کی اہمیت میں اختلاف ہے یہ مشہور قسم کی خوشبودار دواء ہے خیال کیاجاتاہے کہ بعض جزیروں میں خاص قسم کی مکھی کے شہد کی طرح کا چھتہ ہے جو بارش اور طوفان وغیرہ سے ٹوٹ کر سمندر میں آجاتاہے اس کا شہد پانی میں حل ہوجاتاہے اور موسم سمندر کے کناروں تک آلگتا ہے بعض لوگوں کا خیال ہے کہ یہ ایک سمندری جانور اسفرم ویل کے شکم سے نکلتاہے یہ مومی مادہ ہے جو سردپانی میں حل نہیں ہوتا اورسمندر میں سطح آب پر تیرتا ہوا ساحل پر آجاتاہے یہ تین قسم کا ہوتاہے لیکن رنگت کے لحاظ سے بہترین عنبراشہب ہوتاہے جوکہ سفید زردی مائل اور بہت خوشبودار ہوتاہے اور اشہب اس سیاہ رنگ کو کہتے ہیں جس کی سفیدی غالب ہو
مزاج : گرم خشک درجہ اول
افعال : مفرح و مقوی قلب و دماغ محرکب باہ ،محرک حرارت غریزی میں مقوی اعصاب ہے
استعمال : عنبر کو زیادہ تر اعصاب دماغ اور قلب کے امراض باردہ میں استعمال کیاجاتاہے چنانچہ فالج لقوہ رعشہ کزاز خدر ضعف دماغ واعصاب ضعف قلب خفقان وغیرہ میں مفرحات میں شامل کر کے کھلایا ہے محرک باہ ہونے کے باعث ضعف باہ مبہی دواؤں میں شامل کرتے ہیں حرارت غریزی کے ضعف کے وقت اس کو برانگیختہ کرنے کیلئے کھلایا جاتاہے۔عنبر کا کھانا بوڑھوں کیلئے مفید ہے ضعف اور زخم معدہ کو زائل کرنے کیلئے بھی استعمال کرایا جاتاہے
خالص عنبر پہچان : عنبر کو شیشی میں ڈال کر کوئلوں کی آگ پر رکھیں اگر تیل یا موم کی طرح پگھل جائے تو اصلی ہے ورنہ نہیں
ذراسا آگ پر ڈالیں تو خوشبوداردہواں دے گا
فوائد خاص : محرک باہ، محافظ غریزی
مضر : آنتوں اور جگر کے لئے
مصلح : صمغ،عربی ،طباشیر
بدل : مشک اور زعفران
مقدارخوراک : ایک رتی سے تین رتی تک
مشہورمرکب : حب عنبر مومیائی خمیرہ گاؤ زبان عنبری خمیرہ ابریشم
اضافہ : عنبر جعفر کے وزن پر عربی زبان کا لفظ ہے لکھنے میں عین کے بعد نون آتا ہے لیکن پڑھتے وقت اسےمیم (عمبر) پڑھاجاتا ہے اس کی جمع عنابر آتی ہے
انگریزی نام Ambergris
ایمبر گرس ایک اورنام (AmbraGrasea)
عنبر کیا ہے معروف ومشہور یہ ہے کہ خاکستری رنگ کا ایک خوشبو دار مادہ ہے یہ مادہ ایک بڑی جسامت والی مچھلی کے پیٹ سے نکل کر سطح آب پر جمع ہو جاتا ہے اس وجہ سے اس مچھلی کو بھی عنبر کہتے ہیں جوعنبر کو نگلتی اوراگلتی ہے۔یہ مچھلی اپنے بڑے سر کی وجہ سے دیگر مچھلیوں سے ممتاز ہوتی ہے بعض اوقات اس مچھلی کا شکار کرکے اس کے پیٹ سے بھی عنبرنکال لیتے ہیں چنانچہ امام شافعی سے منقول ہے کہ میں نے ایک شخص سے سنا کہ میں نے سمندر میں اگا ہوا عنبر دیکھا جوبکری کی گردن کی طرح مڑاہواتھا ،ادھر سمندر میں ایک جانور ہوتا ہے جو اس عنبر کو کھالیتا ہے مگر عنبر اس کے لیے زہر قاتل ہوتا ہے اس لیے نگلتے ہی مرجاتا ہے پھر وہ مردہ جانور سمندر کی لہروں سے ساحل پر آجاتاہے اور اس کے پیٹ سے عنبر نکال لیا جاتا ہے عنبر مختلف قسم کا ہوتاہے لیکن رنگت کے لحاظ سے بہترین
عنبراشہب(Black ambergis)
ہوتاہےجوکہ سفید زردی مائل اور بہت خوشبودار ہوتاہے اور اشہب اس سیاہ رنگ کو کہتے ہیں جس کی سفیدی غالب ہو
خوشبویات(Fragrances)
میں عمدہ اورقیمتی ہونے کی وجہ سےمشک کے بعد عنبر کا درجہ ہے۔اس کی کئی انواع واقسام ہیں جن میں سب سے اعلی اشہب رنگ کی طرح پھر نیلا پھر زرد اور سب سے ادنی نوع سیاہ رنگت کا ہوتا ہے بعض ماہرین کی رائے ہے کہ سمندر میں ایک خاص قسم کا پودااگتا ہے جس کو سمندری مخلوق کھالیتی ہے اور بطور فضلہ کے خارج کردیتی ہے، مشہور مسلم طبیب اور سائنسداں ابن سینا سے منقول ہے کہ عنبر سمندری مادہ ہے، بعض نے کہا کہ سمندری گھا س ہے اور بعض نے سمندری پودا لکھا ہے، ایک مشہور قول یہ ہےکہ مچھلی کی قے ہے
جد ید تحقیق : عنبر پر جو جدیدتحقیق ہوئی ہے وہ ان آراء سے مختلف نہیں ہے جو بہت پہلے علماء اسلام ظاہر کرچکے ہیں چنانچہ امام زمحشری کے حوالے سے تاج العروس میں منقول ہے کہ عنبر سمندر کی سطح پر تیرتا ہوا مادہ ہے جس میں بسااوقات پرندوں کی باقیات بھی ملتی ہیں امام زمحشری کی رائے کو اگر موجودہ تحقیقات کی روشنی میں دیکھا جائے تو ان کی رائے کی اہمیت اوربڑھ جاتی ہے۔عنبر کے متعلق ایک تحقیق یہ ہے کہ عنبردراصل درختوں سے بہنے والی رال اور گوند ہے۔ جب حشرات اسے کھانے کےلیے قریب آتے ہیں تو اس میں چپک جاتے ہیں اور ہوا بند Airtight
ہونے کے باعث ہمیشہ کے لئے اس میں مقید ہوجاتے ہیں
عظیم یونانی ماہر حیاتیات اورفلاسفر، تھیوفہارسٹس
Theophrastus
وہ پہلا شخص تھا جس نے لگ بھگ چارسوسال قبل مسیح میں عنبر کے خواص کے بارے میں تحقیق کی تھی ۔تحقیق سے ثابت ہوا کہ عنبر زیادہ تر ان ساحلی علاقوں میں پایا جاتاہے جہاں ماضی میں صنوبری جنگلات کی بہتات تھی بعد ازاں یہ درخت زیر آب آگئے اور ان کی رال یا گوند درختوں سے علیحد ہو کر دلدلی پانی اور ساحلی پہاڑیوں میں پھیل گئی اور مخصوص کیمیائی عوامل کے بعد نیم دائروی شکل کے ٹھوس عنبروں میں تبدیل ہوگئی جنہیں غوطہ خور اور تاجر حضرات تلاش کر کے فروخت کرتے ہیں اب تک کی گفتگو کی حاصل یہ ہے کہ عنبر ایک خوشبودار مادہے،امگر یہ مادہ خود کیا ہے اس بارے میں مختلف آراء ہیں
نمبر 1 : درختوں کی رال اورگوند ہے
نمبر 2 : سمندر کی تہہ میں اگنے والا پودا ہے
نمبر 3 : سمندری جڑی بوٹی ہے
نمبر 4 : مچھلی کی قے ہے
نمبر 5 : مچھلی کا فضلہ ہے
نمبر 6 : تارکول کی طرح سمندر ی چشمے سے نکلنا والا مادہ ہے
نمبر 7 : ایک خاص قسم کی مکھی کا شہد کی طرح چھتہ ہے جو بارشوں اور طوفانوں سے ٹوٹ کر سمندر میں آجاتا ہے
عنبر کے متعلق طب یونانی میں تفصیلات
عنبر کے متعلق طبیبوں اور حکیموں نے جو کچھ طب کی کتابوں میں لکھا ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ عنبر گرم خشک ہے مفرح قلب ،مقوی دماغ اور محرک حرارت غریزی ہے۔اعصاب کو تقویت بخشتا ہے۔ عنبر کو زیادہ تر اعصاباور قلب کے امراض باردہ میں استعمال کیاجاتاہے۔ حرارت غریزی کے ضعف کے وقت اس کو برانگیختہ کرنے کیلئے کھلایا جاتاہے۔عنبر کا کھانا بوڑھوں کیلئے مفیدہے ضعف اور زخم معدہ کو زائل کرنے کیلئے بھی استعمال کرایا جاتاہے عنبر کی خاص خصوصیت بطور دواء یہ ہے کہ محرک باہ اورمحافظ غریزی ہے لیکنآنتوں اور جگر کے لئے مضر ہے اوراس کے لیے مصلح صمغ،عربی ،طباشیر ہے، مشک اورزعفران کو اس کے بدل کے طورپر استعمال کیا جاتا ہے عنبر سے جو مرکبات تیار ہوتے ہیں ان میں خمیرہ ابریشم ،حب عنبر مومیائی اور خمیرہ گاؤ زبان عنبری مشہور ہیں
عنبرچونکہ ایک قدرتی نعمت ہے اور بڑی قدرو قیمت رکھتی ہے اس لیے علماء کے درمیان یہ نکتہ بھی زیر بحث آیا ہے کہ دیگر معدنیات کی طرح عنبر پر بھی محصول عائد ہوگا یا نہیں اور اگر ہوگا تو اس کی مقدار کیا ہوگی ،اس بارے میں ائمہ کے آراء مختلف ہیں ۔علماء کی اکثریت کے نزدیک عنبر میں سے حکومت وقت کو محصول وصول کرنے کا حق نہیں یہی رائے مالکیہ، شافعیہ اور احناف میں سے امام ابوحنفیہ اور امام محمد کی ہے تابعین میں سے حضرت عطاء امام سفیان ثوری،ابن ابی لیلی، حسن بن صالح اور ابوثور ؒ کا بھی یہی مذہب ہے جب کہ بعض حنابلہ اوراحناف میں سے امام ابو یوسف کی رائے یہ ہے کہ عبنر میں خمس سے یعنی پانچواں حصہ واجب ہے
عنبر قرآن وحدیث کی روشنی
قرآن کریم میں سمندری عجائبات اور معدنیات کا ذکر ہے مگر نام کے ساتھ عنبر کا ذکر نہیں البتہ احادیث میں عنبر کا بطورخوشبو بھی ذکر موجود ہے چنانچہ نسائی شریف میں ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا گیا کہ کیا آنحضرت ﷺ خوشبو لگاتے تھے انہوں نے جواب دیا جی ہاں مردانہ خوشبو یعنی مشک اورعنبر
وعن محمد بن علي قال : سألت عائشة رضي الله عنها أكان رسول الله صلى الله عليه وسلم، يتطيب قالت نعم بذكارة الطيب المسك والعنبر ، رواه النسائي والبخاري في تاريخه) نيل الأوطار (1/ 165)
حضرت سعیدبن جبیر سے مروی ہے کہ حائضہ عورت کو کپڑوں کو خون کے دھبے لگ جائیں تو انہیں دھولے اور پھر خوشبودارگھاس یا زعفران کو یا عنبر کو اس پر مل لے۔ اس کے علاوہ کچھ اور روایات بھی ہیں جن میں عنبر پر زکوۃ واجب ہونے یا نہ ہونے کی بحث ہے
حدثنا ابن فضيل، عن ليث، عن سعيد بن جبير، في الحائض يصيب ثوبها من دمها، قال: تغسله ثم يلطخ مكانه بالورس والزعفران، أو العنبر۔مصنف ابن أبي شيبة (1/ 91)
مشہور تابعی حضرت عطاء بن رباح سے سوال ہواکہ میت کو مشک لگاسکتے ہیں تو منع فرمایا لیکن عنبر کے متعلق جب پوچھا گیا تو اس کی اجازت دی
6143 – عن ابن جريج قال : قلت لعطاء: أيكره المسك حنوطا ؟ قال : نعم قال : قلت : فالعنبر؟ قال : لا، إنما العنبر والمسك قطرة دابة
مصنف عبد الرزاق الصنعاني (3/ 415)
عنبر کے پاک وحلال ہونے متعلق مذاہب فقہاء
فقہ حنفی : عنبر کے متعلق فقہ حنفی میں بھی وہی اقوال منقول ہیں جن کاپہلے تذکرہ ہوچکا ہے علامہ کاسانی نے عنبر کو اپنی اصل کے لحاظ سےخوشبو قراردیا ہے علامہ شامی نے اس قول کو ترجیح دی ہے کہ عنبر اصل میں سمندر میں نکلنا والا چشمہ ہے اورپاک ہے اور فیصلہ یہ کیا ہے کہ عنبر پاک بھی ہے اورحلال بھی ہے ایک دوسرے مقام پر علامہ شامی نے عنبر کے استعمال کو دوشر طوں کے ساتھ جائز قرار دیا ہے، ایک یہ کہ اتنی مقداراستعمال نہ کیا جائے کہ جس سے نشہ پیدا ہو یا جو صحت کے مضر ہو بہر حال فقہ حنفی کی رو سے عنبر کا بطور خوشبو خارجی استعمال اور بطور دوا یا کھانے کے داخلی استعمال جائز ہے کیونکہ پاک بھی ہے اور حلال بھی ہے محقق علامہ شامی لکھتے ہیں
وَأَمَّا الْعَنْبَرُ فَالصَّحِيحُ أَنَّهُ عَيْنٌ فِي الْبَحْرِ بِمَنْزِلَةِ الْقِيرِ وَكِلَاهُمَا طَاهِرٌ مِنْ أَطْيَبِ الطِّيبِ. اهـ
(رد المحتار) (1/ 209)
أقول : المراد بما أسكر كثيره إلخ من الأشربة، وبه عبر بعضهم وإلا لزم تحريم القليل من كل جامد إذا كان كثيره مسكرا كالزعفران والعنبر، ولم أر من قال بحرمتها، وأن البنج ونحوه من الجامدات إنما يحرم إذا أراد به السكر وهو الكثير منه، دون القليل المراد به التداوي ونحوه كالتطيب بالعنبر وجوزة الطيب، ونظير ذلك ما كان سميا قتالا كالمحمودة وهي السقمونيا ونحوها من الأدوية السمية فإن استعمال القليل منها جائز، بخلاف القدر المضر فإنه يحرم، فافهم واغتنم هذا التحرير
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (4/4)
فقہ شافعی : فقہ شافعی میں خودبانی مذہب حضرت امام شافعی سے منقول ہے عنبرپاک ہے۔ایک کمزور قول یہ ہےکہ عنبر نجس ہے مگرامامزينالدينعمربنمظفرالوردیالشافعی نے عنبر کے پاک ہونے پراجماع نقل کیاہے اسی وجہ سے فقہ شافعی میں عنبر کی خریدوفروخت اور بیع سلم جائز لکھا ہے ورنہ ناپاک اشیاء کی تجارت مذہب شافعی میں جائز نہیں ہے امام ماوردی نے عنبر کا تذکرہ ان اشیاء میں کیا ہے جو کبھی خوراک کے طورپر بھی استعمال کی جاتی ہیں پاک ہونے کی وجہ سے عنبر کا داخلی استعمال بھی جائز ہے کیونکہ مذہب شافعی کی رو سے ہرپاک شے کا کھاناجائز ہے ماسوائے ان اشیاء کے جو انسانی صحت یا عقل کے لیےمضرہوں یا نشہ آور ہوں یا مردار کی دباغت دی ہوئی کھال ہو
عنبر کی ماہیت کے متعلق شافعی مذہب میں تین قول ملتے ہیں ،ایک یہ کہ سمندری پودا ہے،دوسرے یہ کہ سخت اورٹھوس قسم کی شے ہے جسے جانورنگلنے کے بعد ہضم نہیں کرپاتا اوراگل دیتا ہے اورتیسرے یہ کہ جانورکا فضلہ ہے خشکی کے نباتات کی طرح سمندر کے نباتات بھی حلال ہیں اس لیے پہلے قول کے مطابق عنبرکی حلت وطہارت کے متعلق کوئی اشکال پیدا نہیں ہوتا اوراگر یہ قول اختیار کیا جائے کہ عنبر مچھلی کی قے ہے تو ہاضمہ کے اندرونی عمل سے اس کی ساخت تبدیل ہوجاتی ہے اورساخت کی تبدیلی سے تو ناپاک شے بھی پاک ہوجاتی ہے اورجس صورت میں مچھلی اسے جوں کا توں اگل دیتی ہے اس صورت میں عنبر کا حکم وہی رہے گا جو نگلنے سے پہلے تھا اوریہ واضح ہے کہ نگلنے سے پہلے وہ پاک اورحلال تھا ،زیادہ سے زیادہ ان آلائشوں کو صاف کر دیا جائے گا جو اس سے لگی ہوں امام شافعی نے اس موضوع پر اپنی عادت کے مطابق بڑی فاضلانہ بحث کی ہے جو کتاب الام میں ملاحظہ کی جاسکتی ہے اور اس سے موجودہ دور میں حلال وحرام کے متعلق بڑی زریں اصولوں کی طرف رہنمائی ملتی ہے
مذہب مالکی : مالکی فقہ میں عنبر کے بارے میں تین قول منقول ہیں :خوشبودار مادہ ہے، مچھلی کی قے ہے یا اس کا فضلہ ہے۔پہلے قول کو بعض نے صحیح قراردیا ہے۔محقق مالکی علماء کے نزدیک عنبر سمندرجڑی بوٹی ہے جس کی سب سے اعلی اوربرترقسم وہ ہے جولہروں کی مددسے ساحل پر آپہنچتی ہے اورجسے مچھلی کھانے کے بعداگل دیتی ہے وہ درمیانی نوعیت کاعنبر ہے اور اگر مچھلی کے گلنے سڑنے کےبعد اس کا پیٹ چاک کرکے عنبر نکالاجائے تو وہ سب سے ادنی قسم ہے۔
عنبر کے خارجی استعمال کے متعلق فقہ مالکی میں صراحت کے ساتھ اجازت منقول ہے چنانچہ امام ابن قاسم کہتےہیں کہ میں نے امام مالکؒ سے پوچھا کہ میت کو مشک وعنبر لگاسکتے ہیں ؟ تو جواب دیا کہ اس میں کوئی حرج نہیں اس سے معلوم ہواکہ عنبر پاک ہے کیونکہ کسی چیز کا بیرونی استعما ل اسی وقت جائز ہوتا ہے جب وہ پاک ہو جہاں تک عنبر کے داخلی استعمال کا تعلق ہے تو اس سلسلے میں وہی عام شرائط لاگو ہیں جو کسی بھی حلال شےکے متعلق لاگو ہوتی ہیں یعنی یہ کہ اس کا اتنی مقدارمیں استعمال نہ ہو جوضرر کا باعث ہو یاجس سے نشہ پیدا ہو
فقہ حنبلی : فقہ حنبلی میں بھی عنبر کی حقیقت کے متعلق وہی اقوال منقول ہیں جن کا ماقبل میں تذکرہ ہوچکا ہے مستندحنبلی کتابوں کارجحان اس طرف ہے کہ عنبر سمندری جڑی بوٹی ہے جو مختلف ذر ائع سے انسان کو حاصل ہوتی ہے ۔اگر چہ اس کا خوردنی استعمال بھی ہوتا ہے مگر اصل میں خو شبودار مادہ ہے اور خوشبو کے مقاصد کے لیے استعمال ہوتی ہے عنبر کو فقہ حنبلی میں پاک لکھا ہے، لیکن پاک ہونے کے ساتھ حلال بھی ہے کیونکہ حنابلہ کے نزدیک ہر پاک چیز حلال ہے جب تک ضرررساں یا نشہ آور نہ ہو۔اس لیے پاک وحلال ہونے کی وجہ سے اس کا خارجی اورداخلی استعما ل جائز ہے
دواء خود بنا لیں یاں ہم سے بنی ہوئی منگوا سکتے ہیں
میں نیت اور ایمانداری کے ساتھ اللہ کو حاضر ناضر جان کر مخلوق خدا کی خدمت کرنے کا عزم رکھتا ہوں آپ کو بلکل ٹھیک نسخے بتاتا ہوں ان میں کچھ کمی نہیں رکھتا یہ تمام نسخے میرے اپنے آزمودہ ہوتے ہیں آپ کی دُعاؤں کا طلب گار حکیم محمد عرفان
ہر قسم کی تمام جڑی بوٹیاں صاف ستھری تنکے، مٹی، کنکر، کے بغیر پاکستان اور پوری دنیا میں ھوم ڈلیوری کیلئے دستیاب ہیں تفصیلات کیلئے کلک کریں
فری مشورہ کیلئے رابطہ کر سکتے ہیں
Helpline & Whatsapp Number +92-30-40-50-60-70
Desi herbal, Desi nuskha,Desi totkay,jari botion se ilaj,Al shifa,herbal