Al-Shifa Naturla Herbal Laboratories (Pvt), Ltd.    HelpLine: +92-30-40-50-60-70

علاج ? درد شقیقہ آدھے سر کا درد

علاج ? درد شقیقہ آدھے سر کا درد

سر درد کی کئی اقسام ہیں جن میں ایک آدھے سر کا درد ہے جسے درد شقیقہ جبکہ جدید ایلوپیتھی اصطلاح میں مائیگرین کہتے ہیں ۔ بعض اوقات یہ پورے سر میں ہوتا ہے مگر آدھے سر میں کم اور آدھے میں زیادہ ہوتا ہے ۔ درد شقیقہ بڑی شدت سے ہوتا ہے اور مریض کو کسی کام کاج کا نہیں چھوڑتا ۔ بھنوؤں کے اوپر اور ملحقہ حصے کا درد بھی شقیقہ ہی کی ایک قسم ہے ۔

قدیم طبی کتب میں مشرق وسطیٰ کے پہلی صدی کے طبیب الواطیس نے اسے درد سر کی ایک قسم قرار دیا ۔ جالینوس نے شقیقہ کا نام دیا اس وقت سے اسی نام سے معروف ہے ۔ مردوں کی نسبت عورتوں میں زیادہ ہوتا ہے ۔ آدھے سر کا درد عموماً یکایک اور
Read More

محبت کے سوا ? عورت کیا چاہتی ہے



 

 

 

محبت کے سوا ? عورت کیا چاہتی ہے
عورت کیا چاہتی ہے” ۔صدیوں سے یہ سوال اْلجھن بنا ہوا تھا ۔نفسیا ت کے ماہرین نے بھی جو جواب دئے وہ اْدھور ے جواب رہے ہیں ۔بالآخر دور جدید کے نفسیات دانوںجو عورت کی نفسیات بیان فرمائی وہ کسی قدر اسلام کی بیان فرمودہ نفسیات کے قریب ہے ۔ ماہرین کے مطابق محبت انسانی زندگی کے انتشار میں فطرت جیسی ہم آہنگی پیدا کرتی ہے ۔محبت ایک ذات ہے دوسری ذات تک بڑھنے اور نشو نما پانے کا ایک عمل ہے۔ قرآن مجید کے مطابق محبت کے پہلے مرحلہ میں انسان کو اپنی ذات کی تکمیل کے لئے اپنے جوڑے کی تلاش تھی ۔لیکن انسان کی فطرت میں اصل مقصود تو اس کی خالق مالک کی محبت ہے ۔اسکے خالق مالک نے انسان کی فطرت میںاپنی محبت کا بیج بوایا ہے۔بجز خدا تعالیٰ کی محبت کے انسان کی تکمیل ممکن نہیں ۔بہرحال قرآن مجید نے اپنی محبت کے سفر کے ابتدائی مرحلہ میں اسے ازواجی بندھن کی شکل میں پیش کیا ہے ۔یعنی مرد عورت میں محبت کا آسمانی شعلہ آسمان سے نازل ہوتا ہے۔ جو جوڑے فی الحقیقت اپنے اندر محبت کی سچی جستجو رکھتے ہیں ۔ یقیناََ ایسے حقیقی جوڑے ہی خدا ملاتا ہے اور ایسے جوڑے محبت کے آسمانی شعلہ کو اپنے اندر جذب کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں ۔ خدا تعا لیٰ فرماتا ہے کہ مرد عورت کو ہم نے جوڑوں میں پیدا کیا فرمایا اْس کے نشانو ں میں ایک یہ بھی نشان ہے کہ اْس نے تمہارے جوڑے بنائے ۔تاکہ تمہیں آپس میں ملنے سے سکون حا صل ہو ۔” ( سورة روم آیت ٢٢)اس آیت میں عورت مرد کے تعلقا ت کا بتایا گیا ہے کہ مرد کے لئے

عورت اور عورت کے لئے مرد سکون کا باعث ہے ۔گویا انسان کے اندر ایک اضطراب تھا ۔اْس اضطراب کو دور کرنے کیلئے انسانیت کے دو ٹکڑے یعنی عورت مرد کی صورت میں کردئے گئے ۔ اور ان کا آپس میں ملنا سکون کا موجب قرار دیا۔۔اور دوسر ی جگہ فرمایا کہ یعنی ” عورتیں تمہارے لئے لباس ہیں اور تم اْن لئے لبا س ہو”( بقرہ آیت ٨٨١) پس موجب سکون اور آرام ہونے میں دونوں برابر ہیں ۔مرد عورت ایک دوسرے کی محبت کے طلبگار ہیں۔اور وہ اس محبت کے رشتہ ازواج میں بندھے ہوتے ہیں۔اور بجز تعلقات محبت ان کی روح کو قرار کہاں ۔جیسے فرمایا یعنی شادی بندھن سے” تم میں مودّت پیدا کی گئی ۔” ( سورة روم آیت ٢٢)مودّت محبت کو کہتے ہیں۔لیکن مودّت محبت میں ایک فرق پایا جاتا ہے۔وہ یہ کہ مودّة اس محبت کو کہتے ہیںجو دوسروں کو اپنے اندر جذب کرلینے کی طاقت رکھتی ہے ۔لیکن محبت میں یہ شرط نہیں ۔شادی سے قبل بھی کئی جوڑے محبت کے نام پر ایک دوسرے سے تعلقات قائم کرتے ہیں۔لیکن ایسے جوڑوں کی تقریباََ سب محبتیں ناکام ثا بت ہوتی ہیں ۔ ( گویا رشتہ ازواج کے سوا ایسے تعلقات محبت خدا کے نزدیک قابل قبول نہیں) بقول شاعر” جو شاخ نازک پہ آشیانہ بنے گا وہ ناپائیدار ہوگا”۔ لیکن شادی کے بندھن میں بندھ جانے والے جوڑوں ایسے جوڑوں کا آپس میں ملاپ دل کی دودھڑکنیں ہیںجو دو وجودوں میں ایک ساتھ چلتی ہیں گاڑی کے دوپہئے ہیں جو ایک ساتھ آگے بڑھتے ہیں ۔ یقیناََ خود دور جدید کی عور تیں ۔ اس سوال کا جواب جانتی ہیں کہ شادی سے قبل کی محبت اور رشتہ ازواج میں بندھ جانے کے بعد محبت کا کیا فرق ہے ۔ لیکن بعض آزاد خیال آزاد زندگی بسر کرنے والی عورتیں شائد وہ پورا سچ بول کر اپنے دائرہ عمل کو( گھریلو زندگی سے وابستہ کرکے) اپنی زند گی کو محدود نہیں کرنا چاہتی ۔ مگر دور جدید کے نفسیات کے ماہرین کی نظر میں رشتہ ازواج میں بندھ جانے والی عورت کیا چاہتی ہے ؟انکا تجزیہ ہے کہ ”وہ عام طوروہی چاہتی ہے جو مرد چاہتا ہے ۔یعنی وہ کامیابی ‘ قوت ‘ مرتبہ ‘دولت ‘محبت ‘ شادی’بچوں اور خوشیوں کی طلبگار ہوتی ہے ۔وہ اپنی تکمیل چاہتی ہے ۔دور جدید کی عورتوں کی اکثر یت اس جواب کو چھپا کر رکھنا نہیں چاہتی ہیں ۔بلکہ وہ چاہتی ہیںکہ سب لوگ خاص طور پر ان کے مرد ‘اس ‘ راز’ سے آگاہ ہو جائیں ۔ہمارے لوک گیتوں میں محبوبہ اور بیوی دونو ں کے روپ میں عورت سونے چاندی اور کبھی ہیرے جوہرات کی فرمائش کرتی ہیں ۔اس کی زیادہ سے زیادہ وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ یہ اس کی فطرتی طلب ہے تاکہ وہ قیمتی جواہرات سے اپنے حسن کی حفاظت اور اپنے حسن کو زیادہ سے زیادہ جازب نظر بنا سکے۔لیکن دورجدید کی تعلیم یافتہ اور مہذب عورتوں کا رویہ کسی قدر مختلف ہے۔وہ اس قسم کے تحفوں کو اتنی اہمیت نہیں دیتیں۔وہ محبت کو ترجیح دیتی ہیں ۔اور زیادہ تر عورتیں ان گراں قدر تحفوں کی موجودگی میں مرد سے سچی اور ذاتی محبت کا اظہار مانگتی ہیں ۔عورت کے دل میں ایسے تحائف جگہ بنا سکتے ہیںجن کے ساتھ مرد کی دلی محبت کی وارفتگی ہو ۔مگردور جدید کے بالخصوص مغربی شادی شدہ جوڑے کا المیہ یہ ہے کہ ان جوڑوں کی زیادہ تر محبت کی بنیاد حسن و جمال جنسی لذات شہوات تک محدود ہے۔ لیکن کچھ عرصہ بعد جنسی شہوات پر مبنی محبت کے جذبات ٹھنڈے پڑنے لگتے ہیں۔اور زندگی کے حقائق کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو محبت کے ڈرامے کے ڈراپ سین کے بعد زندگی میں مرد کا رومان باقی نہیں رہتا ۔تو ایسی ازواجی زندگی پھسپھسی میکانکی اور بے لطف ہوتی ہے۔جبکہ ماہرین کے بیان کے مطابق ایسا کوئی روگ نہیںجس سے نجات ممکن نہیں ۔ یعنی اس کے لئے ضروری ہے کہ رومان کی شمع بھجنے نہ پائے ۔رومان کی شمع روشن رکھنے کے لئے مرد کو چاہیے کہ عورت کی دلکشی کو نظر انداز نہ ہونے دے ۔ کم ہی عورتوں کو اپنے حسن کا یقین ہوتا ہے اس لئے عورت کے حسن کی تعریف فقط دور جونی تک محدود نہ ہو لیکن عمر کے ساتھ عورت کی خوبصورتی کم ہوجانے کے باوجو د اس کے حسن کو سراہا جانا ضروری ہے ور نہ عورت مرد کی توجہ نہ پاکر دور دراز اندیشوں میں اْلجھ کر رہے جائے گی اور وہ اپنے خاوند کی محبت کو بھی شک کی نظروں سے دیکھے گی۔اصل بات یہ ہے کہ جب عورت کو گول مول اور مبہم الفاظ میں جتلایا جائے کہ وہ دلکش ہے تو اس مسئلہ کا حل نہیں ہوتا ۔وہ واضح براہِ راست اقرار چاہتی ہے ۔جیسے تمہارے بالوں کا یہ انداز مجھے پسند آیا ۔یا اس لباس میں تم شاندار نظر آرہی ہو ۔یعنی وہ اپنے حسن کی تفصیلات کو پسند کرتی ہے بجز تفصیل کے وہ سمجھتی ہے ۔کہ وہ محض باتیں نہیں بنا رہا اور نہ ہی رسمی جملے ادا کر رہا ہے۔ بلکہ اس کے برعکس جب وہ پوری توجہ دے رہا ہے ‘ وہ اس کو واقعی دیکھ رہا ہے ۔اس لئے عورت کی خود اعتما د ی اور عزت نفس بڑھ جاتی ہے ۔ماہرین کے مطابق سچائی کی بجائے محبت و ہمدردی سے کام لیجئے اور اسے یقین دلائیے کہ عمر کے ماہ و سال اس کا کچھ بگاڑ نہیں سکے ۔اس کو دیدہ ذیب لباس پہننے پر آمادہ کیجئے ۔یوں رومانوی محبت کو قائم کیا جاسکتا ہے ۔ ازواجی زندگی کو خوشگوار بنانے کے لئے رومان کی شمع جلائے رکھنا ضروری ہے ۔ اور اسے کسی صورت میں بھی نظر انداز نہ کیا جائے ۔عورت کو مرد سے مشورہ لینے کا کم ہی شوق ہوتا ہے ۔زیادہ ترعورتوں کی گفتگو اپنے ساتھی سے مسائل کا تجزیہ کرنے اور مسائل کا حل تلاش کے لئے نہیں ہوتا بلکہ وہ اپنے جذبوں کے اظہار اور جذبوں میں ایک دوسرے کو شریک کرنے کے لئے بولتی ہے ۔لہذا وہ اْس وقت تک بولتی چلی جاتی ہیں جب تک ان کے دل کا بوجھ ہلکا نہ ہو جائے ۔ ماہرین کا کہنا یہ ہے کہ عورت کے نقطئہ نگاہ سے اچھی سیکس کے مقابلہ میں زیادہ اہم بات یہ ہے کہ مرد گھریلو کام کاج میں اس کا ہاتھ بٹائے ۔عورت کی اس قسم کی مدد صحت مند ازواجی زندگی کو قائم رکھنے میں مدد گار ثابت ہوتی ہے لیکن جدید دور کے ماہرین نفسیات عورت کی نفسیات کا صحیح ادراک بعد از خرابیء بسیار دور جدید میں ہوا ۔ مگر اسلام کانفسیاتی تجزیہ جو یہ ہے کہ اسلام نے عورت مرد کو انسانیت کے دائیرہ میں برابر کا شریک قراردیا ۔فرق یہ ہے کہ مرد قوام ( مضبوط ا عصاب کے ) ہیں اور عورتیں قواریر ( صنف نازک) ہیں اسی لئے آنحضرت ۖ نے فرمایا۔۔۔عورت ایک کمزور جنس ہے ویسے ہی حسن سلوک کی مستحق ہے اور دوسرے بوجہ اس کے کہ انسان کو اپنی بیوی کے ساتھ سب سے زیادہ قر یب کا واسطہ پڑتاہے۔انسان کے اخلاق کا صحیح امتحان بیوی کے ساتھ سلوک کرنے میںمضمر ہے ۔( جامع الترمذی) ۔ ۔ ۔عورتوں سے حسن سلوک کی تعلیم حدیث میں ہے۔۔ آپۖ نے فرمایا کہ” اے مسلمانو! تم میں سے ز یادہ اچھے وہ ہیں جو اپنی بیویوں کے ساتھ سلوک کرنے میں زیادہ اچھے ہیں۔” (جامع الترمز ی) اسلام نے بیویوں سے بہترین معاملہ کرنے و ان کی دلجوئی کونیکی کا معیار قرار دیا۔غرض اسلام نے عورت کے حقوق اور اس سے حسن سلوک کو بیان کر کے نسوانی دنیا کی کایا پلٹ دی ہے ۔فرمایا ” (عورتوں) سے نیک سلوک کے ساتھ زندگی بسر کرو ۔اگر تم ان کو ناپسند کرو تو عین ممکن ہے کہ تم ایک چیز کو ناپسند کرو اور اللہ اس میں بھلائی رکھ دے ۔( النساء ) اورفرمایا” وہ عورتیں تمہارا لباس ہیں اور تم عورتوں کا لباس ہو”( سورة البقرہ ٨٨١) پس لباس کی مثال میں توجہ دلانا مقصود ہے کہ مر د وں عورتوں کے تعلقات کیسے ہونے چاہیے ۔فرمایا مردوں عورتوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ ایک دوسر ے کیلئے ہمیشہ لباس کا کام دیں ۔ یعنی ایک دوسرے کے عیب چھپائیں۔ایک دوسرے کیلئے زینت کا موجب بنیں۔پھر جس طرح لباس سردی گرمی کے ضرر سے انسانی جسم کو محفوظ رکھتا ہے اْسی طرح مرد عورت سْکھ دْکھ کی گھڑیو ں میں ایک دوسرے کے کام آئیں۔اور پریشانی کے عالم میں ایک دوسرے کی دلجمعی اور سکون کا باعث بنیں۔ لیکن مذہبی دنیا میں اور دنیاوی معاشروں میں بھی عورت سے یکساں سلوک نہیں ہوا ۔ اسلام کی تعلیم کے برعکس بعض مشرقی معاشروں میں مرد نے عورت کو اپنی نفسانی جنسی اغراض کا ذریعہ بنایا ہوا ہے ۔ جبکہ مغربی معاشرہ میں تو عورت مرد کا فقط جنسی تسکین کا کھلونا بن کر رہ گئی ہے۔جبکہ اسلام نے مرد کو عورت سے حسن سلوک اور اس کے جذبات کی پاسداری کا حکم دیا ۔ اسلام نے عورت سے نیک سلوک اور اس کی عزت احترام کو ہر حیثیت میں قائم یبنفرمایا ۔مختلف احادیث میںجو تعلیم دی گئی کہ بیویوں سے بہترین معاملہ کریں اور ان کی دلجوئی کو نیکی کا معیا ر سمجھیں ۔ ۔آنحضر ت نے عورت اور خوشبو کو پسندیدہ قراردیا ۔آپ نے فرمایا ” نیک عورت سے بہتر دنیا کی کوئی چیز نہیں( ابن ماجہ)

اچھی صحت ? سبزیاں صحت کی ضامن ہیں

اچھی صحت ? سبزیاں صحت کی ضامن ہیں

اچھی صحت ? سبزیاں انسانی صحت کے لیے بے حد مفید ہیں ان کے اندر موجود سبزمادہ کلوروفل زندگی بخش ہے۔ سبزیاں استعمال کرنے والے لوگ بہت کم بیمار پڑتے ہیں چونکہ ان کے اندر قدرت کاملہ نے شفا کی تاثیر رکھ دی ہے۔ سبزیاںجسم انسانی کے اندر موجود زہریلے اورفاسد مادوںکا قلع قمع کرنے میں اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتیں۔جانوروںمیں سے گوشت خورجانور بہت کم ہیں اکثرجانور بھی سبزی پر ہی انحصار کرتے ہیں اور تندرست وتوانا رہتے ہیں۔ ہمارے دودھیل جانور بھی سبزہ کھا کر ڈھیروں دودھ دیتے ہیں جو انسانی زندگی کو قائم دوائم رکھتا ہے۔ سبزیاں ذود ہضم ہوتی ہیں اس لیے معدے کی اصلاح کا کام انجام دیتی ہیں، گوشت کیطرح معدے پر بوجھ نہیں بنتیں۔

انسان کے دانتوںکی ساخت گوشت خورجانوروںجیسی نہیں بلکہ گھاس پھوس اور سبزیوں جیسی ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ سبزیاںکھانے والے لوگ بہت کم بیماری کا شکار ہوتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سبزیاں انسان کے امیون سسٹم یعنی نظام دماغ کو مضبوط کرتی ہیں۔ اس کے مقابلے میں گوشت خور قومیں بیماریوں کا زیادہ شکار نظر آتی ہیں۔ ان میں بلڈپریشرکا مرض عام ہے جسے خاموش قاتل کا نام بھی دیا جاتا ہے۔

سبزیاں ٹھنڈی تاثیر کے باعث انسانی خون کو موزوں رکھتی ہیں یہی وجہ ہے کہ جو لوگ سبزیوںکازیادہ استعمال کرتے ہیں وہ بلڈپریشرکا شکار نہیں ہوتے۔ ہمارے پیارے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی سبزیوں کو پسند فرماتے تھے۔ سبزیوں میں سے کدو آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مرغوب غذا تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسے بڑے شوق سے کھایا کرتے تھے۔

جدید تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ کدو میں خداتعالٰی نے شفا رکھی ہے اس کی تاثیر سرد ہوتی ہے۔ یہ جسم کو تقویت دیتا ہے اور بھرپورغذائیت کاحامل ہے۔ چنانچہ حضرت یونس علیہ السلام مچھلی کے پیٹ سے باہرآئے توسخت کمزور ہوچکے تھے ساحل پر کدو کی ایک بیل تھی جس پر کدو لگے ہوئے تھے حضرت یونس علیہ السلام وہ کدو استعمال کرتے تھے جس نے ان کے جسم کو تقویت دی اور آپ صحت مند ہو گئے۔

کدو ایک ایسی سبزی ہے جسے گوشت کے ساتھ پکا کر کھانا بھی مفید ثابت ہوتا ہے۔ طبی نقطہ نگاہ سے یہ صفرادی اوردموی مزاج لوگوں کے لیے بہترین غذا ہے۔ یہ خلط صالح پیدا کرتا ہے ملین طبع ہے اور اس کے استعمال سے کھل کر پیشاب آتا ہے جس سے جسم کے اندرموجود زہریلے مادے خارج ہو جاتے ہیں۔ یہ انتڑیوں کو مرطوب کرتا ہے’ تپ دق کے لیے اس سے بہتر کوئی غذا نہیں’ اس کے استعمال سے جسم کے اندر ایسی قوت مدافعت پیدا ہوتی ہے جس سے انسان مرض سل سے محفوظ رہتا ہے۔

مری میں موجود ساملی سینی ٹوریم کی ایک تحقیق کے مطابق جو لوگ کدوکا کثرت سے استعمال کرتے ہیں تپ دق اور سل سے محفوظ ومصون رہتے ہیں۔ مرض سرسام اور جنون میں اس کا گودا تالو پر رکھنے سے آرام آ جاتا ہے۔ روغن کدو دماغ کی خشکی کو دور کرتا ہے اور نیند آور ہے اس کے بیجوں کا شیرہ بھی تاثیر کا حامل ہے۔ اس کا روغن بھی نکالا جاتا ہے جسے روغن کدو کا نام دیا جاتا ہے۔ یہ دماغ کی خشکی کو دور کرتا ہے۔ صرف ایک سبزی کدو کے اندر بہت زیادہ شفا پائی جاتی ہے۔ کدو کا روغن صفراوی بخاروں اور جریان خون میں بھی مفید ہے۔

سل اور تپ دق میں بھی بھبھلائے ہوئے کدو کا پانی نچوڑ کر پلانے سے فائدہ ہوتا ہے اس کا رائتہ بے حد مفید اور لذیذ بھی ہوتا ہے۔ کدواسہال میں بھی بے حد مفید ہے یہ صرف ایک سبزی کدو کی افادیت بتائی گئی ہے۔

کوئی سبزی جتنی زیادی گہری سبزی مائل ہو گی اتنی ہی زیادہ مفید ہو گی۔ پالک اور ساگ میں سبز مادہ بہت زیادہ ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ پالک خون کی اصلاح کرتی ہے اور ساگ کا استعمال معدے کو نرم کرتا ہے اورغذائیت سے بھر پور ہے یہ خون صالح بھی پیدا کرتا ہے۔

ہمارے ہاں سبزیوںکی بہتات ہے یہ عام آدمی کی پہنچ سے باہر نہیں بلکہ ہر امیرغریب خرید کر انہیں استعمال کر سکتا ہے۔ جنگلوں میں رہنے والے لوگ سبزی پر ہی انحصار کرتے ہے یہی وجہ ہے کہ وہ کبھی بیمار نہیں پڑتے’ انہیں ڈاکٹروں کی ضرورت نہیں محسوس ہوتی۔ گوشت اس قدر مہنگا ہے کہ ہر شخص کے بس میں نہیں کہ اسے خریدکرکھا سکے مگر موسم کے مطابق سبزیاں کوڑیوں کے مول بکتی ہیں مگر چونکہ کہ لوگ ان کی افادیت سے آگاہ نہیں ہوتے لہذا ان کے مقابل گوشت کو ترجیح دیتے ہیں جو ان کو طرح طرح کی بیماریوں میں مبتلا کرتا ہے کیونکہ گوشت ایسی چیز نہیں جسے ہر روز کی غذا کا حصہ بنایا جائے۔

رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں بھی گوشت بعض تقریبات کے مواقع پر ہواکرتے تھے ان میں عید قرباں’ بچوں کا عقیقہ ولیمہ ایسے مواقع ہوا کرتے تھے جن پر گوشت کھایا جاتا تھا۔ عید قربان پر کثرت سے قربانی کے جانور ذبح کئے جاتے مگر یہ موقع تو سال میں صرف ایک مرتبہ آیا کرتا تھا۔ جس طرح آج ہمارے معاشرے میں کثرت کے ساتھ اور روزانہ گوشت کا استعمال کیا جاتا ہے کسی زمانے میں ایسا نہ تھا۔

عربوں کی خوراک زیادہ ترکھجوریں’ بکری یا اونٹی کا دودھ اور سبزیوں پر مشتمل ہوا کرتی تھی یہی وجہ تھی کہ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین بہت کم بیمار پڑا کرتے اور کسی طبیب کی ضرورت نہیں ہوا کرتی تھی۔ آج کے ترقی یافتہ دور میں کئی قسم کی بیماریاں بھی منظر عام پر آرہی ہیں ہسپتالوں میں جائیں تو مختلف النوع بیماریوں کے شکار نظر آئیں گے۔ اس کا سبب بھی یہی ہے کہ ہم گوشت پر زیادہ انحصار کرتے ہیں مگر زندگی بخش سبزیوں کو استعمال کرنا توہین سمجھتے ہیں اور انہیں پسند نہیں کرتے۔ دیہات میں رہنے والے لوگ سبزیاں کثرت سے استعمال کرتے ہیں یہی وجہ کہ وہ بہت کم بیمار ہو تے ہیں۔

مجھے اچھی طرح یاد ہے ہمارے گاؤں میں مہینے میں صرف ایک مرتبہ قصائی گائے ذبح کیا کرتا تھا۔ گوشت کی بکنگ پہلے سے ہو جاتی تھی۔ جب گاہک پورے ہوجاتے تو اچھی قسم کی گائے ذبح کرتا اور لوگ گوشت خرید کر لے جاتے باقی سارا مہینہ سبزیوں اور دالوں پر ہی انحصار کیا جاتاتھا’ لوگ توانا وتندرست رہتے تھے اور خوب محنت ومشقت کے ساتھ کھیتوں میں سبزیوں اور فصلیں کاشت کیا کرتے تھے۔

ہمارے گاؤں والے ایک گھر میں ایک گھیا توری کی بیل لگی ہوئی تھی اس قدرگھیا توری لگتی کہ ٹوکریوں کے حساب سے اسے اکٹھا کیا جاتا اور گاؤں کے لوگ مفت لے جایا کرتے تھے اوراس کا سالن استعمال کرتے۔ مقصد کہنے کا یہ ہے کہ جس مقدار میں اور جس تسلسل کے ساتھ ہم آج گوشت کا استعمال کر رہے ہیں اس کا رواج کسی بھی زمانے میں نہیں رہا۔ اب تو لوگ مختلف النوع بیماریوں کا شکار ہیں اور اپنی آمدنی کا معتدبہ حصہ ڈاکٹروں کی نذر کر دیتے ہیں۔

ہم میں سے ہرشخص اچھی طرح جانتا ہے کہ گوشت کا بے تحاشا استعمال غیر مفید ہے اس کے باوجود ہم گوشت کھاتے چلے جاتے ہیں اور سبزیوں اوردالوں کو ثانوی حیثیت دینے پر بھی تیار نہیں ہوتے اور ہمیں ان کا ذائقہ بھی نہیں آتا۔ جب بڑے سبزیاں کھانے سے گریز کریں تو بچے کب اسے پسند کریں گے بچے بھی ہر روز گوشت والا سالن کھانے پر اصرار کرتے ہیں۔ بعض لوگوں کا یہ کہنا ہے کہ سبزیوں میں وہ قوت اور غذائیت نہیں ہوتی جو گوشت کے اندر موجود ہے۔ ان کا مفروضہ غلط ہے کیونکہ ہماری گائیں بھینسیں سبزیاں ہی کھاتی ہیں پھر ان پر منوں کے حساب سے گوشت کیسے چڑھتا ہے اور دودھ کے اندر چکنائی کس طرح وافر مقدار میں پیدا ہوجاتی ہے جسے ہم استعمال کرتے ہیں۔ معلوم ہوا کہ سبزیوں کے اندر بھی گوشت کے سارے اجزاء موجود ہوتے ہیں۔

دریائی گھوڑا جو بھاری بھرکم جانور ہے اور پانی سے نکل کر باہربھی زندہ رہ سکتا ہے اس کی خوراک کا مکمل انحصار صرف گھاس پر ہے وہ پانی سے باہر نکل کر خوب گھاس کھاتا ہے اور پھر پانی کے اندر چلا جاتا ہے۔ خدا تعالٰی نے ہمارے ملکوں کو طرح طرح کی سبزیوںسے نواز رکھا ہے سبزیاں وافر مقدارمیں ہمیں دستیاب بھی ہیں ان میں سے ہر سبزی کی اپنی افادیت ہے مگر اس مختصر مضمون میں ان سب کی افادیت بیان کرنا ممکن نہیں۔

کدو کی افادیت بیان کی جاچکی ہے۔ اس کے علاوہ بھنڈی توری’ گھیا توری’ٹینڈے’ مٹر’ ٹماٹر’آلو وغیرہ ہمارے ہاں عام مل جاتے ہیں ان میں سے چند ایک کی افادیت بیان کی جاتی ہے۔

آلو ایک ایسی سبزی ہے جو پوری دنیا میںکثرت سے کھائی جاتی ہے اس کو مختلف طریقوں سے استعمال کیا جاتا ہے کبھی اس کا سالن بنایا جاتا ہے کبھی اس کے چپس تیار کیے جاتے ہیں کبھی اس کے فرنچ فرائز تیار کیے جاتے ہیں۔ یہ سبزی بے پناہ قوت کی حامل ہے۔ اس کے اندر غذائیت کے خزانے ہیں۔ یورپ’ امریکہ’ ایشیا’ افریقہ’ آسٹریلیا میں آلو کثرت سے کھایاجاتا ہے۔ ہمارے ہاں یہ سستا مل جاتا ہے مگر اسے بطور سبزی استعمال کرنا ہم اپنی توہین سمجھتے ہیں۔

ساگ اور پالک جوکلوروفل کا خزانہ ہیں اس کا ذکر کیا جاچکا ہے مگر اسے بھی بہت کم لوگ استعمال کرتے ہیں اور سارا زور گوشت پر لگاتے ییں جو اس قدر مہنگا ہے کہ عام شخص اسے خرید کر نہیں کھا سکتا۔

کریلاجو ایک بے حد مفید سبزی ہے ہمارے ہاں عام ملتا ہے یہ بے پناہ افادیت کی حامل سبزی ہے۔ یہ سبزی ملین طبع اور مقوی معدہ ہے اس کا استعمال پیٹ کے کیڑوں کو ہلاک کرتا ہے اسے چنے کی دال اور گوشت کے ہمراہ بھی پکاکر کھایا جاتا ہے۔ یہ صفرا اوربلغم کو دور کرنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتا۔ سرد مزاج لوگوں کے معدوں کوتقویت بخشتا ہے پیٹ کے کیڑوںکو ہلاک کرتا ہے۔

فالج’ لقوہ’ جوڑوں کے درد’ نقرس’ ذیابیطس’ رعشہ’ یرقان’ تلی کے ورم میں بے حد مفید ثابت ہوا ہے۔ کریلے کا پانی اور اس کا سفوف بنا کر استعمال کرنا بھی بہت سی بیماروں کا علاج ہے’ پتے کی پتھری کو دور کرنے کے لیے کریلے کا پانی دو دو تولہ صبح وشام روغن زیتون اور دودھ میں ملا کر پینے سے پتھری ٹوٹ کر خارج ہو جاتی ہے۔ افریقہ میں اس کے پکے ہوئے بیج روغن بادام شیریں میں گھوٹ کرزخموں پر لگاتے ہیں۔

مٹر اپنے موسم میں ہمارے ہاں وافر اور سستے مل جاتے ہیں اس کے اندر لحمیات کا ایک وافر ذخیرہ موجود ہوتا ہے۔ آلو کے ہمراہ مٹر کا سالن بے حد لذیذ اور قوت بخش ہوتا ہے۔ یہ گوشت کی کمی کو پورا کرتا ہے اور جسم کو طاقت دیتا ہے۔ اس کے علاوہ جتنی بھی دالیں ہیں یہ بھی سبزیوں سے ہی حاصل ہوتی ہیں یعنی ان کا اصل بھی سبزی ہے اور یہ سبزی کی ایک خشک شکل ہے۔

دالوں کی اہمیت سے کون نہیں واقف تاہم ان کا ذکر کسی اگلی نشست میں کیا جائے گا۔ بھنڈی آج کل عام اور سستی ہے یہ سبزی بڑی لذیذ ہوتی ہے یہ جسم کو ٹھنڈک اور فرخت بخشتی ہے اور بدن کی اصلاح کرتی ہے۔ سبزیاں کھانے والے لوگوں کے دانت مضبوط رہتے ہیں انہیں کیڑا نہیں لگتا اور صاف وشفاف رہتے ہیں کیونکہ ان کے اندر موجود سبز مادہ کلوروفل دانتوں کی حفاظت اور صفائی کا کام بھی انجام دیتا ہے اس کے مقابلے میں گوشت کھانے والے اصحاب کے دانت جلد خراب ہو جاتے ہیں۔

دواء خود بنا لیں یاں ہم سے بنی ہوئی منگوا سکتے ہیں
میں نیت اور ایمانداری کے ساتھ اللہ کو حاضر ناضر جان کر مخلوق خدا کی خدمت کرنے کا عزم رکھتا ہوں آپ کو بلکل ٹھیک نسخے بتاتا ہوں ان میں کچھ کمی نہیں رکھتا یہ تمام نسخے میرے اپنے آزمودہ ہوتے ہیں آپ کی دُعاؤں کا طلب گار حکیم محمد عرفان
ہر قسم کی تمام جڑی بوٹیاں صاف ستھری تنکے، مٹی، کنکر، کے بغیر پاکستان اور پوری دنیا میں ھوم ڈلیوری کیلئے دستیاب ہیں تفصیلات کیلئے کلک کریں
فری مشورہ کیلئے رابطہ کر سکتے ہیں

Helpline & Whatsapp Number +92-30-40-50-60-70

Desi herbal, Desi nuskha,Desi totkay,jari botion se ilaj,Al shifa,herbal

 

گندم کے کھیتوں میں پائے جاتے ہیں? جو شریف شعیر

گندم کے کھیتوں میں پائے جاتے ہیں? جو شریف ۔ شعیر

خوردنی اجناس میں جو ایک عام سی جنس ہے۔ یہ گندم کے کھیتوں میں پائے جاتے ہیں اور گندم سے پہلے پک جاتے ہیں۔ عربی اور فارسی میں انہیں شعیر اور انگریزی میں Barley کہتے ہیں۔

barley-jou

اگرچہ یہ کاشت کئے جاتے ہیں مگر اس کی خودرو قسم بھی پائی جاتی ہے۔
تاجدار انبیاء صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کو جو بہت پسند تھے۔ یوں تو عرب میں ستو گندم سے بھی بنائے جاتے ہیں مگر ان کو جو سے بنے ستو پسند تھے۔
حضرت یوسف بن عبداللہ بن سلام رضی اللہ تعالٰی عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا کہ آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے جو کی روٹی کا ٹکڑا لیا۔ اس کے اوپر کھجور رکھی اور فرمایا کہ یہ اس کا سالن ہے اور کھالیا۔ (ابو داؤد شریف)
جو کوٹ کر انہیں دودھ میں پکانے کے بعد مٹھاس کیلئے اس میں شہد ڈالا جاتا ہے۔ اسے تلبینہ کہتے ہیں۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کے اہل خانہ میں سے جب کوئی بیمار ہوتا تھا تو حکم ہوتا تھا کہ اس کے لئے جو کا دلیہ تیار کیا جائے۔ پھر فرماتے تھے کہ بیمار کے دل سے غم کو اتار دیتا ہے اور اس کی کمزوریوں کو اتار دیتا ہے جیسے کہ تم میں سے کوئی اپنے چہرے کو پانی سے دھو کر اس سے غلاظت اتار دیتا ہے

ابن ماجہ
اس سے معلوم ہوا دلیا مریض کو مسلسل اور بار بار دینا اس کی کمزوری کو دور کرتا ہے اور اس کے جسم میں بیماری کا مقابلہ کرنے کی استعداد پیدا کرتا ہے۔
جو کا دلیا مریض کو کھلانے سے قوت حاصل ہوتی ہے۔ ابن القیم نے جو کے پانی کو پکانے کا جس نسخہ بیان کیا ہے۔ اس کے مطابق جو لے کر ان سے پانچ گنا پانی ان میں ڈالا جائے۔ پھر انہیں اتنا پکایا جائے کہ پانی دودھیا ہو جائے اور اس کی مقدار میں کم از کم ایک چوتھائی کی کمی آ جائے۔ اس غرض کیلئے اگر ثابت جو استعمال کرنے کی بجائے جو کا دلیہ استعمال کیا جائے تو جو سے حاصل ہونے والے فوائد اور زیادہ ہو جائیں گے۔ یہ امر صریح ہے کہپکنے کے بعد جو کا پانی فوری اثر کرکے طبیعت کو بشاش بناتا ہے۔ جسم کو کمزوری کا مقابلہ کرنے کیلئے غذا مہیا کرتا ہے۔ اگر اسے گرم گرم پیا جائے تو اس کا فوری اثر شروع ہوکر جسم میں حرارت پیدا کرتا، مریض کے چہرے پر شگفتگی لاتا ہے۔

پیٹ کی جملہ سوزشوں کا علاج
جو کے چار بڑے چمچے 2/1 2 اونس چار سیر پانی میں اتنی دیر پکاتے جائیں کہ پانی کی نصف رہ جائے۔ یہ پانی آنتوں اور معدہ کی سوزش، بخاروں کی تپش، پیشاب کی جلن، مقعد کے ناسور کی جلن اور گردوں کی سوزش میں مفید ہے۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنہا روایت فرماتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔ “گردے کا مرکز اس کی جان ہے۔ اگر اس میں سوزش ہو جائے تو جس کا گردہ ہے، اسے بڑی اذیت ہوتی ہے۔ اس کا علاج ابلے ہوئے پانی میں شہد ملاکر کیا جائے۔ پانی کو ابالتے وقت اگر اس میں جو بھی شامل کرلیں تو فوائد سر گنا ہو جائیں گے۔ یہ لذیذ شرابت گردوں کی ہمہ اقسام کی سوزشوں، مثانہ کی سوزش اور معدہ کے السر میں کسی بھی دوائی سے زیادہ مفید اور فوری طور پر مؤثر پایا گیا ہے۔
بھارتی ماہرین نے زچہ کے دستوں میں جو کے ساتھ مسور کی دال ابال کر یا یخنی میں جو ڈال کر دینا کمزوری کیلئے بھی مفید بیان کیا ہے۔ انہوں نے معدہ، آنتوں اور گلے کی سوزش کیلئے یہ نسخہ مجرب بیان کیا ہے۔
انجیر خشک 2/1 2 اونس
منقی 2/1 2 اونس
سفوف ملٹھی 2 چمچے
جو کا پانی 2 سیر
سادہ پانی 1سیر
جب یہ پانی پکنے پر آدھا رہ جائے تو اتار کر چھان لیں۔ آدھ پیالی چائے والی گرم گرم دی جائے۔ یہ نسخہ ایک تاریخی نسخے سے حاصل کیا معلوم ہوتا ہے۔ مکہ معظمہ میں جب حضرت سعد رضی اللہ تعالٰی عنہ ابن وقاص بیمار ہوئے تو ان کیلئے حکیم حارث بن کلدہ نے ایک نسخہ کیا جسے نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم سے مشورہ کے بعد اس طرح تیار کیا گیا تھا، انجیر خشکی، ملٹھی، میتھرے، شہد، پانی۔
یہ فریقہ مریض کو نہار منہ گرم گرم پلایا جاتا ہے۔ بھارت ماہرین کے نسخہ میں جوکی آمیزش ہے جبکہ اس نسخہ میں میتھرے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے انجیر اور منقی کو بیک وقت دینے سے منع فرمایا ہے اور یہی وجہ ہے کہ بھارتی نسخہ میں اکثر مریضوں کو اسہال شروع ہو جاتے ہیں۔ (طب نبوی اور جدید سائنس)

پیشاب کے جملہ عوارض کا علاج
پیشاب میں خون اور پیپ کے مریضوں میں وجہ کوئی بھی ہو، مناسب علاج کے ساتھ جو کا پانی اگر شہد ڈال کر پلایا جائے تو یہ تکلیف پندرہ روز میں ختم ہو جاتی ہے۔ بعض اوقات یہی طریقہ پتھری نکالنے کا باعث بھی ہوا۔

کولیسٹرول کم کرنے کا علاج
اب یہ بات پایہ ثبوت تک پہنچ گئی ہے کہ جو کا دلیا (تلبنیہ) کھانے سے خون کی کولیسٹرول کم ہو جاتی ہے۔ متعدد تجربات کے بعد جو کا دلیہ کھانے سے دل کے دورے کا خدشہ کم ہو جاتا ہے اور خون کی کولیسٹرول کم ہو جاتی ہے۔ دل کے ہر مریض کو بلڈ پریشر سمیت نہار منہ جو کا دلیہ شہد ڈال کر دیا جائے تو نتائج شاندار ہوتے ہیں۔ بہرحال تلبنیہ دل کے تمام مسائل کا مکمل علاج ہے۔

ویدک طب میں جو ہر تجربات

ویدک طب میں اسے بھاری پن کو کم کرنے والا، چہرے کو نکھارنے والا، پیٹ کو کم کرنے والا قرار دیا ہے۔ بدن کو مضبوط کرتا ہے۔ چونکہ یہ جلد ہضم ہو جاتا ہے، اس لئے کمزوری اور بدہضمی سے ہوا نکالنا اور ملین ہے۔ اس کا گرم پانی پینے سے گلے کی سوزش میں کمی آتی ہے۔ اس کا مریدہ قابض دواؤں کے ساتھ دست روکتا ہے۔ جو کا آٹا گوندھ کر اس میں چھاچھ ملاکر پینے سے صفراوی قے۔ پیاس کی شدت اور معدہ کی سوزش میں فائدہ ہوتا ہے۔
اطباء نے اعصابی دردوں، اورام، سوزشوں اور خارش کی مختلف اقسام میں جو کے استعمال کو مفید بتایا ہے۔ جو کا آٹا سرکہ میں گوندھ کر ہر قسم کی خارش میں لگانا مفید ہے۔ سر کی پھپھوندی کو دور کرتا ہے۔ جو کے آٹے کو شہد کے پانی میں دوندھ کر لیپ کریں تو بلغمی اورام تحلیل ہوتے ہیں۔ سفر جل (بہی) کا چھلکا اتار کر اسے جو اور سرکہ کے ساتھ پیس کر جوڑوں کے درد اور اعصابی دردوں پر لگانا نفع آور ہے۔ جو کے ساتھ تخم ضیاپن پیس کر پلورسی پستان کے درد میں لگانا مفید ہے۔ جو اور گیہوں کی بھوسی کو پانی میں ابال کر اس پانی سے کلیاں کریں تو دانت کا درد جاتا رہتا ہے۔ جو کے بارے میں حکماء نے بڑے اہم تجربے کئے ہیں۔ بو علی سینا نے لکھا ہے کہ جو کھانے سے خون پیدا ہوتا ہے۔ وہ معتدل، صالح، اور کم گاڑھا ہوتا ہے۔ فردوس الحکمت میں لکھا ہے کہ جو کوئی اس کے وزن سے پندرہ گنا پانی میں اتنی دیر ہلکی آگ پر پکایا جائے کہ تیسرا حصہ اڑ جائے۔ یہ پانی جسم کی تقریباً ایک سو بیماریوں میں مفید ہے۔ شمس الدین ثمرقندی اسے فوائد کے لحاظ سے گندم سے کم درجہ دیتا ہے مگر گندم سے فضیلت دیتا ہے کہ جسم کی گرمی اور تپش کو کم کرتا ہے۔

دواء خود بنا لیں یاں ہم سے بنی ہوئی منگوا سکتے ہیں
میں نیت اور ایمانداری کے ساتھ اللہ کو حاضر ناضر جان کر مخلوق خدا کی خدمت کرنے کا عزم رکھتا ہوں آپ کو بلکل ٹھیک نسخے بتاتا ہوں ان میں کچھ کمی نہیں رکھتا یہ تمام نسخے میرے اپنے آزمودہ ہوتے ہیں آپ کی دُعاؤں کا طلب گار حکیم محمد عرفان
ہر قسم کی تمام جڑی بوٹیاں صاف ستھری تنکے، مٹی، کنکر، کے بغیر پاکستان اور پوری دنیا میں ھوم ڈلیوری کیلئے دستیاب ہیں تفصیلات کیلئے کلک کریں
فری مشورہ کیلئے رابطہ کر سکتے ہیں

Helpline & Whatsapp Number +92-30-40-50-60-70

Desi herbal, Desi nuskha,Desi totkay,jari botion se ilaj,Al shifa,herbal

 

بیوی ؟ آپ سے کیا چاہتی ہے

wife

بیوی ؟ آپ سے کیا چاہتی ہے

گھر کو گھر بنانا اور آپ کو خو ش ومطمئن رکھنا محض آپ کی بیوی ہی کی ذمہ داری نہیں ہے بلکہ آپ کی ذمہ داری بھی ہے۔ جس طرح آپ چاہتے ہیں کہ بیوی آپ کی مر ضی اور خوا ہش کے مطا بق کام کرے ۔ اسی طر ح ایک شو ہر اور خاندان کا سربراہ ہونے کے نا طے آپ پر بھی ذمہ داری عائد ہو تی ہے کہ آپ اپنی بیوی کی جا ئز خوا ہشات کا احترام کریں اس مقصد کے لیے ضروری ہے کہ آپ اس کی پسند و نا پسند معلوم کریں ۔ یہ جاننے کی کو شش کریں کہ آپ کی بیوی آپ سے کیا چاہتی ہے ؟ اور کیا نہیں چا ہتی ؟
ماہرین نے اس ضمن میں بتا یا ہے کہ میا ں اور بیوی کے درمیان جسمانی اور معاشر تی فرق کی وجہ سے دونو ں کے درمیان غلط فہمیا ں پیدا ہو جا تی ہیں ۔ جس کے نتیجے میں گھریلو زندگی متا ثر ہوتی ہے ۔ ان اختلا فات کی وجہ جان کر اور ان کا مداوا کرکے میا ں بیوی ایک دوسرے کے قریب آسکتے ہیں اور اپنی گھریلو زندگی کو خوش گوار بنا سکتے ہیں۔ ذیل میں ہم چیدہ چیدہ نکا ت بیان کر رہے ہیں ۔ جن سے اندا زہ کیا جا سکتا ہے کہ آپ کی بیوی آپ سے کیا چاہتی ہے ؟ ان نکا ت کو غور سے پڑھ کر اور ان کے مطابق عمل کر کے آپ بیوی کو خوش اور گھر کے ما حول کو خوش گوار بنا سکتے ہیں ۔
پر کشش رہنے کی خو اہش
ایک بیوی کے لیے یہ با ت بہت اہم ہو تی ہے کہ اس کے شوہر کی نظرمیں وہ خوبصورت اور پرکشش ہو ۔ خوا ہ وہ کتنی ہی موٹی ، بھدی اور سانولی کیو ں نہ ہو ۔ آپ نے بھی غور کیا ہو گا کہ بیویا ں آئے دن اپنے شوہروں سے سوال کر تی ہیں ” میں کیسی لگ رہی ہو ں“ اس سوال کے پیچھے اصل میں ان کی یہ نفسیات کام کر رہی ہو تی ہیں کہ ان کے شوہر اب بھی ان میں دلچسپی رکھتے ہیں یا نہیں ۔ اس قسم کے سوالو ں کے مثبت اور پُر محبت جواب دیجئے ۔ کیا میں آج بھی اتنی ہی پیا ری ہو ں کہ جب دلہن بنی تھی؟ کیا میں آج بھی جوانی کی طر ح پر کشش ہوں ؟ وغیرہ وغیرہ ۔ اس قسم کے سوالات ہیں ۔ جن کا کوئی واضح اور درست جوا ب گو بہت مشکل ہوتا ہے۔ تا ہم بیوی کا یہ سوالات کرنے کا اصل مقصد محض یہ اندا زہ لگانا ہوتاہے کہ کیا اب بھی وہ مجھ سے اتنا ہی پیار کر تا ہے جتنا کہ وہ ابتدائی ایام میں کر تا تھا؟ اگر آپ بیوی کو اس مو قع پر خو ش و مطمئن کرنے میں کامیا ب ہو جا تے ہیں اور اسے اپنی محبت کا یقین دلا تے ہیں تو وہ آپ کے لیے ہر قسم کی قر بانی دینے کے لیے پہلے سے زیادہ مستعد رہے گی ۔

جسمانی سے زیا دہ جذبا تی لگا ﺅ
مر دو ں اور عورتو ں میں ایک بڑا نا زک اور اہم فر ق یہ ہو تاہے کہ مر د اپنی بیو ی سے جسمانی و جنسی لگاﺅ کا زیا دہ خوا ہش مند ہو تا ہے ۔ جب کہ عورت کو اپنے مر د سے جذبا تی اور قلبی لگا ﺅ کی ضرورت ہو تی ہے ۔ یہ نا زک فرق میا ں اور بیوی کے درمیا ن نا چا قی کا باعث بھی بن جا تاہے ۔ جو مر د اپنی بیویو ںسے کم کم بو لتے ہیں ۔ ان کی با تو ں پر تو جہ نہیں دیتے ، انہیں اس با ت پر خاص توجہ دینی چاہیے کہ ان کی بیویا ں ان کی آواز سننے کے لیے بے تا ب رہتی ہیں ۔ حتیٰ کہ اگر دفتر سے ان کے شو ہر کا فون آجائے اور انہیں ایک جملہ ہی سننے کو مل جائے تو گھنٹو ں شوہر کی آوا ز ان کے کا نو ں میں رس گھولتی رہتی ہے ۔ شوہروں کو چاہیے کہ گھر سے دفتر اور دفتر سے گھر آتے وقت چند جملے دل لگی اور چاہت کے اندا ز میں ضرور کریں تاکہ وہ آپ کی عدم مو جو دگی میں آپ کی با تو ں کو سو چ کر خو ش و خرم رہے ۔

گھریلو اشیا ءکے تحفے
تحفہ یقینا محبت بڑھا تا ہے اور الفت پیدا کر تا ہے اور میا ں بیوی کے درمیا ن تعلق میں تو اس کی اہمیت اور بڑھ جا تی ہے لیکن تحفے کا انتخا ب اصل چیز ہے ۔ مر د اپنی بیویو ں کو کوئی گھریلو شے تحفے میں دے تو اس سے بیو ی
کو خاص دلچسپی نہیں ہو تی ۔ اس قسم کے تحفو ں میں بیوی سے انس اور پیا ر و محبت کا عکس نظر نہیں آتا ۔ جب آپ اس قسم کا کوئی تحفہ اپنی بیوی کو دیتے ہیں تو بیوی پر یہ ظاہر ہو تاہے کہ آپ کو اپنی بیوی سے زیا دہ اپنی پسند اور خوا ہش کی پرا وہ ہے ۔ بیوی اپنے شو ہر سے ایسا تحفہ چاہتی ہے جس سے یہ اظہا ر ہو کہ شوہر نے بیوی کی خو اہش کا احترام کیا ہے ۔ مثال کے طور پر اپنی بیو ی کو اس کی پسند کی کوئی کتا ب ، رسالہ یا اس کی پسند کے کپڑے اور جیو لری کا تحفہ دینا بیوی کے لیے زیا دہ خوشی کا با عث ہو گا ۔ اس لیے شوہروں کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی بیوی کی پسند پر نظر رکھیں اور پھر جان لینے کے بعد جب بھی مو قع ملے ، چاہت سے پیش کر دیں یقینا آپ کی بیوی جھو م اٹھے گی ۔

اولین ترجیح کی تمنا
یہ با ت ذہن میں رکھئیے کہ مر د اور عورت کے حسد کی وجہ الگ الگ ہو تی ہے ۔ مثلا ًجنسی طور پر زیا دہ فعال بیوی سے شوہر بد گمان ہو سکتا ہے ۔ جب کہ بیوی اس وقت کڑھتی ہے جب اس کا شوہر ا س سے دو رہو تا ہے ۔ خواہ دوستوں میں بیٹھا ہو یا اخبا ر پڑھ رہا ہو ۔ ایک بیوی یہ محسو س کرنا چاہتی ہے کہ وہ اپنے شو ہر کی پہلی ترجیح ہے ۔ آپ ایک شو ہر ہیں اور یقینا آپ کی بیوی آپ کی اولین ترجیح ہے ۔ اس لیے ہوسکتا ہے کہ آپ یہ کہیں کہ میری بیوی یہ جا نتی ہے کہ وہ میری اولین ترجیح ہے ۔ لیکن جب آپ گھر سے با ہر ہو تے ہیں تو آپ کی بیوی کئی قسم کے وسوسو ں کا شکا ر ہو کر بعض اوقات ا س شک میں مبتلا ہو سکتی ہے کہ شا ئد وہ آپ کی اولین پسند نہ ہو۔ یہی معاملہ اس وقت بھی پیش آسکتا ہے جب آپ گھر پرہو تے ہو ئے بھی بیوی پر بھر پو ر تو جہ نہ دے رہے ہو ں ۔ وہ ایسے میں خیا ل کر تی ہے کہ آپ اسے مستر د کر چکے ہیں اس لیے ضروری ہے کہ جب آپ گھر پر ہوں تو اپنی بیوی پر بھر پو ر توجہ دیجئے ۔ اس کے کا مو ں کی تعریف کیجئے اور زیا دہ سے زیادہ سے وقت اس کے ساتھ گزارئیے تاکہ آپ کی بیوی کسی بھی قسم کے وسوسے یا شکوک و شبہا ت میں مبتلا ہو کر گھریلو امن و سکون اور سلا متی کو تہہ و با لا نہ کردے۔ کا میا ب زندگی گزارنے کے لیے یہ ایک اہم اصول اور بنیا دی نقطہ ہے ۔

بیوی کا ہا تھ بٹائیں
آپ کتنے ہی بڑے عہدے پر کیو ں نہ ہو ں ۔ گھریلو زندگی کو خوشگوار بنانے کے لیے بیوی کے ساتھ کا م کا ج میں شرکت مفید ہے ۔ وہ چا ہتی ہے کہ چھٹی کے دن اگر وہ سا لن بنا رہی ہے تو آپ سلا د کا ٹ لیں وہ بر تنو ں پر صابن لگا کر پانی سے دھو رہی ہے تو آپ یہ بر تن اٹھا کر الما ری میں رکھتے جا ئیں ۔ بیوی کو اس وقت بہت خو شی ہو تی ہے کہ جب وہ اپنے شوہر کو اپنے ساتھ گھریلو کا م کاج کرتے دیکھتی ہے ۔ عام طور پر شوہر یہ سمجھتے ہیں کہ امور خانہ داری محض بیویو ں کی ذمہ دا ری ہے اور وہ گھر میں کھانا کھا نے ، اخبا ر پڑھنے اور صرف سونے آتے ہیں۔ سو چ کا یہ اندا ز بالکل غلط ہے ۔ گھر کی زندگی ایک جما عت اور ٹیم کی طر ح ہے۔ چنانچہ یہ گھریلو کام جس طر ح دعوت کی ذمہ داری ہے ، اسی طرح شو ہر کی بھی ہیں ۔ یا درکھئیے ! آپ کی بیوی آپ کو محض اپنا شریک حیا ت ہی تصور نہیں کر تی بلکہ وہ آپ کو اپنا شریک کا ر بھی بنا نا چاہتی ہے۔ روز گا رکے لیے گھر سے جا نے سے پہلے اور آنے کے بعد ایک کونے میں پڑے رہنا یعنی بے اعتنا ئی والا رویہ ظاہر کرنا اور بیوی کو اپنے ذاتی کا موں کی فرمائشیں کر کے گھر یلو کام کا ج میں بے وقت مخل ہو تے رہنا ، بیوی کو ہر گز پسند نہیں ہوتا۔
یا د رکھئیے ! گھر میں ہونے والے میا ں بیوی کے جھگڑو ں میں جہا ں ایک وجہ رقم ہو تی ہے ۔ وہا ں دوسرا اہم سبب گھریلو کام کا ج بھی ہیں ۔ جو مر د گھریلو کا م کا ج اور بچو ں کی دیکھ بھال میں اپنی بیویو ں کا ہا تھ بٹاتے ہیں ، وہ پر سکون خانگی زندگی گزارتے اور بیویو ں سے بہتر تعلق رکھتے ہیں ۔