Al-Shifa Naturla Herbal Laboratories (Pvt), Ltd.    HelpLine: +92-30-40-50-60-70

سگریٹ نوشی خارش کی بیماری سورائیسس کا باعث بنتی ہے۔

امریکہ کے طبی ماہرین نے کہا ہے کہ سگریٹ نوشی جلد میںکھجلی اورخارش کے مرض سورائیسس کے باعث بھی ہوتی ہے۔ امریکی ماہرین امراض جلد نے اس ضمن میںسورائیسس کے 557 مریضوں میں موٹاپے اورسگریٹ نوشی کے کردار کاجائزہ لینے کیلئے مریضوں کا تقابلی مطالعاتی جائزہ لیا جس کے دوران معلوم ہواکہ سورائیسس(جلد میں خارش اورکھجلی) کی بیماری سگریٹ نوشوں میں 73 فیصدپائی جاتی ہے جبکہ مطالعاتی تحقیق میں سگریٹ نہ کرنے والے سورائیسس کے مریضوں میں یہ
بیماری 13 فیصد سے لے کر 25 فیصد تک پائی گئی اسی طرح موٹے مریضوں میںبیماری کی شرح 34 فیصد پائی گئی جبکہ ایسے مریض جوزائدالوزن یا موٹے نہیں تھے ان میں بیماری کی شرح 18 فیصد رہی۔ ماہرین کے مطابق سگریٹ نوشی کا جلد کی بیماریسورائیسس کا باعث بننے کی وجہ جسم کے مدافعتی نظام کو متاثر کرنا ہے اس لئے سگریٹ نوشی کا جلد کی اس بیماری سے براہ راست تعلق ہے۔ ماہرین نے تجویز کیا کہ سورائیسس کے علاج میں سگریٹ نوشی فوراً ترک کردینا بڑی اہمیت کا حامل ہوتا ہے

دہی کا باقاعدہ استعمال اچھی صحت اور درازی عمر کا سبب بنتا ہے

دہی کو عربی میں ”لبن“ فارسی میں ”ماست“ اور انگریزی میں یوگرٹ  کہتے ہیں ۔ صدیوں سے یہ انسانی خوراک کا حصہ رہا ہے ۔ زمانہ قبل از تاریخ کا انسان بھی گائے‘ بکری‘ بھینس‘ اونٹ اور بھیڑ کے دودھ کو بطور غذا استعمال کیا کرتا تھا۔ ان کے مویشیوں کے دودھ کی مقدار کم ہوتی تھی اس لیے وہ اسے جانوروں کی کھالوں یا کھردرے مٹی کے برتنوں میں جمع کرلیتے تھے تاکہ بہ وقت ضرورت آسانی سے استعمال میں آجائے۔
شروع شروع میں اسے جانوروں سے حاصل کرنے کے بعد اسی طرح کچی حالت میں رکھنے کی کوشش کی گئی لیکن کچے دودھ کو محفوظ حالت میں رکھنا‘ وہ بھی اس طرح کہ اس کی غذائیت بھی برقرار رہے ناممکن سی بات ثابت ہوئی۔ اس مسئلے کا حل اتفاقی طور پر دریافت ہوگیا۔ کہا جاتا ہے کہ جنوب مغربی ایشیا کے وسیع علاقوں میں سفر کرنے والے ”نوماد“ قبیلے والے دودھ کی شکل میں اپنی رسد کو بھیڑ کی کھال سے بنے ہوئے تھیلے میں رکھا کرتے اور اسے اپنے جانوروں کی پیٹھ پر باندھ دیا کرتے تھے۔ ایام سفر میں وہ تھیلے مسلسل ہلتے رہتے اس پر سورج کی تپش بھی اپنا اثر دکھاتی رہتی۔ نتیجتاً ہ دودھ خمیر بن کر نیم ٹھوس شکل اختیار کرلیتا۔ وہ اس بات سے ناواقف تھے کہ بھیڑ کی کھال کے اندرونی حصے میں چھپے ہوئے بیکٹریا نے دودھ کو خمیر کرکے دہی کی شکل دے دی ہے۔

ابتداء میں دودھ کی اس شکل کو بہت کم مقدار میں استعمال کیا جاتا تھا کیوں کہ نو ماد قبیلے والے اسے زہریلا سمجھتے تھے پھر آہستہ آہستہ تجربے سے یہ بات سامنے آئی کہ دودھ کی یہ نئی شکل مضر صحت نہیں معجزاتی غذا ہے ۔ جب اس کی افادیت سامنے آئی تو اسے بنانے کا طریقہ دریافت کیا گیا۔ دودھ کو جمانے کے لیے انہوں نے اس میں تھوڑا سا دہی ملالیا ۔ اس تجربے نے کامیابی عطا کی اور پھر دھیرے دھیرے یہ بات بھی ثابت ہوگئی کہ کھٹا اور خمیر کیا ہوا دودھ تازہ دودھ سے بہت زیادہ فائدے مند ہے ۔ یہ نہ صرف زیادہ عرصے تک اچھی حالت میں رہتا ہے بلکہ اس کا ذائقہ بھی مزیدار ہوجاتا ہے۔

بلغاریہ کے لوگوں کی طبعی عمر دیگر ممالک سے زیادہ ہے۔ سائنسدانوں نے مسلسل تجربوں اور تجزیہ کے بعد پتا چلایا کہ اس کی ایک وجہ دہی بھی ہے۔ وہاں کے لوگ دہی کا استعمال بہت زیادہ کرتے ہیں۔

فرانس میں اسے ”حیات جاوداں“ کا نام دیا گیا ہے۔ 1700ء میں فرانس کا کنگ فرسٹ کسی بیماری میں ایسا مبتلا ہوا کہ کوئی علاج کارگر نہیں ہوتا تھا۔ بادشاہ سوکھ کا کانٹا ہوگیا تھا۔ نقاہت اس قدر بڑھ گئی تھی کہ وہ بیٹھنے کی قوت بھی کھو چکا تھا۔ اس کے علاج کے لیے مشرق بعید کے ایک معالج کو بلایا گیا۔ اس نے بادشاہ کو صرف دہی کا استعمال کرایا اور کنگ فرسٹ صحت یاب ہوگیا۔

فرانس ہی کے ایک ماہر جراثیم پروفیسر میچسنٹکو لکھتے ہیں کہ دہی درازی عمر کی چابی ہے۔ اس کے استعمال سے نہ صرف انسان بہت سی بیماریوں سے محفوظ رہتا ہے بلکہ عمر بھی طویل پاتا ہے۔

Live longer look younger نامی کتاب میں مصنف نے اسے معجزاتی غذا کہا ہے۔

1908ءکے نوبل انعام یافتہ ایلی میٹ ٹنگوف وہ پہلا ماہر تھا جس نے برسوں کی تحقیق کے بعد اس کے خواص پر تحقیق کی اور بتایا کہ یہی وہ غذا ہے جو انسان کو طویل عمرگزارنے کے مواقع فراہم کرتی ہے۔

آنتوں کے نظام کے اندر ایک خاص تعداد میں بیکٹیریا پائے جاتے ہیں جنہیں فلورا کہا جاتا ہے۔ دہی فلورا کی پرورش میں معاون ثابت ہوتا ہے۔ انٹی بایوٹک ادویات فلورا کو ختم کردیتی ہیں اسی لیے بعض ڈاکٹر صاحبان اینٹی بائیوٹک ادویات کے ساتھ دہی کھانے کا مشورہ دیتے ہیں۔ دہی بیکٹیریا کے انفیکشن کو بھی روکتا ہے۔

غذائی ماہرین کے مطابق دہی میں پروٹین‘ کیلشیم اور وٹامن بی اچھی خاصی مقدار میں موجود ہوتی ہے۔ البتہ آئرن اور وٹامن سی اس میں بالکل نہیں ہوتا۔ گائے کے دودھ کے مقابلے میں بھینس کے دودھ سے بنا ہوا دہی زیادہ طاقتور ہوتا ہے۔ اس میں چکنائی پروٹین اور دوسرے غذائی اجزاءزیادہ پائے جاتے ہیں۔ دہی کے اوپر جو پانی ہوتا ہے اس میں وٹامن اورمنرلز وغیرہ اچھی خاصی مقدار میں موجود ہوتی ہیں کیوں کہ وہ دودھ کا ہی پانی ہوتا ہے۔ جب دودھ جمتا ہے تو پانی اس کے اوپر آجاتا ہے جسے دہی میں ملالیا جاتا ہے۔

دہی نہ صرف کھانوں کو لذت بخشتا ہے بلکہ غذائیت بھی فراہم کرتا ہے۔ جسم کی ضروریات کو بھی پورا کرتا ہے۔ اس کی سب سے بڑی خاصیت یہ ہے کہ یہ نہ صرف بہ آسانی ہضم ہوجاتا ہے بلکہ آنتوں کے نظام پر بھی خوشگوار اثر ڈالتا ہے۔ اسے صحت مند بنانے میں معاون ثابت ہوتا ہے۔ اس میں چکنائی اور حرارے انتہائی کم مقدار میں ہوتے ہیں۔ ایک کپ دہی کے اندر صرف 120حرارے (کلوریز) پائے جاتے ہیں۔ اتنی کم مقدار میں کلوریز کے حامل دہی میںایسے کئی اقسام کے غذائی اجزاءہوتے ہیں جو انسانی صحت کے لیے انتہائی ضروری ہیں۔ مثلاً پروٹین‘ مکھن نکلے دودھ سے بنے دہی کے ایک کپ میں 8 گرام پروٹین ہوتی ہے۔ جب کہ خالص دودھ سے بنے دہی کے ایک کپ میں 7 گرام۔ دہی کی اتنی ہی مقدار میں (مکھن نکلے ہوئے دودھ سے بنائے گئے دہی میں) ایک ملی گرام آئرن‘ 294 ملی گرام کیلشیم‘ 270 گرام فاسفورس‘ 50 ملی گرام پوٹاشیم اور 19 ملی گرام سوڈیم پایا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ وٹامن اے (A) 170 انٹرنیشنل یونٹ۔ وٹامن بی (B) ایک ملی گرام۔ تھیا مین 44 ملی گرام۔ وٹامن بی (ریبوفلاوین) 2 ملی گرام اور وٹامن سی (ایسکور بک ایسڈ) بھی 2 ملی گرام پایا جاتا ہے۔

ڈائٹنگ کرنے اور وزن کرنے والوں کے لیے دہی ایک آئیڈیل خوراک ہے کیوں کہ اس کے اندر حراروں کی تعداد انتہائی کم ہوتی ہے جس کی مقدار اوپر لکھی جاچکی ہے۔ مندرجہ بالا مقدار میں 13 گرام کاربوہائیڈریٹس پائے جاتے ہیں۔ اسی طرح چکنائی کی مقدار بھی بہت کم ہوتی ہے۔ دہی کے ایک کپ میں 4 گرام چکنائی پائی جاتی ہے۔ جب کہ خالص دودھ سے بنے دہی میں یہ مقدار بڑھ کر 8 گرام ہوجاتی ہے۔

دہی میں ایک خاص قسم کے بیکٹیریا پائے جاتے ہیں۔ یہ بیکٹیریا ایک خاص درجہ حرارت پر رکھے جانے والے دودھ کے اندر بڑی تیزی سے پیدا ہوکر بڑھتے چلے جاتے اور دودھ کو نصف ٹھوس حالت میں لادیتے ہیں جسے دہی کہا جاتا ہے۔ یہ بیکٹیریا بہت بڑی مقدار میں وٹامن بی مہیا کرتے ہیں جو آنتوں کے نظام کو صحت مند رکھنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

دودھ کے کھٹا ہوتے ہی لیکٹوز خمیر ہوجاتا ہے جس کے نتیجے میں وہ ایک شفاف مایہ کی شکل اختیار کرلیتا ہے جسے لیکٹک ایسڈ کہتے ہیں ۔ یہ نظام ہضم کو قوت فراہم کرنے کے علاوہ غذا کو ہضم کرنے میں بھی مدد دیتا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ وزن کم کرنے میں بھی معاون ثابت ہوتا ہے۔ دہی کے بیکٹیریا کی زندگی کا انحصار لیکٹوز پر ہے۔ وہی اسے لیٹک ایسڈ میں تبدیل کرتی ہیں۔ لیکٹوز کی خاصیت ہے کہ وہ توانائی کی بڑی مقدار فراہم کرنے کے ساتھ آنتوں کی صحت کا بھی ضامن ہے۔

 

Read More

افسردگی معاشی بوجھ بڑھاتی ہے

عالمی ادارۂ صحت کا کہنا ہے کہ صحت کے شعبہ میں دو ہزار تیس تک ڈپریشن یا افسردگی عالمی سطح پر سب سے زیادہ معاشی بوجھ کا سبب ہوسکتی ہے۔ تاہم جسمانی عوارض، مثلاً ایڈز، یا دل کے امراض کے مقابلے میں افسردگی اور دوسرے ذہنی امراض کے بارے میں اب بھی نہ تو زیادہ بات کی جاتی ہے اور نہ ہی ان کے علاج کے لیے زیادہ رقوم دستیاب ہیں۔
جو لوگ طویل عرصے تک افسردگی یا اداسی کا شکار رہے ہیں، وہ اس کیفیت کو تباہ کن قرار دیتے ہیں کیونکہ اس میں معمولات زندگی انجام دینا ناممکن ہوجاتا ہے۔ اس کیفیت کو ڈپریشن، شدید مایوسی، انتہائی اداسی یا غمگینی کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔

افسردگی کا شکار رہنے والے ایک شخص نے ذہنی امراض سے متعلق بی بی سی ٹیلی ویژن کے ایک پروگرام میں بتایا کہ ’جب مجھ پر اداسی کا شدید دورہ پڑتا تو میں بالکل بستر سے لگ کر رہ جاتا اور کئی گھنٹے اسی حالت میں گزر جاتے۔ افسردگی بہت بری طرح سے متاثر کرتی ہے اور بعض اوقات یہ کیفیت کئی مہینوں تک جاری رہتی ہے۔

پروگرام میں شریک ایک عورت کا کہنا تھا: ’آپ کا جسم سستی کا شکار ہوجاتا ہے، آپ کا ذہن سست ہوجاتا ہے، آپ کا رویہ منفی ہوجاتا ہے۔ آپ کا دل کچھ کرنے کو نہیں کرتا، اور آپ کچھ کر بھی نہیں پاتے۔ بلا کی اداسی چھا جاتی ہے اور ہر کام ایک کوہ گراں بن جاتا ہے۔‘

تاہم ایک بات قابل غور ہے کہ شدید افسردگی اور عام افسردگی میں بڑا فرق ہے، مثلاً کبھی کبھار ہم سب ہی بوجھل اور غمگین محسوس کرتے ہیں۔ پروفیسر مارٹِن پرنس لندن کے کنگز کالج میں ذہنی امراض کے ماہر ہیں۔ وہ کہتے ہیں: ’یہ علامتیں بہت شدید ہوتی ہیں اور آپ ان کا عادی ہونے لگتے ہیں ۔۔۔ گویا سارا دن اسی کیفیت میں گزار دیتے ہیں، ہر روز یہ کیفیت طاری رہتی ہے اور پھر یہ کئی ہفتوں اور بعض اوقات کئی مہینوں پر محیط ہوجاتی ہے۔ بعض لوگوں کو تو یہ بالکل ناکارہ کر دیتی ہے اور انہیں ہسپتال میں داخل کرنا پڑتا ہے جہاں انہیں انتہائی نگہداشت کی ضرورت ہوتی ہے۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ان علامتوں کی شدت کے مختلف درجات ہیں: یعنی عارضی علامتوں سے لے کر مستقل شدید بیماری تک۔‘

افسردگی ایک ایسی بیماری ہے جو کسی بھی شخص کو عملی طور پر معذور بنا دیتی ہے اور کبھی کبھار تو ایسا شخص معاشرتی طور پر بالکل ناکارہ بن جاتا ہے۔ یہ مریض کو معاشی اور معاشرتی طور پر اپنا کردار ادا کرنے سے روک دیتی ہے۔ مثلاً افسردگی کا دورہ پڑنے پر اگر کوئی اپنا پیشہ ورانہ کام ٹھیک طور پر نہ کرسکے تو بالآخر اس کی نوکری جانے کا خدشہ پیدا ہوجائے گا

دماغی امراض سے متعلق ایک ادارے، سین SANE کی سربراہ مارجری والیس کاکہنا ہے: ’افسردگی کے شکار شخص کی طبیعت گرتی چلے جائے گی، صبح اٹھنا دوبھر ہوجائے گا اور ممکن ہے کہ ملازمت پر جاکر وہ کام کا دباؤ بھی نہ سہہ سکے۔ اس کے بعد ایک چکر سا شروع ہوجائے گا، مریض کی حالت ابتر ہوتی چلی جائے گا وہ اپنا خیال نہیں رکھ سکے گا۔ اس مریض کی کیفیت اُس شخص سے مختلف ہے کہ جو چند روز بیمار رہنے کے بعد ٹھیک ہوجائے اور اپنا کام کرنے لگے۔ ایسے مریض کی حالت تو بد سے بدتر ہوتی جاتی ہے، یہاں تک کہ وہ کنگال ہو جاتا ہے، اس کا مستقبل تاریک ہوجاتا ہے اور پھر وہ معاشرے کے لیے بوجھ بن جاتا ہے۔‘

مگر جسمانی بیماریوں کے مقابلے میں افسردگی یا دیگر ذہنی حالتوں کو زیادہ اہمیت نہیں دی جاتی۔ مثلاً ترقی افتہ ملکوں میں ایک چوتھائی امراض ذہنی ہوتے ہیں۔ مگر صحت کے بجٹ کا صرف آٹھ یا نو فی صد ذہنی امراض کے علاج پر خرچ ہوتا ہے۔ جبکہ ترقی پذیر ملکوں میں صورتحال کہیں زیادہ خراب ہے۔ لنکاسٹر یونیورسٹی کے کیری کُوپر کا کہنا ہے کہ غریب ملکوں میں تو یہ مسئلہ ہنگامی بنیادوں پر توجہ چاہتا ہے۔

 

ہومیوپیتھی پر انحصار صحیح نہیں ہے

عالمی ادارۂ صحت نے خبردار کیا ہے کہ ایچ آئی وی،تپِ دق اور ملیریا جیسی بیماریوں کا شکار افراد کو علاج کے لیے ہومیوپیتھی پر انحصار نہیں کرنا چاہیے۔عالمی ادارۂ صحت کے ماہرینِ تپِ دق کا کہنا ہے کہ ہومیوپیتھی میں اس بیماری کا کوئی ’علاج‘ نہیں ہے۔ عالمی ادارۂ صحت کے شعبۂ ٹی بی کے سربراہ ڈاکٹر ماریو رویگلون کے مطابق’تپِ دق کے علاج کے لیے عالمی ادارۂ صحت کے رہنما اصولوں اور اس مرض میں مبتلا افراد کی دیکھ بھال کے بین الاقوامی معیار کے مطابق ہم ہومیوپیتھی طریقۃ علاج کی سفارش نہیں کر سکتے‘۔
رطانوی ماہرِ طب ڈاکٹر رابرٹ ہنگن کا کہنا ہے کہ ’دنیا بھر کی حکومتوں کو چاہیے کہ وہ مہلک بیماریوں کے علاج کے لیے ہومیوپیتھی کی ترویج کے خطرات کو پہچانیں‘۔ ڈاکٹروں نے اس امر پر بھی خدشات ظاہر کیے ہیں کہ ہومیوپیتھی کو بچوں میں اسہال کے علاج کے طور پر بھی پیش کیا جا رہا ہے۔ تاہم اس مرض کے حوالے سے عالمی ادارۂ صحت کے مرکز کے ترجمان کا کہنا ہے کہ ’ہمیں آج تک ایسا کوئی ثبوت نہیں ملا کہ اس سلسلے میں ہومیوپیتھی سے کچھ فائدہ ہو سکتا ہے‘۔

 

مردانہ کمزوری کے علاج کا مکمل شادی کورس,only ,tag ,link ,page

مردانہ کمزوری کے علاج کا مکمل شادی کورس


Read More

No Comments مردوں،کے،امراض مخصوصہ،کیلیے، مختلف، دیسی، نسخہ جات , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , ,