Al-Shifa Naturla Herbal Laboratories (Pvt), Ltd.    HelpLine: +92-30-40-50-60-70

گندم کے طبی فوائد

حضور اکرم صلی اللہ وسلم نے ساری عمر میدہ اور چھلنی نہیں دیکھی. صحابی رسول سے پوچھا گیا کہ آپ صلی اللہ وسلم جُو کیسے کھاتے تھے تو فرمایا کہ صرف ایک دو پھونک مار کر بقیہ کو بھوسی سمیت کھا لیتے تھے. حضرت عمرنے اپنے عہد خالفت میں گورنروں کو جو سر کلر(ہدایت نامہ) جاری کیا تھا.اس میں بھی انہیں آٹے میں سے چوکر نکالنے سے منع کیا تھا..
” اب جدید تحقیق سے ثابت ہوا کہ گندم کو باریک پیسنے یعنی میدہ بنانے سے اس کے بیس(20) قسم کے اہم اور مفید اجراءضائع ہو جاتے ہیں.گندم کے چھلکے میں کئی قسم کے وٹامن ملے ہوتے ہیں. اس کے علاوہ چوکر بلڈ پریشر ، شوگر، دل کی بیماریوں میں مفید ہے.”

شوگر کے مریض کیا کھائیں

شوگر کے مریض کیا کھائیں
اس مرض کے مریضوں کی تعداد خطر ناک حد تک بڑھ رہی ہے ، اس مرض سے محفوظ رہنے کے لیے ضروری ہے کہ اپنے کھانے پینے پر خصوصی توجہ دیں  ڈائبیٹک پیشنٹ       (شوگر کے مریض )      کے لیے دوا کے ساتھ غذ ا پربھی توجہ دینا ضروری ہے کیوں کہ اس موذی مرض میں پرہیز بہت ضروری ہے ، بعض حضرات پرہیز کے نام پر خو د پر ہر نعمت کو حرا م کر لیتے ہیں اس کے لیے آپ کو ضرف اتنا کرنا ہے کہ غذاوں کے انتخاب میں ڈاکٹروں کے مشورے پر پوری توجہ دیں کیوںکہ متبادل غذاوں کا نظام رہنمائی کے لیے موجود ہے   متبادل غذاوں کا نظام امریکن ڈائبٹک ایسوسی ایشن کی طرف سے 1950کے عشرہ میں متعارف کر ایا گیا تھا وقت کے ساتھ ساتھ اس میں ردو بدل ہوتا رہا  اور آخری تبدیلی یا ترمیم و تنسیخ 1995میں ہوئی ، شوگر کے مریضوں کے لیے غذائی منصوبہ بندی کرنے کیلیے یہ نظام واقعی ایک مدد گار اور اچھی چیز ہے  اس طرح غذاوں کو ان کی غذائیت کی نوعیت او رافادیت کے اعتبار سے چھے گروہوں میں تقسیم کیا گیا ہے اسی طرح متبا دل غذاوں کو بھی چھے فہرستوں میں تقسیم کیا گیا ہے  یہ فہرستیں یا اقسام درج ذیل ہیں
 نشاستہ (کاربوہائیڈ ریٹس )
 گوشت (پروٹین )
دودھ
سبزیاں
پھل
چکنائیاں
مذکورہ بالا تمام فہرستوں میں ہر فہرست متعدد اور متنوع غذائیں رکھتی ہے ، ان کی افادیت کا الگ الگ درجہ ہے جو ظاہر ہے کسی سے کم اور کسی سے زیادہ ہے ،متبادل نظام کا نام اسے اس لیے دیا گیا ہے کہ یہ ایک غذائی فہرست کی چیز کو دوسرے کے متبادل کے طور پر استعمال کرنے کی اجازت دیتا ہے ،استعمال کرتے ہوئے وہ مقدار پیش نظر رکھتے ہیں جو اگلے صفحات میں دی جا رہی ہے ،  تاہم غذائیت میں کوی کمی بیشی نہی ہوتی   کسی بھی غذائی فہرست کی ایک آئٹم میں دی گئی ہے ، مثلااگر آپ کو ناشتہ کے لیے ایک اکائی کا متبادل چننا ہے توآپ ڈبل روٹی کا ایک سلائس یا آدھا کپ دلیہ یا 3/4کپ پکے ہوئے اناج مثلا گندم یا کارن فلیکس کا انتخاب کر سکتے ہیں ، ان غذائی خفیف مقدار مل سکتی ہے ،  یہ سب کچھ آپ کو 80کیلوریز فراہم کر ئے گا ،آپ ان غذاوں میں سے کچھ بھی مقررہ مقدار میں استعمال کر سکتے ہیں کیونکہ ان کی غذائی افادیت ایک جیسی ہے
غذاوں کے انتخاب میں ڈاکٹر کا مشورہ
ممکن ہے ڈاکٹر آپ کوکیلوریز کی روزانہ ضرورت (مجموعی مقدار )بتانے پر اکتفاکرے ، ایسی صورت میں اگلا کام کسی تربیت یافتہ ماہر غذائیت کا ہے کہ وہ مطلوبہ کیلوریز کی مقدار کو غذائی گروہوں میں تقسیم کرے اور پھر ان کیلوریز کی مقداروںکو کاربوئیڈ یٹس پروٹین اور چکنائی کی خفیف مقدار مل سکتی ہے یہ تعین ہو جانے کے بعد متباد ل غذاوںکے نظام کا مرحلہ آتا ہے
متبال غذاوں کا انتخاب دن بھر کے تینوں کھانوں اورایک یاد وقت کے اسٹیکس کے لے کیا جائے گا جو تمام غذائی گروہوں سے ہو گا ، اس لیے مناسب ترین بات یہی ہے کہ پہلے آپ کسی ماہر غذائیت سے مشورہ کر لیں کہ آیا آپ متبادل نظام اپنا سکتے ہیں یا نہیں  اگر آپ خود شوگر کے مریض ہیں تو یہ بات آپ کو غذائی کی اہمیت سمجھنے میں مدد دے گی اور آپ کی اپنی غذائی حکمت عملی زیادہ موثر بنانے میں رہنمائی ملے گی جب  آپ متبادل غذاوں کے نظام کی بنیاد سمجھ جائیں گے تو آپ کو پتا چلے گا کہ خودروزانہ  ترتیب دینا کتنا آسان ہے یہ حقیقت ہمیشہ ذہین میں رکھیے کہ ہر کھانے کے لیے تجویز کردہ جائیں کبھی بھی یہ کوشش مت کریں کہ ایک وقت کے کھانے کے اوقات ہر روز ہی رہیں جو ایک دفعہ مقرر کر لیے جائیں کبھی بھی یہ کوشش مت کریںکہ ایک وقت کے کھانے میں طے شدہ غذاوں کو چھوڑ دیا جائے اوران چھوڑی ہوئی غذاوں کی مقدار اور اگلے  کھانے کے ساتھ استعمال میں لایا جائے، یہ طریقہ کار انتہائی غلط ہو گا اور بہت سے مسائل پیدا کر دے گا  کیوں کہ آپ کا نظام ہضم ایک وقت میں اتنی اضافی غذا کو برداشت نہیں کر سکتا، علاوہ ازیں اس طرح کا ادل بدل دوا    اور غذا کے ترتیب دینا کتنا آسا ن ہے ، یہ حقیقت ہمیشہ ذہن میں رکھیے کہ ہر کھانے کے لیے تجویز کردہ متبادل غذائیں کھائی  جانی  چاہیئے  اور کھانے کے اوقات ہر روز وہی رہیں جو ایک دفعہ مقر کر یے جائیں ، کبھی بھی یہ کوشش مت کریں کہ ایک وقت کے کھانے میں طے شدہ غذاوں کو چھوڑ دیا جائے اور ان چھوڑی ہوئی غذاوں کی مقدارکو اگلے کھانے کے ساتھ استعمال میں لایا جائے
یہ طریقہ کار انتہائی غلط ہو گا ور بہت سے مسائل پیدا کر دے گا کیوں کہ آپ کا نظام ہضم ایک وقت میں اتنی اضا فی غذا کو برداشت نہین کر سکتا علاوہ ازیں اس طرح کا ادل بدل دوا اور غذا کے درمیاں عدم توازن پیدا کر دے گا جس سے اضافی مسائل کا راستہ کھل جائے گا
متبال غذاوں کا نظام سمجھ لینے کے بعد آپ اپنی پسند کامینیو  آسانی سے ترتیب دے سکتے ہیں
متبادل نظام سے آگاہی آپ کو کھانوں میں وسیع تر انتخاب اور متنوع غذاوں کی شمولیت کے قابل بھی بنا دیتی ہے  یہ آگاہی آپ کو تجویز کردہ غذاوں کی درست مقدار کھانے کے قابل بناتی ہے اور کاربوہائیڈ پروٹین اور چکنائیوں کی مطلوبہ دن بھر کی تقسیم پہ نظر رکھنے کی صلاحیت پیدا کر دیتی ہے ، اگر آپ ڈائیٹ پلان (غذائی منصوبے ) میں توازن رہتا ہے کسی ایک پکوان کی ا یک کی بجائے دو پلیٹ بھی لے سکتے ہیں بالفرض آپ کوئی اور غذائی منصوبہ اپنائے ہوئے ہیں تو اسے ڈاکڑ کے مشورہ کے بغیر تبدیل کرنے کی کوشش نہ کریں ،اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آپ کون سا غذائی منصوبہ ذیر عمل لا رہے ہیں غذائیت کے اعتبار سے پکوان کی افادیت آپ کو اپنی غذاوں میں تنوع لانے میں مدد دے سکتی ہے  کھانے پینے کی محتاط عادتیں آپ کو بہتر ی کا احساس دیں گی اور صحت مند بھی رکھیں گی

دوا خود بنا لیں یاں ہم سے بنی ہوئی منگوا سکتے ہیں
میں نیت اور ایمانداری کے ساتھ اللہ کو حاضر ناضر جان کر مخلوق خدا کی خدمت کرنے کا عزم رکھتا ہوں آپ کو بلکل ٹھیک نسخے بتاتا ہوں ان میں کچھ کمی نہیں رکھتا یہ تمام نسخے میرے اپنے آزمودہ ہوتے ہیں آپ کی دُعاؤں کا طلب گار حکیم محمد عرفان
ہر قسم کی تمام جڑی بوٹیاں صاف ستھری تنکے، مٹی، کنکر، کے بغیر پاکستان اور پوری دنیا میں ھوم ڈلیوری کیلئے دستیاب ہیں تفصیلات کیلئے کلک کریں
فری مشورہ کیلئے رابطہ کر سکتے ہیں

Helpline & Whatsapp Number +92-30-40-50-60-70

Desi herbal, Desi nuskha,Desi totkay,jari botion se ilaj,Al shifa,herbal

Read More

سنگترہ قدرت کے عمدہ تحائف میں سے ایک ہے

سنگترہ قدرت کے عمدہ تحائف میں سے ایک ہے۔ یہ ترش پھلوں میں سب سے زیادہ مقبول ہے۔ سنگترے کا اصل وطن جنوبی چین ہے۔
شفا بخش قوت اور طبی استعمال:۔ سنگترہ پہلے سے ہضم شدہ غذا کی ایک صورت ہے کیونکہ سورج کی شعاعوں سے اس میں موجود نشاستہ آسانی سے جذب ہوجانے والی شوگر میں تبدیل ہو چکا ہوتا ہے۔ چنانچہ کھانے کے فوراً بعد سنگترے کی شوگر خون میں جذب ہو جاتی ہے اور فوراً بدن کو حرارت اور توانائی مہیا کرتی ہے۔ سنگترے کا باقاعدہ استعمال زکام‘ انفلوائزا اور خون رسنے کے رجحانات کو روکتا ہے۔ یہ صحت توانائی اور لمبی عمر کا موثر ذریعہ ہے۔ سنگترے کا جوس بقیہ تمام پھلوں کے جوسز کے مقابلہ میں زیادہ مفید ہے اور ہر عمر کے فرد کو ہر قسم کی بیماری کے دوران تمام تر افادیت کے ساتھ دیا جا سکتا ہے۔
بخار
کسی بھی قسم کے بخار میں جبکہ قوت ہاضمہ متاثر ہو چکی ہو‘ سنگترے کا رس ایک عمدہ غذا ہے۔ خون میں زہریلے مادوں کی موجودگی کے سبب بخار میں مبتلا مریضوں کو اس پھل کا جوس دینا بہت مفید ہے ۔ لعاب دہن کی کمی سے زبان پر فاسد مادے کی تہہ جم چکی ہو‘ مریض کو پیاس نہ محسوس ہوتی ہو اور بھوک غائب ہو چکی ہو تو سنگترے کا جوس صورت حال کی اصلاح کرتا ہے۔ ٹائیفائڈ ‘ تپ دق اور خسرہ سے ہونے والے بخاروں میں بھی یہ ایک مثالی غذا ہے۔ یہ توانائی مہیا کرتا ہے‘ پیشاب کا اخراج بڑھاتا ہے۔ انفیکشن کے خلاف قوت مدافعت پیدا کرتا ہے اور بحالی صحت کا عمل تیز تر کرتا ہے۔

فساد ہضم
پرانے فساد ہضم میں سنگترہ ایک موثر علاج بالغذا ہے۔ اعضائے ہضم کو آرام مہیا کرتا ہے۔ کیونکہ یہ آسانی سے جزو بدن بننے والی غذائیت فراہم کرتا ہے۔ یہ نظام ہضم میں معاون رطوبتیں متحرک کرتا ہے۔ چنانچہ قوت ہاضمہ کو تقویت ملتی ہے اور بھوک میں اضافہ ہوتا ہے۔ سنگترہ انتڑیوں میں مفید بیکٹیریاکی افزائش کیلئے موزوں کیفیت پیدا کرتا ہے۔
قبض:۔ سنگترہ قبض کے علاج کیلئے بھی بہت کارآمد ہے۔ سونے سے پہلے ایک یا دو سنگترے کھانا اور پھر صبح اٹھتے ہی یہ عمل دہرانا انتڑیوں کے فعل کو عمدگی سے موثر بناتا ہے۔ اجابت کھل کر ہوتی ہے۔ سنگترے کی عمومی محرک تاثیر نظام اخراج کی مدد کرتی ہے اور بڑی آنت میں فضلہ جمع ہونے سے روکتی ہے۔ بڑی آنت میں فضلہ جمع رہنے سے خون میں زہریلے مادے بڑھ جاتے ہیں اور پروٹین کی توڑ پھوڑ کا سبب بنتے ہیں۔

ہڈیوں اور دانتوں کی بیماریاں
کیلشیم اور وٹامن سی کا ایک عمدہ ذریعہ ہونے کی بدولت یہ پھل دانتوں اور ہڈیوں کی بیماریوں کا بہترین تدارک ہے۔ دانتوں کے ڈھانچے میں پیدا ہونے والی خرابیاں زیادہ تر کیلشیم اور وٹامن سی کی کمی کے سبب رونما ہوتی ہیں۔ چنانچہ ان پر قابو پانے کیلئے سنگترے کا بھرپور استعمال مفید رہتا ہے۔ شکاگو کے ایک معالج کا دعویٰ ہے کہ اس نے پائیوریا اور دانتوں میں کیڑا لگنے کے امراض‘ مریضوں کو سنگترے کا جوس وافر مقدار میں پلا کر دور کئے ہیں۔

بچوں کی بیماریاں
جن شیر خوار بچوں کو ماﺅں کا دودھ میسر نہ ہو ان کیلئے سنگترے کا جوس ایک بہترین غذا ہے۔ انہیں عمر کے مطابق روزانہ 15 ملی لیٹر سے 120 ملی لیٹر تک یہ جوس پلانا چاہیے۔ یہ سکروی اور کساح (Rickets) کے امراض سے محفوظ رکھتا ہے۔ کساح کا مرض وٹامن ڈی کی کمی سے پیدا ہوتا ہے۔ سنگترہ بچوں کی نشوونما میں بہت اہم کردار ادا کرتا ہے۔ جو بڑے بچے اطمینان بخش طریقے سے نشوونما پا رہے ہوں انہیں سنگتریے کا جوس پلانا مثبت نتائج دیتا ہے۔ انہیں روزانہ 60 سے 120 ملی لیٹر تک یہ جوس دیا جاتا ہے۔

بلغم کا اخراج
تپ دق‘ دمہ‘ زکام‘ پرانی کھانسی اور دیگر بلغمی امراض میں جب بلغم کا اخراج مشکل ہو چکا ہو‘ سنگترے کا جوس‘ چٹکی بھر نمک اور کھانے کاایک چمچہ شہد ملا کر پلانا بہترین علاج ہے۔ اپنے نمکیاں اور رطوبت سے لبریز اجزاءکی بدولت سنگترے کا رس پھیپھڑوں سے بلغم کا اخراج آسان بناتا ہے اور نئی انفیکشن سے تحفظ دیتا ہے۔
دیگر استعمال
دنیا بھر میں سنگترہ مختلف طریقوں سے استعمال کیا جاتا ہے۔ عموماً اسے کھانے کے بعد استعمال کرتے ہیں۔ زیادہ تر استعمال جوس بنانے کیلئے ہے۔ یہ جوس ڈبوں میں محفوظ کر کے فروخت کیا جاتا ہے۔ اس کے اسکوائش بھی بہت مقبول ہیں۔ سنگترے کا جام اور مارملیڈ(مربہ) بھی بنایا جاتا ہے ۔

پیٹ کے کینسر کا تیر بہدف علاج

ہمارے عزیز وں میں فورتھ ایئر کے طالب علم کو عین امتحانات کے دوران پیٹ میں تکلیف ہو گئی۔ پہلے درد اٹھا پھر مسلسل
ٹیسیں اٹھنے لگیں اور درد ایسی شدت اختیار کر گیا کہ والدین پہلے تو اپنے شہر میں علاج کراتے رہے۔ پھر آخر کار جب صحت بد سے بد تر ہوتی گئی اور ڈاکٹر حضرات نے مایوسی کا اظہار کیا کہ آپ کسی بڑے ہسپتال میں لے جائیںچونکہ والدین کا اکلوتا چشم و چراغ تھااس لئے وہ نشتر ہسپتال ملتان لے گئے۔ وہاں بڑے سرجن کا علاج ہونے لگا۔ جوں جوں دوا کی مرض بڑھتا گیا۔ ایک ہفتے کے بعد اچھے علاج اور توجہی کے باوجود وہ نوجوان تکلیف کی شدت سے ہر وقت چیختا اور چلاتا۔ آخر اس ہسپتال میں میٹنگ ہوئی اور پھر ان لوگوں نے یہ کہہ دیا کہ ہمارے علاج سے یہ نوجوان ٹھیک نہیں ہو سکا۔ آپ لوگ اسے امریکہ لے جائیں ‘شاید وہاں علاج ہو سکے۔ والدین نے جب یہ سنا تو ان کی تو امید ہی ختم ہو گئی۔ انہوں نے اپنے بیٹے کو اسٹیچر پر ڈالا اور روتے دھوتے ہسپتال سے نکلے۔ ان کے عزیز و اقارب بھی ساتھ تھے۔ والدین کی آہ و بکا ایسی تھی کہ جتنے بھی لوگ تھے۔ وہ والدین سے پوچھتے
کہ کیوں اس قدر دھاڑیں مار مار کر رو رہے ہیں؟ معلوم ہوتا تو وہ بھی ہمدردی کرنے ساتھ شامل ہو جاتے۔ آخر ہسپتال کے گیٹ پر ہجوم پہنچا تو وہاں پہ ایک بزرگ نے آگے بڑھ کر پوچھا کیا معاملہ ہے؟ جب انہیں اس نوجوان کی بیماری کی تفصیل بتائی تو انہوںنے ان کے والدین کو بلوایا۔ جب وہ آگئے تو وہ بزرگ فرمانے لگے یہ نوجوان صرف تین دن میں ٹھیک ہو جائے گا اگر آپ علاج کر لیں تو بتا دیتا ہوں۔ بیمار بیٹے کے والدین نے حامی بھر لی کہ جو بھی علاج بتائیں گے وہ کریں گے۔ان بزرگ نے علاج یہ بتایا ۔ نیم کی کونپل کی پتیاں لیں‘ ان کو گھوٹ لیں ‘ اس کا پانی دن میں تین مرتبہ پلائیں۔ بھینس کا خالص دودھ ابالیں اور دودھ میں تین چمچ گائے کا گھی ڈالیں۔ وہ دودھ بھی تین دن پلائیں۔ شرط یہ تھی انہیں لباس نہ پہنائیں۔
ان دونوں دواﺅں سے مریض کو بے حد موشن ہوں گے جو کہ بیماری کو جڑ سے ختم کر دیں گے۔ اس مریض کو یہ چیزیں استعمال کرائی گئیں۔ تین دن گزر گئے اورایک مرتبہ پھر والدین اور مریض چیک اپ کرانے نشتر ہسپتال جا رہے تھے اور ان بزرگ کی تلاش میں جنہوں نے یہ نسخہ دیا تھا۔ پہلے تو سرجن صاحب کے پاس گئے۔ مریض کا چیک اپ کرایا‘ سرجن صاحب کے سامنے ایک صحت مند نوجوان کھڑا تھا۔ رپورٹیں دیکھیں تو سرجن کی عقل دنگ رہ گئی۔ جیسے اس نوجوان کو تو کوئی مرض نہیں۔ مگر وہ سرجن خود حیرت میں ڈوبے ہوئے تھے۔ یہ نوجوان کونسے علاج سے صرف تین دن میں صحت یاب ہو گیا۔ پھر سرجن نے سوالیہ انداز میں ان کے والدین سے پوچھا تو انہوں نے بتا دیا۔ پھر تو وہ سرجن بھی ان بزرگ کی تلاش میں نکلے۔ لیکن وہ بزرگ وہاں سے جا چکے تھے۔ لیکن وہ پیٹ کے کینسر کا تحفہ ضرور دے گئے۔اشیاءنیم کی کونپل کی پتیاں تین تولے ‘پانی ایک گلاس ڈالیں‘ دودھ خالص بھینس کا ایک گلاس ‘تین چمچ گائے کا گھی۔ نیم کی کونپل کونڈی ڈنڈے سے گھوٹ لیں۔ پانی میں ڈال کر چھان لیں‘ چھنا ہوا پانی مریض کو پلا دیں۔ ایک گھنٹے بعد دودھ پلائیں یہ نسخہ دن میں تین بار استعمال کرنا ہے۔ دن بڑھائے جا سکتے ہیں اگر افاقہ نہ ہو۔ راقمہ طویل عرصے سے جڑی بوٹیوں پر ریسرچ کر رہی ہے‘ ان جڑی بوٹیوں میں اللہ نے جس قدر شفاءرکھی ہے ‘راقمہ نے عمل کیا اور لوگوں کو کروایا تو ششدر رہ گئی۔ بچوں کو بیماری سے تڑپتے ہوئے دیکھتی ہوں تو بہت غمگین ہوتی ہوں‘اس لئے جڑی بوٹیوں کے ان فوائد کو عام کرنا چاہتی ہوں۔
نزلہ زکام دور کرنے کیلئے رتن جوت کی جڑیں لے لیں‘ ایک پاﺅ جڑیں لیں اس کوباریک پیس کر ایک کلو سرسوں میں ڈال کر دھوپ میں رکھ دیں۔ جب یہ تیل سرخ ہو جائے تو اسے نزلہ زکام کیلئے استعمال کریں۔ راقمہ نے ایک کلو تیل خریدا لیکن بنج احمر بوٹی کی مقدار بڑھا دی۔ وہ سرسوں کا تیل تیار کرلیا۔ اب اس پر ریسرچ شروع کی تو مندرجہ ذیل فوائد سامنے آئے۔
1 سر میں شدید درد ہو‘ اس تیل سے مالش کریں سر کادرد سیکنڈوں میں غائب ہوجاتا ہے۔ 2۔ راقمہ کے پیٹ پر بہت زیادہ دانے نکل آئے تھے۔ ایسے نوکدار اور تکلیف دہ ‘ بے حد خارش ہوتی تھی۔ اتنی شدید تکلیف کبھی نہ ہوئی تھی۔ راقمہ نے اس تیل کو خارش دانوں پر لگایا فوری سکون ہوا۔ خارش غائب ہو گئی‘ نوکدار جو دانے تھے وہ خود بخود جھڑ گئے۔ 3۔ ایک خاتون امریکہ میں تھیں‘ ان کے اندرونی حصے میں دس سال سے خارش تھی‘ روئی سے انہیں استعمال کا طریقہ بتایا ان کی خارش چند گھنٹوں میں غائب ہو گئی۔ یہی تیل استعمال کیا۔ 4۔ یہی تیل ہاتھوں اور چہرے پر لگایا ہاتھوں کی رنگت سفید ہو گئی‘ شفاف ہو گئے اور چہرے پر لگایا تو رنگ نکھر آیا۔ 5 ۔ میرے ہمسفر کو نزلے ‘ کھانسی کا شدید اٹیک ہوا‘ اس تیل سے مالش کی ‘ کانوں کے پیچھے اور سینے پر صرف دو مرتبہ۔ اللہ کا خاص کرم ہے کہ نزلہ کھانسی بالکل ٹھیک ہو گیا اور سر کا درد بھی‘ ورنہ ایک ہفتہ مستقل بیڈ ریسٹ کرتے اور ایک ہزار کی دوا آنی تھی۔ بیٹے کو بھی ہوا تو یہی تیل استعمال کیا‘ ناک کے اوپر اور اندر لگایا اور اسی طرح مالش کی‘ ماشاءاللہ ٹھیک ہوا‘ اگر الرجی میں یہ تیل استعمال کیا جائے تو کیا ہی بات ہے‘ الرجی ختم ہو جاتی ہے۔ 5 ۔ ایک محترمہ کو طویل عرصے سے الرجی کی بیماری شروع ہوئی۔ پندرہ سال قبل الرجی ہوئی‘ ناک بند ‘ نزلہ ‘ چھینکیں۔ انہوں نے پورے پاکستان میں علاج کروایا۔ کئی لاکھ روپے اس علاج پر خرچ ہوئے ‘ ایسی دواﺅں کا استعمال ہوا کہ اس خاتون کے گردے سکڑ گئے‘ ہر ڈاکٹر نے علاج سے انکار کر دیا۔ وہ میرے پاس آئیں۔ انہیں بھی تیل استعمال کرایا‘ ان کا نمونیہ الرجی اور کھانسی تینوں مرض ٹھیک ہو گئے۔ 6۔ 25 دن کی بچی کو نمونیہ تھا‘ ڈاکٹر نے کہا کہ اگر بچ جائے تو بڑی بات ہے۔ وہ بچی میرے پاس لائی گئی‘ اس کو مالش کی ‘ گرم پٹی باندھی‘ سیکائی کی گئی‘ صبح بچی کو جگانا پڑا اتنے سکون سے سوئی اور صبح کو نارمل تھی۔ 7۔ اس کو حکیم صاحب نے روغن اکسیر اعظم کہا ہے ۔ 8۔ ڈینگی بخار کے مرض میں مبتلا بچوں ‘بڑوں کو یہ تیل استعمال کرایا جائے۔ مزید تفصیل تو طویل ہو جائے گی‘ برائے مہربانی میرے اور مخلوق خدا کے ساتھ تعاون فرمائیں۔ اللہ آپ کو اس کا اجر دے۔ آمین

امراض قلب کے بار ے میں

آج کل امراض قلب کے بار ے میں روزانہ ایسی خبریں سننے کو ملتی ہیں کہ فلا ں شخص دل کا دورہ پڑنے سے چل بسا  فلا ں اختلا جِ قلب  اور خفقان قلب کا مریض ہے، فلا ں کا دل بڑھ گیا ہے وغیرہ   طبی حلقو ں کی طر ف سے امراضِ قلب کو ختم کر نے کے لیے خصوصی توجہ دی جارہی ہے  لیکن اس سب کو ششو ں کے با وجود، نتائج حسبِ منشاءبرآمد نہیں ہو سکے  اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ امراضِ قلب کو جب تک بالاعضا ءسمجھنے کی کو شش نہیں کی جائے گی اس وقت تک یہ مسئلہ تشنہ تکمیل ہی رہے گا  دردِ         دل کا طبی نام وجع القلب ہے  اکثر چالیس سال کی عمر کے بعد ہوا کر تا ہے   مردو ں کی نسبت عورتیں اس مر ض میں زیادہ مبتلا ہو تی ہیں   ویسے آج کل عمر کی کوئی حد نہیں رہی نوجوانوں بلکہ بچو ں میں بھی اکثر یہ مرض دیکھا گیاہے
اسبا ب
دردِ دل دراصل دل میں شریا نو ں میں سکیڑ و انقباض کی وجہ سے ہو تاہے  کیمیا وی طور پر خون میں ترشی و تیزابیت اور خلطِ سود ا کی زیادتی سے خون کے قوام میں گاڑھا پن پیدا ہو جاتاہے   جو شریانو ں میں با ٓسانی گردش نہیں کر سکتا  ریا ح کی کثر ت، خون کا گاڑھا پن اور شریا نو ں کا سیکٹر ہی دردِ دل کا سب سے بڑا سبب ہو تاہے   اس کے علا و ہ گو شت ، انڈا، مچھلی اور ترش اشیا ءکا کثرت سے استعمال، پیٹ میں ریاح، قبض، نفخ ، بد ہضمی ، شراب اور تمبا کو نوشی ، نشہ آور اشیا ئ، مشروبات کا کثرتِ استعمال بھی دردِ دل کا سبب ہو تاہے   نفسیاتی اسباب میں غصہ کا ہونا اور کیفیا تی اسباب میں خشکی سردی کا بڑھ جانا بھی دردِ دل کا سبب بنتا ہے
علا مات
دورہ مر ض سے پہلے مریض پہلے قدرے بے چینی ، پیٹ میں ریا ح ، گیس ، قبض ، بو جھ اور کوئی چیز اوپر چڑھتی ہوئی محسو س کر تا ہے  اس دوران اگر ریا ح وغیرہ خارج ہو جائے تو آرام آجا تاہے   لیکن اگر ریا ح و گیس وغیرہ کا اخراج نہ ہو تو قلب ، چھا تی اور بائیں کندھے کے نیچے پسلیوں کے قریب سر سراہٹ سی محسو س کرتاہے   کبھی وقفہ وقفہ سے سوئی کی چھبن جیسا درد ہو تاہے   پھر دل یک دم زور زور سے دھڑکنے لگتاہے   دل کی رفتا ر کبھی تیزا ور کبھی سست ہو جا تی ہے  اس وقت اگر منا سب علا ج میسر نہ آئے تو تکلیف بڑھ کر شدید درد شروع ہوجاتا ہے   کیو نکہ دل کو دوران خون جاری رکھنے کے لیے بار بار حرکت کرنا پڑتی ہے   اس لئے درد، ٹیسو ں کی صور ت میں ہو تا ہے  دوران خون کے تسلسل میں رکا وٹ ہو کر پھیپھڑوں میں خون کم ہو جا تاہے جس سے پھیپھڑوں کی حرکا ت کم ہو کر سخت دم کشی اور اختلا ج ِ قلب کی صورت پیدا ہو جا تی ہے   شدید درد سے مریض کا رنگ فق ہو جا تا ہے اور بے ہوشی طاری ہو جا تی ہے  جسم کی رنگت سیاہی مائل اور آنکھوں کے گر د سیا ہ حلقے پیدا ہو جا تے ہیں ۔ نبض حرکت میں تیز ہو جاتی ہے۔ شدید درد اور سخت گھبراہٹ میں مریض انتقال کر جاتا ہے
اصول علا ج
دردِ دل کا علاج لکھنے سے پہلے اصولِ علا ج پیش کرنا ضروری سمجھتا ہوں واضح رہے کہ دردِ دل ہمیشہ دل میں تیزی، خون کے گا ڑھا پن، خلط سودا کی زیادتی اور شریانو ں میں سکیڑ و انقباض سے ہی ہو تا ہے جس کا یقینی و بے خطا ءعلا ج سکیڑ کاکھولنا ہے  شریانو ں کے سکیڑ کو کھولنے کے لیے خلط صفراء ( حرارت ) کا بڑھانا ضروری ہوتاہے  صفراءسے خون کاقوام پتلا ہو کر شریانوں کے سکیڑ کو کھول دیتا ہے  سکیڑ کھلتے ہی دوران خون درست ہوجا تا ہے جو لو گ درد روکنے کے لیے مخدرومسکن دوائیں دیتے ہیں، وہ مریض کو موت کے منہ میں دھکیل دیتے ہیں جس سے اکثر نشہ کی حالت میں ہی مریض کا انتقال ہو جاتا ہے
دورہ کی حالت میں علا ج
جب کسی شخص کے سینے ، بائیں پستان ، کندھے ، بازویا بائیں ٹانگ میں درد معلوم ہو اور پیٹ میں ریاح رکی ہوئی معلوم ہو تو معالج کے آنے سے پہلے مصنوعی ڈکا ر سے پیٹ کی ہوا خارج کرنے کی کو شش کریں  بائیں کندھے، پستان کے قریب سامنے سینے کی زور سے مالش کریں اگر ممکن ہوتو مقامِ قلب پر ٹکور کریں جس سے درد کم ہو جائے گا اندرونی طور پر صرف گرم پانی پلائیں اگر قے وغیرہ ہو جائے تو گرم پانی میں اجوائن دیسی ابال کر شہد ملا کر پلادیں انشاءاللہ فوراً دردِدل کو آرام آجائے گا جب دورہ ختم ہو جائے تو مستقل علا ج کے لیے درج ذیل نسخہ جات استعمال کریں دوبار ہ درد نہ ہو گا  انشاءاللہ
نسخہ جا ت
 اجوائن دیسی 1 تولہ،   لہسن 1 تولہ ، آبِ لہسن 5 تولہ ، اجوائن اور لہسن کو باریک پیس کر آبِ لہسن میں کھرل کر کے بڑے چنے کے برابر گولیا ں بنائیں ۔ 1 تا 2 گولی صبح ، دوپہر ، شام نیم گرم پانی کے ساتھ کھا ئیں
یہ نسخہ دردِ دل ، دردِ گردہ کے لیے ایک انمول تحفہ ہے پتھری کو توڑ کر خارج کر تا ہے۔ خون کے قوام کو پتلا کرتا ہے شریا نو ں کے سکیڑ کو کھولنے کے لیے اس سے بہتر کوئی اور دوانہی ہے سنا مکی، قلمی شورہ ، ریوند خطائی برابر وزن لیکر باریک کریں اور بڑے چنے کے برابر گولیا ں بنالیں 1 تا 2 گولی دن میں چار با ر ہمرا ہ گرم پانی  یہ دردِ دل کے لیے نہا یت مفید ہے  یہ ان مریضوں کے لیے بہت مفید ہے جنہیں قبض ہو اور پیشا ب کم ، جلن کے ساتھ آتا ہو

غذا
صبح :  گاجر کا مربہ یا سیب کھا کر اوپر سونف اور چھوٹی الائچی کا قہوہ پی لیں
دوپہر: مولی، گا جر ، شلغم ، مو نگرے ، کدو، توری، ٹینڈے دیسی گھی میں پکا کر استعمال کریں
شام:  دوپہر والا سالن کھا لیں ا و پر اجوائن دیسی کا قہوہ پی لیں
پرہیز : گوشت، انڈے ، چاول ، اچار، آلو ، گو بھی ، ٹماٹر ، مچھلی ، ترش اور ٹھنڈے مشروبات اور شراب نوشی ، چائے کی کثرت ِاستعمال اور کثرتِ مبا شرت سے پرہیز لا زمی ہے

احتیاطی تدابیر
دردِ دل کے دورہ سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ سادہ غذا کھائی جا ئے  غذا اس وقت کھائی جا ئے جب شدید بھوک لگی ہو ، پیدل سیر، رات کو جلدی سو نا، صبح جلدی اٹھنا فائدہ مند ہے
شراب، تمبا کو نوشی اور نشہ آور اشیا ءسے پرہیز ضروری ہے ۔ چائے کی کثرت اور ترش اشیا ءکا استعمال بھی دردِ دل کو دعوت دیتا ہے۔ کثرتِ مباشرت اور غصہ کے جذبات کو کنٹرول میں رکھنا چاہئے  دردِ دل کے مریض خشک فضاءو خشک آب وہوا سے محفوظ رہیں۔ اگر ہو سکے تو مریض کو جون جو لائی کے مہینوں میں مری یا کوئٹہ جیسے صحت افزاءمقامات پر چلے جانا چاہئے  لذت و مسرت کے جذبات اعتدال سے نہیں بڑھنے چاہئیں ، جنسی جذبات سے مغلو ب نہیں ہو نا چاہئے ، جنسی ماحول بھی ایسے مریضوں کے لیے میٹھے زہر سے کم نہیں ہوتا۔ آج کل کی مخلوط تعلیم دردِ دل کا ایک بہت بڑا سبب ہے کیونکہ ایسے ما حول میں رہنے والا جنسی جذبات سے مغلو ب ہونے لگتا ہے۔ جنسی جذبات کا بار بار ابھر نا اور تکمیل نہ پا نا اس کا بڑا سبب ہے

دوا خود بنا لیں یاں ہم سے بنی ہوئی منگوا سکتے ہیں
میں نیت اور ایمانداری کے ساتھ اللہ کو حاضر ناضر جان کر مخلوق خدا کی خدمت کرنے کا عزم رکھتا ہوں آپ کو بلکل ٹھیک نسخے بتاتا ہوں ان میں کچھ کمی نہیں رکھتا یہ تمام نسخے میرے اپنے آزمودہ ہوتے ہیں آپ کی دُعاؤں کا طلب گار حکیم محمد عرفان
ہر قسم کی تمام جڑی بوٹیاں صاف ستھری تنکے، مٹی، کنکر، کے بغیر پاکستان اور پوری دنیا میں ھوم ڈلیوری کیلئے دستیاب ہیں تفصیلات کیلئے کلک کریں
فری مشورہ کیلئے رابطہ کر سکتے ہیں

Helpline & Whatsapp Number +92-30-40-50-60-70

Desi herbal, Desi nuskha,Desi totkay,jari botion se ilaj,Al shifa,herbal

 

روحانی تسکین کے ساتھ ساتھ روزہ رکھنے سے جسمانی صحت پر بھی مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں

روحانی تسکین کے ساتھ ساتھ روزہ رکھنے سے جسمانی صحت پر بھی مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں روزہ شوگر لیول ‘کولیسٹرول اوربلڈ پریشر میں اعتدال لاتا ہے’اسٹریس و اعصابی تناؤختم کرکے بیشتر نفسیاتی امراض سے چھٹکارا دلاتاہے’ روزہ رکھنے سے جسم میں خون بننے کا عمل تیز ہوجاتا ہے ‘انسانی جسم سے فضلات اور تیزابی مادوں کا اخراج کرتا ہے ‘موٹاپا اورپیٹ کو کم کرنے میں مفید ہے’ خاص طور پر نظام انہضام کو بہتر کرتا ہے علاوہ ازیں مزید کئی امراض کا علاج بھی ہے لیکن یہ تبھی ممکن ہوسکتا ہے جب ہم سحر وافطار میں سادہ غذا کا استعمال کریں خصوصاً افطاری کے وقت زیادہ ثقیل اور مرغن تلی ہوئی اشیاء مثلاً سموسے پکوڑے کچوری وغیرہ کا استعمال بکثرت کیا جاتا ہے جس سے روزے کا روحانی مقصد تو فوت ہوتا ہی ہے خوراک کی اس بے اعتدالی سے جسمانی طور پر ہونے والے فوائدبھی مفقود ہوجاتے ہیں بلکہ معدہ مزید خراب ہوجاتا ہے لہذا افطاری میں دنیا جہان کی نعمتیں اکٹھی کرنے اور اس پر ٹوٹ پڑنے کی بجائے افطار کسی پھل ‘کھجور یا شہد ملے دودھ سے کرلیا جائے اور پھر نماز کی ادائیگی کے بعد مزید کچھ کھالیا جائے اس طرح دن میں تین بار کھانے کا تسلسل بھی قائم رہے گا اور معدے پر بوجھ نہیں پڑے گا ۔افطار میں پانی دودھ یا کوئی بھی مشروب ایک ہی مرتبہ زیادہ مقدار میں استعمال کرنے کی بجائے وقفے وقفے سے استعمال کریں ۔انشاء اللہ ان احتیاطی تدابیر پر عملدر آمد کرنے سے روزے کے جسمانی وروحانی فوائدحاصل کر سکیں NO.2
اونٹ کا گوشت کھانے سے کئی بیماریاں دور ہوجاتی ہیںاونٹ کا گوشت بخار  عرق ا لنساء (شیاٹیکا) کالا یرقان ‘ہیپاٹائیٹس سی اوراعصابی وجسمانی کمزوری کا بہترین علاج ہے
لاہور:اونٹ کا گوشت عام طور پر شاذونادر ہی ملتا ہے لیکن عید قربان پر یہ گوشت بھی وافر مقدار میں ہوتا ہے اور جنہیں یہ گوشت میسر آجائے وہ بہت سی امراض سے بچ سکتے ہیں  افادہ ِعام کیلئے مرکزی سیکرٹری جنرل کونسل آف ہربل فزیشنزپاکستان اور یونانی میڈیکل آفیسرحکیم قاضی ایم اے خالد نے اونٹ کے گوشت کے فوائد سے آگاہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اونٹ کا گوشت پرانے بخار  عرق النساء (شیا ٹیکا ) سیاہ یرقان  ہیپا ٹائٹس سی اور پیشاب کی جلن میں مفید ہے اعضائے رئیسہ کی طاقت اور تقویت باہ کیلئے بھی مستعمل ہے اعصابی کمزوری اور جسمانی کمزوری میں فائدہ مند ہ مذکورہ بالا فوائد حاصل کرنے کیلئے اس کی مقدار خوراک ایک سو گرام ہے بواسیر کیلئے اونٹ کی چربی کا لیپ انتہائی مفید ہے  لہٰذاعید الا ضحی پر اگر یہ گوشت مل جائے تو اس سے استفادہ حاصل کرنے کا موقع ہاتھ سے جانے نہ دیا .دنیا بھر میں طب ِیونانی سے علاج معالجہ کا رجحان بڑھ رہا ہے طب یونانی جسے طب ِمشرقی اور طبِ اسلامی بھی کہا جاتاہے’ کے تحت جڑی بوٹیوں سے علاج کی افادیت زمانہ قدیم سے مسلمہ ہے۔ترقی پذیر اور ترقی یافتہ دونوں ممالک ہی اب اس سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔جدید اینٹی بایوٹک ادویات کی افادیت سے کسی طور انکار نہیں کیا جاسکتا۔لیکن ان کے استعمال سے بعض اوقات انسانی جسم پر سخت مضراثرات پڑتے ہیں جن سے تکلیف میں کمی کی بجائے مزید اضافہ ہوجاتاہے یا کوئی اور بیماری آلیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج اس ایٹمی دور میں پوری دنیا کے لو گ دوبارہ جڑی بوٹیوں کے فطری اور بے ضرر علاج کی طرف متوجہ ہور ہے ہیں کیونکہ طبِ یونانی( اسلامی )یا ہر بل سسٹم آف میڈیسن میں ادویات کا استعمال موسم’ عمر اور مزاج کو مد نظر رکھ کر کروایاجاتاہے جسکی وجہ سے ان دیسی ادویات کے کسی قسم کے سائیڈ ایفیکٹس نہیں ہوتے۔

ورلڈہیلتھ آرگنائزیشن (WHO)کی رپورٹ کے مطابق جدید میڈیکل سائنس کی بے پناہ ترقی کے باوجود دنیا کی 86فیصد آبادی ہربل ادویات استعمال کر رہی ہے جبکہ اقوام متحدہ کے فنڈبرائے آبادی کے مطابق پاکستان کی 76فیصد آبادی مختلف امراض کے سلسلے میں طب یونانی کی ہربل میڈیسنز کا استعمال کرتی ہے۔اس وقت پاکستان، بھارت، سری لنکا، برما، چین اور بنگلا دیش سمیت کئی ترقی یافتہ ممالک میں بھی اس طریقہء علاج کو سرکاری سرپرستی حاصل ہے جرمنی میں بچوں کا علاج ہر بل میڈیسنز سے کیا جارہا ہے اس سلسلے میں وہاں سونف کا استعمال کثرت سے کیا جاتاہے۔سعودی عرب میں جڑی بوٹیوں کے دواخانے ”عطارہ” کے نام سے چل رہے ہیں۔ اور مدینہ یونیورسٹی میں طب اسلامی کا ایک باقاعدہ شعبہ تدریس وتحقیق موجود ہے۔برطانیہ میں کئی فرمیں مختلف جڑی بوٹیوں سے دمہ، کھانسی، یرقان، پتھری، گنٹھئے اور بواسیر سمیت کئی اور امراض کے علاج کے لیے ادویات تیار کررہی ہیں۔ روس اور چین میں کینسر، بھگندر، بواسیر، بلڈپریشر، آنتوں ومعدہ کی امراض، اور دل کی شیریانوں میں خون کے انجماد کو روکنے کے لیے ہر بل میڈیسنز کا استعمال کیاجارہاہے۔ان کی مسلمہ افادیت کے پیش نظراب یہ ادویات یورپ میں بھی ایکسپورٹ ہو رہی ہیں۔

دماغی امراض کے لیے لہسن سے ”روسی پنسلین” نامی دواتیار کی گئی ہے۔امریکہ میں جگہ جگہ نیچرل فوڈز کے اسٹور قدرتی جڑی بوٹیاں بھی فراہم کر رہے ہیں۔ان میں ملٹھی، تلسی اور گائوربان سے کف سیرپ تیار کئے جاتے ہیں۔جو امریکہ میں ایلوپیتھک کف سیرپ کی بہ نسبت زیادہ مقبول ہیں۔پیٹ کے امراض کے لیے سونف، الائچی، اور پودینہ سے تیار کردہ”ہربل ٹی” کا استعمال امریکہ کے گھر گھر تک پہنچ چکا ہے۔ اسی طرح جو کی ہر بل ٹی بہت پی جاتی ہے۔ سوئٹرز لینڈ میں نزلہ وزکام کے لیے بنفٹہ کی جائے بہت پی جاتی ہے گائوزبان، میں گائوزبان سے دل کے امراض کا علاج کیاجارہا ہے۔فلپائن اور ویت نام میں جڑی بوٹیوں کو صحت کے لیے مفید اور لازمی قرار دے کر ان سے دوائیں بنانے کاکام شروع کر دیا گیا ہے اور ہر ویت نامی کوتاکید کی گئی ہے کہ وہ کم از کم دس جڑی بوٹیوں کی پہنچان رکھے تاکہ انہیں گھریلوعلاج میں دشواری پیش نہ آئے۔میرے چائنہ کے مطالعاتی دوروں کی تعداد چار ہے اس دوران میں نے وہاں نوے فیصد چائنیز کو ہر بل میڈیسنز سے علاج کرواتے دیکھا مشہور زمانہ جڑی بوٹی ”جن سنگ” وہاں کو لڈڈرنکس، پائوڈر اور چائے کی شکل میں بے انتہا استعمال ہوتی ہے اسی طرح اس کے کیپسول، ایمپوئل اور دیگر ادویات کی بے شمار ورائٹی ہے۔ اس وقت چین میں کم وبیش دوسو سے زائد لیبارٹریز میں جڑی بوٹیوں پر تحقیق ہو رہی ہے اور ان کی کاشت کے لیے ہر گائوں میں ایک قطعہ زمیں مخصوص کیا گیا ہے اس طرح چین نے ہر بل ادویات کے لیے خام مال یعنی دیسی جڑی بوٹیوں کی پیداوار میں اپنے ملک کو مکمل طورپر خودکفیل بنالیا ہے۔چائنہ میں سرکاری سطح پر ہربل سسٹم آف میڈیسن کے باقاعدہ بیسیوں ہسپتال، طبی تعلیم کے بے شمار کالج اور تحقیقی مراکز قائم کئے جاچکے ہیں۔ چینی طب اور طب اسلامی میں گہری مماثلت ہے اسکا مشاہدہ کرتے ہوئے سابق وزیر اعظم پاکستان ذوالفقار علی بھٹومرحوم کی پاکستان طبی کانفرنس کے ایک وفد کو کہی ہوئی باتیں یاد آئیں جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ”میں غریبوں کا بڑاہمدرد ہوں اور چونکہ طب اسلامی سے زیادہ غریب لوگ استفادہ کرتے ہیں،لہٰذا میں طب اسلامی کی ترقی اور تحقیق میں پورا تعاون کروں گا میری زندگی غریب عوام کے لیے وقف ہے چینی طب، طب اسلامی سے ملتی جلتی ہے لہٰذا چین اور پاکستان اس سلسلے میں بھی تعاون کریں گے۔” لہسن جیسی کم خرچ قدرتی دوا سے پچیدہ امراض بلڈپریشر، شوگر، کینسر، انجائنا اور انجماد خون وغیرہ جیسے کئی امراض کی ادویات چائنہ تیار کررہا ہے چینی ماہرین اور ہربل فزیشنز نے ملک میں پیدا ہونے والی جڑی بوٹیوں پر ریسرچ کرنے کے بعد مختلف بیماریوں کاکامیاب علاج دریافت کرکے اور یورپی ایلوپیتھک ادویات کی کھپت کم سے کم کرکے صحت کے شعبہ میں خود انحصاری کی راہ اپنائی ہے۔ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (WHO)نے بھی تمام ملکوں کی حکومتوں کو مشورہ دیا ہے کہ وہ اپنے اپنے علاقوں میں مقامی جڑی بوٹیوں سے علاج کرنے والوں کی حوصلہ افزائی کریں اور انہیں ترقی دے کر اپنا مسئلہ صحت حل کریں۔عالمی ادارہ صحت کی اس اپیل کے جواب میں چین، روس، کوریا، ملائشیا، سعودی عرب، کویت، انڈونیشیا، مصر، سری لنکا، برما، سوڈان، نیپال اور ہندوستان نے جڑی بوٹیوں سے آراستہ روائیتی طریقہ علاج کو اپنے پرائمری ہیلتھ کیئرپروگراموں میں شامل کیا ہوا ہے ان ممالک میں ملکی طب سے استفادہ کے لیے حکومتی سطح پر طبی تعلیمی ادارے، تدریسی ہسپتال اور دیسی جڑی بوٹیوں کے تحقیقی ادارے قائم ہیں اور مفت میں ملنے والی ملکی جڑی بوٹیوں پر ریسرچ کرکے مسئلہ صحت کو حل کرنے کی طرف خصوصی توجہ دی جارہی ہے۔اس سلسلے میں عالمی ادارئہ صحت کے مرکزی آفس میں دیسی طب کا ایک الگ شعبہ باقاعدہ طورپر دن رات کام کر رہاہے۔یورپی اور ترقی یافتہ ممالک سمیت دنیا بھر کے ایلوپیتھک اور دیگر طریقہ ہائے علاج کے ڈاکٹرزاب جڑی بوٹیوں کی افادیت کے قائل ہو چکے ہیں اور خود بھی ہربل میڈیسنز پر ریسرچ نیز ان کی پریکٹس بھی کر رہے ہیں۔

پاکستان میں ٹریڈ یشنل میڈیسن طب یونانی کو 1976ء میں (WHO) نے مسلمہ طریق علاج کی حیثیت سے تسلیم کیا اس وقت چھوٹے بڑے شہروں میں سینکڑوں سرکاری و غیر سرکاری اور نجی ایلوپیتھک ہسپتالوں اور کلینکس قائم ہونے کے باوجود آج بھی پاکستان کے دور دراز علاقو، دیہاتوں کی واضح اکثریت (عالمی اداروں کے مطابق 76%)عام اور پچیدہ ومہلک /امراض مثلاََ یرقان، کالایرقان (ہیپاٹائیٹس بی، سی وغیرہ) جگر کے امراض’ دمہ، کالی کھانسی، السر اور معدہ کے دیگر امراض وغیرہ کے لیے اطبائے کرام سے رجوع کرتی ہے اگرچہ ملک کے طول وعرض میں میں ایسے نام نہادحکماء بھی موجود ہیں جو ان کو الیفائیڈ ہونے کے باوجود لوگوں کی زندگیوں سے کھیل رہے ہیں یہ عطائی حکماء قانون میں سقم کی وجہ سے گرفت میں نہیں آتے۔ بہرحال ملک میں کوالیفائیڈ اور سند یافتہ اطباء کی بھی کمی نہیں۔

نیشنل کونسل فارطب وفاقی وزارتِ صحت حکومت پاکستان سے رجسٹرڈاطباء کی تعداد 55455ہے جن میں سے پنجاب میں 34850، سندھ میں 16800صوبہ سرحد میں 2850بلوچستان میں 475اور آزار کشمیر میں بھی 475اطباء پریکٹس کررہے ہیں ملک میں خاتون طبیبائوں کی تعداد 5500ہے اس وقت وطن عزیز میں کل رجسٹرڈ مطب 44200ہیں جبکہ 2550افراد کے لیے ایک رجسٹرڈ طبیب موجود ہے نیشنل کونسل فارطب سے منظور شدہ اکتیس (33)طبیہ کالجز میں کم وبیش 7000سے زائد طلباء وطالبات طب یونانی’ اسلامی کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں ان طبیہ کالجز سے ہرسال 1200سے 1500طبیب اور لیڈی طبیبائیں فارغ التحصیل ہوتے ہیں جن میں سے 60فیصد 6ماہ ہائوس جاب کرکے کونسل سے رجسٹریشن کرواتے ہیں نیشنل کونسل فارطب کو ان 31طبیہ کالجز کے لیے سالانہ پندرہ لاکھ کی گرائٹ ملتی ہے جو اوئٹ کے منہ میں زیرے کے مصداق اور صرف تین ایم بی بی ایس ایلوپیتھک ڈاکٹر بنانے کے خرچ کے مطابق ہے۔

یہ بات بھی دلچسپی کی حامل ہے کہ ملک میں موجود میڈیکل کالجز وزارتِ تعلیم کے تحت ہیں جبکہ طب یونانی اسلامی کی تعلیم وفاقی وزارت صحت کے دائرہ انتظام میں ہے پاکستان میں سالانہ طب یونانی کی ادویات اور جڑی بوٹیوں کی فروخت کی مالیت کا اندازہ 150ملین روپے ہے جبکہ یورپی ممالک میں 6500ملین ڈالر سالانہ، ایشیاء میں 2300ملین ڈالر، شمالی امریکہ میں 1500ملین ڈالر اور امریکہ میں سالانہ 40ملین ڈالر مالیت کی ہر بل میڈیسنز کا استعمال کیاجاتاہے پاکستان میںطب یونانی کی ہر بل میڈیسنز تیار کرنے والے چھوٹے بڑے 400ادارے کام کررہے ہیں۔جن میں سے 86ادارے پاکستان طبی فارماسیوئیکل مینوفیکچرنگ ایسوسی ایشن (PTPMA)سے رجسٹرڈ ہیں جن میں سے پنجاب میں 61، سندھ میں 23سرحد میں ایک اور بلوچستان میں بھی ایک ادارہ کام کررہا ہے۔ جبکہ ان ادویات پر ریسرچ کرنے والے اداروں کی تعداد 8ہے پاکستان میں ہر سال تقریباََ 29ملین روپے کی یونانی ادویات اور جڑی بوٹیاں قانونی اور غیر قانونی طریقہ سے درآمد کی جاتی ہیں جبکہ 245ملین روپے سالانہ کی ہر بل میڈیسن اور جڑی بوٹیاں قانونی اور غیر قانونی طریقے سے ملک سے باہر جاتی ہیں۔یہاں یہ امرقابل ذکر ہے کہ طب یونانی کو فروغ دے کر اور طبی ادویات کی قانونی طورپر برآمد سے پاکستان کروڑوں ڈالر کارزمبادلہ کما سکتاہے جس سے وطن ِعزیز معاشی طورپر مستحکم ہوگا۔لہٰذا اس سلسلے میں حکومت صنعت طبی دواسازی کی سرپرستی کرے اور اس سلسلے میں ایک مسودہ قانون بعنوان ”طب یونانی’آریوویدک’ ہومیوپیتھک’ہربل اور نان ایلوپیتھک میڈیسن ایکٹ ” جوکہ پارلیمنٹ میںقانون سازی کا منتظرہے’ میں جوترامیم اور تنسیخ عوامی مفاد نیز صنعت طبی دواسازی کے مفاد میں اطبائے پاکستان اور دیگر طبی تنظیموں نے پیش کی ہیں انہیں اس مسودہ میں شامل کیا جائے تاکہ یہ قانون سہل اور قابل ِعمل بن جائے اور ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہو۔
طب نبوی کی اہمیت و افادیت

تاجدار انبیاء صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے تندرستی کی بقا اور بیماریوں کے علاج سے متعلق بڑی اہمیت کی لازوال ہدایات ارشاد فرمائی ہیں۔ محدثین نے کتاب الطب کے عنوان سے حدیث کی ہر کتاب میں علیٰحدہ ابواب مزین کئے ہیں۔ عبدالملک بن حبیب اندلسی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے امراض سے متعلق ارشادات نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو الطب النبوی کے نام سے دوسری صدی ہجری میں علیٰحدہ مرتب کیا۔ ان کے بعد امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے شاگرد محمد بن ابو بکر رحمۃ اللہ علیہ اور ان کے ہمعصر ابو نعیم اصفہانی رحمۃ اللہ علیہ ہیں جنہوں نے تیسری صدی کے اوخر میں طب نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے ایسے مجموعے مرتب کئے جن کی اکثر روایات انہوں نے راویوں سے خود حاصل کیں۔ آئمہ اہل بیت میں علی بن موسٰی رضا اور امام کاظم بن جعفر صادق رضی اللہ عنہ نے اسی موضوع پر رسائل لکھ کر شہرت دوام پائی۔
چوتھی صدی میں محمد بن عبداللہ فتوح الحمیدی، عبدالحق الاشیلی، حافظ السخاوی رحمہم اللہ اور حبیب نیشاپوری رحمۃ اللہ علیہ نے طب نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے مجموعے اپنی ذاتی کوششوں سے مرتب کئے مگر ناقدری علم سے یہ سارے مجموعے اب ناپید ہیں۔ البتہ ان کے حوالے اس زمانے کی دوسری کتابوں میں ملتے ہیں۔
ساتویں سے نویں صدی ہجری کے دوران ابی جعفر المستغفری، ضیاء الدین المدسی، السید مصطفٰی للتیفاشی، شمس الدین البعلی، کحال ابن طبر خان، محمد بن احمد ذہبی رحمہم اللہ تعالٰی علیہ، جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ اور عبدالرزاق بن مصطفٰی الانطاکی نے ارشادات نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے گلدستے بنائے۔ ان سب کی کاوشیں اب زیور طبع سے آراستہ ہوکر موجودہ دور میں موجود ہیں۔ البتہ ابن قیم کا مجموعہ سب سے ضخیم، ثقہ اور مقبول ہے۔
حالیہ برسوں میں طب نبوی صلی اللہ علیہ وسلم پر کئی اہم تصانیف منظر عام پر آئی ہیں۔ ان میں بڑی محنت اور عقیدت کے ساتھ احادیث کے معنی و مفہوم کو بیان کرکے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بتائے ہوئے علاج کے طریقوں کو اپنانے کی ترغیب دی گئی ہے۔ یہ کتابیں مسلمانوں کیلئے یقیناً اہمیت کی حامل ہیں کیونکہ ایسی کتب ایمان کو تقویت اور علم میں اضافے کا سبب بھی بنتی ہیں۔
یورپ کے غیر مسلم مؤرخین کا خیال ہے اور جسے سائنس کی تاریخ کی بیشتر کتابوں میں پڑھا جا سکتا ہے کہ ساتویں صدی سے دنیائے اسلام میں طبی سائنس سے دلچسپی اور زبردست فروغ کی اصل وجہ تاجدار رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وہ طبی ہدایات تھیں جو انہوں نے عام مسلمانوں کو دیں اور جن پر پوری امت نے صدق دل سے عمل کیا۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو ساتویں صدی اور اس سے قبل کے مروجہ جھاڑ پھونک اور جادو ٹونا جیسے علاجوں سے ہٹ کر مسلمان دوا پر اتنا زور کیونکر دیتے اور دنیا کے بہترین ہسپتالوں کی بنیاد بغداد، دمشق، قاہرہ، غرناطہ، قرطبہ، اشبلییہ وغیرہ میں کیوکر پڑتی اور یونانی طب کی بنیادوں پر اسلامی طب کی اہمیت کو ساری دنیا ماننے پر کیونکر مجبور ہوتی اور مسلمان اطباء کی “القانون“ اور “الحاوی“ جیسی تصنیفات کو یورپ کی میڈیکل یونیورسٹیوں میں چھ سو سال سے زیادہ عرصہ تک کیونکر پڑھایا جاتا۔
ساتویں صدی اور اس سے قبل افریقہ اور ایشیا کے سارے علاقوں میں جہاں رومیوں یا بازنطینیوں کا اقتدار تھا، طب سے شدید نفرت پائی جاتی تھی اور دینی اعتبار سے کسی مرض کے لئے دوا کے استعمال کو نامناسب تصور کیا جاتا تھا۔ مرض پر قابو پانا یا اس سے چھٹکارا دلانا طبیب کا کام نہ تھا بلہ یہ فریضہ کاہنوں، جادوگروں یا پھر عبادت گاہوں میں رہنے والے دینی رہنماؤں کا تھا۔
علاج معالجہ کے سلسلے میں یورپ کا حال فارس، عراق، شام اور مصر سے زیادہ خراب تھا۔ وہاں تو سوائے جادو ٹونا اور گنڈہ تعویذ کے مرض سے نجات پانے کا کوئی دوسرا طریقہ ہی نہ تھا۔ طبعی علاج کرنے والے سزا کے مستحق قرار دئیے جاتے۔
امراض کیلئے کسی طبعی علاج کو غیر ضروری سمجھنا ایک ایسا طرز فکر تھا جو رومن سلطنت میں عام تھا اور کہا جاتا تھا کہ یہی منفی طرز عمل اس کے زوال کا سبب بنا۔ بتایا جاتا ہے کہ ایک زبردست ملیریا کی وباء نے رومن سلطنت کی کافی آبادی کو موت سے ہمکنار کر دیا۔ لاکھوں افراد دماغی اور جسمانی اعتبار سے مفلوج ہوگئے۔
سلطنت کا ڈھانچہ گرنے لگا لیکن صورتحال پر قابو پانے کیلئے کوئی طبعی طریقہ نہ اپنایا گیا کیونکہ ایسا کرنے سے دین کی مخالفت سمجھی جاتی تھی۔
غرضیکہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مبعوث فرما ہوئے تو اس دور میں سارا عالم بالعموم اور عرب دنیا بالخصوص طب یا طبی علم سے بے خبر ہی نہ تھی بلکہ اس پر اعتقاد کو دین کی ضد تصور کرتی تھی۔ پانچویں صدی عیسوی قبل مسیح کا یونانی علم تاریکیوں میں کھو چکا تھا۔ بقراط کا کوئی نام لیوا نہ تھا۔ ایسے دور میں نبی کریم رؤف رحیم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے طب، دوا اور امراض کے تدارک کیلئے طبعی طرز علاج کو اپنانے کا حکم صادر فرمایا۔ بامعنی دعاء کا اجازت عطا فرمائی لیکن بے معنی جھاڑ پھونک کی مخالفت فرمائی۔ دعاء سے قبل مناسب دوا کا راستہ اپنانے کی نتلقین فرمائی۔ مرض کو اور مرض کے علاج دونوں کو تقدیر الٰہی سے تعبیر فرمایا۔ عرق گلاب اس دور میں سکون کی نعمت ہے
عندلیب آمنہ
موجودہ دور میں انسان قدرتی اشیاء کے استعمال سے دور ہوتا ہے جا رہا ہے۔ کھلی فضا میں سانس لینے کے بجائے بند کمرے میں اے سی کی ٹھنڈک کو ترجیح دیتا ہے۔مختلف بیماریوں میں مصنوعی طور پر تیار کردہ ادویہ کا سہارا لیتا ہے ‘جن سے وقتی سکون تو مل جاتا ہے مگر ان ادویہ کے نتائج جب ظاہر ہوتے ہیں تو سارا جسم بیماریوں کی آماجگاہ بن جاتا ہے۔

جدید سائنس نے بھی اس بات کو تسلیم کر لیاہے۔ خوبصورتی کے لئے خوا تین مصنوعی اشیا پر منحصر رہتی ہیں۔ بازار میں نت نئے صابن ، پر فیومز ،لوشنز ، موئزچرائزرز ،دلکشی کے چند مناظر دکھانے کے بعد مختلف جلدی امراض میں مبتلا ہو جا تا ہے کہ کیونکہ حسن و زیبائش کی بیشتر ایشا کیمیائی اجزا سے تیار کی جاتی ہیں۔

آج سے تقریبابیس پچیس سال پہلے جب آرائش حسن کی اشیا کا رجحان نہین تھا تو خوا تین اپنے چہرے کے تروتازہ ،خوبصورت رکھنے کے لیے قدرتی اجزا سے بنی ہوئی اشیااستعمال کرتی تھیں ،جن سے ان کا حسن ڈھلتی جوانی میں بھی برقرار رہتا تھا۔ وہ (خواتین )قدرتی اشیا جڑی بوٹیوں سے جلد اور بالوں کی نگہداشت کرتی تھیں۔ چہرے کی جلد کے لئے عرق گلاب اور لیموں کا استعمال کرتی تھیں۔

بعد میں طب یونانی نے ان دونوں اشیا کو دلکش اور جلد کی صحت کا امین قرار دیا۔ دیکھا جائے تو عرق گلاب کے متعدد فوائد ہیں۔ مثلاعرق گلاب جلد میں پانی کی مناسب مقدارقائم کرنے میں مددکرتا ہے گرمیوں میں ہماری جلد پر پسینہ آتا ہے۔ عرق گلاب کا استعمال پسینے کی بدبو سے نجات دلاتا ہے۔ روئی کے پھوئے پر عرق گلا ب لگا کر چہرہ اور گردن صاف کریں آپ کی جلد کے مسام نائٹ ہو جائیں گے۔پسینے کا اخراج کم ہو جاتا ہے ،نتیجتاً کیل مہاسے بھی نہیں ہوتے۔

جلد کے خشک ہو جانے کی وجہ سے ہم مختلف اقسام کی کولڈ کرم ،موئسچرائزر وغیرہ کا استعمال کرتے ہیں۔ مگر عرق اور گلیسرین کا مرکب سب سے سستا اور مفید موئسچرائزر رہے اور اس کے روزانہ استعمال سے جلد سے خوشبو آتی ہے اور جلد کی خشکی بھی دور ہو جا تی ہے۔ خو اتین جھایؤں ، جھریوں سے نجات حاصل کرنے کے لئے مہنگی سے مہنگی کریمیں آزماتی ہیں۔ اس کے بجائے عرق گلاب میں شہد اور لیموں کا عرق ملا کر لگائیں ،پھر فائدہ دیکھیں۔رنگت گوری کرنے کے لیے بیس ملی گرام ،عرق گلاب ،دس ملی گرام گلیسرین اور ایک لیموں کا رس ملا کر روزانہ رات کو سوتے ووقت لگائین تو مطلوبہ نتائج بر آمد ہوں گے۔ گھریلو کاموں سے بیشتر خواتین کی انگلیاں ، ہاتھ اور ناخن کھر درے ہو کر پھٹ جاتے ہیں۔

ایسے میں عرق گلاب اور پیرافین لیکوئڈ ہم وزن ملا کر لگائیں۔ اسے کے علاوہ پھٹے ہوئے پیروں پر عرق گلاب ، پیرافین لیکویڈ اور شہد لگائیں ،پیر نرم ہو جائیں گے۔ ایگزیما سے متاثر افراد اگر علاج کے ساتھ روزانہ عرق کا گلاب کا استعمال کریں تو مرض میں افاقہ ہوتاہے۔ آنکھوں میں چمک پیدا کرنے کے لئے روزانہ عرق کا گلاب چند قطرے ڈالیں۔ آنکھیں انسان کے جسم کا اہم عضو ہیں انہیں بھی صاف اور خالص خوراک کی ضرورت ہوتی ہے۔ اسلئے ضروری ہے کہ ہم نیند پوری لیں ، آنکھوں کو سادہ پانی سے دھوئیں اور عرق گلاب کا استعمال مستقل رکھیں۔ کمپیوٹر پر کام کرنے والے روزانہ آنکھوں میں عرق گلاب کے چند قطرے ڈالیں ، مضر اثرات سے محفوظ رہیں گی

عموماً ذہنی اور جسمانی مشقت کرنے والے مختلف وٹامنز اور آئرن کی گولیاں ، سیرپ وغیرہ کا استعمال کرتے ہیں مگر عرق گلاب ، شہد اور اسپغول ان ادویہ سے زیادہ توانائی بخش ہیں۔ اگر ان کو خوراک کا حصہ بنا لیں ، تو بیشتر بیماریوں سے دور رہیں گے۔ ناخنوں پر دھبے پڑ جائیں تو عرق گلاب میں لیموں کے چند قطرے ہم وزن ملا کر ناخن ملا کرناخن دھو لیں۔ ایسا کرنے سے دھبے ختم ہو جا تے ہیںاور ناخنوں کی قدرتی چمک اور افزائش برقرار رہتی ہے۔
ہونٹوں کی تروتازگی پر چہرے کی رونق کا انحصار ہوتا ہے۔ جن خوا تین کے ہونٹ خشک اور پھٹے ہوئے رہتے ہیں ، انہیں کھانے پینے اور بولنے تک میں دشواری ہوتی ہے۔ ایسے میں ایک چائے کا چمچہ عرق گلاب میں ایک لیموں کا رس اور آدھا چائے کا چمچہ زیتون کا تیل ملا کر لگائیں اگر زیتون کا تیل دستیاب نہ ہوتو عرق کا گلاب میں ہموزن شہد ملا کر لگا لیں۔ عرق گلاب دانتوں اور منہ کی بیماریوں میں نہایت سستی اور پر اثر دوا ہے۔ منہ کے چھالوں کے لئے نیم گرم عرق گلاب کی کلیاں کریں ، چھالے ختم ہوجائیں گے۔ اس کے علاوہ مسوڑھوں کی سوجن میں بھی اس سے آرام ملتا ہے۔

اگر آپ کے دانتوں میں درد ہے تو ایک کھانے کا چمچہ کالی مرچ لیں۔ انہیں پیس کر عرق گلاب میں ملا کر دانتوں پر لگائیں تو درد سے فوراً نجات مل جائے گی۔ برصغیر میں عرق گلاب کے عطر کا استعمال قدیم روایت ہے، مگر امریکہ اور انگلینڈ سمیت دوسرے یورپی ممالک کا گلاب بطور پرفیوم بھی استعمال ہو رہا ہے۔ ان ممالک میں عرق گلاب نہایت مہنگا ہو تا ہے، جب کہ ہمارے ہاں خالص عرق گلاب کی بوتل سستی ملتی ہے۔ عرق گلاب ایک خوشبو ،دوا ،غذا اور مشروب ہے۔ گرمیوں میں گلاب کیشربت دستیاب ہیں مگر یہ تسلی کر لیں کہ جو عرق گلاب آپ نے خریدا ہے وہ خالص ہے یا نہیں۔ خالص عرق گلاب اپنی خوشبو سے پہچان لیا جاتا ہے جب کہ نقلی عرق گلاب کی خوشبو تلخ اور بد مزہ ہو تی ہے۔(یو پینٹ سے مردانہ بانجھ پن میں اضافہ

پینٹ میں شامل جلیکول سے مردوں کی تولیدی صلاحیت متاثر ہوتی ہے
تحقیق کارروں کے مطابق ایسے تمام اشخاص جو پینٹ یا گھروں کی اندرونی زیبائش کرتے ہیں وہ پینٹ میں شامل جلیکول کیمیکل سے متاثر ہوتے ہیں اور ان کی تولیدی صلاحیت کم ہو جاتی ہے۔

برطانیہ کی یونیورسٹی آف مانچسٹر اور شیفیلڈ کی مشترکہ ریسرچ کے تولیدی مرکزوں کا دورہ کرنے والے دو ہزار ایسے لوگوں پر ریسرچ کی گئی جو مردانہ بانجھ پن کا شکار ہیں۔

تحقیق کارروں کے مطابق ایسے اشخاص جو پینٹ کرتے ہیں ان میں بچے پیدا کرنے کی صلاحیت ڈھائی فیصد کم ہوتی ہے۔

تحقیق کارروں کے مطابق مردانہ بانجھ پن کی دوسری وجوہات، تمباکو نوشی، انتہائی جست پاجامے پہننے اور خصیہ کی سرجری کے علاوہ پینٹ میں شامل کیمیکل سے متاثرہ لوگوں کی تولیدی صلاحیت کو کم کر دیتا ہے۔

یونیورسٹی آف مانچسٹر کے ڈاکٹر اینڈی پووی کے مطابق ان کو پہلے بھی معلوم تھا کہ جلیکول مردوں کی تولیدی صلاحیت کو متاثر کرتا ہے اور پچھلے دو عشروں سے اس کیمیکل کے استعمال میں کمی واقع ہوئی ہے۔

شیفیلڈ یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر ایلن پیسی نے کہا کہ تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ پینٹ میں شامل صرف جلیکول کیمیکل ہی تولیدی صلاحیت کو متاثر کرتا ہے جس سے کئی مردوں کی پریشانیوں میں کمی واقع ہو گی مشروم کا استعمال ہائی بلڈ پریشر، ذیابیطس، سرطان اور دیگر کئی بیماریوں کے علاج میں شفا کا ذریعہ بنتا ہے۔

حضور اکرمﷺ کے مرغوب کھانوں میں کھنبی یعنی مشروم بھی شامل ہے۔ حضرت عبداللہ بن عبا سے روایت ہے کہ ہمار ے یہاں رسول اکرمﷺ تشریف لائے اور فرمایا کہ ”جب جنت مسکرائی تو مشروم زمین پر آ گئی اور جب زمین مسکرائی تو کُبر نکل آئی  مشروم ایک خود رُو پودا ہے جس کا تعلق خاندان سے ہے اس میں نہ تو شاخیں ہیں اور نہ پتے اور کُبر ایک خودرو کانٹوں والی جھاڑی ہے جس کے ساتھ بیر کے مانند پھیکے پھل لگتے ہیں بعض محدثین کے مطابق خود رروں ہونے کے باعث بغیر کاشت کے بنی اسرائیل کی سکونت کے علاقے میں پیدا کر دی گئی یوں یہ تحفہ خداوندی بن گئی اور بعض محدثین کا خیال ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کی مشکلات کے زمانے میں ان پر آسمان سے پکے ہوئے کھانے من و سلویٰ نازل فرمائے اس میں من سے مراد کئی قسم کی سبزیاں ہیں مشروم من کی ایک قسم اور ایک جز ہے اور سلویٰ سے مرادپرندوں کا گوشت ہے۔ حضرت سعید بن زید سے روایات ہے کہ مشروم اس منہ میں سے ہے جو اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کے لئے نازل فرمایا تھا اور اس کا پانی آنکھوں کے لئے شفا ہے۔ مشروم کی اقسام مشروم کی کئی اقسام دریافت ہو چکی ہیں لیکن عام استعمال کے لئے  کے خاندان کی مشروم درست ہے۔ مشروم کو چھتری دار ہونے کی وجہ سے ”کماة“ کہا جاتا ہے محاورے میں ،کماة الشہادة، یعنی گواہی چھپانے کے معنی میں استعمال کیا جاتا ہے مشروم کی ایک قسم گول سر والی ہوتی ہے جو عام طور پر سالن میں پکا کر کھائی جاتی ہے سفید رنگ کی مشروم سب سے عمدہ غذا ہے مشروم کی ایک اورقسم کا رنگ سرخی مائل ہوتا ہے یہ مہلک ہوتی ہے بعض اطباء نے سرخ کو بھی اچھا کہا ہے مگر سرخ اور سیاہ زہریلی ہوتی ہیں یوں تو مشروم کی کئی قسمیں زہریلی ہیں مگر ایک تحقیق کے مطابق مشروم کی کاشت میں زہریلی مشروم کا اگاؤ خارج از امکان ہے کاشت کی جانے والی مشروم میں اس قسم کا خدشہ یا خوف نہیں ہوتا اس کی کاشت کے لئے جس خاص مشروم کا بیج لگایا جاتا ہے اس سے وہی فصل حاصل ہوتی ہے۔ دنیا بھر میں ہزاروں اقسام کی مشروم پائی جاتی ہیں، جن میں سے تقریباً ڈھائی ہزار اقسام کھائی جا سکتی ہیں لیکن عام طور پر 20اقسام اگائی جاتی ہیں، اسٹرا مشروم (جسے چائینز مشروم بھی کہا جاتا ہے) بہت مقبول مشروم ہے۔ اس کی کاشت اور فروخت تجارتی بنیاد پر ہوتی ہے اسے تازہ اور خشک دونوں حالتوں میں استعمال کیا جاتا ہے اس کی تین اقسام کو مصنوعی طور پر کاشت کیا جاتاہے اس مشروم میں وٹامن  سی پایا جاتا ہے اس مشروم میں لحمیات بھی ہوتے ہیں جو کئی اقسام کے ٹیومر کے خلیوں کوبڑھانے سے روکتا ہے مشروم کی دو اقسام  صدیوں سے دواؤں کی تیاری میں استعمال ہو رہی ہیں  مشروم کو مختلف معاشروں میں مختلف طریقوں سے ا ستعما ل کیا جاتا رہا ہے قدیم یونانی اسے  خدا کی خوراک  کہا کرتے تھے ان کا عقیدہ تھا کہ طوفان بادو باراں کے موقع پرسیارئہ عطارد سے زمین پر خاص روشنی آتی ہے جس سے مشروم اگتے ہیں مصرف اسے  اوسیرس کا تحفہ کہتے تھے جب کہ چینیوں کا خیال تھا کہ مشروم میں تمام بیماریوں کا علاج پایاجاتا ہے  تازہ ترین کیمیائی تجزیے سے معلوم ہوا ہے کہ مشروم کے عرق کی تطہیر سے جو کمپاؤنڈ حاصل ہوتا ہے اس کی تجارتی پیمانے پر خریدو فروخت ہونے لگی ہے، کیونکہ یہ ادویہ کی تیاری میں استعمال ہوتا ہے مشرومز کی بہت سی اقسام حیاتیاتی سطح پر بہت فعال ہوتی ہیں اس میں ٹیومرز کی خلاف مدافعت کی خاصیت پائی جاتی ہے ادویہ کی تیاری میں استعمال کیلئے اگلے جانے والے مشرومزسرطان کے علاج کی ادویہ میں بھی استعما ل کئے جاتے ہیں ہائی بلڈ پریشر، ذیابیطس (ایک اور دو) اور دیگر کئی بیماریوں کے علاج میں بھی یہ موٴثر ثابت ہوتے ہیں۔ مشروم کے غذائی اجزاء: تحقیق کے مطابق مشروم کے کیمیائی اجزاء کا تناسب کچھ اس طرح سے ہے۔ پروٹین 5فیصد، چکنائی 5فیصد، کاربو ہائیڈریٹس 5فیصد، کیلوریز 2فیصد، سوڈیم 2.6فیصد، پوٹم شیم 33فیصد، کیلشیم 18فیصد، میگنیشیم 2.18فیصد، کاپر 18فیصد، آئرن 29فیصد، سلفر 9.6فیصد، کلورین 24فیصد۔ نبی کریمﷺ کی تجویزکردہ دیگر ادویہ اور غذاؤں کے مانند اس میں سوڈیم کی مقدار کم سے کم اورپوٹاشیم کی زیادہ ہے۔ مشروم میں 30سے 40فیصد لحمیات، حیاتین اور نمکیات پائے جاتے ہیں عالمی ادرئہ صحت اور رائل کالج آف فزیشن انگلینڈ کی ٹیم کی ایک خوراک سے متعلق مستند رپورٹ کے مطابق مشروم میں 16فیصد امینو ایسڈ مختلف تناسب میں پائے جاتے ہیں حیاتین اور نمکیات بھی وافر مقدار میں پائے جاتے ہیں خصوصاً Bگروپ کے ساتھ D.A.Kاور فولک ایسڈ بھی موجود ہوتے ہیں اس میں موجودBکا گروپ گلو کوز یاتین اور میٹا بولزم خوراک کوجز و بدن بنانے کے لئے بہت ضروری ہے یہ بچوں میں پائے جانے والی بیماری ”ریکٹس“ جس میں ہڈیاں ٹیڑھی ہو جاتی ہیں کا قدرتی علاج ہے مشروم میں پائے جاننے والے نمکیات میں کیلشیم، پوٹاشیم، مینگنیز، فاسفورس اور فولاد خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ طبی فوائد: مشروم میں قدرتی طورپر بے شمار طبی فوائد پائے جاتے ہیں۔ رسول اکرمﷺ نے فرمایا کہ ”کھنبی ”من“ میں سے ہے اور اس کا پانی آنکھوں کی بیماریوں کے لئے شفا ہے جب کہ عجوہ  کھجور جنت سے ہے اور وہ زہروں کے لئے تریاق ہے۔“ حضرت ابوہریرہ کہتے ہیں کہ اس کے بعد میں نے تین، پانچ یا سات کھنبیاں لیں اور ان کاپانی نچوڑ کر ایک شیشی میں ڈال لیا پھر میں نے یہ پانی اپنی ایک لونڈی کی آنکھوں میں ڈالاجس کی آنکھیں چندھائی ہوئی تھیں اس پانی سے وہ شفا یاب ہو گئی (ترمندی) یہ حدیث مشروم کے پانی سے آنکھوں کی بیماریوں سے شفا کی بہترین مثال ہے۔ مشروم کو آنکھوں میں ڈالنا قعیف بصارت اور سوزش کے لئے از حد مفید ہے اس کی تصدیق فاضل اطباء میں بو علی سینا نے کی ہے اور آنکھ کی متعدد بیماریوں میں مشروم کو اکسیرقرار دیا ہے مشروم کا رس نکال کر اور خاص کر اسے بند دیگچی میں ڈال کر بھوننے پر جو پانی اس میں سے نکلتا ہے آنکھ میں ٹپکانے سے آنکھ کاجالا کٹ جاتا ہے مشروم کے پانی میں سرمے کو گھول کر آنکھ میں لگایا جائے تو بصارت تیز ہوتی ہے۔ بعض اقسام میں مشروم کو سکھا کر، پیس کر کھانے سے اسہال رُک جاتے ہیں۔ مشروم حرارت کو مٹاتی، بلغم کوکم کرتی اور گاڑھا کرتی ہے مشروم کو سریش کے ساتھ کوٹ سرسکے میں حل کرکے بچوں کی بڑھتی ہوئی ناف پر لگانے سے ناف اندر چلی جاتی ہے ہرنیا کیلئے بھی یہی لیپ مفیدہے مشروم سے خون میں اضافہ ہوتا ہے اسے پیس کر بآسانی مند مل نہ ہونے والے زخموں پر لگائیں تو فائدہ ہوگا وید کے مطابق خشک مشروم سر پر ملنے سے بال آگ آتے ہیں مشروم پر تجربات کا سلسلہ جاری ہے جس کے تحت مشروم سے حاصل ہونے والے مرکبات سے علاج کاقوی امکان ہے کیونکہ مشروم میں جراثیم کش ادویہ کی موجودگی ثابت ہو چکی ہے اگر مشروم کوشہدکے ساتھ ملاکر کھایا جائے تو ٹائیفائیڈ اور دوسرے بخاروں میں مفید ہے تپ دق، پرانی کھانسی کے لئے بے حد مفید ہے جونک لگنے کے بعد زخم سے بہنے والا خون اس سے رُک جاتا ہے۔ مشروم کا جوہر  ہومیو پیتھک طریقہ علاج کی ایک مقبول دوا ہے۔ سر کے بھاری پن میں اور خواتین کے بعض امراض میں مشروط مفید ہے۔ بالخصوص مشروم کا عرق بعض امراضِ نسواں میں بے حد فائدہ مند ہے کالی کھانسی، پیٹ کی آنتوں میں درد کی کیفیت میں مشروم کا عرق استعمال کرنا چاہئے جرمن اطباء کے مطابق  کے جسم پر اثرات کو ختم کرنے والی کوئی دوا نہیں ہوتی البتہ ابتدامیں پتہ چل جائے تو مریض کا معدہ دھو کر اسے جسم سے نکالا جا سکتا ہے۔ چین کے محققین کے مطابق مشروم دورانِ خون کی بہتری اور کولیسٹرول کی سطح کم رکھنے میں معاون ثابت ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ گلٹیوں کے بڑھنے اور بعض بیماریوں کوپھیلانے والے وائرس کے خلاف قوتِ مدافعت بڑھاتی ہے ذہنی امراض میں بھی مشروم کے شفا بخش اجزاء مفید ہیں اس کے علاوہ مشروم خشک کرکے پیس کر کھانے سے پیچش میں فائدہ ہوتا ہے مشروم کو حلوے کے ساتھ پکا کر کھانے سے لاغر جسم فربہ ہوتا ہے شوگر اور کولیسٹرول کے لئے قدرتی علاج ہے بواسیر سے محفوظ رکھتا ہے یرقان اور شدید فلو کا موٴثر علاج ہے گردوں کی صفائی کے لئے کارآمد ہے تازہ مشروم اینٹی الرجک دوا کے طورپر پر مفید ہے ادویات میں مشکوم کا استعمال عام ہوتا جا رہا ہے جاپانی طریقہٴ علاج   اسی کو پیش نظر رکھ کر ایجاد کیا گیا ہے۔ زہریلے مشروم: جہاں مشروم کے بے شمار فوائد ہیں وہیں اس کے مضر اثرات کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ جدید تحقیق کے مطابق مشروم کی زہریلی اقسام میں ایک زہر  ہوتا ہے یہ زہر اعصابی نظام پر اثر انداز ہوتا ہے جس سے پٹھوں میں درد، اعضاء میں اینٹھن اور رشے کی مانند کپکپی ظاہر ہونے لگتی ہے اس کے بعد دماغی اثرات سے فالج اورتشنج ہو جاتا ہے ایک سے زائد مقدار میں مشروم کھانے اور علامات ظاہر ہونے کے باوجود احتیا ط نہ کی جائے تو موت واقع ہو جاتی ہے لیکن یہ اثرات صرف زہریلی مشروم میں پائے جاتے ہیں۔ مشروم کے زہریلے ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں معلوم کرنے کے لئے ایک چھوٹا سا تجربہ بھی کیا جا سکتا ہے کہ دو تین مشروم اور دو تین لہسن کے جوے پانی میں ڈال کر ابال لیں اگر اگر پانی کا لایا براؤن رنگ کا ہو جائے تو سمجھ لیں کہ مشروم زہریلے ہیں وگرنہ پکا کر کھانے میں کوئی حرج نہیں ہے یہ طریقہ انتہائی سادہ اور آسان ہے اس کے مضر اثرات سے بچنے کے لئے زیتون کے تیل میں بھوننا زیادہ مفیدہے۔ مشروم کو استعمال کرنے سے پہلے انہیں اچھی طرح صاف ضرور کرلیں۔ خاص طورپر جنگلی مشروم مٹی میں لدھے ہوتے ہیں لہٰذا انہیں اگر تھوڑی دیر کے لئے پانی میں بھگو کر رکھ دیں اور پھر کچھ دیر بعد انہیں صاف کریں تو مشروم اچھی طرح سے صاف ہو جائیں گے جنگلی مشروم کو پانی میں بھگو کر صاف کرنا ضروری ہے پانی میں بھگونے کے بعد مشروم کو اچھی طرح سے خشک کرنا بھی ضروری ہے انہیں کبھی بھی بہت زیادہ دیر تک نہ بھگوئیں ورنہ یہ مرجھائیں جائیں گے۔ عام طور پر مشروم کوچھیلنا ضروری نہیں ہوتاصرف صاف کرلینا ہی کافی ہوتا ہے مشروم ایک ایسی خودروسبزی ہے جو کہ بہت زیادہ عام تو نہیں ہے مگر یہ جہاں جہاں پائی جاتی ہے لوگ اس سے خوب فائدہ حاصل کرتے ہیں ذائقے سے بھرپور مشروم مختلف کھانوں میں استعمال کی جاتی ہیں۔ مشروم کی غذائی اہمیت مشروم ایک غذائیت سے بھرپور اور ذائقے دار سبزی ہے۔ زمانہ قدیم سے ہی لوگ اس سے استفادہ کرتے چلے آ رہے ہیں مصری تہذیب میں مشروم نفیس ترین غذا کا درجہ رکھتی تھی اور شہنشاہوں اور صف اول کے امرا تک محدود تھی۔ روم میں مشروم کو دیوتاؤں کی خوراک تصور کیا جاتا تھا اہل ثروت تحفتاً اس کا باہمی تبادلہ کرتے اور یہ تحفہ کسی معززشخص کے ہاتھ بھیجا جاتا ادنیٰ درجے کے ملازم کے ہاتھ نہیں بھیجا جاتا تھا اس سے مشروم کی اہمیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے مشرق بعید کے بیش تر ممالک میں مشروم روز مرہ غذا میں شامل ہیں۔ مشروم کی غذائی اہمیت مسلم ہے۔ زمانے اور وقت کی رفتار کے ساتھ جہاں اور بہت سی تبدیلیاں آئیں وہاں خواص کے ساتھ عوام کو بھی بعض چیزوں کے استعمال کے مواقع نصیب ہوئے۔ ان میں سے ایک مشروم بھی ہے۔ جب لوگوں کو احساس ہوا کہ مشروم غذائیت سے بھرپور فصل ہے تو وہ اس کی جانب متوجہ ہوئے اورحال یہ ہے کہ اب مشروم ا کثر کھانوں کا لازمی جُزبنتی جا رہی ہے۔ مشروم کو چاولوں کے ساتھ پکاکر پلاؤ بنا کر کھانا جسم میں توانائی کا باعث بنتا ہے۔م نہ تو سردی کی شدت میں پیدا ہوتی ہے اور نہ ہی یہ گرمی کاپودا ہے بلکہ یہ اس وقت نمو پاتی ہے جس موسم معتدل اور خوشگوار ہو خاص طور پر موسمی بارشوں کے دوران عرب کے لوگ اسے آسانی بجلی کی سبزی ”یعنی نبات الرد“ کا نام بھی دیتے آئے ہیں، کیونکہ یہ بجلی چمکنی اور مینہ برسنے کے بعد پیدا ہوتی ہے۔ عرب کی زمین پر اس کی پیداوار زیادہ ہے۔ عمدہ قسم کی مشروم وہی ہوتی ہے جو ریتلی زمین کی ہو جہاں پانی کم ہو۔ مشروم ایک مقبول غذا ہے۔ یورپی ہوٹلوں میں لوگ بڑے شوق سے مشروم سے بنے پکوان کھاتے ہیں۔ یہ دنیا کے چند مہنگے ترین پکوان میں سے ایک ہے۔ متعدد ملکوں میں اب کافی خوردنی کھنبیاں ڈبو میں بند ہو کر اسٹوروں پر آسانی سے مل جاتی ہیں کیونکہ ان میں ذائقے کے علاوہ لحمیات کی اضافی مقدار ان کو مفید بنا دیتی ہے چینی کھانوں میں مرغی اور مشروم، مرغی اور گائے کا گوشت یا مچھلی کے علاوہ مشروم کا پلاؤ بڑا مقبول ہے مشروم کو کچا بھی کھایا جاسکتا ہے اور پکا کر بھی اس کی سفید شکل کھانے میں بہتر ہے مشروم کا زراعت کے بغیر پیدا ہونا اس کی افادیت کا بہت بڑا ثبوت ہے کیونکہ ایسا کرکے اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق کو اپنی طرف سے ایک بیش بہا تحفہ عطا کیا ہے اس لحاظ سے مشروم کا مفید ہونا ایک لازم امر ہے۔ طب اسلامی -اپنے عہد سے ہزار سال آگے برقیہ  چھا پیے ویں صدی ہجری میں مسلمانوں کی حکومت میں بغداد ،قاہرہ اور کارڈوبا دنیا میں علم و دانش ،تجربہ و ایجاد ،اختراع ،تدوین ،تفتیش اور اعلی تعلیم کے لئے مشہور مقامات تھے جہاں سارے عالم اسلام سے طالب علم علم و ہنر کے حصول کے لئے یکجا ہورہے تھے ۔مسلمانوں کے خلیفہ کے زیر سر پرستی دنیا کے سارے علوم پر تحقیق و تفتیش کا کام جاری تھا۔ایجادات ،تجربات اور نئی نئی چیزوں کا اختراع ہو رہا تھا۔آج سے ہزار برس پہلے ان مقامات پر طب نے عملی طورپر وہ مقام حاصل کیا تھا جس کی آج کچھ نقالی کرکےے امریکہ مہذب اور ترقی یا فتہ ممالک میں سرفہرست ہے۔

اسلامی طبی علوم طلسمان اور دینی حدود سے باہر نکل کر سائنٹفک ریسرچ جدید ترین نظام اور اصولوں کو اختیار کررہے تھے۔ان طبی اداروں میں طب کی وہ جدید ترین سہولتیں فراہم کی گئی تھی جو آج کے سائنسی دور میں نہایت ترقی یا فتہ ممالک میں جذباتی طورپر اختیار کی گئی۔اعلی معیار کے اسپتالوں کی تعمیر ،کھلے روشن اور ہوا دار کمرے ،بڑے بڑے ہال،مختلف شعبوں میں ان کی تقسیم ،باہری مریضوں اور اندرونی مریضوں کے لئے ایک جدا نظام ،عورتوں کے لئے دواسازی کا الگ شعبہ ،تحقیق و تفتیش ،عرق سازی ،کثید و تقاطیر کے عمل کے لئے الگ شعبہ کا ہونا،جڑی بوٹیوں کے لئے بوٹانیکل گارڈن ،مریضوں کا ریکارڈ رکھنا،کیفیتوں کا اندراج اور خصوصی طورپر جراحی ،عمل جراحی ،اس کے آلات کی ایجاد اور مرہم سازی ودیگر بہت سارے نظام ایسے تھے جو مکمل طورپر دنیا کے کسی بھی ملک میں ان دنوں نہیں پائے جاتے ۔یہ بات حیر انگیز نہیں کہ جراحی ،علاج ،طب ،کیمیاگری،علم الابدان،نفسیاتی علاج،جسمانی امراض ،وائرس کی بیماریاں ،ان کا علاج ،کیشر،گیگرین ،وارم انخاع(مین جائی ٹیز)ٹی بی ،گردہ کی پتھری کا آپریشن ،آنکھ کے موتیا بند ،جالہ ،ماڑا و دیگر قسم کے آپریشنن وعلاج ان دنوں نہایت آسانی سے کئے جارہے تھے۔

جب پورا یورپ خصوصی طور پر لندن اور پیرس دھول اور کیچڑوں کا ڈھیر تھا تب بغداد،قاہرہ اور کارڈوبا کے اسپتالوں میں عورتوں اور مردوں کے لئے علیحدہ انتظام تھا۔بخار کے مریضوںکو ایسے کمروں میں رکھا جاتا جہاں جھرنوں اور فواروں سے ٹکر اکر سرد ہوا آتی ۔پاگلوں اور ذہنی و نفسیاتی امراض کے لئے شعبے جدا تھے۔مریضوں کو سکون کی خاطر کہا نیاں سنائی جاتی اور ہلکی موسیقی سے سکون فراہم کیا جاتا۔مریضوں کو اسپتال سے رخصت کے وقت رائج 5اشرفیاں دی جاتی ۔عورت نرس اور مرد تیمار دار مریضوں کی دیکھ ریکھ کے لئے ہوتے ۔ان اسپتالوں میں لائبریری ،کیمیا گری،دواسازی،تحقیق و تفتیش کے کام بھی کئے جاتے۔اسی زمانہ میں دیہی علاقوں میں علاج کے لئے اور معذور لوگوں کے علاج کے لئے سواری گاڑیوں پر متحرک اسپتالوں کا نظم تھا۔دواسازی کے اعلی معیار کے تحقیق کے لئے(ڈرگ کنٹرول)تفتیش کار (انسپیکٹر)مقرر کئے گئے تھے۔دواسازی (عطار)کرنے والوں کو حکومت کی طرف سے لائسنس دیاجاتا تھا۔طب کی تعلیم میں بھی مسلمانوں نے بیکٹیر یا لاجی،میڈیسن،اینتھیسیا سرجری،فارمیسی،روپ تھامولوجی،سائیکوتھیراپی،سائیکو سوماٹک جیسے امراض کی نہ صرف شناخت کی بلکہ ان کا علاج بھی کیا اور ان شعبوں کو ترقی کے بام عروج پر پہنچادیا۔

اسلامی حکومت حضور کے وصا ل کے صرف 80سال کے بعد مغرب میں اٹلاسٹک روشن سے مشرق میں چین تک پھیل چکا تھا۔اسپین میں اس نے 700سال تک حکومت کی ۔منگلولوں کے بربری قبضہ کے بعد بغداد کو (1258)میں جلاکر تمام کارناموں کو ختم کردیا گیا ۔اس طرح اسپین کی تہذیبی وراثت کو ڈھاکر ختم کردیا گیا۔لیکن اس کے باوجود بھی اسلامی حکومتوں نے 1000ہزار سال تک دنیا کے نہایت ترقی یافتہ اور مہذب ممالک کی حیثیت سے حکومت کی ۔اسی زمانہ میں یونانی طب حکمت و دیگر کتابوں کو یونانی سے عربی میں ترجمہ کیاگیا اور 10ویں صدی میں یہ کام دمشق ،قاہرہ اور بغداد میں بڑے پیمانہ پر کیاگیا اور اس طرح بغداد سائنسی علمی تحقیقی شہر کے حیثیت سے سارے دنیا میں نمایاں ہوکر ابھرا۔اسلامی ادویہ و طریقہ علاج اسلامی تہذیب کا منہ بولتا ثبوت ہے۔جو مسلم سائنسدانوں کا عظیم کارنامہ ہے اور آج بھی پورا یورپ ان کے علم سے فائدہ اٹھا رہاہے۔ کیمپ بل نے بہت اچھی بات کہی ”یورپین میڈیکل سسٹم بنیادی طورپر عربی ہے ۔عرب سائنسداں یورپین کے بہت قبل ذہین ترین لوگ رہے ہیں

 میں فارس کے شہر میں جندی شاپور میں مسلمانوں نے بڑ ی بڑی یونیورسٹی قائم کی تھی ۔جس میں اسپتال بھی شامل تھے۔ بعد کے تمام اسلامی طبی کالج اسی بنیاد پر قائم کئے گئے ۔یہاں میڈیکل تعلیم نہایت اعلی درجہ کی اور سلسلہ وار تھی۔یہاں لیکچر اور تعلیم عملی طورپر ساتھ ساتھ دی جاتی ۔علی ابن العباس کی یہ بات طالب علموں کے لئے آج بھی مشعل راہ ہے ۔انہوں نے میڈیکل طلبا سے کہا کہ انہیں مستقل طورپر اسپتال اور مریض گھروں میں جانا چاہئے ۔مریضوں کا خاص خیال رکھیں ۔ان کی کیفیت اور حالات کا جائزہ لیتے رہےں ۔مریضوں سے ان کے حالات دریافت کریں اور کیفیتوں کا علم حاصل کریں اور مقابلاتی جائزہ لیں کہ انہوں نے کیا سمجھا تھا اور حالات کیا ہیں۔رازی نے طلباسے کہا کہ مریضوں کے کیفیت اور مرض جو انہوں نے پایا اس کے مابین فرق کا اندازہ لگائیں۔اس زمانہ میں رازی ۔ابن سینا اور ابن زہر اسپتال کے نہ صرف ڈائریکٹر س تھے بلکہ میڈیکل کالج کے ڈین کے فرائض بھی انجام دے رہے تھے۔مریضوں کی معالجاتی رپورٹ لکھی جاتی اور طلبا کو عملی تعلیم دی جاتی ،اس کے لئے رجسٹر مین ٹین کیا جاتا۔اس زمانہ میں صرف جندی میں بنیا دی سائنس کی تعلیم کے کئی جدا ادارے تھے۔بغداد میں لنگور کے جسم کی تشریح کے ذریعہ علم الابدان کی تعلیم دی جارہی تھی۔علقمی کے تجرباتی کتابوں کا مطالعہ جڑی بوٹیوں ان کے خواص کے لئے اور دواسازی کے لئے لازمی تھا۔بہت سارے اسپتالوں میں جڑی بوٹیوں کے لئے پودے اگانے کاانتظام تھا۔اس سے طلبا کو شناخت کرانا اور مریضوں کے لئے دواتیار کرنا مقصود تھا۔اس ابتدائی تعلیم کے بعد میڈیکل کے طلبا کو تجربوں کے لئے اسپتالوں میں لے جایا جاتا تھا۔یہ طلبا ایک نوجوان طبیب کے ساتھ ایک جماعت کی شکل میں اسپتال کے ابتدائی اصول و ضوابط سیکھتے اور کتابوں و لائبریری لیکچر اور دستاویزوں سے فیض حاصل کرتے ۔اس ابتدائی مرحلہ میں زیادہ تر تعلیم دواسازی ،اس کا متبادل اور ٹوکسی کولوجی کے متعلق کی جاتی تھی۔

طبی تربیت

اس تعلیمی دور میں طلبا کو چھوٹے جماعتوں میں تقسیم کرکے نہایت تجربہ کار معالج اور طبیب کے ساتھ رکھا جاتا جہاں ان کے ساتھھ یہ وارڈ کا دورہ کرنا،مباحثہ ،تقریر اور جائزہ لینا سیکھتے ،انہیں تھیرا پیوٹکس اور پیتھولوجی کی تعلیم اس دوران دی جاتی ۔جیسے جیسے طلبا کے اندر تعلیمی صلاحیت میں اضا فہ ہوتاجاتا ہے،انہیں مرض کی تشخیص اور فیصلہ لینے کی اجازت دی جاتی ۔مرض کا مشاہدہ اور جسمانی جانچ پر زور دیا جاتا ۔مریض کی حالت ،فضلہ،درد کا مقام اور فطرت ،سوجن اور جسمانی ساخت ،جلد کی رنگت ،احساس ،سرد گرم،نم خشک جلد کی حالت ،تھلتھلا بدن ،زردسفید آنکھیں (یرقان)پشت کے بل جھک سکتا ہے یا نہیں (پھیپھڑوں کا مرض)ان باتوں پر بھی دھیان دیا جاتا۔وارڈ کی عملی تعلیم و تربیت کے بعد طلبا کو باہری مریضوں کو دیکھنے یعنی ان کے علاج کے لئے آﺅٹ وارڈ میں کردیاجاتا ۔یہ تشخیص کی رپورٹ اپنے معلم کو دیتے ۔بحث کے بعد دوا تجویز کی جاتی ۔مریض زیادہ خطرناک حالت میں ہوتا تو اسے داخل کرلیا جاتا ۔ہرایک مریض کا جدا ریکارڈ رکھا جاتا۔

تعلیمی نصاب

ہر ایک میڈیکل اسکول میںنصاب تعلیم جدا جدا تھا۔مرض کی علالت پر اور اس کی شناخت پر زور دیا جاتا۔ابن سینا نے سب سے پہلے دماغی نخاع یعنی مین جائیٹیز کی شناخت کی ۔اس کے قبل اسے انفیکشن اور دماغی بیماری (نفسیاتی)سمجھا جاتا تھا۔ابن سینا نے اس بیماری کی علالت اور کیفیت اتنی وضاحت سے کی ہے کہ آج ہزار سال کزرنے کے بعد بھی اس میں کوئی رد وبدل نہیں ہوا ہے۔نصاب میں سرجری کو بھی شامل کیا گیا تھا۔طلبا تحصیل علم طب کے بعد کچھ ماہرین کے زیر نگرانی علم جراحی کا تجربہ حاصل کرتے ۔کچھ طلبا حفظان صحت کے امور میں مہارت حاصل کرتے ۔بہت سارے جراحی کے عمل جیسے ختنہ ،ویری کوس رگوں کی سرجری اور ہیمیر ی ہائڈ کا عمل سیکھتے ۔ارتھو پیڈکس کی تعلیم عام تھی۔ہڈی کے ٹوٹنے اور اس کے جوڑنے کے عمل کے لئے پلاسٹر آف پیرس کا استعمال شروع کردیا گیاتھا۔اس عمل کو 1852میں یورپ میں پھر سے عمل میں لایا گیا۔آنکھوں کے موتیا بند کا آپریشن عام تھا۔بچوں کی پیدائش کا معاملہ مڈ وائیوز کے حوالے تھا۔ابن سینا اور رازی نے سائیکوتھیراپی کی پریکٹس کی ۔طب کی تعلیم و تربیت کے بعد پریکٹس کرنے کے لئے لائسنس کی ضرورت لازمی تھی۔اس کے لئے ایک امتحان میں کامیاب ہونا لازمی تھا۔ایک سائنٹفک ایسوسی ایشن مسایہ فریقین اسپتال میں قائم کیا گیا تھا۔جہاں مریضوں کے بیماری اور حالات پر تبادلہ خیال ہوتا۔

میں ایک مریض کے انتقال ہونے کے بعد خلیفہ المقتدر نے اپنے خصوصی شاہی حکیم سفیان بن ثابت بن قرہ کو اس بات کے لئے تعینات کیا کہ وہ تمام معالجوں کا امتحان لیں اور مریضوں کو شفایاب کرنے کی صلاحیت کی جانچ کرکےے انہیںلائسنس دیں۔صرف بغداد میں حکمت کرنے والے 860حکیموں کی اسی کے بعد تمام اسپتالوں میں لائسنس تجویز کرنے والے ایک بورڈ کی تشکیل کی گئی ۔محتسب جو انسپیکٹر جنرل ہوتاتھا وہ اس کا سربراہ ہوتا۔یہ دوائیوں کے وزن اور ان کے معیار کی جانچ بھی کرتا (Drug Inspecto)فرماسسٹ انسپیکٹر مقرر کئے گئے۔جو آج کے امریکہ میں فوڈ ایند ڈرگ ایڈ منسٹریشن کا (FDA)کام ہے۔یہ اسلامی مملکت میں ہزار سال قبل کیا گیا تھا۔اسی طرح مغرب میں اسلامی حکومت کے ہزار سال کے بعد میڈیکل پریکٹس کرنے والوں کو لائسنس دینے کا نظم کیا گیا اور امریکہ میں امریکن بورڈ آف میڈیکل اسپیشل لیٹیز اسی نہج پر قائم کیا گیاہے۔جہاں میڈیسن ،سرجری ،ریڈیولوجی ،وغیر ہ کے ایپشیلیٹی کا طریقہ رائج ہے ۔اس کے باوجود یہ اسلامی طریقہ سے تحصیل کردہ ہے ۔آج بھی ابن سینا کی طب پر مستند کتاب ”قانون “کو پڑھے بغیر میڈیکل تعلیم مکمل نہیں۔

اسپتال

اسلامی مملکت میں اسپتالوں نے کافی عروج حاصل کیا تھا۔یہاں مفت علاج کی سہولت تھی۔یہ حکومت کے زیر نگرانی چلاکرتے تھے ۔ان اسپتالوں میں مرد اور خواتین کے لئے وارڈ علیحدہ تھے۔ہرایک وارڈ میں خواتین نرس اور خدمتگا ر مر د عورت تیمار داری کے لئے موجود ہوتے تھے۔بخار ،زخمم ،انفیکشنن،مائنیا،آنکھ کی بیماریاں ،سردی سے ہونے والے امراض،ڈائریا،خواتین کی پیچیدہ ایامی بیماریاں و زچہ تمام وارڈ جدا جدا تھے۔صحتیاب ہورہے مریضوں کے لئے وارڈ بالکل جدا تھا۔مریضوں کو تازہ ہوا اور تازہ پانی مہیا کرایا گیاتھا۔ان اسپتالوں میں اسپتال کی دیکھ ریکھ کی تربیت میڈیکل طلبا کو وہاں رکھ کر (بورڈنگ کا نظام )کیاجاتا۔اسپتالوں میں کانفرنس ہال ہوتے ،قیمتی لائبریریاں ہوتیں جہا ں جدید ترین کتابیں موجود ہوتیں ۔حددرار کے مطابق تولم اسپتال جو قاہرہ میں 872 میں قائم کیاگیا تھا وہاں کی لائبریری میں ایک لاکھ کتابیں تھیں(آج سے ہزار سال قبل)یونیورسٹی اور اسپتالوں کی لائبریریاں بہت بڑی ہوتی تھیں ۔جیسے بغداد میں مستنصریہ یونیورسٹی کی لائبریری میں کتابوںکی 80ہزار جلد یں تھیں ۔کارڈوبا کی لائبریری میں چھ لاکھ کتابیں تھیں۔قاہرہ کی لائبریری میں دولاکھ کتابیں اور تریبولی کی لائبریری میں تین لاکھ کتابیں موجود تھیں۔اس کے علاوہ ہرایک حکیمم اور طبیب کے پاس نجی کتابوں کے بڑے ذخیرے موجود تھے۔یہ حالات اس زمانہ میںتھے جب چھا پہ خانہ نہیں تھے اور کتابیں نہایت کاوش محنت اور مشقت سے ہاتھوں سے تحریر کئے جاتے تھے۔

دنیا کی تاریخ میں اسپتالوں کے مریضوں کا ریکارڈ رکھنے کا طریقہ ان اسپتالوں نے رائج کیا ۔باہری اور داخلی مریضوں میں طریقہ علاج میں کوئی تفریق نہیںتھا۔تل تلونی اسپتال میں جن مریضوں کو بھر تی کیا جاتا اسپتال انہیںاپنا لباس مہیا کراتا اور وقت رخصت انہیں ان کا لباس اور قیمتی سامان پانچ سونے کی اضافی اشرفیون کے ساتھ دیتا۔تاکہ وہ کچھ دنو خود کفل رہ سکے ۔دمشق میںکوڑھ کے مریضوں کے لئے ایک شفاخانہ قائم تھا جب کہ اس کے چھ صدی بعد بھی یورپ میں کوڑھ کے مریضوں کو شاہی حکم پر زندہ جلادیا جاتا تھا۔تیونس کے قیروان کے اسپتال میں  ہرایک مرض کے وارڈ علیحدہ تھے۔انتطار گاہ اور نرس جو سوڈان سے تعلق رکھتی تھیں (عربی تاریخ کا یہ اول قدم ہے جس نے عورتوں کے بطور نرس باضابطہ طورپر اس پیشہ میں روشناس کرایا )ان اسپتالوں میں عبادت کے لئے بھی سہولتیں موجود تھیں۔بغداد کا العدودی اسپتال بہترین آلہ جات اور نظم کے لئے مشہور تھا۔یہاں طلباکے رہائش اور انٹرنل شپ کاانتظام تھا۔۴۲معالج علاج معالجہ میںمشغول تھے۔عباسی خلافت کے ایک وزیرعلی ابن سینا نے سب سے پہلے قیدیوںکے علاج کے لئے حکیموںکو وزٹ کرنے کی تلقین کی۔اس دور تک یورپ جہالت کی تاریکی میں ڈوباہواتھا۔جب کہ بغداد ،قاہرہ اور کارڈوبا اعلی قسم کے اسپتال اعلی ترین طبی تعلیم اور طب کے میدان میںانتہائی وسعتوںپرتھا۔یہاں وہ کارنامے انجام دئے گئے جو آج ہزارسال کے بعدبھی انتہائی جدید ہیں۔ان اسپتالوں میںانسانی ہمدردی کا بول بالا تھا۔ذہنی دماغی مریضوںکاعلاج نہایت محبت اور ہمدردی سے کیا جاتا ۔مریضوںکے آرام کا ہر ممکن خیال رکھاجاتا۔

اسپتالوں کو بیمارستان کے نام سے دوحصوںمیں تقسیم کیاگیا۔ایک تو بڑی عمارتوں میںقائم تھا ۔دوسرا متحرک اسپتال سواری کو جانوروںکے ذریعہ کھینچا جاتا تھا جس کے ذریعہ دور دراز کے دیہی علاقوںکے مریضوں کا علاج کیا جاتا جو چلنے پھرنے سے معذور تھے یا شدید بیمار ۔اسی قسم کے متحرک اسپتال فوج میں استعمال کئے جاتے ۔اس میں خیمہ روزار ،الاجات نرس ،اردلی اور ڈاکٹرس کی پوری ٹیم ہوتی ۔یہ وبا پھیل جانے کی صورت میں اور دوردراز علاقوں میں علاج کے لئے ہمہ وقت تیار رہتے۔

طب میں بیکٹیریا کی شناخت

رازی نے بغداد میں اپنے قیام کے دوران بادشاہ کے حکم کے مطابق اسپتال کے لئے پرفضا مقام تلاش کرنے کے لئے سائنٹفک طریقہ اختیار کیا ۔انہوں نے گوشت کے بڑے بڑے ٹکرے شہر کے مختلف علاقوں میں ٹانگ دئےے۔دوتین دنوں کے بعد جس علاقہ کا گوشت سب سے کم خراب ہوا تھا اس علاقہ کو کم بیکٹیریا والا علاقہ قرار دے کر انہوں نے وہاں اسپتال قائم کئے۔ابن سینا نے سب سے پہلے بتایا کہ جسم سے نکلنے والی رطوبت زمین سے پیداہونے والی جراثیم سے متاثر ہوکر زہریلے مادے تیار کرتی ہےں۔ابن خطیمہ نے بتایا کہ انسان جراثیم سے ہروقت گھراہواہے اور یہ انسانی جسم میں داخل ہوکر انسان کو مریض بنادیتی ہیں۔۴۱ویں صدی کے وسط میں بلیک جسے کالی موت کے نام سے یاد کیا جاتاہے خدائی عتا ب کے طرح یورپ میں پھیلا ۔اس وقت میں ابن الخطیب (گراناڈا)نے جراثیم کے لئے کچھ مقامات کا تعین کیا اور کہا کہ اس کا ماخذاتحقیق و تفتیش و ثبوت و شواہد ہیں۔مریضوں کے جراثیم سے بیمار ہونے والے لو گ اس کا ثبوت ہیں۔جب کہ دور رہنے والے افراد محفوظ رہتے ہیں۔یہ جراثیم کپڑوں سے برتنوں سے اور ہوا سے منتقل ہوتے ہیں۔رازی نے چیچک کے متعلق سب سے پہلے تفصیل لکھی اور دو چیچک کا فرق و ان کا علاج تجویز کیا۔ابن سینا نے ٹی بی کے جراثیم کے منتقل ہونے کا نظریہ پیش کیا ۔انہوں نے سب سے پہلے زخموں کے علاج کے لئے شراب کا استعمال کیا ۔رازی نے زخموں کے لئے ریشمی ستور اور ہیمو اسٹیٹس کے لئے الکوحل کا استعمال کیا ۔اور اسے اینٹی ہیپٹک قرار دیا ۔

اینتھیسیا

ابن سینا نے سب سے پہلے اینتھیسیا کو دوا کے طورپر استعمال کیا۔اور افیم کو طاقتور مخاضر (نشہ آور دوا)کے طورپر پیش کیا ۔اس سے کم طاقت کے نشہ کے لئے مینڈراگورا،پوستہ،ہیملوک،بھانگ،بیلا ڈونا،لیٹیوس سیڈ ،سرد پانی یا برف کا استعمال کیا جاتا ۔عرب طبیبوں نے سپوروفک اسپانچی کا استعمال سب سے پہلے کیا جو موجودہ اینتھیسیا کی ابتدائی شکل تھی۔اس پر ایرو میٹکس اور نارکوٹکس ڈال کر مریضوں کو سونگھایا جاتاتھا۔دراصل اس کا استعمال سرجری کی بڑھتی ہوئی قدروں کے تحت ترقی پذیر تھا۔اس زمانہ میں جب اسلامی ممالک سرجری کو ایک جدید ترین سائنس بتارہے تھے ،یورپ میں نشتر زنی کا کام حجام اور نیم حکیم کررہے تھے۔برٹن نے لکھا ہے کہ سرجری کے لئے اینتھیسیا کا استعمال مشرق میں صدیوں سے ہورہا تھا۔بہت بعد میں مغرب نے ایتھر اور کلوروفورم کا استعمال شروع کیا۔

سرجری

رازی اول سائنس داں طبیب اور سرجنن ہے جس نے سرجری کے سیتور (وہ دھاگہ جسے جسم پر آپریشن کے بعد سلائی کی جاتی ہے کی جگہ سیٹون اور تانت کا استعمال کیا ۔ابوالقاسم خلف بن عباس الزہراوی کو دنیا ئے اسلام کا اول موجد تسلیم کیا جاتا ہے جس نے 200سے زائد نشترزنی کے آلات ایجاد کئے ۔وہ خود بہت بڑے سرجن تھے ۔اپنی کتاب ’التصریف ‘میں میڈیکل کی تاریخ میں اول شخص کی حیثیت سے انہوں نے ہیموفیلیا کا تذکرہ کیا۔اسی کتا ب میں آلات جراحی کے استعما ل کی وضاحت بھی کی  اس کتاب میں سرجری کے لئے علم الابدان (اناٹومی) کی تعلیم کو انہوں نے لازمی قرار دیا  ہمبرج سیلان خون کے لئے سب سے انہوں نے روئی کا استعما ل کیا جو ہڈی ٹوٹنے ،دانت نکالنے کے بعد اور پردہ بکارت کے آپریشن یا زیادہ خون آنے کی صورت میں استعمال کیا گیا اور سب سے پہلی بار استعمال کیا گیا۔سرجری میں زہراوی نے گردہ کی پتھری نکالنے کے لئے پیشاب کے بلاڈر کے پاس آپریشن کرنے کی راہ دکھائی اور عورتوں کے لئے آپریشن کا مقا م لیتھو ٹومی کے پاس بتا یا ۔ویری کوس وینس کو بند کرنے کے لئے ان کی تفصیل آج بھی جدید تر سرجری معلوم ہوتی ہے۔ارتھو پیڈکس کے آپریشن کو انہوں نے رائج کیا۔ابن سینا کا کینسر کے لئے آپریشن کرنے کا اصول آج ہزار سال کے بعد بھی اتنا ہی اہم ہے ۔اسلامی سرجنوں نے تین طرح کی سرجری کو رائج کیا اور فروغ بھی دیا وسکولر ،جنرل اور ارتھو پیڈ ک یٹ کا آپریشن عام تھا ۔آنکھوں کے تمام آپریشن کھلے عام با ٓسانی ہوتے تھے۔جگر کے پھوڑے کا علاج بنکچہ کے ذریعہ کیا جاتا تھا۔آج بھی سرجری کے آلات اور طریقہ کار وہی ہیں جو زہراوی نے ہزار سال پہلےے ایجاد کیا تھا۔دنیا کے اندر اس پرکم و بیش عمل ہورہاہے۔

دوائیاں،کیمیاسازی

رازی و ہ اسلامی سائنسدان ہے جنہوں نے سب سے پہلے کئی مادہ کو ایک دوسرے سے جدا کیا اور ان کی تطہیر کی۔کئی کیمیاکو ایجاد کیا۔اس کے علاوہ تقطیر کیا اور کئی کیمیا کو بطوردوااستعمال کیا پارہ کا بطور دوا بھی استعمال رازی ہی نے کیا اور پیشاب و مثانہ سے متعلق تمام بیماریوں کی دوائیں تجویز کی اور ان پر تحقیق کیا ابن ظہر نے بہت ساری پیچیدہ بیماریوں کی تشخیص کی اور ان کا علاج تجویز کیا اسی طرح الا شعث نے گیسٹرلی فیزیولوجی پر تحقیق کیا ابوشال المسیحی النفیس نے پلمونری سرکولیشن سے دنیا کو واقف کرایا۔

فارما کولوجی

یوحنا بن مساویح  نے عالم اسلام میں سب سے پہلے عباسی خلیفہ کے زمانہ میںدوائیوں کے سائنٹفک استعمال اور سلسلہ وار استعمال کے متعلق تفصیل لکھی۔ان کے شاگر د حنین بن اسحاق العابدی نے اپنی کتاب المسائل حنین میں دوائیوں کی اثر انگیزی کی جانچ کا طریقہ بتایا۔خلیفہ المامون اور المحتشم کے زمانہ میں طب کی پریکٹس کے لئے امتحان پاس کرنا لازمی قرار پایا اور لائنسس کا استعمال شروع ہوا۔مرکبات مفرجات تقطیر تطہیر الکوحل سازی و ادویہ کی اعلی معیا ری ترکیبات رائج کی گئی  جس کے لئے موتی سونا مونگا عنبرمشک کاسیا املی آملہ مصبر لونگ ودیگر اشیاءکا استعمال بڑے پیمانہ پر کیا گیا۔ اس مقام پر فارماکولوجی کو ایک شعبہ کی حیثیت سے بڑے اور آزادانہ پیمانہ پر الگ قائم کیا جہاں جڑی بوٹیوں پر تحقیق کی جاتی ،ان کے خواص نکالے جاتے۔اور پینے کی دوائی تیار کی جاتی  گلاب کے عرق کشید کئے گئے۔سنترہ کے پھول سے رنگ او رلیموںو سنترہ کی خوشبو حاصل کی گئی۔

نفسیاتی علاج

رازی اور ابن سینا نے سب سے پہلے ذہنی بیماریوں کے علاج کا سلسلہ شروع کیا ۔اس کے لئے جسمانی اور نفسیاتی حر کتوں کو رازی نے جسمانی نفسیاتی حرکتوں کی بنیاد پر علاج کا طریقہ نکالا ۔ اسی طرح سے گٹھیا ، لقوہ اور صدماتی فالج کا کا میا ب نفسیاتی علاج کیا  رازی کے ہم عصر نجیب الدین محمد نے ذہنی بیماریوں کے کئی اقسام کی شناخت کی اور اس کی تفسیر لکھی انہوں نے ذہنی تناﺅ اور آکسیسس ، نےورو سس ، جنسی کمزوری جیسے امراض پر مکمل کتاب نفخئہ مالی خولیا اور قطر یب ایک قسم کی مالی خولیا ہے اس تذکرہ بھی کیا ۔ساتھ میں دول قلب کی تفصیل بھی بیان کی ۔بن سینا نے جسمانی نفسیاتی امراض کو باہم ملاکر فروغ دیا ۔اور ان کی تشخیص جذباتی الجھن کے طور کی آٹھویں صدی میں مراقوکے فیص میں پاگل خانہ قائم کیا گیا عربوں نے بھی 750عیسوی میں قاہرہ ، دمشق اور ایلیپو میں پاگل خانے قائم کئے تھے ۔وہاں مریضوں کے لئے ہر طرح کی سہولیات فراہم کی گئی تھی ۔مریضوں کے ذہنی سکون کے لئے موسیقی کے ذریعہ علاج فراہم کیا جاتا تھا اس کے علاوہ ایکپوپیشنل تھیراپی کے لئے مریضوں کو گانا و موسیقی کے ذریعہ آرام پہنچایا جاتا نقالی مسخرہ پن اور ہسننی ہنسانے کے دوسرے پروگرام بھی پیش کئے جاتے ۔

ہزار سال قبل اسلامی اسپتال ان کی اعلیٰ معیار و اعلیٰ طریقہ کار وجود میں آچکے تھے ۔دوا سازی ، حکمت ،سرجری اور دیگر میدان میں نئی نئی ایجادات تحقیق و تفتیش کا کام عروج پر تھا ۔ بیماریوں کی تشخیص طریقہ علاج مرض ، وجوہات اس کے اسباب و عوامل پر غور فکر و تحقیق کے نتائج میں نئی نئی بیماریوں کا دریافت ہو چکا تھا ۔وائرس ، جراثیم ،اچھوت کی بیماریوں سے آگاہی ہو چکی تھی ۔سرجری اور نفسیاتی علاج کے وہ طریقہ اختیار کئے گئے تھے جنہوں نے بعد میں یوروپی ماہر نفسیات ، موجدوں ، سرجنوں اور معالجوں کی ہر قدم پر رہنمائی کی اور بنیاد کی صورت میں آج بھی ان کی افادیت برقرار ہےجنسی راہنمائی کیوں ضروری ہے

بہت کم نوجوان ایسے ہیں جنہیں اپنی جوانی پر ناز ہو اور وہ کہہ سکیں کہ ہم نے اپنے ہاتھوں اپنی جوانی کو روگ نہیں لگایا یا پھر دیگر ذرائع سے جنسی تسکین حاصل کرنے کی کوشش نہیں کی

آج کل کے نوجوان وی سی آر’ فحش فلموں و تصاویر’ شہوانی جذبات بھڑکانے والے ناول اور یورپی طرز معاشرت اپنانے کی وجہ سے مکمل بالغ ہونے سے قبل ہی جنسی فعل کی خواہش SEX DESIRE کا شکار ہو جاتے ہیں اور اس خواہش کی تکمیل کیلئے زیادہ تر نوجوان خود لذتی’ مشت زنی MASTER BATION یا ہینڈ پریکٹس کی عادت کو اپنا لیتے ہیں بیشتر ہم جنسیت HOMO SEXUALTY میں مبتلا ہو جاتے ہیں بعض جنسی کجروی میں LESBIANS & GAYS بن جاتے ہیں یعنی ہم جنس پرستی میں مفعول بن کر جھوٹی لذت حاصل کرتے ہیں- کچھ لوگ جنسی تسکین کیلئے اس سلسلے میں پروفیشنلز طوائفوںسے رجوع کرتے ہیں

بھوک پیاس جیسی فطری خواہشوں کی طرح جنسی تسکین کی خواہش بھی ایک فطری خواہش ہے جو کہ قدرت کی طرف سے انسان کو طبعی طور پر عطا کی گئی ہے سورہ روم آیت نمبر 21 میں اللّہ تعالیٰ فرماتا ہے

اور اس کے نشانات میں سے ایک نشان یہ ہے کہ اس نے تمہارے درمیان کشش و محبت رکھدی ہے

اس تسکین’ کشش و محبت اور خواہش کا اعلیٰ مقصد اور اہم غرض بقائے نسل انسان ہے لیکن انسان چونکہ فطری طور پر حر یص واقع ہوا ہے اس لئے وہ اس قوت کا وقت بے وقت جگہ بے جگہ استعمال کر کے اپنے آپ کو اس نعمت خداوندی سے محروم کر لیتا ہے اور مختلف جنسی نفسیاتی اور خبیث امراض و عادات کا شکار ہو اجاتا ہے جن میں مشت زنی، ہم جنسیت کثرت احتلام، ذکاوت حس، نامردی، ضعف باہ، جریان، سرعت انزال، سوزاک، آتشک اور ایڈز سرفہرست ہیں- یہ سب کچھ جنسی معلومات سے لا علمی کی وجہ سے ہوتا ہے اس لئے والدین اور اساتذہ کو چاہیے کہ اس کتابچہ کو دیکھ کر ناک بھوں نہ چڑھائیں بلکہ حقیقت کا سامنا کریں اور دوستانہ ماحول میں اپنے بچوںکو جنسی معلومات سے روشناس کرائیں کیونکہ اگر آپ نے اس سلسلے میں ٹال مٹول سے کام لیا تو بچوں کے دماغ میں اس بارے میں جاننے کی خواہش ضرور رہتی ہے اور وہ اپنے سے بڑے کلاس فیلوز یا گلی محلے کے بری صحبت رکھنے والے دوستوں وغیرہ سے” سیکس ” SEX کی بے تکی معلومات حاصل کریں گے اور اپنے نازک دل و دماغ کو گندے خیالات سے بھر کر اپنی جوانی کو داغدار کر لیں گے لہذا سن بلوغ کو پہنچنے والے بچوں کو سمجھا دینا چاہیے کہ جنسی تسکین کی صحیح صورت مرد اور عورت کا ملاپ ہے اور مرد اور عورت کے ملاپ کی اخلاقی’ قانونی و شرعی صورت شادی ہے شادی سے انسان کی جنسی زندگی میں نظم و ضبط پیدا ہوتا ہے شادی کا ثمر اولاد ہے جس کی باقاعدہ پرورش سے انسان معاشرہ میں اپنا فرض ادا کرتا ہے- موجودہ ماحول کے مطابق والدین کو بالغ ہونے والے بچے کی شادی کا فریضہ جلد از جلد ادا کر دینا چاہیے کیونکہ جنسی کجرویوں برائیوں جنسی امراض اور جنسی جرائم کو کم بلکہ ختم کرنے کا یہی ایک طریقہ ہے

جنسی امراض کے علاج کے سلسلے میں اکثر نوجوان انتہائی راز داری برتتے ہیں اور اس سلسلے میں جو بھی نیم حکیم فٹ پاتھئیے معالج اور ہیلتھ کلینکوں کے عطائی ڈاکٹروں سمیت جو بھی سامنے آتا ہے اس سے علاج کروانا شروع کر دیتے ہیں کسی نے کوئی نسخہ یا ٹوٹکہ بتا دیا تو اسے فوراً استعمال کرنا شروع کر دیا اس سے بعض اوقات خطرناک نتائج رونما ہوتے ہیں اور مریض اپنے جسم کو بگاڑ لیتے ہیں ہر شخص کا مزاج مختلف ہوتا ہے جو دوائی کسی دوسرے فرد کو موافق تھی اور اسے اس سے آرام آ گیا تھا آپ کو نقصان بھی دے سکتی ہے فٹ پاتھئیے نیم حکیم’ نام نہاد ہیلتھ کلینکس’ عطائی ڈاکٹر اور غیر مستند معالج اپنی گرما گرم باتوں اور چرب زبانی سے لوگوں کو آسانی سے بے وقوف بنا کر روپیہ وصول کر لیتے ہیں اور جنسی امراض سے متعلق اس قدر مبالغہ آمیز بیانات داغتے ہیں کہ مریض اپنے آپ کو زندہ در گور سمجھنے لگتا ہے اگر کسی فٹ پاتھئیے نیم حکیم کی تقریر سننے کا آپ کو موقع ملے تو آپ بھی اپنے آپ کو کسی نہ کسی شدید مرض میں مبتلا سمجھنے پر مجبور ہو جائیں گے اور جس وقت وہ دوا بیچنا شروع کرے گا آپ کا ہاتھ بھی وہ دوا خریدنے کیلئے اپنی جیب تک پہنچ جائے گا

عضو مخصوص (PENIS)

عضو مخصوص کی لمبائی سے متعلقہ بہت سی بے بنیاد باتوں پر لوگ یقین رکھتے ہیں- اس سلسلے میں سائنسی انکشافات نے واضح کر دیا ہے کہ نارمل جنسی ملاپ کیلئے عضو مخصوص بحالت انتشار ساڑھے چار انچ سے پانچ انچ تک لمبا ہو تو مکمل مردانگی کا ثبوت ہے اگر عضو کی سختی اور شہوت کی کیفیت تسلی بخش ہے تو مرد دنیا کی کسی بھی نارمل عورت کو مطمئن کر سکتا ہے

تازہ ترین میڈیکل رپورٹ کے مطابق امریکہ کی ایک خاتون ڈاکٹر نے واضح کیا ہے کہ نسوانی عضو مخصوص کا وہ حصہ جو جنسی لذت سے خاص تعلق رکھتا ہے اور جس کا عورت کی تسلی و تشفی سے بھی تعلق ہوتا ہے اس کا طول اور عمق (لمبائی اور گہرائی) ڈھائی انچ ہوتا ہے لہذا مرد کے عضو مخصوص کا ”طول” اتنا ضرور ہونا چاہئے
غیر قدرتی ذرائع ”جلق و اغلام وغیرہ” سے عضو مخصوص کی قدرتی نشوونما رک گئی ہو تو قدیم نسخوں سے جدید اختراعات کر کے تیار کئے گئے طلاو_¿ں’ تکمید’ ٹکور اور دیگر ادویہ سے اس نشوونما کو قدرتی نشوونما کے مطابق بڑھایا جا سکتا ہے علاوہ ازیں دیگر خرابیاں مثلاً سستی’ لاغری’ کجی ”ٹیڑھا پن” رگوں کا ابھرنا وغیرہ بھی ختم ہو سکتی ہیں

عقم (اولاد نہ ہونا)

عورتوں میں اولاد نہ ہونے کے مرض کو عقر (بانجھ پن) کہا جاتا ہے لیکن یہاں اس مرض کا ذکر کیا جا رہا ہے جو مرد کو اولاد سے محروم رکھنے کا موجب ہے واضح ہو کہ مرد کے ایک مرتبہ کے انزال میں جو منی خارج ہوتی ہے اس میں چار ارب حونیات منی (SPERMS) خارج ہوتے ہیں اور عورتوں میں استقرار حمل کے لئے صرف ایک سپرم کی ضرورت ہوتی ہے بعض اوقات جنسی غلط کاریوں کے برے اثرات کی وجہ سے حونیات منویہ کمزور یا کم ہو جاتے ہیں جس کی بنا پر حمل قرار نہیں پاتا اور اولاد نہیں ہوتی بعض حضرات کی مردانہ طاقت تو موجود ہوتی ہے لیکن سپرم کمزور ہوتے ہیں بعض اوقات مردانہ طاقت کمزور ہوتی ہے مگر سپرم طاقتور اور مکمل ہوتے ہیں عورت میں بھی یہ نقص پایا جاتا ہے جیسا کہ بتایا جا چکا ہے کہ بچپن کی غلط کاریوں کے علاوہ خصیوں کی کمزوری’ آتشک’ سوزاک ‘ سل و دق اور ریڈیم کی شعاعوں کے برے اثرات سے بھی یہ مرض ہو جاتا ہے بعض ایلوپیتھک ادویات اور سٹیرائیڈز کے استعمال سے بھی سپرم ختم ہو جاتے ہیں یا ان کی تعداد کم ہو جاتی ہے- منی میں پیپ’ خون’ بیکٹیریا کا اخراج بھی اولاد سے محرومی کا باعث بنتا ہے۔ اس مرض کا علاج مشکل ضرور ہے ناممکن نہیں- طب یونانی میں ایسی ادویہ موجود ہیں جن سے منی گاڑھی ہو جاتی ہے خون اور پیپ ختم ہو جاتی ہے مادہ منویہ میں اولاد پیدا کرنے والے حونیات (Sperms) کی مقدار بڑھ جاتی ہے اور وہ پہلے سے طاقتور ہو جاتے ہیں

نامردی IMPOTENCY

وہ جنسی امراض اور عوارضات جنکا ذکر اس فورم میں کیا جا چکا ہی کسی نہ کسی سطح پر نامردی کی تعریف میں آتے ہیں تاہم اگر قوت مجامعت کمزور ہو جائے عضو مخصوص میں مکمل خزیش انتشار نہ ہو اور مریض وظیفہ جنسی کو پورے طور پر سرانجام نہ دے سکے تو اس حالت کو جنسی کمزوری یا ضعف باہ کہتے ہیں لیکن یہ قوت بالکل ناقص اور باطل ہو جائے عضو مخصوص میں کوئی خیزش نہ ہو جماع کی طرف رغبت نہ رہے طبعیت کو جذبہ شہوت سے نفرت ہو جائے اور باوجود کوشش کے جنسی فعل انجام نہ دیا جا سکے تو اسے عنانت یا نامردی کہتے ہیں

اب پھر نامردی کو دو اقسام میں منقسم کیا جا سکتا ہے
عضوی (ORGANIC)
 فعلی اور ذہنی (FUNCTIONAL AND PSYCHOLOGICAL)
 عضوی نامردی بیرونی طور پر عضو مخصوص کی ساخت اور جنسی گلینڈز کی خرابی سے تعلق رکھتی ہے
فعلی اور ذہنی نامردی کے مختلف نفسیاتی اور دیگر اسباب ہیں نامردی کی تمام اقسام کی تشخیص کرنے کے بعد

پروفیشنلز طوائفوں سے جنسی تعلقات

پروفیشنلز طوائفوں سے جنسی تعلقات قائم کرنا اگرچہ خلاف وضع فطری فعل نہیں لیکن قانونی اور شرعی حیثیت سے یہ ناجائز ہے علاوہ ازیں طوائف کا پیار اور محبت روپے پیسے کیلئے ہوتا ہے لہٰذا قدرتی پیار اور محبت کے فقدان کی وجہ سے وہ کسی بھی فرد کو جنسی طور پر مکمل آسودگی بہم نہیں پہنچا سکتی اس کے علاوہ طوائف کسی ایک فرد کی پابند نہیں ہوتی بلکہ طرح طرح کے لوگ اس سے جنسی تعلقات قائم کرتے ہیں جن میں چھوتدار امراض کے مریض بھی ہو سکتے ہیں لہذا بازاری اور پروفیشنلز عورتوں سے مختلف امراض مثلاً سوزاک’ آتشک’ ایڈز وغیرہ لاحق ہو سکتی ہیں- ماہواری کے دوران عورت کے پاس جانا کئی بیماریوں کو دعوت دینا ہے- چونکہ طوائف کا تو کاروبار ہوتا ہے لہذا وہ یہ کبھی بھی نہیں بتاتی کہ وہ ماہواری سے ہے لہٰذا دوران ماہواری جنسی تعلقات قائم کرنے والے افراد اپنی جوانی کو روگ لگا لیتے ہیں اور کئی امراض کا شکار ہو جاتے ہیں۔

یورپ میں بانجھ پن دوگنا

برطانیہ میں اولاد پیدا کرنے کی صلاحیت کے ایک ماہر نے ایک کانفرنس کے دوران بتایا کہ یورپ میں ابھی سات میں سے ایک جوڑے کو قدرتی عمل سے بچہ پیدا کرنے میں مشکلات کا سامنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگلے دس سالوں میں ہر تیسرا جوڑا اس مسئلے کا شکار ہوگا۔

شیفیلڈ یونیورسٹی کے پروفیسر بِل لیجر نے کانفرنس کو بتایا کہ خواتین کو کام میں وقفہ ملنا چاہیے تاکہ وہ جوانی میں حاملہ ہو سکیں جب ان میں بچہ پیدا کرنے کی صلاحیت زیادہ ہوتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ موٹاپے اور جنسی بیماریوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایک جنسی بیماری  جو بانجھپن کا باعث بنتی ہے کے شکار لوگوں کی تعداد دوگنی ہوئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ انیس سال سے کم عمر کی چھ فیصد لڑکیاں موٹاپے کا شکار ہیں۔

پروفیسر لیجر نے کہا کہ مردوں میں بانجھپن میں ممکنہ اضافے سے جوڑے متاثر ہو سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سپرم یعنی نطفہ کی مقدار اور معیار میں بظاہر کمی ہوئی ہے۔انہوں نے کہا کہ آج کے نوجوان لوگ کل بانجھپن کے کلینک میں مریض ہوں گے۔

ڈاکٹر لیجر کا کہنا تھا کہ نوجوانی میں جنسی عمل کے دوران لگنے والی بیماریاں خواتین کی اہم نالیوں کی بندش کا باعث ہوتی ہیں اور جب یہ لڑکیاں بڑی ہو کر ماں بننا چاہتی ہیں تو حاملہ نہیں ہو سکتیں۔

انہوں نے کہا کہ کیریئر بنانے والی خواتین دیر سے بچے پیدا کر رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ شرح پیدائش میں کمی کی وجہ سے یورپ کی آبادی کو خطرہ پیدا ہو گیا ہے۔

ڈاکٹر لیجر نے کہا کہ اس رجحان کو روکا جا سکتا ہے۔ اس کے بارے میں انہوں شمالی یورپ میں سکینڈی نیویائی ممالک کی مثال دی جہاں خواتین کی جلدی بچے پیدا کرنے کے لیے حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔

انہوں نے کہ برطانیہ کو بھی فرانس کی طرح بچّے پیدا کرنے کے لیے کیریئر میں وقفہ ڈالنے والی خواتین کو ٹیکس میں چھوٹ دینی چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ خواتین میں پینتیس سال کے بعد بچّہ پیدا کرنے کی صلاحیت کم ہو جاتی ہے۔

سرعت انزال PREMATURE EJACULATION

جنسی امراض میں مرد کیلئے سب سے زیادہ شرمناک اور باعث خفت مرض سرعت انزال ہے جس کے مکمل علاج کے بغیر رشتہ ازواج کا قائم رہنا دشوار ہو جاتا ہے اپنی بیوی سے شرم و ندامت کی وجہ سے مریض زندگی پر موت کو ترجیح دینے لگتا ہے-

بوقت جماع (جنسی ملاپ) فوری طور پر (انزال) منی کا اخراج سرعت انزال کہلاتا ہے جب یہ مرض شدت اختیار کرتا ہے تو دخول سے قبل ہی انزال ہو جاتا ہے بعد ازاں حالت یہ ہو جاتی ہے کہ ادھر جنسی ملاپ کا خیال آیا اور ادھر ادھوری سی شہوت ہو کر فوراً مادہ تولید خارج ہو گیا اور جوش ٹھنڈا پڑ جاتا ہے بعض مریضوں کے ایسے حالات تو اس قدر بدتر ہو جاتے ہیں کہ محض شہوانی تصور یا کوئی خوبصورت لڑکی دیکھنے یا عضو مخصوص کے کسی ملائم کپڑے سے چھو جانے سے خیزش ہو کر یا خیزش ہوئے بغیر معمولی سا دغدغہ محسوس ہو کر مادہ تولید خارج ہو جاتا ہے-

احتلام NIGHT DISCHARGE

رات کو سوتے وقت منی یا مادہ منویہ کا خارج ہو جانا احتلام کہلاتا ہے طبعی احتلام زیادہ تر خواب کے ساتھ ہوتا ہے اس میں انتشار کی کیفیت پائی جاتی ہے اور احتلام کے بعد صبح طبیعت چست اور فرحت کا احساس ہوتا ہے طبعی احتلام مہینے میں دو تین بار سے زیادہ نہیں ہوتا جبکہ مرض کی حالت میں ہر روز یا دوسرے تیسرے روز اور بعض اوقات ایک رات میں دو دو مرتبہ احتلام ہو جاتا ہے یہ یاد رکھنا چاہئے کہ احتلام کی کثرت دراصل جریان کی ابتدائی سٹیج ہے- اس کے نقصانات جریان کی طرح کے ہیں پیشاب جل کر آتا ہے خصیوں میں درد ہونے لگتا ہے سستی کمزوری نسیان چڑ چڑاپن کی شکایت ہو جاتی ہے- یہ مرض بھی باقاعدہ علاج اور پرہیز سے ٹھیک ہو جاتا ہے طب اسلامی اپنے عہد سے ہزار سال آگے (حصّہ دوّم)
طب اسلامی

جب پورا یورپ خصوصی طور پر لندن اور پیرس دھول اور کیچڑوں کا ڈھیر تھا تب بغداد، قاہرہ اور کارڈوبا کے اسپتالوں میں عورتوں اور مردوں کے لئے علیحدہ انتظام تھا۔ بخار کے مریضوں کو ایسے کمروں میں رکھا جاتا جہاں جھرنوں اور فواروں سے ٹکرا کر سرد ہوا آتی ۔ پاگلوں اور ذہنی و نفسیاتی امراض کے لئے شعبے جدا تھے۔ مریضوں کو سکون کی خاطر کہانیاں سنائی جاتی اور ہلکی موسیقی سے سکون فراہم کیا جاتا مریضوں کو اسپتال سے رخصت کے وقت رائج 5اشرفیاں دی جاتی  عورت نرس اور مرد تیمار دار مریضوں کی دیکھ ریکھ کے لئے ہوتے ۔ ان اسپتالوں میں لائبریری، کیمیا گری، دواسازی، تحقیق و تفتیش کے کام بھی کئے جاتے اسی زمانہ میں دیہی علاقوں میں علاج کے لئے اور معذور لوگوں کے علاج کے لئے سواری گاڑیوں پر متحرک اسپتالوں کا نظام تھا۔ دواسازی کے اعلی معیار کے تحقیق کے لئے (ڈرگ کنٹرول)ت فتیش کار (انسپیکٹر) مقرر کئے گئے تھے۔
دواسازی (عطار) کرنے والوں کو حکومت کی طرف سے لائسنس دیا جاتا تھا۔ طب کی تعلیم میں بھی مسلمانوں نے بیکٹیریالاجی، میڈیسن، اینتھیسیا سرجری، فارمیسی، روپ تھامولوجی، سائیکوتھیراپی، سائیکو سوماٹک جیسے امراض کی نہ صرف شناخت کی بلکہ ان کا علاج بھی کیا اور ان شعبوں کو ترقی کے بام عروج پر پہنچا دیا۔

اسلامی حکومت حضور کے وصال کے صرف 80 سال کے بعد مغرب میں اٹلاسٹک روشن سے مشرق میں چین تک پھیل چکا تھا۔اسپین میں اس نے 700سال تک حکومت کی ۔ منگلولوں کے بربری قبضہ کے بعد بغداد کو (1258) میں جلا کر تمام کارناموں کو ختم کردیا گیا ۔ اس طرح اسپین کی تہذیبی وراثت کو ڈھا کر ختم کردیا گیا۔ لیکن اس کے باوجود بھی اسلامی حکومتوں نے 1000ہزار سال تک دنیا کے نہایت ترقی یافتہ اور مہذب ممالک کی حیثیت سے حکومت کی ۔اسی زمانہ میں یونانی طب حکمت و دیگر کتابوں کو یونانی سے عربی میں ترجمہ کیا گیا اور 10ویں صدی میں یہ کام دمشق، قاہرہ اور بغداد میں بڑے پیمانہ پر کیا گیا اور اس طرح بغداد سائنسی علمی تحقیقی شہر کے حیثیت سے سارے دنیا میں نمایاں ہوکر ابھرا۔اسلامی ادویہ و طریقہ علاج اسلامی تہذیب کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ جو مسلم سائنسدانوں کا عظیم کارنامہ ہے اور آج بھی پورا یورپ ان کے علم سے فائدہ اٹھا رہا ہے۔ کیمپ بل نے بہت اچھی بات کہی ”یورپین میڈیکل سسٹم بنیادی طور پر عربی ہے ۔ عرب سائنسداں یورپین کے بہت قبل ذہین ترین لوگ رہے ہیں“۔
636AD میں فارس کے شہر میں جندی شاپور میں مسلمانوں نے بڑ ی بڑی یونیورسٹی قائم کی تھی ۔جس میں اسپتال بھی شامل تھے۔بعد کے تمام اسلامی طبی کالج اسی بنیاد پر قائم کئے گئے ۔یہاں میڈیکل تعلیم نہایت اعلی درجہ کی اور سلسلہ وار تھی۔ یہاں لیکچر اور تعلیم عملی طورپر ساتھ ساتھ دی جاتی ۔علی ابن العباس کی یہ بات طالب علموں کے لئے آج بھی مشعل راہ ہے ۔انہوں نے میڈیکل طلبا سے کہا کہ انہیں مستقل طور پر اسپتال اور مریض گھروں میں جانا چاہئے  مریضوں کا خاص خیال رکھیں ۔ان کی کیفیت اور حالات کا جائزہ لیتے رہیں ۔ مریضوں سے ان کے حالات دریافت کریں اور کیفیتوں کا علم حاصل کریں اور مقابلاتی جائزہ لیں کہ انہوں نے کیا سمجھا تھا اور حالات کیا ہیں۔ رازی نے طلبا سے کہا کہ مریضوں کے کیفیت اور مرض جو انہوں نے پایا اس کے مابین فرق کا اندازہ لگائیں۔اس زمانہ میں رازی  ابن سینا اور ابن زہر اسپتال کے نہ صرف ڈائریکٹرس تھے بلکہ میڈیکل کالج کے ڈین کے فرائض بھی انجام دے رہے تھے مریضوں کی معالجاتی رپورٹ لکھی جاتی اور طلبا کو عملی تعلیم دی جاتی، اس کے لئے رجسٹر مین ٹین کیا جاتا۔اس زمانہ میں صرف جندی میں بنیا دی سائنس کی تعلیم کے کئی جدا ادارے تھے۔
بغداد میں لنگور کے جسم کی تشریح کے ذریعہ علم الابدان کی تعلیم دی جارہی تھی۔

علقمی کے تجرباتی کتابوں کا مطالعہ جڑی بوٹیوں ان کے خواص کے لئے اور دواسازی کے لئے لازمی تھا۔ بہت سارے اسپتالوں میں جڑی بوٹیوں کے لئے پودے اگانے کا انتظام تھا۔اس سے طلبا کو شناخت کرانا اور مریضوں کے لئے دوا تیار کرنا مقصود تھا۔اس ابتدائی تعلیم کے بعد میڈیکل کے طلبا کو تجربوں کے لئے اسپتالوں میں لے جایا جاتا تھا یہ طلبا ایک نوجوان طبیب کے ساتھ ایک جماعت کی شکل میں اسپتال کے ابتدائی اصول و ضوابط سیکھتے اور کتابوں و لائبریری لیکچر اور دستاویزوں سے فیض حاصل کرتے ۔اس ابتدائی مرحلہ میں زیادہ تر تعلیم دواسازی ،اس کا متبادل اور ٹوکسی کولوجی کے متعلق کی جاتی تھی کلونجی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ کلونجی استعمال کیا کرو کیونکہ اس میں موت کے سوا ہر بیماری کے لیے شفا ہے کلونجی ایک قسم کا گھاس ہے اس کا پودا خودرو اور چالیس سنٹی میٹر بلند ہوتا ہے۔،بالکل سونف سے مشابہ ہوتا ہے۔پھول زردی مائل ،بیجوں کا رنگ سیاہ اور شکل پیاز کے بیجوں سے ملتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بعض لوگ انہیں پیاز کا ہی بیج سمجھتے ہیں۔کلونجی کے بیجوں کی بوتیز اور تاثیری شفا سات سال تک قائم رہتی ہے۔صحیح کلونجی کی پہچان یہ ہے کہ اگر اسے سفید کاغذ میں لپیٹ کر رکھا جائے تو اس پر چکنائی کے دھبے لگ جاتے ہیں۔کلونجی کے بیج خوشبودار اور ذائقے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔اچار اور چٹنی میں پڑے ہوئے چھوٹے چھوٹے تکونے سیاہ بیج کلونجی کے ہی ہوتے ہیں۔ جواپنے اندر بے شمار فوائد رکھتے ہیں۔ یہ سریع لاثر یعنی بہت جلد اثر کرتے ہیں۔
اطباء قدیم کلونجی کے استعمال اور اس کے بیجوں کے استعمال سے خوب واقف تھے۔ معلوم تایخ میں رومی ان کا استعمال کرتے تھے۔ قدیم یونانی اور عرب حکماء نےکلونجی کو رومیوں ہی سے حاصل کیا اور پھر یہ پودا دنیا بھر میں کاشت اور استعمال ہونے لگا۔ طبی کتب سے معلوم ہوتا ہے کہ قدیم یونانی اطباء کلونجی سے بیج معدہ اورپیٹ کے امراض مثلًا پیٹ میں ریاح گیس کا ہونا، آنتوں کا درد، کثرت ایام، استقاء، نسیان (یادداشت میں کمی) رعشہ، دماغی کمزوری، فالج اور افزائش دودھ کے لیے استعمال کراتے رہے ہیں۔ رسول اللہ ۖ کے حوالے سے کتب سیرت میں ملتا ہے کہ آپ ۖ شہد کے شربت کے ساتھ کلونجی کا استعمال فرماتے تھے۔ حضرت سالم بن عبداللہ (رض) اپنے والد عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ۖ نے فرمایا تم ان کالے دانوں کو اپنے اوپر لازم کرلو ان میں موت کے سوا ہر مرض کا علاج ہے۔
کلونجی کی یہ اہم خاصیت ہے کہ یہ گرم اور سرد دونوں طرح کے امراض میں مفید ہے۔ جبکہ اسکا اپنا مزاج گرم ہے اور سردی سے ہونے والے تمام امراض میں مفید ہے کلونجی نظام ہضم کی اصلاح کے لیے اکسیر کا درجہ رکھتی ہے، ریاح گیس اور قبص میں بہت فائدہ ہوتا ہے۔ وہ لوگ جن کو کھانے کے بعد پیٹ میں بھاری پن گیس ریاح بھرجانے اور اپھارہ کی شکایت محسوس ہوتی ہو ایسے حضرات کلونجی کا سفوف تین گرام کھانے کےبعد استعمال کریں تو نہ صرف یہ شکایت جاتی رہے گی بلکہ معدہ کی اصلاح بھی ہوگی۔ کلونجی کو سرکہ کے ساتھ ملا کر کھانے سے پیٹ کے کیڑے مر جاتے ہیں۔ سردیوں کے موسم میں جب تھوڑی سی سردی لگنے سے زکام ہونے لگتا ہے تو ایسی صورت میں کلونجی کو بھون کر باریک پیس لیں اور کپڑے میں باندھ کر پوٹلی بنا کر باربار سونگھنے سے زکام دور ہوجاتا ہے اگر چھینکیں آرہی ہوں تو کلونجی بھون کر باریک پیس کر روغنِ زیتون میں ملا کر اس کے تین چار قطرے ناک میں ٹپکانے سے چھینکیں جاتی رہتی ہیں کلونجی مدر بول پیشاب آور  بھی ہے اس کا جوشاندہ شہد ملا کر پینےسے گردہ و مثانہ کی پتھری بھی خارج ہوجاتی ہے۔ اگر دانتوں میں ٹھنڈا پانی لگنے کی شکایت ہوتو کلونجی کو سرکہ میں ملا کر کلیاں کرانے سے فائدہ ہوتا ہے۔چہرے کی رنگت میں نکھار پیداکرنے کے لیے باریک پیس کر گھی میں ملا کر چہرے پر لیپ کرنے سے فائدہ ہوتا ہے۔ آج کل نوجوان لڑکے لڑکیوں میں کیل دانوں اور مہاسوں کی شکایت عام ہے اور مختلف بازاری کریمیں استعمال کرکے چہرے کی جلد کو خراب کرلیتے ہیں۔ ایسے نوجوان کلون جی باریک پیس کر سرکہ میں ملا کر سونےسے قبل چہرے پر لیپ کر لیا کریں اور صبح اٹھ کر چہرہ دھولیا کریں چند دنوں میں ہی اچھے اثرات سامنے آئیں گے۔اس طرح لیپ کرنے سے نہ صرف چہرہ کی رنگت صاف اور مہاسے ختم ہونگے بلکہ جلد میں نکھار بھی آئے گا۔جلدی امراض میں کلونجی کا استعمال عام ہے۔جلد پر زخم ہونے کی صورت میں کلونجی کو توے پر بھون کر روغن مہندی میں ملا کر لگانےسے نہ صرف زخم مندمل ہوجائیں گے بلکہ نشان بھی جاتے رہیں گے۔ جو خواتین ایام رضا عت میں ہوں اور چھوٹے بچوں کو اپنا دودھ پلا رہی ہوں اور ان کو دودھ کم آنے کی شکایت ہو جس سے ان کا بچہ بھوکارہ جاتا ہوں تو ایسی خواتین کلونجی کو چھ دانے صبح نہار منہ و رات سونے سے قبل دودھ کے ساتھ استعمال کرلیا کریں تو ان کے دودھ کی مقدار میں اضافہ ہو جائے گا البتہ حاملہ خواتین کوکلونجی کا استعمال نہیں کرنا چاہیے۔جن خواتین کو ماہانہ ایام کم آتے ہوں یا درد کے ساتھ آتے ہوں، پیشاب کم یا تکلیف کے ساتھ آتا ہو، وہ کلونجی کا سفوف تین گرام روزانہ استعمال کرلیا کریں ماہانہ ایام کا نظام درست ہوجائے گا۔
آج کے مشینی دورمیں مشینی لوازمات نے انسانی زندگی کو اعصابی طور پر مفلوج کرکے رکھ دیا ہے اور ہر دوسرا شخص اعصا بی دباؤ اور تناؤ میں مبتلا ہے ایسے لوگ کلونجی کے چند دانے روزانہ شہد کے ساتھ استعمال کرلیا کریں۔چند دنوں میں بہتر محسو س کریں گے پیٹ اور معدہ کے امراض، پھیپھڑوں کی تکالیف اور خصوصًا دمہ کے مرض میں کلونجی بہت فائدہ مند ثابت ہوئی ہے کلونجی کا سفوف نصف سے ایک گرام تک صبح نہار منہ اور رات کو سونے سے قبل شہد کے ساتھ استعمال کر لیا جائے تو بہت مفید ہے۔ بعض اوقات کلونجی اور قسط شیری برابر وزن کا سفوف بنا کر صبح نہار منہ و رات سونے سے قبل استعمال کروایا جاتا ہے یہ نسخہ پرانی پیچش اور جنسی امراض میں بھی مفید ہے۔جن لوگوں کو ہچکیاں آتی ہوں وہ کلونجی کا سفوف تین گرام مکھن ایک چمچ میں ملا کر کر استعمال کریں تو فائدہ ہوتا ہے۔
کلونجی سے نکلنے والا تیل دو قسم کا ہوتاہے ایک سیاہ رنگ میں خوشبودار جو ہوا میں اٹھنے سے اڑنے لگتا ہے اور دوسری قسم انٹروی کے تیل جیسا جس کے دوائی اثرات بہت زیادہ ہوتے ہیں، یہ تیل بیرونی طور پر استعمال کیا جاتا ہے اور بہت سے جلدی امراض میں مفید ہے۔ یہ تیل بال خورہ کی شکایت میں بہت فائدہ دیتا ہے ۔ بالخورہ میں بال اڑ جاتے ہیں اور دائرے کی صورت میں نشان بن جاتا ہے پھر دائرہ دن بدن بڑھتا ہے اور عجیب سی ناخوشگواری کا احساس ہوتا ہے یہ تیل سر کے گنج کو دور کرنے اور بال اگانے میں بھی مفید ہے ۔ مزید یہ کہ اس تیل کے استعمال سے بال جلد سفید نہیں ہو تے  اور اس تیل کو مختلف طریقوں سے داد، اگزیما میں بھی استعمال کیا جاتا ہے۔اگر جسم کو کوئی حصہ بے حس ہوجائے تو یہ تیل مفید ہے۔ کان کے ورم اور نسیان میں بھی یہ تیل مفید ہے ماہرین طب و سائنس کلونجی پر تحقیقی کام کر رہے ہیں جنھوں نے اسے مختلف امراض میں مفید پاتا اور مزید تحقیق کا عمل جاری ہے  گزشتہ سال برطانیہ سے ایک خاتون کلونجی پر تحقیق کے لیے پاکستان آئی تھی راقم الحروف سے ملاقات پر اس نے بتایا کہ ایک ملٹی نیشنل ادارہ کلونجی سے ایک کریم تیار کرنا چاہتا ہے کیونکہ کلونجی جلد کو نکھارتی ہے۔ کیمیا دانوں نے کلونجی پر تحقیقات کے بعد بتایا ہے کہ اس میں ضروری ر و غن پائے جاتے ہیںِ اس کے علاوہ ونگشلین، الیوسن، ٹے نین، رال دار مادے، گلوکوز، ساپونین اور نامیاتی تیزاب بھی پائے جاتے ہیں جو کئی امراض میں موثر ہیں۔ پاکستان کے ایک ممتاز سائنسدان نے جامعہ کراچی کے شعبہ کیمیاء میں کلونجی پر جو تحقیق کی اس کے مطابق کلونجی سے جو اسکائڈز حاصل ہوئے ہیں کسی اور شے سے نہیں مل سکے۔ حکماء نے کلونجی کو ہمیشہ موضوعِ تحقیق و علاج بنایا ہے اور اس کو مختلف طریقوں سے مختلف امراض کے علاج میں استعمال کرایا ہے۔ کلونجی سے طب یونانی کی معروف مرکب ادویہ میں حب حلیت، جوارش شونیز اور معجون کلکلانج شامل ہیں۔ کلونجی کے استعمال سے لبلبہ (پانقراس) کے افرازات ( لبلبہ سے خصوصی رطوبت) بڑھ جاتی ہے جس سے مرض ذیابیطس میں فائدہ ہوتا ہے ذیابیطس کے مریض کلونجی کے سات دانے روزانہ صبح نگل لیا کریں۔طب نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے مشہور معالج ڈاکٹر خالد غزنوی ذیابیطس کے مریضوں کو کلونجی کے بیج تین حصے اور کانسی کے بیج ایک حصہ ملا کر استعمال کرانے سے مفید نتائج حاصل کرچکے ہیں۔ کلونجی کو مختلف طریقوں سے زہر کے علاج کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے پاگل کتے کے کاٹنے یا بھِڑ کے کاٹنے کے بعد کلونجی کا استعمال مفیدہے کلونجی میں ورموں کو تحلیل کرنے اور گلٹیوں کو گھلانے کی بھی صفت ہے برص بڑا ہٹیلا مرض ہے اس کے سفید داغ جسم کو بدصورت بنا دیتے ہیں اگر برص کے مریض کلونجی اور ہالوں برابر برابر وزن لے کر توے پر بھون کر تھوڑا سرکہ ملا کر مرہم بناکر مسلسل تین چار ماہ برص کے نشانوں پر لگاتے رہیں اور کلونجی اور ہالون کا باریک سفوف شہد کے ساتھ روزانہ نہار منہ استعمال کیا کریں توجلد فائدہ ہوگا کلونجی کی دھونی سے گھر میں پائے جانے والے کیڑے مکوڑے ہلاک ہوجاتے ہیں اسی خصوصیت کے سبب کلونجی کو گھروں میں قیمتی کپڑوں میں رکھا جاتا ہے تاہم کلونجی کے استعمال میں یہ امر پیش نظر رہے کہ یہ طویل عرصہ اور زیادہ مقدار میں استعمال نہ کی جائے کیونکہ اس میں کچھ مادے ایسے بھی ہوتے ہیں جو صحت کے لیے مضر ہوسکتے ہیں البتہ وقفہ دے کر پھر سے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ویسے بھی اعتدال مناسب راہ عمل ہے۔
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آج سے چودہ سو سال قبل جو ارشادات فرمائے طب و سائنس آج اس کی تصدیق کررہے ہیں۔ قربان جائیے قدرت کاملہ پر جس نے حضرت انسان کے لیے کیا کیا نعمتیں پیدا فرمائیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چودہ سو سال قبل حکمت کے خوب صوت پیرائے میں انسان کو آگاہ کیا اور طب و سائنس نے چودہ صدیاں گزرنے کے بعد وہ نتائج حاصل کئے ہیں۔

دوا خود بنا لیں یاں ہم سے بنی ہوئی منگوا سکتے ہیں
میں نیت اور ایمانداری کے ساتھ اللہ کو حاضر ناضر جان کر مخلوق خدا کی خدمت کرنے کا عزم رکھتا ہوں آپ کو بلکل ٹھیک نسخے بتاتا ہوں ان میں کچھ کمی نہیں رکھتا یہ تمام نسخے میرے اپنے آزمودہ ہوتے ہیں آپ کی دُعاؤں کا طلب گار حکیم محمد عرفان
ہر قسم کی تمام جڑی بوٹیاں صاف ستھری تنکے، مٹی، کنکر، کے بغیر پاکستان اور پوری دنیا میں ھوم ڈلیوری کیلئے دستیاب ہیں تفصیلات کیلئے کلک کریں
فری مشورہ کیلئے رابطہ کر سکتے ہیں

Helpline & Whatsapp Number +92-30-40-50-60-70

Desi herbal, Desi nuskha,Desi totkay,jari botion se ilaj,Al shifa,herbal

 

حکیم محمدعرفان- منشیات کے نقصانات

شراب،ہیروئین،افیون،بھنگ،چرس،گردہ،بیئر،کوکین،سیگرٹ،نشے والے ٹیکے انجیکشن،نشے والی گولیاں،نیندوالی گولیاں،تمام نشہ آور اشیاء کا زبردست نقصان
یہ ایک ایسا مرض ہے جو انسان کا اپنا پیدا کردہ ہے اس میں کچھ دخل ہمارے معاشرے کی ناہمواریوں کا بھی ہے۔ نشہ بیچنے والے وہ زہر یلے  ناگ ہیں جو قوم کے بچوں کا خون پی رہے ہیں کوئی متعدی مرض اتنی تیزی سے نہیں پھیلتا جس تیز رفتاری سے نشہ ہمارے ملک میں پھیل رہا ہے۔ یہ وہ آگ ہے جو بجھانے سے نہ بجھے۔
نشہ سے انسان کی کارکردگی اور صحت دونوں متاثر ہوتے ہیں رنگ پیلا یا نیلا، آنکھیں خمار آلودہ اور اندر دھنسی ہوئیں، پاؤں میں لڑکھڑاہٹ، بھوک کی کمی، جگر کی خرابی اور اعصابی و دماغی امراض لاحق ہو جاتے ہیں اگر کوئی ہارٹ اٹیک، بلڈ پریشر، دق وسل، ذیا بیطس وغیرہ کا مریض ہو گا تو اسکی خواہش ہو گی کہ میں اچھے سے اچھا علاج کراؤں تاکہ مجھے شفاء حاصل ہو ان بیماریوں میں مبتلا افراد کو صحت کی فکر ہوتی ہے اور یہ علاج کی طرف رجوع کرتے ہیں لیکن نشہ کرنے والا کبھی نہیں چاہے گا کہ میں نشہ چھوڑ دوں یا اس کا مناسب علاج کراؤں بلکہ یہ لوگ اپنی اس مرض کو دوسروں سے چھپانے کی کوشش کرتے ہیں اور والدین اور دیگر عزیز و اقارب کو اس وقت پتہ چلتا ہے جب ان کا بچہ نشہ کے میدان میں اتنا آگے نکل چکا ہوتا ہے کہ جہاں سے واپسی ناممکن ہوتی ہے۔
منشیات کے عادی افراد شروع میں نشہ کی حالت میں بےحال ہو جاتے ہیں لیکن بعد میں جب انھیں نشہ نہ ملے تو ان کی حالت غیر ہونے لگتی ہے۔ سر میں درد اور جسم میں شدید دردوں کا احساس ہوتا ہے جسم کپکپاتا ہے۔ زبان بھاری محسوس ہوتی ہے نیند نہیں آتی اور اسہال شروع ہو جاتے ہیں۔ نشہ کی حالت میں یہ لوگ بےتاج بادشاہ بنے ہوتے ہیں خیالی پلاؤ پکاتے ہیں خود کو سب سے اعلٰی سمجھتے ہیں ان کا دماغ اتنا چکرایا ہوتا ہے کہ چھوٹی سی نالی بھی نہر نظر آتی ہے اور نالی کو نہر سمجھ کر پار کرتے ہیں اسی میں گر جاتے ہیں منہ ڈھیلا کرکے بولتے ہیں آواز بدل جاتی ہے اور چال لڑکھڑانے لگتی ہے جب گر جاتے ہیں تو کتے ان کا منہ صاف کرتے ہیں۔
ایسے ہی ایک نشئی گندی نالی میں گرا پڑا تھا کتا اس کا منہ چاٹنے لگا لیکن وہ کہہ رہا تھا۔ “تم بھی سائیں میں بھی سائیں“، “یاری نبھائیں، جب کتے نے اس پر پیشاب کیا تو کہنے لگا رحمت دا مہینہ پائیں مینوں چھڈ کے نہ جائیں۔“ یعنی رحمت کا مہینہ پانا مجھے چھوڑ کر نہ جانا۔ اس قسم کی کئی مثالیں آپ نے بھی دیکھی اور سنی ہوں گی اور اندازہ ہوگا کہ نشہ کرنے سے انسان، انسان نہیں رہتا پاگلوں جیسی حرکات کرتا ہے۔ معاشرہ اس کا مذاق اڑاتا ہے جب نشہ اتنی بری حالت کر دیتا ہے تو سوچنے کی بات یہ ہے ایسے لوگ جانتے ہوئے بھی ہماری حالت ابتر ہو جاتی ہے نشہ کیوں کرتے ہیں اس سوال کا جواب ذرا طویل ہے۔اسلام میں نشے کی مذمت
اللہ  قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے۔ اے ایمان والو! بیشک شراب اور جوا اور بت اور پانسے یہ سب گندے کام ہیں شیطان کے سوان سے بشتے رہو تاکہ تم فلاح پاؤ  (المائدہ 90)
جب بھی قرآن و حدیث کے حوالے سے نشے کی بات آتی ہے تو نشے سے مراد شراب لی جاتی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ قرآن مندرجہ بالاحکم صرف شراب سے متعلق نہیں اس میں ہر وہ چیز شامل ہے جو نشہ طاری کرتی ہے ذیل کی حدیث نشے کی وسعت واضح کرتی ہے۔
چنانچہ ارشاد نبوی صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم ہے ہر وہ چیز خمر کے زمرے میں آتی ہے جو نشہ آور ہو اور وہ حرام ہے ہر نشہ آور چیز سے پرہیز کرو۔
حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ نے ایک جمعہ کے خطبے میں خمر کے معنی کسی چیز کو ڈھانپ دینا یا پردہ ڈال دینا، اور خمر سے مراد ہر وہ چیز ہے جو عقل پر پردہ ڈالتی ہے۔ یہی تو نشہ ہوتا ہے کہ عقل پر پردہ پڑ جاتا ہے اور نیک و بد کی تمیز ختم ہو جاتی ہے ان دو آیات (سورۃ المائدہ 91/90) میں شراب اور جوئے سے متعلق حتمی حکم آیا ہے کہ یہ حرام ہیں اور شیطانی کام ہیں ان دو آیات کے علاوہ اور بھی احکام آئے ہیں یہاں تک تو بات ہوئی شراب کی، جب بات ہوتی ہے نشے کی تو اس میں بھنگ، چرس، افیون، ہیروئن اور ہر وہ چیز جو نشے کی خاطر کھائی یا پی لی جاتی ہے۔
نشہ کی اس سے بھی زیادہ اصطلاح ہے نشہ دولت کا بھی ہوتا ہے۔ اونچے رتبے اور جاگیرداری کا بھی نشہ ہے اور بعض نادان کسی خوبرو عورت کے ساتھ ناجائز تعلقات بنا کر اپنے آپ پر اسے نشے کی طرح طاری کر لیتے ہیں ان میں سے کوئی بھی نشہ ہو جائے وہ عقل پر پردہ ڈال دیتا ہے، دولت رتبے اور جاگیرداری کا نشہ انسان میں شیطانی عادات پیدا کر دیتا ہے اور عورت کا نشہ کبیرہ گناہوں کا ارتکاب کرواتا ہے۔
اب رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی ایک پیش گوئی ملاحظہ فرمائیں۔
میرے بعد میری امت شراب نوشی کرے گی ان کے اپنے امراء (حکام اور لیڈر) شراب نوشی میں ان کے معاون اور مددگار ہوں گے۔
آہ! آج ہم اسی دور سے گزر رہے ہیں حدیث میں بھی لفظ خمر فرمایا گیا ہے جس میں شراب ہی نہیں بلکہ تمام منشی اشیاء شامل ہیں۔
اب یہ جاننا انتہائی ضرروی ہے کہ آخر وہ کون سی چیز ہے کون سی محرومی یا کون سا فائدہ ہے جو انسان سے حیوان اور معاشرے سے علیحدہ کر دیتا ہے۔لوگ نشے کے عادی کیوں بنتے ہیں ؟اس کی چند ایک وجویات درج ذیل ہیں۔

کاروباری پریشانیاں
جن لوگوں کے کاروبار میں نقصان ہو جائے تو ان حالات میں راتوں کی نیند اڑ جاتی ہے اور ایسے لوگ سکون آور ادویہ کا استعمال شروع کر دیتے ہیں یا کسی عزیز کا انتقال یا محبت میں ناکامی پر غم کو دور کرنے کیلئے بعض افراد سکون آور ادویہ کا استعمال کرتے ہیں اور رفتہ رفتہ عادی ہو جاتے ہیں۔
صدمہ کا نفسیاتی علاج جو اسلام نے بتایا ہے اگر اس پر عمل کیا جائے تو دل کو سکون اور تسلی آ جاتی ہے سرکاردوعالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے کہ رنج یا دکھ پہنچے تو کہو اناللہ وانا الیہ راجعون، ان الفاظ میں اس زخم کا مرہم ہے جو صدمہ سے لگا ہو نیز اور بھی ایسی دعائیں کتابوں میں مذکور ہیں۔ کئی ناکام سیاستدان بھی نشے کے میدان میں اتر آتے ہیں۔

بری سو سائٹی
نشہ کے پھیلانے میں برے دوست سب سے بڑا سبب ہیں، جو شخص تمباکونوشی کرتا ہو فضول خرچ اور آوارہ ہو ایسا شخص دوستی کے قابل نہیں۔ اس سے تو کوسوں دور بھاگنا چاہئیے۔ سکولوں اور کالجوں کے علاوہ ہر محلے اور گلی میں بدقسمتی سے ایسے چند نشئی ہوتے ہیں جن کو نشہ کی لت ہوتی ہے یہ اپنے سے کم عمر کے لوگوں کو دوست بنا کر انھیں بھی اس کی رغبت دلاتے ہیں شروع میں اپنے پاس سے یہ مفت نشہ فراہم کرتے ہیں لیکن بعد میں جب دیکھتے ہیں کہ یہ عادی ہو چکا ہے پھر اپنے اخراجات بھی اس کی جیب سے پورے کرتے ہیں۔

جنسی وجوہات
جنسی عیاشی کیلئے نشہ کا استعمال بہت زیادہ کیا جاتا ہے۔ نشہ آور اشیاء چونکہ بےحس کر دیتی ہیں اور ان سے وقتی طور پر امساک بڑھ جاتا ہے اس لئے بعض لوگ ایسی اشیاء کا استعمال کرتے ہیں نیز بعض حکیم بھی جنسی مریضوں کو ایسی ادویات دیتے ہیں ان ادویہ سے ان کے اعضائے جنسی دن بدن نیم مردہ ہو جاتے ہیں اور ان کی جنسی طاقت بالکل ختم ہو جاتی ہے نشہ کے عادی افراد میں ہیجڑے پیدا ہونے کی شرح بہت زیادہ ہے۔

ناسازگار حالات اور ذہنی پریشانیاں
بعض لوگ اتنے حساس ہوتے ہیں کہ ذرا سی بات بھی انھیں بہت زیادہ محسوس ہوتی ہے معمولی پریشانی سے عہدہ برآ نہیں ہو پاتے۔ ہر شخص کو زندگی کے سفر میں قدم قدم پر کسی نہ کسی پریشانی اور الجھن سے واسطہ پڑتا ہے۔ جن لوگوں کی قوت ارادی مضبوط ہوتی ہے وہ بڑے حوصلے کے ساتھ ناسازگار حالات سے عہدہ برآ ہوتے ہیں لیکن نازک طبیعت کے مالک ان پریشانیوں کو ذہن پر سوار کر لیتے ہیں ہر وقت سوچ بچار میں کھوئے رہتے ہیں تنہائی پسند ہو جاتے ہیں اور نشہ آور ادویات میں سکون تلاش کرتے ہیں زندگی سے بیزاری اور موت کی خواہش ان میں پیدا ہو جاتی ہے عملی کام کرنے سے کتراتے ہیں اور نشہ کی دنیا میں اپنا جہاں آباد کر لیتے ہیں جن تعلیم یافتہ نوجوانوں کو ملازمت نہیں ملتی وہ بھی اس مرض کا شکار ہو جاتے ہیں۔

بطور فیشن یا شوقیہ
بعض لوگ دوسروں کو دیکھا دیکھی بطور فیشن نشہ پینا شروع کر دیتے ہیں اور بڑے خاص انداز سے کش لگاتے ہیں اور بڑے فخر سے اپنے ہمنواؤں سے کہتے ہیں کہ آج میں نے اتنی پی ہے۔ اکثر ایسا بھی ہوتا ہے کہ نشہ کا مریض عام آدمی سے اتنے فوائد بیان کرتا ہے کہ دوسرا آدمی بطور تجربہ وہی نشہ استعمال کرنے لگ جاتا ہے۔

تجسس
یہ فطرت انسانی ہے کہ جس چیز سے اسے روکا جائے اس کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ وہ کام ضرور کرکے دکھائے ٹی وی پر اشتہارات اور اخبارات کے صفحات پر ہیروئن اور منشیات کا ہر روز تذکرہ سننے سے بعض لوگ اس کے منفی اثرات لیتے ہیں۔ بس یہی سوچ انھیں لے ڈوبتی ہے آج کل چھوٹے بچے بھی نشہ آور چیزوں کے ناموں سے واقف ہیں بعض غیر ملکی فلمیں اس رجحان کو فروغ دیتی ہیں اس لئے بہت سے لوگ محض تجسس کی بناء پر اس کے عادی ہو رہے ہیں۔

والدین کی غفلت
جو والدین اپنی اولاد پر کڑی نظر نہیں رکھتے اپنی اولاد کی مناسب نگرانی نہیں کرتے اولاد کو شتر بےمہار کی طرح چھوڑ دیتے ہیں ان کی اولاد سگریٹ نوشی سے ابتداء کرکے ہیروئن کے سٹیج پر جا پہنچتی ہے بعض لوگ اپنی نشہ کی چیزیں اولاد کے ذریعے منگواتے ہیں جس سے اولاد بھی اس راہ پر چل نکلتی ہے اگر آپ کو اولاد کی زندگی کی فکر ہے تو ان سے سگریٹ بھی نہیں منگوانے چاہئیں وگر نہ کل کو اگر وہ سگریٹ پئے گا تو آپ اسے روک نہیں سکیں گے کیونکہ آپ کا کردار اس کے سامنے ہوگا۔
والدین کا کام جہاں اولاد کیلئے خوارک، لباس اور ان کی دیگر ضروریات پوری کرنا ہے وہاں یہ بھی آپ پر فرض ہے کہ ان کی اخلاقی تربیت بھی کریں وگر نہ وہی اولاد بد اخلاقی اور نشہ کی ذلت میں ڈوب کر ایک دن آپ کے گریبان میں ہاتھ ڈالے گی۔

امراض تنفس
نشی کرنے والوں کی اکثریت امراض تنفنس کا شکار ہو جاتی ہے سگریٹ کے ساتھ ہیروئن کے کش لگانا سونے پر سہاگہ کا کام کرتے ہیں پھیپھڑوں میں زخم اور سانس کی نالیاں تنگ ہو جاتی ہیں افیون چرس اور بھنگ کے عادی افراد کے پھیپھڑوں میں بلغم جم جاتی ہے۔ نالیاں اور پھیپھڑے خشک ہو جاتے ہیں ڈاکٹری ادویہ بھی یہی کام انجام دیتی ہیں۔ ان سے مراد وہ ادویہ ہیں جو بطور نشہ استعمال ہوتی ہیں پھیپھڑوں کی حرکات سست اور لمبے لمبے سانس لینے پڑتے ہیں جسم کو آکسیجن کم ملتی ہے۔
ان منشیات کا استعمال کرنے والے تپ دق، دمہ، برونکائی ٹس اور سانس لینے میں دقت کا سامنا کرتے ہیں ان کے اعضاء تنفس میں زخم ورم اور سوراخ ہو سکتے ہیں جن کی وجہ سے خون منہ یا ناک کے راستے جاری ہو سکتا ہے اور موت چند قدم دور ہو جاتی ہے۔

امراض معدہ اور منشیات
تمام منشی اشیاء معدہ کے گیسٹرک جوس پر برا اثر ڈالتی ہیں اور کچھ منشیات گیسٹرک جوس کی پیداوار کم کرتی ہیں۔ کچھ ایسی ہیں جن سے گیسٹرک جوس کی پیداوار بڑھ جاتی ہے جن سے بدہضمی، سوزش معدہ، زخم معدہ، معدہ کا سرطان، بھوک میں کمی، متلی اور خونی قے کی شکایات پیدا ہو جاتی ہیں بعض نشے قبض اور بعض پیچس لگا دیتے ہیں ہر نشہ کرنے والا معدہ کے ان امراض میں ضرور مبتلا ہوتا ہے۔ وہ لوگ احمقوں کی سوچ رکھتے ہیں جو نشہ کرتے اور اس خوش فہمی میں مبتلا رہتے ہیں کہ ہم آج ان امراض کا شکار نہیں ہوئے کل بھی بچے رہیں گے انھیں یاد رکھنا چاہئیے کہ اگر کسی درخت کے تنے پر روزانہ آری چلائی جائے تو وہ ٹوٹ کر ضرور گرے گی۔ میں نے یہاں نشہ کے ذریعے لاحق ہونے والے جو امراض بتائے ہیں وہ ہر نشہ کرنے والے کو ضرور ہوتے ہیں یہ میرا تجربہ ہے میں نے اپنی آنکھوں سے انھیں ان امراض کا شکار ہوتے دیکھا ہے۔

دماغی امراض اور منشیات
سب سے زیادہ مضر اثرات دماغ پر ظاہر ہوتے ہیں بلکہ پہلی سٹیج میں نشہ کرنے والا دماغی امراض میں مبتلا ہوتا ہے دماغ کی کارکردگی سب سے پہلے سست ہوتی ہے جس سے جسم کے ہر نظام کا فعل سست پڑ جاتا ہے۔ وہ دماغی امراض جو نشہ سے لاحق ہوتے ہیں ان میں نسیان، مرگی، سر چکرانا، نیند میں کمی، مالیخولیا، پاگل پن، سوچنے اور قوت فیصلہ میں کمی قابل ذکر ہیں۔

اعصابی امراض اور منشیات
جسم میں خشکی اور زہریلے مادوں کی کثرت کی وجہ سے، رعشہ، فالج، لڑکھڑاتی چال، حرکت میں سستی اور اعصابی تناؤ پیدا ہوتا ہے۔

امراض جگر اور منشیات
جگر خون بنانے سے قاصر ہو جاتا ہے بہت کم خون پیدا ہوتا ہے۔ خون کی کمی چہرہ کی زردی، یرقان، جگر کا سکڑ جانا یا متورم ہو جانا جیسے امراض پیدا ہو جاتے ہیں۔

منشیات اور جسمانی کمزوری
مریض دن بدن سوکھتا چلا جاتا ہے سردی گرمی برداشت نہیں ہوتی کیونکہ جس آدمی کے پھیپھڑے، دماغ، معدہ اور جگر تباہ ہو چکے ہوں وہ سوکھ کر کانٹا نہیں بنے گا تو کیا ہو گا۔

قوت مدافعت میں کمی
جسم میں بیماریوں کا مقابلہ کرنے کی طاقت نہیں رہتی۔ ایسا مریض بیماریوں کا بہت جلد شکار ہوتا ہے۔ اگر کوئی وبائی مرض پھیلے تو سب سے پہلے نشہ کرنے والے اس کا شکار ہو کر لقمہ اجل بنتے ہیں۔

امراض کا دبے رہنا
نشہ کرنے والے کے جسم میں بعض شدید قسم کے امراض موجود ہوتے ہیں لیکن بےحسی کی وجہ سے محسوس نہیں ہوتے مثلاً اگر کسی کے گردہ میں پتھری ہے تو درد محسوس نہیں ہوتا تب پتہ چلتا ہے جب پتھری بڑی ہو کر پیشاب پر اثر انداز ہوتی ہے اور گردہ میں شدید درد کی لہریں پیدا ہوتی ہیں۔

منشیات اور جلدی امراض
نشہ کرنے والے خارش، چہرے پر جھریاں، جلد کی خشکی میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔

گردوں پر اثر
گردے خون سے گندے مادے صاف کرنا کم کر دیتے ہیں اور بعض اوقات گردوں کے مسام بند ہونے کا عمل شروع ہو جاتا ہے پیشاب میں خون آتا ہے۔ گردے فیل ہو جاتے ہیں کبھی پیشاب بہت زیادہ آتا ہے لیکن زیادہ تر پیشاب بننا بند ہو کر موت واقع ہو جاتی ہے۔

نشہ اور نامکمل اولاد
نشہ کرنے والوں کے ہاں جو اولاد پیدا ہوتی ہے وہ دماغی طور پر کند ذہن یا کسی پیدائشی خرابی میں مبتلا ہوتی ہے ان کے بچے کمزور اور مختلف بیماریوں میں مبتلا ہوتے ہیں۔

بینائی میں کمزوری
جسم میں یبوست (خشکی) بڑھ جانے کا اثر آنکھوں پر بھی پڑتا ہے اور نظر دن بدن کمزور ہو جاتی ہے۔ آنکھوں کی حفاظت کرنے والی ضروری رطوبات کا اخراج رک جاتا ہے اور آنکھوں کے مسلز سکڑ جاتے ہیں۔

خانہ بربادی
نشہ کرنے والوں کی بیویاں طلاق لے لیتی ہیں۔ بھائی بہن ساتھ چھوڑ دیتے ہیں اولاد بھی آنکھیں پھیر لیتی ہیں۔ نشہ پر جو رقم خرچ ہوتی ہے اس سے آدمی محلوں سے نکل کر در در کا محتاج ہو جاتا ہے کوئی اس سے بات کرنا گوارہ نہیں کرتا اس ڈر سے کہ کہیں لوگ مجھے بھی نشئی نہ سمجھنے لگے۔

نشہ اور چوری
ہر نشہ کرنے والا عموماً چور ضرور ہوتا ہے کیونکہ کسی کے پاس قارون کا خزانہ نہیں ہوتا کہ بغیر کمائے ہاتھ پر ہاتھ دھرا بیٹھا رہے اور دولت کو نشہ میں لٹاتا جائے اس نشہ کی طلب پوری کرنے کیلئے رقم نہ ملنے کی صورت میں پہلے یہ گھر میں چوری کرتا ہے اور پھر لوگوں کی دکانوں سے چوری چکاری کرنے لگ جاتا ہے۔

جوانی کی موت اور نشہ
عام طور پر نشہ کے عادی نوجوانوں کو مرتے دیکھا گیا ہے شاز و نادر ہی کسی بیماری کے باعث یا حادثہ کی وجہ سے نوجوان مرتے ہیں لیکن اکثریت انھیں کی ہوتی ہے نشہ سے دل، دماغ، جگر، معدہ اور گردوں کو ناکارہ کر دیتا ہے اس لئے انسانی زندگی کی گاڑی ان کے بغیر چلنا محال ہے۔ جس کی وجہ سے نشہ کرنے والے جوانی کی عمر میں مر جاتے ہیں۔ اب ہر ایک نشہ آور اشیاء کے نقصانات کا الگ الگ تفصیلی ذکر ملاحظہ فرمائیں۔

تمباکو نوشی کے بھیانک اثرات
سگریٹ نوشی ایسا دروازہ ہے جو نشہ کی دنیا میں لے جاتا ہے ہر نشہ کرنے والا پہلے سگریٹ پیتا ہے اور بعد میں دیگر نشہ آور چیزوں کا شکار ہو کر موت کے منہ میں چلا جاتا ہے اور ایسے لوگ بھی دیکھنے میں آتے ہیں جو اسی تاسو سگریٹ روزانہ پیتے ہیں ان کی سانس کی نالیوں میں نکوٹین تہہ در تہہ جمی ہوتی ہے اس سے پھیپھڑوں میں زخم پیدا ہوتے ہیں سگریٹ پینے والا آکسیجن گیس کا خاتمہ کرتا جاتا ہے زیادہ نقصان انھیں پہنچتا ہے جو سگریٹ پینے والے کے پاس بیٹھتے ہیں ان کا دھواں ان کے پھیپھڑوں میں جا کر خرابیاں پیدا کرتا ہے اگر ٹی بی والے سگریٹ کا دھواں کسی اور کے پھیپھڑوں میں چلا جائے تو سوچیں اس غریب کا کیا حال ہو گا۔
فی زمانہ ریل، بس، ائیرپورٹ اور تفریحی مقامات پر سگریٹ کے دھوئیں کے مرغولے نظر آتے ہیں اور سگریٹ نوشی سے نفرت کرنے والے مجبور ہوتے ہیں کہ وہ بھی دوسروں کے منہ سے نکلا ہوا مضر صحت دھواں اپنے پھیپھڑوں میں پہنچائیں لٰہذا سگریٹ کی ڈبیوں پر لکھنے کی بجائے عملی طور پر ریل بس اور دیگر عوامی مقامات میں سگریٹ نوشی ممنوع ہونی چاہئیے۔

سگریٹ نوشی کی تاریخ

جنوبی امریکی پیداوار جس کو ہسپانوی باشندہ کولمبس نے 1492ء میں معلوم کیا
1556میں امریکی سرخ باشندوں سے سیکھا۔
 1565امریکہ سے برطانیہ پہنچا۔
 1750پہلا امریکی سگار جنوبی امریکہ میں۔
 1788کارخانہ سگار ہمبرگ
 دوسری جنگ عظیم میں 25 کروڑ سگریٹ روزانہ برطانیہ میں تیار ہوتے تھے۔ اب پوری دنیا میں 150 ارب سگریٹ تیار ہوتے ہیں۔
 دل کے سو مریضوں میں سے 99 سگریٹ نوش ہوتے ہیں۔
 دل کے درد اور سگریٹ نوشی کا گہرا تعلق ہے۔
 برطانیہ میں سالانہ 40 ہزار سگریٹ نوشی کی وجہ دل کی شریانیں سکڑ جاتی ہیں جس کہ وجہ دل کا صحیح دوران خون متاثر ہو جاتا ہے۔

سگریٹ میں دس زہر
 نکوٹین: 20 ملی گرام فی سگریٹ جو مہلک زہر کتے تک جانور کیلئے کافی ہے۔ کتے کو 10 فیصد لوشن 3،4 منٹ میں ہلاک کر سکتا ہے۔
 کاربن مانو آکسائیڈ: دھوئیں میں 2/1 2 فیصد یہ (ہر کلو) خون کے سرخ مادہ میں جذب ہو کر سانس کو روکتی ہے اور زیادتی پر موت واقع ہو جاتی ہے۔
گارسینوجنک: کینسر پیدا کرنے والا 16 کیمیائی مادے اس کے دھوئیں سے جانوروں پر تجزیہ کرنے سے کینسر پیدا کرنا ثابت ہوا۔
بھاپ بن کر اڑنے والا مہلک تیزاب۔
 کربول: یہ بھی مہلک زہر ہے۔ (سانائیڈ)
 سنکھیا: جو سگریٹ سے دھوئیں میں پایا جاتا ہے۔ اگر کسی جانور کو کھلایا جائے تو وہ سر کے بل لوٹ لوٹ کر دم توڑتا ہے۔
امونیا: یہ بھی مضر صحت ہے دم گھٹنے لگتا ہے، پھیپھڑوں کو جلا کر دائمی تکلیف میں مبتلا کرتا ہے۔
کولتار: یہ بھی زہر ہے ایک کلو روزانہ ایک سال تک پینے پر ایک پیالہ کولتار کے مساوی ہے۔ جو مہروں کو جانے والی باریک نالیوں کو مفلوج کر دیتی ہیں علاوہ مہروں کے اندرونی جلد کو بھی نقصان پہنچاتی ہے۔
 فضول اور الکحل: یہ بھی مہلک زہر ہے۔
یہ وہ تمام زہر ہیں جو ایک عام سگریٹ نوش کے جسم میں جذب ہوتے ہیں جو اس کی شاداب اور شگفتہ زندگی کو خشک کر دیتے ہیں خوف، وحشت، کمزوری، ذہنی الجھن، کشمکش، انتشار کا شکار ہو جاتا ہے جو زندہ رہ کر بھی زندگی کو ترستا ہے۔
ہر سگریٹ پینے والا یہی کہے گا کہ اس کا کوئی فائدہ نہیں نقصان ہی نقصان ہے لیکن پھر بھی پئے جا رہے ہیں سگریٹ نوش کو دھواں اڑانے سے وقتی طور پر نفسیاتی سکون ملتا ہے سگریٹ نوشی کیلئے ان لوگوں نے تاویلیں بنا رکھی ہیں کہ اگر چھوڑ دیں تو گیس پیدا ہوتی ہے کھانا ہضم نہیں ہوتا۔ قبض کی شکایت ہو جاتی ہے، سکون ختم ہو جاتا ہے یہ بہانہ بازی ہے نہ چھوڑنے کی نیت ہے وگر نہ سو سگریٹ روزانہ پینے والوں نے بھی یکلخت سگریٹ بند کئے لیکن کوئی خاص رد عمل نہیں ہوا اگر کچھ علامات پیدا ہو جائیں تو ان کا علاج بھی ہو سکتا ہے قبض دور کی جا سکتی ہے گیس کا خاتمہ بھی علاج معالجہ سے ہو سکتا ہے سگریٹ چھوڑنے سے جو علامات پیدا ہوتی ہیں ان کا تو کامیاب علاج ہے لیکن سگریٹ نوشی جاری رکھنے سے جو بیماریاں پیدا ہوں گی کبھی آپ نے غور کیا کہ ان کا علاج کتنا مشکل ہے۔
17 جون 1968ء کو امریکی سائنس دانوں نے کتوں کو سگریٹ نوشی کا عادی بنا کر مصنوعی طور پر ان کو پھیپھڑوں کے امراض میں مبتلا کیا گیا تاکہ “نکوٹین“ تمباکو کے زہر کے اثرات کا مشاہدہ کیا جا سکے۔ امریکی ایسوسی ایشن کانگریس کے بموجب سائنسدانوں نے دس کتوں کا انتخاب کیا۔ کتوں کے انتخابات کی اصل وجہ یہ ہے کہ کتوں کے پھیپھڑے اور عضلات انسانی پھیپھڑوں کے مشابہ ہوتے ہیں۔ کتوں کو روزانہ 12 سگریٹ کا باقاعدہ طریقہ سے عادی بنایا گیا۔ سگریٹ نوشی کا عادی انسان بھی روزانہ اوسطاً اتنے ہی سگریٹ پیتا ہے کتوں نے ابتداء بچوں کی طرح کھانسنا شروع کیا۔ ان کی آنکھیں سرخ ہو گئیں اور وہ بیمار ہو گئے جب انہیں سگریٹ نوشی کے کمرے کی طرف لے جایا جاتا وہ دم ہلا کر اپنی خوشی کا اظہار کرتے تجربہ کے دوران قلب و خون کے امراض میں مبتلا ہو کر اس میں سے پانچ کتے مر گئے اور بقیہ تمام کتوں کے پھیپھڑے متاثر ہو گئے۔ ( ماخوذ از رہنمائے دکن جون 1968ء )
آکسفورڈ یونیورسٹی کے سائنسدانوں کی تحقیق کے مطابق کہ جو لوگ 33 برس سے کم عمر میں سگریٹ پینا چھڑتے ہیں ان کیلئے پھیپھڑوں کے کینسر کا خطرہ 90 فیصد سے زیادہ کم ہو جاتا ہے اور جو لوگ پچاس برس کی عمر میں سگریٹ نوشی کرتے چھوڑتے ہیں ان میں پھیپھڑوں کے کینسر کا خطرہ پچاس فیصد سے کم ہوتا ہے ماہرین کا کہنا ہے کہ اب یہ بات بھی ثابت ہو گئی ہے کہ سگریٹ چھوڑنے کے لئے کسی عمر کی قید نہیں ہے۔ یہ تحقیق انگلینڈ میں آکسفورڈ یونیورسٹی کے سائنسدانوں نے کی ہے جس کے نتائج برطانیہ کے میڈیکل جرنل میں شائع کئے گئے ہیں پھیپھڑوں کے سرطان سے سب سے زیادہ وہ لوگ ہلاک ہوتے ہیں جو سگریٹ نوشی کرتے ہیں اس کے علاوہ 20 سے زائد بیماریوں کا تعلق تمباکو سے بھی ہے جن میں دل کی بیماری اور مثانے کا کینسر شامل ہے اس تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ سگریٹ پینے سے پھیپھڑوں کو جو نقصان پہنچتا ہے اس میں کوئی بیماری ایسی ہوتی ہے جس کا کوئی علاج ہی نہیں ہے۔ (بحوالہ روزنامہ خبریں 18 ستمبر 2000ء)
پریس ایشیاء انٹرنیشنل نے برازیل کے ماہرین کے حوالے سے یہ خبر دیتے ہوئے کہا ہے کہ سگریٹ پینے سے جسم میں ایک طرح کا زہر پھیل جاتا ہے جو جنسی لطف اٹھانے میں رکاوٹ بنتا ہے۔ (راہنما شکم مارچ 1982ء )
میٹریا میڈیکا میں ڈاکٹر جیلانی نے تحریر کیا ہے کہ تمباکو سے خون کا دباؤ گھٹ جاتا ہے اور اس کی زیادتی سے (قوما) اور موت واقع ہو سکتی ہے سگریٹ نوشی کرنے سے تب دپ (ٹی بی) کا ڈر ہوتا ہے سانس کی نالیاں تنگ ہو کر دمہ کا خطرہ بھی ہوتا ہے علاوہ ازیں نیند میں کمی واقع ہو جاتی ہے ضعف باہ ہو جاتا ہے جسم میں وٹامنز کی شدید کمی گلے کی سوزش اور معدہ کی نالی میں خراش واقع ہو جاتی ہے۔ امراض قلب اور ہائی بلڈ پریشر کے مریضوں کیلئے تمباکونوشی انتہائی مضر ہے دانت سیاہ ہو جاتے ہیں زبان پر زخم بن جاتے ہیں منہ کے اعضاء یا پھیپھڑوں میں سرطان پیدا ہو جاتا ہے جس سے سگریٹ نوش طبعی موت مرنے سے پہلے مر جاتا ہے سگریٹ پینے والے کا مزاج گرم رہتا ہے گھر میں بیوی بچوں یا ماں باپ سے لڑتا جھگڑتا رہتا ہے اور دفتر میں اپنے ساتھیوں پر سختی کرتا ہے۔ ایسا آدمی معاشرے اور مذہب سے ہٹ کر رہ جاتا ہے اسی وجہ سے کسی کو ملنے ملانے سے کتراتا ہے کہ دوستوں میں بیٹھ کر دھواں چھوڑ دوں گا تو وہ نفرت کریں گے رمضان المبارک کے روزے سگریٹ پینے والے کم ہی رکھتے ہیں کیونکہ سگریٹ کے دھوئیں سے طویل جدائی انہیں برداشت نہیں ہوتی۔ ایسے کم ظرف اور بدقسمت لوگ نماز، روزہ بھی چھوڑ دیتے ہیں سگریٹ نہیں چھوڑ سکتے تمباکونوشی کرنے والا بسوں میں صحیح طور سے سفر نہین کر سکتا کہ جب بھی سگریٹ سلگائی جائے تو عورتیں ٹوک دیتی ہیں کہ ہمیں قے آتی ہے سگریٹ پینا بند کرو اس نامراد سگریٹ کی وجہ سے الٹی سیدھی باتیں سننا پڑتی ہیں۔

سگریٹ چھوڑنے کا طریقہ
سگریٹ چھوڑنے کا طریقہ یہ ہے کہ یکلخت چھوڑ دیں کیونکہ جو ایک ایک کم کرکے چھوڑنے کا کہتے ہیں اس طرح وہ پھر سگریٹ کی مقدار بڑھانا شروع کر دیتے ہیں لٰہذا پختہ نیت اور ارادہ کرکے یکلخت چھوڑ دیں اور اپنے دوست احباب میں تشہیر کر دیں کہ میں نے سگریٹ چھوڑ دئیے ہیں تاکہ دوبارہ پینے کا حوصلہ نہ رہے کہ یہ کیا سوچیں گے کل سگریٹ چھوڑنے کا کہا اور آج پھر پی رہے ہیں سگریٹ چھوڑتے ہی آپ دوسرے سگریٹ نوشوں کو سمجھائیں تاکہ آپ کے جذبات کی تسکین ہو اور سگریٹ کے خلاف مذید نفرت ذہن میں آئے۔ سگریٹ چھوڑنے کے بعد خدانخواستہ اس کی طلب محسوس ہو تو مکئی بھونی ہوئی چبائیں یا چیونگم منہ میں ڈال لیں میٹھی سونف بھی بوقت ضرورت استعمال کریں میٹھی سونف چبانے کا فائدہ یہ ہو گا کہ گیس اور قبض پیدا نہیں ہو گی۔ نیز سگریٹ چھوڑنے کے بعد ذہن میں یہ خوش کن خیالات رکھیں کہ سگریٹ سے نجات پاکر میں نے فلاں فلاں بیماری سے نجات پائی اب میں صحت مند ہوں اور دوسرے آدمیوں کی طرح نارمل ہوں اللہ عزوجل کا شکر ہے کہ بہت بڑی بال سر سے اتر گئی ہے۔
یاد رکھئے سگریٹ چھوڑنے کے بعد کبھی صرف ایک سگریٹ پینے کی کوشش بھی مت کیجئے کیونکہ ایک سگریٹ کے کش لینے سے دوبارہ نئے سرے سے آپ اس کے عادی ہو جائیں گے۔

شراب کے نقصانات
حضور نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے شراب کے بارے میں دس شخصوں پر لعنت کی۔
(1) بنانے والا (2) بنوانے والا (3) پینے والا (4) پلانے والا (5) اٹھا کر لے جانے والا (6) رکھنے والا (7) بیچنے والا ( 8 ) خریدنے والا (9) مفت دینے والا (10) دام کھانے والا۔ (ترمذی)

امراض معدہ اور شراب
شراب کی وجہ سے معدے کی خطرناک بیماریاں پیدا ہوتی ہیں یہ اس لئے ہوتا ہے کہ یہ خون میں موجود لائیپڈ جو ایک خاص قسم کی چربی ہوتی ہے اس کے استعمال سے تحلیل ہو جاتی ہے یعنی لائیپڈ ایک طرح کی حفاظتی تہہ مہیا کرتا ہے جس پر تیزابیت کا نقصان دہ اثر نہیں ہوتا اور اسی تہہ کی وجہ سے معدہ خود اپنے آپ کو ہضم نہیں کر سکتا اگرچہ یہ فی الحال پوری طرح ثابت نہیں ہوا کہ جس طرح شراب گلے اور خوراک کی نالی میں کینسر کا ذریعہ بنتی ہے معدہ کے معاملے میں بھی ایسا ہی ہے لیکن اس خیال کو تقویت ہوتی اج رہی ہے کہ معدے کے سرطان میں بھی شراب کی کارستانی ہوتی ہے۔

امراض امعاء اور شراب
شراب کا سب سے زیادہ نقصان دہ اثر بارہ انگشتی آنت پر ہوتا ہے اس جگہ نہایت نازک کیمیائی اثرات وقوع پذیر ہوتے ہیں شراب اس کی اس خاصیت کو متاثر کرتی ہے جو مخصوص ہاضم لعاب خارج کرنے کی صلاحیت سے تعلق رکھتی ہے اور اس کی کیمیائی حساسیت پر اثر انداز ہوتی ہے ہاضمہ کیلئے اس اہم راستے کی تباہی کے بعد شراب جگر سے پیدا ہونے والے ہاضم لعاب Bile کے اخراج پر بھی اثر انداز ہوتی ہے تمام شرابیوں کی بارہ انگشتی آنت اور پتہ کی جھلی پمیشہ بیماری کا شکار ہوتی ہیں یا ان کا فعل اکثر صحیح نہیں ہوتا۔ یہ حالت ہر شرابی کو گیس بدہضمی کے ذریعے مصیبت میں ڈالے رکھتی ہے۔ معدے کی یہ تکالیف آنتوں پر بھی اثر ڈالتی ہے۔

امراض جگر اور شراب
انسانی جگر وہ حساس لیبارٹری ہے جو شراب کے ہر چھوٹے سے چھوٹے سالمے کو زہر کی طرح محسوس کرتا ہے جگر پر شراب کا اثر دو طرح سے ہوتا ہے۔
1- شراب خوری کی صورت میں جگر کے خلیے الکحل ختم ہونے کی ذمہ داری میں پوری طرح مصروف ہوتے ہیں اس طرح وہ اپنے دوسرے کاموں کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔
2- جگر کے کیمیاوی عمل جو ایک سے ایک بڑھ کر حساس ہوتے ہیں شراب کے بلا روک ٹوک اثر کے تحت درہم برہم ہو جاتے ہیں اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جگر کو ایک ہی عمل بار بار دہرانا پڑتا ہے اور اس طرح بے پناہ مسلسل اور بال ضرورت محنت اور مشقت سے جگر کی کمزوری واقع ہو جاتی ہے یہ اثرات جگر کیلئے خطرناک نتائج پیدا کرتے ہیں ان اثرات میں زیادہ مشہور جگر کا سکڑنا ہوتا ہے جو اس کا زندہ ثبوت ہوتا ہے کہ جگر کی بربادی مکمل طور پو چکی ہے۔
مذید برآں جگر کی وجہ استطاعت جس کی وجہ سے جسمانی تحفظ کے اعضاء جیسے مختلف قسم کے گلوبین بنتے ہیں شرابیوں میں خطرناک حد تک کم ہو جاتے ہیں اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ان لوگوں میں بیماریوں کے خلاف مدافعت کم سے کم ہو جاتی ہے۔
شراب بعض اوقات جگر کے فعل کے اچانک رک جانے کی وجہ بھی بن جاتی ہے اس صورت میں ایک شرابی بے ہوشی کے عالم میں ہی مر جاتا ہے اسے جگر کا دیوالیہ پن کہتے ہیں جگر کے سلسلے میں ایک مثال بھی ایسی نہیں ملتی جس میں اس پر شراب کے نقصان دہ اثرات کا ثبوت نہ ملتا ہو۔

گردوں پر شراب کا اثر
انسانی گردے جنہیں دوران خون کے نظام کا آخری مقام سمجھا جائے ان کو شراب کے استعمال سے سخت نقصان پہنچتا ہے۔ اس لئے کہ گردے انتہائی حساس کیمیائی جوہر کی ملاپ Valence کے مقام پر چھلنی کا کام دیتے ہیں لیکن شراب اس نازک عمل کو بھی تہہ و بالا کر دیتی ہے یہ تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ وہ شرابیں جن میں الکحل کی مقدار کم ہوتی ہے گردوں کیلئے زیادہ نقصان دہ ہوتی ہیں چنانچہ زیادہ مقدار میں بئیر پینے والوں کے گردے اکثر خراب ہوتے ہیں۔
لمف والے (Lymphatic) نظام کی انسانی جسم میں بے حد اہمیت ہے اس نظام کی خون والی نالیاں شراب کے ہاتھوں ناقابل علاج نقصان اٹھاتی ہیں اس لئے کہ چربی والے نامیاتی مرکب لائیپڈ کا اس نظام میں ایک بہت اہم مقام ہوتا ہے۔ شراب کا نقصان دہ اثر اس حیران کن حد تک حفاظت بہم پہنچانے والے نطام کو برباد کر دیتا ہے۔

امراض قلب اور شراب
جسم میں دوران خون قائم رکھنے والی قلبی نالیوں اور طی اور شریانوں کے امراض میں اضافہ ہو رہا ہے اس کیلئے شراب کے استعمال کا مسئلہ ایک اہم مسئلہ بن گیا ہے۔ اب وہ بات نہیں رہی کہ بیماریاں خال خال نظر آتی تھیں۔ اس بیماری کے آغاز کی کئی وجوہات ہیں، انہیں خطرناک امکانات میں ایک عنصر خوراک، جسم اور خون میں موجود چربی ہے۔ جسم میں زیادہ گرمی پیدا کرنے والے الکحل کی اقسام مثلاً برانڈی اور دہسکی سے انسان کی حرکت قلب بند ہو جانے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔
تازہ چھان بین کے مطابق چربی کی جو قسمیں خون بھپکنے والی نالیوں میں (شریانوں) کے امراض پیدا کرتی ہے ان میں ٹرائی گلی سیرائیڈ سب سے زیادہ اہم ہے اور یہی مادہ ہے جو الکحل کے استعمال سے خون میں بڑھ جاتا ہے جو الکحل کثیر مقدار میں نوش کئے جاتے ہیں وہ گردش خون کو متاثر کرتے ہیں اور حرکت قلب بند کر دینے کا باعث بن سکتے ہیں عادی اور بھاری مقدار میں شراب پینے والوں میں ایک بیماری پیدا ہوتی ہے جسے الکحولک کار ڈیومایوتھی کہتے ہیں۔

شراب کے اثرات اعصابی نظام پر
شراب سے دماغ پر اتنا برا اثر پڑتا ہے کہ رفتہ رفتہ تمام اعصابی نظام تباہ ہو کر رہ جاتا ہے اس سے سوچنے اور فیصلہ کرنے کی قوت کم ہو جاتی ہے شرابی کی قوت مدافعت کمزور ہو جانے سے عام دوائیں بھی اس پر اثر نہیں کرتیں اس لئے شرابی کو اگر کوئی مرض لاحق ہو جائے تو اس کا علاج نہایت مشکل سے ہوتا ہے۔
شراب عصبی خلیوں کی اس باریک جھلی میں داخل ہو جاتی ہے جو نامیاتی چربی جیسے مرکب یعنی لائیپڈ کی حفاظت میں ہوتی ہے اس کا برا اثر اعصابی نظام کے مراکز پر ناقابل علاج حد تک ہوتا ہے۔ الفاظ کا بھولنا اور ہاتھوں کا رعشہ اس اعصابی نقصان کی نشانیاں ہوتی ہیں شراب میں چربی پگھلانے کی صلاحیت ہوتی ہے تخلیقی خلیوں میں داخل ہو کر ان کے بے حد نقصان پہنچاتی ہیں اس کی عام فہم مثال میں نئی نسل کی ذہانت میں کمی اور ناقص بالیدگی شامل ہیں۔ بہت سے مطالعہ جات اور سروے کے بعد یہ حقیقت ظاہر ہوتی جا رہی ہے کہ ذہنی طور پر غبی بچوں کے والدین اکثر و بیشتر شدید قسم کی شراب نوشی کرتے تھے۔ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ شراب عورت کے غم اور بیضہ حیات کے خلیے کو بہت آسانی سے نقصان پہنچاتی ہے اس کا نتیجہ یہ ہے کہ شرابی ماؤں کے بچے اکثر موروثی طور پر دماغ یا قلبی قدمہ یا جھٹکے کا شکار ہو جاتے ہیں شرابی باپ کی طرف سے ایسے واقعات کی تعداد تیس فیصد سے زیادہ تک ہوتی ہے۔ شراب میں شروع سے جنسی قوت بڑھ جاتی ہے لیکن بعد میں اتنی کمزوری پیدا ہوتی ہے جو باعث ندامت بنتی ہے۔
دنیا اس وقت ایڈز کے خطرے سے لرزاں ہیں لیکن ایڈز کے پیدا کرنے میں شراب اور دیگر نشہ آور چیزوں کا ہاتھ ہے۔

معاشرے پر اثرات
1- مخمور انسان ایسی ایسی عجیب، نازیبا اور انسانیت سوز حرکات کا ارتکاب کرتا ہوا نظر آتا ہے کہ کوئی باوقار انسان انہیں دیکھنا بھی پسند نہیں کرتا۔
2- شرابیوں میں زودرنجی یا غصہ کے فوری حملہ، ان کو معاشرے میں لا تعداد تنازعات میں الجھائے رکھتے ہیں۔ شراب میں بدمست کبھی جوش میں آکر گالیاں بلکہ مرنے مارنے پر اتر آتا ہے۔ کبھی رونے لگتا ہے اور کبھی خوفزدہ ہو کر کانپنے لگتا ہے۔
3- لاتعداد متواتر طلاقیں معاشرے کی بنیادی ڈھانچوں کو ہلا کر رکھ دیتی ہیں اور نتائج میں مجرمانہ ذہنیت کے حامل بچوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کی وجہ سے تمام معاشرہ خطرناک حد تک متاثر ہوتا ہے۔
4- مختلف قسم کے کام کرنے والے مزدوروں اور کاریگروں پر شراب کی وجہ سے بے دلی اور کاہلی کا غلبہ ہو جاتا ہے اس طرح ان کی کارکردگی اور مہارت پر برا اثر پڑتا ہے جس کا آخری نقصان معاشرے کو پہنچتا ہے۔
5- شراب کی وجہ سے انسانوں میں ایک دوسرے کی طرف غیر ہمدردی کے اثرات مرتب ہوتے ہیں اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ قومی تفکر، معاشرتی اتحاد اور معاشرتی مسائل کے خلاف جہاد کا جذبہ مکمل طور پر ختم ہو جاتا ہے۔
6- شیطان شراب اور جوئے کے ذریعے انسانوں کے درمیان منافقت اور فساد پیدا کرتا ہے اس لئے خدا تعالٰی نے سورہء مائدہ میں فرمایا “یہ گندے کام شیطانی عمل ہیں پس ان سے بچتے رہو تاکہ تمہاری زندگی اچھی گزرے، گویا یہ کام ہلاکت و بربادی کے موجب ہوتے ہیں۔

ہیروئن کی تباہی
پہلے لوگ افیون اور بھنگ کا نشہ کرتے تھے۔ لیکن اب مارفیا اور ہیروئن نے تباہی مچا رکھی ہے ان چیزوں کی عادت سکولوں کالجوں سے شروع ہوتی ہے ایک بار کسی لڑکے نے کش لگوا دیا اور تمام عمر کیلئے تباہی آگئی دکھ کی بات یہ ہے کہ پہلے لڑکے ان شیاء کو استعمال کرتے تھے اب لڑکیوں نے بھی ان کے شانہ بشانہ چلنا شروع کر دیا ہے۔ جدید نشہ آور اشیاء کے استعمال سے بڑی تیزی کے ساتھ بیماریاں لاحق ہو جاتی ہیں۔
آج کل ہیروئن میں بیرم سلفائیڈ کی ملاوٹ کی جاتی ہے اور یہ کیمیکل اتنا زیریلا اور خراش ڈالنے والا ہے کہ جہاں جہاں اس کا اثر ہوتا ہے یہ خراش ڈالتا ہے۔ یہ بالوں تک کو صاف کر دیتا ہے ہیروئن کے عادی افراد کے پھیپھڑوں میں زخم ہو جاتے ہیں جو کسی وقت بھی پھٹ سکتے ہیں معدہ کی جلد گلنے لگتی ہے خون کی نالیاں پھٹنے سے بعض اوقات نکسیر پھوٹنے لگتی ہے تھوک کے ساتھ خون آنے لگ جاتا ہے۔ دل بدن بدن کمزور ہونے لگتا ہے جو کسی وقت بھی اپنی دھڑکن بند کر سکتا ہے حرام مغز متاثر ہوتا ہے اعصابی بیماریاں پٹھوں کا کھچاؤ یا دماغ میں خون جم جانے سے فالج ہو سکتا ہے۔ جنسی کمزوری لاحق ہو جاتی ہے بلڈ پریشر بھی نارمل نہیں رہتا جسم ٹوٹتا رہتا ہے ہر وقت تھکاوٹ سی رہتی ہے بہت سی بیماریاں جسم کے اندر موجود ہوتی ہیں لیکن بے حسی کی وجہ سے ظاہر نہیں ہوتیں مقدار میں زیادتی کی وجہ سے بعض لوگوں کے سپرم ڈیڈیا ست رو ہو جاتے ہیں اور یہ لوگ اولاد کے قابل نہیں رہتے جسم کی چربی دن بدن پگھل کر ہڈیاں رہ جاتی ہیں جو خون پیدا ہوتا ہے وہ متعفن ہو جاتا ہے گردے پوری طرح خون صاف نہیں کرتے گردوں کی چھلنیاں دن بدن سکڑنے لگتی ہیں آخرکار گردے فیل ہو جاتے ہیں اور پیشاب بننا بند ہوکر موت واقع ہو جاتی ہے۔ معدہ میں زخم ہو جانے کی وجہ سے جلن محسوس ہوتی ہے ہضم کا عمل ٹھیک طور سے نہیں ہوتا پیٹ میں درد رہنے لگ جاتا ہے کھانے پینے کی رغبت کم ہو جاتی ہے پھیپھڑوں کے زخموں کی وجہ سے پھیپھڑوں میں پیپ پڑ جاتی ہے اور سخت کام کرنے یا چلانے سے پھیپھڑے پھٹ سکتے ہیں وہ ہاتھ جو ایک من چیز اٹھاتے تھے دس کلو بوجھ اٹھانے سے قاصر ہو جاتے ہیں۔ (امراض عامہ)

افیون کے خوفناک اثرات
افیون کھانے کے عادی لوگوں کے اعصاب ڈھیلے اور کمزور ہو جاتے ہیں دردسر، بے ہوشی کی سی کیفیت پتلیوں کا سکڑنا خراٹے دار سانس آنے لگتا ہے۔ منہ خشک اور قبض شدید ہوتا ہے۔ سستی، کاہلی، جلد زرد اور خشک رہتی ہے جسم کمزور اور رعشہ ہو جاتا ہے اگر عضلات تنفس مفلوج ہو جائیں تو موت واقع ہو سکتی ہے۔ تشنج اور فالج تو اکثر ہوا کرتے ہیں افیونی کا بیان قابل اعتماد نہیں ہوتا کیونکہ قوی عقلیہ میں ضعف آجانے کی وجہ سے اسے نیک و بد کی تمیز نہیں رہتی۔ بھوک زائل ہو جاتی ہے اور منہ خشک رہتا ہے۔
چنانچہ اس کے استعمال سے آدمی ادہانی خیالات کے سمندر میں غرق ہو جاتا ہے اکثر اپنی دنیا کو بھول کر محض خیالات کی وادیوں میں بھٹکنے لگتا ہے پست ہمتی، اخلاقی گراوٹ، بے شعوری بڑھتی جاتی ہے حتٰی کہ اس کا عادی معاشرہ کیلئے ناسور بن جاتا ہے۔ ان تمام عقل و صحت کی بربادیوں کے علاوہ نقصان مایہ و شماتت ہمایہ کا سبب بن جاتا ہے۔ مالی حالت دن بدن تباہ ہو جاتی ہے حتٰی کہ چوری و ڈکیٹی اور قتل و غارت گری کا مرتکب بن جاتا ہے اسلام کا یہ اصول کہ اس نے یہ تمام مضرت رساں اور بربادکن اشیاء کو جو نہ صرف صحت کا نقطہ نظر سے بلکہ اور بے شمار اعتبارات مثلاً نفسیاتی، اخلاقی، اجتماعی اور اقتصادی لحاظ سے سخت مضرت رساں ہیں ان کو حرام قرار دیتا ہے۔ جو تمام بنی نوع انسانوں پر احسان عظیم ہے۔ فقہائے کرام فرماتے ہیں جو افیون کا عادی ہوگا مرتے وقت اسے کلمہ نصیب نہ ہو گا۔

حشیش کے نقصانات
حشیش بھنگ کو کہتے ہیں اس پودے کی پتیاں ٹہنیاں گھوٹ کر پینے سے نشے کی سی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے سر چکراتا ہے اور ہر وقت غفلت سی چھائی رہتی ہے گانجا اور چرس بھی اسی پودے سے حاصل کئے جاتے ہیں وہ بھی اسی قسم کے اثرات مرتب کرتے ہیں البتہ اس کا تمباکو میں ملاکر بھی استعمال کیا جاتا ہے اور اس طرح اور بھی مضر صحت ہو جاتا ہے اس کے استعمال سے خون کی کمی بے ہمتی اور ذہنی انتشار لاحق ہو جاتے ہیں جو بحیثیت مجموعی صحت پر انتہائی برا اثر ڈالتے ہیں اور انسان کی صحیح سوچ اور فکر جاتی رہتی ہے ایسے لوگ بعض اوقات یا وہ گوئی پر اثر آتے ہیں۔ زیادہ مقدار میں استعمال کرنے سے آدمی بے قابو ہو جاتا ہے آخر میں قوما ہوکر موت بھی واقع ہو جاتی ہے۔

بعض ڈاکٹریہ ادویہ
ہماری ہیلتھ پالیسی میں کمزوری کے باعث بہت سی ڈاکٹری ادویہ کا استعمال عام ہاتھوں میں چلا گیا ہے وہ دوائیں جو ڈاکٹری نسخہ کے بغیر ممنوع ہونا چاہئیے تھیں سرعام مل رہی ہیں یہ ادویہ نفسیاتی مسائل سے پیدا ہونے والے ڈپریشن کو دور کرنے کیلئے تجویز کی جاتی ہیں لیکن ان کا بطور استعمال نشہ زیادہ ہوتا ہے اور یہ لوگ اتنی مقدار میں ان کا استعمال کرتے ہیں کہ اپنے لئے ہولناک گڑھا تیار کرتے ہیں۔
ان ادویہ کا نشہ کرنے سے سر میں دائمی درد پیدا ہو جاتا ہے اور بھولنے کی بیماری نسیان پیدا ہو جاتی ہے۔ پیشاب میں غیر طبعی اجزاء خارج ہوتے ہیں ہر وقت وحشت طاری رہتی ہے بعض ادویہ اتنی زہریلی ہیں جو خون کے خلیات کو تباہ کر دیتی ہیں اور زندگی کیلئے خطرہ بن جاتی ہیں۔ بعض دواؤں کے استعمال سے شدید قبض، پیشاب کی زیادتی سینہ کی جلن اور خفقان قلب کے عارضے لاحق ہوتے ہیں خون کے سفید جرثومے کم ہو جاتے ہیں اور یرقان کا خطرہ رہتا ہے دمہ کے مریضوں کیلئے ان ادویہ کا استعمال خطرناک ہے اگر کسی معالج نے اپنی دوکان پر اس قسم کا اشتہار لگا رکھا ہو کہ میرے پاس ایسی دوائی ہے جو رعشہ، قبض، جگر کی خرابی، معدہ کی خرابی، پاگل پن، سر درد، سانس کی تنگی اور نظر میں کمزوری پیدا کرتی ہے اپنی جیبوں کو خالی کرانے اور موزی بیماریوں کے جال میں پھنسنے کیلئے میری دوائی خریدیں تو ہر کوئی جوتا اٹھا کر اس کے پیچھے پڑ جائے گا لیکن حیرت ہے نشہ کے عادی افراد پر کہ جانتے ہوئے بھی ایسی ادویہ کا بکثرت استمعال کرتے ہیں اور اپنی صحت جوانی اور دولت کا ستیاناس کرتے ہیں۔
کسی بھی ڈاکٹر اور طبیب کو ان ادویہ کا نام اپنی کتاب میں درج نہیں کرنا چاہئیے۔ کیونکہ جو چیز عوام کے فائدے کیلئے درج کی جاتی ہے یا جس چیز کا نام بتاکر لوگوں کو ڈرایا جاتا ہے بعض ناعاقبت اندیش لوگ اس کا غلط استعمال کرنے لگ جاتے ہیں۔ جس طرح شروع میں ہیروئن کے نام سے صرف چند افراد واقف تھے لیکن اخبارات ریڈیو اور ٹی وی پر اس کے نام کا اتنی کثرت سے تذکرہ کیا گیا کہ آج ہر بچہ ہیروئن کے نام سے واقف ہے اور ہر کسی کے ذہن میں تجسس پیدا ہوتا ہے کہ ہیروئن کس قسم کی ہوتی ہے دیکھنا چاہئیے اور دیکھنے کے چکر میں لوگ ہیروئن کے عادی ہو رہے ہیں۔

چائے نوشی کے نقصانات
چائے کو میں نے نشہ آور چیزوں کے عنوان میں اس لئے لکھا ہے کہ یہ اندر ہی اندر جسم کو کھوکھلا کر دیتی ہے۔ بچوں اور عورتوں کو خصوصیت سے نقصان پہنچاتی ہے۔
یاد رکھئے چائے کی عادت بھی نشہ آور چیزوں کی طرح کم مضر نہیں بہرحال بغیر کسی ضرورت کے چائے سے اجتناب کرنا چاہیئے۔
کیونکہ معدہ کی جو بیماریاں آج کثرت سے پیدا ہو رہی ہیں ان میں چائے کا بہت زیادہ ہاتھ ہے۔ خصوصاً معدہ میں تیزابیت، جلن اور بھوک کی کمی اس کے نتائج ہیں۔
عرصہ دراز تک استعمال کرنے سے بینائی کو کمزور کرتی ہے۔ خون کو فاسد اور جگر کو متاثر کرتی ہے۔ محرک ہونے کی وجہ سے مثانہ میں گرمی پیدا کرتی ہے اور گردے ضرورت سے زیادہ پانی خارج کرنے لگتے ہیں پسینہ کی کثرت سے نمکیات جلد کے راستے خارج ہوتے ہیں۔ چائے زیادہ پینے سے خون میں غلیظ مادے جمع ہو جاتے ہیں۔ بے خوابی اور دائمی قبض لاحق ہو جاتی ہے بلڈ پریشر اور دل کے مریضوں کیلئے چائے نہایت مضر ہے۔ خونی بواسیر کے مریضوں کیلئے ازحد نقصان دہ ہے تبخیر معدہ کے مریض کو بھی چائے نہایت مضر ہے جریان احتلام اور سرعت انزال بھی پیدا کرتی ہے۔ صحت عامہ کیلئے گھن کا اثر رکھتی ہے۔

دوا خود بنا لیں یاں ہم سے بنی ہوئی منگوا سکتے ہیں
میں نیت اور ایمانداری کے ساتھ اللہ کو حاضر ناضر جان کر مخلوق خدا کی خدمت کرنے کا عزم رکھتا ہوں آپ کو بلکل ٹھیک نسخے بتاتا ہوں ان میں کچھ کمی نہیں رکھتا یہ تمام نسخے میرے اپنے آزمودہ ہوتے ہیں آپ کی دُعاؤں کا طلب گار حکیم محمد عرفان
ہر قسم کی تمام جڑی بوٹیاں صاف ستھری تنکے، مٹی، کنکر، کے بغیر پاکستان اور پوری دنیا میں ھوم ڈلیوری کیلئے دستیاب ہیں تفصیلات کیلئے کلک کریں
فری مشورہ کیلئے رابطہ کر سکتے ہیں

Helpline & Whatsapp Number +92-30-40-50-60-70

Desi herbal, Desi nuskha,Desi totkay,jari botion se ilaj,Al shifa,herbal

 

Read More

سبزيوں کے خواص

 سبزيوں کے خواص

آجکل تجربہ کاراَطباء اَپنے مريضوں کو اُن کے مزاج کے موافق سبزياں تجويز کرتے ہيں جس سے ظاہر ہے کہ وہ اطباء خواص سے سبزيوں کے واقف ہيں اسلئے چند سبزيوں کے خواص درج ذيل ہيں تاکہ واضح ہو سکے کہ دانشمندانِ اسلام و قرآن ان خواص سے ناواقف نہ تھے۔

پياز کھاوٴ ، يہ منہ کو پاک کرتي ہے، مسوڑھوں کو مضبوط۔ آبِ کمر (مني) کو زيادہ ، طاقت ِ مجامعت کو بڑھاتي ہے۔ پياز مُنہ کو خوشبودار۔ کمر کو محکم۔ چہرہ کو حُسن بخشتي ہے۔ يہ درد اور مرض کو دفع کرتي ہے۔ پٹھوں کو مضبوط، طاقتِ رفتار کو زيادہ اور بخار کو دور کرتي ہے۔ پياز زنبور يعني بِھڑ بہ الفاظ ديگر۔”مچھر اور مکھي کے کاٹ لينے پر، لگانے پر بہت مفيد ہے۔ پياز اگر سِرکے ميں تر کرکے ناک ميں ڈاليں تو نکسير رُک جاتي ہے۔ پياز کي زمانہء حاضرہ کے اطباء نے بھي بے انتہاء تعريف کي ہے۔ اور اب تو پياز تقريباً جُزوغذا بَن گئي ہے۔

سِير(لہسن) لہسن کھاوٴ مگر فوراً مسجد ميں نہ جاوٴ(حديث رسول) لہسن کھا کر مسجد کي طرف شايد جانے سے شايد اس غرض سے منع فرمايا گيا ہے کہ اِس کي بو، مسلمانوں کيلئے آزار کا باعث نہ ہو۔ لہسن ستر بيماريوں کو دوا ہے۔ دورِ حاضرہ کے اطباء اِسکي بڑي تعريف کي ہے۔ بلڈ پريشر کا دافع ہے ۔ قلب کيلئے بيحد مفيد ہے۔

بادنجان (بينگن) بينگن کھاوٴ، درد ميں مفيد ہے۔خود درد کا سبب نہيں بنتا۔ تِلي کے مرض ميں سود مند ہے۔ معدہ کو قوت ديتا ہے۔ رگوں کو نرم کرتا ہے۔ سِرکہ ميں ملا کرکھانے سے پيشاب زيادہ آتا ہے۔

ترب(مولي) مولي کھاوٴ بہت مفيد ہے۔ اِسکے پتے، بادي کو دور کرتے ہيں۔ غذا کو ہضم کرتي ہے ۔ اسکے ريشے بلغم کو دور کرتے ہيں۔ مولي پيشاب آور ہے۔ کدو ۔ کدو ، عقل و دماغ کو بڑھاتا ہے اور دردِ قولنج کے واسطے مفيد ہے۔ يرقان کو بھي فائدہ ديتا ہے۔ کاسني:۔ کاسني بڑي مفيد سبزي ہے۔ آبِ کمر(مني) کو زيادہ اور نسل ميں افزائش کرتي ہے۔ مولود کو خوبصورت بناتي ہے۔ مختلف امراض ميں سود مند ہے۔ دردِ قولنج کو دور کرتي ہے۔ يرقان کو بھي ختم کرتي ہے۔

 

Read More

غذائی چارٹ معدے کی تیزابیت کے مریضوں کیلئے

غذائی چارٹ
پھل   معدے کی تیزابیت کے مریضوں کیلئے جو حسب ضرورت لے سکتے ہیں۔
سیب ، امرود ، کیلا
سبزیاں
اُبلے ہوئے آلو ، گوبھی ، بند گوبھی ، گاجریں،سبز پھلیاں ، مٹر
گوشت
مرغی کا گوشت (بغیر کھال کے) ، بکرا ، دنبہ ، کباب، انڈے کی سفیدی ، مچھلی (بغیر چکنائی)
ڈیری اشیاء
پنیر(بغیر چکنائی)
اناج سے بنی اشیاء روٹی(سفید یا براون)،سادہ میٹھی ڈبل روٹی  مکئی کا بھٹہ۔
مشروبات
صاف ، ابلا ہوا پانی
میٹھا/حلوہ جات بسکٹ بغیر چکنائی
 

Read More

تمباکو کے نقصان کا کیسے پتہ چلا؟

پھیپھڑوں کے کینسر اور تمباکونوشی کے درمیان تعلق معلوم کرنے والے برطانوی سائنسدان سر رچرڈ ڈول کا بانوے سال کی عمر میں انتقال ہو گیا ہے۔
وہ آکسفورڈ کے جان ریڈکلف ہسپتال میں زیر علاج تھے۔ سر ڈول کا شمار دنیا کے معروف ترین پروفیسروں میں ہوتا تھا۔
ان کی وجہ شہرت انیس سو پچاس میں لکھا جانے والا ان کا تحقیقی مقالہ تھا جس میں انہوں نے تمباکونوشی کو پھیپھڑوں کے کینسر کی وجہ بتایا۔ اس تحقیق میں آسٹن بریڈفورڈ ہل بھی ان کے ساتھ تھے۔

جامعہ آکسفورڈ کے وائس چانسلر ڈاکٹر جان ہڈ نے کہا ہے کہ سر رچرڈ کی تحقیق نے دنیا میں لاکھوں لوگوں کی جانیں بچائیں۔

انہوں نے کہا کہ سر ڈول کی پھیپھڑوں کے کینسر اور دِل کی بیماریوں کے بارے میں تحقیق گزشتہ پچاس سال میں برطانیہ میں تمباکونوشی میں کمی کی ایک بڑی وجہ ہے۔

سر رچرڈ ڈول انیس سو بارہ میں ایک ڈاکٹر کے ہاں پیدا ہوئے تھے۔ ریاضی کے ایک امتحان میں فیل ہونے کے بعد انہوں نے طب میں تحقیق کرنے کا فیصلہ کیا۔

انہوں نے انیس سو سینتیس میں سینٹ تھامس میڈیکل سکول سے طب کی ڈگری حاصل کی اور رائیل آرمی میڈیکل کور میں شامل ہو گئے۔

سر ڈول کو طبی تحقیقاتی کونسل میں پھیپھڑوں کےکینسر میں اضافے کی وجہ معلوم کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی۔

ابتداء میں ڈول کا دھیان گاڑیوں سے نکلنے والے دھویں کی طرف گیا لیکن پھر انہوں نے تمباکونوشی کے رجحان میں اضافے پر توجہ دینی شروع کی۔ انہوں نے چھ سو مریضوں سے سوالنامہ بھروانے کے بعد نتیجہ اخذ کیا کہ پھیپھڑوں کی بیماری سگریٹ نوشی کی وجہ سے بڑھی ہے۔ اس کے بعد انہوں نے اپنی تحقیق کا دائرہ پورے ملک تک وسیع کر دیا۔

سر رچرڈ ڈول نے شراب نوشی کے ماں کے پیٹ میں بچوں پر اثرات اور مانع حمل ادویات کے اثرات کے بارے میں بھی تحقیق کی۔

سن دو ہزار میں اگست کے مہینے میں سر رچرڈ ڈول نے ایک رپورٹ پیش کی جس میں پچاس برس قبل کی گئی ان کی تحقیق درست ثابت ہوتی تھی کہ سگریٹ نوشی میں کمی کے ساتھ ساتھ پھیپھڑوں کے کینسر میں بھی کمی ہوئی ہے۔

سر رچرڈ ڈول کا ایک بیٹا اور ایک بیٹی ہے۔