Al-Shifa Naturla Herbal Laboratories (Pvt), Ltd.    HelpLine: +92-30-40-50-60-70

حیض کے دوران ورزش نقصان دہ ہے؟

حیض کے دوران ورزش قطعاً نقصان دہ نہیں ہے۔ ورزش کرنے سے ماہواری کے بہاؤ پر کوئی منفی اثر نہیں پڑتا۔ بلکہ ورزش کرنے کی صورت میں عضلات میں آکسیجن زیادہ مقدار میں پہنچتی ہے اور درد میں کسی قدر کمی آجاتی ہے۔

جنسی اعضاء کے ساتھ منہ کا استعمال

جنسی اعضاء کے ساتھ منہ کا استعمال
بیوی کے منہ میں عضو تناسل ڈالنا یا اس کی فرج میں اپنی زبان داخل کرنا اور اسے اندرونی طرف سے چاٹنا وغیرہ بھی مذموم جنسی اعمال میں سے ہیں۔ اسلام کی پیش کردہ مثبت جنسی تعلیم کے فقدان کی وجہ سے نوجوان طبقہ نے مغربی ذرائع سے جنسی معلومات حاصل کرنے پر اکتفاء کیا اور ایسی جنسی خرافات ہمارے معاشرے میں بھی رائج ہونے لگیں۔فطرت سلیمہ ایسے سفلی عمل کو ناگوار گردانتی ہے اور ایک عام عقلمند شخص بھی ایسی حرکتوں‌ کو مہذب قرار نہیں‌ دے سکتا۔
مباشرت کے دوران میاں‌ بیوی کا ایک دوسرے کی شرمگاہ کو زبان لگانا یا چاٹنا مکروہ عمل ہے اور اگر اس دوران میں‌ ایک دوسرے کی جنسی رطوبتیں (منی وغیرہ) منہ میں چلی جائیں‌ تو یہ عمل حرام کے زمرے میں داخل ہو جاتا ہے۔

کسی قسم کی جنسی بیماری کی صورت میں جنسی اعضاء کے ساتھ منہ کے استعمال سے جنسی انفکشن کا بھی خطرہ ہوتا ہے، اگرچہ یہ خطرہ جنسی ملاپ کی صورت میں ممکنہ خطرے کی نسبت کم ہوتا ہے۔

جنسی اعضاء کے ساتھ منہ کے استعمال سے ممکنہ طور پر لاحق ہونے والے چند انفکشن یہ ہیں
 کلیمائیڈیا
 سوزاک (گنوریا)
آتشک
 ایچ آئی وی
 ہیپاٹائیٹس اے،بی اور سی
 جنسی اعضاء پر پھوڑے/پھنسیاں
جنسی اعضاء پر جوئیں

Read More

جنابت کے احکام

جس شخص پر غسل واجب ہو اسے جنبی کہتے ہیں۔ حالت جنابت میں مبتلا شخص کے بارے میں شریعت کے احکامات درج ذیل ہیں جنبی اور حائضہ کے لئے قرآن مجید پڑھنا ممنوع ہے، خواہ وہ ایک آیت ہی کیوں‌ نہ ہو۔
 جنبی کے لیے قرآن حکیم کو چھونا بھی حرام ہے۔
 جنبی کے لیے ایسی انگوٹھی اور لاکٹ (ہار) کو جس پر قرآنی آیت یا حروفِ مقطعات لکھے ہوں پہننا حرام ہے۔
 جنبی کا مسجد میں داخل ہونا حرام ہے۔
 جنبی کا دینی کتابوں کو طہارت کے بغیر ہاتھ لگانا اور پکڑنا حرام ہے۔
 وہ تمام شرعی امور جن کی بغیر وضو انجام دہی ممنوع ہے، حالت جنابت میں ان کا کرنا حرام ہے۔
 جس گھر میں جنبی ہو اس گھر میں رحمت کے فرشتے نہیں آتے

مباشرت کے جائز طریقے

مثالی مباشرت کے لئے ضروری ہے کہ میاں‌ بیوی دونوں دل کی رغبت سے ایک دوسرے سے مباشرت کرنے کے خواہشمند ہوں۔ مباشرت کے وقت دونوں‌کا تندرست و توانا ہونا بہت ضروری ہے۔ اگر دونوں‌ میں سے کسی ایک کے سر میں‌ درد ہے، یا اس کی مرضی شامل نہیں ہے تو دونوں مباشرت سے صحیح طریقے سے لطف اندوز نہیں‌ ہو سکتے۔ بیوی کی مرضی کے بغیر اس سے مباشرت کرنا شوہر کو کبھی حقیقی سکون نہیں دے سکتا۔ علاوہ ازیں جس سوچ اور جن حالات میں میاں بیوی مباشرت کر رہے ہیں اس کا اثر ان کی ہونے والی اولاد پر بھی پڑ سکتا ہے، اس لئے دونوں‌ کا تازہ دم ہونا اور برضا و رغبت جنسی عمل میں شریک ہونا نہایت ضروری ہے۔
مباشرت کے دوران مرد کو جلد بازی سے کام نہیں لینا چاہیئے، کیونکہ وہ مباشرت سے قبل بیوی کے جذبات کو بیدار کرنے پر جتنی محنت کرنے گا، اتنی ہی بہترین مباشرت کے لئے وہ اسے تیار پائے گا۔ اگر بیوی کے جنسی جذبات کو تیز سے تیز تر کرتے ہوئے خوب بھڑکا دیا جائے تو میاں‌ بیوی دونوں‌ کے لئے وہ ایک مثالی مباشرت ہوتی ہے۔ اس لئے مباشرت شروع کرنے سے قبل مرد کو اس بات کا خصوصی خیال رکھنا چاہیئے کہ وہ جہاں تک ممکن ہو خود کو ٹھنڈا رکھے، بوس و کنا ر میں بہت ضبط سے کام لے اور دوسری طرف عورت کے جذبات اور اس کے شوق کو بھڑکاتا چلا جائے۔ یہ ایک فطری حقیقت ہے کہ مرد کی نسبت عورت کے جذبات کو بیدار ہونے میں کافی وقت لگتا ہے۔ اس لئے شروع میں کم از کم 15 منٹ کے لئے شوہر کو چاہیئے کہ وہ بیوی کو جنسی طور پر بیدار کرنے کے لئے اس کے مخصوص اعضاء سے کھیلے۔ بیوی کے پستانوں‌ کو منہ میں ڈال کر ہاتھوں‌ سے خوب اچھی طرح دباتے ہوئے چوسے۔ اس کی فرج کے دھانے پر اوپر کی طرف واقع مٹر کے دانے جتنے گوشت کے چھوٹے ٹکڑے “بظر” (جسے C Spot بھی کہا جاتا ہے) کو مسلنے سے بیوی مباشرت کے لئے بے تاب ہو جاتی ہے۔اگرچہ مثالی مباشرت کے لئے میاں‌ بیوی دونوں کا انزال ایک وقت میں‌ ہونا ضروری نہیں تاہم بہترین لطف اندوزی کے لئے یہ ایک اچھی صورت ہو سکتی ہے۔

دخول کے بعد بھی شوہر کو یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیئے کہ اگر وہ بیوی کی پیاس بجھانے سے پہلے انزال کر دے گا تو بیوی اسے ناپسند کرنے لگے گی۔ جلدی انزال کر کے فارغ‌ ہو جانے والے شوہر کو خودغرض سمجھتے ہوئے اس کی بیوی سوچتی ہے کہ شوہر نے اس کی خواہش کو نظر انداز کرتے ہوئے محض اپنا کام نکالا ہے۔ چنانچہ وہ بعد ازاں خود بھی شوہر کی خواہشوں کو کچلنے میں مزہ لیتی ہے اور صرف اپنا الو سیدھا کرنے کی فکر میں پڑ جاتی ہے۔ نوبت بایں جا رسید کہ بعض عورتیں‌ اپنی جنسی تسکین کے لئے غیر مردوں سے جنسی تعلقات استوار کر لیتی ہیں۔

مزید بہترین مباشرت کے لئے بہتر ہے کہ مباشرت کے دوران میں مناسب دنوں کا وقفہ کیا جائے اور ہر دو مباشرت کے دوران اتنے دن کا وقفہ ہو کہ منی پختہ ہو چکی ہو۔

صحت مندوں کے لیے غذا، بیماروں کے لیے دوا

صحت مندوں کے لیے غذا، بیماروں کے لیے دواقدرت نے اس میں جسمانی قوت کا بیش بہا خزانہ چھپا کر ہمیں بخشا ہےاللہ تعالیٰ کی بے پناہ نعمتوں میں سے اناج ایک بہت اہم نعمت ہے۔ مختلف اناج ہماری روزمرہ غذا کا ایک اہم حصہ ہیں۔ خدا نے اناج میں ایسی قوت اور صحت بخش اجزاءشامل کئے ہیں کہ انسان کوعام اور سستی غذائوں میں طاقت کا خزانہ مل جاتا ہے۔ یہاں ہم چند طاقتور غذائوں کا ذکر کررہے ہیں جو بظاہر معمولی نوعیت کی ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ انتہائی طاقتور غذائیں ہیں۔

باجرہ

باجرہ ایک ایسا اناج ہے جو بدن کو بھرپور غذائیت دینے کے ساتھ ساتھ نزلہ زکام بھی دور کردیتا ہے۔ اطباءکی تحقیق کے مطابق اس میں جسم کی چربی کم کرنے اور اعصاب کو طاقت پہنچانے کی خصوصیت موجود ہے۔ عام طور پر اسے غریبوں کا اناج کہا جاتا ہے۔ راجستھان اور خشک علاقوں کا مزدور طبقہ باجرے کی روٹی کھا کر 15سے 16 گھنٹے تک محنت کرتا ہے اور تھکن محسوس نہیں کرتا۔ عام طور پر لوگ بھوک کی کمی، گیس، ضعفِ معدہ جیسے امراض میں مبتلا ہوتے ہیں۔ انہیں چاہیے کہ وہ کم لیسدار اجزاءوالے اس موٹے اناج کو استعمال کریں تو بدہضمی اور گیس جیسے امراض سے چھٹکارا مل سکتا ہے۔

باجرے کو مستقل استعمال میں رکھنے سے بدن ہلکا پھلکا رہتا ہے۔ برس ہا برس سے حکیم صاحبان یہ مشورہ دیتے رہتے ہیں کہ باجرہ کو گڑ، شکر، گھی یا دیگر کھانے کے تیلوں میں ملا کر کھانے سے کمر مضبوط، خون عمدہ، ہاضمہ درست رہتا ہے اور پیٹ کی چربی میں کمی کے ساتھ گیس بھی نہیں بنتی۔

چنا

اس مشہور غلے میں جسمانی نشوونما کے لیے درکار تمام اجزاءپائے جاتے ہیں۔ اس کا مزاج گرم اور خشک تر ہے۔ چنے کے چھلکوں میں پیشاب لانے کی قدرتی صلاحیت پائی جاتی ہے۔ بھنے ہوئے چنوں کو چھلکوں سمیت کھانا نزلہ، زکام کے مستقل مریضوں کے لیے بہترین ٹانک ہے۔ گرم خشک تاثیر کی وجہ سے بلغم اور سینے و معدہ کی فاضل رطوبت کو خشک کرتا ہے۔ اسی لیے حکیم بقراط نے چنے کو پھیپھڑوں کے لیے نہایت مفید قرار دیا ہے۔ چنے کو 24گھنٹے بھگونے کے بعد نہار منہ اس کا پانی نتھار کر پی لیا جائے تو یہ جلدی امراض کے لیے مفید ہے۔

خارش اور جلد کی رطوبت کی بیماریوں میں یہ نہایت فائدہ مند ہے۔ بھیگے ہوئے چنے خوب اچھی طرح چبا کر استعمال کرنے سے وزن بڑھتا ہے،یہ خون کو صاف کرتا اور سدھوں کا خاتمہ کرتا ہے۔ جن جانوروں کی غذا میں چنا شامل ہوتا ہے وہ اچھا دودھ اور بہتر گوشت فراہم کرتے ہیں۔ اس میں موجود نائٹروجن اور ہائیڈروجن کاربن کی خفیف مقدار جانوروں میں چربی پیدا کرکے جسم کی قوت اور حرارت کو مجتمع رکھتی ہے۔

یورپ اور دیگر مغربی و ایشیائی ممالک میں اسے گوشت کا بہترین نعم البدل سمجھا جاتا ہے۔ کچا چنا ”اولہ“ جسے بچے بڑے سبھی شوق سے کھاتے ہیں، وٹامن ”ای“ کی فراہمی اعضائے رئیسہ کی پروداخت اور نسل انسانی کی زرخیزی و توانائی میں معاون ہے۔ یہ وٹامن تازہ دانہ دار گندم، بادام، پستہ، چنے، مٹر اور دیگر پھلوں کے سبز چھلکوں میں پایا جاتا ہے۔

چنے میں موجود وٹامن ”بی“ دل کی کارکردگی بڑھاتا ہے۔ دماغ، جگر، دانتوں اور ہڈیوں کے لیے مفیدہے اور اعصاب گردہ و ہاضمہ کے عمل میں مددگار ہے۔ وٹامن ”بی“ تمام تازہ اناجوں کے چھلکوں اور بیجوں میں بکثرت پایا جاتا ہے۔ چنے کو چھلکوں سمیت استعمال کرنے سے امراض گردہ اور پتھری بننے کے عمل سے نجات مل سکتی ہے۔

مکئی

مکئی مکو، مکا ایک ہی غذائی جنس کے مختلف نام ہیں جو پاکستان میں سردیوں کے موسم میں عام طور پر پیدا ہوتی ہے۔ نیم پختہ بھٹہ کوئلوں پر بھون کر کھایا جاتا ہے جو نہایت لذیذ اور بھوک کو تسکین دیتا ہے لیکن یہ سیاہ مرچ، نمک، لیموں کے بغیر کھانے سے ذرا دیر میں ہضم ہوتا ہے اور معدہ میں فاسد مادے پیدا کرنے کا باعث بنتا ہے۔

پختہ دانہ کی روٹی مہین اور مقوی دماغ ہے۔ اس کی روٹی اس قدر مصفی خون ہے کہ اگر چھ ماہ مسلسل کھائی جائے تو پرانے جذام کا مریض تندرست ہوجاتا ہے۔ اس کا آٹا پانی میں گھول کر رخساروں پر ملنے سے کیل، مہاسے دور ہوجاتے ہیں۔ ہاتھوں میں لگانے سے ہاتھوں کی خشکی اور ہر قسم کی بدبو زائل ہوجاتی ہے لیکن عام طور پر اس کا آٹا انسانی جسم کے تمام اعضاءکے لیے مفید نہیں ہے۔ یہ معدہ میں دیر تک رہتا ہے، جس کی وجہ سے تبخیر کا باعث بنتا ہے۔ اس کی روٹی دودھ، گھی، شکر اور گندم کے آٹے کو ملا کر پکائی جائے تو انسانی جسم کو بہت فائدہ دیتی ہے۔

مکئی کے دانوں کو گھی یا تیل میں بھون کر پاپ کارن کی شکل میں بڑے شوق سے کھایا جاتا ہے۔ سردیوں میںمکئی کے دانوں یا بھٹے کا استعمال خوب مزہ دیتا ہے۔

جو

قدیم زمانے سے جو کا استعمال بطور علاج اور قوت بخش غذا میں ہوتا چلا آرہا ہے۔ زمانہ قدیم کے یونانی کھیلوں اور زور آوری کے مقابلوں کی تیاری کے سلسلے میں کھلاڑیوں اور پہلوانوں کو زور آور اور قوی تر بنانے کے لیے ان کی خوراک میں جو کو ایک ضروری جز کے طور پر شامل کیا جاتا تھا۔ جو میں جسم کو توانائی بخشنے والے اجزاءکی خاصی مقدار پائی جاتی ہے۔ اس میں 80فیصد نشاستہ، لحمیات اور فاسفورس کی بڑی مقدار موجود ہوتی ہے۔ مغربی ممالک کے اکثر گھرانوں میں بچوں کو دودھ کے ساتھ جو ملا کر دیا جاتا ہے اس طرح بچوں کو اضافی غذائیت کے ساتھ ساتھ توانائی بھی ملتی ہے اور وہ پیٹ کے درد سے محفوظ رہتے ہیں۔ دودھ کو آسانی سے ہضم بھی کرلیتے ہیں۔

جو کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ ایک سو بیماریوں کو دور کرتا ہے۔ خون کے جوش کو کم کرتا ہے۔ بلڈ پریشر کو فائدہ پہنچاتا ہے حدت کوکم کرتا ہے، پیاس بجھاتا ہے، جوڑوں کے درد کو فائدہ پہنچاتا ہے چونکہ زہریلے مادوں کو اخراج کرتا ہے اس لیے مہاسے، چہرے کے دانوں اور اس سلسلے میں دوسری جلدی بیماریوں کو دور کرتا ہے۔ جو گرمی سے نجات دلاتا ہے جسم میں زہریلے مادوں کو خارج کرکے جلد کو نکھارتا ہے۔ لڑکوں اور لڑکیوں کو گرمیوں میں کھانے سے قبل یا کھانے کے بعد جو کا ایک گلاس پینے سے بہت حد تک چہرے کے دانوں اور داغوں سے نجات ملنا ممکن ہوسکتی ہے۔

احادیث نبوی سے ثابت ہوتا ہے کہ نبی کریم کی مرغوب غذائوں میں جو بھی شامل ہے۔ آپ نہ صرف جو کو روٹی، دلیے اور ستو کے طور پر استعمال فرماتے تھے بلکہ بطور علاج بھی جو کے استعمال کا مشورہ دیا کرتے تھے۔ ایک روایت کے مطابق اہل خانہ میں سے جب کوئی بیمار پڑتا تھا۔ آپ اس کو جو کا دلیہ کھلانے کا حکم دیتے تھے اور فرماتے تھے کہ ”جو کا استعمال غم اور کمزوری کو اس طرح نکال پھینکتا ہے جس طرح تم میں سے کوئی اپنے چہرے کو پانی سے دھو کر میل کچیل صاف کردیتا ہے۔“ جدید تجربات سے یہ بات ثابت ہوگئی ہے کہ بیماروں کے لیے سرکار دوعالم کا تجویز کردہ جو کا دلیہ، ستو یا روٹی وغیرہ معدہ،آنتوں اور السر کے مریضوں کے لیے انتہائی مفید ہے۔

یہ تھا چند اناج کا ذکر جو اپنے اندر قوت کے خزانے سمیٹے ہوئے ہیں اور جنہیں ہم معمولی اور سستے جان کر نظر انداز کردیتے ہیں۔ حالانکہ یہ ہماری جسمانی صحت کے لیے ٹانک کا درجہ رکھتے ہیں۔ انہیں اپنی روزمرہ کی غذا میں شامل رکھیں اور صحت مند رہیں۔

کان کے امراض

کان کی تقریباً تمام بیماریوںمیں کیکر بے انتہا مفید پایا گیا ہے۔ (کان سے پیپ بہنا) جب کان کے اندر کوئی پرانی پھنسی پھوٹ جاتی ہے تو پھر اس سے پیپ آنے لگتی ہے اور جب زخم پرانا ہو جائے تو پھر وہ ناسور کی شکل اختیار کر لیتا ہے اگر علاج میں کوتاہی برتی جائے تو اس کا نتیجہ بہت بھیانک نکلتا ہے جس سے انسان ہمیشہ کیلئے سننے سے محروم ہو سکتا ہے
روغن اکسیر:  سرسوں کے تیل کو لوہے کی کڑاہی میں ڈال کر آگ پر رکھیں جب تیل جلنے کے قریب ہو تو اس میں کیکر کے پھول ڈال دیں۔ جب پھول جل کر راکھ بن جائیں تو پھر سرد ہونے پر چھان کر شیشی میں محفوظ رکھیں۔ نیم گرم کان میں دو سے تین قطرے ٹپکائیں۔ چند دن میں افاقہ ہو گا۔ (انشاءاللہ)

دانتوں کے امراض

دانت خداوند کریم کی عطا کردہ بیش بہا نعمت ہیں مگر افسوس کہ ہماری لا پرواہی کے باعث یہ عظیم نعمت وقت سے پہلے چھن جاتی ہے۔ کیکر کے کوئلے کو خوب باریک پیس لیں‘ اس میں تھوڑا سا خوردنی نمک ملا لیں لیجئے، منجن تیار ہے۔ صبح وشام انگلی سے منجن لگائیں۔ دانتوں کوموتیوں کی طرح چمکا دے گا۔نسخہ نمبر2۔کیکر کا کوئلہ ایک تولہ‘ پھٹکڑی خام ایک تولہ‘ گیرو ایک تولہ‘ سنگجراحت ایک تولہ‘ عقر قرحا ایک تولہ‘ گل انار ایک تولہ اور نمک حسب ذائقہ تمام اجزاءکو کوٹ کر پیس لیں بس منجن تیار ہے۔ بوقت ضرورت دانتوں پر ملیں اور کم از کم آدھا گھنٹہ تک کلی نہ کریں۔ دانت کا ہر قسم کا درد‘ دانتوںکا ہلنا‘ خون آنا‘ مسوڑھوں کا پھولنا کیلئے انتہائی اکسیر ہے

چرس کے انسان کی دماغی صحت پر اثرات

Cannabis Sativa اور Cannabis indica چرس کیا ہے؟ نیٹل نامی پودوں کے ایک خاندان سے تعلق رکھتے ہیں جو صدیوں سے دنیا بھر میں جنگلی پودے کے طور پر اگ رہا ہے۔ دونوں پودے کئ مقاصد کےلیے استعمال ہوتے رہے ہیں مثلاً اس کا ریشہ رسی اور کپڑا بنانے، ایک طبی جڑی بوٹی اور ایک مقبول تفریحی نشے کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔اس پودے کا عرق کتھئ یا کالے رنگ کی کشمش کی طرح ہوتا ہے جسے بھنگ، گانجا، حشیش وغیرہ کہتے ہیں۔جبکہ اس کے سوکھے ہوئے پتے گراس، ماری جوانا، ویڈ (weed) وغیرہ کہلاتے ہیں۔
اسکنک (skunk) چرس کی وہ نسبتاً طاقتور قسم ہے جو اس میں ذہن پر اثرات ڈالنے والے طاقتور مادوں کے لیے خاص طور پر اگائی جاتی ہے۔ اس کو یہ نام اس تیز چبھنے والی بو کی وجہ سے دیا گیا ہے جو یہ اگنے کے دوران خارج کرتی ہے۔ چرس کی اور بھی سیکڑوں دیگر اقسام موجود ہیں جن کو مختلف ناموں سے جانا جاتا ہے

عام چرس نشے کی شدت کے حساب سے بہت سی اقسام میں پائی جاتی ہے اس لیے یہ کہنا مشکل ہے کہ کسی خاص موقع پر کون سی قسم استعمال کی جا رہی ہے۔

چرس پینے سےاس کے نصف سے زائد نفسیاتی اثرات پیدا کرنے والے اجزا خون میں جذب ہوجاتے ہیں۔ یہ مرکبات پورے جسم کی چربیلی نسیجوں میں جمع ہوجاتے ہیں اس لیے پیشاب کے ذریعے جسم سے خارج ہونے میں انھیں بہت وقت لگتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ چرس کی شناخت اس کے استعمال کے چھپن دن بعد بھی کی جا سکتی ہے۔

Read More

مصالحہ جات کے طبی فوائد

مصالحوں سے کھانے میں صرف مزہ ہی پیدا نہیں ہوتا بلکہ اکثر مصالحے صحت کے لئے مفید بھی ہیں۔ معدے کی تکالیف، دانت کا درد کے علاوہ مصالحوں سے ذہن پر مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ نیز مصالحوں والے کھانے سے دماغ ایسا کیمیائی مادہ پیدا کرتا ہے جو درد کی دوا بن جاتا ہے۔ آیئے اب کچھ ایسے مصالحوں کا جائزہ لیتے ہیں جو بعض ماہرین کے نزدیک مفید ترین ہیں۔

ہلدی
اس میں مفید جگر اجزاء ہوتے ہیں، ماہرین ہلدی کے ست کو یرقان، ورم جگر اور جگر سکڑنے کی بیماری (تصغر کبد) میں استعمال کراتے ہیں۔ یہ نظام ہضم کیلئے سکون بخش ہے اور اس کے استعمال سے پِتے سے صفرایاپت خارج ہو جاتا ہے جو چکنائی ہضم کرنے میں مدد دیتا ہے۔ اگر دالوں اور لوبئے میں ہلدی شامل کر دی جائے تو یہ ریح اور اپھارے کو کم کرتی ہے۔ یہ بھی پتا چلا ہے کہ ہلدی کا رنگ گلٹی بننے میں مانع ہوتا ہے اور میامی یونیورسٹی کی ایک تحقیق کے مطابق یہ چھاتی کے سرطان کے خلیوں کو ختم کرنے میں مدد دیتی ہے۔

الائچی

ایک ماہر کا کہنا کہ الائچی ہاضمے کیلئے اکسیر ہے اور اس سے سانس کی بعض تکالیف کا بھی علاج ہوتا ہے۔ الائچی چبانے سے بعض ایسے اجزاء جسم کو ملتے ہیں جو سوء ہضم نفح اور قولنج کیلئے مفید ہیں۔

دار چینی
تازہ ترین تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ اگر کھانوں میں دار چینی شامل کی جائے تو ای کولائی جراثیم کی روک تھام ہو سکتی ہے۔ ماہرین عقاقیر کافی عرصے سے دار چینی کے فوائد کے قائل رہے ہیں اور اسے جراثیم کش اور فطر کش مانتے ہیں دار چینی قے اور بدہضمی کا بھی علاج ہے نیز نزلہ زکام کی علامات کو بھی کم کرتی ہے۔ شہد اور لیموں کے شربت میں ذرا سی دار چینی شامل کردیں تو گلے کی خراش کو آرام آتا ہے۔

رائی
رائی اگر روغنی مچھلی یا چکنے گوشت کے ساتھ کھائی جائے تو یہ ہاضمے میں مدد دیتی ہے یہ پیشاب آور بھی ہے ایک پائنٹ پانی میں ایک اونس تازہ ٹہنیاں اور دیڑھ اونس رائی ملا کر دن میں دو تین بار دو تین بڑے چمچے کھا لئے جائیں ‌تو فاضل رطوبت خارج ہو جاتی ہے۔ اس کے جڑ کو کترنے کے بعد لگایا جائے تو انگوٹھوں اور انگلیوں کے ورم کو آرام آتا ہے۔

لونگ

سب جانتے ہیں کہ لونگ دانت کے درد کا بڑا اچھا علاج ہے۔ لونگ کا تیل لگانے یا دانت کے نیچے لونگ رکھنے سے آرام آ جاتا ہے۔ لونگ میں جراثیم کش خاصیت بھی ہوتی ہے اور ایک لونگ کا تیل کیڑوں کو بھگاتا ہے۔

 

Read More

آم کھائیں بے شمار فائدے

 آم کھائیں بے شمار فائدے

آم کا شمار برصغیر کے بہترین پھلوں میں ہوتا ہے، اس لیے یہ پھلوں کا بادشاہ کہلاتا ہے۔ اسے برصغیر کا بچہ بچہ جانتا ہے۔ آم اپنے ذائقے، تاثیر، رنگ اور صحت بخشی کے لحاظ سے تمام پھلوں سے منفرد ہے اور چوں کہ خوب کاشت ہوتا ہے، اس لیے یہ سستا اور سہل الحصول بھی ہے۔ اس کی سینکڑوں اقسام ہیں۔ برصغیر کو آم کا گھر بھی کہتے ہیں۔ فرانسیسی مورخ ڈی کنڈوے کے مطابق برصغیر میں آم چار ہزار سال قبل بھی کاشت کیا جاتا تھا۔ آج کل جنوبی ایشیاءکے کئی ممالک میں بھی بڑے پیمانے پر اسے کاشت کیا جاتا ہے۔
ویسے تو آم کی متعدد اقسام ہیں جن کا ذکر آگے چل کر آئے گا تاہم دو قسمیں عام ہیں۔ تخمی اور قلمی، کچا آم جس میں گٹھلی نہیں ہوتی، کیری کہلاتا ہے اور اس کا ذائقہ ترش ہوتا ہے۔ البتہ پکا ہواآم شیریں اور کبھی کھٹ میٹھا ہوتا ہے۔ پکے ہوئے تخمی آم کا رس چوسا جاتا ہے اور قلمی کو تراش کر کھایا جاتا ہے۔ آم قلمی ہو یا تخمی بہر صورت پکا ہوا لینا چاہیے۔ یہ رسیلا ہونے کی وجہ سے پیٹ میں گرانی پیدا نہیں کرتا اور جلد جزو بدن ہوتا ہے۔ پکا ہوا رسیلا میٹھا آم اپنی تاثیر کے لحاظ سے گرم خشک ہوتا
ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آم کے استعمال کے بعد کچی لسی پینے کا مشورہ دیا جاتا ہے۔ اس طرح آم کی گرمی اور خشکی جاتی رہتی ہے۔ جو لوگ کچی لسی (دودھ میں پانی ملا ہوا) استعمال نہیں کرتے ان کے منہ میں عام طور پر چھالے ہو جانے یا جسم پر پھوڑے پھنسیاں نکل آنے کی شکایت ہو جاتی ہے۔ آم کے بعد کچی لسی استعمال کرنے سے وزن بھی بڑھتا ہے اور تازگی آتی ہے۔ معدے، مثانے اور گردوں کو طاقت پہنچتی ہے۔ آم کا استعمال اعضائے رئیسہ دل، دماغ اور جگر کیلئے مفید ہے۔ آم میں نشاستے دار اجزا ہوتے ہیں جن سے جسم موٹا ہوتا ہے۔ اپنے قبض کشا اثرات کے باعث اجابت بافراغت ہوتی ہے۔اپنی مصفی خون تاثیر کے سبب چہرے کی رنگت کو نکھارتا ہے۔ ماہرین طب کی تحقیقات سے ثابت ہوتا ہے کہ آم تمام پھلوں میں سے زیادہ خصوصیات کا حامل ہے اور اس میں حیاتین ”الف “اور حیاتین ”ج “ تمام پھلوں سے زیادہ ہوتی ہے۔کچا آم بھی اپنے اندر بے شمار غذائی و دوائی اثرات رکھتا ہے۔ اس کے استعمال سے بھوک لگتی ہے اور صفرا کم ہوتا ہے۔ موسمی تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے لو کے اثرات سے بچاتا ہے البتہ ایسے لوگ جن کو نزلہ، زکام اور کھانسی ہو ان کو یہ ہرگز استعمال نہیں کرنا چاہیے۔آم تمام عمر کے لوگوں کیلئے یکساں مفید ہے۔ جو بچے لاغر اور کمزور ہوں ان کیلئے تو عمدہ قدرتی ٹانک ہے۔ اسے حاملہ عورتوں کو استعمال کرنا چاہیے، یوں بچے خوب صورت ہوں گے۔ جو مائیں اپنے بچوں کو دودھ پلاتی ہیں، اگر آم استعمال کریں تو دودھ بڑھ جاتا ہے۔ یہ خوش ذائقہ پھل نہ صرف خون پیدا کرنے والا قدرتی ٹانک ہے بلکہ گوشت بھی بناتا ہے اور نشاستائی اجزا کے علاوہ فاسفورس، کیلشیم، فولاد، پوٹاشیم اور گلوکوز بھی رکھتا ہے۔ اسی لیے دل، دماغ اور جگر کیساتھ ساتھ سینے اورپھیپھڑوں کیلئے بھی مفید ہے البتہ آم کا استعمال خالی پیٹ نہیں کرنا چاہیے۔ بعض لوگ آم کھانے کے بعد گرانی محسوس کرتے ہیں اور طبیعت بوجھل ہو جاتی ہے۔ انہیں آم کے بعد جامن کے چند دانے استعمال کرنے چاہئیں، جامن آم کا مصلح ہے۔

آم کی مختلف اقسام
یوں تو آم کی بے شمار اقسام سامنے آچکی ہیں مگر پاکستان میں بکثرت پیدا ہونے والی اقسام درج ذیل ہیں:
دسہری
اس کی شکل لمبوتری، چھلکا خوبانی کی رنگت جیسا باریک اور گودے کے ساتھ چمٹا ہوتا ہے۔ گودا گہرا زرد، نرم، ذائقے دار اور شیریں ہوتا ہے۔

چونسا
یہ آم قدرے لمبا، چھلکا درمیانی موٹائی والا ملائم اور رنگت پیلی ہوتی ہے۔ اس کا گودا گہرا زرد، نہایت خوشبودار اور شیریں ہوتا ہے۔ اس کی گٹھلی پتلی لمبوتری، سائز بڑا اور ریشہ کم ہوتا ہے۔ اس کی ابتدا ملیح آباد (بھارت) کے قریبی قصبہ ”چونسا“ سے ہوئی۔

انور رٹول
اس کی شکل بیضہ نما ہوتی ہے اور سائز درمیانہ ہوتا ہے۔ چھلکا درمیانہ، چکنا اور سبزی مائل زرد ہوتا ہے۔ گودا بے ریشہ، ٹھوس، سرخی مائل زرد، نہایت شیریں، خوشبودار اور رس درمیانہ ہوتا ہے۔ اس کی گٹھلی درمیانی، بیضوی اور نرم، ریشے سے ڈھکی ہوتی ہے۔ اس قسم کی ابتدا میرٹھ (بھارت) کے قریب قصبہ ”رٹول“ سے ہوئی۔

لنگڑا
یہ آم بیضوی لمبوترا ہوتا ہے۔ اس کا چھلکا چکنا، بے حد پتلا اور نفیس گودے کے ساتھ چمٹا ہوتا ہے۔ گودا سرخی مائل زرد، ملائم، شیریں، رس دار ہوتا ہے۔ الماس: اس کی شکل گول بیضوی ہوتی ہے اور سائز درمیانہ، چھلکا زردی مائل سرخ، گودا خوبانی کے رنگ جیسا ملائم، شیریں اور ریشہ برائے نام ہوتا ہے۔

فجری
یہ آم بیضوی لمبوترا ہوتا ہے۔ فجری کا چھلکا زردی مائل، سطح برائے نام کھردری ، چھلکا موٹا او نفیس گودے کے ساتھ لگا ہوتا ہے۔ گودا زردی مائل، سرخ، خوش ذائقہ، رس دار اور ریشہ برائے نام ہوتا ہے۔ اس کی گٹھلی لمبوتری موٹی اور ریشے دار ہوتی ہے۔

سندھڑی
آم بیضوی اور لمبوترا ہوتا ہے۔ اس کا سائز بڑا، چھلکا زرد، چکنا باریک گودے کیساتھ چمٹا ہوتا ہے۔ گودا شریں، رس دار اور گٹھلی لمبی اور موٹی ہوتی ہے۔ اصلاًمدراس کا آم ہے۔

گولا
یہ شکل میں گول ہوتا ہے۔ سائز درمیانہ، چھلکا گہرا نارنجی اور پتلا ہوتا ہے۔ گودا پیلا ہلکا ریشے دار اور رسیلا ہوتا ہے۔ گٹھلی بڑی ہوتی ہے۔

مالدا
یہ آم سائز میں بہت بڑا ہوتا ہے، مگر گٹھلی انتہائی چھوٹی ہوتی ہے۔ چھلکا پیلا اور پتلا ہوتا ہے۔
نیلم
اس آم کا سائز درمیانہ اور چھلکا درمیانہ، موٹا اور پیلے رنگ کا چمکتا ہوا ہوتا ہے۔ سہارنی: سائز درمیانہ اور ذائقہ قدرے میٹھا ہوتا ہے۔

دوائی استعمالات
تمام پھل موسمی تقاضے پورا کرنے کی صلاحیتوں سے مالامال ہیں۔ چونکہ آم موسم گرما کا پھل ہے اور موسم گرما میں دھوپ میں باہر نکلنے سے لو لگ جاتی ہے، لو لگنے کی صورت میں شدید بخار ہو جاتا ہے۔ اس لیے لو کے اثر کو ختم کرنے کیلئے کچا آم گرم راکھ میں دبا دیں۔ نرم ہونے پر نکال لیں۔ اس کا رس لے کر ٹھنڈے پانی میں چینی کے ساتھ ملا کر استعمال کرائیں۔ لو لگنے کی صورت میں تریاق کا کام دے گا۔ آم کے پتے، چھال، گوند، پھل اور تخم سب دوا کے طور پر استعمال ہوتے ہیں۔ آم کے پرانے اچار کا تیل گنج کے مقام پر لگانے سے بالچر کو فائدہ ہوگا۔ آم کے درخت کی پتلی ڈالی کی لکڑی سے روزانہ مسواک کرنے سے منہ کی بدبو جاتی رہے گی۔ خشک آم کے بور کا سفوف روزانہ نہار منہ چینی کے ساتھ استعمال کرنا مرض جریان میں مفید ہے۔جن لوگوں کو پیشاب رکنے کی شکایت ہو، آم کی جڑ کا چھلکا برگ شیشم دس دس گرام ایک کلو پانی میں جوش دیں۔ جب پانی تیسرا حصہ رہ جائے تو ٹھنڈا کرکے چینی ملا کر پی لیں۔ پیشاب کھل کر آئے گا۔ ذیابیطس کے مرض میں آم کے پتے جو خود بخود جھڑ کرگر جائیں، سائے میں خشک کرکے سفوف بنا لیں۔ صبح و شام دو دو گرام پانی سے استعمال کرنے سے چند دنوں میں فائدہ ہوتا ہے۔ نکسیر کی صورت میں آم کے پھولوں کو سائے میں خشک کرکے سفوف بنا لیں اور بطور نسوار ناک میں لینے سے خون بند ہو جاتا ہے۔ جن لوگوں کے بال سفید ہوں، آم کے پتے اور شاخیں خشک کرکے سفوف بنا لیں۔ روزانہ تین گرام یہ سفوف استعمال کیا کریں۔ کھانسی، دمہ اور سینے کے امراض میں مبتلا لوگ آم کے نرم تازہ پتوں کا جوشاندہ، ارنڈی کے درخت کی چھال ‘سیاہ زیرے کے سفوف کے ساتھ استعمال کریں۔ آم کی چھال قابض ہوتی ہے اور اندرونی جھلیوں پر نمایاں اثر کرتی ہے، اس لیے سیلان الرحم (لیکوریا)، آنتوں اور رحم کی ریزش، پیچش، خونی بواسیر کیلئے بہترین دوا خیال کی جاتی ہے۔ ان امراض میں آم کے درخت کی چھال کا سفوف یا تازہ چھال کا رس نکال کر اسے انڈے کی سفید ی یا گوند کے ساتھ دیا جاتا ہے۔ کیری کے چھلکے کو گھی میں تل کر شکر ملا کر کھانے سے کثرت حیض میں فائدہ ہوتا ہے۔ یہ چھلکا مقوی اور قابض ہوتا ہے۔آم کی گٹھلی کی گری قابض ہوتی ہے۔ چونکہ اس میں بکثرت گیلک ایسڈ ہوتا ہے‘ اس لئے پرانی پیچش‘ اسہال‘ بوا سیر اور لیکوریا میں مفید ہے۔ پیچش میں آنوﺅں کو روکنے کیلئے گری کا سفوف دہی کے ساتھ دیا جاتا ہے۔ نکسیر بند کرنے کیلئے گری کا رس ناک میں ٹپکایا جاتا ہے۔آم برصغیر پاکستان وہندوستان کا مشہور و معروف ہردلعزیز اور مقبول ترین پھل ہے۔ نہایت خوش رنگ ، خوش ذائقہ ، لذیذ اور خوشبودار۔ اپنی شیریں اور حلاوت کی وجہ سے پوری دُنیا میں سب سے زیادہ پسند کیا جانے والا یہی پھل ہے۔ دور حاضر میں مصر ، سوڈان ، برازیل ، برما ، فلپائن ، انڈونیشیا ، سری لنکا ، تھائی لینڈ ، فلوریڈا ، آسٹریلیا ، میکسیکو ، یمن ، اور عمّان وغیرہ میں آم کی کاشت ہورہی ہے۔ لیکن اب بھی دنیا کا 75 فیصد آم برِصغیر پاکستان و ہندوستان میں ہوتا ہے۔
مختلف نام
اردو ۔۔۔ آم
پیجابی ۔۔۔ انب
سندھی ۔۔۔ آمو
فارسی ۔۔۔ انبہ
عربی ۔۔۔ انبج
ترکی ۔۔۔ منگواغ
فرانسیسی ۔۔۔ انبو
جرمنی ۔۔۔ مینگو بام

آم کا درخت
درخت کی اونچائی تقریباً ساٹھ ستر فٹ ہوتی ہے ۔ دس بارہ سال کے بعد پھلنا پھولنا شروع ہوتا ہے ۔ پتے چھ انچ سے 9 انچ تک لمبے اور نوکیلے ہوتے ہیں ۔ اپنی ابتدائی بہار میں‌بہت اچھے اور زیادہ پھل دیتا ہے مگر جوں‌جوں عمر زیادہ ہوتی جاتی ہے، پھلوں میں‌بھی کمی واقع ہوتی جاتی ہے۔ نیز اوّل سال اچھے اور بکثرت پھل لگتے ہیں ۔ دوسرے سال کم بعض اوقات پھلتے ہی نہیں۔

ذائقہ
بہت خام آم کا ذائقہ کسیلا ۔ اوسط درجے میں‌بہت زیادہ ترش اور پختہ حالت میں‌بدرجہ غایت شیریں‌ہوتا ہے۔

آم کی قِسمیں
قلمی اور تخمی یہ دو بڑی آم کی قسمیں ہیں ۔ پھر ان میں‌سے ہرایک مزے ، شکل وصورت اور مقامِ پیدائش کے اعتبار سے بیسیوں‌قسم کا ہوتا ہے۔
بعض مشہور آموں کے نام درج ذیل ہیں
مالدہ ۔ انور رٹول ۔ چونسہ ۔ لنگڑا ۔ پرنس ۔ سفیدہ ۔ دسہری ۔

آم کے غذائی اجزاء : فی صد
وٹامن اے 48ء
وٹامن سی ۔ 13ء0
آبی اجزاء ۔ 1ء86
پروٹین (لحمی اجزاء) ۔ 6ء5
چکنائی ۔ 61ء0
فولاد ۔ 63ء0
معدنی نمکیات ۔ 93ء0
چونا ۔ 1 ء4

Read More