Al-Shifa Naturla Herbal Laboratories (Pvt), Ltd.    HelpLine: +92-30-40-50-60-70

خنزیر کا گوشت حرام کیوں ہے؟

خنزیر کا گوشت حرام کیوں ہے؟

السلام علیکم۔
اس میں رتی برابر بھی شک و شبہ نہیں کہ اللہ تعالی اور اسکے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی احکامات کے تحت حرام کردہ فہرست میں*ہر چیز انسان کے لیے مضر ہے جبھی اسے حرام قرار دیا گیا اور حلال کردہ فہرست میں کسی نہ کسی حوالے سے یقینا خیر اور بھلائی ہے جبھی اسے حلال کیا گیا۔ کیونکہ اللہ تعالی اپنے بندوں پر سب سے بڑھ کر رحم فرمانے والا اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مبارک رحمۃ اللعالمین اور مومنین کے لیےہر طرح سے بہتری کے لیے حریص ہیں۔
یہ ایک مسلّمہ حقیقت ہے کہ اِسلام اپنے ماننے والوں کو مذہب اور سائنس دونوں کا نور عطا کرتا ہے۔ اِس لئے یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اِسلام دُنیا کا سب سے زیادہ ترقی یافتہ دِین ہے، جو نہ صرف قدم قدم سائنسی علوم کے ساتھ چلتا نظر آتا ہے بلکہ تحقیق و جستجو کی راہوں میں سائنسی ذِہن کی ہر مشکل میں رہنمائی بھی کرتا ہے۔ اسلامی احکامات کی سائنسی توجیہہ تلاش کرنا اور بیان کرنا کہیں بھی خلاف از اسلام نہیں بلکہ عین منشائے اسلام ہے۔ جدید دور میں اہم ضرورت ہے کہ نسل نو کو بالخصوص اور جدید ذہین کو بالعموم اسلامی احکامات میں موجود حکیمانہ معارف و رموز سے آگاہ کرکے انہیں اسلام کی

Practical & Scientifical Approach

اور قابل عمل ثابت کرکے انہیں اسلام کی عظمت و وسعت سے آگہی دی جائے۔ اور پھر مغربی معاشروں میں پیداشدہ مسلمان بچوں کی تعلیم و تربیت میں لاجک و ریزننگ ۔

Logic & Reasoning

کا عنصر نمایاں ہوتا ہے وہہر بات کو عقل و دانش کی کسوٹی پر پرکھ کر قبول کرنا چاہتے ہیں۔
اللہ تعالی نے بھی قرآن حکیم میں انسانی نفسیات کے اس تقاضے کو مدنظر رکھتے ہوئے احکم الحاکمین ہونے کے باوجود اپنے احکامات کی عقلی توجیہہ بیان کرکے اپنے بندوں* یا ملائکہ کو مطمئن فرمایا ہے۔ قرآن حکیم میں سورہ البقرہ آیت 30-35 میں تخلیق آدم کے وقت ملائکہ کا اپنا تسبیح و تقدیس الہی کا بیان کرکے حضرت آدم کی خلافت پر فساد انگیزی وخونریزی کے مسئلے کا اٹھانا اور اسکے جواب میں اللہ تعالی کا حضرت آدم علیہ السلام (اور انسان) کی علمی برتری ثابت کرنا
وَعَلَّمَ آدَمَ الأَسْمَاءَ كُلَّهَا ثُمَّ عَرَضَهُمْ عَلَى الْمَلاَئِكَةِ فَقَالَ أَنْبِئُونِي بِأَسْمَاءِ هَـؤُلَاءِ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ
اس بات کا مظہر ہے کہ اللہ کریم نے فرشتوں پر حضرت آدم علیہ السلام کی علمی فضیلت کا اجاگر کرکے انہیں مطمئن کیا۔
اسی طرح حضرت ابراھیم علیہ السلام کا اپنے اطمینان قلب کے لیے اللہ تعالی سے سوال کرنا کہ میرے رب مجھے دکھا تو موت کے بعد کیسے زندہ کرتا ہے۔ اللہ تعالی نے پوچھا۔ کیا تم ایمان نہیں رکھتے۔ ابراھیم علیہ السلام نے عرض کیا۔ بےشک ایمان رکھتا ہوں۔ مگر اطمینان قلب چاہتا ہوں۔
وَإِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ رَبِّ أَرِنِي كَيْفَ تُحْيِـي الْمَوْتَى قَالَ أَوَلَمْ تُؤْمِن قَالَ بَلَى وَلَـكِن لِّيَطْمَئِنَّ قَلْبِي (القرآن ۔ 2:260)
اسی طرح کئی اور مثالیں ہیں جن میں اسلام کو بالجبر نافذ کرنے کی بجائے اسکے احکامات کی حکمتیں بیان کرکے عقلی و قلبی تسکین کے ذریعے نفاذ احکام کی ترغیب ملتی ہے۔

قرآن حکیم میں خنزیر کا حرام ہونا ۔
قرآن حکیم میں اللہ رب العزت نے متعدد مواقع پر خنزیر کو حرام قرار دیا ہے۔

إنما حرم عليكم الميتة والدم ولحم الخنزير وما أهل به لغير الله فمن اضطر غير باغ ولا عاد فلا إثم عليه إن الله غفور رحيم” (سورة البقرة الآية 173)

ترجمہ: اس نے تم پر صرف مُردار اور خون اور سؤر کا گوشت اور وہ جانور جس پر ذبح کے وقت غیر اﷲ کا نام پکارا گیا ہو حرام کیا ہے، پھر جو شخص سخت مجبور ہو جائے نہ تو نافرمانی کرنے والا ہو اور نہ حد سے بڑھنے والا تو اس پر (زندگی بچانے کی حد تک کھا لینے میں) کوئی گناہ نہیں، بیشک اﷲ نہایت بخشنے والا مہربان ہے۔

ایک اور مقام پر فرمایا ۔

قُل لاَّ أَجِدُ فِي مَا أُوْحِيَ إِلَيَّ مُحَرَّمًا عَلَى طَاعِمٍ يَطْعَمُهُ إِلاَّ أَن يَكُونَ مَيْتَةً أَوْ دَمًا مَّسْفُوحًا أَوْ لَحْمَ خِنْـزِيرٍ فَإِنَّهُ رِجْسٌ أَوْ فِسْقًا أُهِلَّ لِغَيْرِ اللّهِ بِهِ ۔۔۔۔ (سورہ الانعام ۔ 145)
ترجمہ : آپ فرما دیں کہ میری طرف جو وحی بھیجی گئی ہے اس میں تو میں کسی (بھی) کھانے والے پر (ایسی چیز کو) جسے وہ کھاتا ہو حرام نہیں پاتا سوائے اس کے کہ وہ مُردار ہو یا بہتا ہوا خون ہو یا سؤر کا گوشت ہو کیو نکہ یہ ناپاک ہے یا نافرمانی کا جانور جس پر ذبح کے وقت غیر اﷲ کا نام بلند کیا گیا ہو

اسی طرح ۔ سورہ النمل ۔ آیت 115، سورہ المائدہ ۔ آیت 3، میں بھی خنزیر کی حرمت کے واضح احکامات آئے ہیں۔

بائبل میں سؤر و خنزیر کی ممانعت ۔

مزے کی بات ہے کہ بائبل میں بھی خنزیر کے گوشت کی ممانعت موجود ہے ۔
You may not eat the meat of these animals (pig) or even touch their carcasses. They are ceremonially unclean for you.
Leviticus 11:8)؃)
اور تم سؤر اور اس طرح کے جانور کا گوشت نہ کھاؤ ۔ حتی کہ انکی مردہ لاش یا پنجر کو بھی مت چھوؤ۔ کیونکہ وہ غلیظ ہیں۔ Leviticus 11:8)؃)

لیکن چونکہ یورپی و مغربی معاشرہ مذہب سے انتہائی دور چلا گیا ہے اس لیے وہ اپنے الہامی کتاب کے احکامات کی پرواہ بھی نہیں کرتے۔البتہ ایونجالسٹ عیسائی جو نسبتا اپنے مذہب سے قریب ہیں وہ آج بھی خنزیر کا گوشت نہیں کھاتے۔

طبی طور پر مضر صحت گوشت ۔
سؤر یا خنزیر کے گوشت میں سائنسی و طبی اعتبار سے بےشمار خرابیاں ہیں ۔ جن میں سے چند ایک درج ذیل ہیں۔

1۔سؤر دنیا کے چند غلیظ ترین جانوروں میں سے ایک جانور ہے جو کہ پیشاب و پاخانہ سمیت ہر گندی چیز کھاتا ہے۔ سائنسی تحقیق ثابت کرتی ہے کہ خوراک کا براہ راست اثر جسم پر ہوتا ہے ۔
2۔ خنزیر کے گوشت اور چکنائی میں زہریلے مادے جذب کرنے کی صلاحیت کی وجہ سے اسکے گوشت و چکنائی میں زہریلے مادے عام جانوروں کے گوشت کے مقابلے میں 30 گنا زیادہ ہوتے ہیں۔ گویا یہ گوشت بقیہ عام گوشت سے 30 گنا زیادہ زہریلا Toxinہوتا ہے۔
3۔ عام گوشت انسانی نظام ہضم میں 8سے 9 گھنٹے میں ہضم ہوتا ہےاور اسکے زہریلے مادے Toxinsانسانی جسم میں آہستہ آہستہ منتقل ہوتے ہیں جو کہ آسانی سے لیور کے ذریعہ فلٹر ہوجاتے ہیں۔ جبکہ خنزیر کا گوشت محض 4 گھنٹے میں ہضم ہونے سےاپنے 30 گنا زیادہ زہریلے مادے Toxins انسانی جسم میں عام گوشت کی نسبت آدھے وقت یعنی 4 گھنٹوں میں انسان کے جسمانی نظام کو منتقل کردیتا ہے۔ جسے مکمل طور پر فلٹر کرنا انسانی جگر Leverکے لیے مشکل ہوتاہے۔
4۔ عام جانوروں کے برعکس خنزیر یا سؤر میں پسینہ کا اخراج نہیں ہوتا۔ جس کی وجہ سے اسکے جسم کی نمکیات و زہریلے مادہ جات جسم سے خارج ہونے کی بجائے گوشت میں ہی موجود رہتے ہیں۔جو کھانے سے انسانی جسم میں*باآسانی منتقل ہوکر بیماریوں کا باعث بنتے ہیں۔
5۔ سور اس قدر زہریلا ہوتا ہے کہ اژ دہے کے ڈسنے سے بھی نہیں مرتا۔ چنانچہ بعض اوقات سؤر فارم کے رکھوالے سؤروں کو اژدھوں کے بلوں کے پاس بھی چھوڑدیتے ہیں تاکہ اژدھے اس علاقے سے نکل جائیں۔
6۔ عام گوشت کے مقابلے میں خنزیر کے گوشت کے گلنے سڑنے کی رفتار 30 گنا زیادہ ہوتی ہے ۔ یعنی عام گوشت سے بہت جلدی خنزیر سے گوشت میں کیڑے پڑتے ہیں۔ تجربہ کے طور پرچکن یا گائے کے گوشت کا ٹکڑا اور خنزیر کا ٹکڑا کھلی جگہ پر رکھ کر دیکھ لیں کونسے گوشت میں جلد بدبواور کیڑے پڑتے ہیں۔ یہ لنک مشاہدہ کریں۔
7۔ عام گائے کے گوشت کے مقابلے میں سؤر کے گوشت میں چکنائی Fat پائی جاتی ہے
3 اونس بیف سٹیک ۔۔ 8،5گرام چکنائی
3 اونس خنزیر سٹیک ۔۔ 18 گرام چکنائی
اسی طرح ۔
3 اونس بیف rib ۔۔ 11،1 گرام چکنائی
3 اونس خنزیر rib ۔۔ 23،2 گرام چکنائی
میڈیکل سائنس ثابت کرچکی ہے کہ زیادہ چکنائی ، براہ راست دل اور خون کی بیماریوں کی بنیادی وجہ ہے۔

8عام جانوروں اور بالخصوص گائے کے نظام انہضام میں 4 مراحل ہونے کی وجہ سے کھائی گئی خوراک کم و بیش 24 گھنٹوں میں ہضم ہوتی ہے جس وجہ سے زہریلے مادے باآسانی فلٹر ہوکر گوشت یا خون میں شامل ہونے کی بجائے اسکے فضلات میں چلے جاتے ہیں*جبکہ سؤر کا نظام انہضام انتہائی مختصر اور ڈائریکٹ ہونے کی وجہ سے 3۔4 گھنٹوں میں ہرطرح کی غلیظ خوارک ہضم ہوجاتی ہے۔ دورانیہ مختصر ہونے کی وجہ سے خوارک کے زہریلے مادے فلٹر ہونے کی بجائے خون و گوشت میں منتقل ہوجاتے ہیں۔
9۔ خنزیر کے گوشت میں ایک کیڑا

trichinae worm

ہوتا ہے جو انتڑیوں ، مسلز، ریڑھ کی ہڈی یا دماغ تک پہنچ جائے تو دماغی بخار، گنٹھیا (جوڑوں کا درد)، وجع المفاصل (ہڈیوں کا درد)، تیزابیت معدہ، گردن توڑ بخار، مثانہ کی سوزش، بلڈ پریشر یا دل کے دورے کی بیماریوں کا باعث بنتا ہے۔
اخلاقی خرابیاں ۔
طبی ضرب المثل ہے کہ ’’انسان وہی کچھ ہوتا ہے جو وہ کھاتا ہے

You are what you eat.
سؤر گندگی و غلاظت میں ساری زندگی گذارتا ہے یعنی اسے غلاظت سے کراہت نہیں ہوتی اسکا گوشت کھانے والے کے اندر بھی یہی خرابی پیدا ہوجاتی ہے
سؤر جنسی شہوت کا رسیا ہوتا ہے ۔ اسکا گوشت کھانے سے جنسی اشتہا تیزی سے بڑھتی ہے۔ انسان حرام حلال کی تمیز کیے بغیر اس جذبے کی تسکین چاہتا ہے
سؤر انتہا درجے کا بے غیرت جانور ہے۔ جنسی تسکین کے لیے نر و مادہ کوئی تمیز نہیں رکھتے۔ اسے کھانے والے معاشرے میں یہ خصوصیت باآسانی دیکھی جاسکتی ہے۔

امید ہے اگر ہم جدید سائنسی سوچ و فکر کے حامل ذہنوں کو مندرجہ بالا حقائق بتا کر پھر قرآن مجید میں خنزیر کی حرمت کے احکامات بتائیں گے تو یقینا اطمینان قلب و ذہن اور شرح صدر سے ان احکامات کی تعمیل پر آمادگی ہوجائے گی۔ان شاء اللہ العزیز۔

نوجوانوں کے جنسی روگ کیوں بڑھے

نوجوانوں کے جنسی روگ کیوں بڑھے

لڑکے لڑکیوں اور والدین کیلئے

نوجوانوں کے جنسی مسائل روز افزوں ہیں، بات در اصل یہ ہے کہ آج کل کے نوجوان جس مسئلے سے دو چار ہیں وہ یہ ہے کہ ہمارے نوجوان نفسیاتی اعتبار سے جس عمر میں جنسی صلاحیتوں کو روبہ کار لانے کے اہل ہو جاتے ہیں وہ صلاحیتیں اس عمر سے خاصی مختلف ہوتی ہیں جو ثقافتی اعتبار سے انہیں اس کی اجازت دیتی ہیں، جس عمر میں ان سے ان افعال کی توقع کی جاتی ہے، دوسری جانب یہ بھی امر واقعہ ہے کہ جسمانی اعتبار سے آج کل نوجوان سنِ بلوغ کو جلد پہنچ رہے ہیں، مثلاً صنعتی ملکوں کی لڑکیاں عموماً تیرھویں سال میں بالغ ہو جاتی ہیں‘ جبکہ ان کی مائیں 14 سال میں اور نانیاں اور دادیاں 15 سال میں بالغ ہوتی تھیں، یہی کچھ حال ترقی پذیر ملکوں کا ہے کیونکہ یہاں بھی بہتر اقتصادی حالات انہیں جلد بالغ کر دیتے ہیں اسی کے ساتھ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ دنیا کے اکثر حصوں میں عورتیں زیادہ عرصہ تعلیم پر صرف کرنے کے بعد بڑی عمر میں رشتہ ازدواج میں بندھتی ہیں، اس سے انکار نہیں کہ آج بھی بعض ترقی پذیرملکوں میں 14 اور 15 سالہ دلہنیں بہت عام ہیں، نیپال کی دو تہائی لڑکیاں اسی عمر میں بیاہی جاتی ہیں، تاہم عام طور پر تعلیم اور ملازمت کی وجہ سے عورتوں کی شادی دیر سے ہونے لگی ہے، بہ الفاظ دیگر ان مجبوریوں کی وجہ سے لوگوں کو اپنی شادیاں کم از کم تین سال تک برف خانے میں رکھنی پڑتی ہیں، یہ صورتحال خاص طور پر ان معاشروں میں زیادہ عام ہے، جہاں تعلیم کو بہت زیادہ اہمیت دی جاتی ہے، ان تمام اسباب اور وجوہ کے باوجود نوجوانی کے جنسی تقاضے آسانی سے قابو میں نہیں آتے، صنعتی اور ترقی پذیر ملکوں میں جنسی اختلاط کی عمر تیزی سے کم ہو رہی ہے، اس سلسلے میں بالکل ٹھیک اور قطعی معلومات کا حصول مشکل ہے کیونکہ لوگ بالعموم اپنے اصل کردار کی پردہ پوشی کرتے ہیں لیکن اس کے باوجود یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ دنیا بھر میں جنسی سرگرمیاں بڑی کم عمری میں شروع ہو جاتی ہیں، مثلاً امریکہ میں 1971ءمیں پندرہ سال کی عمر میں جنسی اختلاط کا اعتراف کرنے والوں کی تعداد 27 فیصد تھی 1976 تک یہ تعداد بڑھ کر 35 فیصد ہو گئی، یہی کچھ حال یورپی ممالک کا ہے، یورپ کے 9 ملکوں نے عالمی ادارہ صحت کو بتایا ہے کہ وہاں اولین جنسی ملاپ کی عمر سال بہ سال گھٹتی جا رہی ہے۔ دنیا کے دیگر حصوں سے جومعلومات مل رہی ہیں وہ اگرچہ زیادہ جامع قسم کی نہیں، لیکن ان سے بھی اسی بات کی توثیق ہوتی ہے، ایک دوسرے سے انتہائی دور واقع ملکوں روس‘ چلی فلپائن میں بھی جنسی سرگرمیاں ابتدائی عمر ہی میں شروع ہو رہی ہیں، صرف بعض معاشروں میں والدین اپنے بچوں کو جنسی معلومات فراہم کرتے ہیں لیکن بیشتر معاشروں میں اس موضوع کی حیثیت شجرِ ممنوعہ کی ہوتی ہے۔ والدین کو اس سلسلے میں اپنے بچوں کو معلومات فراہم کرنے میں بڑی دقت ہوتی ہے،بقول عالمی ادارہ صحت کے نوجوانوں میں جنسیات کے بارے میں لا علمی عام ہے۔
مثلاً کئی روایات پرست ملکوں میں جنسی تعلیم ممنوع ہے ۔جن ملکوںمیں اس کی اجازت ہے وہاں اس کی نوعیت ” سوئی میں دھاگا“ پرونے کی ترکیب بتانے کی سی ہوتی ہے، یعنی انہیں جنسی افعال اور تولیدی طریقوں کے بارے میں بتایا جاتا ہے۔ اس قسم کی تعلیم علم حیاتیان سے تعلق رکھتی ہے، اس سے ذاتی یا شخصی تعلق کے سلسلے میں مدد نہیں ملتی۔اس پر مزید ستم یہ ہوتا ہے کہ مختلف ذرائع ابلاغ بچوں کو جنسی بھول بھلیوں میں کھو جانے کی ترغیب دیتے رہتے ہیں، اگر جنس کے بارے میں اسلام کا نظریہ اور مخصوص معلومات فراہم کی جائیں تو اس سے نوجوانوں میں جنسی وظائف کے بارے میں حقیقی شعور بیدار ہوتا ہے،سچ تو یہ ہے کہ اوائل شب میں جنسی سرگرمیوں کے بڑے خراب نتائج برآمد ہوتے ہیں، اس کی وجہ سے بعض اوقات ولادت کی پیچیدگیاں پیدا ہوتی ہیں، اسقاطِ حمل کا سلسلہ جاری ہوتا ہے اور جنسی امراض پھیلنے لگتے ہیں، یہ تمام باتیں نتیجہ ہوتی ہیں لا علمی کا، اب جنسی متعدی امراض ہی کو لیجئے، عالمی ادارہ صحت کے مطابق سو زاک اور آتشک جیسے جنسی امراض نوجوانوں کا ایک اہم مسئلہ ہیں، یہ امراض خاص طور پر ان شہری علاقوں میں بہت عام ہیں جہاں معاشرتی یا سماجی تبدیلیاں بڑی تیزی سے جاری رہتی ہیں، شادیاں دیر سے ہوتی ہیں اور شادی سے قبل جنسی اختلاط پر روایتی پابندیاں برخاست ہو جاتی ہیں، ترقی یافتہ ملکوں میں سوزاک کے دو تہائی مریض 25 سال سے کم عمر کے ہوتے ہیں۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق ترقی پذیر ملکوں میں بھی کم و بیش یہی صورتحال ہے، اس کے باوجود افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ ایسے نوجوان علاج سے محروم رہتے ہیں کیونکہ یا تو انہیں اس کی سہولتیں دستیاب نہیں ہوتیں یا پھر وہ محض اپنے مرض سے قعطاً لا علم ہوتے ہیں، عالمی ادارہ صحت کے مطابق ترقی پذیر ملکوں میں ایسے مرےضوں کی اکثریت علاج سے محروم رہے گی اور ان میں سے اکثر مزید پیچیدگیوں کا شکار ہو جائیں گے، اس بات میں کوئی شک نہیں ہونا چاہیے کہ وہ تمام متعدی جنسی امراض جن کا علاج نہیں کروایا جاتا ‘انتہائی سنگین ہوتے ہیں، اندازہ یہ ہے کہ سوزاک کی 20 سے 21 فیصد مریض ایسی خواتین جن کا علاج نہیں کروایا جاتا ،بیض نالی کے ورم میں مبتلا ہو جاتی ہیں جس سے شدید قسم کی پیچیدگیاں پیدا ہو جاتی ہیں۔ اس کی وجہ سے حمل قرار پا کر چھٹے ہفتے میں اس ٹیوب کو پھاڑ دیتا ہے اور لینے کے دینے پڑ جاتے ہیں،بیض نالی میں رکاوٹیں پیدا ہو جاتی ہیں۔ جس کی وجہ سے عورت بانجھ ہو جاتی ہے۔
ان امراض کے علاوہ کم عمر ماﺅں میں استقرارِ حمل اور ولادت اس صورتحال کا دوسرا خطرناک پہلو ہے۔ پندرہ سے انیس سال کی نو عمر ماں وضعِ حمل کے دوران مر سکتی ہے۔ اسی طرح 20سال سے کم عمر میں ماں بننے والوں کے بچے 20 سے 29 سال کی ماں کے بچوں کے مقابلے میں شیر خوارگی کی عمر میں زیادہ مر سکتے ہیں، یہ صورتحال بنگلہ دیش ‘ ملائشیا اور تھائی لینڈ میں خاصی عام ہے، اس صورتحال کی بنیادی وجہ حمل اور زچگی کی پیچیدگیاں اور بچوں کے وزن کی کمی ہے روایت پرست معاشروں میں نو عمری میں بیاہی جانے والی ماﺅں کو اگرچہ طبی خطرات کا سامنا ہوتا ہے تاہم انہیں اپنے بڑے بوڑھوں کے مشورے اور سرپرستی حاصل رہتی ہے لیکن آج کے دور میں یہ سرپرستی ‘ ہدایت اور رعایت تیزی سے رخصت ہو رہی ہے اور جنہیں یہ مدد درکار ہے وہ اس سے محروم ہوتے جارہے ہیں، اس کے نتیجے میں اسقاط حمل کی وجہ سے بھیانک نتائج برآمد ہوتے ہیں، آج کے نوجوانوں کو کسی جواز کی ضرورت نہیں ہے بلکہ وہ معلومات اور اپنی ضروریات کے مطابق صحیح معلومات کے محتاج ہیں‘ ہمارے معاشروں کا یہ فرض ہے کہ وہ اس بات کوملحوظ رکھیں کہ ہمارے نوجوان لا علمی اور ضروری رہنمائی کے فقدان کی وجہ سے جنسی مسائل کے خار زار میں بھٹکنے کیلئے نہ چھوڑ دیئے جائیں، معاشرے کے ہر فرد کا یہ فرض ہے کہ اس میں حقائق کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت اور اہلیت موجود ہو۔

دوا خود بنا لیں یاں ہم سے بنی ہوئی منگوا سکتے ہیں
میں نیت اور ایمانداری کے ساتھ اللہ کو حاضر ناضر جان کر مخلوق خدا کی خدمت کرنے کا عزم رکھتا ہوں آپ کو بلکل ٹھیک نسخے بتاتا ہوں ان میں کچھ کمی نہیں رکھتا یہ تمام نسخے میرے اپنے آزمودہ ہوتے ہیں آپ کی دُعاؤں کا طلب گار حکیم محمد عرفان
ہر قسم کی تمام جڑی بوٹیاں صاف ستھری تنکے، مٹی، کنکر، کے بغیر پاکستان اور پوری دنیا میں ھوم ڈلیوری کیلئے دستیاب ہیں تفصیلات کیلئے کلک کریں
فری مشورہ کیلئے رابطہ کر سکتے ہیں

Helpline & Whatsapp Number +92-30-40-50-60-70

Desi herbal, Desi nuskha,Desi totkay,jari botion se ilaj,Al shifa,herbal

 

جنسی راہنمائی کیوں ضروری ہے؟

بہت کم نوجوان ایسے ہیں جنہیں اپنی جوانی پر ناز ہو اور وہ کہہ سکیں کہ ہم نے اپنے ہاتھوں اپنی جوانی کو روگ نہیں لگایا یا پھر دیگر ذرائع سے جنسی تسکین حاصل کرنے کی کوشش نہیں کی آج کل کے نوجوان وی سی آر’ فحش فلموں و تصاویر’ شہوانی جذبات بھڑکانے والے ناول اور یورپی طرز معاشرت اپنانے کی وجہ سے مکمل بالغ ہونے سے قبل ہی جنسی فعل کی خواہش
SEX DESIRE
کا شکار ہو جاتے ہیں اور اس خواہش کی تکمیل کیلئے زیادہ تر نوجوان خود لذتی’ مشت زنی MASTER BATION
یا ہینڈ پریکٹس کی عادت کو اپنا لیتے ہیں بیشتر ہم جنسیت
HOMO SEXUALTY
میں مبتلا ہو جاتے ہیں بعض جنسی کجروی میں

LESBIANS & GAYS
بن جاتے ہیں یعنی ہم جنس پرستی میں مفعول بن کر جھوٹی لذت حاصل کرتے ہیں- کچھ لوگ جنسی تسکین کیلئے اس سلسلے میں پروفیشنلز طوائفوںسے رجوع کرتے ہیں
بھوک پیاس جیسی فطری خواہشوں کی طرح جنسی تسکین کی خواہش بھی ایک فطری خواہش ہے جو کہ قدرت کی طرف سے انسان کو طبعی طور پر عطا کی گئی ہے سورہ روم آیت نمبر 21 میں اللّہ تعالیٰ فرماتا ہے
اور اس کے نشانات میں سے ایک نشان یہ ہے کہ اس نے تمہارے درمیان کشش و محبت رکھدی ہے
اس تسکین’ کشش و محبت اور خواہش کا اعلیٰ مقصد اور اہم غرض بقائے نسل انسان ہے لیکن انسان چونکہ فطری طور پر حریص واقع ہوا ہے اس لئے وہ اس قوت کا وقت بے وقت جگہ بے جگہ استعمال کر کے اپنے آپ کو اس نعمت خداوندی سے محروم کر لیتا ہے اور مختلف جنسی نفسیاتی اور خبیث امراض و عادات کا شکار ہو اجاتا ہے جن میں مشت زنی’ ہم جنسیت’ کثرت احتلام’ ذکاوت حس’ نامردی’ ضعف باہ’ جریان’ سرعت انزال’ سوزاک’ آتشک اور ایڈز سرفہرست ہیں- یہ سب کچھ جنسی معلومات سے لا علمی کی وجہ سے ہوتا ہے اس لئے والدین اور اساتذہ کو چاہیے کہ اس کتابچہ کو دیکھ کر ناک بھوں نہ چڑھائیں بلکہ حقیقت کا سامنا کریں اور دوستانہ ماحول میں اپنے بچوںکو جنسی معلومات سے روشناس کرائیں کیونکہ اگر آپ نے اس سلسلے میں ٹال مٹول سے کام لیا تو بچوں کے دماغ میں اس بارے میں جاننے کی خواہش ضرور رہتی ہے اور وہ اپنے سے بڑے کلاس فیلوز یا گلی محلے کے بری صحبت رکھنے والے دوستوں وغیرہ سے” سیکس ” SEX کی بے تکی معلومات حاصل کریں گے اور اپنے نازک دل و دماغ کو گندے خیالات سے بھر کر اپنی جوانی کو داغدار کر لیں گے لہذا سن بلوغ کو پہنچنے والے بچوں کو سمجھا دینا چاہیے کہ جنسی تسکین کی صحیح صورت مرد اور عورت کا ملاپ ہے اور مرد اور عورت کے ملاپ کی اخلاقی’ قانونی و شرعی صورت شادی ہے شادی سے انسان کی جنسی زندگی میں نظم و ضبط پیدا ہوتا ہے شادی کا ثمر اولاد ہے جس کی باقاعدہ پرورش سے انسان معاشرہ میں اپنا فرض ادا کرتا ہے- موجودہ ماحول کے مطابق والدین کو بالغ ہونے والے بچے کی شادی کا فریضہ جلد از جلد ادا کر دینا چاہیے کیونکہ جنسی کجرویوں برائیوں جنسی امراض اور جنسی جرائم کو کم بلکہ ختم کرنے کا یہی ایک طریقہ ہے-
جنسی امراض کے علاج کے سلسلے میں اکثر نوجوان انتہائی راز داری برتتے ہیں اور اس سلسلے میں جو بھی نیم حکیم فٹ پاتھئیے معالج اور ہیلتھ کلینکوں کے عطائی ڈاکٹروں سمیت جو بھی سامنے آتا ہے اس سے علاج کروانا شروع کر دیتے ہیں کسی نے کوئی نسخہ یا ٹوٹکہ بتا دیا تو اسے فوراً استعمال کرنا شروع کر دیا اس سے بعض اوقات خطرناک نتائج رونما ہوتے ہیں اور مریض اپنے جسم کو بگاڑ لیتے ہیں ہر شخص کا مزاج مختلف ہوتا ہے جو دوائی کسی دوسرے فرد کو موافق تھی اور اسے اس سے آرام آ گیا تھا آپ کو نقصان بھی دے سکتی ہے فٹ پاتھئیے نیم حکیم’ نام نہاد ہیلتھ کلینکس’ عطائی ڈاکٹر اور غیر مستند معالج اپنی گرما گرم باتوں اور چرب زبانی سے لوگوں کو آسانی سے بے وقوف بنا کر روپیہ وصول کر لیتے ہیں اور جنسی امراض سے متعلق اس قدر مبالغہ آمیز بیانات داغتے ہیں کہ مریض اپنے آپ کو زندہ در گور سمجھنے لگتا ہے اگر کسی فٹ پاتھئیے نیم حکیم کی تقریر سننے کا آپ کو موقع ملے تو آپ بھی اپنے آپ کو کسی نہ کسی شدید مرض میں مبتلا سمجھنے پر مجبور ہو جائیں گے اور جس وقت وہ دوا بیچنا شروع کرے گا آپ کا ہاتھ بھی وہ دوا خریدنے کیلئے اپنی جیب تک پہنچ جائے گا