Al-Shifa Naturla Herbal Laboratories (Pvt), Ltd.    HelpLine: +92-30-40-50-60-70

سرسوں کے تیل کا کمال

سرسوں کے تیل کا کمال

سرسوں کے تیل کو مخصوص جگہ (ناک کے نتھنے‘ ناف اور مقعد پر)دن میں 3 یا پھر زائد بار لگانے کے فوائد ۔ سرسوں کے تیل کا خالص ہونا اولین ! میرے پاس اس ٹوٹکے کی تعریف میں لکھنے کے لئے الفاظ نہیں ہیں ۔ لاکھوں فوائد جو استعمال کرو تو پتہ چلتا ہے کہ کیا جادو ہے۔
ناک بند رہنا، سردیوں میں سر میں درد، بلغم کا حلق میں گرنا، بھوک نہ لگنا، قبض رہنا، بواسیر کے مسوں میں تکلیف ہونا، چھینک نہ آنا وغیرہ ناف میں استعمال کرنے سے گیس کا اخراج ہونا‘ اسٹول نرم ہوکر پاس ہونا، بھوک بھرپور لگنا طبیعت چاق وچوبند رہتی ہے۔ ناک کی ہڈی بھی کم ہونے لگی ہے اور ناک کی شکل درست رہتی ہے حتیٰ کہ ناک بند ہوجانے کی وجہ سے تکلیف کا سامنا

دواء خود بنا لیں یاں ہم سے بنی ہوئی منگوا سکتے ہیں
میں نیت اور ایمانداری کے ساتھ اللہ کو حاضر ناضر جان کر مخلوق خدا کی خدمت کرنے کا عزم رکھتا ہوں آپ کو بلکل ٹھیک نسخے بتاتا ہوں ان میں کچھ کمی نہیں رکھتا یہ تمام نسخے میرے اپنے آزمودہ ہوتے ہیں آپ کی دُعاؤں کا طلب گار حکیم محمد عرفان
ہر قسم کی تمام جڑی بوٹیاں صاف ستھری تنکے، مٹی، کنکر، کے بغیر پاکستان اور پوری دنیا میں ھوم ڈلیوری کیلئے دستیاب ہیں تفصیلات کیلئے کلک کریں
فری مشورہ کیلئے رابطہ کر سکتے ہیں

Helpline & Whatsapp Number +92-30-40-50-60-70

Desi herbal, Desi nuskha,Desi totkay,jari botion se ilaj,Al shifa,herbal

 

مرگی کا عارضہ آزمودہ علاج

مرگی کا عارضہ آزمودہ علاج

مرگی کے دوران مریض کا جسم اکڑ جاتا ہے ‘مریض کی گردن پیچھے کی جانب کھینچ جاتی ہے اور مریض کا سر ایک جانب کو مڑجاتا ہے تشنج کی وجہ سے سانس لینے میں دشواری ہوتی ہے سانس رکنے اور آکسیجن کی کمی کی وجہ سے چہرہ نیلگوں یا سیاہی مائل بھی ہوسکتا ہے
مرگی کا طبی نام صرع ہے یہ بیماری اعصابی راستوں اور دماغی خانوں میں ناقص ا ورزہریلے مادوں (سدوں) کے جمع ہونے سے پیدا ہوتی ہے۔ ماہرین کے مطابق اگر یہ ناقص مادے دماغ میں پیداہوںتو صرع دماغی‘ اگر معدہ میں پیدا ہوںتو صرع معدی اور اگر اعصابی طور پر پیدا ہوںتو صرع اعصابی کہلاتا ہے۔ یہ مرض بلغمی مادہ سے اکثر اور صفراوی مادے سے کبھی کبھار لاحق ہوتا ہے۔

مرگی کے اسباب
مرگی کے مقامی اسباب میں دوران حمل سر پر چوٹ لگنا‘ ہائی بلڈپریشر کا ہونا‘ شراب نوشی‘ خوف و دہشت‘ بعض جنسی امراض‘ گوشت کا زیادہ استعمال‘ عورتوں میں امراض رحم وغیرہ اہم ہیں

مرگی کے جدید طب میں اسباب
جدید طب میں مرگی کے درج ذیل اسباب ہیں۔ پیدائشی طور پر ذہنی نقص کا ہونا‘ دماغی جریان خون‘ دماغی رسولی‘ جزوی فالج‘ دماغی جھلیوں کا ورم‘ دماغ کے مخصوص ابھاروں کی کمی‘ دماغی بافتوں کی ادھوری نشوونما‘ دماغی نسیجوں کی ملابت‘ زہریلی ادویات مثلاً کوکین‘ کیفین‘ الکوہل اور سیسہ کے مرکبات کا استعمال‘ دماغ کو مناسب طور پر آکسیجن کا بہم نہ پہنچنا۔

مرگی کے دورہ سے پہلے کی علامات
مرگی کے مریض کو دورہ سے قبل پاوں میں ٹھنڈک یا سنسناہٹ محسوس ہوتی ہے۔ دل میں گھبراہٹ اور پیٹ میں جلن اور خلش محسوس ہوتی ہے۔ دل میں گھبراہٹ ہونے کی وجہ سے دل کی دھڑکن تیز ہوجاتی ہے کبھی کبھار مریض کو ڈراونی شکل بھی نظر آتی ہے۔ سائے نظر آتے ہیں آنکھوں کے آگے چنگاریاں پھوٹتی نظر آتی ہیں جس کی وجہ سے مریض بری طرح ڈر جاتا ہے کبھی کبھار اسے خوشبو آنے لگتی ہے کانوں میں باجے بجتے ہیں۔ اس کے منہ کا ذائقہ بدل جاتا ہے ذائقہ کڑوا یا نمکین محسوس ہوتا ہے اور کبھی مریض دورہ سے پہلے عجیب و غریب حرکتیں کرنے لگتا ہے جس کی وجہ سے اسے آسیب زدہ سمجھ لیا جاتا ہے۔

مرگی کے دورہ کے وقت علامات
دورہ کے دوران مریض کا جسم اکڑ جاتا ہے اور عموماً مریض چیخ بھی مارتا ہے۔ مریض کی گردن پیچھے کی جانب کھینچ سی جاتی ہے اور مریض کا سر ایک جانب کو مڑجاتا ہے تشنج کی وجہ سے سانس لینے میں دشواری ہوتی ہے سانس رکنے اور آکسیجن کی کمی کی وجہ سے چہرہ نیلگوں یا سیاہی مائل بھی ہوسکتا ہے۔ منہ سے جھاگ نکلنے لگتی ہے اور بعض دفعہ زبان دانتوں کے نیچے آکر کٹ جاتی ہے۔ مریض کا بول وبراز ان جانے میں خارج ہوجاتا ہے۔ اس دوران مریض کو تھوڑے تھوڑے وقفے سے جھٹکے لگتے رہتے ہیں کبھی کبھار ان جھٹکوں کا دورانیہ تقریباً آدھا گھنٹہ تک طویل ہوسکتا ہے۔ پھر مریض کا جسم ٹھنڈا ہوجاتا ہے اور مریض ایک لمبا سانس لیکر بے ہوش ہوجاتا ہے۔ مریض کی سانس میں خڑخڑاہٹ کی آواز آتی رہتی ہے اور چہرہ سرخ ہونے لگتا ہے۔ سانس کچھ بہتر ہوجاتی ہے اور مریض کچھ دیر کے بعد ہوش میں آجاتا ہے تاہم بعض اوقات مریض سردرد‘ چکر کی شکایت کرتا ہے اور پھر دورہ کے بعد گہری نیند سوجاتا ہے۔

مرگی کے دورہ کے دوران احتیاطیں
درج ذیل احتیاطی تدابیرکو مدنظر رکھ کر مرگی کے مریض کو شدید ذہنی اور جسمانی چوٹوں سے بچایا جاسکتا ہے۔ مثلاً دورہ کے دوران مریض کے لواحقین بے جا چیخ و پکار سے پرہیز کریں کیونکہ مریض گھبرا کر اپنے آپ کو زخمی بھی کرسکتا ہے۔ دورہ کے دوران مریض کو کروٹ کے بل لٹائیں تاکہ اس کی زبان دانتوں میں آکر زخمی یا کٹ نہ جائے۔ اس مقصد کیلئے مریض کے منہ میں کپڑا رکھ دیں۔ مریض کے قمیض کے بٹن کھول دیں۔ دورہ کے دوران مریض کے پاوں اور ٹانگوں کے نیچے نرم کپڑا رکھ دیں تاکہ مریض زخمی نہ ہوسکے۔

مرگی کا آسان گھریلو علاج
تمباکو کے پتے 4 ماشہ آدھا کلو پانی میں خوب اچھی طرح ابال لیں تقریباً ایک گھنٹہ پکائیں اچھی طرح چھان کر ایک کپ صبح‘ شام مریض کو کھانے کے بعد پلائیں انشاءاللہ بہت جلد فائدہ ہوگا مدت علاج ایک ماہ ہے۔ مرگی میں تیز مرچ مصالحہ اور چٹ پٹی اشیاءسے پرہیز کرائیں اور مریض کونرم غذا دیں۔

 

Read More

ہاتھ کی کلائی کے درد کا علاج

ہاتھ کی کلائی کے درد کا علاج

کارپل ٹنل کے مریض کے ہاتھ کی کلائی کے درد کا گھریلو علاج یہ ہے کہ پہلے نیم گرم پانی سے متاثرہ حصے کی چند منٹ ٹکور کریں اور بعدازاں خشک کر کے روغن زیتون (آلیو آئیل) کا ہلکا مساج کریں ۔یہ سب رات سوتے وقت کیا جا سکتا ہے۔
اس کے علاوہ تھوڑا سا ادرک(3گرام) روزانہ رات سوتے وقت چبا کر کھانے سے فائدہ مزید جلد ہو سکتا ہے۔ آیور ویدک سپورٹس میڈیسن کایہ نسخہ آزمایاہوا ہے

Stone treatment ,پتہ میں پتھری کا علاج

Stone treatment ,پتہ میں پتھری کا علاج

پتہ میں پتھری اکثر لوگوں کو ہو جاتی ہے لیکن ہر شخص کو ایسی کوئی تکلیف نہیں ہوتی جس سے اسکی موجودگی کا شبہ یا اندازہ ہو سکے کیونکہ علامات کے بغیر دنیا میں کافی لوگ اسکا شکار ہوتے ہیں۔
اسباب
جسم میں داخل ہونے کے بعد چکنائیوں اور خاص طور پر حیوانی ذریعہ سے حاصل ہونے والی چیزوں میں کولیسٹرول زیادہ پائی جاتی ہے جو کہ پانی میں حل نہیں ہوتی لیکن صفرا میں شامل ہو جاتی ہے۔ جگر جب صفرا بناتا ہے تو اس میں کولیسٹرول کا ایک حصہ بھی موجود ہوتا ہے جو مرکب کی شکل میں پتہ میں ذخیرہ ہوتا ہے لیکن جگر کی بعض بیماریوں میں صفرا کی پیدائش کا عمل غلط ہو جاتا ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ جگر نے ابتداءہی میں کولیسٹرول کی اتنی زیادہ مقدار پیدا کر دی ہے کہ اسے مرکب میں حل رکھنا ممکن نہ ہو سکا یا مرکب کے دوسرے اجزاءناقص ہونے کی وجہ سے اسے حل پذیر نہ رکھ سکے لیکن پتھری بنانے میں پتہ کا اپنا کردار بھی اہم ہے اگر وہ تندرست ہو تو عام حالات میں وہ پتھری بننے نہیں دیتا۔ پتہ میں اگر کسی وجہ سے سوزش ہو جائے تو پھر سوزش والے مقام پر کولیسٹرول جمنا شروع ہو جاتا ہے۔ اندازہ لگایا گیا ہے کہ سوزش یعنی التہاب مرارہ کے 90فیصد مریضوں کو صرف سوزش نہیں ہوتی بلکہ اس کے ساتھ پتہ میں پتھریاں بھی ہوتی ہیں۔

تشخیص
پتھریوں میں اگر کیلشیم کی مقدار زیادہ ہو تو ایکسرے میں نظر آجاتی ہیں ورنہ ان کی تشخیص کا بہترین طریقہ الٹرا ساﺅنڈ ہے جس کی مدد سے نہ صرف پتھریوں کا پتہ چل سکتا ہے بلکہ ان کا صحیح سائز بھی معلوم کیا جا سکتا ہے۔

علامات
اکثر مریضوں کو پتہ میں پتھریوں کے باوجود کوئی تکلیف نہیں ہوتی اور پتھریوں کی موجودگی کا پتہ اتفاقاً چلتا ہے اس لئے زیادہ تر علامات پتھری کی وجہ سے نہیں بلکہ ان سے ہونے والے مسائل سے ہوتی ہیں۔ جیسے کہ (1) نالیوں میں رکاوٹ کی وجہ سے پتہ میں سوزش (2) نالیوں میں رکاوٹ کی وجہ سے لبلبہ میں سوزش (3) بڑی عمر کے مریضوں میں پتہ میں کینسر ہو جاتا ہے۔ (4) پتہ اور چھوٹی آنت کے درمیان ایک سوراخ بن کر صفرا کے اخراج کا براہ راست غلط راستہ بن جاتا ہے جس میں بھی کوئی پتھر پھنس کر رکاوٹ یا پھر یرقان اور پیٹ کے اندر دوسرے خطرات اور حوادث کا باعث ہو سکتا ہے۔

علاج کیا جاتا ہے
طب جدید میں اس حصہ جسم کی کسی بھی بیماری کا شافی علاج موجود نہیں۔ شدید سوزش کے دوران قے، بدہضمی اور معدہ کی سوزش ‘بخار اوردرد کا علامات کے مطابق علاج کیا جاتا ہے جبکہ پتھری اور مزمن سوزش کیلئے درد دور کرنے والی ادویہ کے علاوہ اور کوئی ح……ل موجود نہیں۔ پتہ کی ہر بیماری کا علاج آپریشن ہے جن لوگوں کا پتہ نکالا جا چکا ہے وہ عمر بھر بدہضمی کا شکار رہتے ہیں، وہ چکنائیاں ہضم نہیں کر سکتے۔ پیارے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مرحمت کی ہوئی ادویات میں انجیر پتہ کی بیماریوں کے علاج میں بہت اہمیت رکھتی ہے۔ نہار منہ کھانے سے خون کی نالیوں میں اور پتہ کی نالیوں سے پتھریاں اور سدے نکالتی ہے۔ انجیر پتہ کی سوزش اور پتھری کے خلاف سب سے بڑی پیش بندی ہے۔ اسے کھانے سے چکنائیوں کے ہضم کرنے میں کوئی مشکل نہ ہو گی اور نہ ہی کولیسٹرول کی کوئی مقدار جسم میں جاکر خون کی نالیوں میں جم کر دل کے دورے کا باعث بنے گی اور نہ یہ جگر سے نکل کر پتھریاں بنائے گی۔
اطباءقدیم میں سے ابن السیطار اور اکبر ارذانی نے پتے کی پتھری کو توڑنے کے لئے انجیر تجویز کی ہے۔ ان کا یہ نسخہ مرض کی ماہیت کے مطابق درست اور تجربات سے ہمیشہ مفید پایا گیا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پیٹ کے جملہ امراض کے لئے جو کا دلیہ جس میں دودھ اور شہد ملایا گیا ہو‘ تجویز فرمایا ہے۔ یہ پیٹ کی سوزش کیلئے انتہائی مفید ہے چونکہ اس میں چکنائی نہیں ہوتی اس لئے اسے ہر کیفیت میں ‘خاص طور پر ان مریضوں میں جن کو معدہ میں جلن کی وجہ سے قے ہوتی ہے‘ فائدہ دیتا ہے ۔جو کا دلیہ پیشاب آور ہے پتہ کے مریضوں کے لئے یہ دلیہ از حد مفید ہے یہ خون کی کولیسٹرول کو کم کرتا ہے۔پتہ کی بیماریوں کو پیدا کرنے میں چکنائیوں کا بڑا عمل دخل ہے، بیمار ہونے کے بعد مریض کی غذا میں چکنائی کی موجودگی اس کی بیماری میں اضافہ کا باعث ہوتی ہے۔ایسے حالات میں کوئی ایسی چیز جو بذات خود چکنائی ہو ‘اس سے بیماری میں اضافہ کا امکان موجود رہتا ہے۔ اس بنیادی اصول کی صداقت کے باوجود اطباءقدیم نے زیتون کا تیل استعمال کیا ہے۔ حکیم نجم الغنی خان اس کے بہت معترف تھے زیتون کا تیل پتہ کو سکیڑ کر اس کے صفرا کو باہر نکال دیتا ہے اس عمل میں کئی چھوٹی پتھریاں باہر نکل جاتی ہیں۔
حکیم اور دوسرے ماہرین طب پتہ سے پتھری نکالنے کے لئے زیادہ مقدار میں زیتون کا تیل پلانے کا مشورہ دیتے ہیں۔ تقریباً 9اونس زیتون کا تیل مریض کو پلایا جائے تو پتھریاں نکل جاتی ہیں۔ زیتون کا تیل ایک ایسی مفید چکنائی ہے جو دوسری چکنائیوں کو بھی ہضم کرتی ہے۔ اطبائے قدیم نے پتہ کے سدے دور کرنے کے لئے سرکہ کو بہت مفید قرار دیا ہے۔ بو علی سینا کے ایک نسخہ کے مطابق انجیر کو سرکہ میں بھگو کر کھلایا جائے تو پتے کے مسائل جلد حل ہو جاتے ہیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کلونجی کو ہر بیماری میں شفاءکا مظہر بتلایا ہے۔ اطباءاسے پتے کی پتھری نکالنے والی قرار دیتے ہیں۔ صبح نہار منہ شہد کے شربت کے ساتھ کلونجی 3گرام کھانا پتہ کی بیماریوں میں انتہائی مفید وموثر ہے کیونکہ طب جدید میں پتہ کی بیماریوں کا آپریشن کے علاوہ اور کوئی علاج نہیں ہے۔ اس لئے بیماری کے علاج میں طب نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے بھرپور استفادہ کرنے کی کوشش کرنی چاہئے

لاعلاج بیماریوں کا حقیقی علاج صرف عبادات میں

لاعلاج بیماریوں کا حقیقی علاج صرف عبادات میں
قرآن کریم کی دوسری آیات سر چشمہ صحت کی رہنمائی کرتی ہے۔ ”وَنُنَزِّلُ مِنَ القُراٰنِ مَا ھُوَ شِفَآئ وَّرَحمَة لِّلمُومِنِینَ“ اور ہم قرآن میں ایسی چیزیں نازل کرتے ہیں جو ایمان والوں کے حق میں شفا اور رحمت ہیں۔ (سورة بنی اسرائیل82)۔یہاں یہ بات خاص طور پر توجہ طلب ہے کہ مسلمانوں کا ایمان بلکہ یقین ہے کہ مصیبت من جانب اللہ ہی ہے اور جب ہم سچے دل اور خلوص نیت سے غلطیوں کا اعتراف کر کے معافی کے طالب ہونگے اور مکمل صحت یابی کیلئے دعا کریں گے تو وہ یقینا اللہ تعالیٰ کے ہاں مغفرت بھی کرائے گی اور اپنی رحمت سے ہماری مشکلات اور مصائب کو دور بھی کردے گا۔ علاج بالتہجد ایک نفسیاتی طریقہ علاج ہے جس کی تعلیمات قرآن سے ماخوذ ہیں اوربحیثیت تقابل یہ مغربی طریقہ علاج کو پاس پھٹکنے نہیں دیتا۔ ایک مسلمان کا یہ یقین کامل ہے کہ وہ صرف اللہ ہی کا ایک ادنیٰ غلام ہے اور زندگی اور موت صرف اسی کے قبضہ قدرت میں ہے ۔ اسے زندگی کے گوناگوں ہنگاموں میں بہت سے مسائل سے یکسر نجات دے دیتا ہے۔ یہ مذہبی طریقہ علاج جو احادیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اور آیات قرآنی سے مستعار لیا گیا ہے واقعتاً بہت سی دوسری نفسیاتی اور غیر نفسیاتی تکالیف کا منہ
توڑ جواب ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ کوئی بھی بیماری لا علاج نہیں جیسا کہ مندرجہ ذیل حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے۔ ”لکل داءدوائ“
اللہ تعالیٰ نے مریض کے لئے شفا عطا فرمائی ہے۔ بہت سی بیماریاں ایسی ہیں جن کا علاج ابھی تک دریافت نہیں ہوا یعنی سرطان اور ایڈز وغیرہ لیکن مندرجہ بالا حدیث کے آئینے میں یہ بات سو فیصد وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ یہ بیماریاں بھی لا علاج نہیں۔ لہٰذا نفسیاتی بیماریوں کا بہترین علاج سکون قلب میں مضمر ہے جو ذکر الٰہی اور نماز کے ذریعے ممکن ہے تا کہ روحانی اور نفسیاتی صفائی و پاکیزگی کا موجب بنے۔ درحقیقت ہم کسی بھی بیماری کی احتیاط اور روک تھام کیلئے اسلام کے صراط مستقیم پر ثابت قدم رہ کر سرخرو ہو سکتے ہیں۔ جیسا کہ آیات قرآنی، احادیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اور سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے۔اوقات نماز اورجدید سائنس
انسان طبعی طور پر محرک جسم ہے یہ جامد اور ساکت اجسام کی ضد ہے۔ اس لئے اس کی صحت ، تندرستی اور بقا تحریک میں ہے اور نماز بار بار اسی تحریک کا نام ہے۔ قدرت نے اس کے معمولات زندگی اور اس کو ازل سے ابد تک جانتے اور پہچانتے ہوئے نماز میں اس کیلئے اوقات اور وقفے مقرر کیے ہیں۔نماز فجر
نماز فجر اس وقت ہوتی ہے جب رات ڈوبنے کو ہوتی ہے اور اس وقت آدمی رات کے سکون اور آرام کے بعد اٹھتا ہے۔ سائنس اور حفظان صحت (Hygiene)کا اصول ہے کہ کسی بھی ورزش کو کرنے کیلئے آہستہ آہستہ اپنی رفتار، قوت اور لچک میں اضافہ کیا جائے حتیٰ کہ دوڑنے کیلئے بھی یہ ضروری ہے کہ اس میں پہلے آہستہ آہستہ دوڑیں پھر تیز پھر اور تیز اور پھرسبک رفتار بن جائیں۔ اب اگر انسان صبح اٹھتے ہی ستر ہ رکعات کی نماز پڑھے تو اس کی جسمانی صحت بہت جلد ختم ہو جائے گی اور وہ بہت ہی جلد اعصاب اور بے طاقتی کا مریض بن جائے گا۔ اور پھر رات سونے بعد صبح اٹھتے ہی پیٹ خالی ہوتا ہے اور خالی پیٹ اور اس وقت جب اعضاءرات بھر سکون میں رہے ہوں اور پھر فوراً انہیں تحریک دی جائے دونوں حالتوں میں سخت محنت اور زیادہ اٹھک بیٹھک بہت مضر ہے اس لئے اللہ رب العزت نے صبح کی نماز بہت مختصر رکھی ہے۔ صبح کی نماز کا بنیادی مقصد انسان کو طہارت (Sterilization) اور صفائی کی طرف مائل کرنا ہے اگر اس اس نے نما ز کا وضو نہ کیا اور مسواک نہ کی اور صبح کا ناشتہ کر لیا تو رات بھرجو جراثیم منہ میں پھلتے پھولتے رہے (اور ان(Bacteria)کی ایک خاص قسم رات سوتے وقت منہ میں پیدا ہو جاتی ہے) اگر وہ غذا، لعاب یا پانی کے ذریعہ اندر چلی جائے تو معدے کی سوزش (Stomach Swelling) اور آنتوں کی ورم (Inflammation of Intestines)اور السر (Ulcer) کے خطرات بڑھ جاتے ہیں۔

Sneezing.disease.natural.treatment | چھینک بیماریوں کا قدرتی علاج

Sneezing.disease.natural.treatment 

چھینک  بیماریوں کا قدرتی علاج

چھینک اللہ پاک کی وہ نعمت ہے جس کی وجہ سے شعور کا نظام نارمل طریقے سے جاری و ساری ہے۔ خدانخواستہ انسان کو جب زندگی میں کوئی مسئلہ پیش آتا ہے وہ پریشان ہو کر اس مسئلے پر سوچنا شروع کر دیتا ہے۔ شعور کا سوچنے والا حصہ متحرک ہو جاتا ہے یعنی یادداشت، یادداشت کو کنٹرول کرنے والی لہریں متحرک ہو جاتی ہیں۔ یہ سلسلہ اگر حد سے زیادہ تجاوز کر جائے اور یادداشت پر دباﺅ پڑے یعنی یاددا شت متاثر ہونے لگے تو انسان کو چھینکیں آجاتی ہیں۔ چھینک آنے کی وجہ سے یادداشت کی متاثرہ لہریں واپس اپنی درست سمت میں کام کرنے لگتی ہیں لہٰذا انسان جب اپنے شعور پر دباﺅ ڈالے گا اس کو چھنکیں آسکتی ہیں۔
چھنکیں آنے سے انسان ہشاش بشاش ہو جاتا ہے کیونکہ چھینکوں سے متاثرہ لہریں اپنے مدار میں واپس چلی جاتی ہیں۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ شعور کو کنٹرول میں رکھنے کیلئے اللہ پاک نے چھینکوں کو بنایا ہے۔ اس لیے انسان ہشاش بشاش ہو جاتا ہے اور مسئلہ اپنے آغاز میں چلا جاتا ہے یعنی آغاز کی لہروں میں جہاں سے مسئلے کو قابو کرنا انسان کیلئے بہت آسان ہوتا ہے۔ یہ حالت ایک نارمل انسان کے شعور کی بیان کی گئی ہے لیکن حالات سے متاثرہ حساس شخص جسے نفسیاتی مریض کہتے ہیں۔ ایک لائن پر سوچ سوچ کر اپنے شعور پر دباﺅ ڈالتا رہتا ہے تو شعور کا نظام جس میں نیند، دل، یادداشت ،جمائی اور چھینکیں آتی ہیں ان میں سے کوئی ایک نظام بھی متاثر ہو جائے تو باقی نظام بھی متاثر ہو جاتے ہیں کیونکہ یہ نظام جذباتی نظام کے تحت آپس میں لہروں کے ذریعے جڑے ہوئے ہیں۔
جذباتی نظام چاہے تھوڑا بگڑا ہو یا زیادہ صرف چھینکوں کی بدولت ہم واپس اپنا شعوری نظام مکمل طور پر بحال کر سکتے ہیں۔
ایسے موقع پر نیند متاثر ہو جاتی ہے یعنی اڑ جاتی ہے۔ نیند کی گولیاں یا نیند کا انجکشن شعوری نظام کو مزید تباہ و برباد کر دیتے ہیں کیونکہ لہریں اپنے اپنے مدار سے باہر ہوتی ہیں اور انجکشن انہیں مزید بکھیر دیتا ہے یعنی الجھا دیتا ہے۔
اس لیے نفسیائی مریض ایسی ادویات سے مزید بگڑتا جاتا ہے۔ کوئی بھی حساس انسان اس وقت تک چوکنا نہیں ہوتا اور نہ فکر مند ہوتا ہے جب تک اس کی نیند نہ اڑے یا اُسے چکر نہ آئیں۔
مسلسل توجہ کی مشقوں سے لہروں میں مرکزیت اس وقت بحال ہو جائے گی۔ جب مریض کو چھینکیں آئیں گی یعنی شعور رواں دواں ہو جائے گا۔ ایسے موقعہ پر دو قسم کی مشقیں کی جا سکتی ہیں۔

(1 ) مطالعہ (2) پہلے چار کلموں کی تسبیحات
طریقہ: پہلے جتنی دیر مریض مطالعہ کر سکے اس کے بعد دائیں کروٹ لیٹ کر باری باری پہلے چار کلموں کی تسبیحات کریں ،چھینکیں آنے تک ۔چھینکیں آنے پر الحمد للہ ضرور پڑ ھیں ۔
یاد رکھیے: دنیا کی کوئی دوائی آپ کے شعور کی لہروں کی درست سمت کا تعین نہیں کر سکتی۔ سوائے توجہ اور پرسکون رہنے والی مشقوں کے اور نہ ہی دنیا کی کوئی دوائی آپ کی نیند واپس لا سکتی ہے ۔ سوائے توجہ کی مشقو ں کے ۔ چھینکو ں کی مثال شعور کے نظام میں ایسے ہے ۔ جیسے ویران جنگل میں نیک بزرگ با با جی۔ جو شہزادے کو ظالم جا دو گر تک پہنچنے کا راستہ بتا تے ہیں اور ساتھ منتر بھی تاکہ ظالم جا دو گر کا جادو اثر نہ کر سکے ۔ یہا ں شعور کو میں ایک ویران جنگل سے تشبیہ دو ں گی اور توجہ کی مشقیں منتر ہیں ۔ جبکہ نیند وہ شہزادی ہے جسے حاصل کرنا ہے۔
توجہ اورپر سکون رہنے والی مشقو ں سے شعور کو کنٹرو ل کریں اور کسی کو چارو ں کلمے نہ آتے ہوں تو وہ پہلے کلمے کی تسبیح نیند بحال ہونے تک کر تا رہے ۔ یا د رہے کہ کلمہ کی تسبیح میں زبان سے الفاظ ادا کرنے ضروری ہیں ۔ یعنی زبان کی حرکت ضروری ہے ۔ توجہ کی مشقوں سے دو قسم کی تبدیلی آئے گی یعنی چھینکیں اوراُبکائی۔ چھینکیں شعور کو نارمل بناتی ہیں اور ابکائی دل کو نارمل بناتی ہے یعنی گھٹن ختم کرتی ہے اسی طرح ڈپریشن کی کیفیت ختم ہو جاتی ہے ۔ پرانے نفسیاتی مریض جب اپنے شعور کو بیدار کرکے نارمل زندگی کی طرف لوٹیں گے تو وہ اپنی چھینکوں سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ وہ نارمل ہونے کی کس حد پر ہیں۔
ایک دو چھینکوں کا مطلب ہے کہ بندہ مکمل نارمل ہے اور شعور مکمل کنٹرول میں ہے۔ تین چار کا مطلب ہے کہ بندہ نارمل ہے اگر وہ اپنی سوچوں پر کنٹرول رکھے۔ یعنی بندہ حساس ہے۔ پانچ، چھ، سات،آٹھ، نو، دس کا مطلب ہے کہ مریض کی سوچ اب نارمل ہے مگر ابھی لہریں مکمل درست سمت تک نہیں پہنچی اور ابھی منزل دور ہے۔ محنت کی ضرورت ہے۔ وقتی فطری نیند تو حاصل ہو جائے گی مگر جب تک چھینکوں کی تعداد دو نہ ہو جائے مریض خود کومکمل ٹھیک نہ سمجھے۔
اگر نفسیاتی مریض کو الرجی ہو یعنی آنکھوں ناک سے پانی بہنے کے ساتھ ساتھ چھینکیں آتی ہوںتو اگر وجہ نفسیاتی خامی ہے تو توجہ کی مشقوں سے آہستہ آہستہ الرجی پر قابو پائیں۔ جیسے جیسے آپ نارمل زندگی کی طرف آتے جائیں گے چھینکوں کی تعداد کم ہوتی جائے گی۔نفسیاتی مریض کی الرجی بھی ان مشقوں سے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے ٹھیک ہو جائے گی۔ نارمل ہونے کے سفر میں کیونکہ نفسیاتی مریضوں کی الرجی بھی شعور کی ڈسٹرب لہروں کی وجہ سے ہوتی ہےلہذا نارمل ہونے کے سفر میں نفسیاتی مریض کو لڑائی جھگڑے اور غصے سے دور رہنا چاہیے اور پرسکون رہنے کی کوشش کرنی چاہیے اور حکمت عملی سے اپنے مسائل اور پریشانیوں سے دور رہنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اگر آپ کو حکمت عملی یا رہنمائی کیلئے راستہ نہ مل رہا ہو تو مکمل رہنمائی اور مدد کیلئے کسی مستند معالج سے رجو ع کر یں۔
توجہ کی مشقوں سے متاثر لوگوں میں کوئی بھی تبدیلی آئے مثلاً نیند میں جانے سے جھٹکا لگے یا شور سنائی دے۔ یہ شور درخت کے پتوں کے شور جیسا بھی ہو سکتا ہے یا ہوا کا یا چیزوں کے گھسیٹنے کا یا جنات کی موجودگی کا احساس ہونا، آنکھ کھلنے پر بہت کچھ نظر آنا۔ یہ سب اگر آپ کے ساتھ ہوا بھی تو چند لمحوں کیلئے ہو گا ۔یہ وقتی تبدیلی ہے جو شعور کی تحریک کی وجہ سے پیش آتی ہے جب شعور کی متاثرہ لہریں اپنے مدار میں صحیح کام کرنے لگیں گی یہ سب ہمیشہ ہمیشہ کیلئے ٹھیک ہو جائے گا۔ ضروری نہیں آپ کے ساتھ ان میں سے کوئی سے بھی حالات پیش آئیں ممکن ہے کہ آپ کو کچھ بھی محسوس نہ ہو، نہ چھینکیں آئیں نہ اُبکائی۔ آپ معمولی سی تبدیلی جیسے آپ محسوس بھی نہ کر سکیں اورٹھیک ہو جائیں۔البتہ بہت زیادہ پرانے مریضوں کو اپنی نیند بحال کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے مسائل بھی حل کرنے چاہئیں مثلاً بے چینی کیوں ہوتی ہے‘ غصہ کیوں آتا ہے وغیرہ وغیرہ۔
آخر میں نفیساتی مریضوں کو پھر دہرانا چاہوں گی کہ انسانی جسم میں اب نارمل سوچ کی وجہ سے دو چیزوں میں تبدیلی واقع ہوتی ہے شعور میں اور دل میں۔جب ان دونوں میں جذباتی تبدیلی واقع ہو جائے تو ڈپریشن کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔ شعور میں تبدیلی چھینکوں کی بدولت جبکہ دل میں تبدیلی اُبکائی کی بدولت آئے گی، جس سے ڈپریشن کی کیفیت ختم ہو جائے گی اور مریض مکمل نارمل حالت میں آجائے گا۔(ان شا ءاللہ

Sleep is very effective head of the oil,سر سوں کا تیل بہت مفید ہے

Sleep is very effective head of the oil,سر سوں کا تیل  بہت مفید ہے

امریکی ماہرین نے انکشاف کیا ہے کہ سر سوں کا تیل جسم میں کولیسٹرول کو کم کر نے میں بہت مفید ہے۔امریکی ماہرین نے انکشاف کیا ہے کہ سرسوں کے تیل کا بطور غذا استعمال جسم میں کو لیسٹرول کو کم کر نے میں مفید ہے۔ اسے سلاد میں ڈال کر بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ہا رورڈ یونیور سٹی کے حالیہ تحقیق میں مزید بتایا کیا گیا ہے کہ روز مرہ کی خوراک میں سرسوں کے تیل کے تھوڑے سے استعمال سے5 ماہ میں کو لیسٹرول لیو ل29فیصد کم ہو سکتا ہے ۔واضح رہے کہ جسم میں کولیسٹرول کے اضافے سے شریانوں میں Atherosclerosis

زیادہ مقدار میں جمنے لگتا ہے جو دل کی بیماریوں کا سبب بنتا ہےسرسوں کے تیل میں دیگر تیلوں کے مقابلے میں چکنائی کی مقدار نصف ہوتی ہے۔

Use yogurt good health,دہی کا استعمال اچھی صحت

Use yogurt good health,دہی کا  استعمال اچھی صحت

د ہی کو عربی میں ”لبن“ فارسی میں ”ماست“ اور انگریزی میں یوگرٹ (yogurt) کہتے ہیں ۔ صدیوں سے یہ انسانی خوراک کا حصہ رہا ہے۔ زمانہ قبل از تاریخ کا انسان بھی گائے‘ بکری‘ بھینس‘ اونٹ اور بھیڑ کے دودھ کو بطور غذا استعمال کیا کرتا تھا۔ ان کے مویشیوں کے دودھ کی مقدار کم ہوتی تھی اس لیے وہ اسے جانوروں کی کھالوں یا کھردرے مٹی کے برتنوں میں جمع کرلیتے تھے تاکہ بہ وقت ضرورت آسانی سے استعمال میں آجائے۔
شروع شروع میں اسے جانوروں سے حاصل کرنے کے بعد اسی طرح کچی حالت میں رکھنے کی کوشش کی گئی لیکن کچے دودھ کو محفوظ حالت میں رکھنا‘ وہ بھی اس طرح کہ اس کی غذائیت بھی برقرار رہے ناممکن سی بات ثابت ہوئی۔ اس مسئلے کا حل اتفاقی طور پر دریافت ہوگیا۔ کہا جاتا ہے کہ جنوب مغربی ایشیا کے وسیع علاقوں میں سفر کرنے والے ”نوماد“ قبیلے والے دودھ کی شکل میں اپنی رسد کو بھیڑ کی کھال سے بنے ہوئے تھیلے میں رکھا کرتے اور اسے اپنے جانوروں کی پیٹھ پر باندھ دیا کرتے تھے۔ ایام سفر میں وہ تھیلے مسلسل ہلتے رہتے اس پر سورج کی تپش بھی اپنا اثر دکھاتی رہتی نتیجتاً ہ دودھ خمیر بن کر نیم ٹھوس شکل اختیار کرلیتا۔ وہ اس بات سے ناواقف تھے کہ بھیڑ کی کھال کے اندرونی حصے میں چھپے ہوئے بیکٹریا نے دودھ کو خمیر کرکے دہی کی شکل دے دی ہے۔
ابتداءمیں دودھ کی اس شکل کو بہت کم مقدار میں استعمال کیا جاتا تھا کیوں کہ نوماد قبیلے والے اسے زہریلا سمجھتے تھے پھر آہستہ آہستہ تجربے سے یہ بات سامنے آئی کہ دودھ کی یہ نئی شکل مضر صحت نہیں معجزاتی غذا ہے۔ جب اس کی افادیت سامنے آئی تو اسے بنانے کا طریقہ دریافت کیا گیا۔ دودھ کو جمانے کے لیے انہوں نے اس میں تھوڑا سا دہی ملالیا۔ اس تجربے نے کامیابی عطا کی اور پھر دھیرے دھیرے یہ بات بھی ثابت ہوگئی کہ کھٹا اور خمیر کیا ہوا دودھ تازہ دودھ سے بہت زیادہ فائدے مند ہے۔ یہ نہ صرف زیادہ عرصے تک اچھی حالت میں رہتا ہے بلکہ اس کا ذائقہ بھی مزیدار ہوجاتا ہے۔

بلغاریہ کے لوگوں کی طبعی عمر دیگر ممالک سے زیادہ ہے۔ سائنسدانوں نے مسلسل تجربوں اور تجزیہ کے بعد پتا چلایا کہ اس کی ایک وجہ دہی بھی ہے۔ وہاں کے لوگ دہی کا استعمال بہت زیادہ کرتے ہیں۔

فرانس میں اسے ”حیات جاوداں“ کا نام دیا گیا ہے۔ 1700ءمیں فرانس کا کنگ فرسٹ کسی بیماری میں ایسا مبتلا ہوا کہ کوئی علاج کارگر نہیں ہوتا تھا۔ بادشاہ سوکھ کا کانٹا ہوگیا تھا۔ نقاہت اس قدر بڑھ گئی تھی کہ وہ بیٹھنے کی قوت بھی کھو چکا تھا۔ اس کے علاج کے لیے مشرق بعید کے ایک معالج کو بلایا گیا۔ اس نے بادشاہ کو صرف دہی کا استعمال کرایا اور کنگ فرسٹ صحت یاب ہوگیا۔

فرانس ہی کے ایک ماہر جراثیم پروفیسر میچسنٹکو لکھتے ہیں کہ دہی درازی عمر کی چابی ہے۔ اس کے استعمال سے نہ صرف انسان بہت سی بیماریوں سے محفوظ رہتا ہے بلکہ عمر بھی طویل پاتا ہے۔

Live longer look younger نامی کتاب میں مصنف نے اسے معجزاتی غذا کہا ہے۔

ء1908

کے نوبل انعام یافتہ ایلی میٹ ٹنگوف وہ پہلا ماہر تھا جس نے برسوں کی تحقیق کے بعد اس کے خواص پر تحقیق کی اور بتایا کہ یہی وہ غذا ہے جو انسان کو طویل عمرگزارنے کے مواقع فراہم کرتی ہے۔

آنتوں کے نظام کے اندر ایک خاص تعداد میں بیکٹیریا پائے جاتے ہیں جنہیں فلورا کہا جاتا ہے۔ دہی فلورا کی پرورش میں معاون ثابت ہوتا ہے۔ انٹی بایوٹک ادویات فلورا کو ختم کردیتی ہیں اسی لیے بعض ڈاکٹر صاحبان اینٹی بائیوٹک ادویات کے ساتھ دہی کھانے کا مشورہ دیتے ہیں۔ دہی بیکٹیریا کے انفیکشن کو بھی روکتا ہے۔

غذائی ماہرین کے مطابق دہی میں پروٹین‘ کیلشیم اور وٹامن بی اچھی خاصی مقدار میں موجود ہوتی ہے۔ البتہ آئرن اور وٹامن سی اس میں بالکل نہیں ہوتا۔ گائے کے دودھ کے مقابلے میں بھینس کے دودھ سے بنا ہوا دہی زیادہ طاقتور ہوتا ہے۔ اس میں چکنائی پروٹین اور دوسرے غذائی اجزاءزیادہ پائے جاتے ہیں۔ دہی کے اوپر جو پانی ہوتا ہے اس میں وٹامن اورمنرلز وغیرہ اچھی خاصی مقدار میں موجود ہوتی ہیں کیوں کہ وہ دودھ کا ہی پانی ہوتا ہے۔ جب دودھ جمتا ہے تو پانی اس کے اوپر آجاتا ہے جسے دہی میں ملالیا جاتا ہے۔

دہی نہ صرف کھانوں کو لذت بخشتا ہے بلکہ غذائیت بھی فراہم کرتا ہے۔ جسم کی ضروریات کو بھی پورا کرتا ہے۔ اس کی سب سے بڑی خاصیت یہ ہے کہ یہ نہ صرف بہ آسانی ہضم ہوجاتا ہے بلکہ آنتوں کے نظام پر بھی خوشگوار اثر ڈالتا ہے۔ اسے صحت مند بنانے میں معاون ثابت ہوتا ہے۔ اس میں چکنائی اور حرارے انتہائی کم مقدار میں ہوتے ہیں۔ ایک کپ دہی کے اندر صرف 120حرارے (کلوریز) پائے جاتے ہیں۔ اتنی کم مقدار میں کلوریز کے حامل دہی میںایسے کئی اقسام کے غذائی اجزاءہوتے ہیں جو انسانی صحت کے لیے انتہائی ضروری ہیں۔ مثلاً پروٹین‘ مکھن نکلے دودھ سے بنے دہی کے ایک کپ میں 8 گرام پروٹین ہوتی ہے۔ جب کہ خالص دودھ سے بنے دہی کے ایک کپ میں 7 گرام۔ دہی کی اتنی ہی مقدار میں (مکھن نکلے ہوئے دودھ سے بنائے گئے دہی میں) ایک ملی گرام آئرن‘ 294 ملی گرام کیلشیم‘ 270 گرام فاسفورس‘ 50 ملی گرام پوٹاشیم اور 19 ملی گرام سوڈیم پایا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ وٹامن اے (A) 170 انٹرنیشنل یونٹ۔ وٹامن بی (B) ایک ملی گرام۔ تھیا مین 44 ملی گرام۔ وٹامن بی (ریبوفلاوین) 2 ملی گرام اور وٹامن سی (ایسکور بک ایسڈ) بھی 2 ملی گرام پایا جاتا ہے۔

ڈائٹنگ کرنے اور وزن کرنے والوں کے لیے دہی ایک آئیڈیل خوراک ہے کیوں کہ اس کے اندر حراروں کی تعداد انتہائی کم ہوتی ہے جس کی مقدار اوپر لکھی جاچکی ہے۔ مندرجہ بالا مقدار میں 13 گرام کاربوہائیڈریٹس پائے جاتے ہیں۔ اسی طرح چکنائی کی مقدار بھی بہت کم ہوتی ہے۔ دہی کے ایک کپ میں 4 گرام چکنائی پائی جاتی ہے۔ جب کہ خالص دودھ سے بنے دہی میں یہ مقدار بڑھ کر 8 گرام ہوجاتی ہے۔

دہی میں ایک خاص قسم کے بیکٹیریا پائے جاتے ہیں۔ یہ بیکٹیریا ایک خاص درجہ حرارت پر رکھے جانے والے دودھ کے اندر بڑی تیزی سے پیدا ہوکر بڑھتے چلے جاتے اور دودھ کو نصف ٹھوس حالت میں لادیتے ہیں جسے دہی کہا جاتا ہے۔ یہ بیکٹیریا بہت بڑی مقدار میں وٹامن بی مہیا کرتے ہیں جو آنتوں کے نظام کو صحت مند رکھنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں

 

Read More

دودھ تمام غذائوں کا شہنشاہ ہے

دودھ

دودھ تمام غذائوں کا شہنشاہ ہے

آج سے چودہ سو سال پہلے ہمارے نبی کریم محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے دودھ کے بارے میں ارشاد فرمایاتھا۔
”دودھ تمام غذائوں کا شہنشاہ ہے”
بلاشبہ نبی آخر الزماںۖ کا یہ فرمان چودہ سو سال پہلے بھی درست تھا اور آج تک درست چلا آ رہا ہے۔ انسان ہو کہ جانور جس جاندار پر نظر ڈالتے ہیں تو یہی نظر آتا ہے کہ ہر پیدا ہونے والا بچہ جیسے بھوکا پیدا ہوتا ہے اور وہ اپنی پہلی ہی چیخ میں ”دودھ” کا مطالبہ کرتا ہے۔ پھر جب تک ماں کا دودھ اسکے منہ سے نہیں لگ جاتا وہ چیختا چلاتا رہتا ہے اور جب تک قدرت کا یہ عطیہ اور یہ مکمل غذا اور سب سے زیادہ زود اثر ٹانک اس کے حلق سے نہیں اترتا وہ بے قرار اور بے چین رہتا ہے۔
ہمارے نبی کریمۖ نے دودھ کو صرف تمام غذائوں اور دوائوں کا سرتاج اور شہنشاہ ہی نہیں فرمایا بلکہ دودھ پینے کے بعد اس کے ہضم اور مفید ہونے کے لئے ایک دعا بھی تلقین فرمائی جس کا ترجمہ یہ ہے۔
” اے اللہ دودھ میں برکت فرما اور یہی نعمت ہمیں زیادہ سے زیادہ عطا فرما”۔
دودھ میں غذائی اجزائ
دودھ میں غذائی اجزاء اس مناسبت سے ہیں
دودھ میں پانی کا تناسب 89فیصد
روغنی اجزائ 5فیصد
شکر تین چار فیصد
گوشت پیدا کرنے والے اجزاء 3.5%
بھینس کے دودھ میں ”روغنی اجزائ” زیادہ اور بکری کے دودھ میں معدنی نمکیات زیادہ ہوتے ہیں۔ گائے کے دودھ میں چکنائی کم جبکہ اونٹنی کے دودھ میں نوشادر کے اجزاء زیادہ ہوتے ہیں۔
تحقیق بتاتی ہے کہ ایک سیر دودھ اپنی غذائیت میں ایک سیر گوشت کے برابر ہوتا ہے حالانکہ دودھ کی فی سیر قیمت گوشت کی قیمت کا ایک چوتھیائی ہوتا ہے۔
دودھ کی افادیت
ا) دودھ بچوں جوانوں ، دماغی کام کرنے والوں اور سخت محنت کرنے والوں کے لئے اکسیر ہے۔
ب) بیماری سے صحتیاب ہونے والوں کے لئے مفید ٹانک ہے۔
ج)حاملہ خواتین کے لئے ایک خوش ذائقہ اور زود ہضم غذا کا کام کرتا ہے۔
د)معیادی بخار’ سل دق اور ہڈیوں میں کیلشیم پیدا اور خون بڑھانے کے لئے کار آمد ہوتا ہے۔
دودھ کا مزاج گرم تر ہے۔ یہ قبض کشا’ پسینہ اور پیشاب کے ذریعہ بدن کا زہر خارج کرتا ہے۔ دودھ پینے والوں کی عمر بڑھتی اور بیماریوں سے محفوظ رہتے ہیں۔دودھ بدن میںرطوبت پیدا کرتا ہے۔ دودھ زود ہضم ہے اور دل ، جگر ، معدہ ، انتڑیوں، چربی غدود اور ہڈیوں کی گرمی اور خشکی دور کرتا ہے۔
دودھ کا فعل اور اثر
دودھ کا ذاتی فعل تو قبض دور کرنا ہے۔ اور تجربہ بھی یہ بتاتا ہے کہ 80%لوگ دودھ کے استعمال سے تندرست و توانا ہوجاتے ہیںمگر ایسا بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ پندرہ سے بیس لوگ ، دودھ میں فولادی اجزاء کے شامل ہونے سے قبض میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔
دراصل یہ دودھ کا اثر نہیں بلکہ ایسا دودھ میں ملاوٹ کی وجہ سے ہوتا ہے۔ ہمارے ملک میں ”ملاوٹ” کی وجہ عام ہے۔لہذا جو لوگ بازار کا دودھ استعمال کرتے ہیں انہیں عام طور پر قبض ہو جاتا ہے۔ اس لئے جنہیں خالص دودھ نہیں ملتا، انہیں چاہئے کہ وہ دودھ میں ایک چھوارہ ڈال کر گرم کریں اس طرح دودھ ہضم ہونے میں آسانی ہو گی اور قبض کی شکایت پیدا نہ ہو گی۔
تبخیر اور گیس
تبخیر اور گیس کے مریض جن کا پیٹ بڑھ جاتا ہے ہاتھ پیرسوجاتے ہیں اور کمزوری کی وجہ سے جلدتھکن پیدا ہو جاتی ہے اور پانی منہ میں بھر بھر آتا ہے انکا علاج یہ ہے۔
ایک پائو دودھ میں دو کھجوریں ‘ چھ ماشہ بادیاں (سونف) ‘ایک عدد بڑی الائچی صبح کے وقت ناشتہ کے طور پر استعمال کریں اور شام کو چائے کی جگہ بھی یہ استعمال کریں۔
دودھ ہر وقت پیا جا سکتا ہے دن کے کسی حصے میں اس کے پینے کی ممانعت نہیں۔ دودھ ہمیشہ گھونٹ بھر بھر کے پینا چاہئے۔ اس سے آکسیجن ملتی ہے اور دودھ جلد ہضم ہو جاتا ہے جو لوگ سوتے وقت دودھ پیتے ہیں انہیں اس میں فرحت اور لذت حاصل ہوتی ہے۔ ایک تندرست جسم میں دودھ دو گھنٹوں کے اندر اندر ہضم ہو جاتا ہے۔

گلاب کا پھول مختلف بیماریوں میں فائدہ دیتا ہے

گلاب کے پھول
گلاب کے پھول

 

 گلاب کا پھول مختلف بیماریوں میں فائدہ دیتا ہے

دیسی گلاب کا پھول محبت کی علامت ہے۔اس کے شوخ رنگ جذبات کے اظہار کا موثر ذریعہ ہیں۔جب گلاب شاعری میں آتا ہے تو شعراء کرام اسے محبت کی ڈوریوں میں پرو کر اپنی اُلفت کا اظہار کرتے ہیں۔گلاب جب طبیب اور حکماء کے پاس آتا ہے تو وہ اسے بنی نوع انسان کو فائدہ پہنچانے اس کے طبی خواص کو کشید کرکے دوائیں تیار کرتے ہیں۔غرضکیہ پھولوں میں گلاب کی جو اہمیت ہے وہ اسے بجا طور پر شہنشاہِ گُل کا درجہ دیتی ہے۔
طب کی دنیا میں حکماء جب لفظ ” گلاب ” استعمال کرتے ہیں تو اس سے مُراد ہمیشہ دیسی گلاب کا پھول ہوتا ہے۔عام طور پر گلاب کو دو اقسام میں شمار کرتے ہیں ایک کو دیسی گلاب اور دوسری قسم کو ولائتی گلاب یا انگریزی گلاب کہتے ہیں۔لیکن یہ حقیقت ہے کہ خوشبو کے لحاظ سے دیسی گلاب بلکل منفرد ہے دیسی گلاب کو بھی مزید دو اقسام میں تقسیم کیا جاتا ہے ۔پہلی قسم کو ” سیوتی” اور دوسری قسم کو ” سندھی ” گلاب کہتے ہیں۔سیوتی گلاب کا رنگ گلابی مائل سرخ اور خوشبو ذرا ہلکی ہوتی ہے،جب کہ سندھی گلاب تیز سرخ بلکہ ہلکا سیاہی مائل ہوتا ہے اور اس کی خوشبو زیادہ تیز ہوتی ہے۔گلاب کا عطر اسی گلاب سے بنتا ہے۔
گلاب مختلف بیماریوں میں فائدہ دیتا ہے لیکن گلاب کا دیسی ہونا ضروری ہے۔
قبض اور گلاب
تازہ گلاب میں قبض کو دور کرنے کی صفت موجود ہے۔خشک گلاب قبض پیدا کرتا ہے۔اگر کسی کو قبض کی شکایت ہو تو تازہ گلاب کی پتیوں کو دودھ میں اُبال لیں پھر چھان کر ٹھنڈا کر لیں اور چینی ملا کر شربت کی طرح گھونٹ لے لے کر پی لیں اس سے قبض میں فائدہ ہوتا ہے۔
گلاب کا سونگھنا
گلاب کے فوائد ایسے عظیم الشان ہیں کہ اس کا پینا اور کھانا تو ایک طرف صرف گلاب کو سونگھنے سے ہی دل کی دھڑکن میں نظم پیدا ہوتا ہے۔اس کو سونگھنے سے دماغ کو بیداری اور قرار حاصل ہوتا ہے۔بے ہوشی کی حالت میں اگر اصلی اور خالص گلاب کے عطر کو دیگر ادویات کے ساتھ ملا کر حکماء مریض کو سنگھائیں تو متاثرہ شخص کو فوراً ہوش آ جاتا ہے۔
گرمی سے سر میں درد
گرمی میں سر کا درد ہو،کنپٹیوں میں ٹیسیں اُٹھتی ہوں سر سے گرمی نکلتی ہو اور دل میں بے چینی ہو رہی ہو تو ایسے میں عرقِ گلاب کا پینا اور خالص عطرِ گلاب کا بار بار سونگھنا فائدہ دیتا ہے اگر متلی اور چکر آتے ہوں تو وہ بھی ٹھیک ہو جاتے ہیں۔
جسم کی سوزش
گلاب کی پتیوں کو پیس کر جس جگہ ورم ہو وہاں پر لگانے سے ورم تحلیل ہو جاتا ہے ۔اس کے علاوہ گلاب کے تازہ پھولوں کو تھوڑے سے پانی میں جوش دے کر پیس لیں اور ورم کی جگہ لیپ کرتے رہیں اس سے بھی ورم تحلیل ہو جاتا ہے۔
پسینہ اور بدبو
بعض لوگوں کے جسم پر بدبو دار پسینہ آتا ہے یا بہت پسینہ آتا ہے۔بار بار نہانے کے باوجود بھی تازگی محسوس نہیں ہوتی،ایسے افراد اگر گلاب کی پتیاں جسم پر ملیں تو اس سے پسینہ آنا کم ہوجاتا ہے اور بدبو بھی دور ہوجاتی ہے۔
گرمی سے آنکھوں میں درد
گرمی کی وجہ سے اگر آنکھیں درد کرنے لگیں تو عرقِ گلاب آنکھوں میں ڈالنے سے فائدہ ہوتا ہے۔تازہ گلاب کی پتیوں کو پیس کر ایک کپڑے میں رکھ کر پوٹلی بنا لیں اس پوٹلی کو پپوٹوں ‌پر رکھنے سے بھی آنکھوں کو سکون ملتا ہے آنکھیں تازہ دم ہو جاتی ہیں اس سے آنکھوں میں نہ تو کسی قسم کی خارش ہوتی ہے نہ ہی کوئی سوجن۔
دانتوں کی کمزوری
مسوڑھے کمزور ہوں اور ان کی وجہ سے دانت کمزور ہو جائیں تو تازہ خشک کئے ہوئے گلاب کے پھولوں کو پانی میں جوش دے کر اس سے بار بار کلیاں کرنی چاہییے۔خشک گلاب کی پتیوں کو باریک پیس کر سفوف بنا کر منجن کی طرح روزآنہ دوبار دانت برش کرنے سے دانتوں کی کمزوری بھی دور ہوتی ہے اور اگ منہ سے ناگوار مہک آتی ہو تو وہ بھی بند ہوجاتی ہے۔
ہاتھ پاؤں کی جلن
بہت سے لوگوں کو یہ شکایت ہوتی ہے کہ اُن کے ہاتھ پاؤں سے آگ نکلتی محسوس ہوتی ہے ۔کیسی ہی سخت سے سخت سردی ہو یہ لوگ پاؤں لحاف سے باہر نکال کر ہی سوتے ہیں۔ایسے لوگوں کو چاہییے کہ ایک بڑا چمچ عرقِ گلاب آدھے گلاس پانی میں حل کرکے چینی ملا کر ٹھنڈا کر کے پی لیں اس سے ان کی یہ شکایت دور ہو جائے گی۔
پیاس کی شدت میں کمی
گرمی کا موسم اور کُھلے ماحول میں کام کاج کرنے کی نوبت آئے تو ایسے میں پیاس کی شدت بڑھ جاتی ہے۔اگر آپ کو گرمیوں میں پیاس کی شدت ستائے تو خالص عرقِ گلاب تھوڑی مقدار میں‌ پانی اور چینی میں ملا کر شربت بنا لیں اور برف ڈال کر پی لیں اس سے سکون ملے گا اور پیاس کی شدت کم ہوجائے گی۔
جلد اور رنگت کا نکھار
اگر گرمی کی شدت سے چہرے کا رنگ سانولا ہو جائے تو اس کے تدارک اور رنگت کے نکھار کے لئے خشک گلاب کی پتیوں کو پیس لیں اور پھر اس سفوف کو ہم وزن بیسن میں ملا کر رکھ لیں اور استعمال کے وقت تھوڑا سا آمیزہ لے کر دودھ ملا کر پیسٹ بنا لیں اور چہرے کو اچھی طرح پانی سے دھو کر گلاب کے اس اُبٹن کو چہرے اور گردن پر لگا لیں اور خشک ہونے دیں خشک ہونے پر پانی سے دھو کر صاف کر لیں اس سے چہرے پر سُرخی آتی ہے اور رنگت بھی نکھرتی ہے۔
اگر آپ کیل مُہاسوں سے پریشان ہیں تو اِنہیں دور کرنے کے لئے عرقِ گلاب اور گلیسرین ہم وزن لے کر ملا لیں اور روٹی کے باسی ٹکرے کی مدد سے اس کو چہرے پر ماسک کی طرح لگا لیں اور سوکھنے پر پانی سے دھو لیں چند بار کے استعمال سے ہی چہرہ صاف ہو جائے گا۔گلاب کی تازہ پتیوں کو پانی میں جوش دے کر ٹھنڈا کرکے نہانے کے پانی میں اس کو ملا کر نہایا جائے تو تازگی کا احساس ہوتا ہے۔

دواء خود بنا لیں یاں ہم سے بنی ہوئی منگوا سکتے ہیں
میں نیت اور ایمانداری کے ساتھ اللہ کو حاضر ناضر جان کر مخلوق خدا کی خدمت کرنے کا عزم رکھتا ہوں آپ کو بلکل ٹھیک نسخے بتاتا ہوں ان میں کوئی کمی نہیں رکھتا یہ تمام نسخے میرے اپنے آزمودہ ہوتے ہیں آپ کی دعاؤں کا طلب گار حکیم محمد عرفان
ہر قسم کی تمام جڑی بوٹیاں صاف ستھری تنکے، مٹی، کنکر کے بغیر پاکستان اور پوری دنیا میں ھوم ڈلیوری کے لیے دستیاب ہیں تفصیلات کے لیے کلک کریں
فری مشورہ کے لیے رابطہ کر سکتے ہیں
Helpline & Whatsapp Number +92-30-40-50-60-70
Desi herbal, Desi nuskha,Desi totkay,jari botion se ilaj,Al shifa,herba