وضو اور سائنس
الحمدللہ رب العٰلمین والصلوٰۃ والسلام علی سیدالانبیاء والمرسلین اما بعد فاعوذ باللہ من الشیطٰن الرجیم بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
اللہ عزوجل کے محبوب، دانائے غیوب، منزہ عن العیوب صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کا فرمانِ عظمت نشان ہے، “اللہ عزوجل کی خاطر آپس میں محبت رکھنے والے جب باہم ملیں اور مصافحہ کریں اور نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم پر درود پاک پڑھیں تو ان کے جدا ہونے سے پہلے دونوں کے اگلے پچھلے گناہ بخش دئیے جاتے ہیں۔“ (مسند ابی یعلی رقم الحدیث 2951 ج3 ص95 طبقۃ دارالکتب بیروت)
صلوا علی الحبیب! صلی اللہ تعالٰی علٰی محمد، صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم
قبول اسلام کا عجیب سبب
ایک صاحب کا بیان ہے، میں نے بیلجیئم میں یونیورسٹی کے ایک طالب علم کو اسلام کی دعوت دی۔ اُس نے سوال کیا وضو میں کیا کیا سائنسی حکمتیں ہیں ؟ میں لاجواب ہو گیا۔ اُس کو ایک عالم کے پاس لے گیا لیکن اُن کو بھی اس کی معلومات نہ تھیں۔ یہاں تک کہ ایک صاحب نے اُس کو وضو کی کافی خوبیاں بتائیں مگر دن کے مسح کی حکمت بتانے سے وہ بھی قاصر رہے۔ وہ چلا گیا۔ کچھ عرصے کے بعد آیا اور کہنے لگا، ہمارے پروفیسر نے دورانِ لیکچر بتایا، “اگر گردن کی پشت اور اطراف پر روزانہ پانی کے چند قطرے لگا دئیے جائیں تو ریڑھ کی ہڈی اور حرام مغز کی خرابی سے پیدا ہونے والے امراض سے تحفظ حاصل ہو جاتا ہے۔“ یہ سن کر وضو میں گردن کے مسح کی حکمت میری سمجھ میں آگئی لٰہذا میں مسلمان ہونا چاہتا ہوں اور وہ مسلمان ہو گیا
صلوا علی الحبیب! صلی اللہ تعالٰی علٰی محمد، صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلممغربی جرمنی کا سیمینار
مغربی ممالک میں مایوسی یعنی (Depression) کا مرض ترقی پر ہے دماغ فیل ہو رہے ہیں۔ پاگل خانوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ نفسیاتی امراض کے ماہرین کے یہاں مریضوں کا تانتا بندھا رہتا ہے۔ مغربی جرمنی کے ڈپلومہ ہولڈر ایک فیصل آبادی فزیو تھراپسٹ کا کہنا ہے، مغربی جرمن میں ایک سیمینار ہوا جس کا موضوع تھا “مایوسی (Depression) کا علاج ادویات کے علاوہ اور کن کن طریقوں سے ممکن ہے۔“ ایک ڈاکٹر نے اپنے مقالے میں یہ حیرت انگیز انکشاف کیا کہ “میں نے ڈپریشن کے چند مریضوں کے روزانہ پانچ بار منہ دھلائے کچھ عرصے بعد ان کی بیماری کم ہوگئی۔ پھر ایسے ہی مریضوں کے دوسرے گروپ کے روزانہ پانچ بار ہاتھ، منہ اور پاؤں دھلوائے تو مرض میں بہت افاقہ ہو گیا۔ یہی ڈاکٹر اپنے مقالے کے آخر میں اعتتراف کرتا ہے، “مسلمانوں میں مایوسی کا مرض کم پایا جاتا ہے کیونکہ وہ دن میں کئی مرتبہ ہاتھ، منہ اور پاؤں دھوتے یعنی وضو کرتے ہیں۔“
صلوا علی الحبیب! صلی اللہ تعالٰی علٰی محمد، صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلموضو اور ہائی بلڈ پریشر
ایک ہارٹ اسپیشلسٹ کا بڑے وثوق کے ساتھ کہنا ہے، “ہائی بلڈ پریشر کے مریض کو وضو کراؤ پھر اس کا بلڈ پریشر چیک کرو لازماً کم ہوگا۔ ایک مسلمان ماہ نفسیات ڈاکٹر کا قول ہے “نفسیاتی امراض کا بہترین علاج وضو ہے۔“ مغربی ماہرین نفسیاتی مریضوں کو وضو کی طرح روزانہ کئی بار بدن پر پانی لگواتے ہیں۔
وضو اور فالج
وضو میں ترتیب وار اعضاء دھو جاتے ہیں یہ بھی حکمت سے خالی نہیں۔ پہلے ہاتھوں کو پانی میں ڈالنے سے جسم کا اعصابی نظام مطلع ہو جاتا ہے اور پھر آہستہ آہستہ چہرے اور دماغ کی رگوں کی طرف اس کے اثرات پہنچتے ہیں۔ وضو میں پہلے ہاتھ دھونے پھر کلی کرنے پھر ناک میں پانی ڈالنے پھر چہرہ اور دیگر اعضاء دھونے کی ترتیب فالج کی روک تھام کیلئے مفید ہے۔ اگر چہرہ دھونے اور مسح کرنے سے آغاز کیا جائے تو بدن کئی بیماریوں میں مبتلا ہو سکتا ہے۔
مسواک کا قدر دان
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! وضو میں متعدد سنتیں ہیں اور ہر سنت محزنِ حکمت ہے۔ مسواک ہی کو لے لیجئے! بچہ بچہ جانتا ہے کہ وضو مین مسواک کرنا سنت ہے اور اس سنت کی برکتوں کا کیا کہنا! ایک بیوپاری کا کہنا ہے، “سوئیزلینڈ میں ایک نو مسلم سے میری ملاقات ہوئی۔ اس کو میں نے تحفہ میں مسواک پیش کی۔ اُس نے خوش ہوکر اسے لیا اور چوم کر آنکھوں سے لگایا، اور اس کی آنکھوں سے آنسو چھلک پڑے۔ اُس نے جیب سے ایک رومال نکالا اس کی تہ کھولی تو اس میں سے تقریباً دو انچ کا چھوٹا سا مسواک کا ٹکڑا بدآمد ہوا۔ کہنے لگا، مییر اسلام آوری کے وقت مسلمانوں نے مجھے یہ تحفہ دیا تھا۔ میں بہت سنبھال سنبھال کر اس کو استعمال کر رہا تھا یہ ختم ہونے کو تھا لٰہذا مجھے تشویش تھی کہ اللہ عزوجل نے کرم فرمایا اور آپ نے مجھے مسواک عنایت فرما دی۔ پھر اُس نے بتایا کہ ایک عرصے سے میں دانتوں اور مسوڑھوں کی تکلیف سے دوچار تھا۔ ہمارے یہاں کہ ڈینٹسٹ سے ان کا علاج بن نہیں پڑ رہا تھا۔ میں نے اس مسواک کا استعمال شروع کیا تھوڑے ہی دنوں میں مجھے افاقہ ہو گیا میں ڈاکٹر کے پاس گیا تو وہ حیران رہ گیا اور پوچھنے لگا، میری دوا سے اتنی جلدی مرض دور نہیں ہوسکتا سوشو کوئی اور وجہ ہوگی۔ میں نے جب ذہن پر زور دیا تو خیال آیا کہ میں مسلمان ہو چکا ہوں اور یہ ساری برکت مسواک ہی کی ہے۔ جب میں نے ڈاکٹر کو مسواک دکھائی تو وہ حیرت سے دیکھتا رہ گیا۔
صلوا علی الحبب! صلی اللہ تعالٰی علٰی محمد، صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم
قوت حافظہ کیلئے
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! ہمارے پیارے آقا صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم مسواک کا بے حد اہتمام فرماتے۔ مسلم شریف (ج1 ص128 طبعۃ افغانستان ) میں ہے، “آقا علیہ الصلوٰۃ والسلام جب گھر میں داخل ہوتے تو سب سے پہلے مسواک کرتے۔“ ابو داؤد (رقم الحدیث 57 ج1 ص36 طبعٰ دار احیاء التراث العربی) میں ہے، “آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم جب نیند سے بیدار ہوتے تو مسواک کرتے۔“ میرے آقا صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے خود بھی مسواک استعمال فرمائی اور اپنے غلاموں کو بھی مسواک استعمال کرنے کی ترغیب دلائی۔ مسند امام احمد (رقم الحدیث 5869 ص438 طبعۃ دارالفکر بیروت ) میں ہے، “تم مسواک کو لازم پکڑ لو کہ یہ منہ کوپاک کرنے والی اور رب تعالٰی کو راضی کرنے والی ہے۔“ اس میں بیمشار دینی و دنیوی فوائد ہیں۔ مسواک میں متعدد کیمیاوی اجزاء ہیں جو دانتوں کو ہر طرح کی بیماری سے بچاتے ہیں۔ حضرت مولٰی مشکل کشا علی المرتضٰی کرم اللہ وجہہ الکریم، حضرت عطاء رضی اللہ تعالٰی عنہ اور حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما کا فرمان عالیشان ہے، “مسواک سے قوت حافظہ بڑھتی، درد سر دور ہوتا اور سر کی رگوں کو سکون ملتا ہے، اس سے بلغم دور، نظر تیز، معدہ درست اور کھانا ہضم ہوتا ہے، عقل بڑھتی بچوں کی پیدائش میں اضافہ ہوتا، بڑھاپا دیر میں آتا اور پیٹھ مضبوط ہوتی ہے۔“ (ملخصاً حاشیہ الطحطاوی ص68 طبعۃ قدیمی کتب خانہ کراچی )
منہ کے چھالے
اطباء کا کہنا ہے، “بعض اوقات گرمی اور معدہ کی تیزابیت سے منہ میں چھالے پڑ جاتے ہیں اور اس مرض سے خاص قسم کے جراثیم منہ میں پھیل جاتے ہیں۔ اس کیلئے منہ میں تازہ مسواک ملیں اور اس سے لعاب کو کچھ دیر تک منہ کے اندر پھراتے رہیں۔ اس طرح کئی مریض ٹھیک ہو چکے ہیں۔“
ٹوتھ برش کے نقصانات
ماہرین کی تحقیق کے مطابق “80 فیصد امراض معدہ اور دانتوں کی خرابی سے پیدا ہوتے ہیں۔“ عموماً دانتوں کی صفائی کا خیال نہ رکھنے کی وجہ سے مسوڑھوں میں طرح طرح کے جراثیم پرورش پاتے پھر معدے میں جاتے اور طرح طرح کے امراض کا سبب بنتے ہیں۔ یاد رہے! ٹوتھ برش مسواک کا نعم البدل نہیں۔ بلکہ ماہرین نے اعتراف کیا ہے۔ (1) جب برش کو ایک بار استعمال کر لیا جاتا ہے تو اُس میں جراثیم کی تہ جم جاتی ہے پانی سے دھلنے پر بھی وہ جراثیم نہیں جاتے بلکہ وہیں نشوونما پاتے رہتے ہیں۔ (2) برش کے باعث دانتوں کی اوپری قدرتی چمکیلی تہ اتر جاتی ہے۔
(3) برش کے استعمال سے مسوڑھے آہستہ آہستہ اپنی جگہ چھوڑتے جاتے ہیں جس سے دانتوں اور مسوڑھوں کے درمیان خلاء (Gap) پیدا ہو جاتا ہے اور اس میں غذا کے ذرات اٹکتے، سڑتے اور جراثیم اپنا گھر بناتے ہیں اس سے دیگر بیماریوں کے علاوہ آنکھوں کے طرح طرح کے امراض بھی جنم لیتے ہیں۔ اس سے نظر کمزور ہو جاتی ہے بلکہ بعض اوقات آدمی اندھا ہو جاتا ہے۔
مسواک کس طرح استعمال کریں
آپ کے دل میں ہو سکتا ہے یہ خیال آئے کہ میں تو برسوں سے مسواک استعمال کرتا ہوں مگر میرے تو دانت اور پیٹ دونوں ہی خراب ہیں۔ میرے بھولے بھالے اسلامی بھائی! اس میں مسواک کا نہیں آپ کا اپنا قصور ہے۔ میں سگ مدینہ عفی عنہ اس نتیجےپر پہنچا ہوں کہ آج شاید لاکھوں میں سے کوئی ایک آدھ ہی ایسا ہو جو صحیح اصولوں کے مطابق مسواک استعمال کرتا ہو، ہم لوگ اکثر جلدی جلدی دانتوں پر مسواک مل کر وضو کرکے چل پڑتے ہیں۔ یعنی یوں کہئے کہ ہم مسواک نہیں بلکہ “رسم مسواک“ ادا کرتے ہیں۔ (1) مسواک کی موٹائی چھنگلیا یعنی چھوٹی انگلی کے برابر ہو۔ (2) مسواک ایک بالشت سے زیادہ لمبی نہ ہو۔ (3) اس کے ریشے نرم ہوں کہ سخت ریشے دانتوں اور مسوڑھوں کے درمیان خلاء (Gap) کا باعث بنتے ہیں۔ (4) مسواک تازہ ہو تو خوب ورنہ پانی کے گلاس میں بھگو کر نرم کر لیں۔ (5) اس کے ریشے روزانہ کاٹتے رہیں کہ ریشے اُس وقت تک کارآمد رہتے ہیں جب تک ان میں تلخی باقی رہے۔ (6) دانتوں کی چوڑائی میں مسواک کریں۔ (7) جب بھی مسواک کریں کم از کم تین بار کریں۔ ( 8 ) ہر بار دھو لیا کریں۔ (9) مسواک سیدھے ہاتھ میں اس طرح لیں کہ چھنگلیا اس کے نیچے اور بیچ کی تین انگلیاں اوپر اور انگوٹھا سرے پر ہو۔ (10) چت لیٹ کر مسواک کرنے سے تلی بڑھ جانے اور (11) مٹھی باندھ کر کرنے سے بواسیر ہو جانے کا اندیشہ ہے۔ (12) مستعمل مسواک کے ریشے اور جب یہ ناقابل استعمال ہو جائے تو پھینک نہ دیں کہ یہ آلہء ادائے سنت ہے۔ کسی جگہ احتیاط سے رکھ دیں یا دفن کر دیں یا سمندر میں ڈال دیں۔ (ماخوذ از بہار شریعت حصہ2 ص17 طبعۃ مکتبہ رضویہ کراچی)
ہاتھ دھونے کی حکمتیں
وضو میں سب سے پہلے ہاتھ دھوئے جاتے ہیں اس کی حکمتیں ملاحظہ ہوں۔ مختلف چیزوں میں ہاتھ ڈالتے رہنے سے ہاتھوں میں مختلف کیمیاوی اجزاء اور جراثیم لگ جاتے ہیں اگر سارا دن ہاتھ نہ دھوئے جائیں تو ہاتھ جلد ہی ان جلدی امراض میں مبتلا ہو سکتے ہیں۔ (1) ہاتھوں کے گرمی دانے (2) جلدی سوزش (3) ایگزیما (4) پھپھوندی کی بیماریاں (5) جلد کی رنگت تبدیل ہو جانا وغیرہ۔ جب ہم ہاتھ دھوتے ہیں تو انگلیاں کے پوروں سے شعائیں (Rays) نکل کر ایک ایسا حلقہ بناتی ہیں جس سے ہمارا اندرونی برقی نظام متحرک ہو جاتا ہے اور ایک حد تک برقی رو ہمارے ہاتھوں میں سمٹ آتی ہے اس سے ہمارے ہاتھوں میں حُسن پیدا ہو جاتا ہے۔
کلی کرنا کی حکمتیں
پہلے ہاتھ دھو لئے جاتے ہیں جس سے وہ جراثیم سے پاک ہو جاتے ہیں ورنہ یہ کلی کے ذریعہ منہ میں اور پھر پیٹ میں جاکر متعدد امراض کا باعث بن سکتے ہیں۔ غذا کے ذرات اور ہوا کے ذریعے لاتعداد مہلک جراثیم ہمارے منہ اور دانتوں میں لعاب کے ساتھ چپک جاتے ہیں چنانچہ وضو مین مسواک اور کلیوں کے ذریعہ منہ کی بہترین صفائی ہو جاتی ہے۔ اگر منہ کو صاف نہ کیا جائے تو ان امراض کا خطرہ پیدا ہو جاتا ہے۔ (1) ایڈر کہ اس کی ابتدائی علامات میں منہ کا پکنا بھی شامل ہے۔ (2) منہ کے کناروں کا پھٹنا۔ (3) منہ اور ہونٹوں کی دادقوبا (Moniliassis)
(4) منہ میں پھوپھوندی کی بیماریاں اور چھالے وغیرہ نیز روزہ نہ ہو تو غرغرہ کرنا بھی سنت ہے اور پابندی کے ساتھ غرغرے کرنے والا کوے بڑھنے (Tonsil) اور گلے کے بہت سارے امراض حتٰی کہ گلے کے کینسر سے محفوظ رہتا ہے۔
ناک میں پانی ڈالنے کی حکمتیں
پھیپھڑوں کو ایسی ہوا درکار ہوتی ہے جو جراثیم، دھوئیں اور گردو غبار سے پاک ہو اور اس میں 80 فیصد رطوبت یعنی تری ہو اور جس کا درجہء حرارت 90 درجہ فارن ہائٹ سے زائد ہو۔ ایسی ہوا فراہم کرنے کیلئے اللہ عزوجل نے ہمیں ناک کی نعمت سے نوازا ہے۔ ہوا کو مرطوب یعنی نم بنانے کیلئے ناک روزانہ تقریباً چوتھائی گیلن نمی پیدا کرتی ہے۔ صفائی اور دیگر سخت کام نتھنوں کے بال سر انجام دیتے ہیں۔ ناک کے اندر ایک خورد بین (Microscopic) جھاڑو ہے۔ اس جھاڑو میں غیر مرئی یعنی نظر نہ آنے والے روئیں ہوتے ہیں جو ہوا کے ذریعے داخل ہونے والے جراثیم کو ہلاک کر دیتے ہیں۔ نیز ان غیر مرئی رؤوں کے ذمے ایک اور دفاعی نظام بھی ہے جسے انگریزی میں Lysoziun کہتے ہیں، ناک اس کے ذریعے سے آنکھوں کو Infestion سے محفوظ رکھتی ہے۔ الحمدللہ عزوجل! وضو کرنے والا ناک میں پانی چڑھاتا ہے جس سے جسم کے اس اہم ترین آلے ناک کی صفائی ہو جاتی ہے اور اپنی کے اندر کام کرنے والی برقی رو سے ناک کے اندرونی غیر مرئی رؤوں کی کارکردگی کو تقویت پہنچتی ہے اور مسلمان وضو کی برکت سے ناک کے بیمشار پیچیدہ امراض سے محفوظ ہو جاتا ہے۔ دائمی نزلہ اور ناک کے زخم کے مریضوں کیلئے ناک کا غسل (یعنی وضو کی طرح ناک میں پانی چڑھانا) بے حد مفید ہے۔
چہرہ دھونے کی حکمتیں
آج کل فضاؤں میں دھوئیں وغیرہ کی آلودگیاں بڑھتی جا رہی ہیں۔ مختلف کیمیاوی مادے سیسہ وغیرہ میل کچیل کی شکل میں آنکھوں اور چہرے وغیرہ پر جمتا رہتا ہے۔ اگر چہرہ نہ دھویا جائے تو چہرے اور آنکھیں کئی امراض سے دوچار ہو جائیں ایک یورپین ڈاکٹر نے ایک مقالہ لکھا جس کا نام تھا، Eye, Water, Health اس مین اس نے اس بات پرز ور دیا کہ “اپنی آنکھوں کو دن میں کئی بار دھوتے رہو ورنہ تمہیں خطرناک بیماریوں سے دوچار ہونا پڑیگا۔“ چہرہ دھونے سے منہ پر کیل نہیں نکلتے یا کم نکلتے ہیں۔ ماہرین حُسن و صحت اس بات پر مفتق ہیں کہ ہر طرح کے Cream اور Lotion وغیرہ چہرے پر داغ چھوڑتے ہیں۔ چہرے کو خوبصورت بنانے کیلئے چہرے کو کئی بار دھونا لازمی ہے۔ “امریکن کونسل فار بیوٹی“ کی سرکردہ ممبر “بیچر“ نے کیا خوب انکشاف کیا ہے کہتی ہے “مسلمانوں کو کسی قسم کے کیمیاوی لوشن کی حاجت نہیں وضو سے انکا چہرہ دھل کر کئی بیماریوں سے محفوظ ہو جاتا ہے۔“ محکمہء ماحولیات کے ماہرین کا کہنا ہے، “چہرے کی الرجی سے بچنے کیلئے اس کو بار بار دھونا چاہئیے۔“ الحمدللہ عزوجل! ایسا صرف وضو کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ الحمدللہ عزوجل! وضو میں چہرہ دھونے سے چہرے کا مساج ہو جاتا، خون کا دوراں چہرے کی طرف رواں ہو جاتا، میل کچیل بھی اتر جاتا اور چہرے کا حُسن دوبالا ہو جاتا ہے۔
اندھا پن سے تحفظ
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! میں آنکھوں کے ایک ایسے مرض کی طرف توجہ دلاتا ہوں جس میں آنکھوں کی رطوبت اصلیہ یعنی اصلی تری کم یا ختم ہو جاتی اور مریض آہستہ آہستہ اندھا ہو جاتا ہے۔ طبی اصول کے مطابق اگر بھنوؤں کو وقتاً فوقتاً تر کیا جاتا رہے تو اس خوفناک مرض سے تحفظ حاصل ہو سکتا ہے۔ الحمدللہ عزوجل! وضو کرنے والا منہ دھوتا ہے اور اس طرح اس کی بھنویں تر ہوتی رہتی ہیں۔ جو خوش نصیب اپنے چہرے پر داڑھی مبارک سجاتے وہ سنیں، ڈاکٹر پروفیسر جارج ایل کہتا ہے، “منہ دھونے سے داڑھی میں الجھے ہوئے جراثیم پہ جاتے ہیں۔ جڑ تک پانی پہنچتے سے بالوں کی جڑیں مضبوط ہوتی ہیں۔ خلال (کی سنت ادا کرنے کی برکت) سے جوؤں کا خطرہ دور ہوتا ہے۔ مذید داڑھی میں پانی کی تری کے ٹھہراؤ سے گردن کے پٹھوں، تھائی رائیڈ گلینڈ اور گلے کے امراض سے حفاظت ہوتی ہے۔“
کہنیاں دھونے کی حکمتیں
کہنی پر تین بڑی رگیں ہیں جن کا تعلق بالواسطہ دل، جگر اور دماغ سے ہے اور جسم کا یہ حصہ عموماً ڈھکا رہتا ہے اگر اس کو اپنی اور ہوا نہ لگے تو متعدد دماغی اور اعصابی امراض پیدا ہو سکتے ہیں۔ وضو میں کہنیوں سمیت ہاتھ دھونے سے دل، گر اور دماغ کو تقویت پہنچے گی اور انشاءاللہ عزوجل وہ امراض سے محفوظ رہیں گے۔ مذید یہ کہ کہنیوں سمیت ہاتھ دھونے سے سینے کے اندر ذخیرہ شدہ روشنیوں سے براہِ راست انسان کا تعلق قائم ہو جاتا ہے اور روشنیوں کا ہجوم ایک بہاؤ کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ اس عمل سے ہاتھوں کے عضلات یعنی کل پُرزے مذید طاقور ہو جاتے ہیں۔
مسح کی حکمتیں
سرا ور گردن کے درمیان “حبل الورید“ یعنی شہ رگ واقع ہے اس کا تعلق ریڑھ کی ہڈی اور حرام مغز اور جسم کے تمام تر جوڑوں سے ہے۔ جب وضو کرنے والا گردن کا مسح کرتا ہے تو ہاتھوں کے ذریعے برقی رونکل کر شہ رگ میں ذخیرہ ہو جاتی ہے اور ریڑھ کی ہڈی سے ہوتی ہوئی جسم کے تمام اعصابی نظام میں پھیل جاتی ہے اور اس سے اعصابی نظام کو توانائی حاصل ہوتی ہے۔
پاگلوں کا ڈاکٹر
ایک صاحب کا بیان ہے “میں فرانس میں ایک جگہ وضو کر رہا تھا۔ ایک شخص کھڑا بڑے غور سے مجھے دیکھتا رہا۔ جب میں فارغ ہوا تو اُس نے مجھ سے پوچھا، “آپ کون اور کہاں کے وطنی ہیں ؟“ میں نے جواب دیا، میں پاکستان مسلمان ہوں۔ پوچھا پاکستان میں کتنے پاگل خانے ہیں ؟ اس عجیب و غریب سوال پر میں چونکا مگر میں نے کہہ دا، دو چار ہوں گے۔ پوچھا، ابھی تم نے کیا کیا ؟ میں نے کہا، وضو۔ کہنے لگا، کیا روزانہ کرتے ہو ؟ میں نے کہا، ہاں بلکہ پانچ وقت۔ وہ بڑا حیران ہوا۔ اور بولا، میں Mental Hospital مین سرجن ہوں اور پاگل پن کے اسباب کی تحقیق میرا مشغلہ ہے میری تحقیق یہ ہے کہ دماغ سے سارے بدن میں سگنل جاتے ہیں اور اعضاء کام کرتے ہیں ہمارا دماغ ہر وقت Fulid (مائع) کے اندر Float (یعنی تیرنا) کر رہا ہے۔ اس لئے ہم بھاگ دوڑ کرتے ہیں اور دماغ کو کچھ نہیں ہوتا اگر وہ کوئی Rigid (سخت) شے ہوتی تو اب تک ٹوٹ چکی ہوتی۔ دماغ سے چند باریک رگیں Conductor (موصل) بن کر ہمارے گردن کی پشت سے سارے جسم کو جاتی ہیں۔ اگر بال بہت بڑھا دئیے جائیں اور گردن کی پشت کو خشک رکھا جائے تو ان رگوں یعنی (Conductor) میں خشکی پیدا ہو جانے کا خطرہ کھڑا ہو جاتا ہے اور بارہا ایسا بھی ہوتا ہے کہ انسان کا دماغ کام کرنا چھوڑ دیتا ہے اور وہ پاگل ہو جاتا ہے لٰہذا میں نے سوچا کہ گردن کی پشت کو دن میں دوچار بار ضرور تر کیا جائے ابھی میں نے دیکھا کہ ہاتھ منہ دھونے کے ساتھ ساتھ گردن کے پیچھے بھی آپ نے کچھ کیا ہے۔ واقعی آپ لوگ پاگل نہیں ہو سکتے۔“ مذید یہ کہ مسح کرنے سے لو لگنے اور گردن توڑ بخار سے بھی بچت ہوتی ہے۔
پاؤں دھونے کی حکمتیں
پاؤں سب سے زیادہ دھول آلود ہوتے ہیں۔ پہلے پہل
(Infection) پاؤں کی انگلیوں کے درمیانی حصہ سے شروع ہوتا ہے۔ وضو میں پاؤں دھونے سے گردو غبار اور جراثیم بہ جاتے ہیں اور بچے کھچے جراثیم پاؤں کی انگلیوں کے خلال سے نکل جاتے ہیں جس سے نیند کی کمی، دماغی خشکی، گھبراہٹ اور مایوسی (Depression) جیسے پریشان کن امراض دور ہوتے ہیں۔
وضو کا بچا ہوا پانی
وضو کا بچا ہوا پانی پینے میں شفاء ہے۔ اس سلسلے میں ایک مسلمان ڈاکٹر کا کہنا ہے۔ (1) اس کا پہلا اثر مثانے پر پڑتا، پیشان کی رکاوٹ دور ہوتی اور خوب کھل کر پیشاب آتا ہے۔ (2) اس سے ناجائز شہوت سے خلاصی حاصل ہوتی ہے۔ (3) جگر، معدہ اور مثانے کی گرمی دور ہوتی ہے۔ کسی برتن یا لوٹے سے وضو کیا ہو تو اُس کا بچا ہوا پانی قبلہ رو کھڑے ہوکر پینا مستحب ہے۔ (تبیین الحقائق ج1 ص44 طبعۃ دارالکتب بیروت)
انسان چاند پر
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! وضو اور سائنس کا موضوع چل رہا تھا اور آج کل سائنسی تحقیقات کی طرف لوگوں کا زیادہ رجحان ہے بلکہ کئی لوگ ایسے بھی اس معاشرے میں پائے جاتے ہیں جو انگریز محققین اور سائنسدانوں سے کافی مرعوب ہوتے ہیں۔ ایسوں کی خدمت میں عرض ہے کہ بہت سارے حقائق ایسے ہیں جن کی تلاش میں سائنسدان آج سر ٹکرا رہے ہیں اور میرے میٹھے میٹھے آقا مکی مدنی مصطفٰی صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم ان کو پہلے ہی بیان فرما چکے ہیں۔ دیکھئے اپنے دعوے کے مطابق سائنسدان اب چاند پر پہنچے ہیں مگر میرے پیارے آقا صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم آج سے تقریباً 1400 سال پہلے چاند سے بھی وراء الوراء تشریف لے چکے ہیں۔ حضور سیدی اعلٰیحضرت رضی اللہ تعالٰی عنہ کی یاد میں برسوں پہلے ایک مشاعرہ میں شرکت کا موقع ملا تھا۔ جس میں حدائق بخشش سے یہ “مصرعِ طرح“ رکھا گیا تھا۔
سر وہی سر جو ترے قدموں ہی قربان گیا
حضرت صدر الشریعہ مصنف بہارِ شریعت مولانا امجد علی صاحب رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کے شہزادے مفسر قرآن حضرت علامہ عبدالمصطفٰی ازہری رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے اس مشاعرہ میں اپنا جو کلام پیش کیا تھا اس کا ایک شعر ملاحظہ ہو۔
کہتے ہیں سطح پر چاند کی انسان گیا
عرشِ اعظم سے وراء طیبہ کا سلطان گیا
یعنی انسان تو دعوٰی کر رہا ہے کہ میں چاند پر پہنچ گیا۔ ارے چاند تو بہت قریب ہے میرے میٹھے مدینے کے عظمت والے سلطان، شہنشاہ زمین و آسمان رحمتِ عالمیان صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم معراج کی رات چاند کو بہت ہی پیچھے چھوڑتے ہوئے عرشِ اعظم سے بھی بہت اوپر تشریف لے گئے۔
نور کا کھلونا
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! سائنسدان جس چاند پر پہنچنے کا دعوٰی کر رہا ہے وہ چاند تو میرے پیارے آقا صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کے تابع فرمان ہے۔ چنانچہ الخصائص الکبرٰی (ج1 ص91 دارالکتب العلمیۃ بیروت) میں ہے، “سلطان دو جہاں صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کے چچاجان حضرت سیدنا عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ تعالٰی عنہما فرماتے ہیں، میں نے بارگاہ رسالت میں عرض کی، یارسول اللہ عزوجل و صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم! میں نے آپ (کے بچپن شریف میں آپ) میں ایسی بات دیکھی جو آپ کی نبوت پر دلالت کرتی تھی اور میرے ایمان لانے کے اسباب میں سے یہ بھی ایک سبب تھا۔ چنانچہ، “میں نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم گہوارے (یعنی پنگھوڑے) میں لیٹے ہوئے چاند سے باتیں کر رہے تھے اور جس طرف آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم انگلی سے اشارہ فرماتے چاند اُسی طرف ہو جاتا تھا۔“ فرمایا، “میں اس سے باتیں کرتا تھا اور وہ مجھ سے باتیں کرتا تھا اور مجھے رونے سے بہلاتا تھا اور میں اس کے گرنے کی آواز سنتا تھا جب وہ عرشِ الٰہی عزوجل کے نیچے سجدے میں گرتا تھا۔
چاند جھک جاتا جدھر انگلی اٹھاتے مہد میں
کیا ہی چلتا تھا اشاروں پر کھلونا نور کا
کھیلتے تھے چاند سے بچپن میں آقا اس لئے
یہ سراپا نور تھے وہ تھا کھلونا نور کا
معجزہ شقء القمر
کفار مکہ کو جب یہ معلوم ہوا کہ جادو کا اثر اجرام فلکی پر نہیں ہوتا تو چونکہ وہ اپنے زعم باطل میں سرکار صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کو معاذاللہ عزوجل جادوگر سمجھتے تھے اس لئے ایک روز جمع ہوکر آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور نشانِ نبوت طلب کیا۔ فرمایا، کیا چاہتے ہو ؟ کہنے لگے، اگر آپ سچے ہیں تو چاند کے دو ٹکڑے کرکے دکھائیے۔ آپ نے فرمایا، آسمان کی طرف دیکھو اور اپنی انگلی سے چاند کی طرف اشارہ فرمایا تو وہ دو ٹکڑّے ہوگیا۔ فرمایا، “گواہ رہو! انہوں نے کہا، “محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے ہماری نظر بندی کر دی ہے۔ اللہ تبارک و تعالٰی پارہ27، سورۃ القمر کی پہلی اور دوسری آیت میں ارشاد فرماتا ہے۔
اقتربت الساعۃ النشق القمر ہ وان یروا ایۃ یعوضوا ویقولوا سحر مستمر ہ
ترجمہء کنزالایمان:- قریب آئی قیامت اور شق ہو گیا چاند اور اگر دیکھیں کوئی نشانی تو منہ پھیرتے اور کہتے ہیں یہ تو جادو ہے چلا آتا۔ (ماخوذ از تفسیر البحر المحیط ج8 ص171 طبعۃ دارالکتب العلمیۃ بیروت)
صرف اللہ عزوجل کیلئے
طب ظنیات پر مبنی ہے۔ سائسنی تحقیقات بھی حتمی نہیں ہوتیں۔ بدلتی رہتیں ہیں۔ ہاں اللہ و رسول عزوجل و صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کے احکامات اٹل ہیں وہ نہیں بدلیں گے۔ ہمیں سنتوں پر عمل طبی فوائد کیلئے نہیں صرف رضائے الٰہی عزوجل کی خاطر کرنا چاہئیے۔ لٰہذا اس لئے وضو کرنا کہ میرا بلڈ پریشر نارمل ہو جائے یا میں تازہ دم ہو جاؤں گا یا ڈائٹنگ کیلئے روزہ رکھنا تاکہ بھوک کے فوائد حاصل ہوں۔ سفرِ مدینہ اس لئے کرنا کہ آپ و ہوا تبدیل ہو جائے گی۔ گھر اور کاروباری جھنجھٹ سے کچھ دن سکون ملے گا۔ یا دینی مطالعہ اس لئے کرنا کہ میرا ٹائم پاس ہو جائے گا۔ اس طرح کی نیتوں سے اعمال بجا لانے والوں کو ثواب کہاں سے ملے گا ؟؟ اگر ہم اللہ عزوجل کو خوش کرنے کیلئے کریں تو ثواب بھی ملے گا اور ضمناں اس کے فوائد بھی حاصل ہو جائیں گے۔ لٰہذا ظاہری اور باطنی آداب کو ملحوظ رکھتے ہوئے وضو بھی ہمیں اللہ عزوجل کی رضا کیلئے ہی کرنا چاہئیے۔ حضرت سیدنا امام محمد غزالی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ “احیاء العلوم“ (ج1 ص160 طبعۃ دارالکتب العلمیۃ بیروت) میں فرماتے ہیں، “جب وضو سے فارغ ہوکر نماز کی طرف متوجہ ہو تو غور کرے کہ جسم کے وہ حصے جن پر لوگوں کی نظر پڑتی ہے ان کی ظاہری پاکیزگی تو حاصل کرلی ہے اب دل جو کہ اللہ تعالٰی کے دیکھنے کی جگہ ہے اس کو پاک کئے بغیر اللہ تعالٰی سے مناجات کرنے میں حیاء کرنی چاہئیے۔ دل کی طہارت توبہ کرنے اور بُری عادتیں ترک کرنے سے ہوتی ہے اور اچھے اخلاق اپنانا زیادہ بہتر ہے۔ ظاہری پاکی حاصل کرکے باطنی طہارت سے محروم رہنے والے کی مثال اُس شخص کی سی ہے جس نے بادشاہ کو اپنے یہاں تشریف لانے کی دعوت دی اور اُس کے خیر مقدم کیلئے گھر کے باہری حصے پر رنگ و روغن کیا مگر اندرونی حصے کی صفائی کی کوئی پرواہ نہ کی اور اسے نجاستوں سے لتھڑا ہوا چھوڑ دیا تو ایسا شخص انعام و اکرام کا نہیں بلکہ بادشاہ کے غصے اور ناراضگی کا مستحق ہے۔“
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! یاد رکھئے! سنت کو سائنس کی تحقیق کی حاجت نہیں میرے آقا صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی سنت سائنس کی محتاج نہیں اور ہمارا مقصود اتباع سائنس نہیں اتباع سنت ہے۔ مجھے کہنے دیجئے کہ جب یورپین ماہرین برسہا برس کی عرق ریزی کے بعد رزلٹ کا دریچہ کھولتے ہیں تو انہیں سامنے مسکراتی نور برساتی سنت مصطفوی صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم ہی نظر آتی ہے۔ دنیا میں لاکھ گھومئے، جتنا چوہے عیش و عشرت کیجئے، اونچے اونچے مکانات تعمیر کروائیے۔ خوشی و شادمانی کا چاہے جتنا بھی سامان مہیا کر لیجئے مگر آپ کو سکون قلب میسر نہیں آئے گا سکونِ قلب صرف و صرف یادِ خدا عزوجل میں ملے گا۔ دل کا چین عشق سرور کونین صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم سے ہی حاصل ہوگا۔ دنیا و آخرت کی راحتیں سائنسی آلات T.V اور V.C.R کے روبرو نہیں اتباع سنت میں ہی نصیب ہوں گی۔ اگر آپ واقعی میں دونوں جہاں کی بھلائیاں چاہتے ہیں تو نمازوں اور سنتوں کو مضبوطی سے تھام لیں اور انہیں سیکھنے کیلئے دعوتِ اسلامی کے مدنی قافلوں میں سفر کرنا اپنا معمول بنا لیجئے۔ ہر اسلامی بھائی نیت کرے کہ میں زندگی میں کم از کم ایک بار یکشمت 12 ماہ میں 30 دن اور ہر ماہ 3دن سنتوں کی تربیت کے مدنی قافلے میں سفر کیا کروں گا۔ انشاءاللہ عزوجل