یہ ایک ایسا مرض ہے جو انسان کا اپنا پیدا کردہ ہے اس میں کچھ دخل ہمارے معاشرے کی ناہمواریوں کا بھی ہے۔ نشہ بیچنے والے وہ زہر یلے ناگ ہیں جو قوم کے بچوں کا خون پی رہے ہیں کوئی متعدی مرض اتنی تیزی سے نہیں پھیلتا جس تیز رفتاری سے نشہ ہمارے ملک میں پھیل رہا ہے۔ یہ وہ آگ ہے جو بجھانے سے نہ بجھے۔
نشہ سے انسان کی کارکردگی اور صحت دونوں متاثر ہوتے ہیں رنگ پیلا یا نیلا، آنکھیں خمار آلودہ اور اندر دھنسی ہوئیں، پاؤں میں لڑکھڑاہٹ، بھوک کی کمی، جگر کی خرابی اور اعصابی و دماغی امراض لاحق ہو جاتے ہیں اگر کوئی ہارٹ اٹیک، بلڈ پریشر، دق وسل، ذیا بیطس وغیرہ کا مریض ہو گا تو اسکی خواہش ہو گی کہ میں اچھے سے اچھا علاج کراؤں تاکہ مجھے شفاء حاصل ہو ان بیماریوں میں مبتلا افراد کو صحت کی فکر ہوتی ہے اور یہ علاج کی طرف رجوع کرتے ہیں لیکن نشہ کرنے والا کبھی نہیں چاہے گا کہ میں نشہ چھوڑ دوں یا اس کا مناسب علاج کراؤں بلکہ یہ لوگ اپنی اس مرض کو دوسروں سے چھپانے کی کوشش کرتے ہیں اور والدین اور دیگر عزیز و اقارب کو اس وقت پتہ چلتا ہے جب ان کا بچہ نشہ کے میدان میں اتنا آگے نکل چکا ہوتا ہے کہ جہاں سے واپسی ناممکن ہوتی ہے۔
منشیات کے عادی افراد شروع میں نشہ کی حالت میں بےحال ہو جاتے ہیں لیکن بعد میں جب انھیں نشہ نہ ملے تو ان کی حالت غیر ہونے لگتی ہے۔ سر میں درد اور جسم میں شدید دردوں کا احساس ہوتا ہے جسم کپکپاتا ہے۔ زبان بھاری محسوس ہوتی ہے نیند نہیں آتی اور اسہال شروع ہو جاتے ہیں۔ نشہ کی حالت میں یہ لوگ بےتاج بادشاہ بنے ہوتے ہیں خیالی پلاؤ پکاتے ہیں خود کو سب سے اعلٰی سمجھتے ہیں ان کا دماغ اتنا چکرایا ہوتا ہے کہ چھوٹی سی نالی بھی نہر نظر آتی ہے اور نالی کو نہر سمجھ کر پار کرتے ہیں اسی میں گر جاتے ہیں منہ ڈھیلا کرکے بولتے ہیں آواز بدل جاتی ہے اور چال لڑکھڑانے لگتی ہے جب گر جاتے ہیں تو کتے ان کا منہ صاف کرتے ہیں۔
ایسے ہی ایک نشئی گندی نالی میں گرا پڑا تھا کتا اس کا منہ چاٹنے لگا لیکن وہ کہہ رہا تھا۔ “تم بھی سائیں میں بھی سائیں“، “یاری نبھائیں، جب کتے نے اس پر پیشاب کیا تو کہنے لگا رحمت دا مہینہ پائیں مینوں چھڈ کے نہ جائیں۔“ یعنی رحمت کا مہینہ پانا مجھے چھوڑ کر نہ جانا۔ اس قسم کی کئی مثالیں آپ نے بھی دیکھی اور سنی ہوں گی اور اندازہ ہوگا کہ نشہ کرنے سے انسان، انسان نہیں رہتا پاگلوں جیسی حرکات کرتا ہے۔ معاشرہ اس کا مذاق اڑاتا ہے جب نشہ اتنی بری حالت کر دیتا ہے تو سوچنے کی بات یہ ہے ایسے لوگ جانتے ہوئے بھی ہماری حالت ابتر ہو جاتی ہے نشہ کیوں کرتے ہیں اس سوال کا جواب ذرا طویل ہے۔اسلام میں نشے کی مذمت
اللہ قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے۔ اے ایمان والو! بیشک شراب اور جوا اور بت اور پانسے یہ سب گندے کام ہیں شیطان کے سوان سے بشتے رہو تاکہ تم فلاح پاؤ (المائدہ 90)
جب بھی قرآن و حدیث کے حوالے سے نشے کی بات آتی ہے تو نشے سے مراد شراب لی جاتی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ قرآن مندرجہ بالاحکم صرف شراب سے متعلق نہیں اس میں ہر وہ چیز شامل ہے جو نشہ طاری کرتی ہے ذیل کی حدیث نشے کی وسعت واضح کرتی ہے۔
چنانچہ ارشاد نبوی صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم ہے ہر وہ چیز خمر کے زمرے میں آتی ہے جو نشہ آور ہو اور وہ حرام ہے ہر نشہ آور چیز سے پرہیز کرو۔
حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ نے ایک جمعہ کے خطبے میں خمر کے معنی کسی چیز کو ڈھانپ دینا یا پردہ ڈال دینا، اور خمر سے مراد ہر وہ چیز ہے جو عقل پر پردہ ڈالتی ہے۔ یہی تو نشہ ہوتا ہے کہ عقل پر پردہ پڑ جاتا ہے اور نیک و بد کی تمیز ختم ہو جاتی ہے ان دو آیات (سورۃ المائدہ 91/90) میں شراب اور جوئے سے متعلق حتمی حکم آیا ہے کہ یہ حرام ہیں اور شیطانی کام ہیں ان دو آیات کے علاوہ اور بھی احکام آئے ہیں یہاں تک تو بات ہوئی شراب کی، جب بات ہوتی ہے نشے کی تو اس میں بھنگ، چرس، افیون، ہیروئن اور ہر وہ چیز جو نشے کی خاطر کھائی یا پی لی جاتی ہے۔
نشہ کی اس سے بھی زیادہ اصطلاح ہے نشہ دولت کا بھی ہوتا ہے۔ اونچے رتبے اور جاگیرداری کا بھی نشہ ہے اور بعض نادان کسی خوبرو عورت کے ساتھ ناجائز تعلقات بنا کر اپنے آپ پر اسے نشے کی طرح طاری کر لیتے ہیں ان میں سے کوئی بھی نشہ ہو جائے وہ عقل پر پردہ ڈال دیتا ہے، دولت رتبے اور جاگیرداری کا نشہ انسان میں شیطانی عادات پیدا کر دیتا ہے اور عورت کا نشہ کبیرہ گناہوں کا ارتکاب کرواتا ہے۔
اب رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی ایک پیش گوئی ملاحظہ فرمائیں۔
میرے بعد میری امت شراب نوشی کرے گی ان کے اپنے امراء (حکام اور لیڈر) شراب نوشی میں ان کے معاون اور مددگار ہوں گے۔
آہ! آج ہم اسی دور سے گزر رہے ہیں حدیث میں بھی لفظ خمر فرمایا گیا ہے جس میں شراب ہی نہیں بلکہ تمام منشی اشیاء شامل ہیں۔
اب یہ جاننا انتہائی ضرروی ہے کہ آخر وہ کون سی چیز ہے کون سی محرومی یا کون سا فائدہ ہے جو انسان سے حیوان اور معاشرے سے علیحدہ کر دیتا ہے۔لوگ نشے کے عادی کیوں بنتے ہیں ؟اس کی چند ایک وجویات درج ذیل ہیں۔
کاروباری پریشانیاں
جن لوگوں کے کاروبار میں نقصان ہو جائے تو ان حالات میں راتوں کی نیند اڑ جاتی ہے اور ایسے لوگ سکون آور ادویہ کا استعمال شروع کر دیتے ہیں یا کسی عزیز کا انتقال یا محبت میں ناکامی پر غم کو دور کرنے کیلئے بعض افراد سکون آور ادویہ کا استعمال کرتے ہیں اور رفتہ رفتہ عادی ہو جاتے ہیں۔
صدمہ کا نفسیاتی علاج جو اسلام نے بتایا ہے اگر اس پر عمل کیا جائے تو دل کو سکون اور تسلی آ جاتی ہے سرکاردوعالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے کہ رنج یا دکھ پہنچے تو کہو اناللہ وانا الیہ راجعون، ان الفاظ میں اس زخم کا مرہم ہے جو صدمہ سے لگا ہو نیز اور بھی ایسی دعائیں کتابوں میں مذکور ہیں۔ کئی ناکام سیاستدان بھی نشے کے میدان میں اتر آتے ہیں۔
بری سو سائٹی
نشہ کے پھیلانے میں برے دوست سب سے بڑا سبب ہیں، جو شخص تمباکونوشی کرتا ہو فضول خرچ اور آوارہ ہو ایسا شخص دوستی کے قابل نہیں۔ اس سے تو کوسوں دور بھاگنا چاہئیے۔ سکولوں اور کالجوں کے علاوہ ہر محلے اور گلی میں بدقسمتی سے ایسے چند نشئی ہوتے ہیں جن کو نشہ کی لت ہوتی ہے یہ اپنے سے کم عمر کے لوگوں کو دوست بنا کر انھیں بھی اس کی رغبت دلاتے ہیں شروع میں اپنے پاس سے یہ مفت نشہ فراہم کرتے ہیں لیکن بعد میں جب دیکھتے ہیں کہ یہ عادی ہو چکا ہے پھر اپنے اخراجات بھی اس کی جیب سے پورے کرتے ہیں۔
جنسی وجوہات
جنسی عیاشی کیلئے نشہ کا استعمال بہت زیادہ کیا جاتا ہے۔ نشہ آور اشیاء چونکہ بےحس کر دیتی ہیں اور ان سے وقتی طور پر امساک بڑھ جاتا ہے اس لئے بعض لوگ ایسی اشیاء کا استعمال کرتے ہیں نیز بعض حکیم بھی جنسی مریضوں کو ایسی ادویات دیتے ہیں ان ادویہ سے ان کے اعضائے جنسی دن بدن نیم مردہ ہو جاتے ہیں اور ان کی جنسی طاقت بالکل ختم ہو جاتی ہے نشہ کے عادی افراد میں ہیجڑے پیدا ہونے کی شرح بہت زیادہ ہے۔
ناسازگار حالات اور ذہنی پریشانیاں
بعض لوگ اتنے حساس ہوتے ہیں کہ ذرا سی بات بھی انھیں بہت زیادہ محسوس ہوتی ہے معمولی پریشانی سے عہدہ برآ نہیں ہو پاتے۔ ہر شخص کو زندگی کے سفر میں قدم قدم پر کسی نہ کسی پریشانی اور الجھن سے واسطہ پڑتا ہے۔ جن لوگوں کی قوت ارادی مضبوط ہوتی ہے وہ بڑے حوصلے کے ساتھ ناسازگار حالات سے عہدہ برآ ہوتے ہیں لیکن نازک طبیعت کے مالک ان پریشانیوں کو ذہن پر سوار کر لیتے ہیں ہر وقت سوچ بچار میں کھوئے رہتے ہیں تنہائی پسند ہو جاتے ہیں اور نشہ آور ادویات میں سکون تلاش کرتے ہیں زندگی سے بیزاری اور موت کی خواہش ان میں پیدا ہو جاتی ہے عملی کام کرنے سے کتراتے ہیں اور نشہ کی دنیا میں اپنا جہاں آباد کر لیتے ہیں جن تعلیم یافتہ نوجوانوں کو ملازمت نہیں ملتی وہ بھی اس مرض کا شکار ہو جاتے ہیں۔
بطور فیشن یا شوقیہ
بعض لوگ دوسروں کو دیکھا دیکھی بطور فیشن نشہ پینا شروع کر دیتے ہیں اور بڑے خاص انداز سے کش لگاتے ہیں اور بڑے فخر سے اپنے ہمنواؤں سے کہتے ہیں کہ آج میں نے اتنی پی ہے۔ اکثر ایسا بھی ہوتا ہے کہ نشہ کا مریض عام آدمی سے اتنے فوائد بیان کرتا ہے کہ دوسرا آدمی بطور تجربہ وہی نشہ استعمال کرنے لگ جاتا ہے۔
تجسس
یہ فطرت انسانی ہے کہ جس چیز سے اسے روکا جائے اس کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ وہ کام ضرور کرکے دکھائے ٹی وی پر اشتہارات اور اخبارات کے صفحات پر ہیروئن اور منشیات کا ہر روز تذکرہ سننے سے بعض لوگ اس کے منفی اثرات لیتے ہیں۔ بس یہی سوچ انھیں لے ڈوبتی ہے آج کل چھوٹے بچے بھی نشہ آور چیزوں کے ناموں سے واقف ہیں بعض غیر ملکی فلمیں اس رجحان کو فروغ دیتی ہیں اس لئے بہت سے لوگ محض تجسس کی بناء پر اس کے عادی ہو رہے ہیں۔
والدین کی غفلت
جو والدین اپنی اولاد پر کڑی نظر نہیں رکھتے اپنی اولاد کی مناسب نگرانی نہیں کرتے اولاد کو شتر بےمہار کی طرح چھوڑ دیتے ہیں ان کی اولاد سگریٹ نوشی سے ابتداء کرکے ہیروئن کے سٹیج پر جا پہنچتی ہے بعض لوگ اپنی نشہ کی چیزیں اولاد کے ذریعے منگواتے ہیں جس سے اولاد بھی اس راہ پر چل نکلتی ہے اگر آپ کو اولاد کی زندگی کی فکر ہے تو ان سے سگریٹ بھی نہیں منگوانے چاہئیں وگر نہ کل کو اگر وہ سگریٹ پئے گا تو آپ اسے روک نہیں سکیں گے کیونکہ آپ کا کردار اس کے سامنے ہوگا۔
والدین کا کام جہاں اولاد کیلئے خوارک، لباس اور ان کی دیگر ضروریات پوری کرنا ہے وہاں یہ بھی آپ پر فرض ہے کہ ان کی اخلاقی تربیت بھی کریں وگر نہ وہی اولاد بد اخلاقی اور نشہ کی ذلت میں ڈوب کر ایک دن آپ کے گریبان میں ہاتھ ڈالے گی۔
امراض تنفس
نشی کرنے والوں کی اکثریت امراض تنفنس کا شکار ہو جاتی ہے سگریٹ کے ساتھ ہیروئن کے کش لگانا سونے پر سہاگہ کا کام کرتے ہیں پھیپھڑوں میں زخم اور سانس کی نالیاں تنگ ہو جاتی ہیں افیون چرس اور بھنگ کے عادی افراد کے پھیپھڑوں میں بلغم جم جاتی ہے۔ نالیاں اور پھیپھڑے خشک ہو جاتے ہیں ڈاکٹری ادویہ بھی یہی کام انجام دیتی ہیں۔ ان سے مراد وہ ادویہ ہیں جو بطور نشہ استعمال ہوتی ہیں پھیپھڑوں کی حرکات سست اور لمبے لمبے سانس لینے پڑتے ہیں جسم کو آکسیجن کم ملتی ہے۔
ان منشیات کا استعمال کرنے والے تپ دق، دمہ، برونکائی ٹس اور سانس لینے میں دقت کا سامنا کرتے ہیں ان کے اعضاء تنفس میں زخم ورم اور سوراخ ہو سکتے ہیں جن کی وجہ سے خون منہ یا ناک کے راستے جاری ہو سکتا ہے اور موت چند قدم دور ہو جاتی ہے۔
امراض معدہ اور منشیات
تمام منشی اشیاء معدہ کے گیسٹرک جوس پر برا اثر ڈالتی ہیں اور کچھ منشیات گیسٹرک جوس کی پیداوار کم کرتی ہیں۔ کچھ ایسی ہیں جن سے گیسٹرک جوس کی پیداوار بڑھ جاتی ہے جن سے بدہضمی، سوزش معدہ، زخم معدہ، معدہ کا سرطان، بھوک میں کمی، متلی اور خونی قے کی شکایات پیدا ہو جاتی ہیں بعض نشے قبض اور بعض پیچس لگا دیتے ہیں ہر نشہ کرنے والا معدہ کے ان امراض میں ضرور مبتلا ہوتا ہے۔ وہ لوگ احمقوں کی سوچ رکھتے ہیں جو نشہ کرتے اور اس خوش فہمی میں مبتلا رہتے ہیں کہ ہم آج ان امراض کا شکار نہیں ہوئے کل بھی بچے رہیں گے انھیں یاد رکھنا چاہئیے کہ اگر کسی درخت کے تنے پر روزانہ آری چلائی جائے تو وہ ٹوٹ کر ضرور گرے گی۔ میں نے یہاں نشہ کے ذریعے لاحق ہونے والے جو امراض بتائے ہیں وہ ہر نشہ کرنے والے کو ضرور ہوتے ہیں یہ میرا تجربہ ہے میں نے اپنی آنکھوں سے انھیں ان امراض کا شکار ہوتے دیکھا ہے۔
دماغی امراض اور منشیات
سب سے زیادہ مضر اثرات دماغ پر ظاہر ہوتے ہیں بلکہ پہلی سٹیج میں نشہ کرنے والا دماغی امراض میں مبتلا ہوتا ہے دماغ کی کارکردگی سب سے پہلے سست ہوتی ہے جس سے جسم کے ہر نظام کا فعل سست پڑ جاتا ہے۔ وہ دماغی امراض جو نشہ سے لاحق ہوتے ہیں ان میں نسیان، مرگی، سر چکرانا، نیند میں کمی، مالیخولیا، پاگل پن، سوچنے اور قوت فیصلہ میں کمی قابل ذکر ہیں۔
اعصابی امراض اور منشیات
جسم میں خشکی اور زہریلے مادوں کی کثرت کی وجہ سے، رعشہ، فالج، لڑکھڑاتی چال، حرکت میں سستی اور اعصابی تناؤ پیدا ہوتا ہے۔
امراض جگر اور منشیات
جگر خون بنانے سے قاصر ہو جاتا ہے بہت کم خون پیدا ہوتا ہے۔ خون کی کمی چہرہ کی زردی، یرقان، جگر کا سکڑ جانا یا متورم ہو جانا جیسے امراض پیدا ہو جاتے ہیں۔
منشیات اور جسمانی کمزوری
مریض دن بدن سوکھتا چلا جاتا ہے سردی گرمی برداشت نہیں ہوتی کیونکہ جس آدمی کے پھیپھڑے، دماغ، معدہ اور جگر تباہ ہو چکے ہوں وہ سوکھ کر کانٹا نہیں بنے گا تو کیا ہو گا۔
قوت مدافعت میں کمی
جسم میں بیماریوں کا مقابلہ کرنے کی طاقت نہیں رہتی۔ ایسا مریض بیماریوں کا بہت جلد شکار ہوتا ہے۔ اگر کوئی وبائی مرض پھیلے تو سب سے پہلے نشہ کرنے والے اس کا شکار ہو کر لقمہ اجل بنتے ہیں۔
امراض کا دبے رہنا
نشہ کرنے والے کے جسم میں بعض شدید قسم کے امراض موجود ہوتے ہیں لیکن بےحسی کی وجہ سے محسوس نہیں ہوتے مثلاً اگر کسی کے گردہ میں پتھری ہے تو درد محسوس نہیں ہوتا تب پتہ چلتا ہے جب پتھری بڑی ہو کر پیشاب پر اثر انداز ہوتی ہے اور گردہ میں شدید درد کی لہریں پیدا ہوتی ہیں۔
منشیات اور جلدی امراض
نشہ کرنے والے خارش، چہرے پر جھریاں، جلد کی خشکی میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔
گردوں پر اثر
گردے خون سے گندے مادے صاف کرنا کم کر دیتے ہیں اور بعض اوقات گردوں کے مسام بند ہونے کا عمل شروع ہو جاتا ہے پیشاب میں خون آتا ہے۔ گردے فیل ہو جاتے ہیں کبھی پیشاب بہت زیادہ آتا ہے لیکن زیادہ تر پیشاب بننا بند ہو کر موت واقع ہو جاتی ہے۔
نشہ اور نامکمل اولاد
نشہ کرنے والوں کے ہاں جو اولاد پیدا ہوتی ہے وہ دماغی طور پر کند ذہن یا کسی پیدائشی خرابی میں مبتلا ہوتی ہے ان کے بچے کمزور اور مختلف بیماریوں میں مبتلا ہوتے ہیں۔
بینائی میں کمزوری
جسم میں یبوست (خشکی) بڑھ جانے کا اثر آنکھوں پر بھی پڑتا ہے اور نظر دن بدن کمزور ہو جاتی ہے۔ آنکھوں کی حفاظت کرنے والی ضروری رطوبات کا اخراج رک جاتا ہے اور آنکھوں کے مسلز سکڑ جاتے ہیں۔
خانہ بربادی
نشہ کرنے والوں کی بیویاں طلاق لے لیتی ہیں۔ بھائی بہن ساتھ چھوڑ دیتے ہیں اولاد بھی آنکھیں پھیر لیتی ہیں۔ نشہ پر جو رقم خرچ ہوتی ہے اس سے آدمی محلوں سے نکل کر در در کا محتاج ہو جاتا ہے کوئی اس سے بات کرنا گوارہ نہیں کرتا اس ڈر سے کہ کہیں لوگ مجھے بھی نشئی نہ سمجھنے لگے۔
نشہ اور چوری
ہر نشہ کرنے والا عموماً چور ضرور ہوتا ہے کیونکہ کسی کے پاس قارون کا خزانہ نہیں ہوتا کہ بغیر کمائے ہاتھ پر ہاتھ دھرا بیٹھا رہے اور دولت کو نشہ میں لٹاتا جائے اس نشہ کی طلب پوری کرنے کیلئے رقم نہ ملنے کی صورت میں پہلے یہ گھر میں چوری کرتا ہے اور پھر لوگوں کی دکانوں سے چوری چکاری کرنے لگ جاتا ہے۔
جوانی کی موت اور نشہ
عام طور پر نشہ کے عادی نوجوانوں کو مرتے دیکھا گیا ہے شاز و نادر ہی کسی بیماری کے باعث یا حادثہ کی وجہ سے نوجوان مرتے ہیں لیکن اکثریت انھیں کی ہوتی ہے نشہ سے دل، دماغ، جگر، معدہ اور گردوں کو ناکارہ کر دیتا ہے اس لئے انسانی زندگی کی گاڑی ان کے بغیر چلنا محال ہے۔ جس کی وجہ سے نشہ کرنے والے جوانی کی عمر میں مر جاتے ہیں۔ اب ہر ایک نشہ آور اشیاء کے نقصانات کا الگ الگ تفصیلی ذکر ملاحظہ فرمائیں۔
تمباکو نوشی کے بھیانک اثرات
سگریٹ نوشی ایسا دروازہ ہے جو نشہ کی دنیا میں لے جاتا ہے ہر نشہ کرنے والا پہلے سگریٹ پیتا ہے اور بعد میں دیگر نشہ آور چیزوں کا شکار ہو کر موت کے منہ میں چلا جاتا ہے اور ایسے لوگ بھی دیکھنے میں آتے ہیں جو اسی تاسو سگریٹ روزانہ پیتے ہیں ان کی سانس کی نالیوں میں نکوٹین تہہ در تہہ جمی ہوتی ہے اس سے پھیپھڑوں میں زخم پیدا ہوتے ہیں سگریٹ پینے والا آکسیجن گیس کا خاتمہ کرتا جاتا ہے زیادہ نقصان انھیں پہنچتا ہے جو سگریٹ پینے والے کے پاس بیٹھتے ہیں ان کا دھواں ان کے پھیپھڑوں میں جا کر خرابیاں پیدا کرتا ہے اگر ٹی بی والے سگریٹ کا دھواں کسی اور کے پھیپھڑوں میں چلا جائے تو سوچیں اس غریب کا کیا حال ہو گا۔
فی زمانہ ریل، بس، ائیرپورٹ اور تفریحی مقامات پر سگریٹ کے دھوئیں کے مرغولے نظر آتے ہیں اور سگریٹ نوشی سے نفرت کرنے والے مجبور ہوتے ہیں کہ وہ بھی دوسروں کے منہ سے نکلا ہوا مضر صحت دھواں اپنے پھیپھڑوں میں پہنچائیں لٰہذا سگریٹ کی ڈبیوں پر لکھنے کی بجائے عملی طور پر ریل بس اور دیگر عوامی مقامات میں سگریٹ نوشی ممنوع ہونی چاہئیے۔
سگریٹ نوشی کی تاریخ
جنوبی امریکی پیداوار جس کو ہسپانوی باشندہ کولمبس نے 1492ء میں معلوم کیا
1556میں امریکی سرخ باشندوں سے سیکھا۔
1565امریکہ سے برطانیہ پہنچا۔
1750پہلا امریکی سگار جنوبی امریکہ میں۔
1788کارخانہ سگار ہمبرگ
دوسری جنگ عظیم میں 25 کروڑ سگریٹ روزانہ برطانیہ میں تیار ہوتے تھے۔ اب پوری دنیا میں 150 ارب سگریٹ تیار ہوتے ہیں۔
دل کے سو مریضوں میں سے 99 سگریٹ نوش ہوتے ہیں۔
دل کے درد اور سگریٹ نوشی کا گہرا تعلق ہے۔
برطانیہ میں سالانہ 40 ہزار سگریٹ نوشی کی وجہ دل کی شریانیں سکڑ جاتی ہیں جس کہ وجہ دل کا صحیح دوران خون متاثر ہو جاتا ہے۔
سگریٹ میں دس زہر
نکوٹین: 20 ملی گرام فی سگریٹ جو مہلک زہر کتے تک جانور کیلئے کافی ہے۔ کتے کو 10 فیصد لوشن 3،4 منٹ میں ہلاک کر سکتا ہے۔
کاربن مانو آکسائیڈ: دھوئیں میں 2/1 2 فیصد یہ (ہر کلو) خون کے سرخ مادہ میں جذب ہو کر سانس کو روکتی ہے اور زیادتی پر موت واقع ہو جاتی ہے۔
گارسینوجنک: کینسر پیدا کرنے والا 16 کیمیائی مادے اس کے دھوئیں سے جانوروں پر تجزیہ کرنے سے کینسر پیدا کرنا ثابت ہوا۔
بھاپ بن کر اڑنے والا مہلک تیزاب۔
کربول: یہ بھی مہلک زہر ہے۔ (سانائیڈ)
سنکھیا: جو سگریٹ سے دھوئیں میں پایا جاتا ہے۔ اگر کسی جانور کو کھلایا جائے تو وہ سر کے بل لوٹ لوٹ کر دم توڑتا ہے۔
امونیا: یہ بھی مضر صحت ہے دم گھٹنے لگتا ہے، پھیپھڑوں کو جلا کر دائمی تکلیف میں مبتلا کرتا ہے۔
کولتار: یہ بھی زہر ہے ایک کلو روزانہ ایک سال تک پینے پر ایک پیالہ کولتار کے مساوی ہے۔ جو مہروں کو جانے والی باریک نالیوں کو مفلوج کر دیتی ہیں علاوہ مہروں کے اندرونی جلد کو بھی نقصان پہنچاتی ہے۔
فضول اور الکحل: یہ بھی مہلک زہر ہے۔
یہ وہ تمام زہر ہیں جو ایک عام سگریٹ نوش کے جسم میں جذب ہوتے ہیں جو اس کی شاداب اور شگفتہ زندگی کو خشک کر دیتے ہیں خوف، وحشت، کمزوری، ذہنی الجھن، کشمکش، انتشار کا شکار ہو جاتا ہے جو زندہ رہ کر بھی زندگی کو ترستا ہے۔
ہر سگریٹ پینے والا یہی کہے گا کہ اس کا کوئی فائدہ نہیں نقصان ہی نقصان ہے لیکن پھر بھی پئے جا رہے ہیں سگریٹ نوش کو دھواں اڑانے سے وقتی طور پر نفسیاتی سکون ملتا ہے سگریٹ نوشی کیلئے ان لوگوں نے تاویلیں بنا رکھی ہیں کہ اگر چھوڑ دیں تو گیس پیدا ہوتی ہے کھانا ہضم نہیں ہوتا۔ قبض کی شکایت ہو جاتی ہے، سکون ختم ہو جاتا ہے یہ بہانہ بازی ہے نہ چھوڑنے کی نیت ہے وگر نہ سو سگریٹ روزانہ پینے والوں نے بھی یکلخت سگریٹ بند کئے لیکن کوئی خاص رد عمل نہیں ہوا اگر کچھ علامات پیدا ہو جائیں تو ان کا علاج بھی ہو سکتا ہے قبض دور کی جا سکتی ہے گیس کا خاتمہ بھی علاج معالجہ سے ہو سکتا ہے سگریٹ چھوڑنے سے جو علامات پیدا ہوتی ہیں ان کا تو کامیاب علاج ہے لیکن سگریٹ نوشی جاری رکھنے سے جو بیماریاں پیدا ہوں گی کبھی آپ نے غور کیا کہ ان کا علاج کتنا مشکل ہے۔
17 جون 1968ء کو امریکی سائنس دانوں نے کتوں کو سگریٹ نوشی کا عادی بنا کر مصنوعی طور پر ان کو پھیپھڑوں کے امراض میں مبتلا کیا گیا تاکہ “نکوٹین“ تمباکو کے زہر کے اثرات کا مشاہدہ کیا جا سکے۔ امریکی ایسوسی ایشن کانگریس کے بموجب سائنسدانوں نے دس کتوں کا انتخاب کیا۔ کتوں کے انتخابات کی اصل وجہ یہ ہے کہ کتوں کے پھیپھڑے اور عضلات انسانی پھیپھڑوں کے مشابہ ہوتے ہیں۔ کتوں کو روزانہ 12 سگریٹ کا باقاعدہ طریقہ سے عادی بنایا گیا۔ سگریٹ نوشی کا عادی انسان بھی روزانہ اوسطاً اتنے ہی سگریٹ پیتا ہے کتوں نے ابتداء بچوں کی طرح کھانسنا شروع کیا۔ ان کی آنکھیں سرخ ہو گئیں اور وہ بیمار ہو گئے جب انہیں سگریٹ نوشی کے کمرے کی طرف لے جایا جاتا وہ دم ہلا کر اپنی خوشی کا اظہار کرتے تجربہ کے دوران قلب و خون کے امراض میں مبتلا ہو کر اس میں سے پانچ کتے مر گئے اور بقیہ تمام کتوں کے پھیپھڑے متاثر ہو گئے۔ ( ماخوذ از رہنمائے دکن جون 1968ء )
آکسفورڈ یونیورسٹی کے سائنسدانوں کی تحقیق کے مطابق کہ جو لوگ 33 برس سے کم عمر میں سگریٹ پینا چھڑتے ہیں ان کیلئے پھیپھڑوں کے کینسر کا خطرہ 90 فیصد سے زیادہ کم ہو جاتا ہے اور جو لوگ پچاس برس کی عمر میں سگریٹ نوشی کرتے چھوڑتے ہیں ان میں پھیپھڑوں کے کینسر کا خطرہ پچاس فیصد سے کم ہوتا ہے ماہرین کا کہنا ہے کہ اب یہ بات بھی ثابت ہو گئی ہے کہ سگریٹ چھوڑنے کے لئے کسی عمر کی قید نہیں ہے۔ یہ تحقیق انگلینڈ میں آکسفورڈ یونیورسٹی کے سائنسدانوں نے کی ہے جس کے نتائج برطانیہ کے میڈیکل جرنل میں شائع کئے گئے ہیں پھیپھڑوں کے سرطان سے سب سے زیادہ وہ لوگ ہلاک ہوتے ہیں جو سگریٹ نوشی کرتے ہیں اس کے علاوہ 20 سے زائد بیماریوں کا تعلق تمباکو سے بھی ہے جن میں دل کی بیماری اور مثانے کا کینسر شامل ہے اس تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ سگریٹ پینے سے پھیپھڑوں کو جو نقصان پہنچتا ہے اس میں کوئی بیماری ایسی ہوتی ہے جس کا کوئی علاج ہی نہیں ہے۔ (بحوالہ روزنامہ خبریں 18 ستمبر 2000ء)
پریس ایشیاء انٹرنیشنل نے برازیل کے ماہرین کے حوالے سے یہ خبر دیتے ہوئے کہا ہے کہ سگریٹ پینے سے جسم میں ایک طرح کا زہر پھیل جاتا ہے جو جنسی لطف اٹھانے میں رکاوٹ بنتا ہے۔ (راہنما شکم مارچ 1982ء )
میٹریا میڈیکا میں ڈاکٹر جیلانی نے تحریر کیا ہے کہ تمباکو سے خون کا دباؤ گھٹ جاتا ہے اور اس کی زیادتی سے (قوما) اور موت واقع ہو سکتی ہے سگریٹ نوشی کرنے سے تب دپ (ٹی بی) کا ڈر ہوتا ہے سانس کی نالیاں تنگ ہو کر دمہ کا خطرہ بھی ہوتا ہے علاوہ ازیں نیند میں کمی واقع ہو جاتی ہے ضعف باہ ہو جاتا ہے جسم میں وٹامنز کی شدید کمی گلے کی سوزش اور معدہ کی نالی میں خراش واقع ہو جاتی ہے۔ امراض قلب اور ہائی بلڈ پریشر کے مریضوں کیلئے تمباکونوشی انتہائی مضر ہے دانت سیاہ ہو جاتے ہیں زبان پر زخم بن جاتے ہیں منہ کے اعضاء یا پھیپھڑوں میں سرطان پیدا ہو جاتا ہے جس سے سگریٹ نوش طبعی موت مرنے سے پہلے مر جاتا ہے سگریٹ پینے والے کا مزاج گرم رہتا ہے گھر میں بیوی بچوں یا ماں باپ سے لڑتا جھگڑتا رہتا ہے اور دفتر میں اپنے ساتھیوں پر سختی کرتا ہے۔ ایسا آدمی معاشرے اور مذہب سے ہٹ کر رہ جاتا ہے اسی وجہ سے کسی کو ملنے ملانے سے کتراتا ہے کہ دوستوں میں بیٹھ کر دھواں چھوڑ دوں گا تو وہ نفرت کریں گے رمضان المبارک کے روزے سگریٹ پینے والے کم ہی رکھتے ہیں کیونکہ سگریٹ کے دھوئیں سے طویل جدائی انہیں برداشت نہیں ہوتی۔ ایسے کم ظرف اور بدقسمت لوگ نماز، روزہ بھی چھوڑ دیتے ہیں سگریٹ نہیں چھوڑ سکتے تمباکونوشی کرنے والا بسوں میں صحیح طور سے سفر نہین کر سکتا کہ جب بھی سگریٹ سلگائی جائے تو عورتیں ٹوک دیتی ہیں کہ ہمیں قے آتی ہے سگریٹ پینا بند کرو اس نامراد سگریٹ کی وجہ سے الٹی سیدھی باتیں سننا پڑتی ہیں۔
سگریٹ چھوڑنے کا طریقہ
سگریٹ چھوڑنے کا طریقہ یہ ہے کہ یکلخت چھوڑ دیں کیونکہ جو ایک ایک کم کرکے چھوڑنے کا کہتے ہیں اس طرح وہ پھر سگریٹ کی مقدار بڑھانا شروع کر دیتے ہیں لٰہذا پختہ نیت اور ارادہ کرکے یکلخت چھوڑ دیں اور اپنے دوست احباب میں تشہیر کر دیں کہ میں نے سگریٹ چھوڑ دئیے ہیں تاکہ دوبارہ پینے کا حوصلہ نہ رہے کہ یہ کیا سوچیں گے کل سگریٹ چھوڑنے کا کہا اور آج پھر پی رہے ہیں سگریٹ چھوڑتے ہی آپ دوسرے سگریٹ نوشوں کو سمجھائیں تاکہ آپ کے جذبات کی تسکین ہو اور سگریٹ کے خلاف مذید نفرت ذہن میں آئے۔ سگریٹ چھوڑنے کے بعد خدانخواستہ اس کی طلب محسوس ہو تو مکئی بھونی ہوئی چبائیں یا چیونگم منہ میں ڈال لیں میٹھی سونف بھی بوقت ضرورت استعمال کریں میٹھی سونف چبانے کا فائدہ یہ ہو گا کہ گیس اور قبض پیدا نہیں ہو گی۔ نیز سگریٹ چھوڑنے کے بعد ذہن میں یہ خوش کن خیالات رکھیں کہ سگریٹ سے نجات پاکر میں نے فلاں فلاں بیماری سے نجات پائی اب میں صحت مند ہوں اور دوسرے آدمیوں کی طرح نارمل ہوں اللہ عزوجل کا شکر ہے کہ بہت بڑی بال سر سے اتر گئی ہے۔
یاد رکھئے سگریٹ چھوڑنے کے بعد کبھی صرف ایک سگریٹ پینے کی کوشش بھی مت کیجئے کیونکہ ایک سگریٹ کے کش لینے سے دوبارہ نئے سرے سے آپ اس کے عادی ہو جائیں گے۔
شراب کے نقصانات
حضور نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے شراب کے بارے میں دس شخصوں پر لعنت کی۔
(1) بنانے والا (2) بنوانے والا (3) پینے والا (4) پلانے والا (5) اٹھا کر لے جانے والا (6) رکھنے والا (7) بیچنے والا ( 8 ) خریدنے والا (9) مفت دینے والا (10) دام کھانے والا۔ (ترمذی)
امراض معدہ اور شراب
شراب کی وجہ سے معدے کی خطرناک بیماریاں پیدا ہوتی ہیں یہ اس لئے ہوتا ہے کہ یہ خون میں موجود لائیپڈ جو ایک خاص قسم کی چربی ہوتی ہے اس کے استعمال سے تحلیل ہو جاتی ہے یعنی لائیپڈ ایک طرح کی حفاظتی تہہ مہیا کرتا ہے جس پر تیزابیت کا نقصان دہ اثر نہیں ہوتا اور اسی تہہ کی وجہ سے معدہ خود اپنے آپ کو ہضم نہیں کر سکتا اگرچہ یہ فی الحال پوری طرح ثابت نہیں ہوا کہ جس طرح شراب گلے اور خوراک کی نالی میں کینسر کا ذریعہ بنتی ہے معدہ کے معاملے میں بھی ایسا ہی ہے لیکن اس خیال کو تقویت ہوتی اج رہی ہے کہ معدے کے سرطان میں بھی شراب کی کارستانی ہوتی ہے۔
امراض امعاء اور شراب
شراب کا سب سے زیادہ نقصان دہ اثر بارہ انگشتی آنت پر ہوتا ہے اس جگہ نہایت نازک کیمیائی اثرات وقوع پذیر ہوتے ہیں شراب اس کی اس خاصیت کو متاثر کرتی ہے جو مخصوص ہاضم لعاب خارج کرنے کی صلاحیت سے تعلق رکھتی ہے اور اس کی کیمیائی حساسیت پر اثر انداز ہوتی ہے ہاضمہ کیلئے اس اہم راستے کی تباہی کے بعد شراب جگر سے پیدا ہونے والے ہاضم لعاب Bile کے اخراج پر بھی اثر انداز ہوتی ہے تمام شرابیوں کی بارہ انگشتی آنت اور پتہ کی جھلی پمیشہ بیماری کا شکار ہوتی ہیں یا ان کا فعل اکثر صحیح نہیں ہوتا۔ یہ حالت ہر شرابی کو گیس بدہضمی کے ذریعے مصیبت میں ڈالے رکھتی ہے۔ معدے کی یہ تکالیف آنتوں پر بھی اثر ڈالتی ہے۔
امراض جگر اور شراب
انسانی جگر وہ حساس لیبارٹری ہے جو شراب کے ہر چھوٹے سے چھوٹے سالمے کو زہر کی طرح محسوس کرتا ہے جگر پر شراب کا اثر دو طرح سے ہوتا ہے۔
1- شراب خوری کی صورت میں جگر کے خلیے الکحل ختم ہونے کی ذمہ داری میں پوری طرح مصروف ہوتے ہیں اس طرح وہ اپنے دوسرے کاموں کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔
2- جگر کے کیمیاوی عمل جو ایک سے ایک بڑھ کر حساس ہوتے ہیں شراب کے بلا روک ٹوک اثر کے تحت درہم برہم ہو جاتے ہیں اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جگر کو ایک ہی عمل بار بار دہرانا پڑتا ہے اور اس طرح بے پناہ مسلسل اور بال ضرورت محنت اور مشقت سے جگر کی کمزوری واقع ہو جاتی ہے یہ اثرات جگر کیلئے خطرناک نتائج پیدا کرتے ہیں ان اثرات میں زیادہ مشہور جگر کا سکڑنا ہوتا ہے جو اس کا زندہ ثبوت ہوتا ہے کہ جگر کی بربادی مکمل طور پو چکی ہے۔
مذید برآں جگر کی وجہ استطاعت جس کی وجہ سے جسمانی تحفظ کے اعضاء جیسے مختلف قسم کے گلوبین بنتے ہیں شرابیوں میں خطرناک حد تک کم ہو جاتے ہیں اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ان لوگوں میں بیماریوں کے خلاف مدافعت کم سے کم ہو جاتی ہے۔
شراب بعض اوقات جگر کے فعل کے اچانک رک جانے کی وجہ بھی بن جاتی ہے اس صورت میں ایک شرابی بے ہوشی کے عالم میں ہی مر جاتا ہے اسے جگر کا دیوالیہ پن کہتے ہیں جگر کے سلسلے میں ایک مثال بھی ایسی نہیں ملتی جس میں اس پر شراب کے نقصان دہ اثرات کا ثبوت نہ ملتا ہو۔
گردوں پر شراب کا اثر
انسانی گردے جنہیں دوران خون کے نظام کا آخری مقام سمجھا جائے ان کو شراب کے استعمال سے سخت نقصان پہنچتا ہے۔ اس لئے کہ گردے انتہائی حساس کیمیائی جوہر کی ملاپ Valence کے مقام پر چھلنی کا کام دیتے ہیں لیکن شراب اس نازک عمل کو بھی تہہ و بالا کر دیتی ہے یہ تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ وہ شرابیں جن میں الکحل کی مقدار کم ہوتی ہے گردوں کیلئے زیادہ نقصان دہ ہوتی ہیں چنانچہ زیادہ مقدار میں بئیر پینے والوں کے گردے اکثر خراب ہوتے ہیں۔
لمف والے (Lymphatic) نظام کی انسانی جسم میں بے حد اہمیت ہے اس نظام کی خون والی نالیاں شراب کے ہاتھوں ناقابل علاج نقصان اٹھاتی ہیں اس لئے کہ چربی والے نامیاتی مرکب لائیپڈ کا اس نظام میں ایک بہت اہم مقام ہوتا ہے۔ شراب کا نقصان دہ اثر اس حیران کن حد تک حفاظت بہم پہنچانے والے نطام کو برباد کر دیتا ہے۔
امراض قلب اور شراب
جسم میں دوران خون قائم رکھنے والی قلبی نالیوں اور طی اور شریانوں کے امراض میں اضافہ ہو رہا ہے اس کیلئے شراب کے استعمال کا مسئلہ ایک اہم مسئلہ بن گیا ہے۔ اب وہ بات نہیں رہی کہ بیماریاں خال خال نظر آتی تھیں۔ اس بیماری کے آغاز کی کئی وجوہات ہیں، انہیں خطرناک امکانات میں ایک عنصر خوراک، جسم اور خون میں موجود چربی ہے۔ جسم میں زیادہ گرمی پیدا کرنے والے الکحل کی اقسام مثلاً برانڈی اور دہسکی سے انسان کی حرکت قلب بند ہو جانے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔
تازہ چھان بین کے مطابق چربی کی جو قسمیں خون بھپکنے والی نالیوں میں (شریانوں) کے امراض پیدا کرتی ہے ان میں ٹرائی گلی سیرائیڈ سب سے زیادہ اہم ہے اور یہی مادہ ہے جو الکحل کے استعمال سے خون میں بڑھ جاتا ہے جو الکحل کثیر مقدار میں نوش کئے جاتے ہیں وہ گردش خون کو متاثر کرتے ہیں اور حرکت قلب بند کر دینے کا باعث بن سکتے ہیں عادی اور بھاری مقدار میں شراب پینے والوں میں ایک بیماری پیدا ہوتی ہے جسے الکحولک کار ڈیومایوتھی کہتے ہیں۔
شراب کے اثرات اعصابی نظام پر
شراب سے دماغ پر اتنا برا اثر پڑتا ہے کہ رفتہ رفتہ تمام اعصابی نظام تباہ ہو کر رہ جاتا ہے اس سے سوچنے اور فیصلہ کرنے کی قوت کم ہو جاتی ہے شرابی کی قوت مدافعت کمزور ہو جانے سے عام دوائیں بھی اس پر اثر نہیں کرتیں اس لئے شرابی کو اگر کوئی مرض لاحق ہو جائے تو اس کا علاج نہایت مشکل سے ہوتا ہے۔
شراب عصبی خلیوں کی اس باریک جھلی میں داخل ہو جاتی ہے جو نامیاتی چربی جیسے مرکب یعنی لائیپڈ کی حفاظت میں ہوتی ہے اس کا برا اثر اعصابی نظام کے مراکز پر ناقابل علاج حد تک ہوتا ہے۔ الفاظ کا بھولنا اور ہاتھوں کا رعشہ اس اعصابی نقصان کی نشانیاں ہوتی ہیں شراب میں چربی پگھلانے کی صلاحیت ہوتی ہے تخلیقی خلیوں میں داخل ہو کر ان کے بے حد نقصان پہنچاتی ہیں اس کی عام فہم مثال میں نئی نسل کی ذہانت میں کمی اور ناقص بالیدگی شامل ہیں۔ بہت سے مطالعہ جات اور سروے کے بعد یہ حقیقت ظاہر ہوتی جا رہی ہے کہ ذہنی طور پر غبی بچوں کے والدین اکثر و بیشتر شدید قسم کی شراب نوشی کرتے تھے۔ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ شراب عورت کے غم اور بیضہ حیات کے خلیے کو بہت آسانی سے نقصان پہنچاتی ہے اس کا نتیجہ یہ ہے کہ شرابی ماؤں کے بچے اکثر موروثی طور پر دماغ یا قلبی قدمہ یا جھٹکے کا شکار ہو جاتے ہیں شرابی باپ کی طرف سے ایسے واقعات کی تعداد تیس فیصد سے زیادہ تک ہوتی ہے۔ شراب میں شروع سے جنسی قوت بڑھ جاتی ہے لیکن بعد میں اتنی کمزوری پیدا ہوتی ہے جو باعث ندامت بنتی ہے۔
دنیا اس وقت ایڈز کے خطرے سے لرزاں ہیں لیکن ایڈز کے پیدا کرنے میں شراب اور دیگر نشہ آور چیزوں کا ہاتھ ہے۔
معاشرے پر اثرات
1- مخمور انسان ایسی ایسی عجیب، نازیبا اور انسانیت سوز حرکات کا ارتکاب کرتا ہوا نظر آتا ہے کہ کوئی باوقار انسان انہیں دیکھنا بھی پسند نہیں کرتا۔
2- شرابیوں میں زودرنجی یا غصہ کے فوری حملہ، ان کو معاشرے میں لا تعداد تنازعات میں الجھائے رکھتے ہیں۔ شراب میں بدمست کبھی جوش میں آکر گالیاں بلکہ مرنے مارنے پر اتر آتا ہے۔ کبھی رونے لگتا ہے اور کبھی خوفزدہ ہو کر کانپنے لگتا ہے۔
3- لاتعداد متواتر طلاقیں معاشرے کی بنیادی ڈھانچوں کو ہلا کر رکھ دیتی ہیں اور نتائج میں مجرمانہ ذہنیت کے حامل بچوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کی وجہ سے تمام معاشرہ خطرناک حد تک متاثر ہوتا ہے۔
4- مختلف قسم کے کام کرنے والے مزدوروں اور کاریگروں پر شراب کی وجہ سے بے دلی اور کاہلی کا غلبہ ہو جاتا ہے اس طرح ان کی کارکردگی اور مہارت پر برا اثر پڑتا ہے جس کا آخری نقصان معاشرے کو پہنچتا ہے۔
5- شراب کی وجہ سے انسانوں میں ایک دوسرے کی طرف غیر ہمدردی کے اثرات مرتب ہوتے ہیں اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ قومی تفکر، معاشرتی اتحاد اور معاشرتی مسائل کے خلاف جہاد کا جذبہ مکمل طور پر ختم ہو جاتا ہے۔
6- شیطان شراب اور جوئے کے ذریعے انسانوں کے درمیان منافقت اور فساد پیدا کرتا ہے اس لئے خدا تعالٰی نے سورہء مائدہ میں فرمایا “یہ گندے کام شیطانی عمل ہیں پس ان سے بچتے رہو تاکہ تمہاری زندگی اچھی گزرے، گویا یہ کام ہلاکت و بربادی کے موجب ہوتے ہیں۔
ہیروئن کی تباہی
پہلے لوگ افیون اور بھنگ کا نشہ کرتے تھے۔ لیکن اب مارفیا اور ہیروئن نے تباہی مچا رکھی ہے ان چیزوں کی عادت سکولوں کالجوں سے شروع ہوتی ہے ایک بار کسی لڑکے نے کش لگوا دیا اور تمام عمر کیلئے تباہی آگئی دکھ کی بات یہ ہے کہ پہلے لڑکے ان شیاء کو استعمال کرتے تھے اب لڑکیوں نے بھی ان کے شانہ بشانہ چلنا شروع کر دیا ہے۔ جدید نشہ آور اشیاء کے استعمال سے بڑی تیزی کے ساتھ بیماریاں لاحق ہو جاتی ہیں۔
آج کل ہیروئن میں بیرم سلفائیڈ کی ملاوٹ کی جاتی ہے اور یہ کیمیکل اتنا زیریلا اور خراش ڈالنے والا ہے کہ جہاں جہاں اس کا اثر ہوتا ہے یہ خراش ڈالتا ہے۔ یہ بالوں تک کو صاف کر دیتا ہے ہیروئن کے عادی افراد کے پھیپھڑوں میں زخم ہو جاتے ہیں جو کسی وقت بھی پھٹ سکتے ہیں معدہ کی جلد گلنے لگتی ہے خون کی نالیاں پھٹنے سے بعض اوقات نکسیر پھوٹنے لگتی ہے تھوک کے ساتھ خون آنے لگ جاتا ہے۔ دل بدن بدن کمزور ہونے لگتا ہے جو کسی وقت بھی اپنی دھڑکن بند کر سکتا ہے حرام مغز متاثر ہوتا ہے اعصابی بیماریاں پٹھوں کا کھچاؤ یا دماغ میں خون جم جانے سے فالج ہو سکتا ہے۔ جنسی کمزوری لاحق ہو جاتی ہے بلڈ پریشر بھی نارمل نہیں رہتا جسم ٹوٹتا رہتا ہے ہر وقت تھکاوٹ سی رہتی ہے بہت سی بیماریاں جسم کے اندر موجود ہوتی ہیں لیکن بے حسی کی وجہ سے ظاہر نہیں ہوتیں مقدار میں زیادتی کی وجہ سے بعض لوگوں کے سپرم ڈیڈیا ست رو ہو جاتے ہیں اور یہ لوگ اولاد کے قابل نہیں رہتے جسم کی چربی دن بدن پگھل کر ہڈیاں رہ جاتی ہیں جو خون پیدا ہوتا ہے وہ متعفن ہو جاتا ہے گردے پوری طرح خون صاف نہیں کرتے گردوں کی چھلنیاں دن بدن سکڑنے لگتی ہیں آخرکار گردے فیل ہو جاتے ہیں اور پیشاب بننا بند ہوکر موت واقع ہو جاتی ہے۔ معدہ میں زخم ہو جانے کی وجہ سے جلن محسوس ہوتی ہے ہضم کا عمل ٹھیک طور سے نہیں ہوتا پیٹ میں درد رہنے لگ جاتا ہے کھانے پینے کی رغبت کم ہو جاتی ہے پھیپھڑوں کے زخموں کی وجہ سے پھیپھڑوں میں پیپ پڑ جاتی ہے اور سخت کام کرنے یا چلانے سے پھیپھڑے پھٹ سکتے ہیں وہ ہاتھ جو ایک من چیز اٹھاتے تھے دس کلو بوجھ اٹھانے سے قاصر ہو جاتے ہیں۔ (امراض عامہ)
افیون کے خوفناک اثرات
افیون کھانے کے عادی لوگوں کے اعصاب ڈھیلے اور کمزور ہو جاتے ہیں دردسر، بے ہوشی کی سی کیفیت پتلیوں کا سکڑنا خراٹے دار سانس آنے لگتا ہے۔ منہ خشک اور قبض شدید ہوتا ہے۔ سستی، کاہلی، جلد زرد اور خشک رہتی ہے جسم کمزور اور رعشہ ہو جاتا ہے اگر عضلات تنفس مفلوج ہو جائیں تو موت واقع ہو سکتی ہے۔ تشنج اور فالج تو اکثر ہوا کرتے ہیں افیونی کا بیان قابل اعتماد نہیں ہوتا کیونکہ قوی عقلیہ میں ضعف آجانے کی وجہ سے اسے نیک و بد کی تمیز نہیں رہتی۔ بھوک زائل ہو جاتی ہے اور منہ خشک رہتا ہے۔
چنانچہ اس کے استعمال سے آدمی ادہانی خیالات کے سمندر میں غرق ہو جاتا ہے اکثر اپنی دنیا کو بھول کر محض خیالات کی وادیوں میں بھٹکنے لگتا ہے پست ہمتی، اخلاقی گراوٹ، بے شعوری بڑھتی جاتی ہے حتٰی کہ اس کا عادی معاشرہ کیلئے ناسور بن جاتا ہے۔ ان تمام عقل و صحت کی بربادیوں کے علاوہ نقصان مایہ و شماتت ہمایہ کا سبب بن جاتا ہے۔ مالی حالت دن بدن تباہ ہو جاتی ہے حتٰی کہ چوری و ڈکیٹی اور قتل و غارت گری کا مرتکب بن جاتا ہے اسلام کا یہ اصول کہ اس نے یہ تمام مضرت رساں اور بربادکن اشیاء کو جو نہ صرف صحت کا نقطہ نظر سے بلکہ اور بے شمار اعتبارات مثلاً نفسیاتی، اخلاقی، اجتماعی اور اقتصادی لحاظ سے سخت مضرت رساں ہیں ان کو حرام قرار دیتا ہے۔ جو تمام بنی نوع انسانوں پر احسان عظیم ہے۔ فقہائے کرام فرماتے ہیں جو افیون کا عادی ہوگا مرتے وقت اسے کلمہ نصیب نہ ہو گا۔
حشیش کے نقصانات
حشیش بھنگ کو کہتے ہیں اس پودے کی پتیاں ٹہنیاں گھوٹ کر پینے سے نشے کی سی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے سر چکراتا ہے اور ہر وقت غفلت سی چھائی رہتی ہے گانجا اور چرس بھی اسی پودے سے حاصل کئے جاتے ہیں وہ بھی اسی قسم کے اثرات مرتب کرتے ہیں البتہ اس کا تمباکو میں ملاکر بھی استعمال کیا جاتا ہے اور اس طرح اور بھی مضر صحت ہو جاتا ہے اس کے استعمال سے خون کی کمی بے ہمتی اور ذہنی انتشار لاحق ہو جاتے ہیں جو بحیثیت مجموعی صحت پر انتہائی برا اثر ڈالتے ہیں اور انسان کی صحیح سوچ اور فکر جاتی رہتی ہے ایسے لوگ بعض اوقات یا وہ گوئی پر اثر آتے ہیں۔ زیادہ مقدار میں استعمال کرنے سے آدمی بے قابو ہو جاتا ہے آخر میں قوما ہوکر موت بھی واقع ہو جاتی ہے۔
بعض ڈاکٹریہ ادویہ
ہماری ہیلتھ پالیسی میں کمزوری کے باعث بہت سی ڈاکٹری ادویہ کا استعمال عام ہاتھوں میں چلا گیا ہے وہ دوائیں جو ڈاکٹری نسخہ کے بغیر ممنوع ہونا چاہئیے تھیں سرعام مل رہی ہیں یہ ادویہ نفسیاتی مسائل سے پیدا ہونے والے ڈپریشن کو دور کرنے کیلئے تجویز کی جاتی ہیں لیکن ان کا بطور استعمال نشہ زیادہ ہوتا ہے اور یہ لوگ اتنی مقدار میں ان کا استعمال کرتے ہیں کہ اپنے لئے ہولناک گڑھا تیار کرتے ہیں۔
ان ادویہ کا نشہ کرنے سے سر میں دائمی درد پیدا ہو جاتا ہے اور بھولنے کی بیماری نسیان پیدا ہو جاتی ہے۔ پیشاب میں غیر طبعی اجزاء خارج ہوتے ہیں ہر وقت وحشت طاری رہتی ہے بعض ادویہ اتنی زہریلی ہیں جو خون کے خلیات کو تباہ کر دیتی ہیں اور زندگی کیلئے خطرہ بن جاتی ہیں۔ بعض دواؤں کے استعمال سے شدید قبض، پیشاب کی زیادتی سینہ کی جلن اور خفقان قلب کے عارضے لاحق ہوتے ہیں خون کے سفید جرثومے کم ہو جاتے ہیں اور یرقان کا خطرہ رہتا ہے دمہ کے مریضوں کیلئے ان ادویہ کا استعمال خطرناک ہے اگر کسی معالج نے اپنی دوکان پر اس قسم کا اشتہار لگا رکھا ہو کہ میرے پاس ایسی دوائی ہے جو رعشہ، قبض، جگر کی خرابی، معدہ کی خرابی، پاگل پن، سر درد، سانس کی تنگی اور نظر میں کمزوری پیدا کرتی ہے اپنی جیبوں کو خالی کرانے اور موزی بیماریوں کے جال میں پھنسنے کیلئے میری دوائی خریدیں تو ہر کوئی جوتا اٹھا کر اس کے پیچھے پڑ جائے گا لیکن حیرت ہے نشہ کے عادی افراد پر کہ جانتے ہوئے بھی ایسی ادویہ کا بکثرت استمعال کرتے ہیں اور اپنی صحت جوانی اور دولت کا ستیاناس کرتے ہیں۔
کسی بھی ڈاکٹر اور طبیب کو ان ادویہ کا نام اپنی کتاب میں درج نہیں کرنا چاہئیے۔ کیونکہ جو چیز عوام کے فائدے کیلئے درج کی جاتی ہے یا جس چیز کا نام بتاکر لوگوں کو ڈرایا جاتا ہے بعض ناعاقبت اندیش لوگ اس کا غلط استعمال کرنے لگ جاتے ہیں۔ جس طرح شروع میں ہیروئن کے نام سے صرف چند افراد واقف تھے لیکن اخبارات ریڈیو اور ٹی وی پر اس کے نام کا اتنی کثرت سے تذکرہ کیا گیا کہ آج ہر بچہ ہیروئن کے نام سے واقف ہے اور ہر کسی کے ذہن میں تجسس پیدا ہوتا ہے کہ ہیروئن کس قسم کی ہوتی ہے دیکھنا چاہئیے اور دیکھنے کے چکر میں لوگ ہیروئن کے عادی ہو رہے ہیں۔
چائے نوشی کے نقصانات
چائے کو میں نے نشہ آور چیزوں کے عنوان میں اس لئے لکھا ہے کہ یہ اندر ہی اندر جسم کو کھوکھلا کر دیتی ہے۔ بچوں اور عورتوں کو خصوصیت سے نقصان پہنچاتی ہے۔
یاد رکھئے چائے کی عادت بھی نشہ آور چیزوں کی طرح کم مضر نہیں بہرحال بغیر کسی ضرورت کے چائے سے اجتناب کرنا چاہیئے۔
کیونکہ معدہ کی جو بیماریاں آج کثرت سے پیدا ہو رہی ہیں ان میں چائے کا بہت زیادہ ہاتھ ہے۔ خصوصاً معدہ میں تیزابیت، جلن اور بھوک کی کمی اس کے نتائج ہیں۔
عرصہ دراز تک استعمال کرنے سے بینائی کو کمزور کرتی ہے۔ خون کو فاسد اور جگر کو متاثر کرتی ہے۔ محرک ہونے کی وجہ سے مثانہ میں گرمی پیدا کرتی ہے اور گردے ضرورت سے زیادہ پانی خارج کرنے لگتے ہیں پسینہ کی کثرت سے نمکیات جلد کے راستے خارج ہوتے ہیں۔ چائے زیادہ پینے سے خون میں غلیظ مادے جمع ہو جاتے ہیں۔ بے خوابی اور دائمی قبض لاحق ہو جاتی ہے بلڈ پریشر اور دل کے مریضوں کیلئے چائے نہایت مضر ہے۔ خونی بواسیر کے مریضوں کیلئے ازحد نقصان دہ ہے تبخیر معدہ کے مریض کو بھی چائے نہایت مضر ہے جریان احتلام اور سرعت انزال بھی پیدا کرتی ہے۔ صحت عامہ کیلئے گھن کا اثر رکھتی ہے۔