Al-Shifa Naturla Herbal Laboratories (Pvt), Ltd.    HelpLine: +92-30-40-50-60-70

قوت مردمی کے لئے نقصان دہ غذائیں

 قوت مردمی کے لئے نقصان دہ غذائیں

قوت مردمی کے لئے نقصان دہ غذائیں۔ جو قبض پیدا کریں۔ قبض سے معدہ کا فعل تباہ وبرباد ہو جاتا ہے۔ قبض کی وجہ سے معدے کے بخارات دماغ کو چڑھتے ہیں تو اس سے وہ احساس شہوت مضمحل ہو جاتا ہے۔ جس سے باہ میں حرکت پیدا ہوتی ہے۔ اس کے متعلق کوئی اصول مقرر نہیں کیا جا سکتا کہ فلاں غذا یقینا قابض ہے اور فلاں نہیں۔ مختلف انسانوں کے مزاج اور قوت ہاضمہ کی قوتیں مختلف ہیں۔ جو چیزیں طبی اصول کے مطابق قابض شمار کی جاتی ہیں، تجربہ ثابت کرتا ہے کہ بعض لوگوں پر ان کا کوئی قابض اثر نہیں ہوتا پھر ان تمام چیزوں کی تشریح کے لئے ان صفحات میں کوئی گنجائش بھی نہیں ہے جو طبی طور پر قبض پیدا کرنے کی ذمہ دار ٹھہرائی گئی ہیں۔ اس لئے مختصر طور پر اتنا ذہن نشین کر لیجئے کہ کوئی غذا بھی جو کسی انسان کے لئے قابض ثابت ہوتی ہے۔ وہ قابل ترک ہے خواہ وہ کتنے ہی مقوی اثرات کی حامل بتائی جاتی ہو۔ طبی
طور پر چنا اور ارد بہترین مقوی باہ دالیں ہیں۔ لیکن جن لوگوں کو یہ قبض میں مبتلا کر دیتی ہوں۔ ان کو یہ باوجودمقوی باہ ہونے کے بھی سخت نقصان پہنچائیں گی۔ اس لئے ان کے مقوی باہ فوائد کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنی قوت کو برقرار رکھنے کے شائقین کو ان سے نسبتاً کمزور دالیں کھا لینا زیادہ بہتر ہو گا۔

گرم مصالحہ جات
آج کل ہر خواص وعوام کا رجحان طبع چٹپٹی اور مصالحہ دار چیزوں کی طرف بہت زیادہ ہو گیا ہے۔ اس لئے یہ واضح کر دینا نہایت ضروری معلوم ہوتا ہے کہ اگرچہ بعض تیز اور مصالحہ دار چیزیں محرک باہ ہوتی ہیں لیکن اصولی طور پر ہر ایک تیز محرک باہ چیز قوت باہ کو نقصان پہنچاتی ہے۔اس اصول کے ماتحت یہ احتیاط رکھنی چاہئے کہ حتی الوسع بہت زیادہ مصالحہ دار اور چٹپٹی چیزوں سے احترازکیا جائے لیکن جہاں باہ کو تحریک دینے کی ضرورت ہو اور کوئی سخت گرم دوانہ کھلائی جا رہی ہو۔ مریض کا مزاج بادی ہو یا بلغمی ہو وہاں گرم مصالحہ نہایت مفید ثابت ہو گا۔

زیرہ باہ کو کمزور کرتا ہے
زیرہ سیاہ وسفید اگرچہ قوت ہاضمہ کے لئے نہایت مفید ہیں لیکن اسکا زیادہ استعمال باہ کےلئے نقصان دہ ہے۔ قوی الباہ شخص اگر زیرہ کو دو تین تولہ کی مقدار میں روزانہ صبح گھوٹ کر پیئے تو دو تین ہفتوں کے بعد ہی کمزوری محسوس کریگالیکن اسکا اثر طبیعت کے مطابق ہوتا ہے۔

دھنیاکا زیادہ استعمال نقصان دہ
خشک دھنیا گرم مصالحہ کا ایک بہت بڑا جزو ہے۔ سبز دھنیا بھی چھونک وغیرہ لگانے کے لئے بہت کثرت سے استعمال میں لایا جاتا ہے لیکن بہت کم لوگ اس راز سے واقف ہیں کہ دھنیا باہ کے لئے از حد مضر ہے۔ سبز دھنیا خشک دھنیے سے بھی زیادہ غیر مفید ہے۔ اگر سبز یا خشک دھنیا ایک یا دو تولہ کی مقدار میں گھوٹ کر پلایا جائے تو اچھے خاصے قوی پیکر مرد کو دو تین ہفتوں میں نامرد بنا دیتا ہے۔

گرم مصالحہ کے اجزا
گرم مصالحہ میں دار چینی، سونٹھ، تیزپات اور بڑی الائچی بہت مفید اجزاہیں۔ دار چینی دماغ کے لئے نہایت اکسیری فوائد رکھتی ہے اور باہ کو ہیجان میں لاتی ہے۔ سونٹھ بھی مرکز تناسل میں تحریک پیدا کرنے کے لئے بے نظیر چیز ہے۔ تیز پات اور بڑی الائچی بھی مقوی باہ اثر رکھتی ہیں۔ ان چیزوں کے دیگر فوائد دانستہ نظر انداز کر دیئے گئے ہیں۔ بعض لوگ گرم مصالحہ میں لونگ بھی شامل کرتے ہیں۔ کوئی شبہ نہیں کہ لونگ ایک مفید جزو ہے لیکن دار چینی، سونٹھ وغیرہ کے ہوتے ہوئے اس بات کی ضرورت نہیں کہ لونگ گرم مصالحہ میں شامل کر کے اس کی تاثیر کو اور بھی زیادہ گرم اور ایک حد تک مضر بنا دیا جائے۔ لونگ کے ایک دو دانے بھی صبح وشام استعمال کرنا گرمی پیدا کر سکتے ہیں لہٰذا میری رائے میں لونگ گرم مصالحہ میں کبھی استعمال نہ کیا جائے۔

لہسن اور پیاز
ہندوئوں کے معزز اور قدیم روش کے پابند گھرانوں میں لہسن اور پیاز کو سخت قابل نفرت سمجھا جاتا ہے۔ یوپی کے بعض برہمن، کھشتری اور بنئے تو ان کے نام سے بھی گھبراتے ہیں بعض گھرانوں میں پیاز استعمال ہوتا ہے لیکن لہسن کو تو چھونا بھی گناہ سمجھا جاتا ہے۔ مگر یہ ایک سخت غلط فہمی اور طبی اصولوں سے ناواقفیت کا ایک افسوسناک مظاہرہ ہے۔ ہندوئوں کے رشیوں اور منیوں کے بنائے ہوئے آیورویدک گرنتھوں میں لہسن کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملائے گئے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ لہسن اور پیاز دونوں چیزیں ازحد محرک اور مقوی باہ ہیں۔ کچا پیاز کھانا شائد باہ کے لئے زیادہ مفید ہو لیکن اس کا چھونک لگانا صحت بخش بھی ہے۔ کچے پیاز میں چند ایک تیزابی مادے ایسے ہوتے ہیں جو مضر صحت ہوتے ہیں لیکن پکانے سے ان کی پورے طور پر اصلاح ہوجاتی ہے۔ پیاز کے صحت بخش اور مقوی باہ اثرات زمانہ قدیم سے تسلیم ہوتے چلے آئے ہیں۔ مصر قدیم تہذیب کا گہوارہ تسلیم کیا جاتا ہے۔ اس کے اہرام بناتے وقت کارکن کثیر مقدار میں پیاز استعمال کرتے تھے اور اسے جسمانی قوت اور صحت کے لئے نہایت مفید مانتے تھے۔ لہسن پیاز سے بھی زیادہ مقوی باہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس کے مقوی باہ اثرات نہایت ہی نمایاں اور قابل محسوس ہیں۔ اگر سالم نخود کی دال کو موسم سرما میں چھ ماشہ سے ایک تولہ تک لہسن کا چھونک لگا کر کوئی بلغمی مزاج کا شخص دو تین ہفتے لگاتار استعمال کرتا رہے تو باہ کو اس قدر غیر معمولی تقویت حاصل ہوتی ہے کہ حیرت ہوتی ہے۔ آیورویدک فن طب میں ایسے بیسیوں مقوی باہ نسخے درج ہیں۔ جن کا جزو اعظم لہسن ہے۔ لہسن پٹھوں کو از حد قوت دیتا ہے۔ بادی اور بلغمی امراض کا قلع قمع کرتا ہے۔ اس کے اس قدر فوائد ہیں کہ اگر ان کا تفصیل سے بیان کیا جائے تو کئی صفحے درکار ہیں۔ اس لئے صرف اسی قدر لکھنے پر اکتفا کیا جاتا ہے کہ لہسن اور پیاز کے استعمال کرنے سے منہ سے ناگوار سی بو آتی ہے مگر اس کا علاج نہایت آسان ہے۔ تھوڑا سا قند سیاہ (گڑ) سونف یا ایک الائچی منہ میں رکھ لینے سے بدبو رفع ہو جاتی ہے۔

حیض کے دوران ورزش نقصان دہ ہے؟

حیض کے دوران ورزش قطعاً نقصان دہ نہیں ہے۔ ورزش کرنے سے ماہواری کے بہاؤ پر کوئی منفی اثر نہیں پڑتا۔ بلکہ ورزش کرنے کی صورت میں عضلات میں آکسیجن زیادہ مقدار میں پہنچتی ہے اور درد میں کسی قدر کمی آجاتی ہے۔

حیض میں نہانا نقصان دہ؟

عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ حیض میں نہانا صحت کے لئے نقصان دہ ہے، جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔

حیض کے دوران نہانا قطعاً نقصان دہ نہیں ہے بلکہ ایک حد تک بالکل مفید ہے۔ درحقیقت حیض کے دنوں میں نہاناصفائی کے لحاظ سے نہایت اہم ہے۔ اگر نہانے کے دوران کچھ خون یا دھبے آجائیں تو اس میں گھبرانے والی کوئی بات نہیں کیونکہ یہ ایک معمول کی بات ہے۔

اسپرین کا استعمال دماغ کیلئے نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے، نئی طبی تحقیق

روزانہ اسپرین استعمال کرنے والوں کے دماغ میں جریان خون ہوسکتا ہے، تازہ ترین تحقیق کے حوالے سے روزنامہ ایکسپریس لندن نے یہ خبر دی ہے۔ اخبار کے مطابق ایک ہزار افراد کے دماغ کی سکیننگ سے یہ ظاہر ہوا کہ سپرین استعمال کرنے والوں کے دماغ میں خون رسنے کے واقعات دوسروں کے مقابلے میں 70 فیصد زیادہ تھے،اخبار کے مطابق یہ نئی تحقیق دل کے جان لیوا دورے سے محفوظ رہنے کیلئے اسپرین استعمال کرنے والے ہزاروں برطانوی شہریوں کیلئے ایک تشویشناک خبر ہے۔ اسپرین عام طور پرخون کو پتلا رکھنے اور اس میں لوتھڑے بننے سے روکنے کیلئے استعمال ہوتی ہے۔ اس سے قبل کی تحقیق میں بتایا گیا تھا خون کے لوتھڑے توڑنے والی دوائیں آنتوں میں جریان خون کے خطرے میں اضافہ کرسکتی ہیں۔

چرس کی ایک سگریٹ پھیپھڑوں کو تمباکو کی پانچ سگریٹوں جتنا نقصان پہنچاتی ہے

برطانوی طبی جریدے ’تھوریکس‘میں شائع ہونے والے اس مطالعاتی جائزے میں نیوزی لینڈ کے میڈیکل ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے ماہرین نے بتایا کہ ان کی تحقیق سے ظاہر ہوا ہے کہ بھنگ کے استعمال سے پھیپھڑے مناسب طریقے سے کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔اس نقصان کی شرح میں اسی نسبت سے اضافہ ہو ا جس تناسب سے سگریٹوں کی تعداد میں اضافہ ہوا۔ محققین نے 339 رضاکاروں کا تجزیہ کیا جنہیں چرس پینے والے ، تمباکو پینے والے، بھنگ اور تمباکو پینے والے اور نہ پینے والے گروپوں میں تقسیم کیا گیا تھا ۔
بھنگ پینے والوں نے دم گھٹنے ، کھانسنے، اور چھاتی میں دباؤ کی شکایت کی جسے محققین نے پھیپھڑوں میں آکسیجن لانے والی چھوٹی نالیوں کو پہنچنے والے نقصان سے منسوب کیا۔

تاہم اس مطالعاتی جائزے سے یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ پھیپھڑوں کی نالیوں کے پھیلنے کی ایک بیماری ایم فزیما صرف تمباکو کے استعمال سے لاحق ہوتی ہے

تمباکو کے نقصان کا کیسے پتہ چلا؟

پھیپھڑوں کے کینسر اور تمباکونوشی کے درمیان تعلق معلوم کرنے والے برطانوی سائنسدان سر رچرڈ ڈول کا بانوے سال کی عمر میں انتقال ہو گیا ہے۔
وہ آکسفورڈ کے جان ریڈکلف ہسپتال میں زیر علاج تھے۔ سر ڈول کا شمار دنیا کے معروف ترین پروفیسروں میں ہوتا تھا۔
ان کی وجہ شہرت انیس سو پچاس میں لکھا جانے والا ان کا تحقیقی مقالہ تھا جس میں انہوں نے تمباکونوشی کو پھیپھڑوں کے کینسر کی وجہ بتایا۔ اس تحقیق میں آسٹن بریڈفورڈ ہل بھی ان کے ساتھ تھے۔

جامعہ آکسفورڈ کے وائس چانسلر ڈاکٹر جان ہڈ نے کہا ہے کہ سر رچرڈ کی تحقیق نے دنیا میں لاکھوں لوگوں کی جانیں بچائیں۔

انہوں نے کہا کہ سر ڈول کی پھیپھڑوں کے کینسر اور دِل کی بیماریوں کے بارے میں تحقیق گزشتہ پچاس سال میں برطانیہ میں تمباکونوشی میں کمی کی ایک بڑی وجہ ہے۔

سر رچرڈ ڈول انیس سو بارہ میں ایک ڈاکٹر کے ہاں پیدا ہوئے تھے۔ ریاضی کے ایک امتحان میں فیل ہونے کے بعد انہوں نے طب میں تحقیق کرنے کا فیصلہ کیا۔

انہوں نے انیس سو سینتیس میں سینٹ تھامس میڈیکل سکول سے طب کی ڈگری حاصل کی اور رائیل آرمی میڈیکل کور میں شامل ہو گئے۔

سر ڈول کو طبی تحقیقاتی کونسل میں پھیپھڑوں کےکینسر میں اضافے کی وجہ معلوم کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی۔

ابتداء میں ڈول کا دھیان گاڑیوں سے نکلنے والے دھویں کی طرف گیا لیکن پھر انہوں نے تمباکونوشی کے رجحان میں اضافے پر توجہ دینی شروع کی۔ انہوں نے چھ سو مریضوں سے سوالنامہ بھروانے کے بعد نتیجہ اخذ کیا کہ پھیپھڑوں کی بیماری سگریٹ نوشی کی وجہ سے بڑھی ہے۔ اس کے بعد انہوں نے اپنی تحقیق کا دائرہ پورے ملک تک وسیع کر دیا۔

سر رچرڈ ڈول نے شراب نوشی کے ماں کے پیٹ میں بچوں پر اثرات اور مانع حمل ادویات کے اثرات کے بارے میں بھی تحقیق کی۔

سن دو ہزار میں اگست کے مہینے میں سر رچرڈ ڈول نے ایک رپورٹ پیش کی جس میں پچاس برس قبل کی گئی ان کی تحقیق درست ثابت ہوتی تھی کہ سگریٹ نوشی میں کمی کے ساتھ ساتھ پھیپھڑوں کے کینسر میں بھی کمی ہوئی ہے۔

سر رچرڈ ڈول کا ایک بیٹا اور ایک بیٹی ہے۔