اولاد اللہ تعالی کی بہت بڑی نعمت ہے مگر اس کے باوجود بعض اوقات انسان ضبط ولادت کو ضروری خیال کرتا ہے۔ اس کی بہت سی وجوہات ہو سکتی ہیں۔ ضروری نہیں کہ ہر ضبط ولادت کے پیچھے حرام کاری ہی کارفرما ہو۔
ضبط ولادت میں ممکنہ جائز وجوہات
ماں اور بچوں کی صحت کے نکتہ نظر سے خواہش ہوتی ہے کہ بچوں کی پیدائش میں دو تین سال کا وقفہ ہو۔
بعض اوقات ماں کی صحت اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ وہ مزید بچے پیدا کر سکے۔
بعض اوقات میڈیکل ٹیسٹوں کی مدد سے پتہ چل جاتا ہے کہ آئندہ بچے نارمل نہیں ہوں گے، چنانچہ حمل سے احتراز کیا جاتا ہے۔
والدین کی بعض بیماریاں بچوں کو منتقل ہونے کے خدشے سے بھی بعض اوقات ضبط ولادت کو ترجیح دی جاتی ہے۔
اکثر جوڑے دو یا تین بچوں کی پیدائش کے بعد اپنے خاندان کو مزید بڑا کرنے سے احتراز کرتے ہیں تاکہ وہ بچوں کی بہتر تعلیم و تربیت کا انتظام کر سکیں۔
ملازمت پیشہ خواتین بچوں کی تربیت کے لئے کم وقت نکال پاتی ہیں، چنانچہ ان کی بھی یہ خواہش ہوتی ہے کہ وہ کم بچے پیدا کریں۔
شرعی نقطہ نظر
مذکورہ بالا ممکنہ وجوہات کے پیش نظر بہت سے علماء ضبط ولادت کو سو فیصد حرام قرار نہیں دیتے۔ اس کے جواز میں وہ احادیث پیش کی جاتی ہیں جن میں صحابہ کرام کے عزل کرنے کا ذکر ہے۔ عزل اس دور میں ضبط تولید کا ایک طریقہ تھا۔
صحیح بخاری میں مذکور حدیث مبارکہ میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم عزل کیا کرتے تھے درآنحالیکہ قرآن مجید کے نزول کا سلسلہ جاری تھا۔
بخاری شریف کی ایک اور حدیث میں ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے سرور کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دریافت کیا کہ عزل کرنا کیسا ہے؟ آپ نے فرمایا جس جان کو اللہ نے قیامت سے پہلے پیدا کرنا ہے وہ ضرور پیدا ہو گی۔ (یعنی تم اسے روک نہیں سکو گے۔)
حقیقت بھی یہی ہے کہ عزل کے دوران انزال سے پہلے ذکر کو فرج سے باہر نکالنے کی کوشش میں یا انزال سے بھی پہلے بعض اوقات چند سپرم فرج میں رہ جاتے ہیں اور وہ حمل کا باعث بن جاتے ہیں۔ جدید تحقیق کے مطابق عزل کی صورت میں 25 فیصد تک حمل کا امکان باقی رہتا ہے۔ یہی بات چودہ صدیاں قبل نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کرام سے فرمائی تھی۔
اس صفحہ کے مواد میں مزید اضافہ کیا جائے گا۔
دوبارہ ملاحظہ کرنا مت بھولئے گا۔