Al-Shifa Naturla Herbal Laboratories (Pvt), Ltd.    HelpLine: +92-30-40-50-60-70

مباشرت میں مرد کی ناکامی کے اسباب

مباشرت میں مرد کی ناکامی کے اسباب

مباشرت میں مرد کی ناکامی کے اسباب

اکثروبیشتر دیکھا گیا ہے کہ مرد مباشرت کے دوران عورت سے بہت پہلے انزال ہو جاتا ہے اور اس کی بیوی کو جنسی تسکین حاصل نہیں ہوتی. جنسی فعل کے دوران مرد کی ناکامی کے اسباب مندرجہ زیل ہو سکتے ہیں
اکثر نوجوان شادی سے پہلے ہی اپنی جوانی کی حفاظت نہ کرتے ہوئے رنڈی بازی یا مشت زنی وغیرہ کی مدد سے اپنی بیشترت طاقت ضائع کر چکے ہوتے ہیں. اس طرح مرد کا مادہ منویہ پتلا ہو جاتا ہے اور جسم کی طاقت ختم ہو جاتی ہے. مرد عورت کے پاس جانے کے چند منٹ بعد ہی انزال ہو جاتا ہے. ایسے آدمی اپنی بیوی کو جنسی تسکین نہیں پہنچا سکتے ایسا اگر بار بار ہو تو اس طرح کے مردوں کو چاہیئے کہ وہ مباشرت سے قبل اپنا جسم عورت کے جسم سے دور رکھیں اور عورت کے جسم کا خوب اچھی طرح مساس کریں. جب عورت مکمل طور پر بیدار ہو جائے تو بھر مباشرت شروع کرے اور اس کے لیے کوئی ایسا طریقہ استعمال کرے جس میں رگڑ کم سے کم ہو. ایسے لوگوں کو چارپائی کی بجائے زمین پر گدہ بچھا کر مباشرت کرنا بہتر ہوتا ہے. مباشرت سے قبل مرد کو اپنے عضو پر کسی قسم کی کریم وغیرہ لگا لینی چاہیئے تاکہ رگڑ کم سے کم ھو. بعض اوقات مرد میں سرعت انزال کا مرض اتنا زیادہ ہوتا ہے کہ اس سے سب کرنے کے باوجود مساس کے دوران ہی انزال ہو جاتا ہے. تو ایسے مریض کو چاہیئے کہ ہو اپنی بیوی کو بلکل نہ چھیرے اور کسی قابل حکیم سے علاج کرائے. ایسی حالت میں بیوی کو چھیڑنا اپنے ہاتھوں بیوی کو بدکاری کے گڑھے میں بھینکنے کے برابر ہے

مباشرت میں مرد کی ناکامی اس سبب بھی ہو سکتی ہے کہ بیوی کے دل میں مباشرت کی کوئی خواہش نہ ہو مگر صرف یہ سمجھتے ہوئے کہ شوہر کا حکم ماننا فرض ہے اس کام کے لیے تیار ہو جائے. مرد تو اس سے مزہ حاصل کر لیتا ہے مگر عورت کو مکمل جنسی تسکین دینے میں ناکام رہتا ہے . اس چیز سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ مباشرت صرف اسی وقت کی چائے جب میاں بیوی دونوں میں‌اس کی فطری خواہش پیدا ہو اور اس خواہش کو کسی مصنوعی طریقہ سے بیدار نہ کیا گیا ہو. اس سے مباشرت کا لطف دوبالا ہو جاتاہے. خاوند کا بیوی سے پہلے انزال ہونے کا ایک بڑا سبب یہ بھی ہوتا ہے کہ جنسی فعل کے دوران چونکہ مرد فائل ہوتا ہے اور اس کو زور لگا نا پڑتا ہے اور مرد کا مادہ منویہ عورت کے مادہ منویہ کی نسبت کم راستہ طے کر کے آتا ہے. اس لیے مرد جلد انزال ہو جاتا ہے. بعض اوقات اگر دیر کے بعد بعد مباشرت کی جائے تو جنسی ہیجان کی وجہ سے مرد جلد انزال ہو جاتا ہے. مگر یہ کیفیت بلکل عارضی ہوتی ہے اور ایک دو روز کے بعد دور ہو جاتی ہے. اگر مرد ریادہ تھکا ہوا ہو اور اس تھکاوٹ کی حالت میں مباشرت کرے تو اس کے جلد انزال ہونے کے قوی امکانات ہوتے ہیں. ان سب باتوں سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ مباشرت سے قبل مساس کر کے عورت کے جذبات کو بیدار کیا جائے
سو فیصد مکمل جنسی علاج کیلیے رابطہ کریں حکیم محمد عرفان

دوا خود بنا لیں یاں ہم سے بنی ہوئی منگوا سکتے ہیں
میں نیت اور ایمانداری کے ساتھ اللہ کو حاضر ناضر جان کر مخلوق خدا کی خدمت کرنے کا عزم رکھتا ہوں آپ کو بلکل ٹھیک نسخے بتاتا ہوں ان میں کچھ کمی نہیں رکھتا یہ تمام نسخے میرے اپنے آزمودہ ہوتے ہیں آپ کی دُعاؤں کا طلب گار حکیم محمد عرفان
ہر قسم کی تمام جڑی بوٹیاں صاف ستھری تنکے، مٹی، کنکر، کے بغیر پاکستان اور پوری دنیا میں ھوم ڈلیوری کیلئے دستیاب ہیں تفصیلات کیلئے کلک کریں
فری مشورہ کیلئے رابطہ کر سکتے ہیں

Helpline & Whatsapp Number +92-30-40-50-60-70

Desi herbal, Desi nuskha,Desi totkay,jari botion se ilaj,Al shifa,herbal

کن حالات میں مباشرت سے پرہیز کرنا چاہیئے

کن حالات میں مباشرت سے پرہیز کرنا چاہیئے

کن حالات میں مباشرت سے پرہیز کرنا چاہیئے

مندرجہ ذیل اوقات میں مباشرت سے پرہیز کرنا چاہیئے

دن کے وقت مباشرت سے پرہیز کرنا چاہیئے کیونکہ اس وقت مباشرت کرنے سے اگر حمل ٹھہر چائے تو اولاد بدصورت اور بدچلن پیدا ہو گی

کھانے کے فورا معد یا خالی پیٹ مباشرت نہیں کرنی چاہیئے کیونکہ اس سے دونوں فریق پر برا اثر پڑتا ہے اور محتلف قسم کی بیماریاں لگ جاتی ہیں

بخار یا نزلہ و زکام کی حالت میں مباشرت نہیں کرنی چاہیئے کیونکہ اگر اس حالت میں حمل قرار پا گیا تو اولاد میں دائمی نزلہ زکام ہونے کا قوی امکان ہے

غم وغصہ یا خوف وغیرہ کی حالت میں مباشرت نہیں کرنی چاہیئے

زیادہ گرمی کے موسم میں مباشرت سے پرہیز کرنا چاہیئے

دوران حیض مباشرت نہیں کرنی چاہیئے کیونکہ اس سے مہلک قسم کی بیماری پیدا ہونے کا امکان ہوتا ہے

حمل کے دوران مباشرت سے پرہیز کرنا چاہیئے لیکن اگر اس دوران فطری طور پر خواہش پیدا ہو تو مباشرت کے لیے ایسا طریقہ اپنانا چاہیئے جس سے عورت کے پیٹ پر زیادہ بوجھ نہ پڑے اور وہ تکلیف محسوس نہ کرے

دوا خود بنا لیں یاں ہم سے بنی ہوئی منگوا سکتے ہیں
میں نیت اور ایمانداری کے ساتھ اللہ کو حاضر ناضر جان کر مخلوق خدا کی خدمت کرنے کا عزم رکھتا ہوں آپ کو بلکل ٹھیک نسخے بتاتا ہوں ان میں کچھ کمی نہیں رکھتا یہ تمام نسخے میرے اپنے آزمودہ ہوتے ہیں آپ کی دُعاؤں کا طلب گار حکیم محمد عرفان
ہر قسم کی تمام جڑی بوٹیاں صاف ستھری تنکے، مٹی، کنکر، کے بغیر پاکستان اور پوری دنیا میں ھوم ڈلیوری کیلئے دستیاب ہیں تفصیلات کیلئے کلک کریں
فری مشورہ کیلئے رابطہ کر سکتے ہیں

Helpline & Whatsapp Number +92-30-40-50-60-70

Desi herbal, Desi nuskha,Desi totkay,jari botion se ilaj,Al shifa,herbal

 

دل کے بیماریوں کی دوائیں شریعت کے مطب میں بنتی ہیں

heart-attack

دل کے بیماریوں کی دوائیں شریعت کے مطب میں بنتی ہیں

دل کے بیماریوں کے ادویہ

دل کے بیماریوں کی دوائیں شریعت کے مطب میں بنتی ہیں۔

انبیاء کرام علیہم السلام ان کو ترتیب دیتے ہیں۔ وہ عبادات اور اعمال صالحہ، طاعت اور ذکر و تقویٰ، خوف الٰہی سے رونا اور نعمتوں پر شکر کرنا، عالم ربانی کا وعظ سننا، ہر امر میں سنت پر عمل کرنا اورہمیشہ تہجد پڑھتے رہنا۔
ماخوذ از:علاج السالکین
جسمانی بیماریوں سے دل کے بیماریوں کی تعداد بہت بڑی ہوتی ہے اس کے اسباب یہ ہیں۔
پہلا سبب
جسمانی مریض اپنے مرض کو سمجھتا ہے۔ مگر دل کے بیمار کو خبر ہی نہیں ہوتی کہ میں بیمار ہوں؟ اس لیے بیماری بڑھتی جاتی ہے اور ایک ایک بیماری سے کئی کئی بیماریاں پیدا ہوتے جاتے ہیں۔
دوسرا سبب
دوسری وجہ یہ ہے کہ جسمانی بیماریوں کا انجام موت کی صورت میں آنکھوں کے سامنے دکھائی دیتا ہے۔ بخلاف اس کے، دل کے بیماریوں کا انجام اس عالم میں نظر نہیں آتا ہے۔ اس لیے بیمار بے فکر ہے اور بیماری اندر ہی اندر بڑهتے جارہی ہے۔
تیسرا سبب
اصلی سبب دل کی بیماریوں کا وہ تقریریں ہیں جو ہمیشہ رجاء میں رکھ کر رحمت کی شان دکھا دکھا کر دل کے بیماروں کو ان کی بیماریوں سے غافل بنارہے ہیں۔
کاش یہ علاج نہیں کرسکتے ہیں تو مرض کو تو نہ بڑھاتے۔
دل کے بیماریوں کے لیے اصول علاج

اے دل کے بیمار! اگر تو شفا چاہتا ہے تو تجھے چاہیے کہ ان چند امور کا دل سے یقین کرے اگر ڈاواں ڈول رہا تو تجھے شفا کی امید نہ رکھنا چاہیے۔
(1)پہلے تو تجھے ماننا ہوگا کہ جسمانی مرض و صحت کی طرح دل کے مرض و صحت کے بھی اسباب ہیں، جب تک تجھے اس پر پورا یقین نہ ہوگا تو ، تو علاج کی طرف ہرگز متوجہ نہ ہوگا کیوں کہ مرض کے سبب کو دور کرنے کا نام ہی علاج ہے ،جب سبب ہی کا یقین نہیں تو پھر علاج کیا؟
(2) دوسرا طبیب جسمانی کی طرح کوئی (پیر کامل) طبیب روحانی کو خاص طور پر معین کرکے اس کی نسبت تجھے یہ یقین کرنا ہوگا کہ یہ طب روحانی کا عالم ہے اور اپنے فن میں حاذق ہے۔
تشخیص اور نسخہ نویسی میں اعلیٰ پایہ رکھتا ہے، اپنا مطب چلانے کے لیے جھوٹ سچ ملانے کا عادی نہیں ہے کیونکہ مرض کے سبب کا یقین کرنا گویا اصل طب پر یقین کرنا ہے۔
صرف یہ یقین نفع نہیں دے سکتا جب تک کسی خاص معین طبیب کی نسبت امور صدر کا یقین نہ کرے۔
(3) تیسرا اس طبیب حاذق (پیر کامل) کی ہر بات کو دلی توجہ سے سننا ہوگا۔
کیسی ہی کڑوی دوا دے اس کو خوشی سے پینا پڑے گا، جو وہ پرہیز بتائے اس پر سختی سے پابندی کرنا ہوگا۔
(4) چوتھا بہت سے ایسے امراض ہیں کہ نبض اور قارورہ میں طبیب پر ظاہر نہیں ہوسکتے ہیں ،اس لیے طبیب کو اپنے کل امراض کی اطلاع دینا ضروری ہے-
اسی طرح او دل کے بیمار! جو دل کے بیماریاں تجھ کو معلوم ہوسکتی ہیں ان سب کو پیر کامل پر ظاہر کرنا پڑے گا۔

ہائے افسوس! آج کل مریض باوجود معلوم ہونے کے بھی طبیب روحانی سے مرض کو چھپاتا ہے۔ اگر طبیب ہی اس مریض میں جو بیماریاں ہیں ظاہر کردے تو اس سے ناراض ہوجاتا ہے پھر صحت ہو تو کیسے ہو؟
۔

گرتے بالوں کا علاج اسبغول میں

گرتے بالوں کا علاج اسبغول میں

ہمارے ملک میں خشکی گردو غبار اور سگریٹ زیادہ استعمال کرنے سے بعض بھائی خشک دمہ کے مرض میں گرفتار ہوجاتے ہیں جب کھانسی ہر وقت رہے بلغم مشکل سے خارج ہو زبان میلی اور قبض کی شکایت ہو وقت بے وقت سانس اکھڑنے اور دمہ کا دورہ تنگ کرنے لگے تو صبح کے وقت روزانہ شربت بنفشہ یا دودھ کے ساتھ ایک تولہ سے ایک چھٹانک تک سالم اسبغول پھانک لیں اور شام چار پانچ بجے کشتہ ابرک سیاہ ایک دو رتی خمیرہ گاؤ زبان سادہ ایک تولہ میں ملا کر چند دنوں سے چند ماہ اس گھریلوں دوا کا استعمال کر ے دمے سے خلاصی حاصل کر سکتے ہیں ۔

آج کل رہن سہن کے طور طریقوں سارا سارا دن پڑھتے رہنے اور زیادہ سے زیادہ دولت کمانے کی فکر میں ہمارے نوجوان لڑکے ، لڑکیوں اور جوانوں میں بال کمزور ، خشکی سے بال پھٹنے اور گرنے شروع ہو رہے ہیں ۔
مطب میں آنے والے چالیس فیصد طالب علم بال سفید ہونے کی شکایت بھی کرتے ہیں ۔ اس بڑھتے ہوئے سیلاب کو روکنے اور بالوں کی خوبصورتی اور سیاہی قائم رکھنے کے لئے تولہ دو تولے اسبغول کا لعاب نکال کر بالوں کو اس کی ہلکی ہلکی مالش کر کے کم از کم دو گھنٹے لگا رہنے دیں ۔ بالوں کو نہ دھوئیں مہینہ دو مہینے یہ عمل جاری رکھنے اور کھوپڑی اور بدن کے دوسرے حصوں میں روغنی تہہ کا قائم رکھنے کیلئے کشتہ چاندی ایک آدھ رتی یا جواہر مہرہ دو چار چاول گیارہ عدد مغز بادام چھ ماشے سے ایک تولہ تک چار مغز اور سات دانے منقی کے پانی یا دودھ میں رگڑ کر اسکا شیزہ نکال کر میٹھا کر کے چند ہفتے لگاتار استعال کرنے سے خدا کےفضل سے صحت ہوجاتی ہے

عضو تناسل میں تناؤکا علاج

عضو تناسل میں تناؤکا علاج
عضو تناسل میں تناؤ نہ ہونے(ED)سے مُراد یہ ہے کہ متعلقہ مَرد،جنسی ملاپ کے لئے اپنے عضو تناسل میں مطلوبہ تناؤحاصل نہ کر سکے یا  اس تناؤ کو جنسی ملاپ کی تکمیل تک قائم نہ رکھ سکے۔ اگرچہ یہ کیفیت بڑی عمر کے مَردوں میں زیادہ عام ہے،تاہم یہ عام صورت حال کسی بھی عمر میں پیش آسکتی ہے۔بعض اوقات عضو تناسل میں تناؤ قائم نہ رکھ پانا لازمی طور پر فکر مندی کی بات نہیں ہے لیکن اگر ایسا بار بار یا مستقل طور پر ہوتا ہے تو اِس کے نتیجے میں ذہنی دباؤ اور باہمی تعلقات کے مسائل پیدا ہو سکتے ہیں اور خود احترامی بھی متاثر ہو سکتی ہے۔پہلے اِس کیفیت کو نامَردی کہا جاتا تھااور اِسے ایک ممنوعہ موضوع سمجھا جاتا تھا۔اِس معاملے کو ایک نفسیاتی مسئلہ یا بڑی عمر کا نتیجہ خیال کیا جاتا تھا۔یہ خیالات حالیہ برسوں میں تبدیل ہوگئے ہیں۔اب یہ بات معلوم ہو گئی ہے کہ عضو تناسل میں تناؤ کا نہ ہونا یا اِسے قائم نہ رکھ پانے کے مسئلے کا تعلق نفسیاتی عوامل کے بجائے جسمانی عوامل سے زیادہ ہوتا ہے اور یہ کہ بہت سے مَردوں میں 80سال کی عمر تک بھی یہ صلاحیت معمول کے مطابق ہوتی ہے۔اگرچہ اپنے معلاج سے جنسی مسائل پر بات کرنا مشکل محسوس ہو سکتا ہے ،تاہم اِس سلسلے میں مدد حاصل کرنے کی اپنی ایک افادیت ہے۔ اِس مسئلے کے علاج میں ادویات سے جرّاحی (آپریشن )تک بہت سے علاج دستیاب ہیں جن کے ذریعے اکثر صورتوں میں متعلقہ مَردمعمول کی جنسی سرگرمیاں کرنے کی صلاحیت حاصل کر سکتے ہیں۔
عضو تناسل میں تناؤ نہ ہونے کے جسمانی اسبابایک وقت تھا جب معالجین کا خیال تھا کہ عضو تناسل میں تناؤ نہ ہونے کی بنیاد نفسیاتی عوامل ہوتے ہیں،لیکن یہ بات دُرست نہیں ۔اگرچہ خیالات اور جذبات عضو تناسل میں تناؤ پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں تاہم تناہو پیدا نہ ہونے کا سبب جسمانی بھی ہو سکتا ہے مثلأٔ صحت کا کوئی پُرانامسئلہ یا ادویات کے ذیلی اثرات وغیرہ۔ بعض اوقات بہت سے عوامل کا مشترکہ اثر عضو تناسل میں تناؤ نہ ہونے کے مسائل پیدا کرتا ہے۔
اِس مسئلے کے عام اسباب درجِ ذیل ہیں:
 دِل کے امراض۔
خون کی نالیوں میں رُکاوٹ ہونا (atherosclerosis)
 ہائی بلڈ پریشر۔
 ذیابیطیس۔
مُٹاپا۔
 غذا کے ہضم ہونے اور اس کی جسم میں ترسیل کے مسائل (metabolic syndrome)

دِیگر اسباب

بعض تجویز کردہ ادویات۔
 تمباکو نوشی۔
الکحل اور دِیگر منشّیا ت ک استعمال۔
پراسٹیٹ کے سرطان کا علاج۔
توازن اور حرکت کی خرابی کا مرض (Parkinson’s disease)
 مُدافعتی نظام کا مرکزی اعصابی نظام کو تباہ کرنا (Multiple sclerosis)
 ہارمونز کی بے قاعدگیاں مثلأٔ ٹیسٹوس ٹیرون کی مقدار میں کمی (hypogonadism)
 عضو تناسل کی ساخت کے اندر خرابی (Peyronie’s disease)
نچلے پیٹ میں کئے جانے والے آپریشن یا زخم جو حرام مغز (spinal cord)کو متاثر کرتے ہیں

بعض صورتوں میں عضو تناسل میں تناؤ نہ ہونا کسی اور مرض کی علامت ثابت ہو سکتا ہے۔
عضو تناسل میں تناؤ نہ ہونے کے نفسیاتی اسباب

عضو تناسل میں تناؤ پیدا کرنے کے لئے مطلوبہ جسمانی کیفیتوں کے سلسلے کو جاری کرنے میں دِماغ ایک اہم کردار ادا کرتا ہے، مثلأٔ جنسی جوش کے احساسات کا شروع ہونا جنسی احساسات میں بہت سے عوامل خلل ڈال سکتے ہیں اور تناؤ نہ ہونے کے معاملے کو مزید خرابی سے دو چار کرسکتے ہیں۔اِن عوامل میں درجِ ذیل اسباب شامل ہیں

ڈپریشن۔
تشویش۔
ذہنی دباؤ۔
تھکن۔
اپنے ساتھی سے بہت کم بات کرنا یا اُس سے اختلافات ہونا۔

ؑعضو تناسل میں تناؤ نہ ہونے کے نفسیاتی اور جسمانی عوامل ایک دُوسرے کے ساتھ مِل کر کام کرتے ہیں۔مثال کے کے طور پر، ایک معمولی جسمانی مسئلہ ،جنسی ردِّعمل کو سُست رفتار بنادیتا ہے اور نتیجے کے طور پر تناؤ کے بارے میں تشویش پیدا ہو سکتی ہے اور اِس کے نتیجے میں تناؤ نہ ہونے کا مسئلہ مزید شدّت اختیار کو سکتا ہے
خطرے کے عوامل۔

بہت سے عوامل عضو تناسل میں تناؤ نہ ہونے کا سبب بن سکتے ہیں

بڑی عمر کا ہونا: 75سال یا اس سے زائد عمر کے 80 فیصد لوگوں میں عضو تناسل کا تناؤ نہ ہونا ظاہر ہوسکتا ہے۔بہت سے مَرد اپنی بڑھتی ہوئی عمر کے ساتھ جنسی فعالیت میں پیدا ہونے والی تبدیلیاں محسوس کرتے ہیں۔تناؤ حاصل کرنے میں زیادہ وقت در کار ہوتا ہے ،تناؤ میں زیادہ شِدّت نہیں ہوتی، اور ممکن ہے ہے کہ عضو تناسل کو براہِ راست تحریک دینے کی زیادہ ضرورت پیش آئے۔لیکن عضو تناسل میں تناؤ نہ ہونے کا تعلق براہِ راست عمر سے ہونا ضروری نہیں ہے۔ بڑی عمر کے لوگوں میں اِس مسئلے کے پیدا ہونے کا سبب اُن کی صحت کی حالت یا صحت کے حوالے سے لی جانے والی ادویات پر منحصر ہوتا ہے۔
 صحت کا پُرانا مسئلہ ہونا: پھیپھڑوں، جگر، گُردوں،دِل، عصاب، شریانوں اور نَسوں کے امراض ،عضو تناسل میں تناؤ نہ ہونے کا سبب بنتے ہیں ۔اِسی طرح اینڈو کرائن سسٹم (endocrine syste)کے امراض ،خصوصأٔ ذیابیطیس وغیرہ بھی عضو تناسل میں تناؤ نہ ہونے کا مسئلہ پیدا کرتے ہیں۔ شریانوں میں مادّوں کے جمع ہوجانے(plaque) سے بھی عضو تناسل کو خون کی فراہمی میں رُکاوٹ پیدا ہو سکتی ہے۔اور بعض مَردوں میں ٹیسٹوس ٹیرون کی کم سطح (male hypogonadism)بھی عضو تناسل میں تناؤ نہ ہونے کا سبب بنتی ہے۔
بعض مخصوص ادویات کا استعمال: ڈپریشن روکنے والی ادویا ت، اینٹی ہسٹامینز،ہائی بلڈ پریشر ،درد اور پراسٹیٹ کے سرطان کا علاج کرنے والی ادویات کے علاوہ اور بہت سی ادویات کے اثر سے،اعصابی پیغامات یا عضو تناسل میں خون کے بہاؤ میں رُکاوٹ پیدا کرنے کے ذریعے ، عضو تناسل میں تناؤ پیدا نہ ہونے کاسبب بن سکتی ہیں۔سکون آور اور نیند لانے والی گولیاں یا ادویات بھی اِ ن مسائل کا سبب بنتی ہیں۔
 بعض آپریشن اور زخم: عضو تناسل کے تناؤ کو کنٹرول کرنے والے اعصاب کے ضائع یا اُنہیں نقصان پہنچنے سے عضو تناسل میں تناؤ پیدا ہونا ممکن نہیں رہتا۔یہ خلل نچلے پیٹ یا حرام مغز (spinal cord) کونقصان پہنچنے سے ہو سکتا ہے مثانے، پراسٹیٹ گلینڈ یا مقعد کے آپریشن کے نتیجے میں عضو تناسل کا تناؤ حاصل نہ ہونے اِمکانات بڑھ جاتے ہیں۔
منشّیات کا استعمال: الکحل، میری یو آنااور دِیگر منشّیات کے طویل استعمال سے اکثر اوقات عضو تناسل میں تناؤ نہ ہونا اور جنسی خواہش میں کمی پیدا ہوجاتی ہے۔
 ذہنی دباؤ، تشویش اور ڈپریشن: دِیگر نفسیاتی عوامل بھی بعض صورتوں میں عضو تناسل میں تناؤ نہ ہونے کا سبب بنتے ہیں۔
 تمباکو نوشی: تمباکو نوشی ،شریانوں اور نَسوں میں خون کے بہاؤ میں کمی لاتی ہے لہٰذا عضو تناسل میں تناؤ پیدا نہیں ہوتا سگریٹ پینے والے مَردوں میں، ؑ عضو تناسل کا پیدا نہ ہونے کا اِمکان بڑھ جاتا ہے۔
مُٹاپا: معمول کے مطابق وزن رکھنے والے مَردوں کے مقابلے میں زائد وزن یا مُٹاپے کے حامل مَردوں میں ، عضو تناسل میں تناؤ پیدا نہ ہونے کا اِمکان بہت زیادہ ہوتا ہے۔
 غذا کے ہضم ہونے اور اس کی جسم میں ترسیل کے مسائل (metabolic syndrome) اِس کیفیت میں پیٹ پر چربی کا بڑھ جانا ، کولیسٹرول اور ٹرائی گلیسرائیڈ کی غیر صحت بخش سطح ہونا،ہائی بلڈ پریشر ہونا اور انسولین کی مُزاحمت مخصوص علامات ہیں۔
طویل عرصے تک سائکل چلانا: تجربات سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ طویل عرصے تک سائیکل چلانے سے اس کی سیٹ کا دباؤ اندر کی نَسوں کو دبادیتا ہے اور عضو تناسل میں خون کے بہاؤ کو روکتا ہے،اور اِس سے عارضی طور پر عضو تناسل میں تناؤ نہ پیدا ہونا ارعضو تناسل کی حِسّاسیت میں کمی آجاتی ہے۔
عضو تناسل کی لمبائی موٹائ بڑھانے اور سو فیصد مکمل علاج کیلیے رابطہ کریں حکیم محمد عرفان

info@alshifaherbal.com 03040506070

ماہواری ماہانہ ایام کے بارے میں تمام باتیں

ماہواری(ماہانہ ایام) کے بارے میں تمام باتیں
ماہواری کیا ہے؟

لڑکیوں اور عورتوں کو ہر ماہ اُن کی بیضہ دانی سے ایک انڈہ خارج ہوتا ہے، جو نَل سے ہوتا ہُوا بچّہ دانی میں پہنچ جاتاہے۔ بیضہ دانی سے انڈے کے خارج ہونے سے پہلے، بچّہ دانی کی اندرونی سطح پر زائد خون اور عضلات کی تہہ بڑھنا شروع ہوجاتی ہے۔ اگر یہ انڈہ منی کے جرثومے سے بارآور ہوجاتا ہے تو یہ بچّہ دانی میں ٹھہر جاتا ہے اور جنین (fetus) بننے لگتا ہے۔ بیان کردہ زائد خون اور عضلات جنین کو صحت مند رکھنے اور اس کی افزائش میں کام آتے ہیں۔

لیکن زیادہ تر مواقع پر انڈہ بار آور ہوئے بغیر بچّہ دانی سے گزر رہاہوتا ہے۔ ایسی صورت میں زائد خون اور عضلات کی ضرورت نہیں رہتی اور یہ فُرج کے راستے سے خارج ہوجاتے ہیں۔ یہ عمل ماہواری کہلاتا ہے۔ بعض لوگ اِسے ماہانہ ایام یا تاریخ بھی کہتے ہیں۔ ماہواری آنے سے لڑکیوں کو یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ بلوغت کا عمل جاری ہے اور یہ کہ بلوغت کے ہارمونز اپنا کام کر رہے ہیں۔
کسی لڑکی کو ماہواری آنے کی توقع کب ہو سکتی ہے اور یہ کب تک جاری رہتی ہے؟

9سے 16سال کی عمر کے درمیان کسی بھی وقت ماہواری جاری ہو سکتی ہے، تاہم اپنی سہیلیوں سے موازنہ نہیں کیجئے کیوں کہ بعض کو ماہواری جلد آسکتی ہے اور بعض کو دیر سے۔ ہر لڑکی منفرد ہوتی ہے اور اس کا اپنا جسمانی نظام ہوتا ہے۔ لیکن اگر آپ اس بات سے فکر مند ہیں کہ آپ کی ماہواری ابھی تک شروع نہیں ہوئی تو ہمارے پینل کے ماہرین سے رابطہ کیجئے اور 24 گھنٹوں کے اندر جواب حاصل کیجئے۔ ماہواری کا دورانیہ عام طور پر 2سے7دِن تک جاری رہتا ہے۔
ماہواری کا دورانیہ کیا ہوتا ہے اور میں اِس کا حساب اپنے لئے کس طرح لگا سکتی ہُوں؟

ماہواری کے ایام کے درمیان وقفے کو ماہواری کا دورانیہ کہا جاتا ہے۔ لہٰذا ماہواری کے دورانئے کا حساب آسانی سے لگایا جا سکتا ہے۔ ایک ماہواری سے دُوسری ماہواری آنے تک کے دِنوں کا شُمار کیجئے۔ بعض کا دورانیہ 28دِن، 24دِن، 30دِن یا 35دِن بھی ہو سکتا ہے ۔

ماہواری کے دورانئے کا مختصر جائزہ کیا ہوتا ہے؟
ماہواری سے پہلے کی علامات کا مجموعہ (PMS)

لڑکیوں میں ماہواری شروع ہونے سے ایک یا دَو ہفتے پہلے بعض علامات ظاہر ہوتی ہیں۔ ایسی چند علامات ذیل میں درج ہیں

 مروڑ۔
 پھنسیاںیا دانے۔
 سَر درد۔
 کسی چیز کی شدید خواہش ہونا۔
 مزاج میں تبدیلیاں۔
 وزن میں اِضافہ ۔
 چھاتیوں میں دُکھن۔
 تھکن۔
 کھانے کی کسی چیز کی شدید خواہش ہونا۔
 تناؤ محسوس ہونا۔

بعض لڑکیوں میں یہ علامات ہلکی ہوتی ہیں جب کہ بعض کے لئے یہ علامات زیادہ شِدّت کے ساتھ ظاہر ہوتی ہیں۔ ہر صورت میں یہ بات یاد رکھئے کہ یہ ایک قدرتی عمل ہے اور درد ختم کرنے والی دوا سے فائدہ ہوسکتا ہے۔ اگر اِن علامات کی شِدّت بہت زیادہ ہو یا یہ علامات ماہواری شروع ہونے کے بعد بھی جاری رہیں تو ہمارے پینل کے ماہرین کو ای میل کے ذریعے لکھئے اور 24گھنٹوں کے اندر جواب حاصل کیجئے۔
ماہواری کے دِنوں میں درد کیوں ہوتا ہے؟

ماہواری کے دِنوں میں جسم کے ہارمونز میں تبدیلی آتی ہے۔بعض لڑکیوں یا خواتین کے جسم میں Prostaglandin نامی ہارمون زیادہ مقدار میں بنتا ہے جس کی وجہ سے بچّہ دانی کے عضلات میں مروڑ اور درد پیدا ہوتا ہے۔ ایسی صورت میں درد ختم کرنے والی کوئی ہلکی دوا لی جا سکتی ہے، یا گرم پانی کی بوتل سے پیٹ کی سکائی کی جاسکتی ہے یا گرم پانی سے نہایا جا سکتا ہے۔

ایسٹروجین ایک اور زنانہ ہارمون ہے جس سے مجموعی طور پر، خواتین کو تسکین اور بہتری محسوس ہوتی ہے۔ ماہواری شروع ہونے سے ایک ہفتہ پہلے جسم میں ایسٹروجین کی مقدار کم ہونا شروع ہوجاتی ہے۔ ۔ ۔ اِس وجہ سے،ماہواری کے ساتھ، بعض خواتین کے مزاج میں تبدیلی آتی ہے۔
ماہواری سے پہلے کی علامات (PMS) سے کس طرح نمٹا جاسکتا ہے؟

ماہواری سے پہلے کی علامات کی دیکھ بھال درجِ ذیل خود احتیاطی تدابیر کے ذریعے کی جاسکتی ہے
اپنی غذا تبدیل کیجئے

 روزانہ تھوڑا تھوڑا کھاناتین سے زائد وقتوں میں کھائیے تا کہ پیٹ پھولنے اور زیادہ بھر جا نے کا احساس نہ ہو۔
نمک اور نمکین کھانوں کی مقدار کم کر دیجئے تا کہ پیٹ نہ پُھولے اور جسم میں رطوبتیں جمع نہ ہوں۔
مرکّب کاربو ہائیڈریٹ والی غذائیں کھائیے مثلأٔ پھل، سبزیاں اور سالم اناج وغیرہ۔
 زیادہ کیلشیم والی غذائیں استعمال کیجئے۔ اگر ڈیری کی چیزیں ہضم نہ ہوں یا آپ کی غذامیں کیلشیم کی مناسب مقدار موجود نہ ہو تو آپ کو روزانہ کیلشیم سپلیمینٹ لینے کی ضرورت ہو سکتی ہے۔
 روزانہ ایک ملٹی وٹامن سپلیمینٹ لیجئے۔
 کیفین اورالکحل والے مشروبات سے گریز کیجئے۔
 وٹامن B6 لیجئے۔ یہ وٹامن سالم اناج، کیلے، گوشت اور مچھلی میں پایا جاتا ہے۔ اِس وٹامن کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ یہ جسم میں رُکی ہوئی رطوبات (جن کی وجہ سے اکثر اوقات چھاتیوں میں دُکھن ہوتی ہے) کو خارج کرتا ہے۔ یہ وٹامن ڈپریشن کو کم کرنے کے لئے بھی مفید ہے۔

ورزش کو اپنا معمول بنائیے

ہفتے کے اکثر دِنوں میں کم از کم 30 منٹ تک تیز چال کیجئے، سائیکل چلائیے، تیراکی کیجئے یا کوئی اور جسمانی حرکت کی سرگرمی کیجئے۔ روزانہ ورزش کرنے سے صحت مجموعی طور پر بہتر ہو جاتی ہے اور تھکن اور ڈپریشن دُور ہوجاتا ہے۔
تناؤ میں کمی

 خوب نیند کیجئے۔
 یوگا آزمائیے یاسکون حاصل کرنے اور تناؤ ختم کرنے کے لئے، مساج کروائیے ۔

چند ماہ تک اپنی علامات کا ریکارڈ رکھئے

علامات کا ریکارڈ رکھنے سے یہ معلوم ہوجائے گا کہ علامات شروع کرنے والے عوامل کیا ہیں اور علامات ظاہر ہونے کا وقت کیا ہوتا ہے۔ اِس طرح آپ اپنے معالج سے اپنے مسائل کے بارے میں بات کر سکیں گی تا کہ وہ اِن علامات کو کم کرنے کے لئے آپ کو مناسب تدابیر بتا سکے۔
ماہواری سے پہلے کی علامات کے بارے میں غلط فہمیاں اورحقائق

غلط فہمی: ماہواری کے دوران ہمیشہ آرام کرنا چاہئے اور کبھی ورزش نہیں کرنا چاہئے۔

حقیقت: جس بات سے آپ کو آرام محسوس ہو وہ کیجئے، لیکن ورزش کرنے سے نہ گھبرائیے کیوں کہ اِس سے ماہواری کے بہاؤپر فرق نہیں پڑتا ہے، بلکہ ورزش کرنے سے عضلات میں آکسیجن زیادہ مقدار میں پہنچتی ہے اور درد میں کمی آجاتی ہے۔
غلط فہمی: ماہواری کے دوران نہانے سے مروڑ/ دردمیں اِضافہ ہو جاتاہے ۔

حقیقت: ماہواری کے دوران نہانا بالکل دُرست ہے۔ درحقیقت ماہواری کے دِنوں میں نہاناصفائی کے لحاظ سے نہایت اہم ہے۔ اگر نہانے کے دوران کچھ خون یا دھبّے آجائیں تو گھبرائیے نہیں، یہ بالکل معمول کے مطابق ہے۔

غلط فہمی: ماہواری کا خون، ‘‘گندہ’’ خون ہوتا ہے۔

حقیقت: ماہواری کا خون درحقیقت بچّہ دانی کی اندرونی دیواروں کے عضلات کا بہاؤ ہوتا ہے تا کہ نئے عضلات بن سکیں، لہٰذااِس میں ‘‘گندہ’’ ہونے کی کوئی بات نہیںہے۔
غلط فہمی: انڈے، مُرغی، بکرے کا گوشت اور خشک میوہ نہیں کھانا چاہئے کیوں کہ یہ ‘گرم’ ہوتے ہیں اور اِن کی وجہ سے ماہواری جلدشروع ہو سکتی ہے۔

حقیقت: بشمول مندرجہ بالاغذاؤں کے آپ کو ہر قِسم کی غذا لینا چاہئے۔ اِس کے علاوہ موسم کی سبزیاں اور پھل بھی کھانا چاہئیں۔

غلط فہمی: ماہواری کے دِنوں میں بہت خون ضائع ہوتا ہے۔

حقیقت: اِس کی مقدار زیادہ محسوس ہو سکتی ہے لیکن نظر آنے والی مقدار سے اِس کی حقیقی مقدار بہت کم ہوتی ہے

خود لذّتی کرتا ہُوں/کرتی ہُوں،کیا کوئی ایسا طریقہ جس کے ذریعے اِس عادت کو کنٹرول کیا جاسکے ؟

  خود لذّتی کرتا ہُوں/کرتی ہُوں،کیا کوئی ایسا طریقہ جس کے ذریعے اِس عادت کو کنٹرول کیا جاسکے ؟

خودلذّتی کا عمل ایک عام عمل ہے جسے تقریبأٔ تمام مَرد اور عورتیں ،اپنی زندگی کے کسی نہ کسی مرحلے میں اختیار کرتی ہیں ۔طبّی لحاظ سے ،خودلذّتی کے عمل سے کوئی ذیلی اثرات نہیں ہوتے ۔تاہم اگر آپ اِس عمل سے بے چینی محسوس کرتے ہوں تو اِس عمل کو ترک کرنے کا فیصلہ آپ خود ہی کر سکتے ہیں۔ہم سمجھتے ہیں کہ جس عمل سے آپ مطمئن نہیں اُسے ترک کردینے کے لئے صِرف آپ کی قوّتِ اِرادی اور آپ کے عزم کی ضرورت ہے ۔اِس مقصد کے لئے کوئی دوا تجویز نہیں کی جاسکتی ۔خود لذّتی کے مسئلے سے نمٹنے کے لئے ذیل میںچند تجاویزدرجِ ذیل ہیں۔
Read More

بچے میں روح کب پھونکی جاتی ہے؟

بچے کی زندگی کا آغاز مرحلہ جنین سے ہوتا ہے اور حمل کے 4 ماہ بعد رحم مادر میں موجود بچے میں روح پھونک دی جاتی ہے۔ اس حوالے سے حدیث مبارکہ میں ہے:

یہی وجہ ہے کہ فقھاء کرام نے کسی مجبوری کی بناء پر 4 ماہ سے قبل اسقاط حمل کو جائز قرار دیا ہے۔ بچے کی زندگی کا آغاز مرحلہ جنین سے ہوتا ہے اور حمل کے 4 ماہ بعد رحم مادر میں موجود بچے میں روح پھونک دی جاتی ہے۔ حمل کے پہلے 4 ماہ کے دوران کسی معقول وجہ کی بناء پر حمل ضائع کرنا جائز ہے جبکہ 4 ماہ گزرنے کے بعد حمل کو ضائع کرنا بچہ کو قتل کرنے کے مترادف ہے۔
رحم مادر میں استقرارِ حمل جب تک 120 دن یعنی چار ماہ کا نہ ہو جائے یعنی بچہ کے اندر روح پھونکے جانے سے قبل اسقاطِ حمل

(abortion)

اگرچہ جائز ہے مگر بلا ضرورت مکروہ ہے، جب کہ 4 ماہ کا حمل ہو جانے کے بعد اسے بلا عذر شرعی ضائع کرنا حرام ہے۔

عذر شرعی سے مراد یہ ہے کہ اگر حمل کے 4 ماہ گزرگئے ہوں لیکن حمل برقرار رہنے کی وجہ سے عورت کی ہلاکت یقینی ہو، جس کی ماہر ڈاکٹروں نے تصدیق کردی ہو، تو ایسی صورت میں 4 ماہ کے بعد بھی اسقاط حمل جائز ہے بلکہ عورت کی جان بچانے کے لیے ضروری ہے کیونکہ اِسقاط نہ کرانے کی صورت میں ماں اور بچہ دونوں کی ہلاکت کا خطرہ یقینی ہے۔ ماں‌ کے مقابلہ میں پیٹ میں‌ موجود بچہ کا زندہ ہونا محض ظنی ہے، چنانچہ بچے کی نسبت ماں کی جان بچانا زیادہ اہم ہے۔ اس لیے اس صورت میں اسقاط کرانا واجب ہے۔
اسقاطِ حمل بارے فقھاء کے اقوال
درالمختار اور فتح القدیر میں ہے:
جب تک بچہ کی تخلیق نہ ہو جائے اسقاط حمل جائز ہے، پھر متعدد مقامات پر تصریح ہے کہ تخلیق کا عمل 120 دن یعنی چار ماہ کے بعد ہوتا ہے اور تخلیق سے مراد روح پھونکنا ہے۔
(درالمختار، 1 : 76) (فتح القدير، 3 : 274)
فتاویٰ عالمگیری میں ہے
عورت حمل گرا سکتی ہے جب تک اس کے اعضاء واضح نہ ہو جائیں اور یہ بات 120 دن (چار ماہ) گزرنے سے پہلے ہوتی ہے۔
(فتاویٰ عالمگیری، 1 : 335)
علامہ ابن ہمام حنفی لکھتے ہیں
جب تک تخلیقی عمل (نطفہ میں اَعضاء کی ساخت کا عمل) شروع نہ ہو اِسقاطِ حمل جائز ہے۔ پھر فقہاء نے بیان کیا کہ یہ مدت چار ماہ ہے۔ اس تصریح کا یہ تقاضا ہے کہ تخلیقی عمل سے مراد روح کا پھونکا جانا ہو ورنہ یہ غلط ہے کیونکہ مشاہدہ سے ثابت ہے کہ تخلیقی عمل چار ماہ سے پہلے شروع ہوجاتا ہے۔
(فتح القدير، 3 : 274)
علامہ شامی حنفی لکھتے ہیں
اگر عورت رحم میں نطفہ پہنچنے کے بعد اس کے اخراج کا ارادہ کرے تو فقہاء نے کہا ہے کہ اگر اتنی مدت گزر گئی ہے جس میں روح پھونک دی جاتی ہے تو جائز نہیں۔ اس مدت سے پہلے اخراج کرانے میں مشائخ کا اختلاف ہے اور حدیث کے مطابق یہ مدت چار ماہ ہے۔
(ردالمختار، 5 : 329)
علامہ شامی حنفی لکھتے ہیں:
اور اگر اسقاط کے نتیجہ میں زندہ بچہ نکلا اور پھر مرگیا تو عورت کے عاقلہ پر اس بچہ کی دیت ہے جو تین سال میں ادا کی جائے گی، اور اگر عورت کے عاقلہ نہ ہوں تو عورت کے مال سے ادا کی جائے گی، اور عورت پر (دو ماہ کے مسلسل) روزے فرض ہیں اور عورت اس بچہ کی وارث نہیں ہوگی۔‘
(ردالمختار، 5 : 379)
علامہ حصکفی حنفی لکھتے ہیں:
عورت کے لیے حمل ساقط کرانے کی کوشش کرنا مکروہ ہے، اور عذر کی وجہ سے جائز ہے، بشرطیکہ بچہ کی صورت نہ بنی ہو اور اگر اس نے کسی دوا کے ذریعہ سے ناتمام (کچے) بچے کا اسقاط کرایا تو ماں کے عاقلہ (دودھیال) کی طرف سے بچہ کے وارثوں کو (ایک سال میں) پانچ سو درہم ادا کیے جائیں گے۔
(درالمختار، 5 : 397)

حیض کے دنوں میں بہت زیادہ خون ضائع ہوتا ہے؟

حیض کے دنوں میں نکلنے والا خون دیکھنے میں عموما زیادہ لگتا ہے مگر حقیقت میں اس میں خون کی مقدار نظر آنے والے مقدر کے لحاظ سے بہت کم ہوتی ہے۔

حیض میں نہانا نقصان دہ؟

عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ حیض میں نہانا صحت کے لئے نقصان دہ ہے، جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔

حیض کے دوران نہانا قطعاً نقصان دہ نہیں ہے بلکہ ایک حد تک بالکل مفید ہے۔ درحقیقت حیض کے دنوں میں نہاناصفائی کے لحاظ سے نہایت اہم ہے۔ اگر نہانے کے دوران کچھ خون یا دھبے آجائیں تو اس میں گھبرانے والی کوئی بات نہیں کیونکہ یہ ایک معمول کی بات ہے۔