بچوں سے غلط بیانی سے کام نہ لیا جائے۔
عموما بچوں کو اس معصوم سوال کا جواب غلط دیا جاتا ہے۔ سکول میں بچے اس بات کو آپس میں ڈسکس کرتے ہیں۔ چونکہ ہر بچے کو اس کے والدین نے الگ فلسفہ سمجھایا ہوتا ہے، اس لئے کوئی کہتا ہے کہ بچہ مانگنے والی دے گئی ہے، تو کوئی کہتا ہے کہ آسمان سے آیا ہے، غرض ہر کسی کا الگ جواب ہوتا ہے۔چھوٹے معصوم بچے جب اپنے دوستوں سے اتنے سارے مختلف جوابات سنتے ہیں تو وہ اپنے دوستوں کے علاوہ اپنے والدین کے بارے میں بھی شکوک و شبہات کا شکار ہو جاتے ہیں۔
جب بڑے درست نہیں بتاتے تو بچہ سمجھتا ہے کہ یقینا یہ کوئی عیب والی بات ہے، تبھی کسی کو بھی اس کے والدین نے درست نہیں بتائیں۔ پھر جب بڑا ہونے پر حقیقت آشکار ہوتی ہے تو وہ اپنے والدین کو مجرم اور جھوٹے گردانتا ہے۔ اور یوں چھوٹی سی بات پر اس کے دل میں اس کے والدین کا مقام کھٹک جاتا ہے۔
اس کا حل
اگر بچوں سے کہا جائے کہ نوزائیدہ بچہ اپنی ماں کے پیٹ سے نکلا ہے تو نہ صرف یہ بات درست ہو گی بلکہ بچہ اس سے مطمئن بھی ہو جائے گا۔
جب بڑے درست نہیں بتاتے تو بچہ سمجھتا ہے کہ یقینا یہ کوئی عیب والی بات ہے، تبھی کسی کو بھی اس کے والدین نے درست نہیں بتائیں۔ پھر جب بڑا ہونے پر حقیقت آشکار ہوتی ہے تو وہ اپنے والدین کو مجرم اور جھوٹے گردانتا ہے۔ اور یوں چھوٹی سی بات پر اس کے دل میں اس کے والدین کا مقام کھٹک جاتا ہے۔
اس کا حل
اگر بچوں سے کہا جائے کہ نوزائیدہ بچہ اپنی ماں کے پیٹ سے نکلا ہے تو نہ صرف یہ بات درست ہو گی بلکہ بچہ اس سے مطمئن بھی ہو جائے گا۔
رہی بات یہ کہ وہ ماں کے پیٹ میں داخل کیسے ہوا؟ تو اس کا جواب اس حدیث مبارکہ سے اخذ کیا جا سکتا ہے کہ جب حمل کی مدت 120 دن ہو جاتی ہے تو اللہ تعالی ایک فرشتے کو بھیجتا ہے کہ وہ اس میں روح پھونکے۔
جب ہم بچے کو یہ جواب دیں گے کہ اللہ تعالی نے جب کسی کو بچہ دینا ہوتا ہے تو وہ ایک فرشتہ بھیجتا ہے، جو ماں کے پیٹ پر پھونک مارتا ہے، کچھ مدت کے بعد وہ بچہ ماں کے پیٹ سے باہر نکل آتا ہے تو یہ بات نہ صرف یہ کہ بچے کو مطمئن کر دے گی، بلکہ جھوٹ نہ ہونے کی بناء پر پائیدار بھی ہو گی۔ اس سے بچوں میں اپنے والدین کے لئے اعتماد بڑھے گا اور وہ خواہ مخواہ کے شکوک و شبہات کا شکار نہیں ہوں گے۔