علم نبض شناسی
علم نبض شناسی
علم نبض طب قدیم میں ابتداء ہی سے تشخیص کاروح رواں رہا ہے اور اب بھی علم نبض تشخیص کے جدید وقدیم طبی آلات ووسائل وذرائع پر فوقیت رکھتاہے بعض لوگوں کا خیال ہے کہ نبض صرف حرکت قلب کا اظہار کرتی ہے مگر ایسا کہنا درست نہیں ،فن نبض پردسترس رکھنے والے نبض دیکھ کر مرض پہچان لیتے ہیں مریض کی علامات وحالات کوتفصیل سے بیان کردیتے ہیں سائنس کایہ ایک مسلمہ اصول ہے کہ قو ت سے حرکت اورحرکت سے حرارت پیداہوتی ہے یہی نظام زندگی میں راوں دواں ہے نبض کے ذریعے بھی ہم مریض کے جسم میں یہ سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ اس وقت اس کے جسم میں قوت کی زیادتی ہے یاحرکت کی زیادتی ہے یاحرارت کی زیادتی ہے یا ان میں کس کس کی کمی ہے اسی کے تحت نبض کی باقی جنسیں بھی پرکھی جاسکتی ہیں ۔ جن کا اس مقالہ میں تفصیلاً ذکر ہو گا نبض کی حقیت کو جانچنے کے لیے اسقدر جان لینا ضرروی ہے کہ نبض روح کے ظروف وقلب وشر ائین کی حرکت کانام ہے کہ نسیم کو جذب کرکے روح کو ٹھنڈک پہنچائی جائے اورفضلا ت د خانیہ کوخارج کیاجائے اس کا ہر نبضہ ( ٹھو کر یاقرع) دو حرکتوں اور دو سیکونوں سے مرکب ہوتا ہے کیونکہ ہرایک بنضہ انسباط اورانقباص سے مرکب ہوتا ہے یہ دونوں حرکتیں ایک دوسرے سے متضاد ہیں اور ہر دو حرکتوں کے درمیان سکون کاہوناضروری ہے۔
نبض دیکھنے کاطریقہ
طبیب اپنی چاروں انگلیاں مریض کی کلائی کے اس طرف رکھے، جس طرف کلائی کا انگوٹھا ہے، اور شہادت کی انگلی پہنچے کی ہڈی کے ساتھ نیچے کی طرف اور پھر شریان کا مشاہد ہ کریں۔
اجناس نبض
نبض کی دس اجناس ہیں
مقدار
قرع نبض
زمانہ حرکت
قوام آلہ
زمانہ سکون
مقدارِرطوبت
شریان کی
وزنِ حرکت
استوا واختلا ف نبض
نظم نبض
مقدار
طویل
یہ وہ نبض ہے جس کی لمبائی معتدل و تندرست شخص کی نبض سے نسبتاً لمبائی میں زیادہ ہویعنی اگریہ چار انگلیوں تک یا ان سے میں بھی طویل ہوتو اسے ہم طویل نبض کہیں گے اوریادرکھیں طویل نبض حرارت کی زیا د تی کوظاہر کرتی ہے اگر اس کی لمبائی دو انگلیوں تک ہی رہے تو یہ معتدل ہوگی ۔ اوریہ دوانگلیوں سے کم ہوتو یہ قیصر ہوگی اورقیصر نبض حرارت کی کمی کوظاہر کرتی ہے ۔طویل غدی نبض ہے اور قصیر اعصابی ۔
عریض
چوڑی نبض جوکہ انگلی کے نصف پور سے زیادہ ہورطوبت کی زیادتی پر دلالت کرتی ہے جوکہ نصف پور ہو معتدل ہوگی اورجس کی چوڑائی نصف پور سے کم ہوگی رطوبت کی کمی کا اظہار کر ے گی ۔تنگ نبض کو ضیق کہا جاتا ہے۔عریض نبض اعصابی ہو گی اور ضیق نبض غدی ہو گی ۔
شرف (بلند)
جونبض بلندی میں زیادہ محسوس ہوایسی نبض حرکت کی زیادتی پر دلالت کرتی ہے جودرمیان میںہوگی معتدل اورجو نبض نیچی ہوگی اسے منحفض کہتے ہیں۔ یہ حرکت کی کمی پر دلالت کرتی ہے۔
چاروں انگلیوں کو نبض پر آہستہ سے رکھیں یعنی دبائو نہ ڈالیں ۔ اگر نبض انگلیوں کوبلا دبائو چھونے لگے توایسی نبض مشرف ہوگی اوراگر نبض محسوس نہ ہوتو پھر انگلیوں کو دباتے جائیں اورجائزہ لیتے جائیں اگرنبض درمیان میں محسوس ہوتو یہ معتدل ہوگی اوراگرانگلیاں کلائی پردبا نے سے نبض کا احساس کلائی کی ہڈی کے پاس اخیر میں جاکر ہوتو یہ نبض منخفض ہے جوکہ حرکت کی کمی کا اظہارکرتی ہے مشرف نبض عضلاتی اورمنخفض اعصابی ہوگی۔
قرغ نبض ، ٹھوکر نبض
اس میں نبض کی ٹھوکر کوجانچا جاتا ہے چاروں انگلیاں نبض پر رکھ کر غور کریں آہستہ آہستہ انگلیوں کودبائیں اگرنبض انگلیوں کوسختی سے اوپرکی طرف دھکیل رہی ہے توایسی نبض قوی کہلاتی ہے یعنی ذرا زور سے ٹھوکر لگانے والی نبض ہی قوی ہے یہ نبض قوت حیوانی کے قو ی ہونے کوظاہر کرتی ہے اوراگر یہ دبائو درمیانہ سا ہو تومعتدل ہوگی ۔اورجونبض دبانے سے آسانی کے ساتھ دب جائے تویہ نبض ضعیف کہلاتی ہے یعنی قوت حیوانی میں صغف کا اظہار ہے قوی عضلاتی ہوگی اورضعیف اگرعریض بھی ہوتو اعصابی ہوگی اورضیق ہوتو غدی ہوگی۔
زمانہ حرکت
اس کی بھی تین ہی اقسام ہیں سریع ۔ متعدل ۔ بطی ۔
سریع نبض وہ ہوتی ہے جس کی حرکت تھوڑی مدت میں ختم ہوجاتی ہے یہ اس بات پردلا لت کرتی ہے کہ قلب کو سوئے سردنسیم یعنی اوکسیجن بہت حاجت ہے جسم میں دخان (کاربانک ایسڈ گیس ) کی زیادتی ہے۔
اگر بطی ہے صاف ظاہر ہے کہ قلب کو ہوائے سرد کی حاجت نہیں۔ سریع یعنی تیزتر نبض عضلاتی ہوتی ہے اوربطی(سست) نبض اگرعریض ہوگی تواعصابی ہوگی اورضیق ہوگی توغدی ہوگی بطی سے مراد نبض کی سستی ہے۔
قوام آلہ ، شریان کی سختی ونرمی
اسے بھی تین اقسام میں بیان کیاگیاہے صلب ، معتدل اورلین صلب وہ نبض ہے جسکو انگلیوں سے دبانے میں سختی کااظہار ہویہ بدن کی خشکی کودلالت کرتی ہے ایسی نبض ہمیشہ عضلاتی ہوتی ہے۔
لین نبض صلب کے مخالف ہوتی ہے یعنی نرم ہوتی ہے ایسی نبض رطوبت کی زیادتی پردلالت کرتی ہے یعنی ایسی نبض اعصابی ہوگی ۔ اورمعتدل اعتدل رطوبت کا اظہار ہے
زمانہ سکون
اس کو بھی تین اقسام میں بیان کیاجاتا ہے متواتر ، تفاوت، معتدل ۔
متواترنبض وہ ہے جس میں وہ زمانہ تھوڑا ہوجو دو ٹھوکروں کے درمیان محسوس ہوتاہے ۔ یہ نبض قوت حیوانی کے ضعف کی دلیل ہے قوت حیوانی میں ضعف یاتوحرارت کی زیادتی کی وجہ سے ہوگا یاپھر رطوبت کی زیادتی سے ہوگا۔عموماً ایسی نبض اگر ضیق ہو تَو غدی ہوگی یاپھر اگرعریض ہو تَواعصابی بھی ہوسکتی ہے ۔
نبض دیکھتے وقت اس بات کوخاص طور پر مدنظر رکھیں کہ کتنی دیر کے بعدٹھوکر آکرانگلیوں کو لگتی ہے اورپھر دوسری ٹھوکر کے بعد درمیانی وقفہ کومدنظررکھیں ۔ پس یہی زمانہ سکون ایسا زمانہ ہے کہ جس میں شر یان کی حرکت بہت کم محسوس ہوبلکہ بعض اوقات اسکی حرکت محسو س ہی نہیں ہوتی اورایسا معلوم ہوتا ہے کہ نبض انگلیوں کے ساتھ ٹھہری ہوئی ہے۔
مقدارِ رطوبت
نبض پرانگلیاں رکھ کر جانچنے کی کوشش کریں اس کی صورت یہ ہوگی جیساکہ پانی سے بھری ہوئی ٹیوب کے اند رپانی کی مقدار کااندازہ لگایاجائے کہ ٹیوب کے اند ر پانی اس کے جوف کے اندازے سے زیادہ ہے یاکم بالکل اسی طرح نبض ضرورت سے زیادہ پھولی ہوگی اوردبانے سے اس کا اندازہ پوری طرح ہوسکے گا اگر ممتلی ہوتو اس میں ضرورت سے زیادہ خون اورروح ہوگی جوکہ صحت کے لئے مضرہے اسی طرح اگرنبض خالی ہوگی توخون اورروح کی کمی کی علامت ہے کمزوری کی دلیل ہے اس لئے ممتلی یعنی خون و روح سے بھری ہوئی نبض عضلاتی ہوگی خالی ممتلی کے متضاد ہوگی جوکہ اعصابی ہوگی ۔
شریان کی کیفیت
نبض کی اس قسم سے جسم کی حرارت وبرودت (گرمی وسردی )کوپرکھا جاتاہے اس کوجانچنا بہت آسان ہے اگرنبض چھونے سے حرارت زیادہ محسوس ہوتویہ نبض حارہوگی، گرمی پر دلالت کریگی اورگرم نبض عموماً طویل اور ضیق بھی ہوتی ہے ۔ اگرنبض پرہاتھ رکھنے سے مریض کاجسم سرد محسوس ہوتویہ نبض باردہوگی جوکہ اعصابی عضلاتی کی دلیل ہے۔
وزن حرکت
یہ نبض حرکت کے وزن کے اعتبارسے ہے جس سے ہم معلوم کرتے ہیں کہ نبض کازمانہ حرکت اورزمانہ سکون مساوی ہے۔
اگریہ زمانہ سکون مساوی ہے تو نبض انقباص وانسباط(پھیلنا اورسکٹرنا)کے لحاظ سے حالت معتدل میں ہوگی اسے جیدالوزن کہاجاتا ہے
ایسی نبض جسکا انقباض وانسباط مساوی نہ ہوبلکہ دونوں میں کمی بیشی پائی جائے یہ نبض صحت کی خرابی کی دلیل ہے۔ اگر دل میںیہ سکیڑ دل کی شریانوں کی بندش کی وجہ سے ہوتو ایسی نبض عضلاتی ہوگی ۔اگریہ ضعف قلب کی وجہ سے ہے توایسی نبض غدی ہوگی اوراگریہ تسکین قلب کی وجہ سے ہے توایسی نبض اعصابی ہوگی۔ ان باتوں کومدنظر رکھنا طبیب کی مہارت ہے۔ ایسی نبض کوخارج الوزن کانام دیا گیا ہے۔
اگر نبض عمرکے مطابق اپنی حرکت وسکون کے وقت کوصحیح ظاہر نہ کرے یعنی بچے ، جوان ،بوڑھے کی نبض کے اوزان ان کی اپنی عمر کے مطابق نہ ہوں تویہ ردی الوزن کہلائے گی۔ اس میں نبض کی انقباضی اورانبساطی صورت کوجانچا جاتاہے۔ نبض جب پھیلے تواس کوحرکت انسباطی کہتے ہیں اورجب اپنے اند ر سکڑے تواسے حرکت انقباص کہتے ہیں ۔ان دونوں کے زمانوں کافرق ہی اسکا وزن کہلاتاہے۔
ایسی نبض پرکھتے وقت عمر کوخاص طور پرمدنظر رکھیں ایسی نبض کوحتمی نبض قرار دینے کے لئے نبض کی دیگراقسام کے مدنظر حکم لگائیں۔
استوا واختلاف نبض
اسکی صرف دوہی اقسام ہیں مستوی اورمختلف ۔
مستوی نبض وہ ہے جس کی تمام اجزاء تمام باتوں میں باقی نبض کے مشابہ ہوں یہ نبض بدن کی اچھی حالت ہونے کی علامت ہے ۔
نبض مختلف وہ نبض ہے جومستوی کے مخالف ہواوراس کے برعکس پردلالت کرے
جا نچنے کے لئے نبض پرہاتھ رکھیں جس قدر نبض کی اجناس اوپر بیان کی گئی ہیں کیا یہ ان کے اعتبار سے معتدل ہے اگران میں ربط قائم ہے اورمعتدل حیثیت رکھتی ہیں تووہ مستوی ہے ورنہ مختلف۔
مرکب نبض کی اقسام
تعریف
مرکب نبض اس نبض کو کہتے ہیں جس میں چند مفرد نبضیں مل کرایک حالت پیداکردیں۔ اس سلسلہ میں اطباء نے نبض کی چند مرکب صورتیں بیان کی ہیں ، جن سے جسم انسان کی بعض حالتوں پر خاص طورپر روشنی پڑتی ہے اورخاص امراض میں نبض کی جومرکب کیفیت پیدا ہوتی ہے، ان کااظہارہوتا ہے۔ ان کافائدہ یہ ہے کہ ایک معالج آسانی کے ساتھ متقدمین اطباء اکرام کے تجربات ومشاہدات سے مستفید ہوسکتاہے ۔
وہ چندمرکب نبضیں درج ذیل ہیں
نبض عظیم
وہ نبض جوطول وعرض وشرف میں زیادہ ہوایسی نبض قوت کی زیادتی کااظہار کرتی ہے اسے ہم عضلاتی یاوموی کہیں گے جونبض تینوں اعتبارسے صغیر ہوگی وہ قوت کی کمی کااظہا ر ہے اوروہ اعصابی نبض ہوگی۔
نبض غلیظ
غلیظ وہ نبض ہے جوصرف چوڑائی اوربلندی میں زیادہ ہوایسی نبض عضلاتی اعصابی ہوگی۔
نبض غزالی
وہ نبض ہے جوانگلی کے پوروں کوایک ٹھوکر لگانے کے بعد دوسری ٹھوکر ایسی جلدی لگائے کہ اس کا لوٹنا اورسکون کرنا محسوس نہ ہو یہ نبض اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ ترویج نسیم کی جسم میں زیادہ ضرورت ہے۔ غزالی کے معنی بچہ ہرن ہیں۔ یہاں اس کی مشابہت چال کی تیزی کی وجہ سے دی گئی ہے ایسی نبض عضلاتی ہوگی۔
موجی نبض
ایسی نبض جس میں شریانوں کے اجزاء باوجودہونے کے مختلف ہوتے ہیں کہیں سے عظیم کہیں سے صغیر کہیں سے بلند اورکہیں سے پست کہیں سے چوڑی اورکہیں سے تنگ گویا اس میں موجیں (لہریں) پیدا ہورہی ہیں جوایک دوسرے کے پیچھے آرہی ہیں ایسی نبض رطوبت کی زیادتی پردلالت کرتی ہے قانون مفر د اعضا ء میں ایسی نبض اعصابی غدی ہوگی۔
نبض دودی
)کیڑے کی رفتار کی مانند ) یہ نبض بلندی میں نبض موجی کے مانند ہوتی ہے لیکن عریض اورممتلی نہیں ہوتی یہ نبض موجی کے مشابہ ہوتی ہے لیکن اس کی موجیں ضعیف ہوتی ہیں گویااس کے خلاف صغیر ہوتی ہے ایسی نبض قوت کے ساقط ہونے پردلالت کرتی ہے لیکن سقو ط قوت پورے طورپرنہیں ہوتا اس نبض کودودی اس لئے کہتے ہیں کہ یہ حرکت میں اس کیڑے کے مشابہ ہوتی ہے جس کے بہت سے پائوں ہوتے ہیں ایسی نبض غدی اعصابی ہوگی بوجہ تحلیل نبض میں ضعف پیداہوتاہے۔
نبض ممتلی
یہ وہ نبض ہے جونہایت ہی صغیر اورمتواتر ہوتی ہے ایسی نبض اکثر قوت کے کامل طور پرساخط کے ہوجانے اورقربت الموت کے وقت ہوتی ہے یہ نبض دودی کے مشابہ ہوتی ہے لیکن اس سے زیادہ صغیر اورمتواتر ہوتی ہے یہ اعصابی غدی کی انتہائی صورت ہوگی۔
نبض منشاری
(آرے کے دندانوں کی مانند)
یہ وہ نبض ہے جوبہت مشرف ،صلب،متواتراورسریع ہوتی ہے اسکی ٹھوکر اوربلندی میں اختلا ف ہوتاہے یعنی بعض اجزا سختی سے ٹھوکر لگاتے ہیں بعض نرمی سے اوربعض زیادہ بلندہو تے ہیں اوربعض پست گویا ایسا محسوس ہوتاہے کہ اس نبض کے بعض اجزاء نیچے اترتے و قت بعض انگلیوں کوٹھوکر ماردیتے ہیں ۔یعنی ایک پورے کوجس بلندی سے ٹھوکر لگاتے ہیں اس سے کم دوسرے پورے کو یہ نبض اس امر کوظاہر کرتی ہے کہ کسی عضومیں ورم پیدا ہوگیا ہے خاص طور پر پھیپھڑوں اورعضلات میںصاف ظاہر ہے کہ یہ عضلاتی اعصابی تحریک کی بگڑی ہوئی نبض ہے ۔
نبض ذنب الفار،نبض ذولفترہ ،نبض واقع فی الوسط،نبض مسلی ،مرتعش اورملتوی وغیرہ بھی بیان کی جاتی ہیں، جن سے کسی مزاج کی واضح پہچان مشکل ہے، اس لئے ان کوچھوڑ دیاگیا ہے۔طبِ قدیم کے تحت نبض کا بیان صرف اس لئے لکھ دیا ہے کہ طبِ قدیم کے اطبا ء بھی اس سے استفا دہ کر سکیں ۔ ساتھ ساتھ تجدیدِ طب کے مطا بق ان کی نشاندہی بھی کر دی گئی ہے کہ تجدیدِ طب کے بھی اس سے مستفیض ہو سکیں ۔
نبض کے با رے تجدیدِ طب کی رہنما ئی مکمل اور کا فی ہے ۔ مجددطب حکیم انقلاب نے علم النبض پر بھی انتہائی محنت کے ساتھ تجدید کی اپنے تجربات ومشاہدات کی روشنی میں نبض کوانتہائی آسان کرتے ہوئے اسے بھی اعضائے ریئسہ دل ودماغ وجگر کے ساتھ مخصوص کردیا جوکہ فنِ طب میں ایک بہت بڑا کمال و انقلاب ہے۔ اس اعتبار سے قانون مفرداعضا میں مفردنبض کی اقسام صرف تین ہیں، جنہیں اعصابی نبض ،عضلاتی نبض،اورغدی نبض سے موسوم کیاگیا ہے۔ پھرہر ایک مرکب نبض کی اقسام کوانہیںاعضاء رئیسہ کے باہمی تعلق کے مدنظر چھ (6) اقسام میں تقسیم کردیاہے،جوکہ بالترتیب درج ذیل مقرر ہیں
نمبر 1۔اعصابی عضلاتی نمبر 2۔عضلاتی اعصابی
نمبر 3 ۔عضلاتی غدی نمبر 4۔غدی عضلاتی
نمبر 5۔غدی اعصابی نمبر 6۔ اعصابی غدی
اب پہلے مفردنبض کی شناخت ووضاحت کوبیان کیاجاتاہے۔
اعصابی نبض
ایسی نبض جوقیصر ہومنخفض ہو،عریض ہو،لین ہو، بطی ہو اعصابی کہلاتی ہے ۔ انگلیوں کوزورسے دبانے سے کلائی کے پاس محسوس ہوگی۔ یہ جسم میںبلغم اور رطوبت کی زیادتی کی علامت ہوگی۔
عضلاتی نبض
جب ہاتھ مریض کی کلائی پر آہستہ سے رکھا جائے، نبض اوپرہی بلندی پرمحسوس ہو، ساتھ ہی ساتھ صلب ہو اورسریع ہو اورقوی ہوتوایسی نبض عضلاتی نبض کہلاتی ہے۔ ایسی نبض جسم میں خشکی ،ریاح ،سوداوربواسیری زہرکااظہار کرتی ہے ۔
غدی نبض
مریض کی نبض پرہاتھ رکھیں اورآہستہ آہستہ انگلیوں کردباتے جائیں۔ اگرنبض درمیاں میں واقع ہوتویہ غدی نبض ہوگی۔ ایسی نبض طویل ہوگی ،ضیق ہوگی۔یہ جسم میںحرارت اورصفراء کی زیادتی کا اظہار ہے۔ حرار ت سے جسم میں لاغری وکمزوری کی علامات ہوں گی ۔یادرکھیں ،جب طویل نبض مشر ف بھی اورقوی بھی ہوتوعضلاتی ہوگی۔
خصوصی نوٹ
نبض بالکل اوپربلندی پرعضلاتی ،بالکل کلائی کے پاس پست اعصابی اور درمیان میں غدی ہوگی۔
مرکب نبض
قانون مفرد اعصا میںمرکب نبض کو چھ تحاریک کے ساتھ مخصوص کردیاگیاہے جو کہ درج ذیل ہیں
اعصابی عضلاتی
جو نبض پہلی انگلی کے نیچے حرکت کرے اورباقی انگلیوں کے نیچے حرکت نہ کرے ، اعصابی عضلاتی ہوگی۔یہ نبض گہرائی میںہوگی ۔بعض اوقات فقرالدم کی وجہ سے دل بے چین ہو تو تیزی سے حرکت کرتی محسوس ہوگی مگردبانے سے فوراََدب جائے گی جیسا کہ نبض میں حرکت ہے ہی نہیں۔ عام حالات میں اعصابی عضلاتی نبض سست ہوتی ہے۔
اس کی تشخیصی علامات یہ ہیں
منہ کاذائقہ پھیکا ،جسم پھولا ہوا ہونا شہوت کم ،دل کاڈوبنا ،رطوبت کا کثرت سے اخراج ،پیشاب زیادہ آنا اور اس کارنگ سفید ہونا ،ناخنوں کی سفیدی اہم علامات ہیں۔
عضلاتی اعصابی
اگر نبض پہلی اوردوسری انگلی کے نیچے حرکت کرے اور باقی انگلیوں کے نیچے حرکت نہ کرے تو یہ نبض عضلاتی اعصابی ہوگی ۔مقامی طورپر مشرف ہوگی قدرے موٹائی میں ہوگی۔ ریاح سے پرہونے کی وجہ سے ذرا تیز بھی ہوگی ۔ رطوبت کااثر اگرباقی ہوتو سست وعریض بھی ہوسکتی ہے۔
تشخیصی علامات
چہرہ سیاہی مائل اور اس پرداغ دھبے ،چہرہ پچکا ہوا،اگر کولسٹرول بڑھ گیا تو جسم پھولا ہوا کاربن کی زیادتی ،ترش ڈکار ،جسم میں ریاح اور خشکی و سردی پائی جائے گی۔
عضلاتی غدی
اگر نبض پہلی دوسری اورتیسری انگلی تک حرکت کرے اور چوتھی انگلی کے نیچے حرکت نہ کرے تویہ نبص عضلاتی غدی ہوگی۔مشرف ہوگی یعنی مقامی طوپر بالکل اوپر ہوگی۔ حرکت میں تیز اورتنی ہوئی ہوگی۔ یاررکھیں نبض، اگرچہ چار انگلیوں تک بھی حرکت کرے، اگروہ ساتھ ساتھ صلب بھی ہواورمشرف وسریع بھی ہوتو عضلاتی غدی شدید ہوں۔
تشخیصی علامات
عضلات وقلب میں سکیٹر ،فشار الدم ،ریاح کا غلبہ ،اختلاج قلب ،جسم کی رنگت سرخی مائل جسم وجلد پر خشکی اورنیند کی کمی ہوگی۔
غدی عضلاتی
اگرنبض چارانگلیوں تک حرکت کرے لیکن وہ مقامی طورپرمشرف اورمنحفض کے درمیان واقع ہو ضیق بھی ہوتوایسی نبض غدی عضلاتی ہوتی ہے۔
تشخیصی علامات
جسم زرد ،پیلا ،ڈھیلا ۔ہاتھ پائوں چہرے پرورم۔یرقان،پیشاب میں جلن ، جگروغدداورغشائے مخاطی میں پہلے سوزش وورم اور بالا خر سکیٹرشروع ہوجانا۔
غدی اعصابی
اگرمقامی طورپرغدی نبض کا رجوع منخفض کی طرف ہوجائے تویہ غدی اعصابی ہوگی یہ نبض رطوبت کی وجہ سے غدی عضلاتی سے قدرے موٹی ہوگی اور سست ہوگی۔
تشخیصی علامات
جگرکی مشینی تحریک ہے۔ آنتوں میں مڑور،پیچش ،پیشا ب میں جلن،عسرالطمت ، نلوں میں درد،بلڈپریشراورخفقان وغیرہ کی علامات ہوںگی۔
اعصابی غدی
اگرنبض منخفض ہوجائے،عریض ہوجائے، قصیر ہوجائے تو ایسی نبض اعصابی غدی ہوگی انتہائی دبانے سے ملے گی ۔
تشخیصی علامات
جسم پھولا ہوا،چربی کی کثرت ،بار بارپیشاب کاآنا۔
بعض اطباء نے ہرنبض کے ساتھ علامات کی بڑی طویل فہرست لکھ کردی ہے جسکی کہ ضرورت نہیں ہے کیونکہ ہمارے قانون مفرد اعضاء میں تو ہر تحریک کی جداگانہ علامات کو سرسے لیکر پائوں تک وضاحت وتفصیل کے ساتھ بیان کردیا گیاہے مثلاََجس طبیب کو اعصابی عضلاتی علامات معلوم ہیں تووہ بخوبی جانتاہے کہ اعصابی عضلاتی نبض کی کیا کیا علامات ہیں اسی طرح دیگر تمام تحاریک کی نبض سے علامات کی تطبیق خود بخود پیدا ہوگئی ہے ۔ان کا یہاں پہ بیان کر نا ایک تو طوالت کا باعث ہوگا ۔اوردوسر ا نفس مضمون سے دوری کاباعث ہوگا ۔
مرداور عورت کی نبض میں فرق
عورت کی نبض کبھی عضلاتی نہیں ہوتی کیونکہ عضلاتی نبض سے خصیتہ الرحم میں اور دیگر غدو میںسکون ہوکر جسم اوربچے کو مکمل غذا نہیں ملتی اگرعورت کی نبض عضلاتی ہوجائے تو اس کو یاحمل ہوگا یااس میں مرد انہ اوصاف پید اہوجائیں گے جیسے آج کل کی تہذیب میں لڑکیاں گیند بلا وغیرہ کھیلتی ہیں یا اس قسم کے دیگر کھیل کھیلتی ہیں یاجن میں شرم وحیاء کم ہوجاتاہے ۔ اس طرح جن عورتوں کے رحم میں رسولی ہوتی ہے ان کی نبض بھی عضلاتی ہوجاتی ہے اورورم کی نبض کا عضلاتی ہونا ضروری ہے
اہمیت نبض
جولوگ نبض شناسی سے آگاہ ہیںاور پوری دسترس رکھتے ہیں ان کے لیے نبض دیکھ کر امراض کابیا ن کردینا بلکہ ان کی تفصیلات کاظاہر کردینا کوئی مشکل بات نہیں ۔ ایک نبض شناس معالج نہ صرف اس فن پرپوری دسترس حاصل کرلیتا ہے بلکہ وہ بڑی عزت ووقار کا مالک بن جاتاہے یہ کہنا سراسرغلط ہے کہ نبض سے صرف قلب کی حرکا ت ہی کا پتہ چلتاہے بلکہ اس میںخون کے دبائو خون کی رطوبت اورخون کی حرارت کا بھی علم ہوتا ہے ہرحال میںدل کی حرکات بدل جاتی ہیں جس کے ساتھ نبض کی حرکات اس کے جسم اور اس کے مقام میں بھی تبدیلیاں واقع ہوجاتی ہیں جس سے انسانی جسم کے حالات پر حکم لگایا جاسکتاہے۔
راز کی بات
دل ایک عضلاتی عضو ہے مگر اس پردوعددپردے چڑھے ہوئے ہیں دل کے اوپرکا پردہ غشا ئے مخاطی اور غدی ہے اوراس کے اوپربلغمی اوراعصابی پردہ ہوتاہے۔جوشریانیں دل اوراس کے دونوں پردوںکو غذا پہنچاتی ہیں ۔ان میں تحریک یاسوزش سے تیزی آجاتی ہے جس کا اثر حرکات قلب اور فعال شرائین پر پڑتاہے جس سے ان میںخون کے دبائو خون کی رطوبت اور خون کی حرارت میںکمی بیشی ظاہر ہوجاتی ہے۔
یہ راز اچھی طرح ذہین نشین کرلیں کہ شریان میںخون کا دبائو قلب کی تحریک سے پید اہوتا ہے جو اس کی ذاتی اور عضلاتی تحریک ہے۔
خون کی رطوبت میں زیادتی دل کے بلغمی اعصابی پردے میںتحریک سے ہوتی ہے ۔
خون کی حرارت قلب کے غشائی غدی پردے میںتحریک سے پید اہوتی ہے اس طرح دل کے ساتھ اعصاب ودماغ اورجگر وغددکے افعال کاعلم ہوجاتا ہے ۔
یہ وہ راز ہے جس کو دنیائے طب میں حکیم انقلاب نے پہلی بارظاہر کیا۔ اس سے نبض کے علم میں بے انتہا آسانیاں پیدا ہوگئی ہیں۔
تشخیص کے چند اہم نکات
نمبر 1، حرکات جسم کی زیادتی سے تکلیف
جسم کے بعض امراض وعلامات میںذرا بھی اِدھر اُدھر حرکت کی جائے توان میں تکلیف پیدا ہو جاتی ہے یاشد ت ہوجاتی ہے ایسی صورت میںعضلات وقلب میںسوزش ہوتی ہے حرکت سے جسم میں خشکی پیدا ہوتی ہے۔
نمبر 2، آرام کی صورت میں تکلیف
جب آرام کیاجائے توتکلیف جسم بڑھ جاتی ہے اورطبیعت حرکت کرنے سے آرام پاتی ہے ایسی صورت میں اعصاب ودماغ میں سوزش وتیزی ہوتی ہے۔آرام سے جسم میںرطوبت کی زیادتی ہوجاتی ہے
نمبر 3، خون آنا
اگرمعدے سے لے کراوپرکی طرف سرتک کسی مخرج سے خارج ہوتویہ عضلاتی اعصابی تحریک ہوگی اوراگرجگر سے لے کرپائوں تک کسی مخرج یامجریٰ سے خارج ہوتویہ عضلاتی غدی تحریک ہوگی ۔
ضرور ی نوٹ
تشخیص الامراض میں عضلاتی اعصابی اورعضلاتی غدی یاغدی عضلاتی اورغدی اعصابی وغیرہ تحریکات میں فرق اگروقتی طور پرمعلوم نہ ہوسکے توکسی قسم کافکر کئے بغیر اصول علاج کے تحت عضو مسکن میں تحریک پیداکردینا کافی وشافی ویقینی علاج ہے۔
تشخیص کی مروجہ خامیاں
طب یونانی وطب اسلامی میں تشخیص کاپیمانہ نبض وقارورہ ہے ملک بھر کے لاکھوں مطب کا چکر لگالیں گنتی کے چند مطب ملیں گے جن کو چلانے والے اطباء نبض وقارورہ سے تشخیص کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں اورنہ ہی یہ علم اب طبیہ کالجوں میں پوری توجہ سے پڑھا یاجاتا ہے شاید ہی ملک کا کوئی طبی ادارہ نبض وقارورہ سے اعضاء کے غیر طبعی افعال اور اخلاط کی کمی بیشی کی پہچان پردسترس کی تعلیم دیتا ہو ۔اب تک تو طب یونانی کا ایسا کوئی ادارہ دیکھا نہیں ،دیکھنے کی خواہش ضرور ہے۔اعتراف ِحقیقت بھی حسن اخلاق کی اصل ہے قانون مفر د اعضاء کے اداروں سے تعلیم وتربیت یافتہ اطباء نبض وقارورہ سے تشخیص پر کافی حدتک دسترس رکھتے ہیں۔
اس طرح مذاکرہ ،دال تعرف ماتقدم جوکہ مریض و معالج میں اعتماد کی روح رواں ہیں مگر اس دور کے معالجین ان حقائق سے دور کا واسطہ بھی نہیں رکھتے۔ مریض نے جس علامت کا نام لیا اسی کو مرض قرار دے کر بنے بنائے مجربات کا بنڈل اس کے ہاتھ میں تھما دیاجاتا ہے۔
اگرکوئی ادارہ تشخیص کا دعویٰ بھی کرتاہے اس کی تشخیص کا جوانداز ہے، ا س پربھی ذرا غور کریں۔ تمام طریقہ بائے علاج میں پیٹ میں نفخ ہو یا قے ،بھوک کی شدت ہو یا بھوک بند ،تبخیرہویا ہچکی بس یہی کہا جائے گا کہ پیٹ میں خرابی ہے ان علامات میں اعضائے غذایہ کی بہت کم تشخیص کی جائے گی۔ اگر کسی اہل فن نے پیٹ کی خرابی میں معدہ ،امعاء ،جگر،طحال اور لبلبہ کی تشخیص کربھی لی تو اس کو بہت بڑا کمال خیال کیاجائے گا۔لیکن اس امر کی طرف کسی کادھیان نہیں جائے گا کہ معدہ امعاء وغیرہ خودمرکب اعضاء ہیں اور ان میں بھی اپنی جگہ پرعضلات ، اعصاب اور غددواقع ہیں مگر یہاں پربھی صرف معدہ کومریض کہا جاتا ہے جو ایک مرکب عضوہے ۔یہاں پر بھی معدہ کے مفرد اعضاء کی طرف دھیان نہیں دیا جاتا حالانکہ معدہ کے ہر مفرد عضو کی علاما ت بالکل مختلف اور جدا جدا ہیں مگر تشخیص ہے کہ کلی عضو کی کی جارہی ہے اورعلاج بھی کلی طور پر معد ہ کا کیا جارہا ہے نتیجہ اکثر صفر نکلتا ہے ناکام ہوکر نئی مرض ایجاد کردی جاتی ہے ایک نئی مرض معلوم کرنے کا کارنامہ شما ر کرلیا جاتاہے۔
فاعلم، جب معدہ کے اعصاب میں سوزش ہوتی ہے تو اس کی صورتیں اورعلامات معدہ کے عضلات کی سوزشوں سے بالکل جد اہوتی ہیں اسی طرح جب معدہ کے غدو میں سوزش ہوتی ہے تو اس کی علامات ان دونوں مفرد اعضاء کی سوزشوں سے بالکل الگ الگ ہوتی ہیں پھر سب کو صرف معدہ کی سوزش شمار کرنا تشخیص اور علاج میں کسی قدر الجھنیں پیداکردیتا ہے یہی وجہ ہے کہ یورپ ،امریکہ کو بھی علاج میں ناکامیاں ہوتی ہیں اوروہ پریشان اور بے چین ہیں اوراس وقت تک ہمیشہ ناکام رہیں گے جب تک کہ علاج اور امراض میں کسی مرکب عضو کی بجائے مفرد عضو کو سامنے نہیں رکھیں گے ۔امراض میں مفرد اعضاء کو مدنظر رکھنا مجد دطب حکیم انقلاب المعالج دوست محمد صابر ملتانی کی جدید تحقیق اور عالمگیر کارنامہ ہے مجدد طب کا یہ نظریہ مفرد اعضا ء
(Simple organ theory)
فطر ت اور قانون قدرت سے مطابقت رکھتا ہے۔
اس سے نہ صرف تشخیص میں آسانیاں پید اہوگئی ہیں بلکہ ہر مرض کا علاج یقینی صورت میں سامنے آگیاہے۔ اس کاسب سے بڑ ا فائدہ یہ ہے کہ مرکب عضومیں جس قدر امراض پیداہوتے ہیں ان کی جدا جد اصورتیں سامنے آجاتی ہیں۔ ہرصورت میں ایک دوسرے سے ان کی علامات جدا ہیں ،جن سے فوراََ یہ پتہ چل جاتا ہے کہ اس عضو کا کون سا حصہ بیمارہے پھر صرف اسی حصہ کا آسانی سے علاج ہوسکتا ہے۔
اب ٹی بی ہی کو لیجئے کہ یہ کوئی بیماری نہیں ہے یہ تو اصل بیماری کی ایک علامت ہے انسان میں آخرکونسا پرزہ خراب ہے جب معالج کو پتہ تک ہی نہیں کہ کون سا پرزہ خراب ہے توہ کیسے ٹھیک کرے گا انسانی جسم بھی تو ایک مشین ہے اس میں بھی تو پرزے ہیں جب یہ مشین خراب ہوتی ہے تودراصل کوئی پرزہ ہی توخراب ہوجا تاہے اسی طرح شوگر ،بلڈپریشر وغیرہ کوئی امراض نہیں بلکہ کسی نہ کسی پرزے کی خرابی کی علامات ہیں اس لئے صحیح اور کامیاب معالج وہی ہوگا جوصرف علامات کی بنیا د پر علاج کرنے کی بجائے اجزائے خون ،دوران خون اور افعال الاعضاء کے بگاڑ کو سمجھ کر تشخیص وعلاج کرے گا ۔ اس کی ایک دوائی ہی سرسے لے کر پاؤں تک کی تکلیف دہ علامات کو ختم کردے گی