Al-Shifa Naturla Herbal Laboratories (Pvt), Ltd.    HelpLine: +92-30-40-50-60-70

لمبی ٹانگیں صحت مند دل کی تصدیق

لمبی ٹانگیں صحت مند دل کی تصدیق
400 برطانوی خواتین پر کی گئی تحقیق کے مطابق ٹانگوں کی لمبائی 4٫3 سینٹی میٹر کے فرق سے 16 فیصد دل کے امراض نہ ہونے کی امید ہوتی ہے۔ برطانوی سائنسدانوں کے مطباق جن خواتین کی ٹانگیں ان کے جسم کے لحاظ سے چھوٹی ہوتی ہیں انہیں دل کے امراض لاحق ہونے کے اندیشے لمبی ٹانگوں والی خواتین کی نسبت زیادہ ہوتے ہیں۔ اس رپورٹ کے مطابق بچپن سے کھانے پینے کی عادت اور ماحولیاتی آلودگی سے دل کا مرض ہونا طے ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر خوراک مناسب ، ورزش کی عادت اور پرسکوں ماحول ہو تو دل کا مرض ہونے کا اندیشہ کم ہوتا ہے۔ رپورٹ لمبی ٹانگوں سے دل کی صحت یابی کی تصدیق کے علاوہ اس بات کی بھی دلیل دیتی ہے کہ بچوں کے پاؤں پیدائشی چھوٹے ہوں تو ماں کا دودھ پینے پرپاؤں طاقتور اور لمبے ہوجاتے ہیں اور ماں کا دودھ پینے سے بچے کا اندرونی حصہ طاقتور اور صحت یاب ہوتا ہے۔

موٹاپا بیماری یا صحت کی علامت

نئی تحقیق کے مطابق موٹےلوگوں کی موت کےامکانات عام لوگوں سے کم ہیں۔ اس دریافت کا اعلان کرتے ہوئے امریکہ کے وفاقی ادارہ سنٹر فار ڈیزیز کنٹرول (سی ڈی سی ) نے کہا ہے درمیانے درجے کے موٹے لوگ عام لوگوں کی نسبت موت کا کم شکار ہوتے ہیں۔
ادارے کے نئے اعداد و شمار کے مطابق امریکہ میں موٹاپے سے صرف 25 ہزار 8 سو چودہ اموات واقع ہوئی ہیں۔ ابھی جنوری میں ہی اس ادارے نےچودہ گنا بڑے اعداد دیتے ہوئے کہا تھا کہ موٹاپا تین لاکھ پینسٹھ ہزار اموات کا باعث بنا ہے۔ قبل ازیں سی ڈی سی کی درجہ بندی میں موٹاپا موت کے اسباب میں دوسرے نمبر پر تھا لیکن اب اس کا کہنا ہے کہ موٹاپا موت کے اسباب میں ساتویں نمبر پر ہے۔
رپورٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے ایک پاکستانی ماہر ڈاکٹر خالد عبداللہ نے کہا کہ عام مشاہدہ ہے کہ امریکی دنیا میں سب سے زیادہ موٹے ہیں اور اگر ان میں موٹاپا موت کے اسباب میں بہت نیچے ہے تو باقی دنیا میں تو موٹاپا اور بھی معمولی عنصر سمجھا جائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس کے باوجود کھانے میں ذمہ داری اور احتیاط سے کام لیا جانا چاہیے اور ورزشیں بھی کی جانی چاہیں۔

سی ڈی سی کی تحقیق میں ابہام کو دور کرنے کے لیے یہ ضرور کہا گیا ہے کہ بہت زیادہ موٹاپا یا اوبیسٹی تو خطرناک قاتل ہے ہی اور اس سے مرنے والوں کی تعداد کافی ہے۔ اس کے الٹ چھوٹی چھوٹی تحقیقی رپورٹوں اور تجزیوں سے یہ ثابت ہو گیا ہے کہ وہ لوگ جو درمیانی حد تک موٹے ہیں ان کے مرنے کے امکانات ان لوگوں سے کم ہیں جو کہ بالکل موٹے نہیں ہیں۔

پچھلے سال سی ڈی سی کی درجہ بندی میں موت کے اسباب ترتیب وار یوں تھے: تمباکو نوشی، موٹاپا، شراب نوشی، جراثیم، آلودگی، کاروں کے حادثات، اسلحہ، غیر ذمہ دارانہ جنسی طرز عمل اور منشیات کا استعمال۔ نئی تحقیق کے لحاظ سے موٹاپے کا نمبر کاروں کے حادثے کے بعد آئے گا۔

ڈاکٹر جو این مینسن کا کہنا ہے کہ نئے اعداد و شمار درست معلوم ہوتے ہیں اور اندازہ ہوتا ہے کہ علاج معالجوں سے میانے درجے کے موٹے لوگوں کی صحت بہتر ہو گئی ہے۔ اب اس زمرے میں آنے والے لوگ اپنے بلڈ پریشر اور کولیسٹرول کو کافی حد تک کنٹرول میں رکھتے ہیں جس سے ان کے زندہ رہنے کے امکانات بہتر ہو گئے ہیں۔

اسی نوعیت کا ایک تجزیہ جرنل آف امریکن میڈیکل ایسوسی ایشن میں چھپا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ امریکہ میں موٹے لوگ اپنی صحت کا بہتر خیال کرتے ہیں۔ وہ بلڈ پریشر اور کولیسٹرول کو توازن میں رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔

سی ڈی سی کی تجزیاتی رپورٹ لکھنے والی تجزیہ نگار کا کہنا ہے کہ نئی تحقیق کی موجودگی میں اب یہ طے کرنا پڑے گا کہ موٹا کس کو کہا جائے۔

دہی کا باقاعدہ استعمال اچھی صحت اور درازی عمر کا سبب بنتا ہے

دہی کو عربی میں ”لبن“ فارسی میں ”ماست“ اور انگریزی میں یوگرٹ  کہتے ہیں ۔ صدیوں سے یہ انسانی خوراک کا حصہ رہا ہے ۔ زمانہ قبل از تاریخ کا انسان بھی گائے‘ بکری‘ بھینس‘ اونٹ اور بھیڑ کے دودھ کو بطور غذا استعمال کیا کرتا تھا۔ ان کے مویشیوں کے دودھ کی مقدار کم ہوتی تھی اس لیے وہ اسے جانوروں کی کھالوں یا کھردرے مٹی کے برتنوں میں جمع کرلیتے تھے تاکہ بہ وقت ضرورت آسانی سے استعمال میں آجائے۔
شروع شروع میں اسے جانوروں سے حاصل کرنے کے بعد اسی طرح کچی حالت میں رکھنے کی کوشش کی گئی لیکن کچے دودھ کو محفوظ حالت میں رکھنا‘ وہ بھی اس طرح کہ اس کی غذائیت بھی برقرار رہے ناممکن سی بات ثابت ہوئی۔ اس مسئلے کا حل اتفاقی طور پر دریافت ہوگیا۔ کہا جاتا ہے کہ جنوب مغربی ایشیا کے وسیع علاقوں میں سفر کرنے والے ”نوماد“ قبیلے والے دودھ کی شکل میں اپنی رسد کو بھیڑ کی کھال سے بنے ہوئے تھیلے میں رکھا کرتے اور اسے اپنے جانوروں کی پیٹھ پر باندھ دیا کرتے تھے۔ ایام سفر میں وہ تھیلے مسلسل ہلتے رہتے اس پر سورج کی تپش بھی اپنا اثر دکھاتی رہتی۔ نتیجتاً ہ دودھ خمیر بن کر نیم ٹھوس شکل اختیار کرلیتا۔ وہ اس بات سے ناواقف تھے کہ بھیڑ کی کھال کے اندرونی حصے میں چھپے ہوئے بیکٹریا نے دودھ کو خمیر کرکے دہی کی شکل دے دی ہے۔

ابتداء میں دودھ کی اس شکل کو بہت کم مقدار میں استعمال کیا جاتا تھا کیوں کہ نو ماد قبیلے والے اسے زہریلا سمجھتے تھے پھر آہستہ آہستہ تجربے سے یہ بات سامنے آئی کہ دودھ کی یہ نئی شکل مضر صحت نہیں معجزاتی غذا ہے ۔ جب اس کی افادیت سامنے آئی تو اسے بنانے کا طریقہ دریافت کیا گیا۔ دودھ کو جمانے کے لیے انہوں نے اس میں تھوڑا سا دہی ملالیا ۔ اس تجربے نے کامیابی عطا کی اور پھر دھیرے دھیرے یہ بات بھی ثابت ہوگئی کہ کھٹا اور خمیر کیا ہوا دودھ تازہ دودھ سے بہت زیادہ فائدے مند ہے ۔ یہ نہ صرف زیادہ عرصے تک اچھی حالت میں رہتا ہے بلکہ اس کا ذائقہ بھی مزیدار ہوجاتا ہے۔

بلغاریہ کے لوگوں کی طبعی عمر دیگر ممالک سے زیادہ ہے۔ سائنسدانوں نے مسلسل تجربوں اور تجزیہ کے بعد پتا چلایا کہ اس کی ایک وجہ دہی بھی ہے۔ وہاں کے لوگ دہی کا استعمال بہت زیادہ کرتے ہیں۔

فرانس میں اسے ”حیات جاوداں“ کا نام دیا گیا ہے۔ 1700ء میں فرانس کا کنگ فرسٹ کسی بیماری میں ایسا مبتلا ہوا کہ کوئی علاج کارگر نہیں ہوتا تھا۔ بادشاہ سوکھ کا کانٹا ہوگیا تھا۔ نقاہت اس قدر بڑھ گئی تھی کہ وہ بیٹھنے کی قوت بھی کھو چکا تھا۔ اس کے علاج کے لیے مشرق بعید کے ایک معالج کو بلایا گیا۔ اس نے بادشاہ کو صرف دہی کا استعمال کرایا اور کنگ فرسٹ صحت یاب ہوگیا۔

فرانس ہی کے ایک ماہر جراثیم پروفیسر میچسنٹکو لکھتے ہیں کہ دہی درازی عمر کی چابی ہے۔ اس کے استعمال سے نہ صرف انسان بہت سی بیماریوں سے محفوظ رہتا ہے بلکہ عمر بھی طویل پاتا ہے۔

Live longer look younger نامی کتاب میں مصنف نے اسے معجزاتی غذا کہا ہے۔

1908ءکے نوبل انعام یافتہ ایلی میٹ ٹنگوف وہ پہلا ماہر تھا جس نے برسوں کی تحقیق کے بعد اس کے خواص پر تحقیق کی اور بتایا کہ یہی وہ غذا ہے جو انسان کو طویل عمرگزارنے کے مواقع فراہم کرتی ہے۔

آنتوں کے نظام کے اندر ایک خاص تعداد میں بیکٹیریا پائے جاتے ہیں جنہیں فلورا کہا جاتا ہے۔ دہی فلورا کی پرورش میں معاون ثابت ہوتا ہے۔ انٹی بایوٹک ادویات فلورا کو ختم کردیتی ہیں اسی لیے بعض ڈاکٹر صاحبان اینٹی بائیوٹک ادویات کے ساتھ دہی کھانے کا مشورہ دیتے ہیں۔ دہی بیکٹیریا کے انفیکشن کو بھی روکتا ہے۔

غذائی ماہرین کے مطابق دہی میں پروٹین‘ کیلشیم اور وٹامن بی اچھی خاصی مقدار میں موجود ہوتی ہے۔ البتہ آئرن اور وٹامن سی اس میں بالکل نہیں ہوتا۔ گائے کے دودھ کے مقابلے میں بھینس کے دودھ سے بنا ہوا دہی زیادہ طاقتور ہوتا ہے۔ اس میں چکنائی پروٹین اور دوسرے غذائی اجزاءزیادہ پائے جاتے ہیں۔ دہی کے اوپر جو پانی ہوتا ہے اس میں وٹامن اورمنرلز وغیرہ اچھی خاصی مقدار میں موجود ہوتی ہیں کیوں کہ وہ دودھ کا ہی پانی ہوتا ہے۔ جب دودھ جمتا ہے تو پانی اس کے اوپر آجاتا ہے جسے دہی میں ملالیا جاتا ہے۔

دہی نہ صرف کھانوں کو لذت بخشتا ہے بلکہ غذائیت بھی فراہم کرتا ہے۔ جسم کی ضروریات کو بھی پورا کرتا ہے۔ اس کی سب سے بڑی خاصیت یہ ہے کہ یہ نہ صرف بہ آسانی ہضم ہوجاتا ہے بلکہ آنتوں کے نظام پر بھی خوشگوار اثر ڈالتا ہے۔ اسے صحت مند بنانے میں معاون ثابت ہوتا ہے۔ اس میں چکنائی اور حرارے انتہائی کم مقدار میں ہوتے ہیں۔ ایک کپ دہی کے اندر صرف 120حرارے (کلوریز) پائے جاتے ہیں۔ اتنی کم مقدار میں کلوریز کے حامل دہی میںایسے کئی اقسام کے غذائی اجزاءہوتے ہیں جو انسانی صحت کے لیے انتہائی ضروری ہیں۔ مثلاً پروٹین‘ مکھن نکلے دودھ سے بنے دہی کے ایک کپ میں 8 گرام پروٹین ہوتی ہے۔ جب کہ خالص دودھ سے بنے دہی کے ایک کپ میں 7 گرام۔ دہی کی اتنی ہی مقدار میں (مکھن نکلے ہوئے دودھ سے بنائے گئے دہی میں) ایک ملی گرام آئرن‘ 294 ملی گرام کیلشیم‘ 270 گرام فاسفورس‘ 50 ملی گرام پوٹاشیم اور 19 ملی گرام سوڈیم پایا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ وٹامن اے (A) 170 انٹرنیشنل یونٹ۔ وٹامن بی (B) ایک ملی گرام۔ تھیا مین 44 ملی گرام۔ وٹامن بی (ریبوفلاوین) 2 ملی گرام اور وٹامن سی (ایسکور بک ایسڈ) بھی 2 ملی گرام پایا جاتا ہے۔

ڈائٹنگ کرنے اور وزن کرنے والوں کے لیے دہی ایک آئیڈیل خوراک ہے کیوں کہ اس کے اندر حراروں کی تعداد انتہائی کم ہوتی ہے جس کی مقدار اوپر لکھی جاچکی ہے۔ مندرجہ بالا مقدار میں 13 گرام کاربوہائیڈریٹس پائے جاتے ہیں۔ اسی طرح چکنائی کی مقدار بھی بہت کم ہوتی ہے۔ دہی کے ایک کپ میں 4 گرام چکنائی پائی جاتی ہے۔ جب کہ خالص دودھ سے بنے دہی میں یہ مقدار بڑھ کر 8 گرام ہوجاتی ہے۔

دہی میں ایک خاص قسم کے بیکٹیریا پائے جاتے ہیں۔ یہ بیکٹیریا ایک خاص درجہ حرارت پر رکھے جانے والے دودھ کے اندر بڑی تیزی سے پیدا ہوکر بڑھتے چلے جاتے اور دودھ کو نصف ٹھوس حالت میں لادیتے ہیں جسے دہی کہا جاتا ہے۔ یہ بیکٹیریا بہت بڑی مقدار میں وٹامن بی مہیا کرتے ہیں جو آنتوں کے نظام کو صحت مند رکھنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

دودھ کے کھٹا ہوتے ہی لیکٹوز خمیر ہوجاتا ہے جس کے نتیجے میں وہ ایک شفاف مایہ کی شکل اختیار کرلیتا ہے جسے لیکٹک ایسڈ کہتے ہیں ۔ یہ نظام ہضم کو قوت فراہم کرنے کے علاوہ غذا کو ہضم کرنے میں بھی مدد دیتا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ وزن کم کرنے میں بھی معاون ثابت ہوتا ہے۔ دہی کے بیکٹیریا کی زندگی کا انحصار لیکٹوز پر ہے۔ وہی اسے لیٹک ایسڈ میں تبدیل کرتی ہیں۔ لیکٹوز کی خاصیت ہے کہ وہ توانائی کی بڑی مقدار فراہم کرنے کے ساتھ آنتوں کی صحت کا بھی ضامن ہے۔

 

Read More

زیادہ پانی صحت کے لیے مفید نہیں

امریکی یونیورسٹی کے تحقیق کار اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ انسان کی موت کے بعد بھی نہ تو اس کے ناخن اور بال بڑھتے ہیں اور نہ ہی ایک دن میں آٹھ گلاس پانی پینےسےصحت بہتر ہوتی ہے۔
امریکی یونیورسٹی انڈیانا میں تحقیق کارروں نےسات مختلف طبی وہمہ کے بارے میں ریسرچ کے بعد کہا کہ اس بات کا کوئی میڈیکل ثبوث نہیں ملا ہے کہ دن میں پانی کے آٹھ گلاس پینے سے صحت اچھی رہتی ہے۔
تحقیق کارروں نے کہا کہ ضرورت سے زیادہ پانی پینا صحت کے لیے اچھا نہیں ہے اورانسانی جسم چائے، کافی اور مشروبات سے پانی کی ضرورت پوری کر لیتا ہے۔

تحقیق کارروں نے کہا کہ اس بات کا بھی کوئی ثبوت نہیں ملا ہے کہ انسان کے مرنے کے بعد بھی اس کے بال اور ناخن بڑھتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ انسان کی موت کے بعد جلد کے سکڑنےسے ناخن بڑے نظر آنے لگتے ہیں جس سے لوگوں نے یہ اخذ کر لیا کہ موت کے بھی انسان کے ناخن بڑھتے رہتے ہیں۔

تحقیق کارروں کا کہنا ہے کہ اس بات کا بھی کوئی ثبوت نہیں ملا کہ بالوں کو سرے سے منڈوانے سے دوبارہ زیادہ گھنے اور کھردرے بال اگھتے ہیں۔

تحقیق کارروں نے کہا کہ اس بات کا بھی کوئی ثبوت نہیں ملا ہے کہ کم روشنی میں پڑھنے سےانسانی کی بینائی پر کوئی فرق پڑھتا ہےاور نہ ہی ٹرکی کا گوشت کھانے سے انسان پر عنودگی چھا جاتی ہے۔

تحقیق کارروں نے کہا کہ یہ غلط ہے کہ ذہن کا صرف دس فیصد حصہ کام کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ تحقیق سے ثابت ہوتا ہے کہ ذہن کے تمام حصے کام کرتے ہیں۔