Al-Shifa Naturla Herbal Laboratories (Pvt), Ltd.    HelpLine: +92-30-40-50-60-70

آنکھوں کی نظر اور کمزوری دور، دیسی علاج

mundi gulآنکھوں کی نظر اور کمزوری دور، دیسی علاج
نسخہ الشفاء : منڈی بوٹی کا ایک پھول لے کر پانی کی مدد سے نگل لیں پندرہ یوم استعمال کرنے سے آنکھوں کی نظر اور کمزوری دور ہوجائے گی

نسخہ:بفضلہ تعالیٰ صحت قابل رشک رہتی ہے

نسخہ:بفضلہ تعالیٰ صحت قابل رشک رہتی ہے
پیٹ کے تمام امراض، ہر قسم کانزلہ، قبض، بدن کا ٹوٹتے رہنا، قبل از وقت بالوں کا سفید ہونا، دل کی گھبراہٹ اور دل کے تمام امراض کیلئے
بڑھاپے میں بھی تندرست جوان کی طرح سرخ و سفید چہرہ رہتا ہے۔ چہرہ و بدن پر جھری نہیں آتی۔ یہ نسخہ باقاعدگی سے استعمال کرتے رہنا چاہیےاور بفضلہ تعالیٰ صحت قابل رشک رہتی ہے، وہ نسخہ یہ ہے، سنا کی پتیوں کا سفوف، گلاب کے پھول کی پتیوں کا سفوف، شہد خالص ہم وزن، تمام ادویات کو خوب کھرل کرکے جنگلی بیر کے برابر گولیاں بنا لیں اور اللہ کا نام لے کر صبح و شام ایک ایک گولی تازہ پانی سے لیں اور ہر ماہ بائیس دن استعمال کرنے کے بعد 8روز ناغہ کریں، پیٹ کی تمام بیماریوں کیلئے اکسیر ہے۔ ہر قسم کا نزلہ، بھوک نہ لگنا، قبض، بالوں کا قبل از وقت سفید ہونا، بدن کا ٹوٹتے رہنا، دل کی گھبراہٹ اور دل کے تمام امراض کیلئے مفید ہے۔ (مایوسی، ٹینشن، بلڈپریشر Low اور High دونوں کیلئے فائدہ رساں، غصہ کی زیادتی کو کم کرنے کیلئے اور برے خوابات سے محفوظ رہنے کیلئے، جریان و احتلام، لیکوریا میں بھی اکسیر ہے

اچھی صحت ? سبزیاں صحت کی ضامن ہیں

اچھی صحت ? سبزیاں صحت کی ضامن ہیں

اچھی صحت ? سبزیاں انسانی صحت کے لیے بے حد مفید ہیں ان کے اندر موجود سبزمادہ کلوروفل زندگی بخش ہے۔ سبزیاں استعمال کرنے والے لوگ بہت کم بیمار پڑتے ہیں چونکہ ان کے اندر قدرت کاملہ نے شفا کی تاثیر رکھ دی ہے۔ سبزیاںجسم انسانی کے اندر موجود زہریلے اورفاسد مادوںکا قلع قمع کرنے میں اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتیں۔جانوروںمیں سے گوشت خورجانور بہت کم ہیں اکثرجانور بھی سبزی پر ہی انحصار کرتے ہیں اور تندرست وتوانا رہتے ہیں۔ ہمارے دودھیل جانور بھی سبزہ کھا کر ڈھیروں دودھ دیتے ہیں جو انسانی زندگی کو قائم دوائم رکھتا ہے۔ سبزیاں ذود ہضم ہوتی ہیں اس لیے معدے کی اصلاح کا کام انجام دیتی ہیں، گوشت کیطرح معدے پر بوجھ نہیں بنتیں۔

انسان کے دانتوںکی ساخت گوشت خورجانوروںجیسی نہیں بلکہ گھاس پھوس اور سبزیوں جیسی ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ سبزیاںکھانے والے لوگ بہت کم بیماری کا شکار ہوتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سبزیاں انسان کے امیون سسٹم یعنی نظام دماغ کو مضبوط کرتی ہیں۔ اس کے مقابلے میں گوشت خور قومیں بیماریوں کا زیادہ شکار نظر آتی ہیں۔ ان میں بلڈپریشرکا مرض عام ہے جسے خاموش قاتل کا نام بھی دیا جاتا ہے۔

سبزیاں ٹھنڈی تاثیر کے باعث انسانی خون کو موزوں رکھتی ہیں یہی وجہ ہے کہ جو لوگ سبزیوںکازیادہ استعمال کرتے ہیں وہ بلڈپریشرکا شکار نہیں ہوتے۔ ہمارے پیارے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی سبزیوں کو پسند فرماتے تھے۔ سبزیوں میں سے کدو آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مرغوب غذا تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسے بڑے شوق سے کھایا کرتے تھے۔

جدید تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ کدو میں خداتعالٰی نے شفا رکھی ہے اس کی تاثیر سرد ہوتی ہے۔ یہ جسم کو تقویت دیتا ہے اور بھرپورغذائیت کاحامل ہے۔ چنانچہ حضرت یونس علیہ السلام مچھلی کے پیٹ سے باہرآئے توسخت کمزور ہوچکے تھے ساحل پر کدو کی ایک بیل تھی جس پر کدو لگے ہوئے تھے حضرت یونس علیہ السلام وہ کدو استعمال کرتے تھے جس نے ان کے جسم کو تقویت دی اور آپ صحت مند ہو گئے۔

کدو ایک ایسی سبزی ہے جسے گوشت کے ساتھ پکا کر کھانا بھی مفید ثابت ہوتا ہے۔ طبی نقطہ نگاہ سے یہ صفرادی اوردموی مزاج لوگوں کے لیے بہترین غذا ہے۔ یہ خلط صالح پیدا کرتا ہے ملین طبع ہے اور اس کے استعمال سے کھل کر پیشاب آتا ہے جس سے جسم کے اندرموجود زہریلے مادے خارج ہو جاتے ہیں۔ یہ انتڑیوں کو مرطوب کرتا ہے’ تپ دق کے لیے اس سے بہتر کوئی غذا نہیں’ اس کے استعمال سے جسم کے اندر ایسی قوت مدافعت پیدا ہوتی ہے جس سے انسان مرض سل سے محفوظ رہتا ہے۔

مری میں موجود ساملی سینی ٹوریم کی ایک تحقیق کے مطابق جو لوگ کدوکا کثرت سے استعمال کرتے ہیں تپ دق اور سل سے محفوظ ومصون رہتے ہیں۔ مرض سرسام اور جنون میں اس کا گودا تالو پر رکھنے سے آرام آ جاتا ہے۔ روغن کدو دماغ کی خشکی کو دور کرتا ہے اور نیند آور ہے اس کے بیجوں کا شیرہ بھی تاثیر کا حامل ہے۔ اس کا روغن بھی نکالا جاتا ہے جسے روغن کدو کا نام دیا جاتا ہے۔ یہ دماغ کی خشکی کو دور کرتا ہے۔ صرف ایک سبزی کدو کے اندر بہت زیادہ شفا پائی جاتی ہے۔ کدو کا روغن صفراوی بخاروں اور جریان خون میں بھی مفید ہے۔

سل اور تپ دق میں بھی بھبھلائے ہوئے کدو کا پانی نچوڑ کر پلانے سے فائدہ ہوتا ہے اس کا رائتہ بے حد مفید اور لذیذ بھی ہوتا ہے۔ کدواسہال میں بھی بے حد مفید ہے یہ صرف ایک سبزی کدو کی افادیت بتائی گئی ہے۔

کوئی سبزی جتنی زیادی گہری سبزی مائل ہو گی اتنی ہی زیادہ مفید ہو گی۔ پالک اور ساگ میں سبز مادہ بہت زیادہ ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ پالک خون کی اصلاح کرتی ہے اور ساگ کا استعمال معدے کو نرم کرتا ہے اورغذائیت سے بھر پور ہے یہ خون صالح بھی پیدا کرتا ہے۔

ہمارے ہاں سبزیوںکی بہتات ہے یہ عام آدمی کی پہنچ سے باہر نہیں بلکہ ہر امیرغریب خرید کر انہیں استعمال کر سکتا ہے۔ جنگلوں میں رہنے والے لوگ سبزی پر ہی انحصار کرتے ہے یہی وجہ ہے کہ وہ کبھی بیمار نہیں پڑتے’ انہیں ڈاکٹروں کی ضرورت نہیں محسوس ہوتی۔ گوشت اس قدر مہنگا ہے کہ ہر شخص کے بس میں نہیں کہ اسے خریدکرکھا سکے مگر موسم کے مطابق سبزیاں کوڑیوں کے مول بکتی ہیں مگر چونکہ کہ لوگ ان کی افادیت سے آگاہ نہیں ہوتے لہذا ان کے مقابل گوشت کو ترجیح دیتے ہیں جو ان کو طرح طرح کی بیماریوں میں مبتلا کرتا ہے کیونکہ گوشت ایسی چیز نہیں جسے ہر روز کی غذا کا حصہ بنایا جائے۔

رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں بھی گوشت بعض تقریبات کے مواقع پر ہواکرتے تھے ان میں عید قرباں’ بچوں کا عقیقہ ولیمہ ایسے مواقع ہوا کرتے تھے جن پر گوشت کھایا جاتا تھا۔ عید قربان پر کثرت سے قربانی کے جانور ذبح کئے جاتے مگر یہ موقع تو سال میں صرف ایک مرتبہ آیا کرتا تھا۔ جس طرح آج ہمارے معاشرے میں کثرت کے ساتھ اور روزانہ گوشت کا استعمال کیا جاتا ہے کسی زمانے میں ایسا نہ تھا۔

عربوں کی خوراک زیادہ ترکھجوریں’ بکری یا اونٹی کا دودھ اور سبزیوں پر مشتمل ہوا کرتی تھی یہی وجہ تھی کہ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین بہت کم بیمار پڑا کرتے اور کسی طبیب کی ضرورت نہیں ہوا کرتی تھی۔ آج کے ترقی یافتہ دور میں کئی قسم کی بیماریاں بھی منظر عام پر آرہی ہیں ہسپتالوں میں جائیں تو مختلف النوع بیماریوں کے شکار نظر آئیں گے۔ اس کا سبب بھی یہی ہے کہ ہم گوشت پر زیادہ انحصار کرتے ہیں مگر زندگی بخش سبزیوں کو استعمال کرنا توہین سمجھتے ہیں اور انہیں پسند نہیں کرتے۔ دیہات میں رہنے والے لوگ سبزیاں کثرت سے استعمال کرتے ہیں یہی وجہ کہ وہ بہت کم بیمار ہو تے ہیں۔

مجھے اچھی طرح یاد ہے ہمارے گاؤں میں مہینے میں صرف ایک مرتبہ قصائی گائے ذبح کیا کرتا تھا۔ گوشت کی بکنگ پہلے سے ہو جاتی تھی۔ جب گاہک پورے ہوجاتے تو اچھی قسم کی گائے ذبح کرتا اور لوگ گوشت خرید کر لے جاتے باقی سارا مہینہ سبزیوں اور دالوں پر ہی انحصار کیا جاتاتھا’ لوگ توانا وتندرست رہتے تھے اور خوب محنت ومشقت کے ساتھ کھیتوں میں سبزیوں اور فصلیں کاشت کیا کرتے تھے۔

ہمارے گاؤں والے ایک گھر میں ایک گھیا توری کی بیل لگی ہوئی تھی اس قدرگھیا توری لگتی کہ ٹوکریوں کے حساب سے اسے اکٹھا کیا جاتا اور گاؤں کے لوگ مفت لے جایا کرتے تھے اوراس کا سالن استعمال کرتے۔ مقصد کہنے کا یہ ہے کہ جس مقدار میں اور جس تسلسل کے ساتھ ہم آج گوشت کا استعمال کر رہے ہیں اس کا رواج کسی بھی زمانے میں نہیں رہا۔ اب تو لوگ مختلف النوع بیماریوں کا شکار ہیں اور اپنی آمدنی کا معتدبہ حصہ ڈاکٹروں کی نذر کر دیتے ہیں۔

ہم میں سے ہرشخص اچھی طرح جانتا ہے کہ گوشت کا بے تحاشا استعمال غیر مفید ہے اس کے باوجود ہم گوشت کھاتے چلے جاتے ہیں اور سبزیوں اوردالوں کو ثانوی حیثیت دینے پر بھی تیار نہیں ہوتے اور ہمیں ان کا ذائقہ بھی نہیں آتا۔ جب بڑے سبزیاں کھانے سے گریز کریں تو بچے کب اسے پسند کریں گے بچے بھی ہر روز گوشت والا سالن کھانے پر اصرار کرتے ہیں۔ بعض لوگوں کا یہ کہنا ہے کہ سبزیوں میں وہ قوت اور غذائیت نہیں ہوتی جو گوشت کے اندر موجود ہے۔ ان کا مفروضہ غلط ہے کیونکہ ہماری گائیں بھینسیں سبزیاں ہی کھاتی ہیں پھر ان پر منوں کے حساب سے گوشت کیسے چڑھتا ہے اور دودھ کے اندر چکنائی کس طرح وافر مقدار میں پیدا ہوجاتی ہے جسے ہم استعمال کرتے ہیں۔ معلوم ہوا کہ سبزیوں کے اندر بھی گوشت کے سارے اجزاء موجود ہوتے ہیں۔

دریائی گھوڑا جو بھاری بھرکم جانور ہے اور پانی سے نکل کر باہربھی زندہ رہ سکتا ہے اس کی خوراک کا مکمل انحصار صرف گھاس پر ہے وہ پانی سے باہر نکل کر خوب گھاس کھاتا ہے اور پھر پانی کے اندر چلا جاتا ہے۔ خدا تعالٰی نے ہمارے ملکوں کو طرح طرح کی سبزیوںسے نواز رکھا ہے سبزیاں وافر مقدارمیں ہمیں دستیاب بھی ہیں ان میں سے ہر سبزی کی اپنی افادیت ہے مگر اس مختصر مضمون میں ان سب کی افادیت بیان کرنا ممکن نہیں۔

کدو کی افادیت بیان کی جاچکی ہے۔ اس کے علاوہ بھنڈی توری’ گھیا توری’ٹینڈے’ مٹر’ ٹماٹر’آلو وغیرہ ہمارے ہاں عام مل جاتے ہیں ان میں سے چند ایک کی افادیت بیان کی جاتی ہے۔

آلو ایک ایسی سبزی ہے جو پوری دنیا میںکثرت سے کھائی جاتی ہے اس کو مختلف طریقوں سے استعمال کیا جاتا ہے کبھی اس کا سالن بنایا جاتا ہے کبھی اس کے چپس تیار کیے جاتے ہیں کبھی اس کے فرنچ فرائز تیار کیے جاتے ہیں۔ یہ سبزی بے پناہ قوت کی حامل ہے۔ اس کے اندر غذائیت کے خزانے ہیں۔ یورپ’ امریکہ’ ایشیا’ افریقہ’ آسٹریلیا میں آلو کثرت سے کھایاجاتا ہے۔ ہمارے ہاں یہ سستا مل جاتا ہے مگر اسے بطور سبزی استعمال کرنا ہم اپنی توہین سمجھتے ہیں۔

ساگ اور پالک جوکلوروفل کا خزانہ ہیں اس کا ذکر کیا جاچکا ہے مگر اسے بھی بہت کم لوگ استعمال کرتے ہیں اور سارا زور گوشت پر لگاتے ییں جو اس قدر مہنگا ہے کہ عام شخص اسے خرید کر نہیں کھا سکتا۔

کریلاجو ایک بے حد مفید سبزی ہے ہمارے ہاں عام ملتا ہے یہ بے پناہ افادیت کی حامل سبزی ہے۔ یہ سبزی ملین طبع اور مقوی معدہ ہے اس کا استعمال پیٹ کے کیڑوں کو ہلاک کرتا ہے اسے چنے کی دال اور گوشت کے ہمراہ بھی پکاکر کھایا جاتا ہے۔ یہ صفرا اوربلغم کو دور کرنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتا۔ سرد مزاج لوگوں کے معدوں کوتقویت بخشتا ہے پیٹ کے کیڑوںکو ہلاک کرتا ہے۔

فالج’ لقوہ’ جوڑوں کے درد’ نقرس’ ذیابیطس’ رعشہ’ یرقان’ تلی کے ورم میں بے حد مفید ثابت ہوا ہے۔ کریلے کا پانی اور اس کا سفوف بنا کر استعمال کرنا بھی بہت سی بیماروں کا علاج ہے’ پتے کی پتھری کو دور کرنے کے لیے کریلے کا پانی دو دو تولہ صبح وشام روغن زیتون اور دودھ میں ملا کر پینے سے پتھری ٹوٹ کر خارج ہو جاتی ہے۔ افریقہ میں اس کے پکے ہوئے بیج روغن بادام شیریں میں گھوٹ کرزخموں پر لگاتے ہیں۔

مٹر اپنے موسم میں ہمارے ہاں وافر اور سستے مل جاتے ہیں اس کے اندر لحمیات کا ایک وافر ذخیرہ موجود ہوتا ہے۔ آلو کے ہمراہ مٹر کا سالن بے حد لذیذ اور قوت بخش ہوتا ہے۔ یہ گوشت کی کمی کو پورا کرتا ہے اور جسم کو طاقت دیتا ہے۔ اس کے علاوہ جتنی بھی دالیں ہیں یہ بھی سبزیوں سے ہی حاصل ہوتی ہیں یعنی ان کا اصل بھی سبزی ہے اور یہ سبزی کی ایک خشک شکل ہے۔

دالوں کی اہمیت سے کون نہیں واقف تاہم ان کا ذکر کسی اگلی نشست میں کیا جائے گا۔ بھنڈی آج کل عام اور سستی ہے یہ سبزی بڑی لذیذ ہوتی ہے یہ جسم کو ٹھنڈک اور فرخت بخشتی ہے اور بدن کی اصلاح کرتی ہے۔ سبزیاں کھانے والے لوگوں کے دانت مضبوط رہتے ہیں انہیں کیڑا نہیں لگتا اور صاف وشفاف رہتے ہیں کیونکہ ان کے اندر موجود سبز مادہ کلوروفل دانتوں کی حفاظت اور صفائی کا کام بھی انجام دیتا ہے اس کے مقابلے میں گوشت کھانے والے اصحاب کے دانت جلد خراب ہو جاتے ہیں۔

دواء خود بنا لیں یاں ہم سے بنی ہوئی منگوا سکتے ہیں
میں نیت اور ایمانداری کے ساتھ اللہ کو حاضر ناضر جان کر مخلوق خدا کی خدمت کرنے کا عزم رکھتا ہوں آپ کو بلکل ٹھیک نسخے بتاتا ہوں ان میں کچھ کمی نہیں رکھتا یہ تمام نسخے میرے اپنے آزمودہ ہوتے ہیں آپ کی دُعاؤں کا طلب گار حکیم محمد عرفان
ہر قسم کی تمام جڑی بوٹیاں صاف ستھری تنکے، مٹی، کنکر، کے بغیر پاکستان اور پوری دنیا میں ھوم ڈلیوری کیلئے دستیاب ہیں تفصیلات کیلئے کلک کریں
فری مشورہ کیلئے رابطہ کر سکتے ہیں

Helpline & Whatsapp Number +92-30-40-50-60-70

Desi herbal, Desi nuskha,Desi totkay,jari botion se ilaj,Al shifa,herbal

 

صحت اور جدید علاج

صحت اور جدید علاج

صحت اور جدید علاج ? انسانیت روزِ آفرینش سے اپنی بقا کی جنگ لڑ رہی ہے جبکہ آج کے آ لات انتہائی جدید اور موثر ہیں مگر کرب اور تکلیف بھی شکل بدل بدل کر قطعی طور پر مد مقابل شانہ بشانہ لڑ رہے ہیں ۔اگر ایک طرف رشتوں میں کڑواہٹ انسانیت کا سکون غارت کرتی ہے تو دوسری طرف بیماریاں جو کبھی سانپ کیطرح ڈستی ہیں (جسمانی بیماریاں) تو کبھی دیمک کی طرح چاٹتی ہیں (ذہنی بیماریاں) بھی چین سے نہیں رہنے دیتی اور انسان ان کے روبرو بقاءکی جنگ لڑتا لڑتا زندگی کے ماہ وسال پورے کر جاتا ہے۔
یہ تو ایک فطری عمل ہے کہ ہر ابتدا اپنی انتہا ءکو پہنچے البتہ سارا عمل اگر عافیت سے مکمل ہو تو غنیمت ہے وگرنہ اذیت اورکرب کا سامنا کرنا پڑتاہے۔ زندگی میں جذبوں کی حرارت اگر کم ہو جائے تو کبھی بھی سکھ سے نہیں رہا جا سکتا ۔ امنگیں اور جذبے سرد ہونے کا مطلب یہ ہے کہ انسان زندگی میں دلچسپی نہیں رکھتا اور یہ کس طرح ممکن ہے کہ ہم زندگی کے معاملات سے دلچسپی کم کر دیں اور زندگی سے تمام اچھے ثمرات کی امید بھی رکھیں ؟ رشتوں کی مضبوطی اور زندگی کے اعلی مقاصد کی تکمیل کا جذبہ کبھی بھی انسان کو تھکنے نہیں دیتے۔ جذبوں کی حرارت سے سرشار لمحے ہی ایک صحتمند اور بھرپور زندگی کی عکاسی کرتے ہیں۔
مایوسی انسانی زندگی کا وہ اندھا کنواں(Black Hole) ہے جو ساری اچھی امیدوں کو کھا جاتاہے اور کسی طرح سے ذہن میں روشن دریچے کھولنے نہیں دیتا۔ جب کبھی انسانی سوچ کسی بند گلی میں جا کررک جاتی ہے اور کوئی راستہ نہیں ملتا تو انجام خاتمہ! ہر دکھ اور تکلیف کا مداوا بھی اسی زمین پر موجود ہے مگر شرط یہ ہے کہ ہم اپنے ذہن کے دریچے ممکنات کی جانب کھولے رکھیں ۔علم و فن کسی ایک شعبہ زندگی ،قوم یا ملک کی میراث نہیں یہاں جو جتنی محنت کرے گا اتنا ہی بہتر ثمر حاصل ہو گا ۔ قوانین ِقدرت کی سامنے انسان کی کیا مجال ہے کہ وہ ایک لمحہ بھی کھڑا ہو سکے البتہ اگر دھوپ تیز ہو یا بارش برس رہی ہو تو تدبیر ایک امکان بڑھا دیتی ہے اور ہم چھتری تان کر تکلیف اور کرب سے چھٹکارا حاصل کر سکتے ہیں۔ جبکہ قانون قدرت بھی نہیں بدلا اور تدبیر بھی موثر ہو گئی ، لہذاہ انسان اگر ممکنات کو مدنظر رکھے تو کبھی بھی اس پر مایوسی طاری نہیں ہو سکتی اور تکلیف کا مداوا بھی آسانی سے ہو جاتا ہے۔ بصورت دیگر انسان تکلیف کے ساتھ ساتھ پریشانی خواہ مخواہ بڑھا لیتا ہے جو کہ کسی بھی اذیت سے چھٹکارا پانا تو درکنار ، مسائل کے منجدھار میں پھنسا دیتی ہے۔

قدرت ہمیں معاملاتِ زندگی میں سے گزرنے پر مجبور کرتی ہے گرچہ ہم جتنا مرضی جمود میں رہنے کی کوشش کریں۔ ہر مثبت اور صحیح سوچ رکھنے والا شخص نہ صرف معاملاتِ زندگی میں پرجوش اور متحرک (Dynamic)ہے بلکہ اپنی ترقی، کامرانی اور ذہنی پیش رفت کو بھی قدرتی انداز میں رکھنا پسند کرتا ہے جبکہ پیش رفت صرف اور صرف تصورات، خیالات، عوامل اور حالاتِ زندگی کی بہتری کے مرہون منت ہے جو کہ نتیجتاً ظاہر ہوتے ہیں۔ لہٰذا تخیل (خیالThought) کے تخلیقی مراحل کا مطالعہ اور ان کا زندگی کے اعلیٰ مقاصد کا استعمال ہمارے لیے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ خیالات (دقیق تا ارفع Alpha and the Omega) کا ابجد (Alphabet)بنانے کے لیے الہامی اور فلسفیانہ ذرائع ہمارے لیے عظیم سچائی (حقیقت) تک رسائی کا موجب بنتے ہیں جبکہ انسانیت اِس اکیسویں صدی میں بڑے زور و شور سے ”حقیقت کی تلاش“ میں ہر وہ راستہ افشا کرنے پر تُلی ہوئی ہے جو کہ کسی بھی طرح سے اس تک پہنچنے کا موجب بنے۔ خیال کے بارے میں علم وہ طریقہ کار واضع کرتا ہے جس کے باعث انسانی زندگی کے ارتقائی اور تسلسل کے عمل میں بلندی اور تیزی آتی ہے۔
ع ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں
اکیسویں صدی میں جبکہ سائنس ٹیکنالوجی نے بہت سی انسانی بیماریوں پر قابو پا لیا ہے مگر اسی بقا کی جنگ میں بعض اوقات ایسے عوامل سے بھی واسطہ پڑتا ہے جنکی آنکھوں میں آنکھیں ڈالنا ممکن نظر نہیں آتا ۔اگر میڈیکل سائنس (ایلوپیتھی) کے لئے کسی بیماری پہ قابو پانا مشکل ہے تو کوئی بات نہیں اور بھی بہت سے طریقہ علاج موجود ہیں جنکے باعث ایک انسان اپنی کھوئی ہوئی صحت و تندرستی کو دوبارہ حاصل کر سکتا ہے۔ ایک طرف اگر ایڈز ،کینسر ،ڈینگی وائرس اور سوائن وائرس کے بخار اور دیگر بیماریوں نے انسانی زندگی کو مات دینی شروع کر دی ہے تو دوسری طرف متبادل طریقہ علاج (Alternative) بھی موجو د ہے جسکے باعث نہ صرف بیماری سے نپٹا جا سکتا ہے بلکہ انسانیت نے دوبارہ سکھ اور تندرستی کی طرف لوٹنا شروع کر دیا ہے ۔میں نے کئی بار لاعلاج امراض میں مبتلا لوگوں کو اپنی متبادل طریقہ علاج کے باعث تندرست ہوتے دیکھا ہے جیسا کہ علاج بالمثل( ہومیوپیتھی )،طب نبوی ﷺ، متبادل طرز تنفس (سانس بدل کر علاج)، آکو پریشر (Acupressure)،کروموپیتھی (رنگوں و روشنی سے علاج)، طب یونانی ،ہپناٹزم وغیرہ وغیرہ ان سب کی حقانیت کو کوئی نہیں جھٹلا سکتا بشرطیکہ معالج بھی اپنے فن میں یکتا ہو آئیے۔ آج آپکو اپنی ذاتی تحقیق سے روشناس کروں جس کے بارے میں ہو سکتا ہے آپ پہلے سے کافی کچھ جانتے ہوں مگر اس نقطہ نظر سے پہلی بار آشکار ہوں گے ۔

آج کی جدید سائنس اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ انسانی ذہن ایک مقناطیس (Magnet )کیطرح سے کام کرتا ہے اور ہر وہ شئے اپنی طرف کھینچتا ہے جس کے بارے میں انسان سوچ رہا ہوتا ہے۔ جیسا کہ خوشی کے مواقع پر انسان کو ہر طرف خوشی نظر آتی ہے حتی کہ شور بھی موسیقی کی طرح معلوم ہوتا ہے ،محبت کے عالم میں زندگی کے معاملات انتہائی خوبصورت اور رنگین نظر آتے ہیں جبکہ غم و پریشانی کے عالم میں دنیا بھر میں کرب اور تکلیف دکھائی دے رہی ہوتی ہے۔ یہ سب کچھ در اصل اسی قانون کے مطابق ہے کہ انسانی ذہن جس سوچ و فکر میں مگن ہے وہ اپنے اردگرد اسی طرح کے حالات و واقعات اکٹھا کرتا جارہا ہے ۔آپ اسکو ایک ایسا ہی عمل کہہ سکتے ہیں جیسے آپ انٹر نیٹ پر سرچ انجن جیسے Google میں جا کر کچھ تلاش کرنا چاہیں تو سرچ انجن ویب سائٹ آپکو لاکھوںنئی ویب سائٹس لاکر آپ کے سامنے رکھ دے گا مگر یہ تمام ویب سائٹس اس سے ملتے جلتے ہوں گے ۔جو کچھ آپ سرچ باکس میں لکھیں گے اور ملتی جلتی معلومات کا ڈھیر لگ جائے گا۔اسکو تلازمہ (Like Attracts Like)بھی کہہ سکتے ہیں ۔
تلازمہ خیال اس وقت کام کرتا ہے جب کسی بات ،لفظ ،فکر کو ذہن میں تصور (imagine, Visualize) کرکے بے خیال (Free Mind) ہو جائیں یا پھر اسکی تکرار کرتے ہیں اور نتیجہ میں اسکے ثمرات حاصل ہوتے ہیں جیسا کہ ﷲ تعالیٰ ایک صفاتی نام السلام (The Source of Peace) جب کسی زبان سے ادا ہوتا ہے یا ذہن سے تصور کیا جاتا ہے تو کائنات سے سلامتی ،امن کا رجوع اس انسان کی طرف رابطہ (Channel)بنتا ہے جبکہ اس کے ثمرات صحت و سلامتی کے باعث بنتے ہیں اور آپ اس سے مراقبہ صحت و سلامتی کا نام بھی دے سکتے ہیں۔
جب انسانی سوچ کسی بند گلی میں جا کررک جاتی ہے اور کوئی راستہ نہیں ملتا تو انجام خاتمہ! علم ہی انسان کو اشرف المخلوقات بناتا ہے یہ انسانی شرف و معراج صرف علم کی وجہ سے ہے۔ علم کی روشنی جہاں آجائے وہاں تاریکی ختم ہو جاتی ہے ذہن انسانی جس کی حیثیت انسانی سلطنت میں بادشاہ سلا مت کی ہے، اسکی مرغوب غذا ہی علم ہے جسکی بدولت وہ پھلتا پھولتا ہے اور سلطنت کے معاملات کو چلاتا ہے۔اگر حضرت انسان اپنے ذہن کو علم سے محروم رکھے گی تو یہ کسطرح سے ممکن ہے کہ وہ معاملات زندگی پر اپنی گرفت کر سکے ؟ علم کی بہت سی شاخیں ہیں جو انسان کی زندگی میں عروج و ترقی کا باعث بنتی ہیں،اگر اچھا کاروبار کرنا ایک فن ہے تو اچھا لکھنا اور اچھا بولنا بھی ایک فن ہے اسی طرح اگر تعلیم و تر بیت میں شاندار کامیابی بھی ایک فن ہے تو اچھا کھیلنا بھی ایک فن ہے ۔اب اگر ہم زندگی کے سارے علم و فنون کو حاصل کر لیں جو کامیابی و کامرانی کی طرف لے جاتے ہیں مگر زندہ رہنے کا فن نہ سیکھیں تو یہ کہاں کی عقلمندی ہے؟ جمادات (Minerals, Stoneبے حرکت کوئی نشو نما نہیں، کوئی نقل مکانی نہیں اور نہ ہی کوئی سمجھ بوجھ)، نباتات ( Plant نشونما تو ہے مگر کوئی نقل مکانی نہیں اور نہ ہی کوئی سمجھ بوجھ) اور حیوانات (Animal سب کچھ ہے مگر محدود سمجھ بوجھ اور جبلت کے باندھے ہوئے) اور ایک ہم اللہ تعالیٰ کی شاندار مخلوق جسے اِرادہ (Freedom of Choice) اور خود مختاری دی گئی ہے اور ہم جبلت کے بھی غلام نہیں جبکہ ہمیں عقل جیسے اِنعام سے نوازا گیا ہے کہ جو علم کی روشنی میں دیکھتی ہے اور علم وہ نور ہے جو ہمارا رابطہ ہماری خودی (میں، Self) اور کائنات کی حقیقت سے کروا دیتا ہے۔
تخیل ہمارے لیے بہتے پانی کی مانند ہے اگر حدوں میں رہے تو لازوال طاقت ہے اور اگر حدوں کو توڑ دے تو طوفان جبکہ یہ طوفان ناقابل تسخیر معلوم ہوتا ہے لیکن اگر آپ اس کا راستہ تبدیل کرنے کا طریقہ جانتے ہیں تو آپ اس کا رُخ موڑ سکتے ہیں اور اس کو کارخانوں میں لے جا کر وہاں اس کی قوت کو حرکت، حرارت اور بجلی میں تبدیل کر سکتے ہیں۔ آپ تخیل (خیال) کو گھر بیٹھا دیوانہ بھی کہہ سکتے ہیں یا پھر بے سدھ گھوڑے سے بھی وابستہ کر سکتے ہیں جس کی نہ لگام اور ہی باگیں، ایسی صورت میں سوار اس کے رحم و کرم پہ ہے کہ جہاں وہ چاہے اس کو کسی کھائی میں گِرا کر اس کی زندگی کا خاتمہ کر دے لیکن اگر سوار گھوڑے کو لگام دینے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو حالات بدل سکتے ہیں۔ اب یہ گھوڑا (تخیل) اپنی مرضی سے کہیں نہیں جاتا بلکہ سوار جہاں چاہے گھوڑے کو وہاں لے جانے پر مجبور کر دیتا ہے۔
تصور،سوچ اور خیال اس وقت انتہائی طاقت ور ہو جاتے ہیں جب انکا رابطہ اصل سوچ (Source)سے ہو جاتا ہے اور یہی رابطہ (Channel)اپنے اثرات دکھاتا ہے. اگر ایک طرف مراقبہ کے عمل سے تخیل منظم (Organized)شفاف (Refined) ہوتا ہے اور تقویت (Amplify)پکڑتا ہے تو دوسری طرف (اس عمل سے پیشتر )ذہن کو اس تمام آلودگی اور بے سرو سامانی کے ماحول سے پاک کرنا بھی ضروری ہے تا کہ زمینِ ذہن پہ اُگی ہوئی تمام جڑی بوٹیاں (بے لگام خیالات) سورج کی روشنی میں خود بخود فنا ہو جائیں۔ جیسے آپ نیا کمپیوٹر تیار کر رہے ہوتے ہیں تو سب سے پہلے ایک ہارڈ ڈسک (Hard Disk) کو تیار (Format)کرتے ہیں تا کہ وہ کسی بھی نئے پروگرام کو ذخیرہ (Save) کرنے کے قابل ہو جائے اور پھر سب سے پہلے Operating System )قاعدہ و قانون)کا پروگرام انسٹال کرتے ہیں تا کہ اِس میں Application پروگراموں کو چلانے کی قابلیت ہو جائے۔ تحلیل نفسی (Psychotherapy)بھی اِسی عمل کا تسلسل ہے یا پھر محاسبہ ذات بھی یہی طریقہ کار وضع کرتا ہے جبکہ توبہ (Repent) بھی ایک ایسا ہی عمل ہے جو نہ صرف گناہوں کی دھلائی کا کام کرتا ہے بلکہ انسانی ذہن کی غلاظتوں کا بھی قلع قمع کرتا ہے اور کبھی کبھی Confession (اقرار گناہ)اور آزاد گوئی (Free Speaking)کے ثمرات بھی کسی طرح بھی اِس معاملہ میں پیچھے نہیں۔
میں آپ کو ایک انتہائی آسان دلچسپ اور اچھوتا طریقہ کار بتاتا ہوں جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ آپ کے ذہن میں خیالات کی بھرمار یا پھر اشتعال و دیگر تمام عوامل سے نہ صرف پرے رکھے گا بلکہ ذہن کو جلا بھی بخشے گا۔ اس چھوٹی سے مشق (Exercise)کے بعد آپ نہ صرف اپنے آپ کو انتہائی مختلف پائیں گے بلکہ آپ کے شعور کی بہتی ہوئی رو کی طاقت کا آپ کو اندازہ بھی ہو گا اور اس کے ثمرات سے استفادہ بھی حاصل کرسکیں گے۔ اگرآپ کسی بند کمرے میں داخل ہوں اور اندھیرے میں آ پکا ہاتھ کسے لٹکتی ہوئی رسی سے چھو جائے تو آپکو فورا سانپ کا تصور ہو گا اور ڈر جائیں ، دہشت ذدہ پوجائیں گے مگر کمرے میں روشنی ہوتے ہی آپ کو آپنے آپ پہ ہنسی آئے گی کہ جسکو میں سانپ سمجھتا رہا وہ تو صرف ایک بے ضرر رسی ہے، یہ کچھ اسی طرح کا عمل ہے ، اگر آپ میں فیصلہ کرنی کی طاقت کا فقدان ہے یا پھر کسی واقعہ کو بھولنا چاہتے ہیں مگر بھول نہیں پاتے ، اور یا پھر ذہن کی ہنڈیا میں تخیل کا جوش آتا ہے ( ہائی بلڈ پریشر) اور آپے سے باہر ہو جاتے ہیں ، یا ذہانت کی کمی ہے اور سستی کا شکار ہیں ، غرض معاملہ ہو کوئی بھی، صرف د س منٹ روزانہ (تسلسل کے ساتھ) آپ آزادانہ لکھیں یعنی ایک کاغذ اور پنسل لے لیں اور بغیر سوچے سمجھے لکھنا شروع کر دیں مگر یاد رہے کہ اپنے ذہن کی بہتی رو کو روکنے کی کوشش نہ کریں بلکہ جو کچھ بھی ذہن میں آئے بلا سوچے سمجھے لکھتے چلے جائیں اور اگر لکھنے کو دل نہ چاہ رہا ہو تو آڑھی ترچھی لکیریں ہی کھینچتے چلے جائیں۔ لکھائی خود بخود ہی شروع ہو جائے گی۔ غرض کچھ نہ کچھ لکھتے جائیں خواہ اس میں لکھی ہوئی باتیں آپ کو شرمندہ ہی کیوں نہ کریں اپنے ذہن کے بے ہنگم شور کو کاغذ پر منتقل کریں اور صرف تین سے چار ہفتے کی مشق کے بعد انقلابی تبدیلی آپ کو ہستی کے نئے میدان میں لے آئے گی جبکہ آپ کا ذہن خیالات کی بھرمار اور بے ہنگم بہاﺅ سے پاک ہو چکا ہو گا اور آپ کے ذہن کی زمین زرخیز ہو چکی ہو گی۔ اس ساری مشق کے تسلسل میں جو تحریر آپ لکھیں برائے مہربانی اس کو ساتھ ساتھ پڑھتے بھی جائیں اور ایک جگہ جمع کرتے رہیں مگر کسی دوسرے کو پڑھنے کی ہرگز اجازت نہ دیں کیونکہ ان تحریروں میں آپ کا ذہن کھلی کتاب کی طرح موجود ہے جس کو کوئی بھی آسانی سے پڑھ سکتا ہے صرف آپ اُن کو ملاحظہ کریں اور آخر ردی کی ٹوکری میں پھینک دیں یا دریا بُرد کر دیں البتہ اگر آپ اپنے لیے کسی شخص کو شفیق اور رہنما سمجھتے ہیں تو اِسکو دکھانے میں کوئی مضائقہ نہیں کیونکہ اس سے آپ کو اپنے بارے میں جاننے اور بہتری لانے کا موقع ملے گا جبکہ اِن مشقوں کے باعث آپ اپنا ذہنی ماحول (Mind Set) تو تبدیل کر ہی چکے ہیں اور اب آپ کا ذہن شعور کی حد (Focus) میں آ چکا ہے۔
اسی طرح جدید آلات میں ایک چھوٹی سی مشق اور حاضر ہے، مگر اسکا اصول واضع کر دوں۔ انسانی ذہن اکثر ارادہ اور خیال کی کشمکش سے دوچار رہتا ہے مگر فتح ہمیشہ خیال کو حاصل ہوتی ہے۔ ذہن ارادہ کے تابع چلنا چاہتا ہے مگر خیال اس پہ غالب آ جاتا ہے۔ لہذا اس خواہ مخواہ کی جنگ سے بچنے کیلئے آپ خیال کے عمل سے استفادہ کریں۔ ہزارہا عوامل ایسے ہیں کہ آپ ایک کام کا ارادہ کرتے ہیں اور عمل پذیر ہوتے ہیں مگر کچھ ہی دیر بعد آپ کو رکاوٹ محسوس ہوتی ہے اور آخر ہتھیار پھینک دیتے ہیں۔ یا ارادہ تو کرتے ہیں مگر عمل پذیر نہیں ہوتے ۔ بہرحال معاملہ کچھ بھی ہو خیال اپنی ایک جداگانہ حیثیت رکھتا ہے اور اگر ترغیب Suggestion بھی شامل ہو تو یہ سونے پہ سہاگہ کا کام کرتا ہے۔ خود تلقینی Autosuggestion اپنے آپ کو تلقین دینے کے عمل کو کہتے ہیں اور یہ وہ ہتھیار ( آلہ tool) ہے جو انتہائی موثر اور بے خطا ہے کہ جسکا اندازہ کرنا مشکل ہے۔ اگر آپکو اسکا صحیح استعمال آ جائے تو سمجھیں ایک خزانہ Treasure ہاتھ آ گیا۔ قوت خیال سے مستفید ہونے کیلئے خود تلقینی Autosuggestion کا عمل آپکے تمام مسائل کا حل ہے۔
دن میں ایک بار یا دو بار صرف 25 مرتبہ اپنے آپ کو ترغیب دیں اور ایک ہی فقرہ تسلسل کے ساتھ اپنے آپ سے کہیں کہ
اللہ کے فضل و کرم سے میں روزبروز ہر لحاظ بہتر سے بہتر ہوتا چلا جا رہا ہوں

تکلیف کچھ بھی ، ذہنی ہو یا جسمانی ، معاملہ کچھ بھی ہو ہے یہ تلقینی الفا ظ آپکو ہستی کے نئے میدان میں لے آئیں گے ۔ اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ نتائج آپکے سامنے ہونگے۔ اس عمل کے شفا بخش اثرات اور تفاصیل احاطہ تحاریر میں ممکن نہیں ، البتہ آزمائش شرط ہے ۔
آپ کسی بھی طرح کی رہنمائی و معاونت حاصل کرنا چاہیں تو بلا جھجک مجھ سے رابطہ کر سکتے ہیں
al_shifa.herbal@yahoo.com +92-313-99-77-999 begin_of_the_skype_highlighting              +92-313-99-77-999      end_of_the_skype_highlighting +92-333-4358-455 hakim muhammad irfan

best jous for Health , صحت کے لئے بہترجوسز

صحت کے لیئے مفید جوسز
پھلوں اور سبزیوں‌کی افادیت سے کون آگاہ نہیں‌ہے آجکل۔ذیل میں کچھ معلومات پھلوں‌اور سبزیوں کے رس ملا کر پینےکئ بارے میں کہ ان سے کون سی بیماری کو فائدہ ہو سکتا ہے یا ہمارے جسم کا کون سا نظام بہتر ہو سکتا ہے‌۔

1۔گاجر+ادرک+سیب: ان تینوں کے رس کو ملا کر پینے سے جسم کے تمام نظام کے فعال ہوتے ہیں‌اور انکی کارکردگی بڑھتی ہے۔
2:سیب + کھیرا+سلیری:یہ کلسٹرول کو کنڑول کرتے ہیں،کینسر کے اثرات سے بچاتے ہیں،سر کے درد میں‌مفید ہیں‌اور نظام ہضم کی گڑبڑ کو ٹھیک کرتے ہیں۔
3:ٹماٹر+گاجر+سیب:یہ جلد کو نکھارتے ہیں اور منہ کی بدبو دور کرنے میں‌مفید ہیں۔

4:کریلہ+سیب+دودھ: یہ جسم کی اندرونی گرمی جسکے باعث مختلف الرجیس ہو جاتی ہیں اسکو دور کرتے ہیں اور اس سے منہ کی بدبو بھی دور ہوتی ہے۔

5:کینو+کھیرا+ادرک:یہ جلد کی نمی کو برقرار رکھتے ہیں اور جلد کو بہتر بھی بناتے ہیں۔جسم کی اندرونی گرمی دور کرتے ہیں۔

6:انناس+تربوز+سیب:یہ مثانے اور گردوں‌کو فعال کرتے ہیں۔اور جسم سے زائد نمکیات بھی خارج کرنے میں‌معاون ہوتے ہیں۔

7:سیب+کھیرا+کیوی:یہ جلد کی رنگت کو نکھارتے ہیں۔

8:ناشپاتی+کیلا: یہ خون میں مٹھاس کے اجزء کو ریگولیٹ کرتے ہیں۔

9:انگور+ترپوز+دودھ+چند قطرے شہد:یہ مقوی ہے وٹامن سی اور بیب کے ساتھ،یہ خلیوں کو فعال کرتا ہے اور امیونے سسٹم کو طاقتور بناتا ہے۔

Health Tips ,صحت ٹوٹکوں سے

health tips

Health Tips ,صحت  ٹوٹکوں سے

آنکھو ں کی خارش کے لیے
میٹھے انار کے دانوں کا پانی کسی تا نبے کے برتن میں ڈال کر درمیانی آنچ پر پکا ئیں جب وہ اچھی طر ح گاڑھا ہو جائے تو اسے کسی صاف ڈبیہ میں ڈال دیں ۔ را ت کو سوتے وقت ایک ایک سلائی دونوں آنکھوں میں ڈالیں۔ خا رش چشم اور پلکوں کے با ل گر تے ہوں، تو بہترین ہے ۔

نا خن اکھڑنے لگیں
پانچ تو لے شیطر ج ہندی کا جو شاندہ تیار کر کے اس میں پا نچ تو لے سرکہ اور دو تولے شہد ملا کر پکائیں۔ گا ڑھا ہونے پر بو تل میں ڈالیں ۔ اکھڑنے اور پٹھتے ہوئے نا خنو ں پر لگانے سے مفید نتائج برآمد ہو تے ہیں۔

بلغم کی زیا دتی اور نسیا ن کے لیے
ساڑھے چا ر تولہ کسندر لیں۔ را ت کو تھوڑے سے پانی میں بھگو دیں ۔ صبح نہار منہ یہ پانی نتھار کر پئیں ۔ بلغم کی زیا دتی کو ختم کر نے میں لاثانی ہے ۔مر ض نسیا ن کا بھی خاتمہ ہو جاتاہے ۔

پیچش کے لیے
چھو ٹی چھوٹی سیا ہ ہرڑ لیں ان پر گھی لگالیں پھر انہیں یوں بھونیں کہ نہ کچی رہیں نہ ملنے پائیں۔پھر باریک پیس لیں۔ تھوڑے سے دہی یا مکھن میں چا ر ما شے یہ سفوف ڈال کر استعمال کریں ۔ پیچش کا کامیاب علا ج ہے ۔

آگ سے جل جانا
اقاقبا لیں اور بار یک پیس لیں مرغی کے انڈے کی سفید ی میں ملا لیں ۔ اب جلی ہوئی جگہ پر لگائیں درد بند ہو جائیگا اور آبلے نہیں پڑتے ۔

پتھری کے لیے
سہا گہ بریاں ایک تو لہ لیکر اسے باریک پیس لیں ۔ اب ر وغن گاﺅ پا نچ تو لہ میں ملا کر پکا ئیں جب سہاگہ پھو ل جا ئے تو اسے نکال کر پیس لیں یہ سفو ف بارہ تولہ شہد میں ملا کر رکھ لیں ۔ روزانہ 3 ماشہ پانی کے ساتھ استعمال کریں ۔ انشا ءاللہ پتھری ختم ہو جائے گی ۔

پھوڑے پھنسی کے لیے
دیسی مر غی کے انڈے کی سفیدی میں ایک چمچ تل کا تیل ملائیں اور پھوڑے یا پھنسی کی جگہ پر لیپ کر دیں۔ فائدہ مند ہے ۔

ملیریا کے لیے
ایک تولہ تلسی کی سبز پتی، نصف ما شہ کالی مر چ میں ملا کر پیس لیںاور تھوڑا سا شہدملا کر چنے کے برابر گو لیا ں بنا لیں۔ سر دی سے بخا رہونے اور ملیریا کے لیے اکسیر ہے اسکا استعمال بلغمی بخاروں میں بھی لا جواب اثر کرتاہے ۔

ورم تحلیل کر نے کے لیے
املتا س کی جڑ لیں ۔ پیس کر ورم کی جگہ پر لیپ کریں ۔ ورم تحلیل ہو جائے گا ۔

Use yogurt good health,دہی کا استعمال اچھی صحت

Use yogurt good health,دہی کا  استعمال اچھی صحت

د ہی کو عربی میں ”لبن“ فارسی میں ”ماست“ اور انگریزی میں یوگرٹ (yogurt) کہتے ہیں ۔ صدیوں سے یہ انسانی خوراک کا حصہ رہا ہے۔ زمانہ قبل از تاریخ کا انسان بھی گائے‘ بکری‘ بھینس‘ اونٹ اور بھیڑ کے دودھ کو بطور غذا استعمال کیا کرتا تھا۔ ان کے مویشیوں کے دودھ کی مقدار کم ہوتی تھی اس لیے وہ اسے جانوروں کی کھالوں یا کھردرے مٹی کے برتنوں میں جمع کرلیتے تھے تاکہ بہ وقت ضرورت آسانی سے استعمال میں آجائے۔
شروع شروع میں اسے جانوروں سے حاصل کرنے کے بعد اسی طرح کچی حالت میں رکھنے کی کوشش کی گئی لیکن کچے دودھ کو محفوظ حالت میں رکھنا‘ وہ بھی اس طرح کہ اس کی غذائیت بھی برقرار رہے ناممکن سی بات ثابت ہوئی۔ اس مسئلے کا حل اتفاقی طور پر دریافت ہوگیا۔ کہا جاتا ہے کہ جنوب مغربی ایشیا کے وسیع علاقوں میں سفر کرنے والے ”نوماد“ قبیلے والے دودھ کی شکل میں اپنی رسد کو بھیڑ کی کھال سے بنے ہوئے تھیلے میں رکھا کرتے اور اسے اپنے جانوروں کی پیٹھ پر باندھ دیا کرتے تھے۔ ایام سفر میں وہ تھیلے مسلسل ہلتے رہتے اس پر سورج کی تپش بھی اپنا اثر دکھاتی رہتی نتیجتاً ہ دودھ خمیر بن کر نیم ٹھوس شکل اختیار کرلیتا۔ وہ اس بات سے ناواقف تھے کہ بھیڑ کی کھال کے اندرونی حصے میں چھپے ہوئے بیکٹریا نے دودھ کو خمیر کرکے دہی کی شکل دے دی ہے۔
ابتداءمیں دودھ کی اس شکل کو بہت کم مقدار میں استعمال کیا جاتا تھا کیوں کہ نوماد قبیلے والے اسے زہریلا سمجھتے تھے پھر آہستہ آہستہ تجربے سے یہ بات سامنے آئی کہ دودھ کی یہ نئی شکل مضر صحت نہیں معجزاتی غذا ہے۔ جب اس کی افادیت سامنے آئی تو اسے بنانے کا طریقہ دریافت کیا گیا۔ دودھ کو جمانے کے لیے انہوں نے اس میں تھوڑا سا دہی ملالیا۔ اس تجربے نے کامیابی عطا کی اور پھر دھیرے دھیرے یہ بات بھی ثابت ہوگئی کہ کھٹا اور خمیر کیا ہوا دودھ تازہ دودھ سے بہت زیادہ فائدے مند ہے۔ یہ نہ صرف زیادہ عرصے تک اچھی حالت میں رہتا ہے بلکہ اس کا ذائقہ بھی مزیدار ہوجاتا ہے۔

بلغاریہ کے لوگوں کی طبعی عمر دیگر ممالک سے زیادہ ہے۔ سائنسدانوں نے مسلسل تجربوں اور تجزیہ کے بعد پتا چلایا کہ اس کی ایک وجہ دہی بھی ہے۔ وہاں کے لوگ دہی کا استعمال بہت زیادہ کرتے ہیں۔

فرانس میں اسے ”حیات جاوداں“ کا نام دیا گیا ہے۔ 1700ءمیں فرانس کا کنگ فرسٹ کسی بیماری میں ایسا مبتلا ہوا کہ کوئی علاج کارگر نہیں ہوتا تھا۔ بادشاہ سوکھ کا کانٹا ہوگیا تھا۔ نقاہت اس قدر بڑھ گئی تھی کہ وہ بیٹھنے کی قوت بھی کھو چکا تھا۔ اس کے علاج کے لیے مشرق بعید کے ایک معالج کو بلایا گیا۔ اس نے بادشاہ کو صرف دہی کا استعمال کرایا اور کنگ فرسٹ صحت یاب ہوگیا۔

فرانس ہی کے ایک ماہر جراثیم پروفیسر میچسنٹکو لکھتے ہیں کہ دہی درازی عمر کی چابی ہے۔ اس کے استعمال سے نہ صرف انسان بہت سی بیماریوں سے محفوظ رہتا ہے بلکہ عمر بھی طویل پاتا ہے۔

Live longer look younger نامی کتاب میں مصنف نے اسے معجزاتی غذا کہا ہے۔

ء1908

کے نوبل انعام یافتہ ایلی میٹ ٹنگوف وہ پہلا ماہر تھا جس نے برسوں کی تحقیق کے بعد اس کے خواص پر تحقیق کی اور بتایا کہ یہی وہ غذا ہے جو انسان کو طویل عمرگزارنے کے مواقع فراہم کرتی ہے۔

آنتوں کے نظام کے اندر ایک خاص تعداد میں بیکٹیریا پائے جاتے ہیں جنہیں فلورا کہا جاتا ہے۔ دہی فلورا کی پرورش میں معاون ثابت ہوتا ہے۔ انٹی بایوٹک ادویات فلورا کو ختم کردیتی ہیں اسی لیے بعض ڈاکٹر صاحبان اینٹی بائیوٹک ادویات کے ساتھ دہی کھانے کا مشورہ دیتے ہیں۔ دہی بیکٹیریا کے انفیکشن کو بھی روکتا ہے۔

غذائی ماہرین کے مطابق دہی میں پروٹین‘ کیلشیم اور وٹامن بی اچھی خاصی مقدار میں موجود ہوتی ہے۔ البتہ آئرن اور وٹامن سی اس میں بالکل نہیں ہوتا۔ گائے کے دودھ کے مقابلے میں بھینس کے دودھ سے بنا ہوا دہی زیادہ طاقتور ہوتا ہے۔ اس میں چکنائی پروٹین اور دوسرے غذائی اجزاءزیادہ پائے جاتے ہیں۔ دہی کے اوپر جو پانی ہوتا ہے اس میں وٹامن اورمنرلز وغیرہ اچھی خاصی مقدار میں موجود ہوتی ہیں کیوں کہ وہ دودھ کا ہی پانی ہوتا ہے۔ جب دودھ جمتا ہے تو پانی اس کے اوپر آجاتا ہے جسے دہی میں ملالیا جاتا ہے۔

دہی نہ صرف کھانوں کو لذت بخشتا ہے بلکہ غذائیت بھی فراہم کرتا ہے۔ جسم کی ضروریات کو بھی پورا کرتا ہے۔ اس کی سب سے بڑی خاصیت یہ ہے کہ یہ نہ صرف بہ آسانی ہضم ہوجاتا ہے بلکہ آنتوں کے نظام پر بھی خوشگوار اثر ڈالتا ہے۔ اسے صحت مند بنانے میں معاون ثابت ہوتا ہے۔ اس میں چکنائی اور حرارے انتہائی کم مقدار میں ہوتے ہیں۔ ایک کپ دہی کے اندر صرف 120حرارے (کلوریز) پائے جاتے ہیں۔ اتنی کم مقدار میں کلوریز کے حامل دہی میںایسے کئی اقسام کے غذائی اجزاءہوتے ہیں جو انسانی صحت کے لیے انتہائی ضروری ہیں۔ مثلاً پروٹین‘ مکھن نکلے دودھ سے بنے دہی کے ایک کپ میں 8 گرام پروٹین ہوتی ہے۔ جب کہ خالص دودھ سے بنے دہی کے ایک کپ میں 7 گرام۔ دہی کی اتنی ہی مقدار میں (مکھن نکلے ہوئے دودھ سے بنائے گئے دہی میں) ایک ملی گرام آئرن‘ 294 ملی گرام کیلشیم‘ 270 گرام فاسفورس‘ 50 ملی گرام پوٹاشیم اور 19 ملی گرام سوڈیم پایا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ وٹامن اے (A) 170 انٹرنیشنل یونٹ۔ وٹامن بی (B) ایک ملی گرام۔ تھیا مین 44 ملی گرام۔ وٹامن بی (ریبوفلاوین) 2 ملی گرام اور وٹامن سی (ایسکور بک ایسڈ) بھی 2 ملی گرام پایا جاتا ہے۔

ڈائٹنگ کرنے اور وزن کرنے والوں کے لیے دہی ایک آئیڈیل خوراک ہے کیوں کہ اس کے اندر حراروں کی تعداد انتہائی کم ہوتی ہے جس کی مقدار اوپر لکھی جاچکی ہے۔ مندرجہ بالا مقدار میں 13 گرام کاربوہائیڈریٹس پائے جاتے ہیں۔ اسی طرح چکنائی کی مقدار بھی بہت کم ہوتی ہے۔ دہی کے ایک کپ میں 4 گرام چکنائی پائی جاتی ہے۔ جب کہ خالص دودھ سے بنے دہی میں یہ مقدار بڑھ کر 8 گرام ہوجاتی ہے۔

دہی میں ایک خاص قسم کے بیکٹیریا پائے جاتے ہیں۔ یہ بیکٹیریا ایک خاص درجہ حرارت پر رکھے جانے والے دودھ کے اندر بڑی تیزی سے پیدا ہوکر بڑھتے چلے جاتے اور دودھ کو نصف ٹھوس حالت میں لادیتے ہیں جسے دہی کہا جاتا ہے۔ یہ بیکٹیریا بہت بڑی مقدار میں وٹامن بی مہیا کرتے ہیں جو آنتوں کے نظام کو صحت مند رکھنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں

 

Read More

بالوں کی صحت و حفاظت کا بہترین طریقہ

 

بالوں کی صحت و حفاظت کا بہترین طریقہ
بالوں کی صحت و حفاظت کا بہترین طریقہ

بالوں کی صحت و حفاظت کا بہترین طریقہ

جس طرح انسانی جلد کی تین قسمیں ہیں اسی طرح بالوں کی بھی تین اقسام ہیں۔

چکنے بال، نارمل بال، خشک بال ہمیشہ اپنے بالوں کے مطابق شیمپو کا انتخاب کرنا چاہیے۔ شیمپو بالوں کی تیزابیت کو ختم کرتا ہے۔

بالوں کے بڑھنے اور گرنے کا انحصار آپ کی صحت پر بھی منصر ہے آپ کے جسم کو اگر مناسب مقدار میں پروٹین اور دوسرے وٹامن مل رہے ہیں تو آپ کے بال بھی صحت مند اور لمبے اور چمکیلے ہوں گے بالوں کی حفاظت بھی اسی طرح ضروری ہے جس طرح ہم اپنے باقی اعضا کی حفاظت کرتے ہیں۔

اکثر خواتین بالوں کو لمبا کرنے کے طریقوں سے ناواقف ہوتی ہیں۔ ان کے خیال میں اگر بالوں کو نہ کٹوایہ جائے تو بال بڑھتے رہتے ہیں۔ یہ سوچ بلکل غلط ہے اگر آپ کے بال لمبے ہیں تو آپ کو چاہیے کہ مہینے میں ایک بار ان کی نوکیں کٹوائیں اس سے بالوں کو بڑھنے میں مدد ملے گی۔

بالوں کی غذا تیل ہے

ہفتہ میں دو بار بالوں کی جڑوں میں تیل کا مساج کرنا چاہیےروئی کو سرسوں کے تیل میں بھگو کر سر کے بالوں میں مانگ نکال کر لگائیں اس کے بعد انگلیوں کی پوروں سے مالش کریں۔ پندرہ منٹ تک آہستہ آہستہ کنگی کریں اور اس کے بعد تولیہ بھگو کر نچوڑ لیں اور سر پر لپیٹ دیں۔ ٹھنڈا ہونے پر یہی طریقہ دہرائیں۔ یہ عمل تین مرتبہ کریں بعد میں باریک کنگھی سر پر پھیریں۔ اس کے بعد ایک تو تیل جڑوں میں جذب ہو جائے گا دوسرا جلد کی خشکی کنگھی میں آجائے گی۔ اس عمل کے بعد اپنے بالوں کو کسی اچھے شیمپو سے دھوئیں۔

اگر بال گرتے ہیں تو اس کے لیے ایک گریلو نسخہ بہت آسان ہے۔

گرتے بالوں کو روکنے کے لیے ضروری ہے کہ سر میں زیادہ سے زیادہ پندرہ منٹ تک برش کریں بالوں کا رخ کمر کی طرف کر کے برش کرنا زیادہ بہتر ہے۔

سردیوں میں اگر سر میں زیتون یا بادام روغن استعمال کیا جائے تو اس سے بالوں کے بڑھنے کی رفتار میں اضافہ ہوتا ہے۔

اگر آپ کے بال ٹوٹتے ہیں تو آپ کو چاہیے کسی اچھے سے شیمپو یا صابن سے دھوئیں۔ پھر زیتون یا بادام روغن سے مالش کریں اور پھر پانچ گھنٹے کے بعد دھوڈالیں۔

ہفتے میں ایک بار یہ آمیزہ اپنے بالوں پر لگائیں۔ تھوڑا سا دہی انڈہ اور تھوڑی سی چینی تینوں کو باہم ملالیں اور بالوں میں لگائیں پندرہ منٹ بعد شیمپو کریں۔

دھوپ اور خشک ہوا

بالوں کو دھوپ اور خشک ہوا سے جتنا ممکن ہو بچانا چاہیے۔ آج کل بہت چھوٹی عمر میں لڑکے لڑکیوں کے بال سفید ہونے لگے ہیں سفید بالوں کی وجہ سے چہرے کی دلکشی متاثر ہوتی ہے۔

جن لوگوں کے کم عمری میں بال سفید ہوتے ہیں ان کے لیے ایک اچھا نسخہ یہ ہے ایک پاوء مہندی میں ایک چمچ کافی ایک چائے کا چمچ شکر چند قطرے لیموں کے اور حسبِ ضرورت پانی ڈال کر اچھی طرح ملائیں اور پھر باریک کپڑے سے سر لپیٹ لیں اور چار پانچ گھنٹے بعد پانی سے سر دھو ڈالیں۔ یہ عمل مہینے میں صرف ایک بار کرنا چاہیے۔

بالوں میں خشکی

بالوں میں خشکی کا ہونا بھی بالوں کے گرنے کی ایک وجہ ہے۔ خشکی دور کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ سرسوں کا تیل انڈہ اور دہی میں یکجان کرلیں اور اس آمیزے کو بالوں میں لگائیں اور سر پر کوئی رومال باندھ لیں۔ ایک گھنٹے بعد سر دھو لیں۔

سیاہ اور چمکیلے بال اپنے حسن اور درازی کے باعث بے جاذب نظر آتے ہیں۔ اس قسم کے بال حسن و شباب کے لئے جان کی حیثیت رکھتے ہیں۔

بال خوبصورت بنانا

ناریل کا خالص تیل ایک پائو تل کا تیل ایک چھٹانک اور کسٹر آئل دو چھٹانک آپس میں ملا کر رکھ لیں اور سوتے وقت روزانہ اس تیل سے مساج کریں۔ اس سے بال مضبوط گھنے اور لمبے ہو جائیں گے۔

لیموں کا رس بھی بالوں کے لئے بہترین ہے۔ اگر آپ کے بالوں میں خشکی ہو توآپ لیموں کے رس کو پانی میں ملا کر سر دھوئیں چند ہی دنوں بعد بال چمکدار اور خشکی سے پاک ہو جائیں گے۔

زیتون کے تیل سےخوبصورتی اور صحت

زیتون کے تیل سےخوبصورتی اور صحت

زیتون کا تیل ہو یا زیتون دونوں مزیدار ہیں۔ کھانا اگر زیتون کے تیل میں پکایا جائے تو یہ نہ صرف رگوں کا صاف رکھتا ہے بلکہ آپ کی جلد کی خوبصورتی میں بھی اضافہ کرتا ہے۔

یونان میں لوگ زیتون کے تیل سے نہانے کے عادی تھے۔ یہ اسے بطور ایک خصوصی صابن کے استعمال کرتے تھے جس سے ان کی تمام گندگی نکل جاتی تھی۔ چودہ سو سال پہلے حضورّ نے اپنے صحابیوں کو ہدایت کی کہ زیتون کے تیل کو اپنے جسم میں لگائیں۔

مغرب میں بیوٹی پروڈکٹس میں زیتون کے تیل کا استعمال لازمی تصور کیا جاتا ہے جیسے لپ بام، شیمپو، بہانے کا تیل، ہاتھوں کا لوشن، صابن، نیل پالش، مساج آئل، خشکی سے بچاوَ کے اجزاء وغیرہ۔
کیا چیز ہے جس کی وجہ سے زیتون کا تیل جلد کے لیے اچھا تصور کیا جاتاہے؟ اس کا مالیکیول اسٹرکچر جس کی وجہ سے جلد کے مسام بند نہیں ہوتے ہیں۔ یہ واحد سبزیوں کا تیل ہے جو کہ آپ کی جلد کو سانس لینے کی آزادی دینا ہے۔

لیجَے استعمال کریں ان چند دلچسب توٹکوں کو جن کے ذریعے سے آپ اپنی جلد میں ایک چمک اور تازگی پیدا کر سکتے ہیں۔

سدا جوان جلد کے لیے

خشک جلد میں نمی پیدا کرنے کے لیے زیتون کو تیل کو براہ راست خشک متامات پر لگائیں۔ زیتون کے تیل اور ملتانی مٹی کو ملا کر ایک ماسک بنائیں۔ اسے چہرے پر پانچ منٹ کے لیے سوکھنے دیں اور جلد ہی آپ کے سامنے اس کا نتیجہ آ جائے گا۔

ناخنوں کی چمک کے لیے

اگر آپ کے ناخن کٹے پھٹے اور خشک ہیں ان میں چمک بھی نہیں تو آپ کی مدد صرف اور صرف زیتون کا تیل کر سکتا ہے۔ ہلکے نیم زیتون کے تیل میں اپنے ناخن تیس منٹ تک ڈبوئیں آپ کو یقینا ایک حیرت انگیز تبدیلی محسوس ہو گی۔

خوبصورت ہا تھوں کے لیے

رات کو سونے سے پہلے جسم پر تھوڑا سا زیتون کا تیل لگالیں اور روئی سے صاف کر لیں۔ صبح آپ دیکھیں گے کہ آپ کی جلد کتنی نرم و ملائم ہو گی۔

پیروں کے لیے

زیتون کا تیل آٹھ چمچہ اور پانچ قطرے لیونڈر کے تیل کے ملائیں۔ رات کو سونے سے پہلے اس سے پیروں کا مساج آپ کو ایک سکون کے احساس کے ساتھ آرام بھی ملے گا اور حیرت انگیز طور پر پیر نرم ہو جائیں گے۔

خوبصورت ہونٹ

زیتون کا تیل ہونٹوں پر روزانہ استعمال ہونٹوں کو نرم و ملائم اور خوبصورت بناتا ہے۔

نرم ملائم جلد کے لیے

جب آپ کو چہرے کو نرم اور موئسچرائز کرنے کی ضرورت محسوس ہو زیتون کے تیل سے جلد کا مساج کریں خاص طور پر خشک اور روکھے حصوں پر زیادہ تیل کا مساج کریں۔

نہانے کے لیے

چند چمچے زیتون کا تیل اور چند بوندیں اپنے پسندیدہ تیل کی پانی میں ڈال کر نہائیں اس طرح آپ کی جلد نرم اور خوبصورت ہو جائے گی۔

جھریوں کا خاتمہ

لیموں کے رس میں زیتون کا تیل ملا کر مساج کریں اور ہمیشہ کے لیے جھریوں سے چٹکارا حاصل کر لیں۔

بالوں اور سر کی جلد کے مسائل

چند چمچے زیتون کے تیل کا سر اوربالوں اور مساج کریں اور تیس منٹ کے لیے چھوڑ دیں اس کے بعد معمول کے مطابق شیمپو کر لیں۔ یہ آپ کے دومنہ کے پالوں ، خشکی سے بچاوَ فراہم کرے گا اور آپ کے بالوں کو چمکدار، سلکی اور موٹا کرے گا۔ اگر آپ کے بال پتلے ہیں تو بالوں کو چمکدار اور خوبصورت بنانے کے ساتھ موٹا بھی کرتا ہے۔

اسمارٹ بونس ٹپ

بہترین قسم کا زیتون کا تیل استعمال کریں اور کیمیائی تیل سے پرہیز کریں۔

مصالحہ جات کھانوں اور صحت دونوں کے لیے مفید

مصالحہ جات کھانوں اور صحت دونوں کے لیے مفیدhome-remedies

 

 

 

 

جدید دور کے ماہرین غذا کا خیال ہے کہ مصالحوں سے کھانے میں صرف مزہ ہی پیدا نہیں ہوتا بلکہ اکثر مصالحے صحت کے لئے مفید بھی ہیں۔ معدے کی تکالیف، دانت کا درد کے علاوہ مصالحوں سے ذہن پر مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ نیز مصالحوں والے کھانے سے دماغ ایسا کیمیائی مادہ پیدا کرتا ہے جو درد کی دوا بن جاتا ہے۔ آیئے اب کچھ ایسے مصالحوں کا جائزہ لیتے ہیں جو بعض ماہرین کے نزدیک مفید ترین ہیں۔ یاد رہے کہ ہم جو بھی مصالحے استعمال کرتے ہیں یہ پرانے ادوار کی مختلف اور مستند تحقیقوں کے بعد غذا میں شامل کیے گئے ہیں۔ پورے جسم کے صحت کو مد نظر رکھتے ہوے مختلف مصالحے غذا کا حصہ بنے جو کہ غذا کو مزیدار، جوشبودار، اور صحت مند بنا دیتے ہیں۔ ان مصالحوں میں سستی اور زیادہ مشہور، اور زیادہ صحت مند چیزوں کا ذکر نیچے کیا جا رہا ہے۔
ہلدی
اس میں جگر کے لیے مفید اجزاء ہوتے ہیں، ماہرین ہلدی کے ست کو یرقان، ورم جگر اور جگر سکڑنے کی بیماری میں استعمال کراتے ہیں۔ یہ نظام ہضم کیلئے سکون بخش ہے اور اس کے استعمال سے پِتے سے صفرایاپت خارج ہو جاتا ہے جو چکنائی ہضم کرنے میں مدد دیتا ہے۔ اگر دالوں اور لوبئے میں ہلدی شامل کر دی جائے تو یہ ریح اور اپھارے کو کم کرتی ہے۔ یہ بھی پتا چلا ہے کہ ہلدی کا رنگ گلٹی بننے میں مانع ہوتا ہے اور میامی یونیورسٹی کی ایک تحقیق کے مطابق یہ چھاتی کے سرطان کے خلیوں کو ختم کرنے میں مدد دیتی ہے۔

الائچی
ایک ماہر کا کہنا کہ الائچی ہاضمے کیلئے اکسیر ہے اور اس سے سانس کی بعض تکالیف کا بھی علاج ہوتا ہے۔ الائچی چبانے سے بعض ایسے اجزاء جسم کو ملتے ہیں جو سوء ہضم نفح اور قولنج کیلئے مفید ہیں۔

دار چینی
تازہ ترین تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ اگر کھانوں میں دار چینی شامل کی جائے تو ای کولائی جراثیم کی روک تھام ہو سکتی ہے۔ ماہرین عقاقیر کافی عرصے سے دار چینی کے فوائد کے قائل رہے ہیں اور اسے جراثیم کش اور فطر کش مانتے ہیں دار چینی قے اور بدہضمی کا بھی علاج ہے نیز نزلہ زکام کی علامات کو بھی کم کرتی ہے۔ شہد اور لیموں کے شربت میں ذرا سی دار چینی شامل کردیں تو گلے کی خراش کو آرام آتا ہے۔

رائی
رائی اگر روغنی مچھلی یا چکنے گوشت کے ساتھ کھائی جائے تو یہ ہاضمے میں مدد دیتی ہے یہ پیشاب آور بھی ہے ایک پائنٹ پانی میں ایک اونس تازہ ٹہنیاں اور دیڑھ اونس رائی ملا کر دن میں دو تین بار دو تین بڑے چمچے کھا لئے جائیں ‌تو فاضل رطوبت خارج ہو جاتی ہے۔ اس کے جڑ کو کترنے کے بعد لگایا جائے تو انگوٹھوں اور انگلیوں کے ورم کو آرام آتا ہے۔

لونگ
سب جانتے ہیں کہ لونگ دانت کے درد کا بڑا اچھا علاج ہے۔ لونگ کا تیل لگانے یا دانت کے نیچے لونگ رکھنے سے آرام آ جاتا ہے۔ لونگ میں جراثیم کش خاصیت بھی ہوتی ہے اور لونگ کا تیل کیڑوں کو بھگاتا ہے