عن ابی ذران النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم خرج فی زمن الشتاء والورق یتھافت فاخذ بغصنین من شجرۃ ذلک الورق۔ یتھافت قال یا اباذر قلت لبیک یارسول اللہ قال العبد المسلم لیصلی الصلاۃ یریدبھا وجھ اللہ فتھافت ذنوبہ کما یتھافت ھذا الورق عن ھذہ الشجرۃ
“ ابوذر رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم پت جھڑکے موسم میں نکلے۔ آپ نے دو ٹہنیوں کو پکڑ کر ہلایا تو پتے جھڑنے لگے۔ آپ نے فرمایا! اے ابوذر میں نے کہا حاضر یارسول اللہ، فرمایا۔ جب مسلمان بندہ خالصتاً للہ نماز پڑھتا ہے تو اس کے گناہ اس طرح جھڑتے ہیں جیسے یہ پتے اس درخت سے جھڑ رہے ہیں۔“
گناہ بیماری ہے جو روح کو لگتی ہے۔ روح پہلے بیمار ہوتی ہے۔ پھر جسم بیمار ہوتا ہے۔ یعنی نماز اس قدر بیماریوں کا علاج ہے کہ شمار میں نہیں لائیں جا سکتی۔ حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے مختصر سے جملے میں فرما دیا کہ ایسے گناہ جھڑتے ہیں جیسے پت جھڑ میں پتے۔ ابو ہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا قم فصل فان فی الصلوۃ شفاء۔ کھڑے ہو جاؤ نماز پڑھو بلاشبہ نماز میں شفاء ہے۔
فجر کی نماز کیلئے اٹھنا وضو کرنا اور مسجد کی طرف جانا۔ سیر کی سیر اور عبادت کی عبادت جس نے آدھ گھنٹہ Exercises کی ہے وہ اور جس نے مسجد میں آکر فجر کی نماز ادا کی ہے دونوں کو ایک سی چستی کا احساس ہوتا ہے لیکن آپ تجربہ کر لیں یقیناً نماز فجر ادا کرنے والا روحانی اور جسمانی دونوں لحاظ سے باغ میں جانے والے سے بہتر رہتا ہے۔
شادی سے قبل تو اکثریت کو ورزش کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ لیکن شادی ہوتے ہی یہ رجحان کم ہونے لگ جاتا ہے۔ بہت کم لوگ اسے مسلسل کرتے ہیں وہ دوڑنا باغ میں جانا عجیب سا محسوس کرتے ہیں۔ اگر نماز نہ ہوتی تو اندازہ لگائیے مسلمانوں کی جسمانی حالت کیا ہوتی ؟
اور پھر حضرت محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کا فرمان عالی شان ملاحظہ ہو کہ جتنے قدم چل کر آؤ گے ہر قدم پر نیکی اسی قدم پر درجہ بلند ہوگا اور اسی قدم پر گناہ معاف ہوگا۔ اس کا مقصد دور دراز سے مسجد کی طرف آنے کا شوق تاکہ یہ جتنا پیدل چلیں گے اتنا روحانی فائدہ ہوگا اور پیدل چلنے کے جسمانی فوائد تو بتانے کی چنداں ضرورت ہی نہیں ہے۔نفسیاتی علاج
آج کل خیالات نے انسانی دماغ کو کھوکھلا کر دیا ہے۔ یہ خیالات آگ کے شعلے ہیں جو سکون کو نگل رہے ہیں۔ کوئی خیال دماغ میں بیٹھا اور قبضہ جمالیا اب جونک کی طرح خون پئے گا۔ جسم تباہ کرے گا۔ رنگ اڑا دے گا۔ نتیجۃً وہ شخص اس ایک سوچ کے ہاتھوں تنگ آکر خودکشی کرنے کی ٹھانے گا۔ نماز بہترین علاج ہے وہ اس طرح کہ نماز کے اندر حکم ہے کہ قیام کی حالت میں نظر سجدہ گاہ پر ہو ادھر ادھر دیکھنے سے خیالات کا تسلسل رہتا ہے نماز کا مقصد تو پریشانی ختم کرنا ہے۔ چنانچہ حکم آیا نماز میں توجہ اللہ کی طرف ہو اور دھیان سجدہ گاہ کی طرف ہوتا کہ پریشانی سے توجہ ہٹے اور اللہ کا ایک عظیم تصور سامنے آئے جس کی وجہ سے تمام پریشانیاں ہیچ معلوم ہوں۔ نماز نفسیاتی مریضوں کا بہترین علاج ہے۔
ٹیلی پیتھی
ٹیلی پیتھی کے اندر شمع بینی کو اک مقام حاصل ہے اس میں آپ پرسکون جگہ پر شمع جلا کر بیٹھ جائیں اور مسلسل اس کی لو کو تاڑتے جائیں بلا آنکھ جھپکے اس کا مقصد دماغی لہروں کو ایک مرکز پر جمع کرنا ہوتا ہے۔ اور دماغ کو فضول اور بیہودہ خیالات سے پاک رکھنا۔ اس طریقہ سے آدمی میں اتنی طاقت پیدا ہو جاتی ہے کہ وہ ایک خیال کو بہت دور بیٹھے شخص تک پہنچا سکتا ہے۔ لیکن شمع بینی کا ایک نقصان ہے یہ طریقہ آنکھوں کی بینائی پر اثر انداز ہو سکتا ہے۔ کیونکہ مشق کے دوران آنکھ نہیں جھپکنی ہوتی۔
ٹیلی پیتھی میں عبور حاصل کرنے کیلئے بہترین مشق نماز ہے۔ اس کے اندر کھڑے ہو تو نگاہ سجدہ گاہ پہ ٹھہرے۔ رکوع میں ہو تو پاؤں کے انگوٹھوں پر ہو۔ سجدہ کر رہے ہوں تو ناک کی طرف ہے ہر رکن کی ادائیگی کے وقت مرکز بھی مل رہا ہے اور دوسرا آرڈر یہ ہے کہ خیالات سے دماغ پاک ہو صرف اللہ ہی سامنے ہو۔ یہ تصور رکھو کہ اللہ کو تم دیکھ رہے ہو یا اللہ تمہیں دیکھ رہا ہے۔
اس کی بہترین مثال۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کا خطبہ کے دوران مدینہ سے پندرہ سو میل دور نہاوند کے مقام پر سرایہ کو پہاڑ کی طرف متوجہ کرنا ہے۔ آپ نے دوران خطبہ ہی دیکھ لیا کہ ساریہ پر حملہ ہونے لگا ہے آپ نے پندرہ سو میل دور اپنا خیال بھیجا کہ پہاڑ کی طرف دیکھو۔ یہ سب نماز کے کرشمے ہیں۔
تمام اعضاء کی ورزش
نماز ایسا طریقہ عبادت ہے کہ تمام اعضاء کی ورزش ہو جاتی ہے۔ ورزش بیماریوں کو روکتی ہے اس سے انکار نہیں لیکن ورزش چوبیس گھنٹے میں آپ صرف ایک مخصوص وقت میں کرتے ہیں۔ ہو سکتا ہے آپ کے وقت مقررہ آنے تک آپ کو کوئی بیماری لگ جائے لیکن نماز کو چوبیس گھنٹے میں یوں تقسیم کیا ہے کہ آپ کو کسی وقت کوئی جراثیمی حملہ ہو کوئی نہ کوئی نماز ہوگی فوراً سدباب ہو جائے گا۔
آپ نے اللہ اکبر کہا بازو کی ورزش ہوگی۔ آپ نے پڑھنا شروع کیا منہ کے جبڑوں کی ورزش ہوگی۔ رکوع میں گئے کمر کی ورزش ہو گئی۔ تمام خیالات سے دماغ کو نکالا دماغ کو آرام ملا۔ سجدہ کرنے کیلئے جھکے تو ٹانگوں کی ورزش ہو گئی۔ رکوع سے سجدہ کی طرف جانا اور سجدہ سے قیام کی طرف اٹھنا مہذب اور خوبصورت طریقہ ہے “بیٹھکیں“ نکالنے کا۔ اور جب ایک سجدے سے دوسرے سجدے کی طرف آپ جاتے ہیں اور سجدہ سے جب اٹھتے ہیں تو رانوں کی ورزش ہو جاتی ہے۔ سجدہ کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ پہلے ہاتھ رکھیں پھر ناک پھر ماتھا۔ اٹھتے وقت پہلے ماتھا پھر ناک اس طریقہ سے بازوؤں کی ورزش ہو جاتی ہے۔ سر، گردن کی ورزش رہ گئی تھی۔ اہلسنت و جماعت کا سلام پھیرنے کا طریقہ ہی ایسا ہے آپ سلام پھیریں اور نظر کندھے پر رکھیں گردن اور آنکھوں کی زبردست ورزش ہو جاتی ہے۔
Heart Attack
ڈاکٹر دل کی بیماریوں کا باعث “کولیسٹرول“ قرار دیتے ہیں۔ کولیسٹرول ایک قسم کی چربی ہے۔ جو دل کی شریانوں کے اندر جمع ہو کر خون کی گردش کو کم کر دیتی ہے۔ یا روک دیتی ہے اور اسی وجہ سے ہارٹ اٹیک ہوتا ہے۔ Doctors کہتے ہیں کہ کھانے کے بعد کولیسٹرول لیول بڑھ جاتا ہے۔ اس کو جمنے سے روکنے کی ایک ہی صورت ہے کہ اس کو رگوں میں جمنے سے پہلے خون میں تحلیل کر دیا جائے۔ اللہ تعالٰی نے کھانے کے اوقات کے حساب سے نماز کی رکعتوں کا تعین کیا ہے۔ فجر، عصر اور مغرب کی نماز کی ادائیگی سے پہلے کافی حد تک پیٹ خالی ہوتا ہے۔ اور خون میں کولیسٹرول لیول کم ہوتا ہے۔ اس لئے رکعات کی تعداد کم ہے۔ ظہر اور عشاء کی رکعات زیادہ رکھی گئیں۔ چونکہ کھانے کے بعد خون میں کولیسٹرول بڑھ جاتا ہے اس لئے ان دو نمازوں میں زیادہ رکعات رکھیں تاکہ زیادہ ورزش ہو اور کولیسٹرول تحلیل ہو جائے۔
اور رمضان المبارک میں بیس تراویح کا اضافہ ہوا اور وہ بھی عشاء کے بعد۔ کیونکہ روزہ افطار کرتے ہوئے آدمی زیادہ کھا جاتا ہے آپ جانتے ہیں کہ ہم لوگ کتنی بے احتیاطی برت جاتے ہیں اپنے معدہ سے اگر تراویح نہ ہوتی ہم کھانا زیادہ کھاتے صرف عشاء پڑھ کر سو جاتے اور بھی بہت سے نقصان ہونا تھے۔ نیند کا پرسکون نہ ہونا۔ جسم کی تھکاوٹ۔ اور دوسرے دن مکمل سحری نہ ہونے کی وجہ سے بھوک پیاس کا احساس۔
آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ نماز ایک بھرپور ورزش اور بہترین ورزش ہے۔ اس سے بہتر ورزش دنیا کے اندر نہیں کیونکہ یہ روحانی فوائد بھی دیتی ہے اور جسمانی فوائد بھی۔
اب آپ سرکار مدینہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کا یہ جملہ پھر پڑھئیے
“نماز گناہ (یعنی بیماریوں روحانی ہوں یا جسمانی) کو یوں جھاڑتی ہے جیسے خزاں میں پتے جھڑتے ہیں۔ اور دوسرا فرمان
ان فی الصلوۃ شفاء (نماز شفاء ہے۔)
(ابن ماجہ صفحہ 255 لائن 22