Al-Shifa Naturla Herbal Laboratories (Pvt), Ltd.    HelpLine: +92-30-40-50-60-70

پرہیز علاج سے بہتر ہے

پرہیز علاج سے بہتر ہے

صحت مند افراد عموماً خوش و خرم رہتے ہيں۔ وہ اپنا روز مرہ کا کام بخوبي انجام ديتے ہيں۔ وہ لوگوں اور چيزوں ميں دلچسپي ليتے ہيں۔ وہ ديکھنے ميں اچھے لگتے ہيں۔ ان کے پاس توانائي کا ذخيرہ ہوتا ہے اور جلد نہيں تھکتے۔ ان کے ذہن ميں نئے خيالات آتے ہيں جن کي بدولت وہ زندگي ميں کامياب اور کامران رہتے ہيں۔ صحت کي طرف سے لاپرواہي جسم کے لئے بہت سے مسائل کھڑے کر ديتی ہيں۔ اس کي وجہ سے درد، تکليف، بے چيني، بے آرامي عارضي بھي ہوسکتي ہے، اور مستقل بھي، اکثر لوگ ان مسائل سے بہت زيادہ گھبرا جاتے ہيں، جب کہ بيشتر افراد ہمت سے کام ليتے ہيں اور تکليفوں کو زندہ دلي سے برداشت کرتے ہيں۔ يہ بات طے ہے کہ تندرست انسان ميں مشکلات سے مقابلہ کي قوت زيادہ ہوتي ہے۔
جہاں تک ممکن ہو بیماریوں سے بچنا چاہیئے۔ فی زمانہ امراض اور ان کی تباہ کاریوں سے بچاو میں حیرت انگیز ترقی ہوئی ہے۔ ہم بیشتر بیماریوں کے بارے میں یہ جاننے لگے ہیں کہ وہ کیسے پیدا ہوتی ہیں، کس طرح جسم کو نقصان پینچاتی ہیں اور ان سے کیسے بچا جاسکتا ہے۔ اگر کبھی کوئی بیماری ہو بھی جائے تو کن ذرائع سے ان کو تباہ کن صورت اختیارکرنے سے روکا جاسکتا ہے۔

بیماری کا علاج، بیماری سے بچاو کی کبھی برابری نہیں کرسکتا ہے۔ علاج اس وقت بہتر طور پر کیا جاسکتا ہے جب بیماری موجود ہو۔ اس کے باوجود علاج ہر وقت کامیاب بھی نہیں ہوتا۔ اس کے علاوہ اخراجات کے بارے میں دیکھا جائے تو بیماری کے بچاو پر اگر دس روپے یا سو روپے خرچ آتے ہیں تو علاج پر سوگنا، ہزار گنا یا اس سے بھی زیادہ اخراجات آسکتے ہیں اور علاج کامیاب نہ ہو تو جان بھی جاسکتی ہے۔ البتہ بیماریوں سے بچاو ہی ایک ایسا ذریعہ ہے جو انسان کو تندرست رکھ سکتا ہے اور اسے معذور یا کمزور ہونے سے بچاسکتا ہے۔ بیماریوں سے بچاو ہی کی بدولت آج دنیا میں بے شمار افراد لمبی عمر تک صحت مند زندگی گزارنے کے قابل ہوئے ہیں۔ آج سے پچاس ساٹھ سال قبل بچوں کی اکثریت بیشتر موذی امراض مثلاً خناق، خسرہ، پولیو، تپ دق، اور دستوں وغیرہ میں مبتلا ہو کر ہلاک ہوجاتی تھی لیکن آج بہت سی خطرناک بیمارہیوں سے بچاو ممکن ہوگیا ہے۔ ان خطرناک بیماریوں پر کامیابی انفیکشن کنٹرول کے بہتر طریقوں، غذاوں کے بارے میں کلی معلومات، ٹیکوں کے طریقوں میں ترقی، بڑی تعداد میں ایکس رے کی مہم اور باقاعدہ طبی معائنہ جس سے امراض کی ابتدا میں تشخیص ہوجاتی ہے، کی وجہ سے حاصل ہوئی ہے۔

“جہانِ صحت” ان دشمنوں، بیماریوں اور مصیبتوں سے بچنے اور ان سے محفوظ رہنے کے لیے معلومات کی آگاہی اور شعور بیدار کرنے میں ایک ادنٰی سی کوشش ہے۔ کتابوں، سیمینارز اور ویڈیو فلمز کے ذریعے انفیکشن کنٹرول سوسائٹی یہ خدمات برسوں سے سر انجام دے رہی ہے۔ انفیکشن کنٹرول سوسائٹی کا انقلابی نظریہ اور بہت سے فلاحی اداروں سے خاصا مختلف ہے۔ اس سوسائٹی کے اراکین صحت و صفائی کے بارے میں آگاہی کو بنیادی اہمیت دیتے ہیں۔ ان کے خیال میں جو سرمایہ کسی پسماندہ علاقے میں بہت بڑے اسپتال قائم کرنے پر صرف کیا جائے، اس کے بجائے اسی سرمائے کو اس علاقے میں جراثیم، کیمیائی مادوں اور ضرر رساں معدنیات سے پاک صاف پانی کی فراہمی یقینی بنانے کے لیے استعمال کیا جائے تو وہاں شاید اس بڑے اسپتال کی ضرورت ہی نہ پڑے۔ اسی طرح بڑے بڑے اسپتالوں کی تعمیر سے زیادہ ضرورت اس بات کی ہے کہ عوام کو آلودگی سے پاک، ہوا، پانی اور غذا فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ ان میں صحت و صفائی کا گہرا شعور بیدار کیا جائے۔

اگر ہم صحت اور صفائی کا خیال رکھیں، حکومتی ادارے صاف ہوا، غذا اور پانی فراہم کرنے پر توجہ دیں، بیمار پڑنے سے پہلے ہی بیماری سے بچنے کی کوشش کی جائے تو بیماری سے صحت یابی کے لٰے خرچ ہونے والے لاکھوں، کروڑوں، اربوں روپے کی خطیر رقم کو ہم اپنے بچوں کی اچھی تعلیم، زیادہ بہتر معیار زندگی، زیادہ اچھی رہائش، زیادہ اچھے لباس اور اپنی زندگی کو بہتر بنانے میں صرف کرسکتے ہیں۔

اب یہ بات ہمیں اور آپ کو طے کرنا ہے کہ ہم اسپتالوں اور میڈیکل اسٹوروں کی رونق بڑھانا چاہتے ہیں یا اس کے بر عکس طرزِ زندگی اختیار کرکے، صحت و صفائی اور احتیاط کو اپنا کر اپنے گھروں کی رونق میں اضافہ کرنا چاہتے ہیں۔

دوا خود بنا لیں یاں ہم سے بنی ہوئی منگوا سکتے ہیں
میں نیت اور ایمانداری کے ساتھ اللہ کو حاضر ناضر جان کر مخلوق خدا کی خدمت کرنے کا عزم رکھتا ہوں آپ کو بلکل ٹھیک نسخے بتاتا ہوں ان میں کچھ کمی نہیں رکھتا یہ تمام نسخے میرے اپنے آزمودہ ہوتے ہیں آپ کی دُعاؤں کا طلب گار حکیم محمد عرفان
ہر قسم کی تمام جڑی بوٹیاں صاف ستھری تنکے، مٹی، کنکر، کے بغیر پاکستان اور پوری دنیا میں ھوم ڈلیوری کیلئے دستیاب ہیں تفصیلات کیلئے کلک کریں
فری مشورہ کیلئے رابطہ کر سکتے ہیں

Helpline & Whatsapp Number +92-30-40-50-60-70

Desi herbal, Desi nuskha,Desi totkay,jari botion se ilaj,Al shifa,herbal

 

Read More

ٹھنڈے اور کھٹے مشروبات سے پرہیز اور پھلوں کا استعمال مفید ہے

نزلہ، زکام اور فلو (وائرس) کے مریضوں کی بڑھتی ہوئی تعداد پر تشویش کا اظہارکیا۔ اس وقت شہر میں ایک اندازے کے مطابق ان امراض میں تقریباً 25 سے 30 فیصد اضافہ ہوگیا ہے۔ اس کی وجوہات بیکٹریا، ٹھنڈی اور کھٹی چیزوں کا استعمال، دیر سے سونا، موسم کا اچانک سرد ہوجانا اور شہر میں ہر طرح کی فضائی آلودگی کا بڑھنا ہیں۔ ہر عمر کے افراد نزلہ، زکام، گلے میں خراش، ناک کا بند ہونا، کھانسی، سرمیں درد، جسم میں درد، بخار وغیرہ کی علامات میں
مبتلا ہیں۔  فضائی آلودگی ایک اہم مسئلہ ہے۔ فیکٹریوں، گاڑیوں، سگریٹ اور باورچی خانوں کا دھواں اورمحلوں اور گلیوں میں کچرے کو جلا کر فضا کو آلودہ کیا جا رہا ہے جو کہ انسان کی ناک، کان، گلے، آنکھوں، جلد، پھیپھڑوں اورسانس کی نالیوں کیلئے بہت ہی خطرناک ہے۔ فلو (وائرس) ایک چھوت کی بیماری ہے جو ایک شخص سے دوسرے شخص کو لگ سکتی ہے۔ انہوں نے عوام کو مشورہ دیا کہ پانی کا استعمال زیادہ کیا جائے، رات کی نیند پوری کی جائے، بے وجہ تھکنے، ٹھنڈے اور کھٹے مشروبات سے پرہیز کیا جائے۔ خاص کر بچوں کو گولے گنڈے نہ کھلائے جائیں، تازہ سبزیوں اور پھلوں کا استعمال زیادہ کیا جائے، سگریٹ نوشی سے پرہیز، اگر کسی کو فلو (وائرس) ہوجائے تو اسے دوسروں سے گلے یا ہاتھ نہیں ملانا چاہئے

دوا خود بنا لیں یاں ہم سے بنی ہوئی منگوا سکتے ہیں
میں نیت اور ایمانداری کے ساتھ اللہ کو حاضر ناضر جان کر مخلوق خدا کی خدمت کرنے کا عزم رکھتا ہوں آپ کو بلکل ٹھیک نسخے بتاتا ہوں ان میں کچھ کمی نہیں رکھتا یہ تمام نسخے میرے اپنے آزمودہ ہوتے ہیں آپ کی دُعاؤں کا طلب گار حکیم محمد عرفان
ہر قسم کی تمام جڑی بوٹیاں صاف ستھری تنکے، مٹی، کنکر، کے بغیر پاکستان اور پوری دنیا میں ھوم ڈلیوری کیلئے دستیاب ہیں تفصیلات کیلئے کلک کریں
فری مشورہ کیلئے رابطہ کر سکتے ہیں

Helpline & Whatsapp Number +92-30-40-50-60-70

Desi herbal, Desi nuskha,Desi totkay,jari botion se ilaj,Al shifa,herbal

 

سگریٹ نوشی سے گنجے پن کا خطرہ

سائنس دانوں نے سگریٹ نوشی کی ایک اور خرابی دریافت کی اور وہ یہ کہ سگریٹ پینے سے کچھ لوگوں کے گنجا ہو جانے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔
تحقیق کاروں کا کہنا ہے کہ وہ ایشیائی مرد جو سگریٹ نوشی نہ کرتے ہوں ، مغربی مردوں کی نسبت ان کے گنجا ہو جانے کا امکان کم ہوتا ہے لیکن یہی اگر ایشیائی مرد سگریٹ نوش ہوں تو زیادہ امکان ہے کہ وہ گنجے ہو جائیں گے۔یہ تحقیق آرکائیوز ڈرمیٹالوجی میں شائع ہوئی ہے اور اس میں اوسطاً پینسٹھ برس کی عمر کے سات سو چالیس تائیوانی مردوں نے حصہ لیا ہے۔تحقیق کاروں نے سب سے پہلے یہ معلوم کیا کہ مرد کس عمر میں گنجے ہونا شروع ہوتے ہیں۔ انہوں نے ان خدشات کو بھی مدِ نظر رکھا جو مردوں کے سر کے بال کم کرنے کا سبب بن سکتے ہیں۔تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ اگر کوئی مرد روزانہ بیس سگریٹ پیئے تو اس کے گنجا ہونے کا امکان بڑھ جاتا ہے۔

سائنس دانوں کا خیال ہے کہ سگریٹ نوشی سے بال پیدا کرنے والے خلیوں کو نقصان پہنتا ہے۔

پہلے ہی سگریٹ نوشی کو کئی بیماریوں کا سبب کہا جاتا ہے جن میں کینسر اور دل کے امراض شامل ہیں۔

سائنس دانوں کے مطابق سگریٹ پینے سے خون میں لوتھڑا بننے کا امکان بڑھ جاتا ہے جس سے ہارٹ اٹیک یا فالج ہونے سے زندگی ختم ہونے کا خطرہ پیدا ہو سکتا ہے۔

 

Read More

مرغی کے انڈوں سے کینسر کا علاج

برطانیہ میں سائنسدانوں نے ایسی مرغیاں تیار کر لی ہیں جو کینسر کی ادویات میں استعمال ہونے والی پروٹین کے حامل انڈے دینے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔
اس سائنسی کامیابی کا دعویٰ اسی ریسرچ سنٹر نے کیا ہے جو اس سے پہلے کلون شدہ بھیڑ ڈولی کے ذریعے دنیا بھر میں شہرت پا چکا ہے۔
ایڈنبرا کے نزدیک واقع روسلن انسٹیوٹ کا کہنا ہے کہ ادارے میں ہونے والی ریسرچ کے نتیجے میں ایسی مرغیوں کی پانچ نسلیں تیار ہو چکی ہیں جو انڈے کی سفیدی میں ادویات میں استعمال ہونے والی کارآمد پروٹین تیار کر سکتی ہیں۔

امید ہے کہ روسلن انسٹی ٹیوٹ میں ہونے والی تحقیق کے نتیجے میں کینسر کے علاج کے لیے ادویات کم لاگت اور آسانی سے بنائی جا سکیں گی۔

انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر ہیری گرِفن نے بی بی سی کو بتایا کہ آج کل تیار ہونے والی زیادہ تر اویات کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ وہ بہت مہنگی ہیں۔

’جینیاتی طریقے استعمال میں لاکر مرغیوں کے ذریعے کارآمد پروٹین حاصل کرنے کے پیچھے کارفرما سوچ یہ تھی کہ کوئی ایسا طریقہ نکالا جائے جس کے ذریعے مطلوبہ پروٹین بڑی مقدار میں حاصل کی جا سکے۔ ایسی مرغیوں سے یہ پروٹین بہت ہی کم لاگت سے حاصل کی جا سکتی ہے کیونکہ یہاں صحیح معنوں میں بنیادی خرچہ ان مرغیوں کی خوراک ہی ہے۔‘

روسلن انسٹی ٹیوٹ میں جینیاتی طریقوں سے ترقی دادہ پانچ سو مرغیاں تیار کی گئی ہیں۔ ان مرغیوں کی تیاری پندرہ سالوں پر محیط اس سائنسی منصوبے کا نتیجہ ہے جسے ڈاکٹر ہیلن سانگ کی سربراہی میں تکمیل کو پہنچایا گیا۔

روسلن انسٹی ٹیوٹ کے مطابق اس پروٹین کے مریضوں پر تجرباتی استعمال کا آغاز پانچ سال تک ہو سکتا ہے جبکہ ادویات کی صورت میں اس کے ثمر کے لیے مزید دس سال درکار ہوں گے۔

شوگر کے مریضوں میں استعمال ہونے والے انسولین کی طرح کی تھیراپوٹک پروٹین ایک لمبے عرصے سے بیکٹیریا میں تیار کی جا رہی ہے۔ لیکن دوسری طرف پیچیدہ نوعیت کی چند دیگر پروٹین بڑے جانوروں کے نسبتاً حساس سیلوں میں تیار کی جاتی ہے۔ اس مقصد کے لیے جینیاتی طریقوں سے ترقی دادہ بھیڑوں، بکریوں، گائیوں اور خرگوشوں کو استعمال میں لایا جاتا ہے۔

روسلن انسٹی ٹیوٹ میں ہونے والے کام سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ اب مرغیوں کو بھی بائیو فیکٹری کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔

روسلن انسٹی ٹیوٹ میں تیار کردہ کئی مرغیوں کی جینیاتی ساخت ایسی رکھی گئی ہے کہ ان کے ذریعے جلد کے کینسر کے علاج میں استعمال ہونے والی ایٹی باڈی ایم آئی آر 24 حاصل کی جا سکتی ہے۔

ڈاکٹر سانگ کے مطابق ٹیم کو مرغیوں کی پیداواری صلاحیت سے بہت حوصلہ ملا ہے۔ لیکن اس سلسلے میں مزید بہتری کی ضرورت ہے۔

رات کی گہری نیند سے یاد داشت بہتر

جینیوا یونیورسٹی میں کی گئی تحقیق کے مطابق رات بھر کی گہری نیند کا دماغ پر گہرا اثر پڑتا ہے اور آپ زیادہ باتیں بہتر طور پر یاد رکھ سکتے ہیں۔ سائنسدانوں کا اس تحقیق کے بارے میں کہنا ہے کہ اگر آپ رات کی نیند کو اچھی طرح سے پورا کرتے ہیں تو اس سے یاداشت بہتر ہوتی ہے انسان زیادہ باتیں زیادہ عرصے تک یاد رکھتا ہے۔ سائنسدانوں کا خیال ہے کہ گہری نیند سے دماغ کے ان خلیات کے کنکشن مضبوط ہوتے ہیں جن کی وجہ سے ہمیں نئی چیزیں سیکھنے اور باتیں یاد رکھنے کی صلاحیت
میسر ہوتی ہے۔ اس تحقیق کے نتائج دماغ کے ماہرین کی ایک کانفرنس میں پیش کر کئے گئے ہیں۔ تحقیق کی ریسرچ کے لیے 32 لوگوں کو کچھ تصویریں اور کچھ کو نئے ہنر سکھا کر دو گروہ میں تقسیم کر دیا گیا پہلے گروہ کو 8 گھنٹے سونے کا ٹائم دیا گیا جبکہ دوسرے گروہ کے لوگوں کی نیند میں خلل پیدا کیا گیا۔نتیجے کے طور پر سائنس دانوں نے دونوں گروہ سے وہ باتیں دہرانے کو کہا جو انہیں ایک روز قبل بتائی گئی تھیں اور اس دوران ان کا دماغ کس طرح کام کر رہا ہے اس کا کمپیوٹر کی مدد سے جائزہ لیا گیا۔ سائنس دانوں نے دیکھا کہ جن لگوں نے تمام رات آرام کیا انہوں نے بہتر یاداشت کا مظاہرہ کیا۔ اس نتیجے پر پہنچنے کے بعد سائنسدانون کا کہنا ہے کہ ابھی یہ پتہ لگانے کے لیے مزید ریسرچ کرنے کی ضرورت ہے کہ کتنی دیر سونے سے سب سے زیادہ استعفادہ ہوگا۔

حقہ پینے سے مسوڑوں کی بیماریاں لاحق

حقہ پینے سے مسوڑوں کی بیماریاں لاحق
سویڈن میںماہرین نے مسوڑوں کی بیماریاں لاحق ہونے کی وجوہات معلوم کرنے کے لیے سٹاک ہوم کیرولیستکا میڈیکل انسٹی ٹیوٹ کے ماہرین کی ایک ٹیم نے سعودی عرب میں حقہ اور سگریٹ نوشی کرنے والوں کے دانتوں اور مسوڑھوں کا جائزہ لیا جس میں انہوں نے 262 نوجوان افراد کا انتخاب کیا جن میں سے 31 فیصد صرف حقہ پینے والے تھے جبکہ 19 فیصد سگریٹ پینے والے اور 20 فیصد
سگریٹ اور حقہ تمباکو نوشی کے دونوں طریقے استعمال کرنے والے تھے۔ تحقیق میں 30 ایسے افراد کو بھی شامل کیا گیا جو تمباکو نوش نہیں تھے۔ تحقیق کاروں نے ان افراد کو سوال نامے دینے او رکچھ عرصے بعد ان افراد کے مسوڑھوں اور دانتوں کے چیک اپ کی رپورٹوں کا جائزہ لیا جس کے مطابق وہ تمام افراد جو ا س تحقیق میں شامل تھے ان میں مسوڑھوں کی بیماری کی نشاندہی کی گئی ہے۔ تحقیق مکمل ہو جانے کے بعد ماہرین کا کہنا ہے کہ حقہ پینے سے دانتوں اور مسوڑھوں کو نقصان پہنچتا ہے جبکہ مسوڑھوں میں سوجن بھی ہو سکتی ہے۔ تاہم ماہرین کے مطابق تحقیق میں شامل افراد میں حقہ یا سگریٹ نہ پینے والے افراد میں 8 فیصد میں مسوڑھوں کی سوزش اور سرخ مسوڑھوں کی نشاندہی کی گئی ہے ،حقہ پینے والے افراد میں 30 فیصد جبکہ سگریٹ نوشی کرنے والوں میں سے24 فیصد افراد مین مسوڑھوں اور دانتوں کے امراض کی نشاندہی کی گئی ہے۔ سویڈن کے طبی ماہرین کے مطابق حقہ پینے والوں کو تمباکو نوشی نہ کرنے والوں کی نسبت مسوڑھوں کی سوزش لاحقہ ہونے کے امکانات 5 فیصد زیادہ ہوتے ہیں اور ماہرین کے مطابق اس کی وجہ حقہ نوشی کے دوران دانتوں کی ہڈیوں کو پہنچنے والا نقصان ہو سکتی ہے۔

طب اسلامی -اپنے عہد سے ہزار سال آگے

اشاعت دین اور فروغ اسلام کے نہایت کم مدت میں مسلمانوں نے دنیا کے بیشتر ممالک کو نہ صرف فتح کرلیا بلکہ یورپی ممالک کے سرحدوں پربھی دستک دینے لگے ۔خلافت اول و دوم کے عہد میں اسلامی حکومت نے مقبوضہ ممالک کی ترقی نشو ونما و فروغ کا کام کیا بلکہ دنیا کے تمام علوم میں ایسی دست رس بہم پہنچائی کہ آج بھی دنیا ان کی ایجادات ،اختراع ،تحقیق اور تفتیشی کاموں سے فیض حاصل کررہی ہے ۔یہ وہ دور تھا جب مسلم علماءفقیہ ،سائنسداں،موجد ،ماہر طبیعات ،ماہر کیمیا اور طبیب حکمت میں نئی نئی ایجادات سے دنیا کو روشناس کرارہے تھے ۔یہی وہ دور تھا جب پوری یورپ جہالت اور لاعلمی کی سیاہ چادہ اوڑھے خواب غفلت میں تھا۔
۹ ویں صدی ہجری میں مسلمانوں کی حکومت میں بغداد ،قاہرہ اور کارڈوبا دنیا میں علم و دانش ،تجربہ و ایجاد ،اختراع ،تدوین ،تفتیش اور اعلی تعلیم کے لئے مشہور مقامات تھے جہاں سارے عالم اسلام سے طالب علم علم و ہنر کے حصول کے لئے یکجا ہورہے تھے ۔مسلمانوں کے خلیفہ کے زیر سر پرستی دنیا کے سارے علوم پر تحقیق و تفتیش کا کام جاری تھا۔ایجادات ،تجربات اور نئی نئی چیزوں کا اختراع ہو رہا تھا۔آج سے ہزار برس پہلے ان مقامات پر طب نے عملی طورپر وہ مقام حاصل کیا تھا جس کی آج کچھ نقالی کرکےے امریکہ مہذب اور ترقی یا فتہ ممالک میں سرفہرست ہے۔

اسلامی طبی علوم طلسمان اور دینی حدود سے باہر نکل کر سائنٹفک ریسرچ جدید ترین نظام اور اصولوں کو اختیار کررہے تھے۔ان طبی اداروں میں طب کی وہ جدید ترین سہولتیں فراہم کی گئی تھی جو آج کے سائنسی دور میں نہایت ترقی یا فتہ ممالک میں جذباتی طورپر اختیار کی گئی۔اعلی معیار کے اسپتالوں کی تعمیر ،کھلے روشن اور ہوا دار کمرے ،بڑے بڑے ہال،مختلف شعبوں میں ان کی تقسیم ،باہری مریضوں اور اندرونی مریضوں کے لئے ایک جدا نظام ،عورتوں کے لئے دواسازی کا الگ شعبہ ،تحقیق و تفتیش ،عرق سازی ،کثید و تقاطیر کے عمل کے لئے الگ شعبہ کا ہونا،جڑی بوٹیوں کے لئے بوٹانیکل گارڈن ،مریضوں کا ریکارڈ رکھنا،کیفیتوں کا اندراج اور خصوصی طورپر جراحی ،عمل جراحی ،اس کے آلات کی ایجاد اور مرہم سازی ودیگر بہت سارے نظام ایسے تھے جو مکمل طورپر دنیا کے کسی بھی ملک میں ان دنوں نہیں پائے جاتے ۔یہ بات حیر انگیز نہیں کہ جراحی ،علاج ،طب ،کیمیاگری،علم الابدان،نفسیاتی علاج،جسمانی امراض ،وائرس کی بیماریاں ،ان کا علاج ،کیشر،گیگرین ،وارم انخاع(مین جائی ٹیز)ٹی بی ،گردہ کی پتھری کا آپریشن ،آنکھ کے موتیا بند ،جالہ ،ماڑا و دیگر قسم کے آپریشنن وعلاج ان دنوں نہایت آسانی سے کئے جارہے تھے۔

جب پورا یورپ خصوصی طور پر لندن اور پیرس دھول اور کیچڑوں کا ڈھیر تھا تب بغداد،قاہرہ اور کارڈوبا کے اسپتالوں میں عورتوں اور مردوں کے لئے علیحدہ انتظام تھا۔بخار کے مریضوںکو ایسے کمروں میں رکھا جاتا جہاں جھرنوں اور فواروں سے ٹکر اکر سرد ہوا آتی ۔پاگلوں اور ذہنی و نفسیاتی امراض کے لئے شعبے جدا تھے۔مریضوں کو سکون کی خاطر کہا نیاں سنائی جاتی اور ہلکی موسیقی سے سکون فراہم کیا جاتا۔مریضوں کو اسپتال سے رخصت کے وقت رائج 5اشرفیاں دی جاتی ۔عورت نرس اور مرد تیمار دار مریضوں کی دیکھ ریکھ کے لئے ہوتے ۔ان اسپتالوں میں لائبریری ،کیمیا گری،دواسازی،تحقیق و تفتیش کے کام بھی کئے جاتے۔اسی زمانہ میں دیہی علاقوں میں علاج کے لئے اور معذور لوگوں کے علاج کے لئے سواری گاڑیوں پر متحرک اسپتالوں کا نظم تھا۔دواسازی کے اعلی معیار کے تحقیق کے لئے(ڈرگ کنٹرول)تفتیش کار (انسپیکٹر)مقرر کئے گئے تھے۔دواسازی (عطار)کرنے والوں کو حکومت کی طرف سے لائسنس دیاجاتا تھا۔طب کی تعلیم میں بھی مسلمانوں نے بیکٹیر یا لاجی،میڈیسن،اینتھیسیا سرجری،فارمیسی،روپ تھامولوجی،سائیکوتھیراپی،سائیکو سوماٹک جیسے امراض کی نہ صرف شناخت کی بلکہ ان کا علاج بھی کیا اور ان شعبوں کو ترقی کے بام عروج پر پہنچادیا۔

اسلامی حکومت حضور کے وصا ل کے صرف 80سال کے بعد مغرب میں اٹلاسٹک روشن سے مشرق میں چین تک پھیل چکا تھا۔اسپین میں اس نے 700سال تک حکومت کی ۔منگلولوں کے بربری قبضہ کے بعد بغداد کو (1258)میں جلاکر تمام کارناموں کو ختم کردیا گیا ۔اس طرح اسپین کی تہذیبی وراثت کو ڈھاکر ختم کردیا گیا۔لیکن اس کے باوجود بھی اسلامی حکومتوں نے 1000ہزار سال تک دنیا کے نہایت ترقی یافتہ اور مہذب ممالک کی حیثیت سے حکومت کی ۔اسی زمانہ میں یونانی طب حکمت و دیگر کتابوں کو یونانی سے عربی میں ترجمہ کیاگیا اور 10ویں صدی میں یہ کام دمشق ،قاہرہ اور بغداد میں بڑے پیمانہ پر کیاگیا اور اس طرح بغداد سائنسی علمی تحقیقی شہر کے حیثیت سے سارے دنیا میں نمایاں ہوکر ابھرا۔اسلامی ادویہ و طریقہ علاج اسلامی تہذیب کا منہ بولتا ثبوت ہے۔جو مسلم سائنسدانوں کا عظیم کارنامہ ہے اور آج بھی پورا یورپ ان کے علم سے فائدہ اٹھا رہاہے۔ کیمپ بل نے بہت اچھی بات کہی ”یورپین میڈیکل سسٹم بنیادی طورپر عربی ہے ۔عرب سائنسداں یورپین کے بہت قبل ذہین ترین لوگ رہے ہیں“۔

636ADمیں فارس کے شہر میں جندی شاپور میں مسلمانوں نے بڑ ی بڑی یونیورسٹی قائم کی تھی ۔جس میں اسپتال بھی شامل تھے۔بعد کے تمام اسلامی طبی کالج اسی بنیاد پر قائم کئے گئے ۔یہاں میڈیکل تعلیم نہایت اعلی درجہ کی اور سلسلہ وار تھی۔یہاں لیکچر اور تعلیم عملی طورپر ساتھ ساتھ دی جاتی ۔علی ابن العباس (494AD)کی یہ بات طالب علموں کے لئے آج بھی مشعل راہ ہے ۔انہوں نے میڈیکل طلبا سے کہا کہ انہیں مستقل طورپر اسپتال اور مریض گھروں میں جانا چاہئے ۔مریضوں کا خاص خیال رکھیں ۔ان کی کیفیت اور حالات کا جائزہ لیتے رہےں ۔مریضوں سے ان کے حالات دریافت کریں اور کیفیتوں کا علم حاصل کریں اور مقابلاتی جائزہ لیں کہ انہوں نے کیا سمجھا تھا اور حالات کیا ہیں۔رازی(841-926)نے طلباسے کہا کہ مریضوں کے کیفیت اور مرض جو انہوں نے پایا اس کے مابین فرق کا اندازہ لگائیں۔اس زمانہ میں رازی ۔ابن سینا(890-1037)اور ابن زہر(116AD)اسپتال کے نہ صرف ڈائریکٹر س تھے بلکہ میڈیکل کالج کے ڈین کے فرائض بھی انجام دے رہے تھے۔مریضوں کی معالجاتی رپورٹ لکھی جاتی اور طلبا کو عملی تعلیم دی جاتی ،اس کے لئے رجسٹر مین ٹین کیا جاتا۔اس زمانہ میں صرف جندی میں بنیا دی سائنس کی تعلیم کے کئی جدا ادارے تھے۔بغداد میں لنگور کے جسم کی تشریح کے ذریعہ علم الابدان کی تعلیم دی جارہی تھی۔علقمی کے تجرباتی کتابوں کا مطالعہ جڑی بوٹیوں ان کے خواص کے لئے اور دواسازی کے لئے لازمی تھا۔بہت سارے اسپتالوں میں جڑی بوٹیوں کے لئے پودے اگانے کاانتظام تھا۔اس سے طلبا کو شناخت کرانا اور مریضوں کے لئے دواتیار کرنا مقصود تھا۔اس ابتدائی تعلیم کے بعد میڈیکل کے طلبا کو تجربوں کے لئے اسپتالوں میں لے جایا جاتا تھا۔یہ طلبا ایک نوجوان طبیب کے ساتھ ایک جماعت کی شکل میں اسپتال کے ابتدائی اصول و ضوابط سیکھتے اور کتابوں و لائبریری لیکچر اور دستاویزوں سے فیض حاصل کرتے ۔اس ابتدائی مرحلہ میں زیادہ تر تعلیم دواسازی ،اس کا متبادل اور ٹوکسی کولوجی کے متعلق کی جاتی تھی۔
طبی تربیت:

اس تعلیمی دور میں طلبا کو چھوٹے جماعتوں میں تقسیم کرکے نہایت تجربہ کار معالج اور طبیب کے ساتھ رکھا جاتا جہاں ان کے ساتھھ یہ وارڈ کا دورہ کرنا،مباحثہ ،تقریر اور جائزہ لینا سیکھتے ،انہیں تھیرا پیوٹکس اور پیتھولوجی کی تعلیم اس دوران دی جاتی ۔جیسے جیسے طلبا کے اندر تعلیمی صلاحیت میں اضا فہ ہوتاجاتا ہے،انہیں مرض کی تشخیص اور فیصلہ لینے کی اجازت دی جاتی ۔مرض کا مشاہدہ اور جسمانی جانچ پر زور دیا جاتا ۔مریض کی حالت ،فضلہ،درد کا مقام اور فطرت ،سوجن اور جسمانی ساخت ،جلد کی رنگت ،احساس ،سرد گرم،نم خشک جلد کی حالت ،تھلتھلا بدن ،زردسفید آنکھیں (یرقان)پشت کے بل جھک سکتا ہے یا نہیں (پھیپھڑوں کا مرض)ان باتوں پر بھی دھیان دیا جاتا۔وارڈ کی عملی تعلیم و تربیت کے بعد طلبا کو باہری مریضوں کو دیکھنے یعنی ان کے علاج کے لئے آﺅٹ وارڈ میں کردیاجاتا ۔یہ تشخیص کی رپورٹ اپنے معلم کو دیتے ۔بحث کے بعد دوا تجویز کی جاتی ۔مریض زیادہ خطرناک حالت میں ہوتا تو اسے داخل کرلیا جاتا ۔ہرایک مریض کا جدا ریکارڈ رکھا جاتا۔
تعلیمی نصاب :

ہر ایک میڈیکل اسکول میںنصاب تعلیم جدا جدا تھا۔مرض کی علالت پر اور اس کی شناخت پر زور دیا جاتا۔ابن سینا نے سب سے پہلے دماغی نخاع یعنی مین جائیٹیز کی شناخت کی ۔اس کے قبل اسے انفیکشن اور دماغی بیماری (نفسیاتی)سمجھا جاتا تھا۔ابن سینا نے اس بیماری کی علالت اور کیفیت اتنی وضاحت سے کی ہے کہ آج ہزار سال کزرنے کے بعد بھی اس میں کوئی رد وبدل نہیں ہوا ہے۔نصاب میں سرجری کو بھی شامل کیا گیا تھا۔طلبا تحصیل علم طب کے بعد کچھ ماہرین کے زیر نگرانی علم جراحی کا تجربہ حاصل کرتے ۔کچھ طلبا حفظان صحت کے امور میں مہارت حاصل کرتے ۔بہت سارے جراحی کے عمل جیسے ختنہ ،ویری کوس رگوں کی سرجری اور ہیمیر ی ہائڈ کا عمل سیکھتے ۔ارتھو پیڈکس کی تعلیم عام تھی۔ہڈی کے ٹوٹنے اور اس کے جوڑنے کے عمل کے لئے پلاسٹر آف پیرس کا استعمال شروع کردیا گیاتھا۔اس عمل کو 1852میں یورپ میں پھر سے عمل میں لایا گیا۔آنکھوں کے موتیا بند کا آپریشن عام تھا۔بچوں کی پیدائش کا معاملہ مڈ وائیوز کے حوالے تھا۔ابن سینا اور رازی نے سائیکوتھیراپی کی پریکٹس کی ۔طب کی تعلیم و تربیت کے بعد پریکٹس کرنے کے لئے لائسنس کی ضرورت لازمی تھی۔اس کے لئے ایک امتحان میں کامیاب ہونا لازمی تھا۔ایک سائنٹفک ایسوسی ایشن مسایہ فریقین اسپتال میں قائم کیا گیا تھا۔جہاں مریضوں کے بیماری اور حالات پر تبادلہ خیال ہوتا۔

931ADمیں ایک مریض کے انتقال ہونے کے بعد خلیفہ المقتدر نے اپنے خصوصی شاہی حکیم سفیان بن ثابت بن قرہ کو اس بات کے لئے تعینات کیا کہ وہ تمام معالجوں کا امتحان لیں اور مریضوں کو شفایاب کرنے کی صلاحیت کی جانچ کرکےے انہیںلائسنس دیں۔صرف بغداد میں حکمت کرنے والے 860حکیموں کی اسی کے بعد تمام اسپتالوں میں لائسنس تجویز کرنے والے ایک بورڈ کی تشکیل کی گئی ۔محتسب جو انسپیکٹر جنرل ہوتاتھا وہ اس کا سربراہ ہوتا۔یہ دوائیوں کے وزن اور ان کے معیار کی جانچ بھی کرتا (Drug Inspecto)فرماسسٹ انسپیکٹر مقرر کئے گئے۔جو آج کے امریکہ میں فوڈ ایند ڈرگ ایڈ منسٹریشن کا (FDA)کام ہے۔یہ اسلامی مملکت میں ہزار سال قبل کیا گیا تھا۔اسی طرح مغرب میں اسلامی حکومت کے ہزار سال کے بعد میڈیکل پریکٹس کرنے والوں کو لائسنس دینے کا نظم کیا گیا اور امریکہ میں امریکن بورڈ آف میڈیکل اسپیشل لیٹیز اسی نہج پر قائم کیا گیاہے۔جہاں میڈیسن ،سرجری ،ریڈیولوجی ،وغیر ہ کے ایپشیلیٹی کا طریقہ رائج ہے ۔اس کے باوجود یہ اسلامی طریقہ سے تحصیل کردہ ہے ۔آج بھی ابن سینا کی طب پر مستند کتاب ”قانون “کو پڑھے بغیر میڈیکل تعلیم مکمل نہیں۔
اسپتال :

اسلامی مملکت میں اسپتالوں نے کافی عروج حاصل کیا تھا۔یہاں مفت علاج کی سہولت تھی۔یہ حکومت کے زیر نگرانی چلاکرتے تھے ۔ان اسپتالوں میں مرد اور خواتین کے لئے وارڈ علیحدہ تھے۔ہرایک وارڈ میں خواتین نرس اور خدمتگا ر مر د عورت تیمار داری کے لئے موجود ہوتے تھے۔بخار ،زخمم ،انفیکشنن،مائنیا،آنکھ کی بیماریاں ،سردی سے ہونے والے امراض،ڈائریا،خواتین کی پیچیدہ ایامی بیماریاں و زچہ تمام وارڈ جدا جدا تھے۔صحتیاب ہورہے مریضوں کے لئے وارڈ بالکل جدا تھا۔مریضوں کو تازہ ہوا اور تازہ پانی مہیا کرایا گیاتھا۔ان اسپتالوں میں اسپتال کی دیکھ ریکھ کی تربیت میڈیکل طلبا کو وہاں رکھ کر (بورڈنگ کا نظام )کیاجاتا۔اسپتالوں میں کانفرنس ہال ہوتے ،قیمتی لائبریریاں ہوتیں جہا ں جدید ترین کتابیں موجود ہوتیں ۔حددرار کے مطابق تولم اسپتال جو قاہرہ میں 872 میں قائم کیاگیا تھا وہاں کی لائبریری میں ایک لاکھ کتابیں تھیں(آج سے ہزار سال قبل)یونیورسٹی اور اسپتالوں کی لائبریریاں بہت بڑی ہوتی تھیں ۔جیسے بغداد میں مستنصریہ یونیورسٹی کی لائبریری میں کتابوںکی 80ہزار جلد یں تھیں ۔کارڈوبا کی لائبریری میں چھ لاکھ کتابیں تھیں۔قاہرہ کی لائبریری میں دولاکھ کتابیں اور تریبولی کی لائبریری میں تین لاکھ کتابیں موجود تھیں۔اس کے علاوہ ہرایک حکیمم اور طبیب کے پاس نجی کتابوں کے بڑے ذخیرے موجود تھے۔یہ حالات اس زمانہ میںتھے جب چھا پہ خانہ نہیں تھے اور کتابیں نہایت کاوش محنت اور مشقت سے ہاتھوں سے تحریر کئے جاتے تھے۔

دنیا کی تاریخ میں اسپتالوں کے مریضوں کا ریکارڈ رکھنے کا طریقہ ان اسپتالوں نے رائج کیا ۔باہری اور داخلی مریضوں میں طریقہ علاج میں کوئی تفریق نہیںتھا۔تل تلونی اسپتال میں جن مریضوں کو بھر تی کیا جاتا اسپتال انہیںاپنا لباس مہیا کراتا اور وقت رخصت انہیں ان کا لباس اور قیمتی سامان پانچ سونے کی اضافی اشرفیون کے ساتھ دیتا۔تاکہ وہ کچھ دنو خود کفل رہ سکے ۔دمشق میںکوڑھ کے مریضوں کے لئے ایک شفاخانہ قائم تھا جب کہ اس کے چھ صدی بعد بھی یورپ میں کوڑھ کے مریضوں کو شاہی حکم پر زندہ جلادیا جاتا تھا۔تیونس کے قیروان کے اسپتال میں (830AD)ہرایک مرض کے وارڈ علیحدہ تھے۔انتطار گاہ اور نرس جو سوڈان سے تعلق رکھتی تھیں (عربی تاریخ کا یہ اول قدم ہے جس نے عورتوں کے بطور نرس باضابطہ طورپر اس پیشہ میں روشناس کرایا )ان اسپتالوں میں عبادت کے لئے بھی سہولتیں موجود تھیں۔بغداد کا العدودی اسپتال(981AD)بہترین آلہ جات اور نظم کے لئے مشہور تھا۔یہاں طلباکے رہائش اور انٹرنل شپ کاانتظام تھا۔۴۲معالج علاج معالجہ میںمشغول تھے۔عباسی خلافت کے ایک وزیرعلی ابن سینا نے سب سے پہلے قیدیوںکے علاج کے لئے حکیموںکو وزٹ کرنے کی تلقین کی۔اس دور تک یورپ جہالت کی تاریکی میں ڈوباہواتھا۔جب کہ بغداد ،قاہرہ اور کارڈوبا اعلی قسم کے اسپتال اعلی ترین طبی تعلیم اور طب کے میدان میںانتہائی وسعتوںپرتھا۔یہاں وہ کارنامے انجام دئے گئے جو آج ہزارسال کے بعدبھی انتہائی جدید ہیں۔ان اسپتالوں میںانسانی ہمدردی کا بول بالا تھا۔ذہنی دماغی مریضوںکاعلاج نہایت محبت اور ہمدردی سے کیا جاتا ۔مریضوںکے آرام کا ہر ممکن خیال رکھاجاتا۔

اسپتالوں کو بیمارستان کے نام سے دوحصوںمیں تقسیم کیاگیا۔ایک تو بڑی عمارتوں میںقائم تھا ۔دوسرا متحرک اسپتال سواری کو جانوروںکے ذریعہ کھینچا جاتا تھا جس کے ذریعہ دور دراز کے دیہی علاقوںکے مریضوں کا علاج کیا جاتا جو چلنے پھرنے سے معذور تھے یا شدید بیمار ۔اسی قسم کے متحرک اسپتال فوج میں استعمال کئے جاتے ۔اس میں خیمہ روزار ،الاجات نرس ،اردلی اور ڈاکٹرس کی پوری ٹیم ہوتی ۔یہ وبا پھیل جانے کی صورت میں اور دوردراز علاقوں میں علاج کے لئے ہمہ وقت تیار رہتے۔
طب میں بیکٹیریا کی شناخت :

رازی نے بغداد میں اپنے قیام کے دوران بادشاہ کے حکم کے مطابق اسپتال کے لئے پرفضا مقام تلاش کرنے کے لئے سائنٹفک طریقہ اختیار کیا ۔انہوں نے گوشت کے بڑے بڑے ٹکرے شہر کے مختلف علاقوں میں ٹانگ دئےے۔دوتین دنوں کے بعد جس علاقہ کا گوشت سب سے کم خراب ہوا تھا اس علاقہ کو کم بیکٹیریا والا علاقہ قرار دے کر انہوں نے وہاں اسپتال قائم کئے۔ابن سینا نے سب سے پہلے بتایا کہ جسم سے نکلنے والی رطوبت زمین سے پیداہونے والی جراثیم سے متاثر ہوکر زہریلے مادے تیار کرتی ہےں۔ابن خطیمہ نے بتایا کہ انسان جراثیم سے ہروقت گھراہواہے اور یہ انسانی جسم میں داخل ہوکر انسان کو مریض بنادیتی ہیں۔۴۱ویں صدی کے وسط میں بلیک جسے کالی موت کے نام سے یاد کیا جاتاہے خدائی عتا ب کے طرح یورپ میں پھیلا ۔اس وقت میں ابن الخطیب (گراناڈا)نے جراثیم کے لئے کچھ مقامات کا تعین کیا اور کہا کہ اس کا ماخذاتحقیق و تفتیش و ثبوت و شواہد ہیں۔مریضوں کے جراثیم سے بیمار ہونے والے لو گ اس کا ثبوت ہیں۔جب کہ دور رہنے والے افراد محفوظ رہتے ہیں۔یہ جراثیم کپڑوں سے برتنوں سے اور ہوا سے منتقل ہوتے ہیں۔رازی نے چیچک کے متعلق سب سے پہلے تفصیل لکھی اور دو چیچک کا فرق و ان کا علاج تجویز کیا۔ابن سینا نے ٹی بی کے جراثیم کے منتقل ہونے کا نظریہ پیش کیا ۔انہوں نے سب سے پہلے زخموں کے علاج کے لئے شراب کا استعمال کیا ۔رازی نے زخموں کے لئے ریشمی ستور اور ہیمو اسٹیٹس کے لئے الکوحل کا استعمال کیا ۔اور اسے اینٹی ہیپٹک قرار دیا ۔
اینتھیسیا:

ابن سینا نے سب سے پہلے اینتھیسیا کو دوا کے طورپر استعمال کیا۔اور افیم کو طاقتور مخاضر (نشہ آور دوا)کے طورپر پیش کیا ۔اس سے کم طاقت کے نشہ کے لئے مینڈراگورا،پوستہ،ہیملوک،بھانگ،بیلا ڈونا،لیٹیوس سیڈ ،سرد پانی یا برف کا استعمال کیا جاتا ۔عرب طبیبوں نے سپوروفک اسپانچی کا استعمال سب سے پہلے کیا جو موجودہ اینتھیسیا کی ابتدائی شکل تھی۔اس پر ایرومیٹکس اور نارکوٹکس ڈال کر مریضوں کو سونگھایا جاتاتھا۔دراصل اس کا استعمال سرجری کی بڑھتی ہوئی قدروں کے تحت ترقی پذیر تھا۔اس زمانہ میں جب اسلامی ممالک سرجری کو ایک جدید ترین سائنس بتارہے تھے ،یورپ میں نشتر زنی کا کام حجام اور نیم حکیم کررہے تھے۔برٹن نے لکھا ہے کہ سرجری کے لئے اینتھیسیا کا استعمال مشرق میں صدیوں سے ہورہا تھا۔بہت بعد میں مغرب نے ایتھر اور کلوروفورم کا استعمال شروع کیا۔
سرجری :

رازی اول سائنس داں طبیب اور سرجنن ہے جس نے سرجری کے سیتور (وہ دھاگہ جسے جسم پر آپریشن کے بعد سلائی کی جاتی ہے)کی جگہ سیٹون اور تانت کا استعمال کیا ۔ابوالقاسم خلف بن عباس الزہراوی(930-1013AD)کو دنیا ئے اسلام کا اول موجد تسلیم کیا جاتا ہے جس نے 200سے زائد نشترزنی کے آلات ایجاد کئے ۔وہ خود بہت بڑے سرجن تھے ۔اپنی کتاب ’التصریف ‘میں میڈیکل کی تاریخ میں اول شخص کی حیثیت سے انہوں نے ہیموفیلیا کا تذکرہ کیا۔اسی کتا ب میں آلات جراحی کے استعمال کی وضاحت بھی کی ۔اس کتاب میں سرجری کے لئے علم الابدان (اناٹومی)کی تعلیم کو انہوں نے لازمی قرار دیا ۔ہمبرج سیلان خون کے لئے سب سے انہوں نے روئی کا استعما ل کیا جو ہڈی ٹوٹنے ،دانت نکالنے کے بعد اور پردہ¿ بکارت کے آپریشن یا زیادہ خون آنے کی صورت میں استعمال کیا گیا اور سب سے پہلی بار استعمال کیا گیا۔سرجری میں زہراوی نے گردہ کی پتھری نکالنے کے لئے پیشاب کے بلاڈر کے پاس آپریشن کرنے کی راہ دکھائی اور عورتوں کے لئے آپریشن کا مقا م لیتھو ٹومی کے پاس بتا یا ۔ویری کوس وینس کو بند کرنے کے لئے ان کی تفصیل آج بھی جدید تر سرجری معلوم ہوتی ہے۔ارتھو پیڈکس کے آپریشن کو انہوں نے رائج کیا۔ابن سینا کا کینسر کے لئے آپریشن کرنے کا اصول آج ہزار سال کے بعد بھی اتنا ہی اہم ہے ۔اسلامی سرجنوں نے تین طرح کی سرجری کو رائج کیا اور فروغ بھی دیا۔وسکولر ،جنرل اور ارتھوپیڈک۔پیٹ کا آپریشن عام تھا ۔آنکھوں کے تمام آپریشن کھلے عام با ٓسانی ہوتے تھے۔جگر کے پھوڑے کا علاج بنکچہ کے ذریعہ کیا جاتا تھا۔آج بھی سرجری کے آلات اور طریقہ کار وہی ہیں جو زہراوی نے ہزار سال پہلےے ایجاد کیا تھا۔دنیا کے اندر اس پرکم و بیش عمل ہورہاہے۔
دوائیاں،کیمیاسازی:

رازی و ہ اسلامی سائنسدان ہے جنہوں نے سب سے پہلے کئی مادہ کو ایک دوسرے سے جدا کیا اور ان کی تطہیر کی۔کئی کیمیاکو ایجاد کیا۔اس کے علاوہ تقطیر کیا اور کئی کیمیا کو بطوردوااستعمال کیا ۔پارہ کا بطور دوا بھی استعمال رازی ہی نے کیا اور پیشاب و مثانہ سے متعلق تمام بیماریوں کی دوائیں تجویز کی اور ان پر تحقیق کیا ۔ابن ظہر نے بہت ساری پیچیدہ بیماریوں کی تشخیص کی اور ان کا علاج تجویز کیا ۔اسی طرح الا شعث نے گیسٹرلی فیزیولوجی پر تحقیق کیا۔ابوشال المسیحی النفیس نے پلمونری سرکولیشن سے دنیا کو واقف کرایا۔
فارما کولوجی:

یوحنا بن مساویح (777-857AD)نے عالم اسلام میں سب سے پہلے عباسی خلیفہ کے زمانہ میںدوائیوں کے سائنٹفک استعمال اور سلسلہ وار استعمال کے متعلق تفصیل لکھی۔ان کے شاگر د حنین بن اسحاق العابدی نے اپنی کتاب المسائل حنین میں دوائیوں کی اثر انگیزی کی جانچ کا طریقہ بتایا۔خلیفہ المامون اور المحتشم کے زمانہ میں طب کی پریکٹس کے لئے امتحان پاس کرنا لازمی قرار پایا اور لائنسس کا استعمال شروع ہوا۔مرکبات مفرجات تقطیر تطہیر الکوحل سازی و ادویہ کی اعلی معیا ری ترکیبات رائج کی گئی ۔جس کے لئے موتی سونا مونگا عنبرمشک کاسیا املی آملہ مصبر لونگ ودیگر اشیاءکا استعمال بڑے پیمانہ پر کیا گیا۔ اس مقام پر فارماکولوجی کو ایک شعبہ کی حیثیت سے بڑے اور آزادانہ پیمانہ پر الگ قائم کیا جہاں جڑی بوٹیوں پر تحقیق کی جاتی ،ان کے خواص نکالے جاتے۔اور پینے کی دوائی تیار کی جاتی ۔گلاب کے عرق کشید کئے گئے۔سنترہ کے پھول سے رنگ او رلیموںو سنترہ کی خوشبو حاصل کی گئی۔
نفسیاتی علاج :

رازی اور ابن سینا نے سب سے پہلے ذہنی بیماریوں کے علاج کا سلسلہ شروع کیا ۔اس کے لئے جسمانی اور نفسیاتی حرکتوں کو رازی نے جسمانی نفسیاتی حرکتوں کی بنیاد پر علاج کا طریقہ نکالا ۔ اسی طرح سے گٹھیا ، لقوہ اور صدماتی فالج کا کامیاب نفسیاتی علاج کیا ۔رازی کے ہم عصر نجیب الدین محمد نے ذہنی بیماریوں کے کئی اقسام کی شناخت کی اور اس کی تفسیر لکھی انہوں نے ذہنی تناﺅ اور آکسیسس ، نےورو سس ، جنسی کمزوری جیسے امراض پر مکمل کتاب نفخئہ مالی خولیا اور قطریب ایک قسم کی مالی خولیا ہے اس تذکرہ بھی کیا ۔ساتھ میں دول قلب کی تفصیل بھی بیان کی ۔بن سینا نے جسمانی نفسیاتی امراض کو باہم ملاکر فروغ دیا ۔اور ان کی تشخیص جذباتی الجھن کے طور کی آٹھویں صدی میں مراقوکے فیص میں پاگل خانہ قائم کیا گیا عربوں نے بھی 750عیسوی میں قاہرہ ، دمشق اور ایلیپو میں پاگل خانے قائم کئے تھے ۔وہاں مریضوں کے لئے ہر طرح کی سہولیات فراہم کی گئی تھی ۔مریضوں کے ذہنی سکون کے لئے موسیقی کے ذریعہ علاج فراہم کیا جاتا تھا اس کے علاوہ ایکپوپیشنل تھیراپی کے لئے مریضوں کو گانا و موسیقی کے ذریعہ آرام پہنچایا جاتا نقالی مسخرہ پن اور ہسننی ہنسانے کے دوسرے پروگرام بھی پیش کئے جاتے ۔

ہزار سال قبل اسلامی اسپتال ان کی اعلیٰ معیار و اعلیٰ طریقہ کار وجود میں آچکے تھے ۔دوا سازی ، حکمت ،سرجری اور دیگر میدان میں نئی نئی ایجادات تحقیق و تفتیش کا کام عروج پر تھا ۔ بیماریوں کی تشخیص طریقہ علاج مرض ، وجوہات اس کے اسباب و عوامل پر غور فکر و تحقیق کے نتائج میں نئی نئی بیماریوں کا دریافت ہو چکا تھا ۔وائرس ، جراثیم ،اچھوت کی بیماریوں سے آگاہی ہو چکی تھی ۔سرجری اور نفسیاتی علاج کے وہ طریقہ اختیار کئے گئے تھے جنہوں نے بعد میں یوروپی ماہر نفسیات ، موجدوں ، سرجنوں اور معالجوں کی ہر قدم پر رہنمائی کی اور بنیاد کی صورت میں آج بھی ان کی افادیت برقرار ہے ۔

زیادہ آلو کھانے سے ذیابیطس کامرض لاحق ہو سکتاہے

طبی ماہرین نے آلو اور آلو کے چپس کے زیادہ استعمال کو سخت خطرہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ آلو کھانے سے ذیابیطس کا مرض لاحق ہو سکتا ہے۔ خواتین کو آلو کھانے سے ذیابیطس کا خطرہ زیادہ نوٹ کیا گیا ہے جبکہ مردوں میں نسبتاً کم ہاورڈ یونیورسٹی امریکہ میں ہونے والی ایک تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ آلو صحت مند غذا ہے مگر اس کے بہت زیادہ استعمال سے معدے اور جگر کے افعال میں گڑ بڑ ہو جاتی ہے جس سے ذیابیطس کے مرض کو پھیلنے کیلئے راہ ہموار ہو جاتی ہے۔ آلو میں موجود گلوکوز لبلبے کے افعال کومتاثر کرنے لگتی ہے جس سے ذیابیطس کا مرض باقاعدہ ہو جاتا ہے۔ اس تحقیق میں ۵۸ہزار آلو کے شائقین مردوں اور خواتین کا تجزیہ کیا گیا تھا۔ طبی ماہرین نے آلو کے چپس کو سب سے زیادہ خطر ناک قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ چپس کی شکل میں اس کے خطرات ۵۶فیصد تک چلے جاتے ہیں۔

مردانہ کمزوری کے علاج کا مکمل شادی کورس,only ,tag ,link ,page

مردانہ کمزوری کے علاج کا مکمل شادی کورس


Read More

No Comments مردوں،کے،امراض مخصوصہ،کیلیے، مختلف، دیسی، نسخہ جات , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , ,